اسلامی اور مغربی تصورِ آزادی، مساوات اور رواداری


زیرِ نظر مضمون کے اس حصے میں ہم درج ذیل جملوں کی تنقیح کرنے کی کوشش کریں گے۔
1) اسلام فرد کی آزادی کا حامی ہے یا انفرادی آزادی کی تقدیس اسلام کا اہم اصول ہے۔
2) اسلام فرد کے اس حق کو مانتا ہے کہ وہ خیر وشر کی جو تعبیر اختیار کرنا چاہے کرے۔
3) اسلام غیر مسلموں کو مساوی معاشرتی حیثیت دیتا ہے۔
4) اسلام امن و رواداری کا مذہب ہے۔
5) قرآنی آیت لا اکراہ فی الدین سے معلوم ہوا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔
6) اگر مجاہدین کے نظریئہ اسلام ( کہ اقامتِ دین فرض ہے) کو تسلیم کرلیا جائے تو مسلمان کہیں بھی مخلوط آبادی میں امن سے زندگی بسر نہیں کرسکتے۔
7) زمانہ حال عالمگیریت (Globalization)کا دور ہے جہاں ہر نظریہء حیات کے ماننے والوں کے درمیان اشتراک عمل کے سوا کوئی دوسری صورت کارگر نہیں۔
8) اگر مسلمان بحیثیت جماعت اپنے عقائد کی اشاعت کا حق رکھتے ہیں تو انہیں غیر مسلموں کو بھی یہ حق دینا ہوگا۔


مغربی نظریہء آزادی، مساوات اور رواداری :
جدید مسلم مفکرین قرآنی آیت فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر (تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، کہف 18: 29) سے ماخوذ شدہ جبر وقدر کی بحث پر مبنی مذہبی تصورِ آزادی کو مغربی تصورِ آزادی سے خلط ملط کرکے اسلام میں آزادی (اور جمہوریت) بطور ایک مستقل قدر کا اثبات کرتے ہیں، حالانکہ مذہب اور مغرب کے تصورِ آزادی میں سوائے لفظی اشتراک کے اور کوئی شے مشترک نہیں۔مناسب ہے کہ پہلے ہم مغربی تصوراتِ آزادی، مساوات اور رواداری کے اصل معنیٰ جان لیں کیونکہ مغربی تہذیب کے یہ تین اہم تصورات باہم ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
٭نظریہء آزدی (Principle of Freedom/Autonomy):
کا معنیٰ ہے تیعینِ خیر وشر کا حق، (Right to define good and evil)، یعنی یہ تصور کہ خیر کی تعریف متعین کرنا فرد کاحق ہے (Good is the Right of Individual)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خیروشر کا تعین کرنے کا حق ہر انسان کو ہونا چاہئے ماورائے اس سے کہ فرد اس حق کو استعمال کرکے اپنے لئے خیر و شر کا کون سا پیمانہ طے کرتا ہے کیونکہ اصل خیریہی ہے کہ انسان خود خیروشر طے کرنے کا مکلف ومجاز ہو۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ جسے فرد اپنی مرضی وارادے سے اختیار کرتاہے، نیز فرد اپنی ترجیحات کی جو بھی ترتیب مرتب کرے گا وہی اس کے لئے خیر ہوگا۔ اگر ہنری پتے گننے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے تو یہی اس کے لئے خیر ہوگا،اگر ابرار گلوکار بننا چاہے تو یہی اس کا خیر ہوگا اور اگر عبداللہ مسجد کا امام بننا چاہتا ہے تو یہ اس کا خیر ہوگا۔الغرض اصل بات یہ نہیں کہ فرد اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرتا ہے بلکہ اصل خیر یہ ہے کہ وہ اپنے لئے خیر وشر طے کرنے میں آزاد ہو۔ دوسرے لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے Choice of Choice(جو چاہنا چاہوں چاہ سکنے کا حق)، یعنی کوئی عمل فی نفسہ اچھا یا برا نہیں اور نہ ہی فرد کے ارادے کے علاوہ کوئی ایسا پیمانہ ہے جس کے ذریعے کسی عمل یا شے کی قدر () متعین کی جاسکے،فرد معیاراتِ خیرو شر خود متعین کرتا ہے۔
نظریہء مساوات (Principle of Equality) :
یہ ماننا کہ چونکہ ہر فرد کا حق ہے کہ وہ اپنے لئے قدر (خیر وشر) کا جو چاہے پیمانہ طے کرلے، لہٰذا ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ دوسروں کے اس مساوی حق کو تسلیم کرے کہ وہ بھی اپنی زندگی میں خیر اور شر کا جو پیمانہ چاہیں طے کرلیں اور اس بات کو مانے کہ خیر و شر کے تمام معیارات مساوی (Equal) حیثیت رکھتے ہیں۔ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کے تعین کردہ قدر کی ترتیب کو یکساں اہمیت دی جائے اور کسی بھی فرد کے معیارِ خیر وشر اور اقداری ترجیحات کی ترتیب کو کسی دوسرے کی ترتیب پر فوقیت نہیں دی جانی چاہئے۔ ان معنیٰ میں عبداللہ، ہنری اور ابرار کی خواہشات مساوی اقداری حیثیت کی حامل ہیں اور ان میں کسی ایک کودوسرے پر ترجیح دینے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ پس خودارادیت (Autonomy) کا ہر فرد یکساں مکلف ہے اور جمہوری ریاست کی تعمیر کے لئے صرف آزادی ہی نہیں بلکہ مساوی آزادی (Equal Freedom) کو تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔

٭نظریہء رواداری (Doctrine of Tolerance):
کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی سطح پر اقدار کی ترتیب میں جس فرق کا اظہار لوگوں کی زندگیوں میں ہوتا ہے اسے برداشت کیا جائے، یعنی یہ مانا جائے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی نگاہ میں خیر کا کیا تصور ہے،بلکہ اہم بات یہ ہے کہ فرد اس بات کا قائل ہوں کہ ذاتی زندگی میں اقدار کی جو بھی ترتیب ہو مگر معاشرتی سطح پر وہ اس ترتیب کو قبول کرے گا جس میں اصولِ آزادی (یعنی فرد کے حق کو کہ وہ خیر کی جو تعبیر کرنا چاہے کرسکے) کی بڑھوتری کو مقدم رکھا جائے گا۔Tolerance کا مطلب اختلافِ رائے کو برداشت کرنا نہیں، بلکہ اس کا مطلب اقداری ترتیب کے فرق کو غیر اہم اور لایعنی سمجھنا ہے۔( اسی لیے لبرل سرمایہ دارانہ سیکولراازم کے اندر ذاتی اقداری ترتیب کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں رہتی، اسی لئے اس سیکولرازم کے اندر مذہب کا پنپنا ممکن نہیں رہتا اور نہ ہی یہ مذہب کے معاشرتی و ریاستی اظہار کو برداشت کرتی ہے) چنانچہ آزادی ومساوات بطورِ قدر اختیار کرنے کا لازمی تقاضایہ ماننا بھی ہے کہ کسی بھی فرد کو اپنے تصورِ خیر (مثلاََ مذہبیت) کی بنیاد پر کسی دوسرے شخص کے عمل پر تنقید کرنے یا اسے تبدیل کردینے کی خواہش رکھنے اور اس کی جدوجہد کرنے کاحق حاصل نہی ہوسکتا۔( یہی وجہ ہے کہ جب شہرِ لاہور میں ہونے والی عورتوں کی حیا باختہ میراتھن ریس کے خلاف دینی تحریکوں اور علماء کرام نے احتجاج کیا تو جدیدیت کے دلدادہ صدر پرویز مشرف صاحب نے یہ ارشاد فرمایا کہ جو میراتھن ریس نہیں دیکھنا چاہتے وہ اپنا ٹی وی بند کرلیں،مگر انہیں دوسروں پر تنقید کرنے کا حق حاصل نہیں۔) اگر فرد مذہبی زندگی کو ایک نفسیاتی دوا یا روحانی تسکین کے ذریعے کے طور پر اپناتا ہے تو یہ قابلِ قبول ہے مگر مذہب کے معاشرتی وریاستی اظہار کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ زندگی گزارنے کے تمام طریقوں کو مساوی معاشرتی قدر دینے کےاس رویے کا نام ٹولرینس ہے (جس کا ترجمہ غلط طور پر ‘رواداری’ سے خلط ملط کردیا جاتا ہے) جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تمام افراد کی ذاتی خواہشات کی ترتیب اور زندگی گزارنے کے طریقے مساوی ہیں، تو ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ دوسرے کی خواہشات کا احترام کرے اور اسے برداشت کرے۔ آزادی کے اصول پر معاشرتی تشکیل تبھی ممکن ہے جب افراد اظہارِ ذات کے تمام طریقوں کو یکساں اہمیت دیں اور انہیں برداشت کرنے کا مادہ پیدا کریں، یعنی ٹولیرنس کا مظاہرہ کریں. (ٹولیرنس کے فلسفے کے تحت قائم ہونے والے معاشروں میں کس کس قسم کے اعمال اور اظہارِ ذات کے کن کن ممکنہ طریقوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ کچھ عرصہ قبل ہونے والے ان دو واقعات سے لگائیں۔ امریکہ میں ایک عورت کو چوبیس گھنٹے میں کئی سو مردوں کے ساتھ ‘بدکاری کا عالمی ریکارڈ’ بنانے کے ‘اعزاز’ میں انعام سے نوازا گیا۔ اسی طرح چند روز قبل امریکہ میں پانچ ہزار سے زیادہ مردوں اور عورتوں نے مکمل برہنہ حالت میں سڑکوں پر احتجاجی جلوس نکالا، یہ ہے ٹولیرنس کا اصل مفہوم اور اسپرٹ، العیاز باللہ من ذالک۔) مغربی مباحث آزادی اور مساوات سے اخذ کردہ تصورات مثلاََ Plurality of Goodsکا ذکر بھی یہاں افادیت سے خالی نہیں کیونکہ یہ نظریات بھی جدید مفکرین کے فکری اعتزال کا باعث بنے۔Plurality of Goods کا مطلب یہ ماننا ہے کہ خیر کی بہت سی تعبیریں ہیں اور یہ تمام تعبیریں اصولاََو اخلاقاََ مساوی ہیں، نیزجمہوری ریاست کا بنیادی وظیفہ یہی ہے کہ وہ تمام تصوراتِ خیر کے اظہار کو ممکن بنائے۔ چنانچہ Plurality of Goodsنظریہ آزادی و مساوات کا منطقی لازمہ ہے۔

اسلامی نظریہ آزادی، مساوات اور رواداری:

٭(ا)اسلام اور آزادی:
واضح ہو ا کہ مغربی تصوراتِ آزادی و مساوات مستقل اقدار (Freedom as value) کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ جمہوری ریاست سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ ایسی معاشرتی و ریاستی صف بندی وجود میں لائے جو ہر فرد کی اس صلاحیت و حق کو بڑھاتی چلی جائے کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہ سکے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف ہوسکے۔اس کے مقابلے میں مذہبی نقطہ نظر سے آزادی کا مطلب ہے ارادہء خداوندی کے مظہر تصوراتِ خیر و شر کو اپنانے کی صلاحیت، یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسمانی و عقلی صلاحیتوں سےنوازا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نےانسان کو ہدایت کا انتظام کردینے کے بعد اسے مجبور محض نہیں بنایا بلکہ اسے یہ صلاحیت بھی عطا کی ہے کہ وہ حق کو اختیار کرکے اپنے رب کا فرمانبردار بنے یا اس کا انکار کرکے اس کا باغی کہلائے۔ دوسرے لفظوں میں مذہبی جبر وقدر کی بحث میں آزادی کا مفہوم ہے مذہب کے طے کردہ خیروشر میں سے کسی ایک کو اپنانے کی صلاحیت (Ability to choose between Good and Bad) نہ کہ خیر و شر متعین کرنے کا حق (جیساکہ مغربی تصور ہے)۔مذہبی تصورِآزادی کا مطلب یہ نہیں کہاگر فرد اپنے پورے ارادے سے کفر اختیار کرے گا تو وہی خیر ہوگا بلکہ اسے اس کی سزا بھگتنا ہوگی جیسا کہ اوپر بیان کردہ پوری آیت پڑھنے سے واضح ہوتا ہے جو یوں ہے؛ (فرمادیجئے! کہ حق تو وہی ہے جوتمہارے رب کی طرف سے آیا ہے، تو جو چاہے اس حق کو مان لے اور جو چاہے انکار کردے،ہاں ہم نے (انکار کرنے والے)ظالموں کے کئے آگ تیار کررکھی ہے۔)
