کیا مدینہ ایک لبرل ریاست تھی؟

سیکولر طبقہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے یہ بات مشہور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں آپ ﷺ نے ایک ایسا معاشرہ قائم کیا تھا جس کی بنیاد مذہب نہیں تھی۔ اس دعوے کی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے مدینے کی تمام اقوام و مذاہب کے ساتھ میثاقِ مدینہ کیا تھا جس کے مطابق ہر شخص کو مذہبی و معاشرتی آزادی حاصل تھی، اور ریاست کا تحفظ و دفاع تمام فریقوں کے لئے یکساں لازم تھا اور یہی سیکولرازم اور ملٹی کلچرازم کی اصل روح ہے۔
یہ دلیل علمی طور پر اس قدر لغو اور حقائق سے دور ہے کہ اسے رد کرنے پر اپنا وقت صرف کرنا بھی تضیعِ اوقات کے زمرے میں شمار ہوگا۔ علمی طور پر لغو اس لئے کہ مدینے کی ریاست کو سیکولر وہی شخص کہہ سکتا ہے جسے سیکولرازم کے معنی تک نہ معلوم ہوں۔ کیا کوئی شخص اس بات کاتصور کرسکتا ہے کہ وہ ذاتِ اقدس جسے مبعوث کرنے کا مقصد ہی ادیانِ باطلہ کا قلعہ قمع کرنا اور حق کو باطل سے ممیز کرنا تھا، وہ ہستی ایک ایسے ناپاک معاشرے کو وجود بخشے گی جس کی بنیاد تقویٰ نہیں افرادکی خواہشات پر ہو، جس میں نیکی اور بدی اصولاََ برابر ہوں، جس میں منکرات کو پنپنے کے یکساں مواقع دیئے جائیں، جس میں افراد کی معاد کو پسِ پشت ڈال کر صرف معاش ہی کی فرد دامن گیر ہوں، جہاں ان گنت احکاماتِ شریعہ کو کالعدم اور باطل قرار دیا گیا ہو؟ بہت بڑی جسارت کرتا ہے وہ شخص جو اس بات کا مدعی ہے کہ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس ایسے ناپاک معاشرے کی تشکیل کے لئے مبعوث کی گئی تھی کیونکہ یہ دعویٰ قرآنِ مجید اور احادیث کے ان گنت واضح نصوص کے خلاف ہے۔ کوئی مسلمان اس قسم کا دعویٰ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔
یہ دعویٰ کہ مدینہ ایک سیکولر ریاست تھی حقیقت سے اتنا ہی دور ہے جتنا اس شخص کا دعویٰ جو امریکہ میں مسلمانوں کو نماز ادا کرتے نیز کچھ مسلمانوں کو امریکی فوج کی صفوں میں دیکھ کر یہ دعویٰ کر ڈالے کہ امریکہ اصلاََ دارالاسلام ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس مضحکہ خیز دعوے کا کوئی علمی جواب نہیں دینا چاہئے کیونکہ یہ دعویٰ ہی انتہائی درجے کی لاعلمی اور جہالت کی غمازی کرتا ہے۔ ا طرح کی بے تکی باتیں کرنے والے لوگ نجانے کس طرح درج ذیل حقائق کو نظرانداز کردیتے ہیں:
1) ریاست کی سیادت و قیادت نیز تمام جھگڑوں کی صورت میں حتمی فیصلے کا تا حیات اختیار حضور ﷺ کے ہاتھ میں تھا اور یہ فیصلہ معاہدہ کے فریقوں کے مشوروں یا ووٹ سے عمل میں نہیں آیا تھا۔
2) اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد بھی خلیفہ کے چناؤ کے مسئلے پر نہ تو کسی غیر مسلم سے مشورہ یا ووٹ مانگا گیا اور نہ ہی ان کے کسی امیدوار کو اس منصب کے لئے زیرِ غور لایا گیا۔
3) خلیفہ تو دور کسی غیر مسلم کو کسی صوبے کا گورنر یا والی وغیرہ بھی نہیں بنایا گیا اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا کوئی اہم فیصلہ کن انتظامی نوعیت کا منصب دیا گیا۔
4) پھر جب مختلف غزوات کے موقع پر یہودیوں نے معاہدے کی روگردانی کی تو آپ ﷺ نے ان کے خلاف کاروائی کی اجازت لینے کے لئے کسی اسمبلی کے سامنے مسئلہ پیش نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے ایماء پر یا تو انہیں مدینہ سے نکال باہر کیا یا پھر جہنم واصل کردیا۔ آخر کس جمہوری سیکولر ریاست مہں ایسا کرنا ممکن ہے کہ ریاست کا والی اپنے ایماء پر سٹیزنز کے قتلِ عام یا ان کے انخلاء کا فیصلہ کرلے۔
