آپ کو کیسی آزادی چاہیے؟

پچھلے چند دنوں سے لال لال لہرانے والے مردوزون کے ہجوم کے کچھ ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں ۔ جس پر موافقین اور مخالفین کی بحث بھی ہر جگہ دکھائی دے رہی ہے ۔ کچھ نے کہا یہ جامعات کے طلبا و طالبات ہیں جو تعلیمی نظام کی خرابیوں پر سراپا احتجاج ہیں ۔ کچھ نے اسے غیر ملکی ایجنڈا قرار دیا اور بہت سوں نے صرف چسکے لیے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔ اس سے ملتی جلتی آوازیں اور حرکتیں پچھلے چند سالوں سے متواتر سامنے آ رہی ہیں یا لائی جا رہی ہیں ۔ہوتا یوں ہے کہ اچانک ایک ہجوم سامنے آتا ہے جو چند مشکوک اور مبہم نعرے بلند کرتا ہے اور اپنے پیچھے ایک بحث چھوڑ کر منظر سے غائب ہو جاتا ہے ۔ میرا جسم میری مرضی ، اپنا کھانا خود گرم کرو اور اسی طرح کے لایعنی اور مہمل جملے عوام کی طرف اچھال کر اگلے مقررہ وقت تک یہ آوازیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں ۔ بظاہر ان سے نہ کچھ حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی کچھ کھوتا ہے ۔ اسی لیے عوام کی اکثریت اس سے محض زبان اور کانوں کا چسکا پورا کر کے بھول جاتی ہے۔
لیکن در اصل معاملہ اتنا سادہ اور غیر اہم نہیں ہے کہ اسے محض چٹخارے کی حد تک سمجھا جائے ۔ در اصل یہ ایک انجیکشن ہے جو ایک مقررہ وقفے کے ساتھ لگایا جاتا ہے ۔ سوئی چبھنے کا درد وقتی ہوتا ہے لیکن دوا کہیں اندر تک رگوں میں سرایت کر جاتی ہے ۔ ہر بار ڈوز کی مقدار بڑھ رہی ہے اور ہر بار مزاحمت کم ہوتی جا رہی ہے ۔ یہی اصل مشن ہے ۔ اب مشن کے پیچھے کون ہے اور اس کا اصل ہدف کیا ہے یہ پھر ایک الگ بحث ہے جس کا کچھ بھی حتمی نتیجہ نہیں نکلنے والا ۔ آج ہم صرف ان لوگوں کی بات کرتے ہیں جو کسی کمپلیکس کا شکار ہو کر ہر ایسی آواز پر دیوانہ وار ناچنے لگتے ہیں جو مذہب، تہذیب، مشرقیت اور قومیت کے خلاف ہو۔ ایسے ہی کچھ لوگ اس بار بھی عورت کی مظلومیت ، اس کی جسمانی ساخت کے اظہار اور آزادی کے لیے طرح طرح کے دلائل دے رہے ہیں ۔ ظاہر ہے ایسی بحثیں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ہوتی بھی نہیں ۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہم کچھ بنیادی باتیں طے کرنے کی کوشش کریں ۔
سب سے پہلے تو یہ طے کیا جائے کہ ’’عورت‘‘ جو ’’آزادی‘‘ مانگ رہی ہے اس کا مفہوم کیا ہے ؟ اس آزادی کی تشریح کیے بغیر اس کے حق میں گلہ پھاڑنے والے اور مخالفت میں گلمہ پھاڑنے والے سب فضول زور آزمائی کر رہے ہیں ۔ چلیں فرض کرتے ہیں کہ عورت کو مرد جیسی آزادی چاہیے ۔ ایک اوسط مرد کو ہمارے معاشرے میں جو آزادی حاصل ہے اس پر بات کر لیتے ہیں ۔
ایک مرد کو تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہے ۔
کالج ، یونیورسٹی میں یاروں دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے اور ( کسی دوسرے مرد کے سہارے ) پارٹی کرنے کی آزادی ہے ۔
تعلیم کے بعد جاب کرنے کی آزادی ہے ۔
یا جاب نہ ملنے کی صورت میں مزدوری کرنے کی آزادی ہے ۔
ٹیکسی ، رکشہ ، بائیکیا چلانے کی آزادی ہے ۔
جاب اور مزدوری پر روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے صاحب اور مالک کی چخ چخ سننے اور سر تسلیم خم کرنے کی آزادی ہے ۔
اسے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرنے کی آزادی ہے ۔
والدین کی مرضی سے شادی کرنے کی آزادی ہے ۔
شادی کے بعد بیوی اور ماں کی نوک جھونک میں زندگی انجوائے کرنے کی آزادی ہے ۔
بچے پیدا کرنے کی آزادی ہے ۔
بچوں کے پیمپرز، دوائیں ، سکول کی فیسیں ، کتابیں ، وردیاں اور فنڈز پورے کرنے کی آزادی ہے ۔
شادی کے ساتھ ساتھ دیگر ’’مجبور‘‘ عورتوں کے ساتھ یک طرفہ افیٰر چلانے کی آزادی۔ ( کیونکہ اس پدر شاہی معاشرے میں عورت کو تو افییٗر چلانے کی آزادی میسر نہیں ہے )
گھر والوں کو سہولیات فراہم کرنے کی آزادی ہے ۔
گھر کا کرایہ ، بجلی ، گیس، پانی، دودھ، کیبل ، موبائل کے بل ادا کرنے کی آزادی ہے ۔
گھر میں دیسی گھی ، انڈے ، شہد ، چاول، گندم ، دودھ مہیا کرنے کے باوجود خود ڈھابے سے دال روٹی کھانے کی آزادی ہے ۔
گھر والوں کو اپنی چھت کا تحفظ فراہم کرنے کے لیے خود پردیس میں کفیلوں سے دھکے کھانے کی آزادی ہے ۔
گھر میں خود کار برقی آلات مہیا کرنے کے باوجود خود بالٹی میں کپڑے دھونے کی آزادی ہے ۔
اور سب سے بڑھ کے اپنی اس ساری آزادی کے ذائقوں سےاپنی بیوی اور بچوں کو زبردستی محروم رکھنے کی آزادی۔
خیر مرد کی آزادی کو گنتی میں لانا ممکن نہیں ۔
تو
آزادی مانگنے والی عورت کو (ان میں سے )کون کون سی آزادی چاہیے ؟
اپنے نعروں کو مفہوم دیجیے ۔ آزادی کی وضاحت کیجیے تاکہ بات گلے پھاڑنے سے کچھ آگے بڑھ سکے ۔
اکرام اللہ اعظم

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password