چنانچہ اسلام آزادی ‘بطور ذریعہ’ (Freedom as Resource) کا تو قائل ہے کہ دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو یہ ذریعہ و صلاحیت حاصل ہےکہ وہ خیروشر میں سے کسی ایک کو اختیار کرسکتا ہے،مگر اسلامی نظامِ زندگی میں آزادی بطور قدر (Freedom as Value) کا کوئی مقام نہیں کیونکہ اصل قدر آزادی استعمال کرنے کا حق نہیں بلکہ اسے اپنے رب کے سپرد (Surrender)کردینا۔ یعنی قدر آزادی نہیں بلکہ عبدیت ہے۔ مغرب میں آزادی اعلیٰ ترین خیر ہے کیونکہ ان کے مطابق اصل حیثیت اس چیز کی نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں بلکہ اس کی ہے کہ آپ جو چاہنا چاہیں چاہ سکیں، جبکہ مذہبی نقطہ نظر سےیہ بات اہم نہیں ہے کہ میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکنے پر قادر ہوں یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ میں وہ چاہتا ہوں یا نہیں جو خدا چاہتا ہے کہ میں چاہوں۔پس معلوم ہوا کہ نظریہ آزادی رد ہے عبدیت کا، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اس کا کام اس کی رضا حاصل کرنا ہے کیونکہ آزادی کا مطلب حقِ خودارادیت (Self-determination) کا دعویٰ ہے، یہ تصورِ انسان کی بنیادی ضروریات یعنی ‘حصولِ ہدایت کے لئے خدائی رہنمائی’ سے انکار ہے۔

٭(2)اسلام اور مساوات:
اسلامی نقطہ نظر سے نظریہ مساوات کا معنیٰ ہے نظامِ ہدایت ورشد کا رد، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر وشر بتانے کے لئے ہدایت کا کوئی سلسلہ انبیاء کرام کے ذریعے قائم کیا ہے نیز انسان کے پاس ایسی کوئی الہامی اطلاعات نہیں جو حتمی ہوں اور جن کی بنیاد پر وہ خواہشات اور اعمال میں ترجیح کا کوئی پیمانہ قائم کرسکے(تمام نیک و بد برابر ہیں)۔ ایسا اس لئے کہ نظامِ ہدایت کا معنی ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خواہشات کی ترتیب ہرگز مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ وہ شخص جس کی خواہشات کی ترتیب تعلیمانِ انبیاءکا مظہر ہیں، تمام دوسری ترتیبوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریہ آزادی ( اور اسی لئے مساوات) کو بطور کسی ایسی معاشرتی قدر قبول نہیں کرتا جو ریاست سے اس بات کا تقاضا کرے کہ وہ خیر کے معاملے میں ‘غیرجانبدار’ ہو کر تمام تصوراتِ خیر کے ‘حقوق’ کا ‘مساوی’ تحفظ کرے، بلکہ اسلامی ریاست کا تو مقصد ہی اس خیر کو جو ارادہء خداوندی کی صورت میں نازل ہوا تمام دیگر تصوراتِ خیر (جو درحقیقت شر ہیں) پر غالب کردینا ہے نہ کہ ان کے ساتھ مفاہمت کرنا اور خیر سگالی کے جذہبات کا اظہار کرکے انہیں مساوی حیثیت عطا کردینا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: “وہ اللہ ہی ہے جس نے اپمے رسولوں کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے’ (فتح؛ 28)۔
دوسرے لفظوں میں نظامِ ہدایت مساوات کا نہیں بلکہ حفظِ مراتب کا متقاضی ہے جس میں افراد کی درجہ بندی کا معیار (Differentiating Factor) تقویٰ ہوتا ہے نیز اسلامی معاشرے و ریاست کا مقصد جمہوری معاشرے کی طرح ہر فرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ ان کی خواہشات کو نظام ہدایت کے تابع کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔اسی لیے اسلامی نظریہء ریاست میں Citizen(ایسی عوام جو اصولاََ حاکم اور فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے) اور عوامی نمائندگی (Representation of Citizens) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں کیونکہ یہاں عوام Citizen نہیں بلکہ رعایا ہوتی ہے اور خلیفہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ جس کا مقصد عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنا ہو بلکہ وہ تو رسول اللہ ﷺ کا نائب ہوتا ہے جس کا مقصد رعایا کی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کے لئے نظاِ ہدایت کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آزادی و مساوات کے معنی یہ ہے کہ خیروشر اور اپنی منزل کا تعین انسان خود طے کرے گا اور ہر شخص کا تصورِخیر و زندگی گزارنے کا طریقہ مساوی معاشرتی حیثیت رکھتا ہے اور ریاست کا مقصد ایسی معاشرتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنی خواہشات کو ترتیب دینے اور انہیں حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے۔

٭(3)اسلام، رواداری اور امن :
اس بحث سے نظریہ ٹولیرنس کی اسلامی حیثیت بھی صاف ہوجاتی ہے۔ نظریہء رواداری کے معنی ہے نہی عن المنکر کا رد، یعنی جب یہ مان لیا کہ خیر کاتعین فردکا حق ہے،نیز تمام تصوراتِ خیر مساوی ہیں تو یہ ماننا بھی لازم ہے کہ اول تو برائی کوئی شے ہی نہیں، اور اگر کوئی عمل مجھے اپنے تصورِ خیر کے مطابق برائی نظر آتا بھی ہے تو میں اسے برداشت کروں نہ یہ کہ اسے روکنے کی فکر اور تدبیر کرنے لگوں۔ بلکہ جمہوری اقدار (آزادی ومساوات) کا تقاضا تو یہ ہے کہ میں دوسرے شخص کے ہر عمل کو قابلِ قدر نگاہ سے دیکھوں، اگر وہ اپنی ساری زندگی بندروں کےحالات جمع کرنے میں صرف کردے تو کہوں کہ ‘واہ جناب! کیا ہی عمدہ تحقیقی کام کیا ہے’۔