لبرلزم پر نری کتابی معلومات ؟!

لبرل تحریک پر چند مضامین لکھنا پیش نظر تھا۔ ذیل کی سطور اِس سلسلہ کی تمہید ہے۔

سماجی تحریکوں کے معاملہ میں ’انسائیکلوپیڈیائی معلومات‘ ایک حد تک ہی مفید ہیں۔ ایک چیز اگر نری فکر ہے پھر تو حرج نہیں کہ اس پر کچھ کتابی اشیاء ہی آپ کا بڑا سہارا ہوں۔ ’بریٹانیکا‘ وغیرہ میں جو آیا اغلباً وہی اس کی حقیقت ہو گی۔ اس کے تاریخی یا فلسفی حوالے اس صورت میں آپ کو بسہولت کفایت کریں گے۔ تاہم جیسے ہی وہ فکر ایک تحریک یا مسلک میں ڈھلے گی ’کتاب‘ اور ’واقع‘ کے مابین فرق آنے لگے گا، جو وقت گزرنے کے ساتھ، خصوصاً اس تحریک کو درپیش نئے میدان اور نئے حریف سامنے آنے کے ساتھ، بڑھنے اور پیچیدہ ہونے کی صلاحیت رکھے گا۔

اس قاعدے سے اگر کسی کو استثناء مل سکتی تو وہ ہماری اسلامی تحریکیں تھیں جن کا مرجع ’’قرآن مجید‘‘ ایک نہایت محکم دستاویز ہے اور جس سے اِن کی وابستگی کا یہ عالم کہ اس کے زیر زبر تک سے استدلال ہوتا ہے اور ایک ایک حرف میں اس کی پابندی۔ اس کے باوجود ہم کسی اسلامی تحریک یا مسلک کے متعلق اپنی رائے قائم کرنے کےلیے صرف ’’قرآن‘‘ سے رجوع نہیں کرتے! بلکہ اس کےلیے ضروری سمجھتے ہیں کہ خود اس جماعت کی سوچ اور عمل کا ہی کچھ تجزیہ کریں۔ پھر اگر اس کے وجود پر ایک زمانہ بیت گیا ہو تو اس پر قدیم میں ہو چکی باتوں پر بھی اکتفا نہ کریں بلکہ اس میں رونما تبدیلیوں developments کا الگ سے ایک جائزہ لیں۔ کوئی کہے کہ ایک جماعت اپنا تمام داعیہ inspiration یا دلیل evidence جب قرآن سے لیتی ہے تو پھر قرآن ہی کو چیک کر لو اور اس سے جو جو کچھ ثابت ہو، وہی خودبخود اُس جماعت کا نظریہ اور طرزِعمل ہو گا.. تو ظاہر ہے آپ اس سے اتفاق نہیں کریں گے! وجہ وہی۔ ایک انسانی ٹولہ محض کسی عبارت یا متن کا نام نہیں، بلکہ وہ ایک نامیاتی مخلوق ہے جس پر موسم، حالات، آب و ہوا، سب چیزیں اثر کرتی ہیں۔ خصوصاً اگر آپ اُسے ایک سرد برفانی خطے سے اٹھا ایک شدید گرم استوائی خطے میں ’ٹرانس پلانٹ‘ کر لائے ہوں، یا اس کے برعکس، پھر تو وہ بےپناہ تبدیلیوں سے گزرتی اور اپنا پھل دینے میں قابل لحاظ حد تک مختلف ہو سکتی ہے۔ پیوند grafting اور تقلّب mutation ایسے واقعات الگ، جو تحریکوں اور مسلکوں میں غیرمحسوس رہتے مگر تسلسل سے چلتے ہیں۔

چنانچہ قرآن ایسی ایک محکم (تِبۡیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ) کتاب کو اپنا ریفرنس ماننے والی انسانی جماعتوں کے بارے میں اگر یہ ضروری ہے کہ ان کے ریفرنس سے ہٹ کر بھی کچھ ان کے فکر و عمل کا جائزہ لیا جائے… تو وہ سماجی تحریکیں تو بالاولیٰ اس کی ضرورتمند ہوئیں جو اپنے عقیدہ و عمل کےلیے کوئی ایسی مخصوص کتاب a specific text book ہی سرے سے نہیں رکھتیں۔

