قانونِ حقوقِ نسواں – مفروضات اور حقیقی حل

تحفظ نسواں بل میں پہلی خرابی یا مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان میں صرف عورتوں پر ظلم ہوتا ہے اور اس کے ذمّہ دار مرد ہیں۔ اس لیے عورتوں کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔اوّل تو یہ صرف مفروضہ ہے اور پروپیگنڈہ ہے کہ ہر صورت میں عورت مظلوم اور مرد ظالم ہے۔ حالانکہ ہمارے معاشرے میں جہالت اور اسلامی تعلیمات سے بےخبری عام ہے جس کی وجہ سے اگر کبھی مرد عورت پر ظلم کرتا ہے، تو عورت بھی کم وبیش کے کچھ فرق کے ساتھ اس معاملے میں مرد سے پیچھے نہیں ہے، وہ بھی مختلف انداز سے مرد پر ظلم کرتی ہے۔ صرف 10 فیصد گھرانے بہ مشکل ایسے ہوں گے جہاں ایک دوسرے پر ظلم کیا جاتا ہے جو کبھی عورت کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی مرد کی طرف سے اور کبھی اس میں دونوں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ان صورتوں میں صرف مرد ہی کو ظالم تصور کر کے قانون سازی کرنا اور وہ بھی یک طرفہ قطعاً غیر معقول ہے۔ہماری بات پر یقین نہ آئے تو ایک کونسلر اور ماہر نفسیات لیڈی ڈاکٹر کے مشاہدات ملاحظہ فرما لیں: ان کا نام فوزیہ سعید ہے وہ ایک مضمون بعنوان ’ کیا صرف مرد ذمے دار ہے؟‘ تصویر کا دوسرا رخ میں لکھتی ہیں:
’’8؍ مارچ خواتین کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے جس میں خواتین کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے، جگہ جگہ سیمینار کیے جاتے ہیں۔ وہاں مردوں کے ظلم کی داستانیں اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں کہ کچھ لوگ رونے لگتے ہیں۔ 2015ء کو میں نے کافی ورلڈ ویمن ڈے اٹینڈ کیے، تمام کا فوکس مردوں کے ظلم، عورتوں کو جلائے جانے کے واقعات، عورتوں پر پھینکے گئے تیزاب یا تعلیمی میدان میں آگے نہ بڑھنے دینے یا وقت سے پہلے شادی کر کے ان کے حقوق غصب کرنے یا عمر گزر جانے پر بھی شادی نہ ہونے، جائیداد میں ان کے حقوق پامال کرنے کو نمایاں طور پر بیان کیا گیا۔ بطورِ ماہر نفسیات میں نے نہایت ہی سوچ بچار کے بعد یہ تجزیہ کیا کہ 80 فیصد واقعات میں عورتوں کا اپنا قصور ہوتا ہے۔ میں ایک کونسلر ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ ہر ظلم کے پیچھے اکیلا مرد ذمے دار نہیں، اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی عورت بھی برابر کی شریک ہوتی ہے۔ بلکہ آپ بلا تعصب جائزہ لیں تو جو مرد ظلم کرتا ہے اس کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ عورت اس کی ماں بھی ہو سکتی ہے، بہن بھی، بھابھی بھی، یا جدید دور کی نیو رشتے دار گرل فرینڈ بھی ہو سکتی ہے۔پھر الزام مرد پر ہی کیوں؟
اگر آپ بلا تعصب تحقیق کریں تو معلوم ہو گا کہ حقوقِ نسواں پر بے شمار این جی اوز پر کام کر رہی ہیں اور مردوں کے ساتھ کیے گئے ظلم پر کوئی ایک یا دو این جی اوز ہیں۔ عورتوں پر ظلم کی بات کو اُچھالا جاتا ہے مگر اس کا کوئی حل یا جڑ سے ختم نہیں کیا جاتا، جڑ میں اصل مجرم کوئی نہ کوئی عورت کسی نہ کسی روپ میں بیٹھی اپنے بیٹے، بھائی، دیور، خاوند کو بہکا رہی ہوتی ہے۔