دوسرے لفظوں میں نظریہء رواداری اس دعوے کے مترادف ہے کہ وہ تمام احادیث جن میں نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے نیز قرآنی آیات جن میں اہلِ ایمان کو یہ حکم دیا گیا ہے ) ان کا انکار کردوں اور انہیں ناقابلِ عمل گردانو۔(مثلا حدیث : “تم میں سے جو کوئی بھی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اسے اپنے ہاتھ (یعنی طاقت) سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے ایسا کردے، اگر اس کی استطاعت بھی نہیں رکھتا تو اپنے دل سے ایسا کردے (یعنی دل سے برا اسے برا جانے اور اس بات کا پختہ تہیہ رکھے کہ جب کبھی زبان اور ہاتھ سے اسے روکنے کی استطاعے آجائے گی تو روک دوں گا)، اور یہ (یعنی دل سے اسے ایسا کرنا) تو ایمان کا سب سے کمزور ترین درجہ ہے: (مسلم)۔ آیت :اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال و آگ سے بچاؤ؛ تحریم، 6) ۔
آزادی و مساوات کو مستقل اسلامی قدر ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام بھی تمام تصوراتِ خیر کو مساوی قرار دیتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کوئی برتر اور مکمل نظامِ زندگی نہیں بلکہ ایک ایسے نظام ہائے زندگی کا حصہ ہے جس میں تمام تصوراتِ خیر برابر ہوتے ہیں اور وہ نظام لبرل سرمایہ داری ہے۔ عالمگیریت (Globalization) کے نام پر مسلمانوں کو موجودہ نظام کے ساتھ اشتراکِ عمل کی دعوت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات سے دستبردار ہوجائیں کہ اسلام ہی حق ہے اوراور ہم لبرل سرمایہ داری کے آلہء کار بن جائیں کیونکہ موجودہ عالمگیریت کا مطلب لبرل سرمایہ داری کے عالمی غلبے کے ساوکار اور کچھ بھی نہیں۔
ظاہر بات ہے کہ اسلام کا یہ تصور درست نہیں کیونکہ اسلام کا مقصد دنیا کی ہر ریاست (چاہے وہ کیسی ہی ہو) چلانے کے لئے پرامن اور وفادار رعیت فراہم کرنا نہیں اور نہ ہی اسلام محض چند عقائد اور اصولِ اخلاق کا نام ہے جو ہر نظامِ زندگی میں کھپ سکے کیونکہ اگر یہی معاملہ ہوتا تو اسلام دیگر مذاہب سے کچھ مختلف چیز نہ ہوتا۔ اس کے برخلاف اسلام خود ایک نظامِ زندگی اور علمیت ہے جس میں عقائد، عبادات، اخؒاقیات کے ساتھ ساتھ انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام معاملات سے متعلق احکام و قوانین بھی ہیں۔ پھر اسلام کا اپنے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کہ میں بہت سے تصوراتِ حق میں سے ایک حق ہوں بلکہ وہ خود کو “الحق” (The Truth) کہتا ہے، یعنی وہ پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ صرف میرا ہی نظام برحق ہے اور اسی میں نوعِ انسانیت کی بھلائی و کامیابی ہے نیز میرے علاوہ سب دعوتیں و نظام تباہی و بربادی کے راستے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
٭ “اللہ کے نزدیک دین (یعنی زندگی گزارنے کا معتبر طریقہ) صرف اسلام ہے۔” (آؒلِ عمران؛ 19)
٭”جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے طریقے کو اختیار کرے گا تو اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہوگا اور آخرت میں وہ ناکام ہوگا۔” (آلِ عمران؛ 85)
٭ ” میرا راستہ ہی سیدھاراستہ ہے پس تم اسی کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤگے۔” (الانعام، 153)
پس اگر واقعی اسلام کا اپنے بارے میں یہ دعویٰ ہے جو اوپر بیان کیا گیا تو پھر اسلامی نقطہء نگاہ سے نظریہ Tolerance اورPlurality of Goods کی بات کرنا ہی ایک مہمل بات ہے۔ ۔ یہ بات تو پر معمولی ذہن رکھنے والا شخص بھی سمجھتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی صحیح الدماغ شخص جس شے کو حق اور جسے باطل گردانتا ہے ان دونوں کو کبھی بھی اپنی زندگی میں مساوی حیثیت نہیں دیتا اور نہ ہی انہیں پنپنے کے برابر مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص مکان تعمیر کرے اور اس میں بجلی کے دو طرح کے کنکشن اور تاریں لگوائے، ایک تو وہ جن کے آگے سوئچ اور بٹن لگے ہوں، اور دوسرے اسی دیوار میں کئی مقامات پر بجلی کی تاریں کھلی چھوڑ کر یہ کہتا پھرے کہ میں نے اپنے بچوں کو پوری آزادی دے دی ہے، چاہیں تو سوئچ بورڈ سے پنکھا چلائیں اور اور اگر چاہیں تو ننگی تاروں کو ہاتھ لگا کر کرنٹ سے مرجائیں۔ ایسے ہی ایک منزل سے نیچے دوسری منزل جانے کے لئے ایک سیڑھی بنادے، اور اسکے ساتھ بلندی سے گر کر مرنے کے لئے تین راستے بھی کھلے چھوڑ کر یہ کہے کہ میں نے سب راستوں کو برابر حیثیت دے دی ہے۔ ظاہر بات ہے کہناپنے بچوں کے لئے ایسا مکان بنانے کی ترکیب صرف کسی ذہنی مریض ہی کو سوجھ سکتی ہے ورنہ دنیا میں کوئی بھی شخص چاہے کتنا ہی آزادی کا دلدادہ کیوں نہ ہو ایسی حرکت نہیں کرتا بلکہ مکان بناتے وقت تمام احتیاطی تدابیر (Safety Measures) اختیار کرتا ہے تا کہ جس شے (یعنی زندگی کے ہلاک ہوجانے) کو برا سمجھتا ہے اس کی روک تھام کی جاسکے اور لوگوں کو اس بات کا زیادہ سے زیادہ پابند بنایا جاسکے کہ وہ ایسا طرزِ عمل اختیار کریں جس کے نتیجے میں ان کے ہلاکت میں پڑنے کے امکانات کم از کم اور حصولِ خیر کے مواقع زیادہ سے زیادہ ہوسکیں۔
