لبرل ازم
مغربی فرد کے اضطرار کی بنیاد گناہ سے آگاہی ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے انسان کو عبد پیدا کیا ہے
جس طرح ایک ملک میں ہر چند عشرے بعد آپ کچھ نئے سِکوں اور کرنسی نوٹوں کا اجراء دیکھتے ہیں؛
لبرل تحریک پر چند مضامین لکھنا پیش نظر تھا۔ ذیل کی سطور اِس سلسلہ کی تمہید ہے۔ سماجی تحریکوں کے
کسی عقیدے یا نظریے کو ہمیشہ اس کی کلیت totality کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ یہ بحث تو بےشک درست
لبرلزم کا مقابلہ اسلامِ مجمل سے اِس سلسلۂ مقالات میں ہماری کوشش ہو گی، ’’لبرلزم‘‘ کو زیربحث لانے کے دوران
پیچھے بیان ہو چکا، لبرلزم کی تعریفات میں جانا ایک نصابی عمل academic work ہے اور کچھ فلسفیانہ بحثوں کے
اسلام کے حلال و حرام عام آدمی کے کان میں ’’مولوی‘‘ کے خطبہ و وعظ سے پڑے ہوتے ہیں۔ صحیح
لبرلزم الحاد کی ایک خاص حد کو پہنچے بغیر ادھورا ہے۔ دونوں کے مابین سہولت کاری mutual facilitation معلوم واقعہ
لبرل اخلاقیات کے جو اصول پائے جاتے ہیں ان میں ایک بنیادی اصول ہوتا ہے جسے “کونسنٹ” (consent) کہا جاتا
آزادی کا معنی لامحدود خواہشات کی کثرت اور انکی جستجو ہے۔ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سرمایہ ہے، علم معاشیات
اشراکیت اور قوم پرستی کی طرح لبرل ازم کا بنیادی عقیدہ بھی لاالٰہ الا الانسان ہے۔ لبرل ازم کا الٰہ
لبرل (انفرادیت پسندانہ) فلاسفی کو اعلی ترین سطح پر علم معاشیات کے مختلف نظریات میں تھیورائز کیا گیا ہے جن
’’گلوبلائزیشن‘‘ کا اپنے اِس تیز ترین مرحلہ میں داخل ہونا، جہاں وہ ایک منہ زور ثقافتی ریلے کی صورت دھار
ہالی ووڈ اداکارہ لنڈسے لوہن نے حال ہی میں ترکی کے شہر ”عینتاب“ میں شامی پناہ گزینوں کے ایک
سیکولر طبقہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے یہ بات مشہور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں
زیرِ نظر مضمون کے اس حصے میں ہم درج ذیل جملوں کی تنقیح کرنے کی کوشش کریں گے۔1) اسلام فرد
ہندو مت کے متعلق عام طور پر مشہور کیا گیا ہے کہ اس کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے، بس
ہمارے یہاں ایک ٹویٹ ہوا تھا:”مغربی ممالک واقعتاً کسی مذہب کے داخلی معاملات میں دخل نہیں دیتے سوائے اسلام کے۔
مشرقی اور خاص کر مسلم دنیا کے تناظر میں لبرلزم کی دو اقسام ہیں:ایک، ‘باہر کا بنا ہوا، اصلی’۔دوسرا، ‘یہاں
دینِ“ لبرل ازم (1) کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ ایک انسان کا زندگی، آزادی اور جائیداد پر فطری
جب ہمارا لبرل طبقہ انگریزی اخبارات سے ٹی وی چینلز تک جہاں جہاں انہیں قوت حاصل ہے رائٹ ونگ کا
آج کل جدت پسندی کی ایک نئی رو چلی ہے… کہ مولویوں پر الزام لگایا جائے کہ وہ خواہ مخواہ
ایک اردو نظم سوشل میڈیا پر اڑتی اڑاتی، ہماری سماعت تک پہنچی بعنوان ’ہاں تو کافر‘۔ ہمارے کچھ دین پسند
دین میں طعن کر لو، جیسے مرضی دین کے ثوابت اور محکمات پر کیچڑ اچھال لو، جیسے چاہو یہاں تک
دسمبر2, 2019 کو برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں دنیا کی پہلی “ڈی-ٹرانسژن” کانفرنس منعقد ہوئی جسے ٹویٹر پر براہ راست
انسان کا مقصد حیات کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو انسانی فطرت نے ہمیشہ اٹھایا ہے، اور جب بھی
ایک بھائی نے کہا ہے کہ مغرب میں عورت کے استحصال سے متعلق کوئی تحریر لکھنی چاہیے تاکہ ان لوگوں
لبرل طبقے کے دوہرے معیارات (ڈاکٹر ھود بھائی کا مضحکہ خیز تضاد ) لبرل مسلم متحد دین ہمیشہ اس امر
کیا حجاب پر پابندی لبرل اصولوں کی خلاف ورزی ہے؟کلاس میں طلباء کے ساتھ نیوکلاسیکل اکنامکس کے اس پہلو پر
۔ ۔ ہماری نوجوان نسل (خصوصا جامعات میں پڑھنے والے بچوں و بچیوں) کو نجانے کس ”دانشور“ نے یہ غلط