منکرین حدیث نے پہلے دن سے حدیث وسنت کی تاریخیت ‘ حفاظت اور اس کی حجیت کو مشکوک بنانے کے لیے سینکڑوں عقلی اعتراضات اٹھائے ، کبھی کہا گیا رسول کریم صلى الله عليه وسلم کا ذمہ صرف قرآن پہنچانا تھا، اطاعت صرف قرآن کی واجب ہے، اس پر لاجواب ہوئے تو کہا گیا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ارشادات صحابہ پر تو حجت تھے، لیکن ہم پر حجت نہیں۔اسکا معقول جواب دیا گیا تو یہ حیلے گھڑے گئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات تمام انسانوں پر حجت ہیں ،لیکن موجودہ احادیث ہم کو قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی، اس لیے ہم انہیں ماننے کے مکلف نہیں، کبھی روایات واحادیث کے بارے میں حضرت عمر فاروق ؓ اور بعض دیگر صحابہ کرام کی احتیاطی تدابیر کو بنیاد بناکر مکثرین صحابہ بالخصوص حضرت ابوھریرہ ؓ کی روایات میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کوئی عجم سے تعلق رکھتے تھے تو اس کے لئے سیاسی اعتقاد محرکات کو نمایاں کرکے ان کی مساعی حسنہ کو عجمی سازش باور کرایا گیا ۔ اور راوی کے لئے عجمی وفارسی ہونا ہی موجب طعن قراردے دیا گیا ۔ ایرانی سازش کے افسانے گھڑے گئے ، کہا گیا کہ وفاتِ نبویؐ کے سینکڑوں سال بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی محض سنی سنائی اَٹکل پچو باتوں کا ذخیرہ جمع کرکے انہیں متفرق ومتضاد روایتوں کو ‘صحیح حدیث’کا نام دے دیا ۔ تدوین حدیث کے عمل کو دوسری اور تیسری صدی کی کوشش قرار دیا گیا ۔ اسکا معقول جواب آیا تو موضوع اور من گھڑت روایات کے سہارے صحیح روایات کو بھی مجروح کرنے اور ذخیرہ احادیث سے بدگمان کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔ کتب احادیث کی اکثر روایات قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی خود ساختہ روایات اور من گھڑت کہانیاں کہا گیا ۔ ۔ منکرین حدیث کی ساری علمی تاریخ ایسے ہی حیلے بہانوں سے بھری پڑی ہے۔ گزشتہ چار ماہ کی تحاریر میں ہم منکرین حدیث کے حدیث کی تدوین و حفاظت، حدیث کی ضرورت و حیثیت کے حوالے سے اٹھائے گئے ان تمام اعتراضات کا علمی جائزہ پیش کرچکے ہیں، اسی انداز میں انکے سینکڑوں اعتراضات کا بیسوں کتابوں میں تفصیلی جائزہ پیش کیا جاچکا ہے ، ہماری ان منتخب تحاریر سے ان اعتراضات کا بودہ پن واضح ہے ۔
منکرین حدیث جب حدیث کی تاریخیت، حیثیت، ضرورت ، حجیت کے موضوع پر لاجواب ہوئے تو انہوں نے انکار حدیث کا ایک انتہائی موثر حیلہ ڈھونڈا جسے ہم خیر خواہی کے نام پر حدیث کا انکار کہتے ہیں ۔اس حیلے نے ان کے لیے ان معاملات میں حدیث سے استفادہ کرنے کی راہ بھی ہموار کردی جن میں حدیث کے بغیر کام چلانا انکے لیے انتہائی مشکل ہے ، مثلا اگر احادیث کی روایات کو ناقابل اعتماد قرار دے دیا جائے تو سرے سے قرآن کریم کو ہی اللہ کا کلام اور اس کا محفوظ شکل میں موجود ہونابھی ثابت نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی مجبوری کے تحت پرویز صاحب نے فرمایا:”آ پ سوچئے تو کہ اگر احادیث و روایات سے انکار کردیا جائے تو پھر خود قرآن کے متعلق شبہات پیدا ہو جائیں گے۔ آخر یہ بھی تو روایات ہی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے قرآن کو موجود شکل میں ترتیب دیا۔”(مقام حدیث صفحہ: 340)