پس اس اصول پر اس دعوے کی مضحکہ خیزی بھی جانچی جاسکتی ہے کہ اسلام نظریہ ء Tolerance اور Plurality of Goodsکا حامی ہے۔ وہ ایسے کہ ایک طرف تو اسلام پوری قوت کے ساتھ اپنے لئے یہ دعویٰ کرے کہ صرف میں ہی حق ہوں باقی سب باطل ہیں نیز صرف میرا راستہ ہی حقیقی کامیابی اور نجات کا ضامن ہے باقی سب جہنم و بربادی کے راستے ہیں، لیکن اس کے بعد اس اصولی دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں جہنم اور بربادی کی طرف لے جانے والی باقی تمام باطل قوتوں کا راستہ نہ صرف کھلا چھوڑ دے بلکہ ان کے فروغ کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بھی فراہم کرے۔ اگر واقعی اسلام ہی حق ہے تو یہ ماننا بھی ناگزیر ہے کہ اسلام زمین میں اپنے نظام کے علاوہ دوسرے نظام ہائے زندگی کو مغلوب کرنے کا تقاضا بھی کرے۔ یہ بات ہی سراسر مہمل ہے کہ ایک نظامِ زندگی کو باطل بھی کہا جائے اور پھر اس کا غلبہ بھی برداشت کیا جائے۔ وہ صرف فاتر العقل انسان ہی کرسکتا ہے جو بیک وقت اپنے پیش کردہ نظام کو حق بھی کہے، اس کی پیروی کا حکم بھی دے مگر ساتھ ہی اپنے ماننے والوں کو دوسرے باطل نظاموں کے اندر پرامن وفادارانہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم بھی دے۔ آخر دنیا میں وہ کون شخص ہے جو جس شے کو شر سمجھتا ہے پھر اسے پھیلنے کی مکمل آزادی اور حق بھی دے دے؟ ایسی بےوقوفی کی امید تو ایک عام انسان سے بھی نہیں کی جاسکتی چہ جائیکہ اس کی نسبت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف کرنے کی جسارت کی جائے۔
اسلام کا خود کو حق کہنا اور اسکی طرف پوری قوت سے دعوت دینا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ دوسرے نظامات کو ہٹا کر ان کی جگہ اپنا نظامِ اقتدار قائم کرنے کا مطالبہ کرے اور اپنے ماننے والوں کا طرہء امتیاز اسی کو قرار دے کہ آیا وہ اس جدوجہد میں جان ومال کھپاتے ہیں یا نہیں۔ اس معاملے میں یہ سوال ہی غیر اہم ہے کہ کفار ہماری اس جدوجہد کو برداشت کریں گے یا نہیں یا ہمیں غیرمسلموں کا تعاون حاصل کرنا ہوگا یا نہیں۔ بلاشک وشبہ اسلام امن و سلامتی کا حامی ہے مگر اس کی نگاہ میں حقیقی امن اور سلامتی وہی ہے جو نفاذِ شریعت سے حاصل ہوتی ہے۔ جو کوئی اسلام میں امن وسلامتی کا مطلب یہ سمجھا کہ شیطانی و طاغوتی نظاموں کے زیرِ سایہ کاروبارِ زندگی پورے اطمینان سے چلتے رہیں اور مسلمان کو خراش بھی نہ آئے وہ اسلام کا نقطہ نظر بالکل نہیں سمجھا۔ (جن مسلم مفکرین ( مثلاََ وحید الدین خان) کے خیال میں ‘ ہرحال میں قیامِ امن’ اسلام کا اولین اصول ہے وہ سرمایہ داری کو بطور ایک معاشرتی و ریاستی عمل اور ایک علمیت نہیں پہچانتے۔ ان مفکرین کے خیال میں حالتِ ‘امن’ گویا کسی نیوٹرل مقام کا نام ہے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں کیونکہ اصل سوال یہ ہے کہ ‘امن کس اصول کی بالادستی و غلبے پر قائم ہوا ہے؟’۔ یہ مفکرین اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ اگر واقعی ہر حال میں امن اسلام کا اولین اصول ہے تو حضور ﷺ نے مشرکین مکہ کی درخواست کے باوجود صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دے کر مکہ پر حملہ کیوں کیا تھا؟) اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام کو کفر و طاغوت کا قائم کردہ امن نہیں بلکہ اپنا قائم کردہ امن مطلوب ہے اور اسی میں وہ انسان کی سلامتی کو دیکھتا ہے۔ کفر و طاغوت کی بالادستی پر مبنی قیامِ امن کا مطلب صرف یہ ہے کہ نوعِ انسانیت اطمینان و سکون کے ساتھ جہنم کے راستے پر چلنے پر راضی ہوجائے اور مسلمان ٹس سے مس نہ ہوں۔ ظاہر ہے قیامِ امن کا یہ تصور اس مقصد ہی کے خلاف ہے کہ جس کے لئے امتِ مسلمہ برپا کی گئی ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا: “تم دنیا میں وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لئے برپا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو۔’ (آل عمران؛ 110)

اسلام اور مغربی تصور امن و رواداری:
مغرب کا یہ وعویٰ کہ لبرل سیکولر ریاست خیر کے بارے میں غیر جانبدار اور اسی لئےTolerant ہوتی ہے، ایک چھوٹا دعویٰ ہے کیونکہ خیر کے معاملے میں غیرجانبداری کا رویہ ممکن ہی نہیں ۔ لبرل جمہوری ریاست بھی ایک مخصوص تصورِ خیر کو تمام دیگر تصوراتِ خیر پر بالاتر کرنے ہی کی کوشش ہوتی ہے اور وہ تصورِ خیر آزادی ہے، یعنی یہ تصور کہ تمام تصوراتِ خیر مساوی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا کہ تمام تصورات خیر مساوی ہیں غیر جابندار رویہ نہیں بلکہ بذات خود خیر کا ایک مستقل مابعد الطبیعیاتی تصور ہے کہ ‘اصل خیر تمام تصوراتِ خیر کا مساوی ہونا ہے’ اور اسی تصورِ خیر کے تحفظ اور فروغ کی لبرل جمہوری دستوری ریاست پابند ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا کہ لبرل جمہوری ریاست کوئی لئےTolerant ریاست ہوتی ہے ایک فریب ہے کیونکہ اپنے دائرہ عمل میں یہ صرف انہیں تصوراتِ خیر کو برداشت کرتی ہے جو اپنے تصورِ خیر (یعنی تمام تصوراتِ خیر کی مساوات و لایعنیت) سے متصادم نہ ہو، اور ایسے تمام تصوراتِ خیر جو کسی ایک چاہت کو بقیہ تمام چاہتوں سے بالاتر سمجھ کر اس کی برتری کے قائل ہوں ان کی بذریعہ قوت بیخ کنی کردیتی ہے ۔
