صنف و جنس اور اس میں تغیر – جینیاتی، نفسیاتی و شرعی نگاہ سے

بسم الله الرحمن الرحيم!  یَآ أَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفس وَٰحِدَة وَخَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً‌ كَثِيرً‌ا وَنِسَآءً‌ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِي تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلأَرحَامَ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيكُم رَقِيبا [النساء: 1]

مفہوم: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو (اور اس کا خیال اپنے دل میں رکھو) جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس ایک جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں (یعنی جوڑے ) سے کئی مرد وزن پھیلا دیے!

آپ فیروز اللغات کھول کے”جنس” کے مادے کے تحت دیے گئے معانی شمار کیجیے تو اس میں آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: “ذات، نوع، صنف، جماعت” اور اگر آپ صفحے پلٹاتے ہوئے “صنف” کے مادے کے تحت مذکور الفاظ  تک پہنچیں تو آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: “نوع، جنس، قسم”۔

جنس، نوع وصنف یہ سب الفاظ ہماری زبان میں ایک ہی معنے کے لیے برتے گئے ہیں۔ اس میں آپ کو کوئی ایسا فرق نہیں ملے گا کہ ان میں سے ایک انسانی کی جسمانی  خصائص کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا اس کے سماجی مظاہر کی طرف۔

اسی طرح، انگریزی زبان میں gender and sex دو نوں کلمات کو  ۱۹۵۰ تک ایک ہی شمار کیا جاتاتھا۔ لیکن اسی صدی میں جنسی انقلا ب آیا اور اس  کے جلو میں، ان دونوں میں فرق ہونا شروع ہوا۔اس فرق میں بنیادی عنصر یہ تھا کہ “جنس” انسان کے جسمانی خصائص سے وابستہ ہے جو  مختلف معاشروں کے لحاظ سے بدلتے نہیں جب کہ “صنف” اس جنس سے وابستہ سماجی رویوں، مفروضوں  واعراف سے عبارت ہے جو  مختلف سماجوں میں جدا جدا ہو سکتے ہیں۔ اس میں لباس، زبان کا استعمال، پیشوں کی تقسیم (کہ کون سے پیشے سے مرد وابستہ ہوتے ہیں اور کون سے پیشے زنانہ شمار ہوتے ہیں) وغیرہ شامل ہیں۔

ذیل میں ہم اس جاری بحث کو شریعت اسلامی کے قواعد ، کتاب، سنت ،عمل صحابہ اور امت کے اہل اجتہاد  کے تناظرمیں پیش کریں گے۔اور جنس وصنف کے حوالے سے شرعی قواعد واضح کیے جائیں گے۔ساتھ ساتھ ، علم جینیات ونفسیات میں موجود ان تصورات  کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا۔

اس گفتگو میں مندرجہ ذیل سوالات زیر بحث ہوں گے:

۱: اسلام کا تصور  جنس کیا ہے؟ نیز اسلامی شریعت میں اس کی تعیین کا معیار کیا ہے؟

۲:اسلام اشیا اور کائناتی مظاہر سے معنویت کیسے وابستہ کرتا ہے؟ نیز کیا اشیا کی تعیین شریعت کا موضوع ہے؟

۳: خنثی  کسے کہتے ہیں؟نیز خنثی مرد ہے یا زن یا تیسری جنس؟خنثی اور Intersex میں کیا تعلق ہے؟

۴:  علم جینیات جنس  کو کیسے دیکھتا ہے؟

۵: نفسیات  کی بنیاد پر انسانی جنس ونوع کے تعلق کو کیسے دیکھا جاتا ہے؟نیز کیا انسانی نفسیات فقہ وقانون کی بنیاد بننے کے لیے کافی ہے؟

۶: خنثی کے تفصیلی احکام کیا ہے؟

۶: خنثی مشکل کسے کہتے ہیں؟ اور اس کے کیا احکام ہیں؟

۷: تبدیلی جنس کا کیا حکم ہے؟ کیا اعضا کی تبدیلی، یا شعور کے بدلنے یا ہارمونز کے تغیر سے جنس بدل جاتی ہے؟ کسی انسان کے مرد یا زن ثابت ہوجانے کے بعد، اس طرح کی تبدیلی کا کیا حکم ہے؟ نیز اس طرح کے اقدام کا شرعی حکم کیا ہے؟

۸: کیا جنس کے اصول کا اطلاق غیر مسلم اور ذمی پر بھی ہوگا؟

۹: ٹرانس جینڈرز کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ سیرت طیبہ میں مسلمان ٹرانس جینڈرز کے لیے کیا رہنمائی موجود ہے؟

صنف وجنس  شرعی نقطہ نگاہ سے

قاعدہ : جنس دو ہی ہیں اور باہمی جدا جدا ہیں:

جنس سے متعلق اسلام جو پہلا قاعدہ طے کرتا ہے وہ یہ کہ جنس دو ہی ہیں اور یہ ایک دوئی پر مبنی تصور ہے جسے Sex/Gender Binary سے تعبیر کیا جاتاہے۔ یہ کوئی رنگوں کی طرح نہیں کہ ایک رنگ کا جھکاؤ دوسری طرف ہو سکتا ہے۔ جیسے عنابی یعنی سیاہی مائل سرخ رنگ کہ نہ اسے پورے طرح سیاہ کہہ سکتے ہیں نہ سرخ۔ اس لیے، اسلامی شریعت کے ہاں جنس (اورصنف )دو ٹوک انداز سے دو ہی ہیں ، نیز ان میں نوع کا فرق ہے، درجات کا نہیں۔ اس امر پر امت کے علما کا اجماع ہے۔

قرآن مجید کی متفرق آیات میں اس امر کا تذکرہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو “نر ومادہ” (الذكر والأنثى) میں تقسیم کیا ہے۔ اس کی ایک مثال سورة النجم کی ہے۔ آیت پر غور کیجیے:

وَأَنَّهُۥ خَلَقَ ٱلزَّوجَينِ ٱلذَّكَرَ وَٱلأُنثَىٰ مِن نُّطفَةٍ إِذَا تُمنَىٰ [النجم: 45-46]

ترجمہ: (کیا انہیں موسی وابراہیم کے صحیفوں میں موجود باتوں کی خبر نہیں کہ جس میں سے یہ بھی ہے) کہ اس نے مرد وزن کو نطفے سے پیدا کیا جب وہ ٹپکتا ہے۔۱۲

مشہور حنفی مجتہد علامہ جصاص رازی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

۱: اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ جنس دو ہی ہیں: نر ومادہ اور کوئی بھی انسان نر ہے یا مادہ۔

۲: جہاں تک خنثی مشکل کا تعلق ہے، اس کا معاملہ اگرچہ ہمارے اوپر واضح نہیں۔ تاہم وہ بھی ان دو میں سے ایک ہے۔

یہاں “خنثی مشکل” کی اصطلاح استعمال ہوئی اس سے مراد وہ خنثی (Intersex) ہے جس میں اعضائے تناسل دونوں ہوں اور اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے۔اس سے واضح ہوا کہ خنثی بھی شریعت کی نگاہ میں مرد ہے یا عورت۔ (اس پر مزید تفصیل آگے آئے گی)

۳: نیز احناف نے خاص طو ر سے، اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی کی جنس میں اشتباہ اس کے بچپن تک ہی رہتا ہے۔ بالغ ہونے کے بعد یہ دور ہو جاتا ہے۔ یہ خنثی برادری سےمتعلق ایک اہم اصول ہے۔ جس کی طرف اس گفتگو کے اخیر میں آئیں گے۔

علامہ فرماتے ہیں:

«لما كان قوله: {الذكر والأنثى} اسما للجنسين استوعب الجميع، وهذا يدل على أنه لا يخلو من أن يكون ذكرا أو أنثى، وأن ‌الخنثى وإن اشتبه علينا أمره لا يخلو من أحدهما; وقد قال محمد بن الحسن: إن ‌الخنثى المشكل إنما يكون ما دام صغيرا فإذا بلغ فلا بد من أن تظهر فيه علامة ذكر أو أنثى. وهذه الآية تدل على صحة قوله»«أحكام القرآن للجصاص ط العلمية» (3/ 551)

مفہوم: چونکہ اللہ تعالی کا فرمان: “نر ومادہ” دو جنسوں کے لیے ہے، اس لیے اس میں سب کے سب انسانی افراد آ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان نر یامادہ ، نیز خنثی کا معاملہ اگرچہ ہم پر واضح نہیں، تاہم وہ بھی نر یامادہ ہی ہے۔امام محمد کا کہنا ہے کہ خنثی مشکل صرف بچپن تک ہے۔ جو خنثی بالغ ہو جائے، تو نر یامادے کی کوئی نہ کوئی ایسی علامت ضرور نمودار ہوتی ہے(جس کی بنا پر فیصلہ ہو جاتا ہے)۔ یہ آیت ان کی اس رائے کی تائید کرتی ہے۔۱۲

اسی طرح، سورة النساء کی پہلی آیت بھی اس شرعی قاعدے کو واضح کرتی ہےجسے ہمارے ہاں نکاح خواں نکاح کے خطبے میں عام طور سے پڑھتے ہیں اور اس حقیقت کا اعلان ہر نکاح کے ساتھ کیا جاتا ہے:

یَآ أَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفس وَٰحِدَة وَخَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً‌ كَثِيرً‌ا وَنِسَآءً‌ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِي تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلأَرحَامَ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيكُم رَقِيبا [النساء: 1]

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو (اور اس کا خیال اپنے دل میں رکھو) جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس ایک جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں (یعنی جوڑے ) سے کئی مرد وزن پھیلا دیے! ۱۲

مشہور مالکی مجتہد ومفسر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان جنس دو ہی ہیں۔ نیز “خنثی” کوئی جداگاہ جنس نہیں۔ بلکہ چونکہ وہ انسان ہے، اس لیے اسے مرد وزن میں سے کسی ایک ہی طرف لوٹایا جائے گا۔اور کسی ایک جنس سے جوڑنے میں اعضا کا اعتبار کیا جائے گا۔ وہ فرماتے ہیں:

حصر ذريتهما في نوعين، فاقتضى أن ‌الخنثى ليس بنوع، لكن له حقيقة ترده إلى هذين النوعين وهي الآدمية فيلحق بأحدهما«تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن» (5/ 2)

