مغربی ممالک واقعتاً کسی مذہب کے داخلی معاملات میں دخل نہیں دیتے سوائے اسلام کے

ہمارے یہاں ایک ٹویٹ ہوا تھا:”مغربی ممالک واقعتاً کسی مذہب کے داخلی معاملات میں دخل نہیں دیتے سوائے اسلام کے۔ ہاں! اِس کی “اصلاح” اُن کا اِس وقت کا ایک بڑا پراجیکٹ ہے۔
اس پر ایک ’اشکال‘ آیا: “اتنے سادہ مت بنیے۔ مغرب یا اس کے ہم خیال لوگوں کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو ’’سیاست‘‘ میں دخل دیتا ہے، اور جس پر آپ بھی صبح شام زور دیتے ہیں۔ لہٰذا خاص اسی مذہب کی ’’اصلاح‘‘ مغرب کےلیے ضروری ہوئی”۔
ہم نے کہا: سیاست کا دین کے تابع ہونا ایک الگ مبحث ہے، لہٰذا اِس ’’سیاست‘‘ کو آپ تھوڑی دیر کےلیے الگ رکھ دیجیے، خاص ’مذہبی‘ معاملات میں بھی ملتِ اسلام کو ’درست‘ کر جانا اِس بار اُن کے ایجنڈا پر ہے۔ اب مثلاً، کسی ’مذہب‘ میں کیا چیز عورت کےلیے جائز ہے اور کیا چیز ناجائز، خالصتاً اُس مذہب کا ایک اندرونی اور ’مذہبی‘ سوال ہے؛ اس کا کوئی تعلق ’’سیاست‘‘ سے نہیں ہے۔ پردے کا حکم، میوزک کا حکم، حتیٰ کہ اب تو ’ہم جنسی‘ (ہومو سیکسوئلیٹی) کا مسئلہ، کیا تعلق ہے ان اشیاء کا ’’پالیٹکس‘‘ سے؟
ایک مذہب کی مرضی ہے ان خالص ’انفرادی‘ نوعیت کے معاملات میں وہ ایک چیز کو حرام رکھے یا حلال اور یہ اس کا اپنا ہی اصیل (شروع سے چلا آتا) فیصلہ ہونا چاہیے نہ کہ باہر سے ’انسپائر‘ کروایا جانے والا کوئی موقف۔ آپ اُس مذہب سے کفر کرنا چاہیں، آزادی سے کیجیے لیکن اُس کو باقاعدہ سبق پڑھانا اور اُس کے حلق سے اپنی مرضی کی آواز نکلوانا؟ یہ کونسا فیئر پلے (fair play) ہے؟ لیکن کسے معلوم نہیں، ان مسائل میں ’مذہب‘ کو ایک خاص پٹڑی پر چڑھانا اور باقاعدہ ایک ’راہ‘ دکھانا اُن کے ایجنڈا پر ہے اور اپنے مطلب کا ایسا کوئی ’فتویٰ‘ جب کسی وقت یہاں سے میسر آ جائے تو اس کو ’لاؤڈ سپیکر‘ کی قوت جس طرح فراہم کی جاتی ہے، آخر کسے نظر نہیں آتا؟ یہاں کے جس سپیکر کو چاہا ’آن‘ کیا اور جس سپیکر کو چاہا ’آف‘۔ ہمارے یہاں کے وہ کچھ خال خال منحنی سپیکر جو ان کی مرضی کی ’مذہبی‘ آواز دیتے ہیں اس کو کیسے کیسے زبردست ’ایفیکٹس‘ کے ساتھ میڈیا میں بلند آہنگ کرایا جاتا ہے، کسے معلوم نہیں؟
اب یہ پورا میڈیا کس کا ہے اور کس تہذیبی ایجنڈے پر ہے، بھلا کس پر مخفی ہے؟ کیا اس کو smart maneuvering نہیں کہا جاتا؟ اتنا سادہ تو نہ سمجھیے صاحب ہم کو! اِسی طرح اور بہت سے ’مذہبی‘ مسائل، جی ہاں خالصتاً ’مذہبی‘ مسائل جن کا ’سیاست‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ بھی شاید اب بچنے کے نہیں۔ ’’دین‘‘ کا معاملہ پیچھے رہا، آپ کے ’مذہب‘ کی بھی اب باقاعدہ ایک تشکیلِ نو ہو رہی ہے۔ گو اِس maneuvering کا انداز خاصا سائنٹیفک ہے؛ کوئی سادہ primitive انداز کی دھونس نہیں ہے، یہ ہم بہرحال مانتے ہیں۔ بلکہ ’فن‘ کی داد نہ دینا بھی ہم تو بخل جانیں گے۔
غرض اِس بار… وہ بہت پہلوؤں سے آپ کی ’’مرمت‘‘ کر کے جانا چاہتے ، حضرات! بہتر ہے جاگ جائیے۔ سیکولرزم خاصا آگے کے گیئر لگا چکا۔
سیاست کی بحثیں پرانی ہوئیں اب آپ اپنا عام ’مذہبی‘ حرام حلال بچا ئیے، اگر بچا سکیں۔ خاص ’مذہبی‘ معاملات میں اسلام کا بتایا ہوا صحیح و غلط داؤ پر لگ چکا۔ یہ بھی ابھی کچھ سال ہے پھر شاید بانس رہے نہ بانسری۔ حسبی اللہ ونعم الوکیل۔ آپ اپنے روزمرہ معمولات، وظیفے اور سرگرمیاں برقرار رکھیے، اسلام بخیریت ہے دوستو! ’نواز شریف‘ کے حق میں اور مخالفت میں اسلام پسندوں کو سرگرم رکھیے، امید ہے کہیں پہنچ ہی جائیں گے! کچھ وقت بچ جائے تو ’یزید‘ پر بحث کر لیجیے۔ اسلام کو اور بھلا کیا مسئلے ہیں؟
واغربة الإسلام.. واإسلاماه!

شیخ حامد کمال الدین

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password