لبرلز کے متعلق مزید یہ کہ ہمارے ماحول میں یہ اپنی کچھ ایسی نمائندہ قیادتیں بھی نہیں رکھتے جو ان کے مواقف پر حوالہ ہوں۔ جس سے، سننے پڑھنے والے کم از کم اس روشنی میں آ جائیں کہ لبرلزم کا مُدعا بس اس پوائنٹ سے اس پوائنٹ تک ہے، اس سے بڑھ کر اگر کوئی بات ہے تو اس کا ذمہ دار ہرگز ہرگز لبرلزم نہیں بلکہ اس کے ذمہ دار کچھ اور ہوں گے (مانند لبرٹینزم libertinism ، یا ہوموسیکسویلٹی homosexuality ، یا ایتھزم atheism یا اگناسٹسزم agnosticism وغیرہ) جن سے لبرلز کا کچھ لینا دینا نہیں۔ اس کے برعکس، مختلف اہداف رکھنے والے لوگ یا پھر ادارے خصوصاً این جی اوز یہاں ’حسبِ توفیق‘ لبرلزم کی خدمت کر رہے ہیں۔ البتہ لبرلزم ایک باقاعدہ دعوت کے طور پر یہاں اپنا راستہ بناتا اور ایک ’بیانیہ‘ چھاپتا آ رہا ہے۔ اس تحریک سے وابستہ سبھی ذہن ظاہر ہے ایک سی سطح یا پس منظر کے نہیں۔ دین سے دوری میں بھی یہ سب یکساں نہیں۔ نتیجتاً؛ پبلک میں لبرلزم کی تعبیر کے حوالے سے کچھ الجھاؤ پائے جاتے ہیں۔ گو اس کے فوائد بھی ہیں جن میں سے ایک: ’کیموفلاج‘ camouflage ؛ یعنی وقت اور موقع کی رعایت سے جس چیز کو چاہو اون own کرو اور جس چیز سے چاہو لاتعلقی کردو، یہاں تک کہ ایک مذہبی طبقے کو اپنا گاہک بنا رکھو!

مرید برآں، ہمارے ملک میں اس وقت جو لبرل تحریک ہے وہ اپنی اَفرادی قوت کے لحاظ سے کوئی یکدم وارد نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بہت سے اجزاء کل کے ’ترقی پسندوں‘ پر ہی مشتمل ہیں۔ خدا کا کرنا، وہ مشرقی ’پرولتاریہ‘ ہی اب مغربی ’بورژوازی‘ کے فکر اور ایجنڈا میں سچائیاں دیکھنے لگی! ایک ہی تحریک میں رخ کی یہ حیرت انگیز تبدیلی جس ایک چیز کی مرہونِ منت ہے وہ یہ کہ ’مدمقابل‘ کل بھی اسلام تھا اور آج بھی اسلام۔ پس اس لحاظ سے بھی، لبرلزم کی ’کتابی‘ تعریفات اِس تحریک کے تجزیہ و مطالعہ میں ایک حد تک ہی کام دے سکیں گی۔ اس لیے کہ اِس کا کُل محرک وہ کتابی اشیاء تھیں نہیں۔ نہ کل اور نہ آج۔

ایک اور الجھن اس میں یہاں سے آ جاتی ہے کہ ایک بڑی سطح پر ہیومنسٹ humanist (انسان پرستی) شجر سے وابستہ کئی بدیسی افکار پاکستان کے سماجی فیبرک پر حملہ آور ہیں اور اپنی اس پیش قدمی میں باہم متعاون بھی۔ کہیں سیکولرزمsecularism ، تو کہیں اباحیت پسندیlibertinism ، تو کہیں تقاربِ ادیانreligious rapproachment ، تو کہیں اگناسٹسزمagnositicism ، تو کہیں ایتھزم atheism، تو کہیں گے-ازمgay-ism تو کہیں کوئی اور ’ازم‘۔ بےشک ان تحریکوں سے منسلک ’افراد‘ سوچ کے الگ الگ زاویے بھی رکھتے ہوں.. تاہم ’ایجنڈا‘ کی سطح پر، دیکھنے والے کو یہ ایک تقسیمِ کار division of work زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ یہاں سے؛ گھر کے ایک محافظ کی بنیادی فکرمندی main concern یہ نہیں رہتی کہ یہ کچھ باہم متعاون حملہ آور جتھوں کے شیڈز اور کلرز ذہن نشین کرے بلکہ اِس کی زیادہ توجہ اُس یکجا حملے کو رد کرنے کی طرف ہو جاتی ہے؛ اور یہ اُن سب کو ایک مشترکہ خطرے کے طور پر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ… یہ محض ایک فکری اور تہذیبی جنجال ہی نہیں رہتا بلکہ ایک سطح پہ جا کر یہ ایک سنگین قومی حساسیت بھی اختیار کرتا ہے۔ مثلاً آپ غور فرمائیں تو اہلیانِ پاکستان کا ایک معتدبہٖ طبقہ ’’لبرل‘‘ کی پہچان آج اس بات سے کرنے لگ گیا ہے کہ یہ پاکستان میں بھارت کی بولی بولنے والوں کو کہا جاتا ہے یا بلوچ علیحدگی پسندوں کےلیے بڑے تخلیقی انداز سے ایک ہمدردی پیدا کرانے والوں پر بولا جاتا ہے! ظاہر ہے ’لبرلزم‘ کی تعریف اور مفہوم سے اس چیز کو کچھ علاقہ نہیں، لیکن بات اگر ’ایجنڈا‘ کی سطح پر دیکھنے کی ہو تو تب یہ اتنی غیرمتعلقہ بھی نہیں۔ جبکہ ’تحریکوں‘ میں یہ سب چیزیں دیکھنے کی ہوتی ہیں۔