یہ حیلہ کیا ہے ملاحظہ کیجیے ۔
“جہاں تک احادیث کا تعلق ہے ہم ہر اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں جو قرآن کریم کے مطابق ہو یا جس سے حضور نبی اکرمﷺ یا کبار صحابہ ؓ کی سیر داغدار نہ ہوتی ہو۔” (طلوع اسلام کا مقصد و مسلک، شق نمبر: 14)
یہ بظاہرا بڑی معقول اور خوشنما بات ہے لیکن حدیث کے انکار کا سب سے آسان طریقہ ہے اس کے لیے کسی علمی تحقیق ، بحث کی ضرورت نہیں پڑتی ، آپ کسی بھی حدیث کا ذرا سی لفاظی کے سہارے اس بہانے انکار کرسکتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے، اس سے حضور ﷺ اور انکے صحابہ کی سیرت داغدار ہوتی ہے ، ،حضورﷺ اور آپ کی ازواج کی شان کے خلاف ہے.حضورﷺ کے اخلاق عالی کے خلاف ہے، یہ عقل کے خلاف ہے ۔ حدیث خواہ کیسی بے غبار اور صحیح ہو، سند کتنی مضبوط ہو، رواۃ کتنے بے عیب ہوں۔ پوری اُمت نے قبول کیا ہو، ان کی بلا سے، انہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس حیلے کا منکرین حدیث کے علاوہ متجددین ، ماڈرنسٹ بھی جگہ جگہ سہارا لیتے نظر آتے ہیں ۔چنانچہ جولوگ علمِ دین سے واقف نہیں ہوتے، انہیں یہ قرآن ، سیرت ، عقل کے نام پر ایسی جذباتی تعبیر میں لے جاتے ہیں کہ وہ باآسانی احادیث سے بدظن ہوجاتے اور انکا انکار کرجاتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ایک منکر حدیث ڈاکٹر شبیر احمد نے اسی حیلے کے سہارے انکار حدیث پر ایک کتاب لکھی جسکا عنوان “اسلام کے مجرم” رکھا ، اس میں اس نے عوام الناس کو احادیث سے متنفر کرنے کے لیے اسی فیصد ضعیف اور باطل احادیث، تاریخی قصے کہانیوں کا سہار ا لیا اور کچھ صحیح احادیث کو ایسے ہی جذباتی انداز میں پیش کیا۔ اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے فیس بکی متجددین حدیث کے خلاف مہم چلائے رکھتے ہیں ۔ چند ماہ پہلے انہی کے ایک شاگرد نے ” میرے آقا ﷺ کی گستاخیاں” کے نام سے ایک تحریر لکھی اور اچھا بھلا رعب جھاڑنے کی کوشش کی۔ شروع میں لکھا :
“حضرات اس تحریر کو زرا دل مظبوط کر کے پڑھیے گا۔ ہم اپنے بخاری مسلم حنبل و دیگر اکابرین کے بارے میں بات کرنے ہر بھی بدک جاتے ہیں۔ مگر ہماری غیرت نجانے کہاں ہوتی ہے جب ان دینی کتابوں میں ہمارے آقا (ص) کی شان میں گستاخیاں ہوتی ہیں۔ ان ہی کتابوں سے چن کر سٹینک ورسز جیسی کتب لکھی جاتی ہیں اور ان ہی کو پکڑ کر نوجوان دین سے دور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آقا(ص) تو وہ تھے کہ اعلان نبوت کے وقت اپنے کردار کا کھلا چیلنج دیا اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔ اور ہمارے یہ اکابرین اپنی کتب میں جو چاہے بکواس بھر دیتے ہیں۔ یا انکے نام سے بھر دی گئیں۔
نقل کفر، کفر نہ باشد لکھ کر پھر کچھ حوالے اس کتاب سے پیش کیے جن میں سے صرف ایک دو صحیح احادیث اور باقی سب بزرگوں کے ملفوظات، تاریخی کتابوںٍ اور حدیث کی چوتھے درجے کی کتابوں سے لیے گئے ہیں ۔ چند حوالے ملاحظہ کیجیے :