عورت پر ظلم کیا جاتا ہے، میں اتفاق کرتی ہوں، مگر مردوں کو پالنے اور پروان چڑھانے والی اور شیر کا جگر دینے والی عورت ہی ہوتی ہے۔ مردوں کو دوسری شادی پر اُکسانے والی بھی کوئی نہ کوئی عورت ہی ہوتی ہے جو اپنے بھائی یا بیٹے کو کہتی ہے، بیوی کو آگ لگا دو، تیزاب پھینک دو، طلاق دے دو، ہم تمہارے لیے نئی بیوی لے آئیں گے، کسی طرف کوئی گرل فرینڈ یہ جانتے ہوئے کہ مرد شادی شدہ ہے، بچوں کا باپ ہے، اس کے پیچھے لگ جاتی ہے اور کسی عورت کا گھر تباہ کر دیتی ہے اور بدنام مرد ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مرد کو اپنی عقل سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا: مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘ گویا ذمے داری عورت پر آن پڑی ہے کہ اچھے مردوں کو جنم دینے والی عورت ہی ہے، ذمے داری ماں پر آ گئی ہے کہ وہ اپنے بچے کو کیسے پروان چڑھاتی ہے اور اسے دوسری عورت کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیتی ہے یا عورت کے حقوق غصب کرنے پر اکساتی ہے، عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت کرنا سیکھے۔ عورت اگر چاہے تو چاروں طرف شانتی اور سکھ کے پھول بکھیر سکتی ہے۔( روزنامہ نوائے وقت، لاہور، تین ایڈیشن، 21 مارچ 2016ء)
اس تفصیل سے یہ واضح ہے کہ زیر بحث بل کا پہلا سبب ہی حقائق پر مبنی نہیں کہ عورتوں پرتشدد ہوتا ہے بلکہ مفروضے پر قائم ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم دونوں ہی طرف سے ہوتا ہے ۔ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ظلم و تشدد کا سدّ باب کرے۔ کسی ایک ہی فریق کو ظالم باور کر کے یا کراکے یک طرفہ قانون سازی بجائے خود ایک ظلم ہے جو آئین پاکستان کے خلاف ہے، اسلام کے بھی خلاف ہے اور عدل وانصاف کی مسلّمہ روایات کے بھی ۔ عدل، آئین اور اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو واقعی ظالم ہیں، ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے نہ کہ اپنے طور پر کسی ایک فریق یا جنس کو ظالم فرض کر کے اس کے خلاف قانون سازی کی جائے۔

پولیس کو مداخلت کا حق دینا؟
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے باہمی تعلق، ان کے مابین محبت وقربت اور ان کی پرائیویسی کو ﴿هُنَّ لِباسٌ لَكُم وَأَنتُم لِباسٌ لَهُنَّ…﴿١٨٧﴾… البقرة” کے نہایت بلیغ الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے کہ ’’وہ عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ خانگی معاملات اور باہمی تنازعات، یہ ایسے معاملات نہیں ہیں کہ ان میں سوائے ناگزیر حالات کے کسی اور کو دخل دینے کی ضرورت ہو، وہ لباس کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے، دوسرے تمام لوگوں سے بے نیاز ہیں۔
ان خانگی معاملات کو، جرائم بنا کر، پولیس کو ان میں مداخلت کا حق دینا، یا عورت کو یہ اختیار دینا کہ وہ فون کر کے مرد کو حوالہ پولیس کر دے۔یہ قرآن کے مذکورہ پرائیویسی کے حکم کے بھی خلاف ہے اور یہ ایسی غیر دانش مندانہ تدبیر ہے کہ جو عورت بھی ایسا کرے گی وہ اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی مارے گی۔ جہاں بھی عورت کی حفاظت کے ٹھیکے داروں اور ٹھیکے دارنیوں کی طرف سے بنائے ہوئے اس قانون کو کوئی عورت اختیار کرے گی تو مرد آخر مرد ہے، وہ گھر کا مالک ہے ، عورت کا کفیل ہے، وہ اللہ کا بنایا ہوا گھر کا سربراہ ہے۔ وہ اس بے عزتی اور بے بسی ولاچارگی کو کب برداشت کرے گا، وہ کڑا پہننے کے بجائے اپنا یہ لباس ہی اُتار پھینکے گا، یعنی عورت ہی کو طلاق دے کر فارغ کر دے گا۔ یعنی جب اُن کو محب اور محبوب کے رشتے سے جدا کر کے ایک دوسرے کا دشمن قرار دے کر قانون ایک کے ہاتھ میں ہتھیار دے کر دوسرے پر حملہ آور ہونے کا اختیار دے گا تو دوسرا بھی محبت کے بجائے دشمن بن جائے گا اور اس کے ہاتھ میں خدائی اختیار ’ حق طلاق‘ ہے۔ وہ عورت کے وار کرنے سے پہلے ہی اپنا وار کر کے اس کا کام تمام کر دے گا، یعنی اس کو طلاق دے دے گا اور پولیس جو ہتھکڑی یا کڑا مرد کو لگانے یا پہنانے کے لیے آئے گی، مرد اس کو کہے گا کہ اس عورت کو شیلٹر ہوم میں پہنچا دو، اس سے میرا اَب کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے اس کو طلاق دے کر اپنی زوجیت ہی سے خارج کر دیا ہے۔ یہ محض افسانہ سازی یا افسانہ سرائی نہیں ہے، یہ مستقبل کا وہ نقشہ ہے جو اس بل کے نفاذ کے بعد سامنے آئے گا۔
اور فرض کر یں کہ کوئی مرد اس بےغیرتی کو برداشت کرتے ہوئے اپنے کو حوالہ پولیس کر کے چند روز کے لیے گھر سے بے گھر ہونا گوارا کرے گا تو اس کے پیچھے دو صورتیں ہوں گی: اس گھر میں اس کی بیوی کے ساتھ، مرد کی ماں، اس کی بیٹیاں، بھابھیاں وغیرہ بھی رہائش پذیر ہوں گی تو ماں سمیت ان عورتوں پر کیا گزرے گی؟ اور ان عورتوں کے دلوں میں اس خاتون کی کیا عزت باقی رہ جائے کی جس نے اپنے سر کے تاج کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا؟
اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے او رہر طرح سے مکمل ہے جس کی تکمیل کا اعلان بھی اللہ نے سورۂ مائدہ کی آیت میں کیا ہے۔ لیکن بل کی ساری بنیاد اور اس کی ساری شقیں اس مفروضے پر قائم ہیں کہ اسلام میں مرد و عورت کے باہمی تنازعات کا کوئی حل ہی نہیں ۔ اب ساڑھے چودہ سو سال کے بعد اس ’ خلا‘ کے پر کرنے کی ’سعادت‘ پنجاب حکومت کو حاصل ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خانگی زندگی کی استواری اور خوش گواری کے لیے اتنی ہدایات اور ایسی اعلیٰ تعلیمات ہمیں دی ہیں کہ اگر دونوں میاں بیوی ان کا خیال رکھیں او ران پر صحیح معنوں میں عمل کریں تو نہایت خوش گوار زندگی گزرتی ہے اور گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اور اگر بوجوہ عدمِ موافقت یا فریقین میں سے کسی ایک کے غلط رویے کی وجہ سے کچھ اختلافات رونما ہو جائیں تو اس کا بھی بہترین حل قرآن کریم ہی میں بیان فرمادیا گیا ہے۔ ﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها إِن يُريدا إِصلـٰحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَينَهُما…﴿٣٥﴾… سورةالنساء
’’دو حَکم (ثالث) ان کا فیصلہ کریں۔ ایک میاں کے خاندان سے ہو، دوسرا بیوی کے خاندان سے۔ دونوں ثالث اگر صلح کرانے میں مخلص ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور مصالحت ومفاہمت کی صورت پیدا فرما دے گا۔ ‘‘
بصورتِ دیگر آخری چارہ کار کے طور پر پھر ان کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔ علماء نے اس کو تَوکِیل بِالفُرقة کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یعنی اگر یہ ثالث صلح کرانے میں ناکام رہیں تو پھر یہ بطور وکیل ایک دوسرے کی جدائی کا فیصلہ کر دیں۔ یہ فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہو جائے گا۔اللہ تعالیٰ نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے اور یہ حق پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ ہے جس میں وہ رجوع کر سکتا ہے شریعت میں میاں بیوی کے تعلق کو اتنی اہمیت او رطلاق کے باوجود ان کی قربت کا ایسا اہتمام کیا گیا ہے کہ یہ فراق جلد ہی وصال میں اور نفرت محبت میں تبدیل ہو جائے اور ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ بحال ہو جائے۔
