لبرل کا تنازعہ کس سے؟ [جدت پسندوں کو دعوتِ اتحاد]

لبرلزم کا مقابلہ اسلامِ مجمل سے

اِس سلسلۂ مقالات میں ہماری کوشش ہو گی، ’’لبرلزم‘‘ کو زیربحث لانے کے دوران ’’اسلام‘‘ کے حوالے سے وہ بیان ہو جو اہل سنت تو اہل سنت، بہت سے بدعتی طبقوں کے ہاں بھی متنازعہ نہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ بدعتی ٹولوں کا اسلام ہمارے ہاں کسی درجے میں قابلِ قبول یا لائقِ ترویج ہے۔ معاذاللہ۔ بلکہ یہ واضح کرنے کےلیے کہ اِس نئے اژدہا (لبرلزم) کے مقابلے پر ہمارے ان بدعتی ٹولوں تک کو اصولاً ہمارے ہی ساتھ کھڑا ہونا چاہئے، نہ کہ اُس کے ساتھ؛ بشرطیکہ یہ اپنے نظریات و عقائد ہی میں کچھ سچے ہوں۔ ہمیں یقین بھی ہے، اِس اژدہا کی حقیقت معلوم ہونے پر ایسے بہت سے ٹولے اس کا سر کچلنا چاہیں گے (اور ان شاءاللہ اس پر خدا سے اجر پائیں گے)۔ دین اور ملت کےلیے یہ سبھی طبقے ایک اخلاص رکھتے ہیں۔ اور یہ وہ وقت ہے، نیز یہ وہ دشمن ہے، کہ اس کو عالم اسلام سے باہر کر آنے کےلیے سب کو ہتھیار سونتنے ہیں۔ خود ہمیں چاہئے اِس موقع پر، اور اِس دشمن کے مقابلہ پر، ایسا ہی ایک وسیع تر محاذ تشکیل دیں۔ اصولِ سنت میں نہ صرف اس کی گنجائش ہے، بلکہ اس کی جانب نہایت واضح اور زوردار راہنمائی موجود ہے۔

ہمارے اس بیان سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ کچھ نئی ’اسلامی‘ آوازوں کی حقیقت خود ان کے پیروکاروں پر واضح ہو گی جن کی قیادتوں نے اپنا پورا وزن اِس وقت لبرلزم کے پلڑے میں ڈال رکھا ہے اور اپنی تمام قوتِ بیان دانستہ یا نادانستہ اِس وقت لبرلزم کو مسلم معاشروں میں پیش قدمی کروانے اور اس کے راستے میں مزاحم اسلامی قوتوں کی بیخ کنی پر جھونک رکھی ہے۔ خود ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے، یہ اژدہا یہاں کسی سُنی تو کیا کسی بدعتی ٹولے تک کو نہیں چھوڑنے کا۔ وہ ایک ایک کر کے اِن سب کو نگلے گا۔ بلکہ مسلمانوں کے بدعتی تورہے ایک طرف، وہ کسی روایت پسند عیسائی یا یہودی کو نہیں چھوڑنے کا۔ یہاں تو ہندو اور سکھ کھائے جانےوالے ہیں۔ اِس اَربنائزنگ ‘urbanizing’ کے کرشمے رفتہ رفتہ سبھی دیکھیں گے! بلکہ دیکھ سکتے ہیں!بلاشبہ یہ ایسا ہی ایک عفریت ہے۔ پس وہ حضرات جواُس کے نوالے آسان کرکرکے اُس کو پیش کرنے میں ہمہ تن مصروف اپنی قسمت پر نازاں ہیں، خاطر جمع رکھیں۔ اِن سب کی باری آنے والی ہے؛ اور وہ بڑی ٹھنڈی کر کے کھانے کا قائل ہے! ہمارا کوئی جدت پسند سے جدت پسند ٹولہ بھی اس لبرلسٹ مائنڈ سیٹ liberalist mind-set کو (اِن دا لانگ رن in the long run ) قبول نہیں، کاش یہ سب اس کا ادراک کر لیں اور اُس کی جانب سے ملنے والی ایک وقتی پزیرائی پر اس قدر فریفتہ نہ ہوں۔

حالیہ لبرلسٹ یلغار کے مقابلے پر اسلام کا وہ بیان جو بہت سے بدعتی طبقوں کے ہاں بھی متنازعہ نہیں؛ اس سے ہم اپنی مراد واضح کرتے چلیں…

