آہستہ ساربان یہ آبگینے ہیں !

مہذب نظام حیات ہوں یا معاشرے ہر دو میں کمزور طبقات کے لیے خصوصی رعایت رکھی جاتی ہے جیسے بزرگ معذور بچے اور عورتیں۔ سوال یہ ہے کہ برابری کا دعوی کرکے عورت اس رعایت سے محروم کیوں ہونا چاہتی ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ غیر مہذب معاشروں میں ان ہی کمزور طبقات کو کچلا اور دبایا جاتا ہے۔ جب یہ کمزور طبقات ایسے ناانصافی پہ مبنی معاشرے میں اوپر اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو مزید جبر کا شکار ہوتے ہیں۔ ان پہ سماج سے بغاوت کا الزام بھی لگتا ہے اور وہ جوابی جبر کا شکار بھی ہوتے ہیں۔تاریخ اس پہ گواہ ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستانی عورت اس قدر جبر کا شکار ہے کہ اسے بغاوت کے بغیر اس سے چھٹکارا نہیں ملے گا؟
اس کا جواب ہے کہ ایسا مطلقا نہیں ہے یعنی ہر عورت ظلم زیادتی جبر یا استحصال کا شکار نہیں ہے لیکن بہت بڑی تعداد ایسی ہے بھی جو کسی نہ کسی صورت استحصال کا شکار ہے۔ اس میں دیہی یا شہری پڑھی لکھی یا ان پڑھ امیر یا غریب یا ایسے کسی بھی متضاد سیٹ آف کانٹیکسٹ کی قید نہیں ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ کوئی بہت پڑھی لکھی شہری خاتون بہت نامساعد حالات میں زندگی گزارنے پہ مجبور ہے لیکن ایک ان پڑھ دیہی عورت مزے میں زندگی گزار رہی ہے۔
آپ مولویوں کو بہت گالیاں دینے کے شوقین ہیں لیکن میں نے انہیں بیویوں کے معاملے میں بڑا کشادہ دل، فیاض اور محبت کرنے والا پایا ہے اور وہ عام طور پہ دوسری شادیاں بھی نہیں کرتے جبکہ نہایت لبرل افراد کو بیویوں کے حق میں جلاد اور دوسری عورتوں پہ بلاتکلف منہ مارنے کا عادی دیکھا ہے جس سے ان کی بیویاں اذیت میں رہتی ہیں۔عورت کے مسائل کی جڑ اسی سماجی بنت میں پیوست ہے جہاں خود مرد کا استحصال ہورہا ہے۔جس سماج میں طاقتور کمزور پہ حاوی ہے اور بلا خوف احتساب اس کا استحصال کئے جارہا ہے۔۔
میں اس نظریے کی حامی نہیں ہوں کہ عورت معاشی طور پہ مرد پہ انحصار کرتی ہے اس لیے استحصال کا شکار ہوتی ہے بلکہ میرا مشاہدہ ہے کہ عورت فطری طور پہ کمزور ہے اس لیے استحصال کا شکار ہوتی ہے۔ایسا نہ ہوتا تو ایلیٹ کلاس کی عورت کبھی جبر کا شکار نہ ہوتی لیکن وہ ہوتی ہے اور شاید لوئر کلاس کی عورت سے زیادہ ہوتی ہے۔ میرا حلقہ احباب ان ہی لوگوں پہ مشتمل ہے اور میں نے ایسی دردناک کہانیاں سن رکھی ہیں جس کا عام عورت تصور بھی نہیں کرسکتی۔ کیا مغرب جس سے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ درامد کیا گیا ہے تمام تر قانونی تحفظ کے باوجود مرد کے جبر کا نشانہ نہیں بنتی؟ مغربی معاشرہ جسے فلاحی ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور جہاں عام طور پہ استحصال آسان نہیں ہے وہاں بھی عورت کبھی جانتے بوجھتے اور کبھی انجانے میں دردناک تشدد کا نشانہ بنتی ہے حالانکہ اس کے تحفظ کے لیے ریاست اور قانون دونوں موجود ہیں اور وہ معاشی طور پہ مرد پہ ڈیپنڈنٹ بھی نہیں ہے۔