روحِ قرآنی یہ ہے کہ اختلاف اور کشیدگی، حتیٰ کہ طلاق کے باوجود بھی، میاں بیوی کے درمیان کشیدگی کو ختم کیا جائے اور ان کو دوبارہ باہم جڑنے کے مواقع مہیا کیے جائیں اور مغربی روح میں ڈوبے ہوئے بل کی روح یہ ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے اتنا دور کر دیا جائے اور ان کے درمیان نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کر دی جائے کہ عدم طلاق کے باوجود ان کا ملن ناممکن ہو جائے۔ بل میں اس کا مکمل اہتمام کیا گیا ہے۔ ایک تو مرد کو گھر سے باہر نکال کر شیلٹر ہوم میں بھیجنا، اس کی مردانگی اور غیرت کو چیلنج کرنا، پھر ان کو آپس میں بالکل قریب نہ آنے دینا کہ کہیں یہ دونوں باہم مل کر تلافی اور ازالہ کا اہتمام نہ کر لیں اور یوں اُن کے درمیان صلح ہو جائے۔

بل میں میاں بیوی کے تنازعے کا جو بقراطی حل بل میں پیش کیا گیا ہے، وہ اتنا غلط ہے کہ اس سے عورت کو قطعاً کوئی تحفظ نہیں ملے گا،بلکہ وہ یکسر غیر محفوظ ہو جائے گی اور خاندان اور خاوند کی ہمدردیوں سے محروم ہو کر صرف حکومت کے رحم وکرم کی محتاج ہو کر رہ جائے گی۔ یہ اس کا تحفظ ہے یا اس کی بربادی؟
بہر حال اگر حکومت عورت کے تحفظ میں مخلص ہے اور یہ واقعۃً اس کی ذمے داری بھی ہے، تو عورت کا تحفظ اسلام کے عطا کردہ حقوق ہی کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سے انحراف کر کےعورت کے حقوق کا تحفظ نہیں، اس کی ہلاکت ہی کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو عورت کے ان اسلامی حقوق سے، جو اس کی حفاظت کے اصل ضامن ہیں، کوئی غرض نہیں، وہ صرف ان نسوانی حقوق کا تحفظ چاہتی ہے جو مغرب کے حیا باختہ معاشرے میں مغربی عورت کو حاصل ہیں، اور اسی کے بیرون ملک سے فنڈنگ بھی ہوتی ہے۔
وہ اسباب جن کی وجہ سے عورت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یا وہ مردوں کے ظلم وستم کا شکار ہوتی ہے،ان میں سے سب سے اہم سبب اسلامی تعلیم وتربیت کا فقدان اور اخلاقیات سے محرومی ہے، اور یہ کمی ایسی ہے کہ ہم کسی ایک فریق کو اس کا ذمے دار قرار نہیں دے سکتے۔ اس فقدان اور محرومی میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں۔ اسی لیے کبھی زیادتی مرد کی طرف سے ہوتی ہے اورعورت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی مرد کی طرف سےاس قسم کا اقدام،جس سے عورت کو ناخوشگوار صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔اس صورت حال کا حل کئی اقدامات کا متقاضی ہے:
1۔ حکومت کی طرف سے اسلامی تعلیمات وتربیت کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں ہے۔ نہ مردوں کے لیے اور نہ عورتوں کے لیے۔ تعلیم وتربیت انسان کو حوصلہ مند بناتی اور عزم وحوصلہ کے ساتھ مسائل ومشکلات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے، بالخصوص جلد بازی میں فیصلہ کرنے سے روکتی ہے اور طلاق کے فیصلے اکثر عجلت، بے صبری، عدم برداشت اور بد اخلاقی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ حکومت میاں بیوی کے حقوق اور ذمے داریوں پر مبنی اسلامی تعلیمات کو میٹرک کے نصاب کا حصہ بنائے اور اخبارات اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے سے بھی ان کو نشر کروائے۔
