جدید معاشرہ، خاندان اور عورت کی نوکری

خاندان کے ادارے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔
مرد باہر جاکر کمائے اور عورت گھر چلائے
عورت باہر جاکر کمائے اور مرد گھر چلائے۔
دونوں کمائیں اور دونوں گھر چلائیں۔
جدید مغربی طرزِ زندگی جو فیمینسٹ تحریک کے بعض حلقوں کے پیشِ نظر ہے، تیسری صورت کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک اسی صورت میں عورت کی ‘آزادی’ ممکن ہے۔ مگر مسئلہ ہے کہ یہ صورت خاندان کے ادارے کو مجموعی طور پر بے معنی بنا دیتی ہے۔
خاندان کا ادارہ روایتی طور پر ایک معاہدے کے تحت وجود میں آتا ہے جس میں جنسی تعلقات صرف ایک ثانوی پہلو ہیں، جنسی تعلقات کو اس شکل میں انسٹیٹوشنلائز کرنے کا مقصد دراصل دونوں اصناف کی صلاحیتوں کو سپیشلائز کرکے نئی نسل کی اچھی پرورش اور اس عمل میں یہ معاہدہ کرنے والوں کو پائیدار جذباتی و ذہنی اطمینان فراہم کرنا ہے۔ جنسی تعلقات تو شادی کے بغیر بھی قائم ہوسکتے ہیں۔ مگر روایتی فہم کے مطابق شادی کا بنیادی مقصد جنسی تعلقات یا دو لوگوں کے درمیان محبت کو سماجی تصدیق فراہم کرنا نہیں بلکہ افزائشِ نسل اور اولاد کی پرورش ہے یا پھر بڑھاپے کے لیے جذباتی سرمایہ کاری جب انسان جنسی طور پر ناکارہ ہوجاتا ہے اور شریک حیات اور بچوں کا ساتھ ہی اس کے لیے باعث اطمینان ہوتا ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جسے گزشتہ دو ڈھائی سو سال میں رومانی تحریک کے زیر اثر مغرب نے فراموش کیا ہے۔ یہ جدید رومانی نکتہ نظر کہ انسان کی لمحہ موجود میں فرحت ہی سب کچھ ہے، ایک انسان کو دوسرے انسان سے حاصل ہونے والے وقتی جسمانی اور جذباتی سرور یا نشے کو ہی سب سے اہم عامل قرار دے کر شادی جیسے سماجی اور عملی ادارے کو ذاتی اور رومانوی بنا دیتی ہے۔ گویا مغربی جدیدیت کے نزدیک شادی کا بنیادی مقصد صرف فرد کی رومانی تسکین ہے، اولاد صرف اس کا ایک بائی پراڈکٹ یا سائیڈ ایفیکٹ ہے۔ جب تک رومانی تسکین ہوتی رہے تب تک شادی قائم رہتی ہے۔ جب ایسا ہونا بند ہوجائے، شادی ٹوٹ جاتی ہے اور دونوں افراد آزاد ہوتے ہیں۔ پھر چاہے ایسی شادی کے بائی پراڈکٹ یعنی بچوں کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے اور خود شادی کرنے والوں کا بڑھاپا خوفناک طور پر تنہا گزرے۔
اس سارے عمل میں تینوں فریق یعنی مرد و عورت (خاص طور پر بڑھاپے میں) اور سب سے بڑھ کر اولاد بہت منفی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ گویا عورت کی مبینہ ‘آزادی’ کے حق کے لیے بچوں کے اچھی پرورش کے حق، نیز خود عورت اور مرد کے بڑھاپے میں جذباتی سہارے کے حق کو پامال کیا جاتا ہے۔