ترجمہ: اس آیت میں اللہ تعالی نے انسانی جنس کو دو میں بند کر دیا۔ پس اس کا تقاضا یہ ہے کہ خنثی کوئی مستقل نوع نہیں۔ بلکہ اس میں حقیقت آدمیت پائی جاتی ہے جو اسے کسی ایک جنس کی طرف پھیر دیتی ہے اور اس طرح، اس کا الحاق کسی ایک سے کیا جائے گا۔۱۲

ان آیات میں یہ قاعدہ کس طرح گندھا ہوا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی اس پر نقل کرتے ہیں :

«أن الله تعالى خلق بني آدم ذكورا وإناثا … وقد بين حكم كل واحد منهما ولم يبين حكم من هو ذكر وأنثى، فدل على أنه لا يجتمع الوصفان في شخص واحد، وكيف وبينهما مضادة »«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

مفہوم: اللہ تعالی نے بنی انسان کو نر ومادہ پیدا کیا ہے … اور ہر ایک کے حکم جداگانہ بیان کیے لیکن اس کا حکم نہیں بیا ن کیا جو نر ومادہ ہو۔ پس یہ دلیل ہے کہ کوئی ایک انسان ایک وقت میں نر ومادہ نہیں ہو سکتا۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ ان کے بیچ میں تضاد ہے۔

خنثی وجودی سطح پر مرد یا عورت ہی ہے تاہم ہمارا علم اس کی دریافت سے ، وقتی طور سے، قاصر رہتا ہے۔ اور ایسا ہونا بھی دراصل اللہ تعالی کی قدرت کا اظہار ہے۔ انسان کو اللہ تعالی نے بہت محدود علم دیا جس سے وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے مرد وزن میں فرق کر لیتا ہے۔ تاہم چونکہ علم محدود ہے، اس لیے انسان کے سامنے چیلنجز آتے رہتے ہیں جہاں اس کا علم بے بسی محسوس کرتا ہےاور اگر اس کا عقیدہ درست ہو، تو وہ اللہ تعالی کے اس فرمان کی معنویت محسوس کرتا ہے جو اس موقع پر کہا گیا جب روح سے متعلق سوال ہوا:

وَمَآ أُوتِيتُم مِّنَ ٱلعِلمِ إِلَّا قَلِيلاً‌ [الإسراء: 85]

ترجمہ: تمہیں انتہائی کم علم دیا گیا ہے!

اس اصول سے ہمیں مزید دو قواعد ملے جن کا تذکرہ مناسب ہے۔

علامہ قرطبی نے فرمایا کہ انسان میں “آدمیت” کی وجہ سے وہ کسی ایک جنس ہی پر ہو گا۔اس سےیہ اندازہ ہوا کہ انسان جس طرح جانداروں میں اپنی نوع (Species)لے کر پیدا ہوتا ہے کہ وہ “انسان” ہے، “چڑیا ” نہیں۔ اسی طرح، وہ اپنی “جنس” بھی لے کر اس دنیا میں آتا ہے اور “جنس” کوئی ایسا تصور نہیں جسے انسان اپنی خوائش اور اندرونی احساس کی بنا پر بدل ڈالے۔اگر کوئی انسان یہ کہے کہ وہ “انسان” نہیں بلکہ گھوڑا ہے یا اس کا “خاندان سگان” سے تعلق ہے، تو ظاہر ہے کہ معاشرہ اس پر سے انسان کے قانون کا اطلاق چھوڑ نہیں دے گا۔

اس سے ہمیں یہ قاعدہ ملا: قاعدہ: انسانی جنس ناقابل تغیر ہے۔اسے دریافت کرنے میں اشکال ہو سکتا ہےلیکن اسے دریافت کر کے بدلا نہیں جا سکتا۔

چونکہ مذکورہ بالا قاعدہ قانون شرعیت میں ایک “تسلیم شدہ حقیقت وامر واقعہ” ہے، اس لیے یہ اصول مسلمان معاشروں میں رہنے والے ذمیوں پر بھی ایسے ہی عائد ہو گا جیسے مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ بلکہ میں آگے بڑھ کر یہ کہوں گا کہ جنگ کے دوران میں جن امور کا تعلق انسانی جنس کے ساتھ ہے اس کا فیصلہ بھی اسی اصول پر ہو گا۔ جیسے ان عورتوں کو قتل نہیں کیا جائے گا جو جنگجو نہیں۔ چناچہ مثلا اگر کوئی عیسائی مرد اپنے آپ کو عورت قرار دے، تو ایک مسلمان معاشرے کے لیے وہ مرد ہی رہے گا (قطع نظر اس بات سے کہ وہ اپنے ذاتی دینی معاملات میں کیا کرتا ہے)۔

قاعدہ: جنس کا قانون جس طرح مسلمان پر لاگو ہوتا ہے اسی طرح ذمی پر لاگو ہو تا ہے۔

اشیا اور ان میں قدر اسلامی شریعت کی روشنی میں

فقہا کے ہاں  جنس کا تعین انسان کی ظاہری ساخت واعضا اور زیادہ صحیح الفاظ میں، نظام تولید سے وابستہ اعضا سے کیا جاتا ہے۔اور اس پر اور خنثی پر ہم ایک ہی عنوان کے تحت گفتگو کریں گے۔لیکن اس سے پہلے اس امر پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ شریعت  ایک قدر پر مبنی نظام ہے جبکہ سائنس اور طبعی علوم، قدر سے عاری، کم از کم، اپنےاعلان میں۔اس لیے، جنس کی تعیین   پر گفتگو سے پہلے شریعت کے اس پہلو گفتگو ضروری ہے۔

شریعت کا اشیا او روقائع کی حدبندی کرنا:

فقہ ایک مقاصد پر مبنی (Purpose Drive)انسانی سرگرمی ہے۔ وہ کچھ امور کو ایک واقع (فیکٹ)کے طور پر لیتی ہے اور اس پر حکم عائد کرتی ہے  اور وہی “حکم شرعی ” ہی اصل میں “قانون” ہے۔

اس لیے، اسلامی شریعت  پہلے یہ طے کرتی ہے کہ “واقع”  کیا ہے اور پھر اس کا “حکم/قانون”۔ مثلا  یہ جملہ دیکھیے:

“عاقل بالغ پر نماز فرض ہے”۔

واقع: عاقل بالغ ہونا

حکم/قانون: نماز کی فرضیت

شریعت کا کام صرف یہ بتانا نہیں کہ نماز فرض ہے، بلکہ شریعت یہ بھی طے کرتی ہے کہ “عاقل بالغ” کون ہے۔اسے ہمیشہ انسانی اجتہاد پر نہیں چھوڑتی۔اسے ایک مثال سے سمجھیے:

 شریعت کے ہاں بلوغت کے کچھ معیار ہیں جنہیں ذیل میں دیا جاتا ہے:

۱: شریعت نے ایک کم از  کم عمر مقرر کی ہے کہ اس سے پہلے انسان کو بالغ تصور نہیں کیا جا سکتا۔(فقہ حنفی میں، لڑکے کے لیے بارہ اور لڑکی کے لیے نو سال ہے۔)

۲: شریعت نے زیادہ سے زیادہ عمر مقرر کی ہے کہ اس کے بعد، انسان کو نابالغ نہیں تصور کیا جا سکتا۔(جیسےحنفی فقہ میں امام ابو یوسف کے مطابق یہ عمر  مرد وعورت دونوں  میں پندرہ سال  ہے اور اس پرفتوی دیا جاتا ہے۔)

۳: ان دو حدود کے درمیان  میں، شریعت نے کچھ امور طے کیے ہیں کہ اگر وہ پائے جائیں تو انسان بالغ شمار ہو گا:

    1. احتلام ہونا،

    2. جاگتے میں انزال ہوجانا۔

    3. حیض آجانا(لڑکی کو)

    4. قرار حمل (فرض کریں کہ لڑکی کے ساتھ کسی نے تعلق قائم کیا، قطع نظر اس بات سے کہ وہ درست تھا یا نہیں، اور وہ امید سے ہوگئی، تو اس بندے کو سزا دیں یا نہ دیں، لیکن وہ بالغ شمار ہو گی۔)

    5. لڑکے کا کسی کو حامل کر دینا۔(احناف کے ہاں تفصیلات کے لیے دیکھیے، شرح الوقاية، كتاب الحجر، لصدر الشرعية الثاني)

واضح رہے کہ یہاں یہ مقصود نہیں ہے کہ کوئی رائے غلط ہو یا درست ہو کیونکہ یہ اجتہادی معاملات ہے اور ان میں ایک سے زیادہ رائے کا امکان ہے۔ مقصود یہ ہے کہ فقہا کی نگاہ میں شریعت یہ امور بھی طے کرتی ہے، ہمیشہ اسے لوگوں پر نہیں چھوڑ دیتی۔

اسی طرح، شریعت کے ہاں اسباب کی بحث دیکھ لیجیے۔مثلا:

“بیت اللہ کا حج مسلمان پر فرض ہے”

سبب: بیت اللہ

حکم/قانون: فرضیت

کعبہ شریف حج کی فرضیت کا سبب ہے۔ اور چونکہ وہ ایک ہی ہے اس لیے انسان پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض ہوتاہے۔ لیکن اگر کوئی بندہ مثلا پاکستان میں کعبہ بنا لے اور فرض کریں کہ جم غفیر اسے کعبہ تسلیم کرنے لگے، تو یہ نہیں کہا جائے گاکہ شریعت کا اصل مقصود “حکم وقانون” بنانا ہے اور “سبب ومحل” وغیرہ میں اس نے معاملات کو لوگوں کے عرف پر چھوڑ دیا ہے، اس لیے اب لوگوں پر دو حج فرض ہوں گے یا انسان کو اختیار ہے کہ ان دونوں میں سے جس پر بھی قادر ہو اس کا حج  کرے (اس توجیہ کے ساتھ کہ اصلی کعبہ اور بعد والا کعبہ علی سبیل البدلیت سبب بن رہے ہیں جیسے اگر طواف میں کوئی جنایت ہو تواس پر اس کا اعادہ ہے۔تاہم اگر وہ دم دے دے، تو اعادہ نہیں کرنا پڑتا کہ دم اس کا بدل ہے)۔

اسی طرح، نماز کے لیے سورج کا ڈھلنا چڑھنا وغیرہ۔ اگر کسی علاقے میں لوگ چاند کو سورج ماننے لگیں اور سورج کو چاند ، تو یہ نہیں ہو گا کہ روزہ دن کے بجائے رات کو فرض ہو جائے گاکہ چلو لوگوں کے لیے بھی آسانی ہے کہ رات میں آرام سے روزہ رکھ کر سو جائیں۔دن کو اپنے کاروبار زندگی میں پوری طاقت سے مگن رہیں۔