2۔ ایک ہی مرتبہ تین طلاقوں کو جرم قرار دیا جائے، جو عرضی نویس یا وکیل طلاق نامہ لکھے، ان کو بھی صرف ایک طلاق لکھنے کا پابند اور ان کے لیے بیک وقت تین طلاقیں لکھنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ یادرہے کہ یہ سفارش اسلامی نظریاتی کونسل بھی کر چکی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اگر مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو وہ عدت کے اندر رجوع کر کے دوبارہ اس کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد اگر صلح کی کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو نئے نکاح کے ذریعے سے یہ دوبارہ تعلق زوجیت میں جڑ سکتے ہیں اور یہ بھی ایسا مسئلہ ہے جو اتفاقی ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

عورتوں کی مشکلات کا ایک اور قرآنی حل:محلّہ وار پنچایتیں
یہ حل قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیت نمبر 35 میں بیان کیا گیا جس کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کر آئے ہیں۔ اس کی رو سے ، محلوں کی سطح پر پنچایتی نظام کا قیام ہے، اسے کونسلروں اور ناظموں کے ذریعے سے بھی بروے کار لایا جا سکتا ہے۔ یونین کونسلیں پہلے بھی اس سلسلے میں کچھ کام کرتی آ رہی ہیں، ان کو مزید فعال بھی کیا جائے اور کچھ اختیارات بھی دیے جائیں تاکہ عدالتوں پر بھی بوجھ نہ بڑھے اور عوام بھی عدالتی چارہ جوئی کے بجائے، جو لمبا بھی ہے اور مہنگا بھی اپنے علاقے ہی میں ان پنچایتوں کی طرف رجوع کریں۔ یہ پنچایتیں پہلی اور دوسری طلاق میں صلح کرانے کی کوشش کریں جس کی گنجائش عدت کے اندر، یعنی تین مہینے تک موجود ہے۔ نیز عدت گزرنے کے بعد بھی نکاح جدید کے ذریعے سے ٹوٹا ہوا تعلق دوبارہ قائم ہو سکتا ہے، اگر یہ پنچایتیں مخلصانہ کوشش کریں۔
یہ قرآنی حل اور طریقہ اس طریقے سے ہزار درجے بہتر ہے جو بل میں تجویز کیا گیا ہے اور اس قرآنی حل کے برعکس شیطانی حل ہے۔اس میں کوشش کی گئی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کسی طرح بھی غلط فہمیاں دور نہ ہوں اور دوبارہ جڑنے کی کوئی صورت نہ رہے۔
1۔فیملی عدالتوں کو مزید فعال اور ان کو ایک معین مدت تک فیصلے کرنا پابند بنایا جائے۔ تاکہ جو عائلی تنازعات، پنچایتوں کے ذریعے سے حل نہ ہو سکیں، عدالتوں سے ان کو فو ری ریلیف مل جائے۔ جیسے خلع، طلاق کے بعد کے بچوں کی تحویل، نان ونفقہ، وراثت وغیرہ کے مسائل ۔
2۔اگر حکومت پنچایتی نظام کو صحیح معنوں میں قائم کر دے اور ان کو مناسب اختیارات بھی دے دیے جائیں تو یہ سارے مسائل محلوں کی سطح پر ، عدالتوں کی طرف رجوع کیے بغیر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ صرف اخلاص اور عزم وہمت اور قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کا ہے اور اگر مغرب ہی کی نقالی یا ان کی خوشنودی یا ان سے فنڈز لینا مقصود ہے تو پھر بات اور ہے۔ لیکن نہ نقالی سے عورت کے مسائل حل ہوں گے اور نہ فنڈز کے حصول سے۔ عورت کی مشکلات جوں کی توں رہیں گی بلکہ علم نجوم میں مہارت کے بغیر یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ ان میں اضافہ ہی ہو گا۔ گو ہماری خواہش اور دعا تو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو لیکن غلط طریق کار کے غلط نتائج کو محض آرزوؤں اور تمناؤں سے نہیں روکا جا سکتا۔
