فیمن ازم

خواتین کی آزادی کے نام سے مشہور بنیاد پرست تحریک حقوقِ نسواں ہے جس نے عصر حاضر میں سماجی سطح پر انسانی رشتوں میں کئی انقلابی تبدیلیاں برپا کی ہیں۔ تحریکِ حقو ق نسواں جدید دور کی چیز نہیں۔ اس کی تاریخی مثالیں قدیم دور میں بھی ملتی ہیں۔ افلاطون کی مشہور کتاب ’’Republic’’میں ان خاندانی اور سماجی کرداروں کو ختم کرنے پر اصرار پایا جاتا ہے جن کی تشکیل صنفی بنیاد پر کی جاتی تھی۔ قدیم یونانی کلاسیکی کامیڈی Lipsistrata میں اور حال ہی میںHenrick Ibsen کے ڈرامے “A Doll’s House”میں نسوانی نظریات کی ترویج کی گئی ہے۔
وکٹورین ماہر معاشیات اور فلسفی جان اسٹورٹ مل(John Stuart Mill) اور جرمن سوشلسٹ فریڈرک اینگلز (Fricdrich Engles)نے جو مضامین بہ عنوانThe Subjection of Women (عورتوں کی غلامی) ۱۸۶۹ء میں لکھے تھے، انہوں نے تحریک نسواں کی بنیاد ڈالی۔۱۸۸۴ء میں اینگلز نے کھلے عام اعلان کیا کہ شادی کا بندھن غلامی کی ایک تبدیل شدہ بے کیف صورت ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں زور دیا کہ اسے فوری ختم کیا جائے، اور بچوں کی پرورش کے لیے عوام کی ذمہ داری تجویز کی۔
امریکہ میں تحریک نسواں ان دو اہم وجوہات کی بنا پر سامنے آئی: غلامی کے خاتمے کی تحریک اور Temperence Movementکی بدولت شراب پر قانونی پابندی۔ جن خواتین نے ان تنظیموں میں شمولیت اختیار کی انھوں نے محسوس کرلیا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیابی جلد حاصل کرلیں گی، اور انھوں نے جلد ہی سیاسی طاقت بھی حاصل کرلی۔Seneca Falls Convention ۱۹۴۸ء میں منعقد ہوا، جو اس تحریک کے لیے تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں حقوق نسواں کے علم برداروں نے خواتین کے لیے ایک منشور اور حقوق کا مطالبہ کیا۔ اس میں انھوں نے شوہر کے ساتھ برابری، روزگار میں جنسی امتیازات برتنے کی مخالفت، طلاق کے حقوق اور مسا وی تنخواہ کا مطالبہ بھی پیش کیا۔ جس وقت خواتین کی محرومیوں کی یہ تحریک مقبول ہورہی تھی اُس وقت قدامت پسند حقوقِ نسواں کے حامیوں نے اپنی سرگرمی اور مطالبات کو محدودکرلیا اور خواتین کی محرومیاں ان کا واحد ہدف ٹھہریں 1920.ء میں امریکی آئین میں انیسویں ترمیم کے بعد خواتین کو ووٹ دینے کی منظوری دے دی گئی، اور نسائی تحریک کے کارکنان کی اکثریت نے اس ترمیم کے بعد عورتوں کی فلاح و بہبود کا حق حاصل کرلیا۔ اس کے بعد حقوقِ نسواں کی تحریک ۴۰ سال تک غیر فعال ہوگئی۔
14دسمبر1961ء کو صدر جان ایف کینیڈی نے خواتین کی حیثیت پر صدارتی کمیشن قائم کرکے صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے۔ یہ کمیشن عورتوں کے ساتھ برتے جانے والے تعصبات، خواتین کے حقوق کی مکمل بحالی، پرانے رسوم و رواج کا مقابلہ کرنے کے لیے حائل رکاوٹوں کی تحقیقات اور ان پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے تھا۔ یہ صدارتی کمیشن پہلا سرکاری ادارہ تھا جو خواتین کے حقوق کے تعین کے لیے بنایا گیا تھا۔چناں چہ”Silent fifties”کے بعد1960ء کی ابتدا میں حقوق نسواں کے علم برداروں نے تصادم کی سیاست شروع کی اور اس کے لیے انھوں نے دھرنے دیے اور مارچ کیے۔ کالج اور یونی ورسٹی کی طالبات نے ان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ان خواتین نے جو Seneca Falls Convention ۱۹۴۸ء میں شامل ہوئی تھیں اور انھوں نے صرف شرابی شوہروں اور خواتین سے ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کیا تھا، ان کی کامیابی صرف یہ تھی کہ انھوں نے شادی سے متعلق قانونی، جائداد پر اختیار اور مردوں کے مساوی تنخواہوں کے حصول جیسے حقوق حاصل کرلیے تھے۔