درحقیقت خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی اتنی ہی Dogmatic (راسخ العقیدہ) اور Intolerant (ناروادار) ہوتی ہے جتنی کوئی مذہبی ریاست کیونکہ دونوں ہی اپنے تصوراتِ خیر سے متصادم کسی نظریے کی بالادستی کو روا نہیں رکھتیں۔ خوب یاد رہے کہ تمام تصوراتِ خیر کی لایعنیت کا مطلب غیرجانبداری نہیں بلکہ مساوی آزادی (سرمائے کی بالادستی) بطورِ اصل خیر ہے۔ یہ اسی کا مظہر ہے کہ پختہ (Matured) جمہوری ریاستوں میں ارادہء انسانی یعنی اس کے حق کی بالادستی تمام تصوراتِ خیر پر غالب آجاتی ہے اور کسی مخصوص خیر کی دعوت دینا ایک لایعنی اور مہمل دعوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی ریاستوں میں آپ کسی مخصوص خیر (مثلاََ مذہبیت) کے اظہار کو ‘بطور ایک حق’ کے پریکٹس (Practice) تو کرسکتے ہیں مگر اسے دیگر تمام تصوراتِ خیر پر اور زندگی گزارنے کے دوسرے طریقوں پر غالب کرنے کی بات نہیں کرسکتے کہ ایسا کرنا ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امن کا کوئی غیر اقداری اور آفاقی تصور (Universal Conception of Peace) ممکن نہیں، ہر نظام کا ایک مخصوص تصورِ امن ہوتا ہے اس کی وجہ حقوق کی تعین وتفسیر میں اختلاف پایا جانا ہے۔ امن کا مطلب یہ ہے کہ ایک نظامِ زندگی فرد کو جن حقوق کا اہل قرار دیتا ہے وہ نظام فرد کے ان حقوق کو محفوظ کرکے اسے ان حقوق کا مکلف بناتا چلا جائے۔ چونکہ حقوق کی تعین وتفسیر میں اختلاف ہے لہٰذا امن کے تصورات بھی جداگا نہ ہیں۔ مثلاََ اشتراکی نظام فرد کو نجی ملکیت کا حق نہیں عطا کرتا لہٰذا اشتراکی نظریہ کے مطابق فرد سے نجی ملکیت چھین کر سرکاری تحویل میں لے لینا کوئی ظلم نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں لبرل نظام جس اصول (نجی ملکیت کی حرمت) کو امن کا لازمی جزو گردانتا ہے، اشتراکیت عین اسی شے کو ظلم اور فساد کی بنیاد بھی کہتی ہے۔ اس بنیادی نکتے کو نہ سمجھنے اور امن کو آفاقی غیر اقداری تصور فرض کرنے کی وجہ سے مسلم مفکرین لبرل فریم ورک کے فراہم کردہ حقوق (مثلاََ انفرادی عبادات کی ادائیگی کی اجازت، جان ومال کی حرمت وغیرہم) کی روشنی میں کسی علاقے کی اسلامیت و کفر کو جانچنے کی غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔ اسلامی نقطہء نگاہ سے امن کامطلب صرف جان و مال کا تحفظ ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ایک فرد خود کو اس چیز سے بھی محفوظ سمجھے کہ اس کی اولاد زنا کرے، ظاہرہے لبرل ریاست فرد کو یہ تحفظ فراہم نہیں کرتی۔ پس معلوم ہوا کہ شریعتِ اسلامیہ کے علاوہ کسی دوسرے شے کی بنیاد پر قائم کردہ امن ہرگز معتبر نہیں کیونکہ امن کا مطلب صرف شریعت کی عطا کردہ حقوق کو محفوظ و نافذ کرنا ہے، شریعت کے علاوہ حقوق کی کسی دیگر تفسیر کو محفوظ و نافذ کرنا درحقیقت ظلم و فساد فی الارض کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ شرعی حقوق کا تحفظ و نفاز اسلامی ریاست ہی کرسکتی ہے لہٰذا امن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب طاغوتی ریاست معطل ہوکر اسلامی ریاست قائم ہوجائے، جب تک ایسا نہ ہوگا امن قائم نہیں ہوسکتا۔
قرآنی آیت لا اکراہ فی الدین ‘دین میں کوئی زبردستی نہیں’ (البقرۃ؛ 256) کو بھی اس کے عمومی معنیٰ کی آڑ میں اسلام میں آزادی اور رواداری کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اس کا اصل مفہوم بھی قریب قریب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا جیسا کہ آیت مکمل پڑھنے سے عین واضح ہوجاتا ہے۔ اس آیت کو یہ عمومی پہنانا کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر ہے ہی نہیں آیت کی انتہائی غلط تعبیر ہے، کیونکہ اس کی تشریح کے بعد اسلام کے تمام معاشرتی و سیاسی احکامات کالعدم ہوجائیں گے۔ مثلاََ اسلامی ریاست میں کوئی شخص چوری کرے اور جب ہاتھ کاٹنے کی باری آئے تو کہہ دے لا اکراہ فی الدین۔ اسی طرح اس آیت سے تمام تصوراتِ زندگی کی اخلاقی و معاشرتی مساوات (Plurality of Goods) کا اصول نکالنا بھی سراسر غلط ہے کیونکہ اگرآیت کو پورا پڑھ لیاجائے تو اس نظریے کی تردید ہوجاتی ہے۔ مکمل آیت کا ترجمہ یہ ہے:
“دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں، بےشک ہدایت گمراہی سے خوب واضح ہوگئی ہے، پس جو کوئی طاغوت (بندگی کا ناکار کرنے والے) کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا تو اس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہین اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے، اللہ مددگار ہے ایمان والوں کا وہ انہیں (جہالت کی ) تاریکیوں سے (ہدایت کی) روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے۔ اور جنہوں نے (ہدایت) کا انکار کیا ان کے ساتھی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں، یہی لوگ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔” (البقرۃ؛ 256)