5) مدینہ کی ریاست میں ایسے اسلامی احکامات کا اجراء ہوتا تھا جس کا تعلق افراد کے گروہ سے ہے، مثلاََ سود لینا اور دینا حرام تھا، جرائم پر حدود کا نفاذ ہوتا تھا (حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ پر حدِ زنا کا اجراء مدینے ہی میں ہوا تھا)، وغیرہ وغیرہ۔
6) حقیقت یہ ہے کہ میثاقِ مدینہ ایک دفاعی اور انتظامی نوعیت کا معاہدہ تھا جس کا مقصد ابتدائی دور میں مسلمانوں کی عسکری قوت کم ہونے کی بناء پر مدینے کی ریاست کو کفار سے بچانے کے لئے دوسری اقوام کو بھی اس دفاع میں شامل کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بیرونی غزوے (جیسے غزوہء تبوک) کے موقع پر مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسرے فریق کے لئے اس میں شرکت کرنا لازم نہ ہوتی تھی، اور نہ ہی غزوے کی مہم جوئی شروع کرنے سے پہلے ان فریقین کی رائے یا اجازت لی جاتی تھی کہ ایسا کریں یا نہ کریں۔ ظاہر سے بات ہے کہ روم جیسی طاقتور ریاست سے رسہ کشی کا مطلب مدینہ کو خطرات سے دوچار کرنے کے مترادف تھا اور بالفرض اگر مدینہ ایک جمہوری ریاست ہوتا جہاں تمام اقوام کو برابر حقوق حاصل ہوتے تو ان اقوام کو مسلمانوں کے اس فیصؒے پر یقیناََ اعتراض ہوتا کہ تم لوگوں کے اس عمل سے ہمارا جینا دشوار ہوجائے گا، لہٰذا ہم تمہیں ایسا کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جس سے مدینے کی سالمیت کو خطرہ ہو وغیرہ۔
7) نتیجے کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ مدینہ کی ریاست قائم ہونے کے بعد رفتہ رفتہ اسلامی حکومت شرق وغرب میں بھیل گئی اور آسمانِ دنیا نے کفار کے حوالے سے حتی یعطوا الجزیۃ عن یدا وھم صاغرون کی کیفیت کا نظارہ دیکھ لیا۔ اب بتائیے، کیا آج تک کسی جمہوری ریاست کے قیام اور بقاء کے نتیجے میں مذہب کا بول بالا ہوا ہے؟ ہم یہ تو دیکھتے ہیں کہ جمہوری ممالک میں طرح طرح کے حربوں سے مذہب کو معاشرتی صف بندی سے خارج کردیا جاتا ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کا دائرہ آہستہ آہستہ سکڑتا چلا جاتا ہے۔
8) سب سے بڑی بات یہ کہ اگر اس معاہدے کے مندرجات کا کھلی آنکھوں کے ساتھ مطالعہ کرلیا جائے تو بھی یہ اس امر میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ یہ کوئی جمہوری قسم کا معاہدہ ہرگزنہیں تھا۔ مثلاََ معاہدے کے ابتدائی الفاظ اس طرح ہیں ھذا کتاب من محمد النبی (رسول اللہ ﷺ) ‘یہ دستاویز نبی محمد ( ورسول ﷺ) کی طرف سے ہے’۔ اس جملے کا ایک ایک لفظ اس معاہدے کی نوعیت کی گواہی دے رہا ہے۔ سب سے پہلے تو اس کا اندازِ بیاں ہی حاکمانہ ہے، یعنی جیسے ایک شاہی فرمان ہو، پھر یہ فرمان محمد عبدالمطلب نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دیا گیا ہے اور ظاہر بات ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حیثیت کسی جمہوری حاکم کی نہیں کہ جسے لوگوں نے چنا ہو اور ان کے حکم سے انحراف کرنا ممکن ہو۔
ان حقائق کو نظرانداز کرکے بھی اگر کوئی شخص مدینہ کو ایک سیکولر ریاست کہتا پھرے تو اسے آنکھوں میں دھول جھونکنا نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ ایسے شخص کو پھر اس سوال کا جواب بھی دینا ہوگا کہ آخر امریکہ دارالاسلام کیوں نہیں؟
ڈاکٹر زاہد مغل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password