اس دور میں جب ہر چیز سپیشلائزڈ ہوچکی ہے، یہ اصرار کرنا کہ خاندان کے ادارے میں ذمہ داریوں کی سپیشلائزیشن نہیں ہونی چاہیے، یوں بھی تہذیب کا ایک اندرونی تضاد معلوم ہوتا ہے۔ سپیشلائزیشن اداروں کے معیار کو بہتر کرتی ہے اور اختیارات کی تقسیم صرف ریاست نہیں، ہر تنظیمی سیٹ اپ میں آزادی کی ضامن ہے، مخالف نہیں۔
ظاہر ہے کہ معاشرے کے کئی شعبوں میں خواتین کی ضرورت گھر سے باہر بھی موجود ہے اور رہے گی۔ مثلاً ٹیچر، ڈاکٹر وغیرہ۔ اسی طرح بیوہ، طلاق یافتہ خواتین یا ایسی خواتین جن کے شوہر جسمانی یا کسی اور سبب سے معذور ہیں پورا حق رکھتی ہیں کہ وہ گھر سے باہر نکل کر کام کریں اور معاشرہ اس سلسلے میں ان سے برابری کا سلوک کرے، احترام اور آزادی دے۔ نیز یہ کہ جو عورت گھر سے باہر کام کرتی ہو اور گھر میں مالی طور پر کانٹریبیوٹ بھی کررہی ہو، وہ اس بات کا مطالبہ کرنے میں بھی برحق ہے کہ مرد گھر کے کاموں میں اس کا برابر کا ہاتھ بٹائے۔ یہ بھی یاد رہے کہ گھر کے کاموں سے مراد بچوں کی پرورش اور تربیت ہے۔ صفائی کے تمام امور اور کھانا پکانا وغیرہ نہیں۔ ایسے روزمرہ کے کام مرد و عورت مل کر کرسکتے ہیں اور سنت طریقہ یہی ہے کہ مرد جس قدر ممکن ہو ان کاموں میں عورت کا ہاتھ بٹائے یا صاحب ثروت ہو تو ملازم رکھ لے۔
مگر بات یہ ہے کہ تیسری صورت یعنی دونوں فریقوں کے کام کرنے اور دونوں کے گھر چلانے کو ایک صحتمند معاشرے میں exception رہنا چاہیے، rule نہیں بننا چاہیے۔ ایسے خاندان معاشرے کی ایک مجبوری ہیں۔ مگر بہرحال ہم سب نے کام کرنے والی ماؤوں کے بچوں کو suffer کرتے دیکھا ہے۔ ایسے خاندانوں میں طلاق کی شرح بھی عام خاندانوں سے زیادہ دیکھی ہے۔ کچھ لوگ طلاق کے بعد خوش رہنے کی صلاحیت یقیناً رکھتے ہوں گے مگر سب نہیں۔ طلاق بچوں اور میاں بیوی تینوں کی زندگی پر ایک گہرا زخم بہرحال چھوڑ جاتی ہے۔
یہی سب وجوہات ہیں کہ جدید معاشرے میں ذہنی مشکلات مثلاً ڈپریشن، اینگزائٹی وغیرہ اس خوفناک حد تک بڑھ گئے ہیں جس کا روایتی سماج میں تصور بھی نہ تھا اور اس صورتحال سے عورت اور اس کی آزادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ اس وقت خودکشی دنیا میں اموات کی دہشتگردی یا ریاستی جبر سے زیادہ بڑی وجہ ہے۔ یہ بھی دراصل ایک طرح کا تشدد ہی ہے جس کی ذمہ دار جدیدیت ہے۔
لہذا معاشرے کا اصول خاندان کی یہی سپیشلائزڈ صورت ہی رہنی چاہیے یعنی ایک فریق گھر کا وزیر خارجہ اور دوسرا وزیر داخلہ۔ ہاں مگر سماجی ضرورتوں کے سبب کچھ عورتیں گھر سے باہر نکل کر کام کرتی ہیں تو ان کے شوہر کو گھر کے۔اندرونی معاملات میں برابر کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے تاکہ بچے اور گھر کا ادارہ متاثر نہ ہو۔
احمد بن الیاس

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password