حقوق نسواں کی جدید تحریک:
اس کے برعکس حقوقِ نسواں کے جدید جانشینوں کے مطالبات کہیں زیادہ بنیاد پرست ہیں۔۲۶ اگست ۱۹۷۰ء کو سب سے بڑا اور پُرجوش مظاہرہ Fifth Avenue نیویارک میں منعقد ہوا، جس میں سیکڑوں خواتین نے پلے کارڈ اٹھاکر نیویارک شہر میں مارچ کیا۔ ان کارڈز پر یہ نعرے درج تھے:
خواتینِ خانہ بلا معاوضہ غلام ہیں! گھر کے کام کاج کے لیے ریاست پیسہ فراہم کرے!
مظلوم خواتین رات کاکھانا نہ پکائیں! آج رات اپنے شوہر کو بھوکا مرنے دیں! قربانی دینا ترک کردیں!
شادی نہ کر یں! بچوں کے پوتڑے دھونا ترک کردیں! اسقاط حمل کو قانونی بناؤ! انحصاری کی حالت میں زندہ رہنا کوئی اچھا طرزعمل نہیں!
آج حقوق نسواں کے علم بردارکسی بھی ایسے سماجی نظام کے مخالف ہیں، جس کی تشکیل میں صنفی امتیاز برتا جائے۔ اس تحریک کے حامی افراد عورتوں اور مردوں کے مابین قطعی برابری پر اصرار کرتے ہیں اور جسمانی فرق پر توجہ نہیں دیتے، وہ عورت اور مرد کے جسمانی فرق کو تسلیم نہیں کرتے، وہ بیوی کو گھریلو خاتون اور ماں اور شوہر کو نان و نفقہ فراہم کرنے والا اور خاندان کا سربراہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کے جنسی ملاپ میں‘ عورت کو غیر فعال نہیں بلکہ مردوں کی طرح فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھوں نے قانونی شادی کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ گھر اور خاندان عورت کی مکمل جنسی آزادی کی راہ میں حا ئل ہیں، بچوں کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داری عوام پر ہونی چاہیے۔ ان کا اصرار ہے کہ تمام عورتوں کو اسقاطِ حمل پر مکمل اختیار دیا جانا چاہیے۔ ان لوگوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مانع حمل کے تمام آلات کسی بھی عورت کو خواہ وہ کسی بھی عمرکی ہو، بغیر کسی ڈاکٹر کے نسخے کے کسی بھی میڈیکل سینٹر سے بہ آسانی دستیاب ہونے چاہئیں، وہ تمام پابندیاں ختم کی جائیں جو ان چیزوں پر لاگو ہیں۔ اسقاطِ حمل کے تمام قوانین ختم کیے جائیں اور عورتوں کو اس بات کا قانونی اختیار حاصل ہو کہ وہ حمل کے کسی بھی مرحلے پر اسقاط حمل کرسکیں۔ اسقاطِ حمل مطالبہ کرنے پر ہی دستیاب نہ ہو، بلکہ ریاست کی جانب سے بلا معاوضہ ہر اُس عورت کو فراہم کیا جائے جو ایک یا اس سے زیادہ اسقاط حمل چاہتی ہو، تاکہ غریب خواتین بھی اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