1″جب حضور(ص) دوران حیض ہم سے اختلاط کرنا چاہتے تو ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مباشرت کرتے”۔ فرمان حضرت عائشہ(ر)۔(کتاب الحیض، بخاری۔ صفحہ 1988 ((یاد رہے اللہ پاک حیض والیوں کے پاس جانے سے منع فرماتے ہیں قرآن میں۔ انعام)
2 “حضور(ص) نے حضرت حفضہ(ر) سے قسم کھائی کہ وہ لونڈی سے مقاربت نہ کریں گے۔ وہ گھر آئیں تو انھیں حضرت ماریہ(ر) سے ہم بستر دیکھا۔ انھوں نے حضور(ص) کو بہت ڈانٹ پلائی” سیرت النبی(ص) ، شبلی۔ جلد اوّل۔ صفحہ 146۔
3- “سرکار(ص) نے فرمایا اگر شوہر کے سر سے پاؤں تک پیپ ہو اور عورت اسے چاٹے تب بھی شکر ادا نہ کر سکے۔ “غزالی۔ احیاالعلوم جلد دوم۔ صفحہ 103
4- “حضور(ص) نے ایک عورت کے بیٹے کو دم کر کے بدروح نکالی اور معاوضے کے طور پر ایک مینڈھا، گھی اور پنیر قبول کیا۔ “ابن ماجہ حدیث نمبر 3545
5۔ “ایک شخص پر سرکار(ص) کی ام ولد سے زنا کا الزام لگایا گیا۔ حضرت علی(ر) کو حکم دیا جا قتل کر دے۔ وہ گئے تو وہ نہاتا تھا۔ دیکھا تو اسکا تو عضو ہی کٹا ہوا تھا۔” صحیح مسلم۔ بحوالہ حضرت انس(ر)۔ کتاب برات الحرم (یعنی حضور(ص) نے اپنا لایا قانون شہادت بھلا دیا اور بغیر ثبوت ہی سزا کا حکم دے دیا۔ انعام)
6.عورت ایسی شے ہے کہ حضور (ص) نے امہات المومنین سے ناراض ہو کر مہینے کی قسم کھا لی۔ مگر بے قرار ہو کر حضرت عائشہ(ر) کے پاس انتوسیں دن جا پہنچے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی مہینہ تو نہ ہوا تو انکو گلے سے لگا کر کہا مہینہ 29 دن کا بھی تو ہوتا ہے۔ ” ملفوظات العسل۔ جنید بغدادی۔
7-“حضرت عائشہ(ر) نے حضور(ص) سے کہا کہ آپ نے اپنا ہاتھ باکرہ عورتوں پر رکھنا شروع کر دیا ہے۔ پھر اسما بنت نعمان سے نکاح پر اعوذبللہ منک سکھایا۔ “طبقات ابن سعد۔ 8/104
8۔ “حضور(ص) نے ملکیہ بن کعب سے نکاح کیا تو حضرت عائشہ(ر) نی جا کر کہا شرم نہی آتی اپنے باپ کے قاتل سے نکاح کر رہی ہے۔ اس نے بھی اعوذبللہ منک پڑھ کر جان چھڑائی۔ “طبقات ابن سعد۔ جلد 8۔ صفحہ106
9۔ “ایک شخص نے حضور(ص) سے تنہا ہونے کی شکایت کی۔ کہا کبوتری کو زوجہ بنا لو۔ “ابن القیم۔ المنار الحنیف۔ صفحہ 106
پھر لکھا :
حضرات خدارا سوچیئے۔ کیا یہ گند اس قابل ہے کہ ہماری کتب میں ہو۔ اگر یہ متفق متواتر مرسل نہیں ہے تو کسی بھی بہانے کتب میں باقی کیوں ہے۔ اٹھائیے اور عشق کی پوری قوت سے انھیں دور پھینک دیجیے۔ بس ایک بات یاد رکھئیے، جو بھی روایت میرے آقا(ص) کی شان میں کمی کرے، گستاخی کرے، اسے دیوار سے دے ماریں خواہ کسی کتاب میں ہو، خواہ راوی کوئی نزدیک ترین صحابی ہی کیوں نہ ہو۔ میرے آقا(ص) ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں اور ہم انکار کرتے ہیں ہر اس روایت کا، کتاب کا اور شخص کا جو انکی شان گھٹائے۔۔۔