خلاصہ یہ کہ لبرلزم کو حالیہ برسوں کے دوران پاکستانی سماج کی زمین پر پیش قدمی کرتا دیکھنا نرا ایک انسائیکلوپیڈیائی حوالہ ہی نہیں رکھتا۔ گو ہمارا یہ مقصد نہیں کہ یہ تاریخی یا نصابی حوالے مسئلے کو دیکھنے کی کوئی جہت نہیں۔ بہت سے فاضل اصحاب، لبرلزم پر اس اکادیمی academic پہلو سے لکھ بھی رہے ہیں۔ وہ تحریرات اپنی جگہ یقیناً اہم ہیں۔ ہم جس زاویے سے اس کو لیں گے اس پر کچھ بات ہو چکی اور ایک چیز اختصار سے ابھی ہم بیان کریں گے:

انسانی نفس اور سماج میں اسلام کو مطلوب جو ایک تصویر ہے، اس پر روزِ اول سے بڑے بےرحم حملے ہوتے آئے ہیں۔ مگر یہ زمین پر آسمان کی امانت، برابر سر اٹھائے رہی۔اِس پر فدا ہونے والے، ہر دور میں کھڑے نہ ہوتے تو اسلام کی یہ تصویر بدل کر کچھ سے کچھ ہو چکی ہوتی۔ پس خود یہ تصویر تو ایک غیرمتبدل حقیقت ہے، البتہ اس پر حملہ آور روز ایک نئے رنگ سے آتے ہیں۔ اپنی چودہ سو سالہ تاریخ میں یہ امت اتنے ’ازم‘ بھگتا چکی کہ شمار سے باہر ہے۔ ہر چند سال بعد یہاں ایک نیا ’ازم‘ وارد ہوتا ہے جو اپنے جوش میں اس کو بدل کر جانے کیا سے کیا کر دے گا مگر تھوڑے سال بعد وہ لائبریری کے کسی شیلف میں پڑا سستا رہا ہوتا ہے۔ (خود اپنی زندگی میں ہم ایسے کتنے ’ازم‘ ٹھکانے لگتے دیکھ چکے)۔ اسلام کی یہ مطلوبہ تصویر جسے ان شاءاللہ قیامت تک رہنا ہے، اپنی اساس میں چونکہ رسول اللہﷺ سے ماخوذ ہے، تو اس پہلو سے اس کا نام ’’سنت‘‘ ہے۔ جبکہ اپنے تسلسل میں یہ انسانوں کا ایک ہم آہنگ گروہ جس پر براعظموں کے فاصلے مٹ جاتے اور رنگ و نسل کے فرق محو ہو جاتے ہیں اور یہ روئےزمین پر شرق تا غرب ایک ہی آسمانی حقیقت کا بیان ہوتا ہے، جو تہذیب کے ہر رنگ اور ہر زبان میں بولتا اور مخلوق کو اس کے خالق کی یاد دلاتا ہے۔ اِس پہلو سےاِس کا نام ’’جماعت‘‘ ہے۔ یعنی سماج جو آسمان سے ہدایت لے، The Heavenly Community on Earth ۔ اِس ’’سنت و جماعت‘‘ کے محافظ طبقے جو ہر دور کے ’اِزموں‘ سے نمٹتے ہیں، اپنی بنیادوں کے تحفظ میں کچھ قاعدے، دستور اور روایات مرتب کر چکے ہیں جنہیں یہ ’’اصولِ سنت‘‘ کہتے ہیں۔ اِس مضمون کے کچھ مخصوص علماء ہیں جنہیں کسی وقت ہم ’’علمائے سنت‘‘ کہتے ہیں تو کسی وقت ’’علمائے عقیدہ‘‘ تو کسی وقت ’’متکلمینِ اسلام‘‘۔ ’’امتِ اسلام‘‘ چونکہ محض کوئی فلسفیوں کا گروہ نہیں بلکہ یہ ایک صحیح معنیٰ کا سماج ہے جس میں عورتیں بچے جوان بوڑھے، امیر غریب، مزدور کسان تاجر، نوکر افسر سیاستدان وکیل فوجی، عالم عامی، شہری دیہاتی، ہر طبقے اور ہر صلاحیت کے لوگ آتے ہیں، جو پوری زندگی کو چلاتے ہیں البتہ خدا کی مطلوبہ تصویر پر پورا اترنا ان میں سے ایک ایک اپنے اوپر فرض سمجھتا ہے… جبکہ ان سب کو اپنی اِس ’’مطلوبہ تصویر‘‘ پر حملہ آور کسی ’ازم‘ سے نمٹنے کےلیے اپنی روزمرہ زندگی کے ہنگامے چھوڑ کر نہیں آنا ہوتا.. لہٰذا ’’علمائےعقیدہ‘‘ ان کےلیے ایک فرضِ کفایہ انجام دیتے ہیں اور پھر کچھ امت کے گبھرو ان کے ساتھ ہو لیتے ہیں جو ایک طرف حملہ آور کو پسپا کرتے ہیں تو دوسری طرف امت کو ایسے ہر نئے وائرس کی بابت ایک عمومی آگہی دیتے ہیں… اور تاوقتیکہ امت کا ایک عام شخص ’’فرقوں اور تہذیبوں‘‘ کا متخصص specialist نہیں ہو جاتا تب تک وہ اس ’’عمومی آگہی‘‘ general awareness پر ہی سہارا کرتا ہے اگرچہ کوئی حملہ آور کتنا ہی ورغلائے کہ تم اپنے اس ناپختہ علم کے ساتھ بھی بس میری ’دلیل‘ تو چیک کرو۔ (وہ حضرات جو ہمارے بیان کردہ اِس مبحث میں ہمارے ساتھ الجھیں گے وہ سب – یا ان میں سے اکثر – ’’امت‘‘ کے معنی بلکہ وجود کو ماننے میں ہی امت کی مین سٹریم سے اختلاف رکھتے ہوں گے)۔