آخری مثال، انسان کی خود ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو اس کائنات میں  اپنے تشریعی ارادے کی تنفیذ کے لیے بھیجا ہے۔ اسے باکرامت بنایا (وہ اس وقت بھی باکرامت ہے جب وہ خنثی ہے)۔مسجود ملائک بنایا۔ ابلیس نے جب سجدے سے انکار کیا، تو اسے مردود ٹھہرایا۔اوران شرعی احکام کا “مخاطب” انسان ہے (اور جنات بھی)۔ سوال یہ ہے کہ کیا “انسان” کی ماہیت طے کرنا شریعت کا موضوع ہے یا نہیں؟ فرض کر لیں کہ اگر کسی عرف میں پہاڑوں کو انسانوں کی طرح  تصور کیا جائےیا دریا کو، تو کیا اس علاقے کا فقیہ یہ کہے گا کہ چونکہ اس کے عرف میں”انسان” کی تعریف میں  پربت بھی شامل  ہیں اس لیے،  وہ بھی انسان ہے۔ (کسی خاص معاملے میں کسی کو کسی کے “حکم” میں کرنا ایک الگ معاملہ ہے۔ جیسے مرض الموت میں واقع زندہ شخص کو بعض تصرفات میں “مردے” کے حکم میں کیا جاتا ہے۔لیکن تحقیق مناط میں  اسے بالکل “مردہ” کی کیٹیگری میں شامل کرنا درست نہیں۔)

اسی طرح، “جنس” کا معاملہ ہے۔ شریعت نے اس حوالے سے انسانوں کو ان کے عرف ورواج پر نہیں چھوڑ دیا۔ ہم اس معاملے کا  تجزیہ کرتے ہیں۔ذیل میں دیے گئے شرعی قضایا (Propositions) پر غور کیجیے:

۱: انسانی نر کے لیے انسانی مادہ سے جنسی تعلق قائم کرنا ، رشتہ ازدواج  یا ملکیت میں، جائز ہے۔

۲: انسانی نر کے لیے انسانی نر سے جنسی تعلق قائم کرنا ناجائز ہے۔

۳: انسانی مادہ کے لیے وہ لباس پہننا جو اس کے سماج میں انسانی مادہ پہنتی ہو، ناجائز ہے۔

۴: انسانی نر کے لیے کسی ایسی انسانی مادہ کے ساتھ تنہا ہونا جو نہ کے ساتھ نسبی رشتہ رکھتی ہو، نہ رضاعی نہ  مصاہرتی نہ ازدواجی، ناجائز ہے۔

وغیرہ وغیرہ۔

ان سب قضایا میں شریعت نے ایک حکم یا قانون عائد کیا ہےاور ایک “محکوم علیہ “پر عائد ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح اوپر کی مثالوں میں شریعت نے   محکوم علیہ یا اسباب کی خود حد بندی کی ہے، اسی طرح شریعت نے یہاں بھی اس کی حد بندی کی ہے یا نہیں؟ ہمارے فقہا کے اس حوالے سے نقطہ نگاہ کیا تھا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فقہا نے اس حوالے سے حد بندی کی ہے اورہم نے آغاز میں جو کہا کہ فقہا اس حوالے سےانسان کے تولیدی نظام سے وابستہ اعضا کو بنیاد بناتے ہیں، وہ ان کے نزدیک ایک ایسا معاملہ ہے جو زمانے کے لحاظ سے، عرف کے لحاظ سے بدلتا نہیں۔چونکہ اس حوالے سے گفتگو خنثی کے تحت ہوتی ہے، اس لیے ہم اس پر گفتگو کریں گے۔

اشیا ووقائع میں معنویت مقاصد سے آتی ہے:

اگلے بات یہ دیکھیے کہ سورج، چاند،مرد ہونا یا عورت ہونا یہ صرف اللہ تعالی کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ سورج چڑھتا ہے، ڈھلتا ہے۔ اور یہ سب اللہ تعالی کے تکوینی ارادے کا مظاہر ہیں۔ تاہم اسلامی شریعت میں اس کی معنویت یہ ہے کہ ان دونوں کائناتی مظاہر کے ساتھ مجھے اپنے رب کے تشریعی ارادہے کا علم ہوتا ہے کہ میں دنیا کے سارے مشاغل پس پشت ڈال کر اس کے سامنے سربسجود ہوں اور نماز پڑھوں۔ اسی طرح،ماہ وسال آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اور اپنے رب کے تکوینی ارادے کو نبھا جاتے ہیں۔ لیکن رمضان کے مہینے کی معنویت یہ ہے کہ یہ مجھے اپنے پروردگار کے تشریعی ارادے کا علم دیتا ہے کہ میں روزہ رکھو۔

اسی طرح، کسی کا “انسانی نر ”  کے اعضا کا حامل ہونا یا “انسانی مادہ” کے اعضا کا اللہ تعالی کا ایک تکوینی فیصلہ ہے جو نہ اس نر کے ہاتھ میں ہے نہ مادہ کے ہاتھ میں۔لیکن اس تکوینی ارادے کے ساتھ اللہ تعالی کا تشریعی ارادہ جڑا ہوا ہےجو اس زنانہ ومردانہ مظہر کو معنویت دیتا ہے  کہ “نر” سے خاص مقاصد جڑے ہوئے ہیں اور “مادہ” سے مخصوص۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سائنس کا یہ طے کرلینا کہ وہ کسے “نر” اور کسی “مادہ” کہتی ہے یا علم نفسیات کا طے کرلینا کہ وہ کسے “زن” اور کسی “مرد” کہتا ہے، فقہی نقطہ نظر سے اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک وثوق سے ثابت نہ ہوکہ شریعت نے اس معاملے کو انسانوں کے اپنے معیار پر چھوڑ دیا ہے۔ جیسے مثلا  بیع کے قانون میں ، عقد کے تقاضے کے خلاف شرط کو فاسد قرار دینے کو شریعت  نے عرف پر چھوڑ ہے کہ جو شرط اتنی عام ہو جائے کہ اس سے نزاع نہ رہے تو اس سے سودا فاسد نہیں ہوگا ورنہ فاسد ہو گا۔اس پیمانے کا تعلق انسان کے اپنے تجربے سے ہے۔اور یہاں بھی آپ غور کریں تو دراصل “نزاع کا ظن غالب” وہ علت وسبب ہے جو شرعیت نے طے کر دیا ہے۔ تاہم یہ تصور ایسا ہے کہ زماں ومکا ں سے بدلتا رہتا  ہے، اس لیے اس کی حد بندی ہو ہی نہیں سکتی اور شریعت نے انسان کے  دست تجربہ میں اسے دے دیا ہے۔

جنس ومقاصد:

اب ہم مزید اس پر روشی ڈالتے ہیں کہ فقہا “نر ومادہ” دونوں جنسوں کو کیسے دیکھتے ہیں اور ان کے ہاں “جنس” کی تعریف کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ علم منطق کے جلو میں “جنس” ، “نوع” اور “فصل” وغیرہ اصطلاحات اسلامی علوم میں در آئیں اور ان کے تناظر میں مختلف علوم   میں گفتگو ہونے لگی۔ تاہم  شرعی علوم کے ماہرین یہاں محض خاموش تماشائی نہیں تھے بلکہ متحرک ناقد تھے اور انہوں نے ا  ن اصطلاحات کو اسلامی بنایا اور اسلامی علمیت واصول معرفت (اپسٹیم) سے ہم آہنگ بنایا اور یہی ہر دور کے ماہرین کا کام ہے۔ چناچہ علم منطق میں چیزوں کی ماہیت وحقیقت اور جس طرح  کہ “وہ ہیں”(الشيء كما هو) اس پر گفتگو ہوتی ہے۔ بالفاظ دگر، وہ وجودی سطح(آنٹولوجی) کا سوال اٹھاتے ہیں۔ لیکن فقہا نے جب یہ اصطلاح برتی تو اس کی کایا پلٹ دی۔ چناچہ فقہا نے یہاں ماہیت کے بجائے مقاصد کو بنیاد بنایا جو قدر کا سوال ہے اور جنس کی تعریف یہ کی  اس کے تحت آنے والے افراد وہ ہیں جن کے اغراض ومقاصد جدا جدا ہوں۔ چناچہ انسان جنس ہے کہ اس کے تحت مرد وعورت ہیں اور شریعت کی نگاہ میں دونوں مختلف ہیں۔مرد کے مقاصد کچھ اور عورت کے مقاصد کچھ ہیں۔

اسی حقیقت کے حوالے سے، مشہور علمی شخصیت محمد بن علی صابر فاروقی تھانوی فرماتے ہیں:

«وعند الفقهاء والأصوليين عبارة عن كلي مقول على كثيرين مختلفين بالأغراض دون الحقائق كما ذهب إليه المنطقيون، كالإنسان فإنه مقول على كثيرين مختلفين بالأغراض، فإن تحته رجلا وامرأة، والغرض من خلقة الرجل هو كونه نبيا وإماما وشاهدا في الحدود والقصاص ومقيما للجمع والأعياد ونحوه. والغرض من خلقة المرأة كونها مستفرشة آتية بالولد مدبرة لأمور البيت وغير ذلك. والرجل والمرأة عندهم من الأنواع، فإن النوع عندهم كلي مقول على كثيرين متفقين بالأغراض دون الحقائق كما هو رأي المنطقيين. »«كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم» (1/ 594 – 595)

ترجمہ: فقہا واصولی حضرات کے ہاں جنس اس کلی (کیٹیگری)کو کہتے ہیں جس کا اطلاق ایسے افراد پر ہو جن کے (شرعی)اغراض ومقاصد جدا ہوتے ہیں،  نہ کہ  ان کی ماہیت جیسا کہ علم منطق کے ماہرین کے ہاں ہوتا ہے۔اس کی مثال انسان  کی کلی ہے جو مختلف اغراض  کے حامل افراد پر منطبق ہوتی ہے کہ اس کے  تحت زن ومرد ہیں اور مرد کی تخلیق سے مقصود نبوت، امامت، حدود وقصاص میں گواہی، جمعہ وعیدین کی نمازوں میں امامت وغیرہ ہے اور عورت کی تخلیق سے مقصود   جنم دینا، رشتہ ازدواج میں بندھ کر کسی ایک ہی مرد کی اولاد کو جنم دینا اور اس اولاد کا اس کی طرف منسوب ہونا  (عورت کے فراش ہونے کا فقہی تصور)، گھر گھرستی وغیرہ ہے۔اور مرد وزن فقہا کے ہاں انواع ہیں کہ نوع ان کے ہاں اس کلی سے عبارت ہے جو ہم غرض افراد پر لاگو ہو نہ کہ ہم ماہیت  پرجیسا کہ علم منطق کے ماہرین کے ہاں ہوتا ہے۔