قرآن نے ہدایت و خیر کے لئے لفظ ‘نور’ مفرداور گمراہی کے لئے ‘ظلمات’ جمع استعمال کرکے یہ بتادیا کہ حق اور خیر اصلاََ صرف ایک ہے جبکہ جہالت کی کئی شکلیں ہیں ۔ خوب یاد رہیں کہ ادارہء خداوندی سے باہر یا اس سے ماورا کسی حق اور خیر کا کوئی وجود ہے ہی نہیں، خیر اور حق وہی ہے جسے اسلام خیر اور حق کہتا ہے نیز اسلامی نظامِ زندگی میں ارادہء خداوندی سے متصادم تصورات ہرگز بھی مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ لازماََ وہی پوزیشن اختیار کرنا ہوتی ہے جس کے لئے قرآن صاغرون (حالتِ مغلوبیت، توبۃ؛ 29) کی اصلطلاح استعمال کرتا ہے۔
قرآنی آیت کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسلام اپنے عقائد کسی سے زبردستی نہیں منواتا کہ یہ بذریعہ قوت منوانے کی چیز نہیں۔ اسلام اپنے نظام عمل میں ذاتی عقائد اور عبادات اختیار کرنے کی آزادی دینے پر تو تیار ہے مگر وہ اس بات کو ہرگز گوارہ نہیں کرتا کہ خدا کے قوانین معاشرت و ریاست کے سوا کسی اور کے بنائے ہوئے قوانین کی عملداری مخلوق خدا پر قائم و دائم ہو اور خدا کی زمین پر اس کے باغیوں کا غلبہ ہو نیز مسلمان ان کے تابع ہوکر اطمینان سے زندگی بسر کریں۔ اگر مسلمان ‘مذہبِ کفر؛ میں دخیل نہیں ہوں گے تو کافر ‘مذہبِ اسلام’ میں مداخلت کرتے رہیں گے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی زندگی کے بہت حصے پر کفر جاری وساری ہوگا (جیسا کہ موجودہ حالات میں عین واضح ہے کہ کفر اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام ہر حملہ آور ہے)۔ لہذا بجائے اس کے کہ یہ مداخلت کفار کی طرف سے ہو،اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان آگے بڑھ کر نظامِ زندگی پر قبضہ کرلیں اور پھر جہاں تک ذاتی مذہبی عقائد و عبادات کا تعلق ہے غیر مسلموں کے ساتھ لااکراہ فی الدین کا معاملہ کیا جائے، یہی درست اسلامی تصورِ رواداری ہے کہ اسلام کے بجائے کفر حالتِ مغلوبیت کا شکار ہو۔ دوسروں کو ان کے مسلک پر چلنے کی دعوت بے شک رواداری ہے مگر یہ کوئی رواداری نہیں کہ اپنے طریقہء حیات کے خلاف اپنے اوپر دوسروں کا طریقہ مسلط کرلیا جائے۔
اسی طرح بعض جدید مفکرین نے قرآنی آیت:’اے نبی ﷺ! آپ تو نصیحت کرنے والے ہیں، ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں’ (الغاشیہ:21-22)
سے یہ مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی کہ علمائے دین کا کام محض دعوت دیا ہے نہ کہ غلبہء دین کے لئے کوئی سیاسی صف بندی وغیرہ کرنا۔ آیت کی یہ تشریح کسی ایک قرآنی آیت کو قرآن کی عمومی تعلیمات سے ہٹا کر معنیٰ نکالنے کی عمدہ مثال ہے۔ آیت کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص معقول دلیل اورنصیحت کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتا اسے زبردستی حق قبول کروایا نہیں جائے گا۔ ویسے بھی رحمت اللعالمین ﷺ کے قلب مبارک پر کفار کا نکارِ اسلام بہت ہی شاق گزرتا اور آپ ﷺ اس رنج میں مبتلا رہتے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہین لاتے، تو آیت کریمہ میں اللہ تعالی اپنے حبیب کریم ﷺ کی تسلی کے لئے فرمارہے ہیں کہ اے حبیبﷺ ! آپ فکر مت کیجئے، ان کے ایمان قبول نہ کرنے کی کوئی ذمہ داری آپ ﷺ پر نہیں کیونکہ آپؐ ان پر بطورِ داروغہ مسلط نہیں کئے گئے کہ انہیں ایمان قبول کروانا آپؐ کے فرائض نبوت میں شامل ہو۔ پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہ آیت مکی دور سے متعلق ہے جہاں مسلمانوں کو عملاََ سیاسی غلبہ حاصل نہ ہوا تھا، اس کے مقابلے میں مدنی آیتوں میں واضح طور پر اقامتِ دین کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآنی آیات کے معنیٰ کو درست طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مکی اور مدنی آیات کو ملا کر پڑھا جائے تاکہ آیات کے عموم اور خصوص کا درست اطلاق معلوم ہوسکے۔ اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ دین محض نصیحت ہی کا نام ہے تو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بےشمار معاشرتی و ریاستی احکامات ہمیشہ طاقِ نسیاں میں ہی پڑے رہیں گے۔
*اسلام اور تبلیغِ کفر کی اجازت:
یہیں سے نقطہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام اپنی سرحدوں میں تبلیغِ کفر کی اجازت کیوں نہیں دیتا۔ کسی شخص کا خود اپنی ذاتی زندگی میں ایک عقیدے کو ماننا اور بات ہے اور اس کا اپنے نظریات کے مطابق اجتماعی زندگی کی تعمیر کی دعوت دینا نیز اس کے مطابق نظامِ زندگی بنانا اور اسے بذریعہ قوت خلقِ خدا پر نافذ کرنا ایک دوسری چیز ہے۔ حق تو یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے باغی ہوں انہیں خدا کی زمین میں بسنے کا حق بھی نہ ہونا چاہئے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی حلم ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو نہ صرف یہ کہ جینے کی مہلت دیتا ہے بلکہ انہیں اپنی ذاتی زندگی میں کفر پر قائم رہنے کا اختیار بھی دیتا ہے جب تک کہ ان کی بغاوت دوسرے بندگانِ خدا کے لئے فتنہ و فساد کا باعث نہ بن جائے۔ اپنے اصولی دعوے کے بعد اسلام کے لئے یہ بات پسند کرنا تو درکنار قبول کرنا بھی مشکل ہے کہ بنی نوع انسان کے اندر وہ دعوتیں پھیلیں جو اسے ابدی ہلاکت کی طرف لے جانے والی ہوں۔ وہ داعیانؐ باطل کو یہ رعایت دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ جس آگ کے گڑھے کی طرف وہ خود جارہے ہیں دوسروں کو بھی اس کی طرف کھینچ کر لے جائیں۔ زیادہ سے زیادہ جس چیز کو وہ بادلِ نخواستہ قبول کرتا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص خود کفر کے راستے پر قائم رہنا چاہتا ہے اسے اختیار ہے کہ اپنی فلاح کے راستے ک چھوڑ کر بربادی کے راستے پر چلتا رہے۔ انسانیت کی خیر خواہی اور عدل کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر بالجبر لوگوں کو کفر کے زہر سے بچانا ممکن ہوتا تو اسلام ہر شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے یہ زہر پینے سے روک دیتا مگر ایمان ایسی شے نہیں جو بذریعہ قوت کسی کے دل میں ڈال دی جائے۔ فرد کی اس جبری حفاظت سے اجتناب کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام کفر اور جہنم کی طرف جانے کو فرد کا ‘حق’ سمجھتا ہے اور انہیں روکنے کو ‘باطل’ گردانتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کفر کے تباہ کن نتائج سے اس وقت تک نہیں بچایا جاسکتا جب تک کہ وہ خود کفر کے نقصانات کا معترف ہوکر مسلمان نہ ہوجائے۔ اس لئے اسلام یہ کہتا ہے کہ کفار کو دینِ حق پر ایمان لانے کے لئے مجبور نہ کرو لیکن غلبہء کفر کے فتنے کو پوری قوت سے مٹانے کی کوشش کرو اور جو لوگ میرے دین کو نہیں مانتے وہ چھوٹے ہوکر زندگی بسر کریں۔ کوئی فرد اگر اپنی انفرادی زندگی میں کفر اختیار کرنا چاہتا ہے تو کرے مگر اسے یہ حق نہیں کہ وہ بندگانِ خدا پر باطل نظام بہ اکراہ مسلط کرکے انہیں جہنم کی طرف گھسیٹ کر لے جائے، اس سے بہتر یہ ہے کہ مسلمان ان پر اکراہ کریں اور انہیں اس مقام پر لا کھڑا کریں جہاں اگر وہ چاہیں تو باآسانی جنت کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ‘اسلام اس قیمت پر حق کی اشاعت کی دعوت خریدنا نہیں چاہتا کہ اس کے جواب میں اسے جھوٹ کی دعوت دینے کی آزادی دینی پڑے ۔ پھر کفر کی طرف دعوت و تنلیغ دو میں سے کسی ایک حال سے خالی نہیں ، یا تو وہ سیاسی نوعیت کی دعوت ہوگی اور یا پھر اخلاقی۔ اگر وہ دعوت سیاسی نوعیت کی ہو اور اس کا مقصد نظامِ زندگی میں تغیر ہے تو جس طرح دنیا کی ہر ریاست ایسی دعوت کی مزاحمت کرتی ہے اسی طرح اسلام بھی اس کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر وہ دعوت محض مذہبی و اخلاقی نوعیت کی ہے تو دنیاوی ریاستوں کے برخلاف اسلام اس کی اجازت بھی نہیں دے سکتا کیونکہ کسی اخلاقی و اعتقادی گمراہی کو اپنی نگرانی و حفاظت میں سر اٹھانے کا موقع دینا اس مقصد ہی کی ضد ہے جس کے لئے اسلام زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ دنیاوی ریاستوں کو چونکہ فرد کی اخروی کامیابی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا لہذا وہ اعتقادی گمراہی کا سدباب کرنے کی فکر نہیں کرتیں۔ البتہ جس اخلاقی قدر پر ان کی ریاست کا نظام قائم و دائم ہو (مثلاََ سچ پولنا، ریاست سے وفاداری وغیرہ ) اس کے خلاف دعوت دینے والوں کو بذریعہ قوت روک دیتی ہیں۔ اسلام کے نزدیک انسان کا اصل مسئلہ بیماری یاغربت نہیں بلکہ اپنے رب کا انکار اور اس سے کرکشی و بغاوت (فسق، کفر، شرک، طاغوت) ہے اور بغاوت کا فروغ کبھی بطور پالیسی اختیار نہیں کیا جاتا۔ا س رویے کی وضاحت اس مثال سے کی جاسکتی ہے کہ جب کبھی یہ کہا جائے کہ ٹی وی بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دے رہا ہے تو یہ عجیب وغریب فلسفہ سننے کوملتا ہے کہ ‘جناب ٹی وی پر تو مذہبی چینلز بھی آتے ہیں، تو جو چاہے فلموں اور گانوں کے بجائے ان چینلز کو دیکھ لے۔’ اس فلسفے کو بودا پن اوپر بیان کی گئی تفصیلات سے واضح ہوجانا چاہئے۔ اس مثال میں اصل سوال یہ نہیں کہ آیا ٹی وی پر مذہبی پروگرام آتے ہیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اگر فحاشی و عریانی پھیلانا برائی اور جرم ہے تو اس کے فروغ کو بطورِ ایک ‘حق’ اور ‘پالیسی’ کیسے اختیار کرلیا جائے؟ اس دلیل کا تقاضآ تو یہ ہے کہ ہم افیون اور چرس بیچنے والے کو بھی کاروبار کے فروغ کی کھلی چھٹی دے دیں کیونکہ وہ بھی تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب بازار میں کھانے کی بے شمار اشیاء موجود ہیں، لوگ چاہیں تو میری چرس کے بجائے انہیں استعمال کرلیں۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ:
٭آزادی رد ہے عبدیت کا
٭مساوات رد ہے نظامِ ہدایت و تزکیہ کا
٭ترقی رد ہے دنیا کے دارالامتحان ہونے اور معرفت خداوندی کے امکان کا
٭ انسانیت رد ہے مسلمانیت کا
٭ Plurality of Goods رد ہے اسلام کے الحق ہونے کا
٭ Tolerance رد ہے ایمان اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا
(مضمون کا یہ حصہ مولانا مودودیؒ کے مضامین ‘رواداری کا غیراسلامی تصور’ (تفہیمات جلد دوئم) اور ‘اسلام میں مرتد کی سزا’ سے ماخوذ ہے۔)
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password