المختصر، اسلامی حقیقت پر حملہ آور ایک فکر یا رجحان کے مقابلے پر ’’سنت و جماعت‘‘ کا دفاع دو محوروں پر ہوتا ہے: ایک اس کا بیرونی محور یعنی حملہ آور کو جواب۔ اس کو جدل یا مناظرہ کہا جاتا ہے جوکہ حق ہے اور عموماً کسی خاص نوبت یا ضرورت کو پہنچ کر ہوتا ہے۔ دوسرا، اندرونی محور یعنی اہل اسلام کو اس کی بابت دی جانے والی آگہیawareness ۔ دوسرا اہم تر اور واجب تر ہے۔ ہردو میں آپ کا علمی سہارا ’’سنت و جماعت‘‘ کے عالم ہوتے ہیں۔ اور ہردو میں ’’سنت و جماعت‘‘ کے علماء کو امت سے دست و بازو درکار ہوتے ہیں۔ یعنی ایسے غیر علماء بھی ہوں گے جو علماء سے دلیلیں اٹھااٹھا ایک فتنہ کو جواب دے رہے ہوں گے (بیرونی محاذ)۔ اور ایسے غیرعلماء بھی جو اس فتنہ پر علماء کی تقریرات سے اہل اسلام کو باخبر کر رہے ہوں گے (اندرونی محاذ)۔ ہماری ان تحریرات کا تعلق ’’لبرلزم‘‘ کے موضوع پر اس دوسرے محور سے ہے۔ یعنی اسلام کو اپنا عقیدہ مان رکھنے والوں کےلیے ’’لبرل‘‘ فتنے پر کچھ ضروری آگہی۔ اس کےلیے یہ دیکھنا کافی ہوتا ہے کہ آپ کے دور کے علمائےسنت و جماعت، شرق تا غرب، امت پر حملہ آور ایک فتنے کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ ’لبرلزم‘ پر ہماری یہ سیریز ان شاء اللہ شروع تا آخر اس بات کی پابند ہے۔

حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password