یہاں مندرجہ ذیل امور پر غور کیجیے:

۱: فقہا مرد وزن اور نر ومادہ کو ہم معنی برتتے ہیں۔

۲: فقہا کے ہاں  کسی انسان کا مادہ کے نظام تولید کا حامل ہونا  مادہ کے اغراض میں شامل ہے۔اسی وجہ سے، فقہی نقطہ نظر سے، کسی “مادہ”  کی تحدید دراصل اس کے نظام تولید سے ہوتی ہے۔ اور منطقی طور سے، اس کے برعکس نظام تولید کا حامل “نر” ہے۔(اس پرتفصیل بعد میں آئے گی)

۳: اسی طرح، عورت کا ایک وقت میں ایک ہی مرد سے وابستہ ہونا اس کے اغراض میں سے ہے۔

[نوٹ: اصول فقہ کی کتابوں میں “خاص” کی اقسام ، خاص الفرد، خاص النوع وخاص الجنس، کے تحت یہ بحث مل جاتی ہے۔ منار کی شرح نور الانوار میں بھی اس پر تفصیل سے گفتگو موجود ہے۔]

فقہا کے ہاں جنس وصنف میں فرق:

چونکہ یہاں جنس وصنف  کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے۔ اس لیے اس پر لگے ہاتھ کچھ گفتگو کر لینا مناسب ہے۔

آغاز میں یہ بات گزری کہ بیسوی صدی کے جنسی انقلاب کے بعد، جنم لینے والی علمیت  کے مطابق جنس وصنف کے مابین فرق  کی بنیاد یہ  ہے کہ تولیدی نظام سے جنس طے ہوتی ہے اور صنف اس کے سماجی مظاہر سے عبارت ہے۔ نیز یہ علمیت مندرجہ ذیل امور کے مابین ڈور کاٹ دیتی ہے:

۱:جنس (Sex) ،

۲: جنسی رجحان(Sexual Orientation)،

۳: سماجی کردار (Gender Role)،

۴: اور سماجی مظاہر(Gender Expression)۔

چنانچہ ایسا نہیں کہ اگر آپ “جنس” کا جواب دے دیں تو باقی امور خود بخود طے ہو گئے۔

یہاں ہم نے دیکھا  کہ  فقہا   کے ہاں یہ تمام امور آپس میں اس طرح  ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں  کہ اگر پہلے کا جواب دیں تو  دوسرے کا جواب خود بخود آئے گا۔

تاہم، یہ واضح رہے کہ بعض سماجی مظاہر اور سماجی کردار ایسے ہیں جو عرف کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے، یہ ضروری نہیں کہ ایک عرف میں اگر کسی مظہر کو مرد وزن کے ساتھ خاص کیا گیا تو وہ ہر زماں ومکاں میں ایسا ہے۔ تاہم   یہاں بھی فقہا عرف کے احترام کی تلقین ، مقاصد شریعت کی حدود میں، کرتے ہیں۔

اس پوری گفتگو سے ہمیں مندرجہ ذیل قواعد حاصل ہوئے:

قاعدہ: شریعت ایک قدر پر مبنی نظام ہے جو اشیا کو اللہ تعالی کے ارادے کے تحت معنویت بخشتا ہے۔

قاعدہ: شریعت اشیا کی قدر طے کرتے ہوئے، اشیا کی تعیین وتحدید بھی کرتی ہے۔ تاہم جو امور زماں ومکاں کے لحاظ سے بدلیں، وہاں شریعت انسانی تجربے پر معاملے کو چھوڑ دیتی ہے۔

قاعدہ: جنس کی تعیین وتحدید شریعت کا موضوع ہے  اور یہ زماں ومکاں کے لحاظ سے بدلتی نہیں۔

اسلام میں جنس کا معیار اور خنثی

یہاں تک  یہ طے ہو گیا کہ اسلامی نقطہ نظر سے جنس دو ہی ہیں  اور وہ دونوں جداگانہ ہیں اور انسان اپنے پیدائش کے ساتھ  جس طرح اپنی نوعی شناخت ( Identity of being a specific species)لاتا ہے اسی طرح اپنی صنفی شناخت بھی لے کر آتا ہے۔ یہ ناقابل تغیر عنصر ہے۔نیز جنس وصنف فقہا کے ہاں ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ تاہم بعض اوقات کسی انسان کی جنس کی دریافت میں الجھن پیدا ہو جاتی ہے اور اسے “خنثی” کہا  جاتا ہے۔اب شریعت کے نقطہ نگاہ سے، یہاں بنیادی سوال خنثی کی تعریف ہے اور اسی کے تحت اسلام میں جنس کا معیار طے ہوگا۔

خنثی کی تعریف:

“خنثی ” دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنے ایسے انسان کے ہیں جس میں مرد وزن دونوں کے اعضائے تناسل پائے جائیں۔

فقہا کے ہاں اس کی علمی تعریف بھی یہی ہے۔ البتہ وہ اس میں ایک مزید عنصر کا اضافہ کرتے ہیں۔وہ یہ کہ اگر کسی انسان کے دونوں اعضا سرے سے  نہ ہوں ، تو اس پر بھی “خنثی” ہی کا قانون نافذ ہو گا۔چناچہ مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفی فرماتے ہیں:

«وهو ذو فرج وذكر أو من عرى عن الاثنين جميعا»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

[خنثی وہ ہے جس  میں مرد وزن دونوں کے آلہ تناسل ہوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو۔]

خنثی مرد ہے یا عورت ہے:

فقہا کے ہاں ، فنی نقطہ نگاہ سے، خنثی کوئی تیسری باقاعدہ جنس نہیں، بلکہ خنثی مرد ہے یا عورت۔اور اس کا فیصلہ صحابہ کے دور سے فقہا کے ہاں اس کے  اعضائے تناسل سے کیا جاتاہے۔

اس حوالے سے ابن عدی کے ایک روایت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے منسوب ہے لیکن اسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ چناچہ مشہور حنفی فقیہ ومحدث علامہ جمال الدین زیلعی نے ہدایہ کی تخریج میں  بھی اسے ضعیف گردانا ہے۔ تاہم اس حکم کا دارومدار اس پر نہیں ہے۔ بلکہ اس حوالے سے صحابہ سے روایا ت منقول ہیں۔

حضرت علی سے منقول ہےکہ:

«عن علي أنه ورث خنثى ذكرا من حيث يبول»«مصنف عبد الرزاق» (8/ 389 ط التأصيل الثانية)

مفہوم:حضرت علی سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرد خنثی کو اس کی جائے پیشاب کی بنیاد پر وراثت دی۔

دیگر صحابہ سے منقول ہے:

عن جابر بن زيد، والحسن، في الخنثى قالا: «يورث من مباله»، قال قتادة: فكتب في ذلك لسعيد بن المسيب فقال: نعم، وإن بال منهما جميعا فمن أيهما سبق«مصنف ابن أبي شيبة» (6/ 277 ت الحوت)

مفہوم:حضرت جابر وحسن رضی اللہ تعالی عنہما سے  منقول ہے کہ خنثی کو اس  کی جائے پیشاب کی بنیاد پر میراث دی جائے گی۔ قتادہ کہتے ہیں کہ  انہوں نے اس حوالے سے سعید بن المسیب کو خط لکھا۔ انہوں نے بھی اس کی تائید کی۔ نیز فرمایا کہ اگر دونوں اعضا سے پیشاب کرے، تو جہاں سے پہلے شروع کیا ہو (اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔)

عن الشعبي، في مولود ولد ليس له ما للذكر ولا ما للأنثى، يبول من سرته، قال: «له نصف حظ الأنثى ونصف حظ الذكر»

علامہ زیلعی نے یہ روایات نقل کی ہیں بغیر کسی تنقید ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ان کے ہاں قابل حجت ہیں۔

نیز یہاں  اصل استدلال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول حدیث  نہیں جو کمزور ہے۔اور فقہی کتابوں میں منقول ہر حدیث یا ہر استدلال کا معتبر ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ فقہا کی عادت ہے کہ وہ ایک مسئلے پر کئی استدلالات اکھٹے کر دیتے ہیں جن میں سے بعض کمزور بھی ہوتے ہیں اور ہر فقہی مذہب کے ماہرین وقت کے ساتھ ساتھ اسے نکھارتے آئے ہیں۔  بلکہ بنیادی استدلال تین ہیں:

۱: شریعت کی طرف سے تقریر:

زمانہ جاہلیت میں بھی  یہ معاملہ رائج تھا  کہ ایسی صورتوں میں لوگ عضو تناسل کی بنیاد پر فیصلہ کرتے تھے۔شریعت آئی اور اس نے اس حوالے سے کوئی  تبدیلی نہیں کی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت اسے برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اسی یوں سمجھیے کہ “استصناع” کو (فنی باریکی برطرف، استصناع  آرڈر پر چیز بنوانے  سے عبارت ہے جب کہ میٹیریل بنانے والے کا ہو) احناف درست کہتے ہیں اور دوسرے فقہا نادرست کہ اس میں ایسی چیز کا سودا ہے جو موجود نہیں اور یہ “سلم” میں بھی شامل نہیں۔ احناف کے استدلالات میں سے ایک بنیادی استدلال یہ ہے کہ یہ معاملات رائج تھے۔ اس لیے، اگر ان میں تبدیلی مقصود ہوتی تو شریعت اس حوالے سے باقاعدہ رہنمائی فرماتی۔ اسی طرح، صحابہ  وتابعین کے دور میں یہ رائج  رہا پر اس پر نکیر نہ ہوئی۔پس ایسے امور میں ، شریعت کی یہ خاموشی اس کی طرف سے قانونی سازی  و”تقریر”ہے کہ یہ جائز ہے۔  یہی بات فقہا جنس  اور اس سے وابستہ احکام کے  حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ “حکم جاہلی “تھا اور شریعت نے اسے برقرار رکھا۔ اور صحابہ کا فیصلہ اس کی مزید توثیق ہوا۔اسے مختلف حنفی وغیر حنفی فقہا نے رقم کیا ہے۔ ہم علامہ سرخسی کی سنتے ہیں:

«وهذا حكم كان عليه العرب في الجاهلية على ما يحكى أن قاضيا فيهم رفعت إليه هذه الحادثة فجعل يقول هو رجل وامرأة فاستبعد قومه ذلك فتحير ودخل بيته في الاستراحة فجعل يتقلب على فراشه ولا يأخذه النوم لتحيره في هذه الحالة وكانت له بنية فغمزت رجليه فسألته عن تفكره فأخبرها بذلك وقالت دع الحال وابتغ المبال فخرج إلى قومه وحكم بذلك فاستحسنوا ذلك منه فعرفنا أن حكمه كان في الجاهلية قرره رسول الله – صلى الله عليه وسلم – وسيجيء من المعنى ما يدل عليه»«المبسوط للسرخسي» (30/ 103)

مفہوم: یہ معاملہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا جیسا کہ منقول ہے کہ ان کے ایک قاضی کے پاس یہ (خنثی کا )معاملہ لایا گیا۔ وہ کہنے لگا کہ یہ مرد وزن دونوں ہے۔ لوگوں  اس بات سے مطمئن نہ ہوئے۔ قاضی صاحب کشمکش کا شکار ہوگئے۔ وہ اپنے گھر آرام گاہ میں گئے۔ لیکن اس مسئلے کے ساتھ انہیں ایک پل چین نہ آئے،نیند نہ آئے۔اس کی ایک بٹیا تھی۔اس نے (جب با پ کر پریشان دیکھاتو)اس کے پاوں کو دبایا اور پریشانی کی وجہ جاننا چاہی۔ اس نے ماجرا کہہ ڈالا۔ بیٹی نے کہا کہ:”اس بات کو چھوڑیے اور پیشاب گاہ کو بنیاد بنائیے”۔ قاضی صاحب نے لوگوں میں جاکر اسی کے مطابق فیصلہ کیا، تو انہیں یہ پسند آئی۔ (اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں )اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ خنثی کا حکم زمانہ جاہلیت میں تھا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے برقرار رکھا۔ نیز آگے اس  حکم کی علت سے بھی اس کی مزید تائید ہوگی۔

۲: فقہا کا اجماع:

دوسرا یہ کہ اس معاملے پر فقہا کا اجماع ہے جو خود ایک مستقل دلیل ہے۔ اس حوالے سے ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ تعالی  نے بھی واضح فرمایا ہے کہ خنثی کا دارومدار پیشاب گاہ پر ہونا فقہا کے مابین ایک اتفاقی معاملہ ہے۔اور ابن المنذر سے انہوں نے اس پر فقہا کا اجماع نقل کر کےصحابہ کے آثار اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب  احادیث پیش کی ہیں۔ اس لیے، واضح رہے کہ یہاں مسئلے کی بنیادنبی   صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب خبر واحد پر نہیں۔ اور بلاشبہ، اس جیسے مسئلے کی بنا ایسے چیز پر نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ   رفع یدین جیسے مسئلے کی طرح اجتہادی مسئلہ بن جائے اور ساری بات زیادہ سے زیادہ “خلاف اولی” پر آجائے۔فقہا کے ہاں یہ ایک اتفاقی معاملہ ہے۔اور صحابہ کے دور سے فقہا نے اس کے حکم کی بنا اس زمانے کے عرف پر نہیں، بلکہ انسان کے ظاہری عضویاتی فطری پر رکھی ہے اور وہ معلوم تاریخ کے مطابق ابھی تک ارتقا کر کے  بدلی نہیں۔ نیز جینیاتی علم نے آ کر اسے بدلا نہیں بلکہ محض اس کی تفسیر کی ہے جیسا کہ تفصیل سے آگے آئے گا۔ انسانی فطرت وہیں کی وہیں ہے۔

اور یہی سے ہمیں واضح ہوتا ہے کہ ایک فقہا نے ضعیف روایت اس لیے نقل فرمائی کہ وہ مسئلے کی بنا نہیں  بلکہ حکم اور دلائل سے ثابت ہے۔اس لیے، اگر یہ روایت نہ ہو، تب بھی یہ حکم ثابت ہے۔

بہر کیف، علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت ملاحظہ ہو:

«الخنثى هو الذي له ذكر وفرج امرأة، أو ثقب في مكان الفرج يخرج منه البول ويعتبر بمباله في قول من بلغنا قوله من أهل العلم. قال ابن المنذر: أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم على أن الخنثى يورث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجل، فهو رجل، وإن بال من حيث تبول المرأة، فهو امرأة. وممن روى عنه ذلك؛ على، ومعاوية، وسعيد بن المسيب، وجابر بن زيد، وأهل الكوفة، وسائر أهل العلم. »«المغني» لابن قدامة (9/ 108 ت التركي)

مفہوم: خنثی وہ ہے اس میں مرد وزن دونوں کی شرم گاہ ہو یا شرمگاہ کی جگہ پر سوراخ ہو جس سے پیشاب نکلے۔ ہم تک جن اہل علم کی رائے بھی پہنچی ہے ان کے مطابق اس کی جائے پیشاب کا اعتبار کیا جائے گا۔ابن المنذر کہتے ہیں کہ جن اہل علم سے ہم نے علم نقل کیا ان سب کا اتفاق ہے کہ خنثی کو میراث جائے پیشاب کی بنیاد پر دی جائے گی۔ اگر وہاں سے کرے جہاں سے مرد کرتے ہیں، تو  وہ مرد ہے  اور اگر وہاں سے کرے جہاں سے عورت کرتی ہے، تو وہ عورت ہے۔ جن جن سے یہ بات منقول ہے ان میں حضرت علی، معاویہ، سعید بن المسیب، جابر بن زید  شامل ہیں۔ نیز اہل کوفہ اور باقی حضرات سے بھی یہی منقول ہے۔۱۲

مشہور مالکی فقیہ علامہ قرطبی نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ خنثی میں اس کے اعضائے تناسل کا اعتبار ہے۔

أجمع العلماء على أنه يورث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجل ورث ميراث رجل، وإن بال من حيث تبول المرأة ورث ميراث المرأة. «تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن» (5/ 65)

مفہوم:علما کا اتفاق ہے کہ خنثی کو اس کی جائےپیشاب کی بنیادپر میراث د ی جائے گی: اب  وہ ضرورت وہاں سے پوری کرے جہاں سے مرد کرتے ہیں، تو اسے مرد کی میراث ملے گی اور اگر وہاں سے ضرورت پوری کرے جہاں سے عورت کرتی ہے، تو عورت کی میراث۔ ۱۲

۳: قول صحابی:

نیز جو فقہا قول صحابی کو حجت تسلیم کرتے ہیں ان کے ہاں صحابہ سے منقول اقوال بھی ایک مستقل دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور احناف کے ہاں بھی قول صحابی حجت ہے۔

واضح رہے کہ اگر ہم جنس کے معاملے کو عرف  یا طب پر چھوڑ دیں، تو ہمارے پاس اس کی کوئی اصولی بنیاد نہیں رہے گی کہ ہم محض نفسیات واحساسات کو غیر معتبر ٹھہرائیں۔اور اس کے بعد، ہمارا یہ کہنا کہ “متبدل صنف” (ٹرانس جینڈر)کا اعتبار نہیں  ،بے بنیاد ہو جائے گا۔

یہاں قاری اس الجھن کا شکار نہ ہو کہ “جنس وصنف ” میں فرق ہے۔ ہم واضح کر چکے کہ شریعت کے ہاں یہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہیں اور “جنس” کو طے کرنا دراصل “صنف” (شریعت کے مختلف احکام)کے لیے ہے۔ ورنہ شریعت کو اس سے  کوئی سروکار نہیں کہ کسی چیز کی ماہیت کیا ہے۔ مثلا ماربل کی ماہیت کیا ہے، اینٹ کی کیا ہے؟

اس لیے، واضح رہے کہ اس ساری بحث میں کلیدی کردار اس بات ہے کہ “خنثی ” کی تعریف کیا ہے۔ہم یہ طے کر آئے ہیں کہ شریعت   کے ہاں جنس غیر متبدل ہے اور یہ اللہ تعالی کی اٹل تقدیر ہے۔

پس شریعت کی نگاہ میں خنثی وہ ہے جس کے نظام تولید سے وابستہ اعضا  دونوں ہوں یا ان میں ابہام ہو۔اس کے علاوہ ،ثانوی جسمانی خصائص جیسےچہرے پر بال یا ہونا یا نہ ہونا،چھاتی کا ہونا نہ ہونا(جنہیں طب میں ثانوی خصائص Secondary Traits کہا جاتا ہے ) خنثی کی تعیین میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ اور نفسیات کا تو کیا ہی کہنا کہ اس کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں ہوتا۔

اسی طرح، واضح رہے کہ کسی مرد یا عورت کا آپریشن کروا لینا اسے خنثی یا خنثی مشکل نہیں بناتا۔ جنس صرف اعضا ئے تناسل کا نام نہیں۔ بلکہ کسی بچے کا مخصوص اعضائے تناسل کے ساتھ پیدا ہونا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالی کی تقدیر ازلی میں وہ نر ہے یا مادہ۔ اس لیے، اگر کوئی مرد اپنے اعضا بدلوا لے، تو وہ خنثی نہیں ہو گا بلکہ وہ  بدستور مرد ہی رہے گا۔

تاہم جب کسی کا خنثی ہونا ثابت ہو جائے، تو اس کے بعد، فقہا کے ہاں بہت گنجائش  ہے۔ لیکن اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم علم جینیات اور انسانی نفسیات کے پہلو سے اس موضوع پرغور کریں تا کہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ ہمارے فقہا کے علمیات ان کے لحاظ سے کہاں ہے۔

جنس کی تعیین کا پیمانہ: علم جینیات کی روشنی میں

ہماری موجود ہ گفتگو میں کلیدی کردار اس بحث کا ہے کہ کسی جنس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ظاہر ہے کہ ہم یہاں شرعی نقطہ نگاہ سے بات کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں کتاب وسنت اور فقہا کے اجتہاد کی روشنی میں چیزوں کو دیکھنا ہے۔ تاہم اس سارے عمل میں موجودہ انسانی علم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنس کے تعین کے حوالے سےچار  امکانات ہیں:

۱: جنسی اعضا ووظائف،

۲: کروموسومز اور

۳: ہارمونز

۴: نفسیاتی کیفیت

یہاں پہلے تینوں امور کا تعلق انسان کی عضویاتی ووظائفی جہت (فیزیولوجی اورآنٹولوجی)سے ہے اور آخری کا تعلق نفسیاتی جہت سے۔

سر دست ہم پہلے تین امور پر غور کریں گے!