مسئلہ بس یہی ہے کہ وہ فطری طور پہ کمزور ہے۔ اسے گھیرنا نشانہ بنانا فریب دینا اور اس پہ ذہنی جسمانی اور اخلاقی تشدد کرنا بہت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین فطرت یعنی اسلام نے اسے محض عام قانونی نظام انصاف یا مروجہ سماجی روایات کے رحم وکرم پہ نہیں چھوڑا بلکہ مردوں کی نفسیاتی اور اخلاقی تربیت پہ زور دیا۔ انہیں تاکید کی کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں۔ انہیں حکم دیا کہ وہ عورتوں کے ساتھ نرمی کا برتاو کریں۔ انہیں وراثت میں حصہ دیں۔ ان کے نکاح کردیا کریں ان کا تحفظ کریں ان سے نکاح کریں چوری چھپے آشنائیاں نہ کریں ان کی عزت کریں ان کے منہ پہ نہ ماریں۔ انہیں نوید سنائی کہ ان میں بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں اور ان میں بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔ پیدا کرنے والے حکیم کو علم ہے کہ مرد جارح ہے زور آور ہے اور حدوں سے نکلنے والا ہے۔ اسے عام قانون بھی روک نہیں پائے گا اس لیے اسے ایسے سماج کی تشکیل کا حکم دیا جہاں عورت زیادہ سے زیادہ محفوظ رہ سکے اور اس کے اخلاق کو بہتر بنانے کے کیے احکامات جاری کیے۔ آپ جتنے مرضی قانون بنالیں ریاست کی رٹ قائم کردیں تب بھی عورت کہیں نہ کہیں جبر و تشدد کا نشانہ ضرور بنے گی کیونکہ وہ فطری طور پہ کمزور ہے۔اسے تو جوان ہوتے ہی ماہواری کی تکلیف سہنی پڑتی ہے۔ حمل اور زچگی کی اذیت اٹھانی پڑتی ہے۔ مرد اس سے مامون ہے۔ اس کے دکھ اور طرح کے ہیں۔
اگر یہ حکمت عورت کی سمجھ میں آجائے کہ آزادی دراصل غیر محفوظ ہوتی ہے تو وہ کبھی اپنے لیے اسے منتخب نہ کرے۔ گیلے کھمبے پہ درج ہدایت کو کبھی آزادی کے خلاف نہ سمجھے کہ اسے ہاتھ نہ لگائے ورنہ کرنٹ لگ سکتا ہے۔پاکستانی عورت بڑی سیانی ہے اسے علم ہے وہ کمزور ہے۔ اسے برابری کا نعرہ اس رعایت سے محروم کردے گا جو اسے کمزور ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔ اس لیے وہ مرد کے پیسوں پہ دھڑلے سے عیش کرتی ہے کبھی اس کا مرد یہ نہیں کہتا کہ اب میں تھک گیاہوں کل سے تم کماوگی۔اسے بس میں سیٹ آرام سے مل جاتی ہے۔ اسے قطار میں نہیں لگنا پڑتا۔ اس کے لیے راستہ خود بنتا چلا جاتا ہے۔اس کی گاڑی بیچ سڑک بند ہوجاے تو دس ہاتھ مدد کے لیے بڑھ جاتے ہیں۔ ہاں اس کا استحصال بھی ہوتا ہے وہ مظلوم بھی ہے اس پہ تشدد بھی ہوتا ہے اور اس کا حق بھی مارا جاتا ہے لیکن یہ دنیا میں کہاں نہیں ہوتا؟ وجہ وہی کہ وہ معاشی نہیں فطری طورپہ کمزور ہے۔ اس کا علاج کسی درامد شدہ نعرے میں، مرد سے بغاوت میں، گھر سے فرار میں یا اپنی نسوانیت سے چھٹکارے میں نہیں کیونکہ اس کا علاج ممکن ہی نہیں۔ فطرت کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟ اس کا حل صرف مرد کی بہتر تربیت سے ممکن ہے جو کسی دنیاوی قانون کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ اس کے لیے اس سرمدی اواز پہ کان دھرنے ہونگے جو آج بھی گونج رہی ہے
“آہستہ ساربان یہ آبگینے ہیں” ٭
٭ایک سفر کے دوران جب حدی خوان انجشہ کے نغمات سے مسرور ہو کر اونٹ بہت تیز چلنے لگے تو نبی کریمﷺ نے اسے محبت سے ڈانٹا : انجشہ آہستہ ، یہ آبگینے ہیں ٹوٹ نا جائیں۔رویدک یا انجشۃ لا تکسر القواریر (بخاری)
قدسیہ ممتاز

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password