روشن خیالی کی تحریک نے جدیدتModernism کے فلسفے کی روشنی میں مغربی انسان کو دوسرا بڑا ”تحفہ“جو دیا وہ جنسی
ہماری لبرل خواتین کو یہ گلہ رہتا ہے ، اور ان کی تان میں تان ملانے کا کام ہمارے بعض
فیمنزم کی بنیاد اس مفروضے پر قائم ہے کہ انسانیت کی تمام تر معلوم تاریخ میں مرد زور زبردستی عورت
درپیش سماجی مسائل پر پختہ فکر نقطۂ نظر باور کرانے یا حسب ضرورت جرآت مندانہ قدم اٹھانے سے ہم کافی
ہمارے ہاں اکثر یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ عورت آزاد کیوں نہیں ہے؟یہ سوال ایک ہمہ جہت جواب کا
ایک نئی زندگی کو وجود میں لانے کا خواب تو دونوں ہی دیکھتے ہیں۔ پھر اس ننھے فرشتے کی قلقاریوں
پچھلے دو تین برسوں سے پاکستان میں آزادئ نسواں اور خواتین کے حقوق کے نام پر سرکس لگا ہوا ہے،چند
‘ کھانا خود گرم کر لو ‘ یہ پوسٹر اٹھائے جب موم بتی خواتین کی حقوق کی جنگ لڑ رہی
مغرب زدہ این جی اوز کے ایجنڈوں کے بارے میں صرف اخبارنویس ہی نہیں، پڑھے لکھے لوگ سب جانتے ہیں۔
پچھلے چند دنوں سے لال لال لہرانے والے مردوزون کے ہجوم کے کچھ ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر گردش کر
سویرے جو کل برابری کی علمبردار اک بی بی کی آنکھ کھلی، تو “اپنا بستر تہہ کرو”، “اپنے کپڑے خود
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مساوات کی اصطلاح بھی فی نفسہ کوئی متعین معنی نہیں رکھتی۔دنیا میں دو انسان مساوی
-مغربی تہذیب کے بنیادی مراکز کا خصوصی مطالعہ(1)انگلینڈ:جدید مغربی تہذیب کا مولد اور اوّلین پیشوا انگلستان یا برطانیہ ہے۔ امریکہ
٭امریکی فوج میں جنسی زیادتی روز کامعمولدرج بالا سرخی کے تحت رپورٹ میں کہا گیا ہے: ”فوج کے اندر عورتوں
پاکستان میں جب بھی ریپ کا کوئی کیس سامنے آتا ہے تو “مغرب زدگان‘‘ مغرب کی جنسی تعلیم کو اس
آج پوری دنیا میں بے چینی، بے قراری، انتشار اور نفسیاتی عوارض روز افزوں ہیں۔ پوری دنیا جنگوں کا جہنم
معاشرتی زندگی کے مختلف دائروں میں کام کرنے والی خواتین کو مردوں کی طرف سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا
جدید ذرائع ابلاغ نے عورت کی تذلیل کو کلچر بنادیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جدید خواتین کی اکثریت کو
تحفظ نسواں بل میں پہلی خرابی یا مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان میں صرف عورتوں پر ظلم ہوتا ہے اور
خواتین کے استحصال اور ان پر ظلم وستم کو عموماً روایتی معاشرے کا ایک مظہر تصور کیا جاتا ہے۔ حقیقت
ابھی بھی وقت ہے، اپنا احتساب کرو، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے!دیکھیں! فیمنسٹوں کی طرف سے عورت مارچ
مرد عورت کے قانونی رشتے سے خاندان وجود میں آتا ہے، جو معاشرہ کی بنیادی اکائی اور نسلِ انسانی کی
تاریخ کا جبر کہیے یا عصر رواں کی ستم ظریفی،ملکی فضاء ان دنوں قابل صد نفرین، اخلاق باختہ اور حیا
خاندان کے ادارے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔مرد باہر جاکر کمائے اور عورت گھر چلائےعورت باہر جاکر کمائے اور مرد
مہذب نظام حیات ہوں یا معاشرے ہر دو میں کمزور طبقات کے لیے خصوصی رعایت رکھی جاتی ہے جیسے بزرگ
حیا دار رویے، حیا دار ملبوسات… سماج کا جبر! خواہ ’بعد ازاں‘ عورت اپنی مرضی سے ہی وہ کام کیوں
سماجی ڈھانچے کے نقطہ نظر سے شریعت کی تعلیمات معاشرے کی اکائی اور خاندان کے کردار پر زور دیتی ہیں۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ مسلمان معاشروں میں خاندانی نظام اب بھی بڑی حد تک محفوظ ہے۔ عورتوں، مردوں
فیمنزم میں اسلام کے نکتہ نظر سے “کچھ اجزاء غلط” نہیں سراسر متضاد ہیں اور انکو ماننے والا مسلمان نہیں