اس وقت انسان کی جنس وظاہری اعضا سے متعلق معیاری علم جینیات کا ہے۔ اس علم کے مطابق انسان خلیوں سے بنا ہوا ہے اور ہر خلیے میں کروموسومز ہیں جو کسی بھی انسان کے جسمانی خصائص کی ہدایات کے حامل ہیں۔

ہر انسانی خلیے میں کروموسومز کے تئیس جوڑے ہوتے ہیں، یعنی چھیالیس کروموسومز۔ ان میں سے  پہلے بائیس جوڑے عضوی غیر جنسی کروموسومز کہلاتے ہیں. انہیں ایک سے بائیس تک نمبر دیے جاتے ہیں۔ جبکہ تئیسواں جوڑا انسانی جنس سے متعلق ہدایت کا حامل ہے ۔ عام طور سے، عورت  میں یہ جوڑا ایکس ایکس (XX) سے مل کر بنتا ہے جبکہ مرد میں ایکس وائے (XY) سے۔ عورت کے بیضے سے ہمیشہ ایکس آتا ہے جبکہ مرد کی منی سے ایکس بھی آ سکتا ہے اور وائے بھی۔ اس لیے، کہا جاتا ہے کہ جنسی ساخت  کا تعین باپ کی طرف سے ہوتا ہے۔

 یہ کروموسومز دراصل ایک دھاگے کی ہیئت میں ہوتے ہیں جن میں  انسان کا ڈی این اےگندھا ہوا ہوتا ہے  ۔ جینز پر مبنی نظریے کے مطابق انسان کے جسمانی اعضا دراصل اسی “ڈی این کے “کے مطابق تشکیل پاتے اور وظائف ادا کرتے  ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے دو اصطلاحات پر غور کرتے ہیں:

جینوٹائپ(Genotype): جینز کا یہ سارا مجموعہ جو انسان کی ساخت سے متعلق ہدایات کا حامل ہے، اسے جینوٹائپ یا جینوم کہتے ہیں۔

فینوٹائپ(Phenotype): اس کے برعکس وہ ساخت واعضا جو اس جینوم سے وجود میں آتی ہے اسے فینوٹائپ کہتے ہیں۔یہاں لفظ “فینو” دراصل یونانی لفظ ہے جس کا مطلب چمکنا، آشکار ہونا، ظاہر ہونا ہے۔اور اسی لیے جینز کے نتیجے میں جس طرح انسان کی عضویاتی تشکیل ہوتی ہے اور اس کے اعضا نمو دار ہوتے ہیں اور عمل کرتے ہیں، اسے فینوٹائپ کہتے ہیں۔چناچہ کسی انسان کی آنکھ کا رنگ جو ہمیں نظر آتا ہے وہ حقیقت میں فینوٹائپ ہے جبکہ اس کے متوازی ہدایت جو انسان کے جینز میں موجود ہے وہ جینوٹائپ ہے۔یہ انسانوں کا معاملہ ہے جبکہ تتلی وغیرہ بعض پرندو ں میں  اور چھپکلی (ریپٹائل)کی نسل سے وابستہ بعض اقسام میں معاملہ برعکس ہے۔ نر میں یکساں جنسی کروموسومز ہوتے ہیں جنہیں زیڈ زیڈ (ZZ) سے ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ مادہ میں مختلف ہوتے ہیں جنہیں زیڈ ڈبلیو (ZW) سے ظاہر کیا جاتاہے۔

یونانی زبان میں گٹھلی،خلیے کو  کیرنیو (karyon ) کہتے ہیں۔ وہی سے انسان کے کروموسومز کی مکمل تصویر سازی کو Karyotype کہا جاتا ہے۔

بہر حال، اس نظریے کے مطابق انسان کے فینوٹائپ  اور جینوٹائپ میں باہمی رشتہ ہے (وہ سببیت کا ہے یا محض زمانی ہم آہنگی  کا یہ فلسفہ سائنس کا موضوع ہے)۔ اس لیے، انسان کی عضویاتی تشکیل، اس میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی یا بعض لوگوں میں پائے جانے والی استثنائی حالتوں (سنڈروم) کی تفسیر جینوٹائپ سے ہو گی۔اور خاص طور پر، جنسی کروموسوم سے انسانی اعضا میں  تفاوت رونما ہوتا ہے(Sex-linked)

جنیز کے علم میں جنس (سیکس) دراصل جنسی  فینوٹائپ کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ چناچہ مشہورجینیات کے استاد ” بینجمن اے پیئرس ”  اپنے کتاب  ” Genetics: A Conceptual Approach”میں رقم طراز ہیں:

The term sex refers to sexual phenotype. Most organisms have two sexual phenotypes: male and female. The fundamental difference between males and females is gamete size: males produce small gametes, and females produce relatively large gametes Sex: Sexual phenotype: male or female.
….
We define the sex of an individual organism in reference to its phenotype

مفہوم: جنس   کی اصطلاح جنسی  جسمانی خصائص  اور ان کے وظائف کے  لیے برتی جاتی ہے۔ اکثر زندہ کائنات میں دو  طرح کے خصائص ہوتے ہیں: نر ومادہ۔ نرومادہ میں بنیادی فرق جرثومی خلیے کے حجم کا ہے: نر میں یہ چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ  مادہ میں قدرے بڑے۔

جنس =جنسی ظاہری ساخت  ووظیفہ(فینو ٹائپ) = نر + مادہ

ہم(علم جینیات میں) کسی جاندار کی جنس اس کے ظاہری ساخت واعضا ووظائف سےطے کرتے ہیں۔

بینجمن مزید واضح کرتے ہیں کہ جنس کی اصطلاح اس فن میں انسانی ساخت (Anatomy) کے لیے کہی جاتی ہے۔ چناچہ عام طور سے، مردانہ ساخت کے پیچھے ایکس وائے(XY) ہوتے ہیں اور زنانہ ساخت کے پس پشت ایکس ایکس(XX)۔ لیکن بعض شاذ ونادر حالات میں مردانہ ساخت کے پس پشت ایکس ایکس ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے، ایسا جاندار جینیاتی طور پر اگرچہ “مادہ “ہے لیکن ساخت کے لحاظ سے “نر” ۔تاہم ان شاذ ونادر حالات میں بھی (ایکس ایکس نر)وائے کروموسومز کا ایک ذرہ کسی دوسرے کروموسومز سے نتھی ہوتا ہے۔بینجمن کی سنیں:

For instance, the cells of human females normally have two X chromosomes, and the cells of males have one X chromosome and one Y chromosome. A few rare individuals have male anatomy although their cells each contain two X chromosomes. Even though these people are genetically female, we refer to them as male because their sexual phenotype is male. (As we see later in the chapter, these XX males usually have a small piece of the Y chromosome that is attached to another chromosome.)

مفہوم: مثلا انسانی مادہ کے خلیے میں عام طور سے دو ایکس کروموسومز ہوتے ہیں جبکہ نر میں ایک ایکس اور ایک وائے۔ کچھ شاذ ونادر صورتوں میں انسان کی ساخت نر کی ہوتی ہے لیکن اس کے خلیوں میں دونوں کروموسومز ایکس ہی ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ جینیاتی طور سے مادہ ہیں، لیکن ہم انہیں نر ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ ان کی جنسی ساخت واعضا ووظائف  نر کے ہیں۔(آگے اسی باب میں ہم دیکھیں گے  کہ ان “ایکس ایکس” نر میں عام طور سے وائے کروموسومز کا ایک ٹکڑا کسی دوسرے کروموسوم سےلٹکا ہوا ہوتا ہے)۔

نیز  مصنف کے مطابق  ایسا بہر کیف ہوتا ہے کہ انسانی جینیاتی کروموسومز میں وائے نہ ہو، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس میں ایکس نہ ہو۔ اور ان کا کہنا ہے کہ غالبا اس طرح کے جنین گر جاتے ہیں۔

اس کے بعد، مصنف جنس اور صنف کا فرق واضح کرتے ہیں کہ جنس دراصل کسی شخص  کی ساختیاتی وعضویاتی   ووظائفی جہت ہے جبکہ صنف کسی انسان کی سماجی جہت کی عکاس ہے۔  مثلا ایک انسان ساختیاتی وعضویاتی طور سے مرد ہے لیکن وہ ساڑھی پہننا ، مہندی لگانا، سینڈل پہننا پسند کرتا ہے۔ان کی دوبارہ سنتے ہیں:

Gender is not the same as sex. Biological sex refers to the anatomical and physiological phenotype of an individual. Gender is a category assigned by the individual or others based on behavior and cultural practices. One’s gender need not coincide with one’s biological sex.

مفہوم: صنف جنس سے الگ ہے۔ حیاتیاتی جنس کسی جاندار فرد کی ساختیاتی ووظائفی جہت کی طرف اشارہ ہے۔ کسی فرد ووغیرہ کی طرف سے رویے اور سماجی مظاہر  کی بنیاد پر جو عنوان اختیار کیا جاتا ہے، اسے صنف کہتے ہیں۔ ایک جاندار کی صنف کا اس کی حیاتیاتی جنس سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جنسی کروموسومز انسانی جنس کی تشکیل کے ذمے دار ہیں تاہم غیر جنسی کروموسومز بھی اس میں ذیلی کردار ادا کرتے ہیں۔اسی طرح، انسان میں جنس کی تشکیل کے لیے جو جین ذمے دار ہے اسے “ایس آر وائے”(SRY) کہا جاتا ہے جو عام طور سے، وائے کروموسوم پر پایا جاتا ہے۔اسی لیے، انسانی جنس کی تشکیل میں وائے کروموسوم کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور جینیاتی استثنائی مظاہر(سنڈرومز) سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ہم ذیل میں ان مظاہر کو سرسری طور سے دیکھتے ہیں۔ اور یہ ساری تفصیل بینجمن سے لی گئی ہے:

ٹرنر استثنائی مظہر (Turner Syndrome):

بعض اوقات زنانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم مادہ یا عورت کہتے ہیں) صرف ایک ایکس ہوتا ہے جبکہ دوسرا ایکس غیر موجود ہوتا ہے۔ اسے، “ایکس او”(XO)سے ظاہر کیا جاتا ہے۔نیز مندرجہ ذیل مخفف بھی اس کے لیے استعمال ہوتے ہیں:

45, X

45, XO

 “او” سے مقصود صرف کروموسوم کی عدم موجودگی کا اظہار ہے۔اس کا نام ڈاکٹر ہنری ٹرنر کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے ۱۹۳۸ ءمیں پہلی مرتبہ طبی ادب میں اس کا تذکرہ کیا۔یہ مظہر تین ہزار میں سے ایک انسانی مادہ میں پایا جاتا ہے۔(واضح رہے کہ یہ مقدار دراصل ان لوگوں کے لحاظ سے ہے جن کا ریکارڈ محفوظ ہوا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ہر بندے کی یہ تفصیل محفوظ ہونا ضروری نہیں)۔ان کا قد عام طور سے، میانہ،بال پیشانی کی طرف معمول سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ عام طور سے بانجھ ہوتی ہیں تاہم عقلی صلاحیتیں ان میں معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔اسی مظہر کے تحت، بعض حالات ایسے بھی پائے گئے ہیں جن میں انسانی مادہ کے “کچھ “خلیے معمول کے مطابق ایکس ایکس کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال، جہاں مختلف خلیوں کے جنسی کروموسومز میں  اختلاف ہو”جینیاتی پچی کاری” (Genetic mosaicism)کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔

کلائن فیلٹر  استثنائی مظہر:

بعض اوقات مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم نر یا مرد کہتے ہیں) ایک سے زیادہ ایکس کروموسوم ہوتا ہے۔ ہزار لڑکوں میں سے ایک میں یہ مظہر پایا جاتاہے۔ اس کا نام مشہور امریکی ماہر ہارمونیات پر ہے جنہوں نے ۱۹۴۰ء کی دہائی میں اسے دریافت کیا۔ اسے (XXY 47)سے ظاہر کیا جاتا ہے۔تاہم یہ اس کی ایک مشہور صورت ہے۔ ورنہ  بعض حالات میں تین بلکہ چار تک ایکس بھی ہوتی ہیں۔ نیز بعض اوقات دو وائے بھی پائے جاتے ہیں۔ انہیں ذیل میں ظاہر کیا جا رہا ہے:

XXXY, XXXXY, XXYY

یہ عام طورسے بانجھ ، لمبوتڑے ، ان کے خصیے چھوٹے  جبکہ چہرے اور زیر ناف بال  کم ہوتے ہیں۔ان کی عقلی صلاحیتیں معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔

تین ایکس  یا متعدد ایکس استثنائی مظہر:

بعض اوقات زنانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم مادہ یا عورت کہتے ہیں)  تین ایکس کروموسومز ہوتے ہیں۔اس کے لیے کوڈ  ” 47XXX” استعمال ہوتا ہے۔  ان میں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا۔بس یہ ذرا چھریرے بدن کی حامل ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ بانجھ بھی ہوتی ہیں لیکن اکثر کو حیض معمول سے آتا ہے۔اسی طرح، ذہنی صلاحیتیں بھی معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔ تاہم انتہائی شاذ ونادر حالات میں بعض خواتین میں تین سے بھی زیادہ ایکس ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اسے “متعدد ایکس” کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے۔ایسی عورتیں ذہنی طور سے معذور اور ان میں دیگر مسائل بھی ہوتے ہیں۔ ایکس جوں جوں تین سے زیادہ ہوتے ہیں، ذہنی وجسمانی مسائل ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔

ایکس وائے وائے نر:

بعض اوقات مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم نر یا مرد کہتے ہیں) ایک اضافی وائے کروموسوم ہوتا ہے۔یہ ہزار میں سے ایک مرد میں ہوتا ہے۔ان کا قد قدرے لمبا ہوتا ہے۔ تاہم ان میں کوئی اور مسئلہ نہیں۔ بعض تحقیقات کا اس طرف اشارہ ہے کہ ان میں سیکھنے کی صلاحیت   ذرا کمزور ہوتی ہے۔

ایکس ایکس نر:

طبی تاریخ میں ایک دلچسپ صورت حال یہ پیش آئی کہ ایک مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان میں ایکس ایکس کروموسومز ہیں۔ یہ ماہرین کے لیے ایک معمہ بنا رہا۔کئی عرصے کی تحقیق کے بعد، یہ آشکار ہوا کہ ان لوگوں میں وائے کروموسومز کا ذرہ ایک دوسرے کروموسوم سے ٹنگا ہوا ہوتاہے۔اور اسی تحقیق سے جینز سے متعلق ہمارا تصور مزید نکھارا کہ “نر” ہونے میں بنیادی کردار پورے وائے کروموسوم کا نہیں بلکہ اس کروموسوم میں ایک “جین “کا  ہے جو اگر مثلا وائے کروموسوم میں بھی پائی جائے، تو ایک “نر” کو جنم دیتی ہے۔

جنسی کروموسومز کی فعالیت وکردار:

اس ساری گفتگو سے ہمیں ،مندرجہ ذیل امور کا علم ہوتا ہے:

۱: انسانی نشو ونما کے لیے ایک ایکس ضروری ہے۔ اس لیے، یہ مرد وزن دونوں کا مشترک اثاثہ ہے۔

۲: وہ جین جو مرد کو تشکیل دیتا ہے اس کاٹھکانا وائے کروموسوم ہے۔

۳: اگر ایک بھی وائے (Y)ہو، تو اس سے ایک انسانی نر کی ساخت واعضا وجود میں آتے ہیں۔

۴: وائے (Y)کی عدم موجودگی، انسانی مادی کی ساخت واعضا کو ظہور پذیر کرتی ہے۔

۵: انسان کے تناسل کی صلاحیت سے متعلق جینز  ایکس اور وائے دونوں پر پائی جاتی ہیں۔ مادہ کو عام طور سے، دو ایکس کروموسومز درکار ہیں قرار حمل کے لیے۔

۵: ایکس کروموسومز جوں جوں بڑھتے ہیں، ذہنی  اور جسمانی نقائص پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں۔

قرار حمل سے “جنس” بننے تک:

قرار حمل کے بعد، انسانی جنین میں جب تناسلی غدے بنتے ہیں، وہ نر یا مادہ کے ساتھ خاص نہیں ہوتے اور ان میں دونوں میں سے کسی ایک کی طرف جانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اس طرح، اس میں نر ومادہ دنوں کی نالیاں وجود میں آتی ہیں۔تقریبا چھ ماہ کے بعد، وائے کروموسوم میں سویا ہوا ایک “جین” جاگتا ہے اور ان غدوں کو خصیوں میں بدلنے کا عمل شروع کرتا ہے۔اور ان خصیوں سے دو قسم کے ہارمونز نکلتے ہیں  جو مادہ  والی نالی کو ختم کرنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ  جنین “نر” بننا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر یہ “جین” موجود ہی نہ ہو، تو پھر مادہ وجود میں آتی ہے۔اسی اہم ترین جین کو “ایس آر وائے جین” (SRY) کہتے ہیں جیسا کہ  اس  کی طرف اشارہ کلام کے آغاز میں ہوا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسانی جنس کے تعین میں اس کے علاوہ کوئی دوسری جین کردار ادا نہیں کرتی۔

اس پوری گفتگو سے جو بات واضح ہوئی ہے وہ یہ   کہ:

۱:جینیاتی علم میں انسانی جنس کے تعین میں اس کی ساخت واعضا  ووظائف (Phenotypical Aspects) بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔

۲: نیز  انسانی فینوٹائپ ان کے جینو ٹائپ پرفیصل وحکم ہے۔

۳: تاہم اگرچہ ایک عام مرد میں ایکس وائے اور ایک عام عورت میں ایکس ایکس جنسی کروموسومز ہوتے ہیں، لیکن بعض حالات میں اس کے برعکس بھی ہوتا ہے جیساکہ ہم نے جینیاتی استثنائی مظاہر (سینڈرومز) میں ملاحظہ کیا۔ ہم نے دیکھا کہ نر یا مادہ ہونے کا فیصلہ ظاہری اعضا نے کیا ۔  “ایکس ایکس نر” کی صورت میں ہم نے دیکھا کہ بعض اوقات ظاہری خصائص (فینوٹائپ) اگرچہ جینوٹائپ سے ہم آہنگ نہیں دکھتے، مگر جینوم میں کچھ ایسا موجود ہوتا ہے جو اس عضو کی تشکیل کی تفسیر کرتا ہے اگرچہ ماہرین کو اس کی دریافت میں وقت لگے۔ اس لیے، صرف جینیاتی ڈھانچہ دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی نر ہے یا مادہ۔ بلکہ اصل فیصلہ اعضائے تناسل سے کیا جائے گا۔اور یہی وہی امر ہےجس کی بنیاد پر صدیوں سے لوگ نومولود کی جنس کا فیصلہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی اس کا فیصلہ اسی پرہوتا ہے کیونکہ انسان وہی ہے، اس کی ساخت وہی ہے۔ اس میں کوئی ارتقا، کم از کم، معلوم تاریخ میں نہیں ہوا۔

اس آخری نقطے کے لیے ہم  دومثالیں پیش کر کے بات ختم کریں گے۔

۱: انڈیپنڈنٹ میں ایک خبر چھپی جس کی سرخی تھی: “جینیاتی طور سے پچانوے فیصد مرد، عورت نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔”

ان خاتون کی صورت حال یہ تھی کہ ان میں پچانوے فیصد مردانہ کروموسومز تھے۔لیکن ان کی ساخت واعضا بالکل زنانہ تھے۔ خاتون نے ایک مرد سے شادی بھی کی۔ان میں بیضہ دان(ovary) تھا، نہ کبھی حیض آیا۔

اطبا نےاس کے رحم کا علاج معالجہ کر کے  کسی دوسری عوت کا بیضۃ  ان میں رکھا۔ خاتوں کے ہاں، جڑواں پیدا ہوئے۔اور اطبا کو عمل جراحی کرنا پڑا۔

۲: اسی طرح، سپین کی ایک خاتون ماہر ریاضیات جو اولمپکس میں بھی شریک رہیں، اپنے آپ کو عورت سمجھتی تھیں، ساخت واعضا سب کچھ زنانہ ۔ لیکن ایک مرتبہ ایک کھیل میں شرکت کے لیے جب ان کی جانچ ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان میں ایکس وائے کروموسومز ہیں۔اس پر انہیں نا اہل کر دیا گیا کہ  عورت نہیں ہیں ۔اس پر معاشرے میں انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا کہ ایک مرد عورت کا روپ دھار کر اس کھیل میں شریک ہوا۔ تاہم خاتون نے مقدمہ کیا کہ صرف کروموسومز سے جنس کا تعین نہیں ہوتا اور وہ مقدمہ جیت گئیں۔ یہ مثال، بعض نسوی تحریک  والے جنس کی تعیین  کے لیے کوئی واقعی پیمانہ نہ ہونے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ سٹینفرڈ کے انسائیکلوپیڈا میں، “جنس وصنف سے متعلق نسوی تحریک کے نقطہ نظر” پر  موجود مقالے میں اس  پر موجود تبصرہ ملاحظہ کیجیے:

To illustrate further the idea-construction of sex, consider the case of the athlete Maria Patiño. Patiño has female genitalia, has always considered herself to be female and was considered so by others. However, she was discovered to have XY chromosomes and was barred from competing in women’s sports (Fausto-Sterling 2000b, 1–3). Patiño’s genitalia were at odds with her chromosomes and the latter were taken to determine her sex. Patiño successfully fought to be recognised as a female athlete arguing that her chromosomes alone were not sufficient to not make her female.