حقوقِ نسواں کی تحریک کے حامیان اس مطالبے پر زور دیتے رہے کہ تعلیمی اداروں میں نصاب لڑکے اور لڑکیوں کے لیے مخلوط ہونے چاہئیں، یعنی ہوم اکنامکس کو لڑکیوں کے لیے اور شاپ میکینکس کو لڑکوں کے لیے مخصوص نہیں کرنا چاہیے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ جمنازیم اور فزیکل ایجوکیشن نہ ہو، لڑکیوں کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ کھیل کے تمام شعبہ جات میں چاہے وہ جسمانی ہی کیوں نہ ہو، لڑکوں کے شانہ بشانہ مقابلہ کریں۔ ذرائع ابلاغ کے اداروں میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں تاکہ صنفی امتیاز کو ختم کیا جاسکے اورخواتین کو مردوں کے مساوی تمام شعبہ ہائے زندگی میں پیش کیا جائے۔
حقوق نسواں کے حامی، بچوں کی کتابوں پر بھی اس لیے تنقید کرتے ہیں کہ وہ اپنی کہانیوں میں ایک ماں پر مشتمل خاندان کا ذکر کرتی ہیں، ’’غیر شادی شدہ ماں‘‘ اور ’’طلاق یافتہ عورت‘‘ کو ما ڈل کے طور پر پیش نہیں کرتیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ لڑکیوں کو ایسے کھلونے دیے جائیں جن سے کھیل کر وہ جنسی تلذذ حاصل کرسکیں، جب کہ لڑکوں کو DOLLS دی جائیں تاکہ وہ اس سے تسکین پا سکیں۔ بنیاد پرست حقوق نسواں کے علم برداروں نے یہ بھی تجاویز دیں کہ روایتی شادی کے طریقہ کار کے بجائے عورتوں اور مردوں کو مشترکہ قومی فلاح وبہبود کے تحت بسایا جائے، اور بچوں کی ذمہ داری عوام پر عائد کی جائے۔ عوام الناس کو۲۴گھنٹے کی بنیاد پر بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے اسی طرح مفت فراہم کیے جائیں جس طرح پارک، لائبریری اور تفریحی سہولیات امریکہ میں موجود دوسری کمیونٹیز کو فراہم کی جاتی ہیں، لیکن چائلڈ کیئر سینٹر کو امریکہ میں غیر سنجیدہ انداز میں لیا جاتا تھا۔ عورت کو مالی طور پر آزاد کیا جائے اور کسی بھی پیشے کو اختیار کرنے پر بہ حیثیت عورت کے، اس پر پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے۔
حقوقِ نسواں کے علم برداروں نے اس تحریک کے ذریعے متبادل انتخاب کے نام پر عورتوں میں سماجی سطح پر ہم جنس پرستی کو فروغ دیا۔ تحریک نسواں کی ایک شاخ Homophile Orgnization ہے جو The Daughters of Bilitisکے نام سے مشہور ہے، جس کا مقصد نسائی ہم جنس پرستی کا فروغ ہے۔نسائی تحریک کے ارکان جو اس تحریک سے قبل نسائی ہم جنس پرست تھے اور جو اس میں شمولیت کے بعد ہم جنس پرست ہوگئے۔ مؤخر الذکر نسائی تحریک کے علم برداروں کے لیے عورتوں کی ہم جنس پرستی سیاسی احتجا ج کی ایک شکل ہے۔ حقوق نسواں کے علم برداروں کے نزدیک ہم جنس پرستی آزادی حاصل کرنے کا ایک ایسا راستہ ہے جو ہمیں مردوں کے جبر سے آزاد کردے گا۔
فیمنسٹ تحریک کا آخری نتیجہ کیا نکلے گا ؟ تحریک نسواں کتنی غیر فطری اور سماج کے لیے تباہ کن ہے، واضح ہے۔ معاشرتی، خاندانی اخلاقی اور روحانی اقدار کا بدترین زوال ہی نتیجہ ہے۔ بشریات اور تاریخ کے طالب علم تحریکِ نسواں کی بے اعتدالی پر بالکل شک نہیں کر سکتے ۔ کیوں کہ تمام انسانی ثقافتیں جنھیں ہم تاریخ اور قبل از تاریخ کے زمانوں سے جانتے ہیں، ان میں مردوں اور خواتین کے درمیان واضح امتیاز روا رکھا گیا ہے اور ان کے سماجی کردار بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ گھر اور خاندان کی شکست و ریخت، سربراہ کے کردار کا نقصان اور جنس کی مکمل آزادی کسی بھی قوم کی راست تباہی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
مریم جمیلہ

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password