انکار حدیث کی تاریخ پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ منکرین حدیث ہردور میں اسی طرح مثبت عنوان ہی سے آگے بڑھے ہیں ، انہوں نے اپنی منفی آواز کے لیئے ہمیشہ سے کسی نہ کسی مثبت عنوان کا سہارا لیا ۔ برصغیر کے منکرین حدیث کے لٹریچر کے مطالعہ اور حدیث کے بارے میں ان کے خود ساختہ اور من گھڑت شبہات اور اعتراضات کو دیکھ کر اس چیز کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ نہ تو علم حدیث پر عبور رکھتے ہیں اور نہ ہی علومِ قرآنی کی گہرائیوں سے واقف ہیں، یہ لوگ علمی معاملے میں بھی انتہائی سہل پسند واقع ہوئے ہیں حدیث کی مختلف انواع و اقسام اور راویوں سے متعلق فن ِتنقید و تحقیق کا علم حاصل کرنے کے لیے انکے پاس وقت نہیں ، اسی طرح تطبیق ِآیات و احادیث کے انتہائی اہم فن سے بے خبر ہیں کیونکہ اس کے لئے مسلسل اور عمیق مطالعہ کی ضرورت ہے ۔ قرآن وسنت اور ان کے مستند مآخذ تک اکثر منکرین ِحدیث کی رسائی نہیں لہٰذا ان کی توجیہ بھی ان کے بس کاروگ نہیں ہے۔ ان کا مطالعہ صرف چند نامکمل تراجم کتب ِحدیث تک محدود ہوتا ہے۔ وہ ان اُصولوں سے بے خبر ہوتے ہیں جن سے کسی حدیث کی فقہی اور قانونی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔چنانچہ احادیث کے موضوع پر کسی پائے کی علمی تحقیق کے بجائے انکا سارا زور پروپیگنڈہ کرنے اور مفروضے گھڑنے پر رہا ہے۔
یہی حال ان سے متاثر ہونے والے نوتعلیم یافتہ نوجوانوں جدید و ماڈرن طبقے کا ہے ۔ یہ لوگ پڑھنے ، سننے میں خود کو کسی حد کا پابند نہیں سمجھتے ‘مطالعہ کرنے کا شوق ہوتا ہے، جس کسی کی کتاب ہاتھ لگ جاتی ہے مطالعہ کرلیتے ہیں، اہل باطل کی بھی دینی موضوعات پر کتابیں پڑھنے سے دریغ نہیں کرتے، اب چونکہ انہوں نے نہ خود دین کو گہرائی میں کسی استاذ سے پڑھا ہوتا ہے اور نہ مستند علما اور انکی کتابوں سے انکا کوئی تعلق ہوتا ہے، یہ اس سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں کہ کسی حدیث کی اہل علم کے ہاں کیا حیثیت ہے اور اس سے جو حکم ثابت ہے، وہ فرض ہے، سنت ہے، جائز ہے یا مباح ہے ۔ بلکہ احکام کے اس فرق کو جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہوتی ۔ اس لیے جب یہ حضرات کسی بدنیت کاقرآن و حدیث پر اعتراض پڑھتے ہیں تو چونکہ یہ قرآن و سنت اور اس کے مستند مآخذ سے واقف نہیں ہوتے ، اس کی توجیہ سے ان کا ذہن قاصر ہوتا ہے یوں اہل باطل کے مکر کو سمجھ نہیں سکتے اور بہت آسانی سے ان کی فریبانہ تحریروں اور تقریروں سے متاثر ہوجاتے ہیں ، کبھی انہیں تاریخی تنقید وتحقیق کے نام پر اسلام سے گمراہ کیا جاتا ہے ، کبھی عشق قرآن و رسول کے نام پر احادیث کا انکار کروایا جاتا ہے اور یہ بے چارے وہم وگمان کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگتے ہیں اور اسی طرح اپنے خود ساختہ اوہام میں غلطاں و پیچاں رہتے اور آہستہ آہستہ ان کے حامی بن کر انہی کے گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔
ہم نے اس تحریری سلسلے میں شروع دن سے منکرین حدیث کے انہی مکروفریب کو بالکل علمی انداز میں عیاں کرنے کی کوشش کی ہے، اس نئے سلسلے میں ہم منکرین حدیث کے خیر خواہی ، عشق رسول ، عشق قرآن اور عقل پسندی کے نام پر حدیث کا انکار کروانے کی کوششوں کا علمی جائزہ لیں گے ، ان لوگوں نے اپنی کتابوں میں جن صحیح و ضعیف احادیث کو اس سلسلے میں استعمال کیا ہے انکو بھی زیر بحث لایا جائے گا ۔انشاء اللہ ۔اس سے پہلے ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ منکرین حدیث کے حدیث کو پرکھنے کے لیے قائم کردہ یہ معیار کس قدر معقول ہیں اور جس انداز میں یہ انہیں حدیث پر اپلائی کرتے ہیں اس انداز میں خود قرآن ان معیاروں پر کتنا پورا اترتا ہے۔