3۔جہیز کی لعنت کا نہایت سختی سے خاتمہ کیا جائے۔ اب تک کی بعض نیم دلانہ کوششوں سے اس رسم بد کے خاتمے میں کوئی مدد نہیں مل سکی۔ ضرورت ہے کہ اس محاذ پر بھی حکومت سنجیدگی سے کوشش کرے۔ اس لعنت کی وجہ سے بھی بہت سی عورتوں کو متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
4۔ عورت کی وراثت کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے بھی ایسی قانون سازی کی جائے کہ کسی کو بھی عورت کو باپ کی جائیداد سے محروم کرنے یا محروم رکھنے کی جرأت نہ ہو۔ اگر اس قسم کے کیس عدالتوں میں جائیں تو اس کے لیے بھی عدالتوں کو ایک معین مدت کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند کیا جائے۔ عدالتی نظام کی متعدد خامیوں کی وجہ سے جو تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں اور سالہا سال تک عورتوں کو اپنا حق لینے کے لیے جن جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، وہ شدید ظلم کی ایک صورت ہے جس سے عورت کو نجات دلانا حکومت کی ذمے داری ہے۔
5۔ میٹرنٹی ہوم (زچے بچے کی سہولتیں) عام کی جائیں اور ہر محلے میں یہ نہ صرف قائم کیے جائیں بلکہ تربیت یافتہ سٹاف اُن میں متعین ہو اور دیگر سہولتوں کا انتظام ہو۔ یہ عورت کے لیے موت وحیات کی کشمکش کا سنگین مرحلہ ہوتا ہے، اس مرحلے میں عورت کے لیے سہولتیں مہیا کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری اور اس سے پہلو تہی کرنا عورت پر سخت ظلم ہے جو عورت کی ہمدردی ظاہر کرنے والی حکومت کے لیے ناقابل معافی ہے۔
6۔معاشرے میں جو عورتیں مطلقہ یا بیوہ ایسی ہوں کہ ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہ ہو، ان کے لیے شیلٹر ہوم بنانے کا شوق پورا کر کے ان کی آبرو مندانہ کفالت کا انتظام کیا جائے۔
7۔ کاروکاری کا سد باب کیا جائے۔ اس کا ارتکاب بڑے جاگیر دار،زمیندار، وڈیرے قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ اپنی زمینوں، جاگیروں وغیرہ کو بچانے کے لیے نوجوان بچیوں کی شادیاں قرآن کریم سے کرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ بھلا قرآن کریم سے بھی کسی کا نکاح ہو سکتا ہے۔ یہ وڈیرے اس ملک میں اس طرح عورت پر ظلم کرتے ہیں۔ کون سا عالم ہے جو اس ظلم کی حمایت کرتا یا حکومت کو اس کے سدّ باب کےلیے قانون سازی سے روکتا ہے؟
8۔اسی طرح ونّی کی جاہلانہ اور ظالمانہ رسم ہے کہ اپنے ناجائز ظلم کے بدلے میں کم سن بچیوں کی شادیاں بوڑھوں کے ساتھ کر کے اور معصوم بچیوں پر ظلم کر کے اپنے ظلم کا ازالہ کرتے ہیں۔ اس کے خلاف قانون سازی ہونی چاہیے ۔کون سا عالم اس ظلم کی حمایت کرتا ہے؟
9۔غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت قانون بنائیں۔ کوئی عالم غیرت کے نام پر قتل کو جائز قرار نہیں دیتا۔ چند روز قبل ہیومن رائٹس آف پاکستان کمیشن کی رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ 2015ء میں 1100 عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ جنسی تشدد میں بھی اضافہ ہوا، جس میں بچے اور بچیاں اس کا شکار ہوئیں۔اگر یہ رپورٹ درست ہے تو اس کا اسلامی معاشرے میں ہر صورت تدارک ہونا چا ہیے۔
