تفہیم مغرب
تعارف: اس مضمون میں ہم نے جمہوری نظام اس کی مابعد الطبیعات، اخلاقیات، اداروں اور ان کے باہمی تعلق کو
ہمارے جدیدیت پسندوں کا ایک مسئلہ ہر مغربی تصور کو بغیر سمجھے ہی اسے اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے اور
مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن محیریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”فارس نطحة أو نطحتان،
ہم عالم اسلام پر اللہ کا یہ فضل ہے کہ اپنے تہذیبی وفکری وجود کا آ غاز ہم ”اسلام“ سے
کوئی اگر سوال کرے کہ وہ کونسی قوم ہے جس کے ساتھ پچھلے چودہ سو سال سے عالمِ اسلام کی
دنیا میں انسان کی زندگی کے لیے جو نظام نامہ بھی بنایا جائے گا اس کی ابتدا لامحالہ ما بعد
مغربی ذرائع ابلاغ اور مختلف فورموں کے ذریعے سے یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے اصل کے
مغربی تہذیب پر ہم خواہ کتنی ہی تنقید کیوں نہ کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے سلسلے میں
ہمارے ایک دوست نے گزشتہ دنوں یہ سوال اٹھایا کہ کیا اہل مغرب نے اپنے علم، معاشرے اور تہذیب کے
غلبہ مغرب کی نوعیت و ماہیت کی کوئی تفہیم اس فکری و اعتقادی چیلنج کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں
بات یہ نہیں کہ دور گذشتہ میں اسلامی تہذیب کوکوئی چیلنج درپیش نہیں ہوا، لاریب کہ ہوا، ایک سے زیادہ
مشہور مفکر و فلاسفر احمد جاوید صاحب کی ایک قیمتی تحریر پیش ہے، اس میں احمد صاحب نے ناصرف مغرب
نظام تعلیم کی دینی بنیاد: ہمیں جو چیزیں فوری طور پر علمی چیلنجز کا سامنا کرنے کیے لیے سیکھنی چاہیے
اسلامی دنیا میں آج اصلاً افراد کے دو ہی طبقے موجود ہیں جن کا تعلق مذہبی، عقلی اور فلسفیانہ مسائل
پچھلے وقتوں کے سیدھے سادے ایمان والے جو بہت تھوڑی معلومات مگر بہت راسخ ایمان رکھتے تھے آج کی دنیا
مغربی تہذیب نے جس فلسفہ اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی ہے وہ پانچ چھ سو سال سے دہریت‘
حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و استیلا کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ذہنی اور اخلاقی غلبہ‘ دوسرا سیاسی اور مادی
مغربی تصورات کے پیدا ہوئے فتنہ ارتداد کے خلاف ہمارا (دیندار طبقے کا) ردِ عمل اگرچہ کئی طرح کا ہے
جس طرح پرانے زمانے کے بعض لوگوں پر جن آتے تھے اسی طرح ہمارے زمانے کے اکثر لوگوں پر الفاظ
معروضیت : بعض مسلم دانش وروں کے تاثرات کی روشنی میں ایک جائزہ : اصولِ تحقیق پر جدید دور میں