مثال کے طور پر یہ ضروری نہیں کہ اِس لبرل طوفان کی سنگینی بیان کرنے اور اس کی تباہ ناکیوں سے متعلق آپکی آنکھیں کھولنے کےلیے ہم آپکو یہ بتائیں کہ زناپراسلام میں بتائی گئی ’’رجم‘‘ کی سزا اس وقت خطرے میں ہے۔ ہمارے کچھ منحرف ٹولے ’’رجم‘‘ پر بےشک متفق نہیں رہے ہیں؛ اور اس پر ہم ان کو بہت کچھ کہہ چکے اور ان کے بطلان پر صدیوں سے بہت کچھ لکھ آئے ہیں۔ وہ سب بلاشبہ حق ہے۔ اب یہ ’’رجم‘‘ ہمارے یہاں کتنا ہی متواتر اور اجماعی کیوں نہ ہو، مسئلۂ درپیش پھر بھی اس سے بہت آگے ہے۔ وہ بحثیں تھیں جب کم از کم اسلامی سزاؤں کا کوئی تصور تھا۔ یہاں تو صاف زندقہ (heresy) ہے۔ یہاں تو ایک منحرف سے منحرف مسلمان کا، سوائے اِس زندقہ کے مقابلے پر اٹھ کھڑا ہونے کے، کوئی موقف بنتا ہی نہیں۔ اور جو ظالم یہاں پر دشمن کی صف میں جا کھڑا ہوتا اور اُس کا دست و بازو ہو جاتا ہے، اُس کے ساتھ ’’رَجم‘‘ یا ’’جَلد‘‘ کی بحثیں چہ معنیٰ؟ اس کا تو اصل چہرہ یوں واضح ہونا چاہئے کہ یہ اپنے اُس اسلام کے دعویٰ میں بھی، جسے یہ خود اپنی زبان سے مانتا ہے، سچا نہیں۔ یہ تو ایک ایسے برہنہ کفر کا مددگار ہے جس کا کفر اور الحاد ہونا جملہ اہل اسلام کے قول کی رُو سے مسلّم ہے۔

لبرلزم وہ بلا تھوڑی ہے جو آپ کے ہاں محض کسی ’’رجم‘‘ کو ختم کروا جائے گی سو ’’رجم‘‘ کے مخالفین مسلمانوں کی فقہ میں ’اِتنی سی‘ ترمیم کروانے کےلیے اِس کو ایک نایاب موقع کے طور پر لیں! یہ تو وہ آفت ہے جو ’’زنا‘‘ نامی جرم پر اسلام میں بتائی گئی کسی بھی پاداش کو ختم کروانے آئی ہے۔ صرف ختم کروانے نہیں _ کیونکہ یہ کام ’’سیکولرزم‘‘ کب کا کرچکا _ ’’لبرلزم‘‘ کا کام تواب یہ ہے کہ فحش و بےحیائی ایسا کوئی ’فطری شوق‘ پورا کر لینے پر حضرتِ انسان کی کوڑوں سے تواضع کر ڈالنے کے تصور کو ہی، بلکہ کوڑے ہی کیا، اس حرکت پر کسی بھی قسم کی سزا دینے کے تصور کو، بلکہ سرے سے ایسی کوئی قدغن روا رکھنے کو ہی ایک قطعی لغو اور بیہودہ بات قرار دلوائے؛ اور انسان جو چاہے سو کرنے میں آزاد ہوایسے ’عقیدۂ حق‘ کے منافی ٹھہرائے۔ مزید براں؛ یہ فحش و بےحیائی پر سزاؤں اور قدغنوں کو صرف ایوانوں سے بےدخل نہ کرے _ کیونکہ یہ کام ’’سیکولرزم‘‘ کا ہے _ بلکہ ذہنوں اور رویّوں کے اندر ہی ان اشیاء کے لغو اور بیہودہ ہونے کا تصور جاگزیں کرائے۔

بلکہ سزائیں اور قدغنیں تو دور کی بات… انسان کے ایسے کسی ’شوق‘ کے آڑے آنا ہی ایک فرسودہ اور غیرمہذب رویہ قرار دلوائے۔ ’’لبرلزم‘‘ اس بلا کا نام ہے۔

مزید مثالیں:

اس معاصر زندقہ کے مقابلے پر اسلام کے بیان میں ہم ’جہادِ طلب‘ یا ’مرتد کی سزا‘کا بیان نہ بھی کریں تو ہمارا کام چل جاتا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ہجومی جہاد یا مرتد کی سزا کو ہم ناحق جانتے ہیں۔ معاذاللہ۔ بلکہ اس وجہ سے کہ کافر حملہ آور افواج کی دھماچوکڑی کے نیچے کراہتے حاضر عالم اسلام میں نہ دُوردُور تک اس بات کا امکان ہے اور نہ کوئی امیرالمومنین یہاں مستعد بیٹھا ہے کہ بس آپ کے فتویٰ دینے کی دیر ہے وہ اسلام سے تصادم رکھنے والے کسی ملک کے خلاف اعلانِ جہاد کر ڈالے گا! یہاں تو کوئی اسلامی ملک ان کافر ممالک کو اسلام کی خالی دعوت دینے پر آمادہ نہیں۔ بلکہ ’’اسلام کی دعوت‘‘ دینے کےتصور کا روادار نہیں ہے۔ ہم تو خوشی سے باغ باغ ہو جائیں اگر یہاں کا کوئی مسلم ملک دنیا کے کسی غیرمسلم ملک کو ’’اسلام کی دعوت‘‘ دینے اٹھ کھڑا ہو! جی ہاں خالی ’دعوت‘ جوکہ ’’جہاد‘‘ وغیرہ ایسے کسی بھی مبحث کے کھلنے سے بہت پہلے ہواکرتی ہے! یہ تو سارا فنامنا phenomenon ہی اور ہے حضرات! یہاں اِن بحثوں کو لے بیٹھنے کا فائدہ؟ اسے تو اسلام کے ڈھب پر لانے پر ہی ابھی بہت کام باقی ہے؛ لہٰذا ’’جہادِ طلب‘‘ کے تقاضے ابھی ہم نہ بھی لے کر بیٹھیں تو ہمارا گزارہ ہوتا ہے۔ یہاں تو ہم اپنے ان منکرینِ جہاد طبقوں کو جو ’دعوت دعوت‘ الاپتے ہیں، (اور تاثر دیتے ہیں گویا یہ تو دعوت کے محاذ پر سرگرم ہیں!)… ہماِن ’دعوت‘ کے قائل طبقوں کو دعوت دیں گے کہ آئیے مل کر تحریک اٹھاتے ہیں کہ ہمارے یہ ملک داخلی سطح پر جہادِ دفاع پر ہی کچھ مؤثر قدم اٹھائیں اور خارجی سطح پر غیرمسلم ملکوں کو اسلام کی دعوت دیں؛ اگر یہ طبقے خود اپنے قول میں سچے ہیں)!

نیز مرتد کو سزا دینے کو فی الحال یہاں کوئی جلاد تیار کھڑا ہوا نہیں ہے! بلکہ شریعت کے نفاذ کو ہی سرے سے یہاں کوئی توجہ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہاں ایسی بحثیں اٹھنے دینا کہ ملک میں شریعت آجانے کا مطلب ہی گویا یہ ہے کہ ملک میں ہر طرف مرتدین کےلیے ٹکٹکیاں اور پھانسی گھاٹ کھل جانے والے ہیں، ہمارے اس پورے کیس کی غلط تصویر بنانے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ لبرلزم کا کام آسان کرنے والے ’مذہبی‘ طبقے اِس وقت ’مرتد کی سزا‘ وغیرہ کا مسئلہ اٹھا کر دراصل شریعت کے اُس بہت بڑے حصے کو ہی کھوہ کھاتے ڈالنا چاہتے ہیں جس پر خود ان کو بھی اصولاً کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں فی الوقت اُس شریعت کےلیے ہی آواز اٹھا لیتے ہیں جس پر امت کے کسی منحرف سے منحرف ٹولے کو بھی اعتراض نہیں؛ اور چلیے لبرلزم کو وہیں پر شکست دے لیتے ہیں۔ یہ سب بحثیں ہم بعد میں کسی وقت کر لیں گے جب یہ زندیق ہماری جان چھوڑ جائے۔ اُس دن تم جیتو یاہم، کم از کم اِس زندیق کی ہم سب پر جیت پا لینے کے مقابلے پر یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ دیکھو یہ کس قدر مناسب بات ہے۔ لیکن شریعت کے اُن جوانب کےلیے تو فی الوقت ہرگز کوئی آواز نہ اٹھانا جن میں ہمارا تمہارا کوئی اختلاف نہیں بلکہ کسی بھی مسلمان کا کوئی اختلاف نہیں؛ البتہ عین اس موقع پر یہ بحثیں لے کر بیٹھ جانا کہ مرتد کی سزا کیا ہونی چاہئے اور ہجومی جہاد کا کیا حکم ہے، اور ان باتوں کا فیصلہ آج ابھی چاہنا جب کوئی مرتد کی سزا دینے یا اعلانِ جہاد کرنے کو یہاں بیٹھا ہوا ہی نہیں ہے اور جبکہ لبرلزم کا کفر جس کی زد پر پورا اسلام ہے یہاں اودھم مچا رہا اور ’جو نقشِ کہن نظر آئے مٹا‘ رہا ہے… یہ دراصل یہاں لبرلزم کی پیش قدمی کو آسان کرنا ہے۔ [1] ان چند ’متنازعہ‘ بحثوں کا ’خوبصورت نتیجہ‘ یہ ہو گا کہ شریعت کے وہ جوانب بھی پس پشت ڈالے جائیں جو سرے سے متنازعہ نہیں؛ جبکہ لبرلزم کا نشانہ سب سے بڑھ کر اسلام کے وہی پہلو ہیں جن پر آج تک مسلمانوں کا کوئی اختلاف نہیں ہوا۔