imam al hadith Abu ayyan
December 3, 2021 at 1:06 pmاصل منکر حدیث کون ہیں؟
اس مقالے میں ردِ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم (انکارِ حدیث) کے بارے میں اصل حقائق اور اعداد و شمار بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
یہ تحقیقی مقالہ انگریزی میں لکھا گیا تھا لیکن اب اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اس سے پہلے اس کا عربی ترجمہ جامعہ الازہر کی فیکلٹی آف حدیث اسٹڈیز کے سابق سربراہ ڈاکٹر یوسف ابراہیم الازہری اور مدینہ یونیورسٹی کے ’ البحث عن أحاديث وهمية وملفقة ‘ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو ڈاکٹر یوسف ابراہیم الازہری نے کیا۔
اب آپ خود دیکھیں انکار حدیث کا آغاز کیسے اور کب ہوا؟
تحقیق : ابو حیان عادل سعید
تاریخ میں ہم پڑھتے ہیں کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تھوڑی مقدار میں، خاص حالات میں ‘ لو پروفائل پر حدیثیں لکھی اور جمع کیں۔ ۔ یہ دلیل بھی درست ہے کہ حدیث کی تالیف تیسری صدی ہجری میں بہت زیادہ مقدار میں شروع ہوئی۔
مندرجہ ذیل مقالے میں میں نے صحابہ کے چند اہم نسخوں اور تالیفات کے ساتھ ساتھ احادیث کی ابتدائی کتب جو دستیاب ہیں ان پر بحث کی ہے۔
ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا
میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں اپنے کام کا آغاز ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کے بارے میں کچھ الفاظ سے کرتا ہوں، وہ ہجرت سے 19 سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں، وہ امیر المومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی چھوٹی بیٹی تھیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا وہ واحد کنواری تھیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی تھی
بیوی اور قریبی ساتھی کی حیثیت سے ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم اور بصیرت حاصل کی جو کسی عورت نے حاصل نہیں کی۔ وہ تاریخ کی سب سے زیادہ سیکھنے والی مسلم فقیہہ تھیں۔ آپ کا انتقال 17 رمضان المبارک 57 ہجری کو ہوا اور بقیع قبرستان میں دفن ہوئیں۔
انہوں نے تقریباً 2200 احادیث بیان کیں جیسا کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے سنی۔
یہ بہت حیران کن بات ہے کہ بخاری نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے صرف 741 احادیث لی ہیں اور 1250 سے زائد رد کی ہیں، دوسری طرف مسلم نیشا پوری نے ان سے 503 احادیث لی ہیں اور 1690 سے زائد روایتوں کو رد کیا ہے۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا مخطوطہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معروف صحابی، جن کا نام عبداللہ بن عمرو بن العاص (متوفی 63 ہجری) ہے، نے ایک مخطوطہ تیار کیا تھا جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست روایت کی تھی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا مخطوطہ “صحیفہ الصادقہ” کے نام سے مشہور ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد مجاہد ابن جبر، (21-103ھ) کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مخطوطہ دیکھا تو میں نے اس کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا: یہ صدقہ ہے اور اس میں وہ ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اور اس میں میرے اور پیغمبرکے درمیان کوئی نہیں ہے۔
