عورت آزاد کیوں نہیں ہے؟

ہمارے ہاں اکثر یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ عورت آزاد کیوں نہیں ہے؟
یہ سوال ایک ہمہ جہت جواب کا متقاضی ہے۔ فرد کی آزادی کے حوالے سے کوئی بھی بات، اجتماعیت کے تناظر کو نظر انداز کر کے نہیں کی جاسکتی۔ دوسرے لفظوں میں جس طرح ایک فرد ایک معاشرے کے اندر اپنا وجود رکھتا ہے، اسی طرح اس کا تصور آزادی بھی ایک معاشرتی تناظر کے اندر آپریٹ کرتا ہے۔ یوں مطلق آزادی کا تصور نہ فرد کی سطح پر پایا جاتا ہے نہ ہی معاشرے کی سطح پر۔ اس لحاظ سے ہر فرد، جنس کی تفریق سے قطع نظر، مطلق آزاد نہیں ہے۔ ہر فرد خاندان اور معاشرے کی اجتماعیت کے اندر اور اپنے کردار کی اہمیت اور نزاکت کے مطابق آزادی کا حامل ہے۔ اس سے زیادہ آزادی کا نہ تو وہ حقدار ہوسکتا ہے نہ ہی متحمل۔ بلکہ ایسی آزادی انارکی کا دوسرا نام ہے جس کا نتیجہ بدترین غلامی کے سوا کچھ نہیں۔
عورت کی آزادی کے حوالے سے بھی یہی پیچیدگی ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے اور اس معاملے میں عورت کوئی استتثنٰی نہیں۔ بلکہ مرد بھی (عورت ہی کی طرح) بہت سی حدود و قیود کا پابند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ طبعاً منہ زور اور فطرتاً طاقت ور ہونے کی وجہ سے ان حدود کو پامال کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتا ہے۔ خاندان اور معاشرے کی اجتماعیت کی ناگزیریت کے پیش نظر مرد اور عورت دونوں کچھ بندشوں میں بندھے ہیں۔ لہذا اس اجتماعیت میں رہتے ہوے کسی بھی فرد کو (بلا تحصیصِ جنس یہ اختیار نہیں سونپا جاسکتا کہ وہ انفرادی آزادی کے جملہ حقوق اپنے ہی حق میں اس طرح محفوظ کر لے کہ باقی تمام خاندانی اور سماجی سٹیک ہولڈرز irrelevant ہوجائیں۔
ایک باپ کی مثال لے لیجیے۔ وہ بھی بہت سے خاندانی معاملات سے متعلق فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہے۔ اس کی اپنی مرضی و منشا کے مطابق وصیت کی مطلق آزادی نہیں۔ اسی طرح ایک بھائی کی مثال لیں۔ وہ بھی خاندان کے معاملات طے کرنے میں مطلق آزاد نہیں۔ غرض یہ کہ ہر ہر رشتہ کچھ اخلاقی اور شرعی بندشوں میں بندھا ہوا ہے اور یہی بندشیں اجتماعیت کی بقا کی ضامن ہیں۔ اسی طرح ایک مرد کے خاندانی اور سماجی رویے (conduct) پر بھی کچھ بندشیں ہیں۔ یوں بہت سے معاملات کو آزادی و غلامی کے سیاہ و سفید کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مذہب ہماری معاشرت کو ایک معنویت بخشتا ہے اور ہر ہر فرد کو تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ باقی عورت کے حوالے سے بھی یہی بات اہم ہے کہ وہ (معاشرے کے کسی بھی دوسرے فرد کی طرح) چند بنیادی اخلاقی اور شرعی بندشوں کے علاوہ ایک وسیع آزادی کی حامل ہے۔ فقہہ حنفی کے مطابق وہ بغیر ولی کی اجازت کے نکاح تک کر سکتی ہے۔ اسے کاروبارکرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ علمی درسگاہوں سے لیکر میدان کارزار تک اس کا ایک رول ہے جس پر ہماری تاریخ شاہد ہے۔
بس جو شے پیش نظر رہنی چایے وہ یہ ہے کہ جس فرد کے فیصلے جس قدر دُور رس ہوں گے، اس کے لیے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا اتنا ہی ناگزیر ہوگا۔ یوں یہ سوال مذہبی سے زیادہ ایک اننظامی جہت کا حامل ہے۔ قرآن سے شادی، ونی اور سوار کی رسم، کاروکاری کا رواج، غیرت کے نام پر قتل، وغیرہ وہ قباحتیں ہیں جن کو دفن کرنے کے لیے اسلام کا ظہور ہوا۔ یہ رسمیں نہ صرف اسلام میں ناجائز ہیں بلکہ اس کی سپرٹ سے اور اس کے نظریۂ انسان سے متصادم ہیں۔
ڈاکٹر جمیل اصغر جامی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password