اس کے اسباب کا بھی خاتمہ فرمائیں جو بالکل واضح ہیں کہ نوجوان نسل ٹی وی کے فحش اور عشقیہ فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر نہایت تیزی سے بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے رجحانات اپنے ہاں دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور غیرت میں آ کر اپنی ہی بیٹی، بہن یا بیوی کو قتل کر دیتے ہیں۔ یہ کام اگرچہ اسلامی غیرت ہی کا مظہر ہے ،تاہم نہ اسلام میں اس قتل غیرت کی اجازت ہےاور نہ کوئی عالم ہی اس کی حمایت کرتا ہے۔
10۔ اسی طرح جنسی تشدد بھی نہایت وحشیانہ حرکت ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔اس کی وجہ بھی ٹی وی پروگراموں اور فلمیں وغیرہ ہیں۔زنا کے اسباب کا خاتمہ اور اس قسم کے واقعات کے سدّ باب کے لیے قانون سازی یا موجودہ قوانین پر عمل داری کس کا کام ہے؟ حکومت کے سوا یہ کام کون کر سکتا ہے؟ حکومت اپنی یہ ذمہ داری کیوں پوری نہیں کرتی؟
11۔ عورت کے چہرے تیزاب پھینک کر اس کو مردوں کے لیے ناقابل قبول بنانا، نہایت سنگ دلانہ حرکت اور عورت پر بڑا ظلم ہے۔ علما تو کہتے ہیں کہ فوجداری قانون میں اس قسم کے کاموں کی سزائیں موجود ہیں،ان کو نافذ کریں بلکہ اسلام کے قانون قصاص پر عمل کرتے ہوئے ایسے ظالم مردوں کے چہروں کو بھی تیزاب سے جھلسا دیں۔ پھر دیکھیں کہ کوئی مرد اس ظلم کا ارتکاب کرتا ہے؟ ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ اس قانون قصاص پر عمل کی برکت سے ان شاء اللہ اس جرم کا سو فیصد سدّ باب ہو جائے گا۔عورتوں کی ’حمایت‘ کرنے والے یہ مغرب زدگان کیا عورت کو اس ظلم سے بچانے کے لیے اس ظلم کے سو فیصد یقینی علاج کی حمایت کریں گے؟ یا حکومت اس قانون قصاص کے نفاذ کے لیے تیار ہے؟
12۔ مخلوط تعلیم کا خاتمہ کر کے خواتین کے لیے الگ تعلیمی ادارے (کالجز اور یونیورسٹیاں) قائم کیے جائیں۔ یہ بھی مسلمان عورت کا ایسا حق ہے کہ جس کا پورا کرنا ایک مسلمان مملکت کا فرضِ منصبی ہے۔ اس کے بغیر عورت کو مردوں کی ہوس کاری سے بچانا ناممکن ہے۔21؍ فروری 2016 ء کے روزنامہ ’جنگ ‘ لاہور میں ایک امریکی ادارے کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جو بشمول ہاروڈ یونیورسٹی امریکہ کی 27 نامور یونیورسٹیوں کے سروے پر مبنی ہے۔ اس میں مخلوط تعلیم کے نتیجے میں طالبات جس کثرت سے جنسی حملوں کا شکار ہورہی ہیں، اس کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ یہ ان کے لیے نہایت چشم کشا رپورٹ ہے جو پاکستان میں مغربی ایجنڈے کے مطابق مخلوط تعلیم کو مسلط کیے ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ کا باشعور اور درد مندحضرات کو بالخصوص مطالعہ کرنا چاہیے۔
13۔اسی طرح عورتوں کے لیے نصاب تعلیم بھی مردوں سے الگ مرتب کیا جائے تاکہ مسلمان عورت اپنے مقصدِ تخلیق اور فطری صلاحیتوں کے مطابق زیادہ بہتر طریقے سے ملک وقوم کی خدمت کر سکیں۔ علاوہ ازیں ان کے لیے چند شعبے بھی مخصوص کیے جا سکتے ہیں جن کی وہ تعلیم وتربیت حاصل کریں اور وہاں وہ مردوں سے الگ رہ کر خدمات سر انجام دیں۔ مثلاً تعلیم کا شعبہ ہے، طب (میڈیکل) کا شعبہ ہے۔ اسی طرح اور بہت سے شعبے ایسے ہو سکتے ہیں جہاں وہ ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ مفوضہ فرائض انجام دیں۔

صلاح الدین یوسف

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password