ہم علیٰ وجہ البصیرت کہتے ہیں، لبرل ارتداد کے خلاف ہمارے جو طبقے یہاں محاذ اٹھائیں گے انہیں یہ سٹرٹیجی اختیار کیے بغیر چارہ نہ ہوگا۔

اِس لبرلزم کے محاذ پر ضرورت بھی ہے اور امکان بھی کہ جدت پسندوں کے تعمیری ذہنوں سے لے کر روایت پسندوں کے سمجھدار طبقوں تک سبھی مل کر، اور اپنا تمام تر اختلاف یا تنوع برقرار رکھتے ہوئے، قوم کو اٹھائیں اور کم از کم اس درندے کو عالم اسلام سے باہر کر آنے پر یک آواز ہوں۔ پوری قوم کو اٹھائے بغیر… درندے کے مقابلے پر پوری قوم کو سراپا مزاحمت بنائے بغیر … تاریخِ انسانی کی اِس بدترین آفت سے جان چھڑانا ممکن نہیں۔

اسی بات کو ہم یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ علمی حلقوں میں خواہ آپ جو بھی موضوعات اٹھائیں اور کیسے بھی علمی یا فقہی مواقف اختیار کریں، عوامی سطح پر، اور دعوت کے میدان میں، [2] اس وقت لوگوں کو ’’مجمل اسلام‘‘ [3] پر یک آواز کرا دینا اور ’’کفر سے مجمل براءت‘‘ کے لہجے اختیار کروا دینا ہی ضروری ہے۔ یہ کام کیے بغیر اس عفریت سے نبردآزما ہونا جو ہمارے دماغوں کو تیزی کے ساتھ نگل رہا ہے، ناممکن ہے۔ یہاں قوم کو یک آواز کرنے والوں کو پہاڑ ایسا حوصلہ درکار ہو گا۔

ہاں اگر ’’اسلام سے مجمل وابستگی‘‘ اور ’’کفر سے مجمل براءت‘‘ کے لہجے عام کردینے پر آپ کا اتفاق ہو جاتا ہے، اور عملاً بھی ایسے لہجے نشر کر لینے میں آپ کے یہاں کچھ پیش رفت کر لی جاتی ہے… تو پھر وہ تمام لوگ جنہیں امت لبرل کیمپ میں کھڑا دیکھتی ہے، امت کے علماء اور صلحاء کو انہیں امت کے ہاں اچھوت بنا دینے تک چلا جانا چاہئے۔ یہ جنگ ہر ہر معنیٰ میں اسلام اور کفر کی جنگ ہے۔ بلکہ یہ چیز جو ہمیں لبرلسٹ یلغار کے مقابلے پر درپیش ہے، ایسی جنگ سوائے ابتدائے اسلام کے ہمیں آج تک لڑنا نہیں پڑی۔


[1] خود ہمارے داعیانِ شریعت کو چاہئے کہ وہ اس بات کا ادراک کریں ۔ یہاں کوئی شریعت نافذ کرنے کےلیے نہیں بیٹھا ہوا۔ ہاں شریعت کے بعض مسائل پر ہماری اور جدت پسندوں کی چونچیں لڑانا یہاں کے خرانٹ طبقوں کا ایک واضح مقصد ضرور ہوتا ہے۔ اِس پورے عمل کے پیچھے ظاہر ہے شریعت لانا نہیں بلکہ شریعت سے جان چھڑوانا ہوتا ہے۔

[2] ایقاظ چونکہ کوئی عوامی مجلہ نہیں، اس لیے یہاں پر کچھ علمی موضوعات ہمارے زیربحث آجاتے ہیں۔ البتہ عوام میں اترتے وقت ہم بالکل ایک اور منہج سامنے لانا چاہیں گے؛ یہاں اس کا بیان ہے۔

[3] اسلام سے ’’مجمل وابستگی‘‘ اور کفر سے ’’مجمل براءت‘‘۔ امت کی زندگی میں بڑے بڑے بحرانوں کے وقت اختیار کروایا جانے والا منہج۔ شیخ صلاح الصاوی﷿ نے اس کی نہایت خوب تاصیل کی ہے۔ اس کی کچھ وضاحت ایک الگ مضمون میں دی جا رہی ہے .۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password