ابن سعد طبقہ الکبری دارالصدر 2/373
یہ “صحیفہ صادقہ” بعد میں ان کے پوتے “عمرو بن شعیب (متوفی 118ھ) کو منتقل ہوئی، اگرچہ یہ کتاب آج موجود نہیں ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا ہے کہ: “جب عمرو بن شعیب اپنے دادا سے اپنے والد کے ذریعے روایت کرتے ہیں تو یہ (اس) کتاب سے ہے۔” (تہذیب التہذیب 8/49
صحیفہ صادقہ میں حدیث کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے .متعدد محدثین نے بتایا ہے کہ صحیفہ صادقہ میں ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ روایتیں ہیں (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے 5374 حدیث روایت کی ہے) ڈاکٹر حمید اللہ نے بتایا کہ اس کتاب میں تقریباً 10000 (دس ہزار) احادیث ہیں۔ تاریخ حدیث از ڈاکٹر حمید اللہ، صفحہ نمبر 25 ‘ لیکن بعض نے اس میں تقریباً 700 روایات کا بیان کیا ہے ، میں آخری بیان پر بحث کرتا ہوں۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً 700 روایتیں نقل کی ہیں۔ امام بخاری نے صرف 64 حدیثیں لی ہیں اور امام مسلم نے ان سے 56 احادیث لی ہیں .امام بخاری نے 636 احادیث کو رد کیا اور امام مسلم نے 646 احادیث کو رد کیا۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے صحابی رسول کریم عبداللہ بن عمرو بن العاص (متوفی 63 ہجری) کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
ایڈمن
December 4, 2021 at 12:09 pmامام بخاری کا طریقہ یہ تھا کہ جتنی سندوں سے کوئی واقعہ انہیں پہنچا تھا انہیں وہ اپنی شرائطِ صحت (یعنی سند کی صحت نہ کہ اصل واقعہ کی صحت) کے مطابق جانچتے تھے اور ان میں سے جس سند یا جن سندوں کو وہ سب سے زیادہ معتبر سمجھتے تھے ان کا انتخاب کر لیتے تھے مگر انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ جو حدیثیں انہوں نے منتخب کی ہیں بس وہی صحیح ہیں اور باقی تمام روایات غیر صحیح ہیں ۔ ان کا اپنا قول یہ ہے کہ “میں نے اپنی کتاب میں کوئی ایسی حدیث داخل نہیں کی ہے جو صحیح نہ ہو، مگر بہت سی صحیح حدیثیں چھوڑ دی ہیں تا کہ کتاب طویل نہ ہو جائے۔ (تاریخ بغداد، ج 2 ص 8 – 9، تہذیب النووی ج 1، ص 74، طبقات السبکی ج 2 ص 7) بلکہ ایک اور موقع پر وہ اس کی تصریح بھی کرتے ہیں کہ “میں نے جو صحیح حدیثیں چھوڑ دی ہیں وہ میری منتخب کردہ حدیثوں سے زیادہ ہیں۔” اور یہ کہ “مجھے ایک لاکھ صحیح حدیثیں یاد ہیں۔” (شروط الائمۃ الخمسہ، ص 49 )
اتنے گھسے پٹے اور بچگانہ اعتراض کے ترجمے کے لیے آپ نے جامعۃ الازہر کے شیخ الحدیث کو ناحق تکلیف دی۔ یہ بات میرے جیسے ادنی درجے کا طالبعلم کو معلوم ہے انکو کیسے معلوم نا ہوگی ۔
منکرین حدیث جھوٹ چھوڑدیں تو اللہ انکے لیے بھی ہدایت کی راہیں آسان کردے ۔۔