حقوقِ نسواں اور آزادیِ نسواں میں فرق کرنا ضروری ہے

درپیش سماجی مسائل پر پختہ فکر نقطۂ نظر باور کرانے یا حسب ضرورت جرآت مندانہ قدم اٹھانے سے ہم کافی حد تک محروم ہی رہتے ہیں، خاص طور پہ بعض حل طلب سماجی مسائل جن کیلئے مغرب سے کوئی آواز اٹھے، ان معاملات کو لازمی طور پر مذہب یا معاشرتی اقدار کیساتھ تقابل کرکے تاویلات، خدشات یا تفاوت کی بھینٹ ہی چڑھا دیا جاتا ہے۔مغرب سے اٹھنے والی ہر تحریک پر تحفظات کا اظہار بعض صورتوں میں بلاشبہ جائز ہے مگر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر کسی تحریک میں کسی حقیقی معاشرتی مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے تو ہمیں دو ٹوک اس کی مخالفت کرنے کی بجائے اپنے سوشل فیبرک اور معاشرتی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان مسائل کو اپنے انداز میں حل کرنے کی سعی ضرور کرنی چاہئے۔
اس بات کو سمجھنا بھی کچھ مشکل نہیں کہ آزاد خیال لوگ حقوق نسواں اور آزادیٔ نسواں کو جس طرح سے باہم خلط ملط کر رہے ہیں وہ ان مسائل کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھانے کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کے اندر گھریلو ساخت کو بھی بہت بری طرح سے مجروح کر رہے ہیں۔
سماجی معاملات اُن لایعنی تصورات سے بربادی کی طرف جا رہے ہیں جو آزادی نسواں پر مشتمل ہے، یہ بلاوجہ کا درآمدشدہ وہ زہریلا کنسیپٹ ہے جس نے یورپ میں گھر کا ادارہ اور رشتوں کا احترام بالکل تباہ کر دیا ہے، بدقسمتی سے یہاں بھی اس تحریک کو ایک ایسا طبقہ لیڈ کر رہا ہے جو اپنے مخصوص مقاصد کے تحت اس رجحان کی پرورش بھی کر رہا ہے جس میں نہ صرف مرد و زن کے اختلاط کو روشن خیالی کے نام پر سوشل نارمز کے اوپر فوقیت دی جا رہی ہے بلکہ فرد کی آزادی کے نام پر خواتین کو گھریلو پابندیوں سے آزاد کرانے کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے۔
تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت ترکی بہ ترکی جواب دینے میں نہیں بلکہ معاملہ فہمی کا ثبوت دینے میں پنہاں ہے لیکن روشن خیالی کے بہکاوے میں آنے والی خواتین کا عائلی زندگی میں خوشگوار سروائیول ایک قسم کے ہتھ چھٹ انداز اور ترکی بہ ترکی زبان درازی کی بنا پر اب نہ ہونے کے برابر ہوتا جا رہا ہے اس پر مستزاد یہ کہ انہیں احساس زیاں بھی نہیں بلکہ اس معاملے میں روشن خیال مارکیٹ کے اندر ایک نیا آرگومنٹ در آیا ہے کہ مرد کو عقلمند عورت پسند ہی نہیں یا مرد عقلمند عورت کو فیس ہی نہیں کر سکتا۔
ایسا نعرہ بلند کرنیوالوں کو یہ سمجھانا بنتا ہے کہ جب یہ سماج مردانہ عقل سے چل رہا ہے تو مرد میں اتنی عقل بھی موجود ہے کہ وہ اپنے کیرئیر میں جہاں سو قسم کے دیگر عقلمندوں کا مقابلہ کرتا ہے وہاں عقلمند عورت اس کیلئے کوئی بہت بڑا چیلنج نہیں ہے، پھر کہیں کوئی ایک مرد بھی ایسا نہیں ملے گا جو ازدواجی ساتھی کیلئے ترجیحاً کسی احمق عورت کی تلاش میں ہو لہذا اس بوگس آرگومنٹ سے خواتین کو گمراہ کرنے کی بجائے انہیں یہ باور کرانا چاہئے کہ حقیقت صرف یہ ہے کہ جو خواتین مرد کا اعتماد حاصل کرکے کام کرنے کی بجائے اپنی آزاد حیثیت کو اجاگر کرنے کیلئے اپنی مرضی کے سماجی تعلقات بنانے اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کو ترجیح بنا لیتی ہیں وہ اپنا گھر آباد نہیں کر پاتیں، ایسی عقلمند کے بھی کیا کہنے جو فیک تصورات کے پیچھے لگ کے اپنے اصل ڈومین کو سنبھال ہی نہ سکے اور فیس سیونگ کیلئے اس قسم کے احساس برتری پر مبنی نعروں میں پناہ تلاش کرے جن میں کوئی آبرومند مستقبل پنہاں نہیں ہے۔
حقیقت میں خواتین کو احساس برتری، آلتو فالتو حقوق یا مغربی طرز کی آزادیٔ نسواں کیلئے لڑنے کی بجائے آسان نکاح، جہیز سے چھٹکارہ اور ازدواجی زندگی کی مصیبتیں کم کرنے کیلئے ایک ایسے رُول آف بزنس یا میٹریمونیل چارٹر آف ڈیمانڈ کی سخت ضرورت ہے جس میں وہ خانگی زندگی کے اندر سسرال والوں کے اَن-رِٹن-لاز کی چکی میں پسنے سے بچ رہے اور پروفیشنلی جو کچھ کرنا چاہتی ہے اسے شریک حیات کے باہمی اعتماد کیساتھ انجام دے، ہمارے سماج کی خواتین کا یہ بنیادی مسئلہ ہے اور انہیں چاہئے کہ اپنی کوششوں کا دائرہ صرف اسی طرح کے مفید مقاصد کے ارد گرد ہی قائم کریں۔
روشن خیالی کے ذوق میں گرفتار خواتین کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ شادی کے بعد گھر کی رونق اور خاندان کا ادارہ صرف انہی کے دم قدم سے آباد اور قائم و دائم ہے لہذا روشن خیالی کے چکر میں اتنا بھی باہر نہ نکل جائیں کہ واپس گھر جانا مشکل ہو جائے یا خاندان کا ادارہ آپ کی دسترس سے باہر ہو جائے، دوسری طرف مردوں سے بھی گزارش ہے کہ عورت کو بھی انسان سمجھیں اور انہیں مناسب حد تک ہر ضروری رعائیت اور سہولت ضرور دیں جس میں انہیں گھر کے اندر قیدی اور حبس بیجا کا احساس نہ ہو بلکہ آپ کے گھر میں انہیں اپنائیت اور تحفظ کا بھرپور احساس رہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کا مفید استعمال بھی کر سکیں۔
اور بطور خاص اب اس معاشرے کو بھی چاہئے کہ اس تحریک کو مثبت انداز میں ہینڈل کرنے کیلئے اپنے رسم و رواج کو ری۔وزٹ کرکے ان کی خامیوں کو دور کرے جو خواتین کے استحصال کا باعث ہیں جبکہ ہمارا مذہبی و ملکی آئین حقوق نسواں کی مکمل پاسداری کا سبق بھی دیتا ہے، لہذا اس تحریک کو ٹھکرانے کی بجائے ہمیں جرآت مندانہ قدم اٹھانا چاہئے تاکہ کوئی اس تحریک کو مس۔یوز کرکے مزید کسی معاشرتی اپ۔سیٹ کا باعث نہ بنا سکے۔
لالہ صحرائی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password