مفہوم: جنس کی تصور سازی کیسے ہوتی ہے، اس کی مزید وضاحت کے لیے ماریہ  کی صورت حال ملاحظہ کیجیے جو ایک ایتھلیٹ تھی۔ ماریہ کے اعضائے تناسل زنانہ تھے، اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو مادہ سمجھا۔ اسی طرح دوسروں نے بھی۔تاہم بعد میں انکشاف ہوا کہ اس  کے خلیوں میں ایکس وائے کروموسومز ہیں اور اسے زنانہ کھیلوں میں شرکت سے روک دیا گیا۔ماریہ کے کروموسومز اس کے اعضائے تناسل سے ہم آہنگ نہ تھے اور بنیاد کروموسومز کو بنایا گیا۔پر ماریہ نے اس پابندی کے خلاف مقدمہ اس بنیاد پر جیتا کہ کروموسومز اسے “مادہ” بنانے کے لیے کافی نہیں۔

“سویر ا استثنائی مظہر” (Swyer syndrome):

اسے دراصل ” سویر ااستثنائی مظہر “کہتے ہیں۔ابھی ہم نے اوپر دیکھا کہ وائے کروموسومز میں “ایس  آر وائے”جین” موجود ہے جس کا ہونا یا نہ ہونا مرد یا زن ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔چناچہ اس طرح کی صورتوں کا ماہرین نے تجزیہ کیا اور ان کا کہنا تھا کہ پندرہ فیصد لوگوں میں وہ جین موجود تھا تاہم ان کا وائے کروموسوم بالکل ناکارہ تھا جس کہ وجہ سے صرف “ایکس” نے اپنا کام کیا ، وائے نے اپنا کردار ادا  نہیں کیا اور اس طرح، جنین “مادہ” بن گیا۔تاہم یہ بات اوپر گزری کہ اگرچہ جین میں “ایس آر وائے” کا مرکزی کردار ہے لیکن اس میں دوسرے جینز کا بھی حصہ ہے۔ اس لیے، اس مادہ میں نقائص رہ جاتے ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جینز پر مبنی نظریے کی روشنی میں ، یہاں بھی فیصلہ ظاہری اعضا پر ہوا اور تحقیق سے اندازہ ہوا کہ اگرچہ مردانہ کروموسومز موجود ہیں لیکن کالعدم ہیں۔ اور ویسے بھی جب نظریے نے یہ تسلیم کر لیا کہ ظاہری ساخت واعضا  ووظائف (فینو ٹائپ) دراصل جینوٹائپ کے مظاہر ہیں، تو اس کے بعد، اگر کوئی ایسی صورت آتی ہے جس میں یہ ہم آہنگی محسوس نہ ہو، تو آیا نظریہ بدلے گا یا اس کی تفسیر اس چوکھٹے میں ہوگی اور یہ علم ومنہج کے بنیادی مسلمات میں سے ہے۔

اس ساری گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ جینیاتی طور سے بھی اصل بنیاد انسان کے اعضائے تناسل ہیں اور جنس کا فیصلہ اسی کی بنیاد پر ہو گا۔ اور اگر کسی صورت میں ایک انسان کے جینوم کا ڈھانچہ ایسا آتا ہے جو اس کے ظاہری اعضا وساخت سے بے جوڑ ہو،  تو فیصلہ کن کردار ظاہری اعضا وساخت ہی  ادا کریں گے اور بچے کو نر، مادہ یا خنثی اسی کی بنیاد پرقرار دیا جائے گا۔

اب ہم ، تعیین جنس کے پہلے تین امکانات کی طرف آتے ہیں۔

۱: ظاہری اعضا اور کروموسومز: اس پوری گفتگو میں واضح ہوا کہ انسانی ساخت واعضا ووظائف(فینوٹائپ) اور جینوٹائپ دراصل ایک تصویر کے دو  رخ ہیں۔اسی لیے، ہم نے انہیں اکھٹا ایک عنوان کے تحت کر دیا۔ جینیاتی نظریے کے مطابق ، ہر ظاہری خصوصیت کسی جینیاتی  ہدایت کی عکاس ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ کسی خاص حالت میں  ہم اسے دریافت نہ کر سکیں۔ تاہم کسی انسان میں صرف نر یا صرف مادے کے اعضائے تناسل کا وجود میں آجانا ہی اس بات کی کافی علامت ہے کہ وہ نریا مادہ ہے اگرچہ ہمیں اس کے جینوم میں کوئی استثنائی کیفیت نظر آئے۔اور اگر کسی میں دونوں اعضا کی افرائش ہو  یا ابہام ہو، تو وہ خنثی ہے۔

۲: ہارمونز: اسی گفتگو سے، یہ بھی واضح ہو گیا کہ ہارمونز خود ایک ثانوی امر ہے۔ جینوٹائپ سے فینوٹائپ کی تشکیل میں یہ ایک کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

اس لیے، جینیات کی روشنی میں بھی انسان کی جنس کا تعین اور اس کے خنثی ہونے یا نہ ہونے کی فیصلہ اس کے ظاہری جنسی اعضا اور ان کے وظائف سے وابستہ ہے۔اور اس فن کی علمیت نے بھی کچھ ایسا فراہم نہیں کیا جس کی بنیاد پر جنس کی تعیین کا روایتی پیمانہ متاثر ہو۔بس اس نے انسان  کے ظاہری اعضا ووظائف کے لیے ایک جدید تفسیر فراہم کی۔

اس کے بعد، ہم نفسیات کی بنیاد پر جنس وصنف  کو دیکھنے کی کوشش کریں گے۔

 جنس کی تعیین : انسانی نفسیات کی روشنی میں

دراصل یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہمارے اس ماحول میں بحث ہو رہی ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسانی جنس ، صنف ، جنسی رجحان اور سماجی مظاہر، وسماجی کردار کی، جنہیں روایتی تہذیب نے ایک  ڈور سے باندھ دیا ہے ، گرہ کھول دی جائے۔اس لیے، ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ  جینز، ظاہری اعضا وغیرہ میں سے  ہر ایک پر کچھ سوال اٹھا کر انہیں غیر معتبر شمار کیا جائے اور اس حوالے سے وہ مختلف شاذ واقعات کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ اب جب ان سے یہ سوال ہوتا کہ یہ سب معیارات کالعد م ٹھہرے ،تو جنس آخر طے کیسے ہو گی؟

ان کا دو ٹوک جواب یہ ہوتا ہے کہ جنس  کے طے کرنے سے مقصود جنسی رجحان (Sexual Orientation)، سماجی مظاہر  (Gender Expression)اور سماجی کردار (Gender Role)کو طے کرنا ہے کہ مثلا ایک مرد اپنا جنسی تعلق کس سے قائم کرنا پسند کرتا ہے(جنسی رجحان)، ایک مرد اپنے لیے زنانہ نام پسند کرتا ہے یا مردانہ (سماجی مظہر)، ایک عورت گھر یلو خاتون بننا پسند کرتی ہیں یا  کسی ادارے میں نوکری(سماجی کردار)۔ ان سب امور میں اصل انسان کا اپنا رجحان ہے۔ وہ جس طرف جانا چاہے جائے۔ اس کے بعد، تم کسی کی جنس کو جو بھی سمجھو، اس سے فرق نہیں پڑتا۔اور یہی اندر کے احساس پر مبنی تصور ہے جسے “صنفی شناخت” (Gender Identity)  کہا جاتاہے۔اسی سے “متبدل صنف ” کا تصور وابستہ ہے  جسے ٹرانس جینڈر کہا جاتا ہے (Transgender)۔ یعنی ایک انسان کے ساتھ اس کی پیدائش سے جو صنف جوڑ دی گئی، وہ اس سے مطئمن نہیں، بلکہ اپنے آپ کو دوسری صنف سے وابستہ سمجھتا ہے۔

متبدل صنف (ٹرانس جینڈر) اور “شناخت”:

لگے ہاتھ، ہم صنفی شناخت پر بھی تفصیل سے گفتگو کر لیں۔

شناخت دراصل انسان  کا اپنی ذات کے بارے میں تصورو خیال ہے کہ اس کا کس صنف سے تعلق ہے، وہ مرد ہے یا عورت، قطع نظر اس سے کہ وہ اپنے اعضا کے لحاظ سے نر ہے یا مادہ۔جدید مغربی ادییات  میں شناخت کا جنسی رجحان یا سماجی مظاہر سے کوئی لازمی تعلق نہیں ۔ یہ بس کسی انسان کے احساس کا نام ہے۔اس لیے،عمرانیات میں شناخت کو باقی دو سے الگ رکھا جاتا ہے۔

یہی سے علم عمرانیات کے شعبہ جنسیات وصنفیات میں  “متبدل صنف ” کا تصور ہے جسے Transgender کہا جاتا ہے۔ یہاں تبدیلی سے مقصود صرف یہ ہے کہ کسی انسان کو بوقت پیدائش میں جو صنف دی گئی، وہ اس سے مطئمن نہیں ۔ لیکن اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ وہ  اپنے جنسی رجحانات بھی بدل دے۔ اسی طرح، یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ سماجی مظاہر کو بدلے۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ ایسا انسان اپنا لباس تبدیل کر لے۔ مثلا مرد زنانہ لباس پہننے لگے۔ (لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری  ہے ہر لباس تبدیل کرنے والا “متغیر صنف” نہیں ہوتا۔ ایک مرد اپنے آپ کو مرد سمجھتے ہوئے بھی زنانہ لباس اختیارکر سکتا ہے۔  بس اہم بات اس  “دستور “میں  یہ ہے کہ کسی  کے جنسی رجحان  اور صنفی شناخت کے حوالے سے کوئی مفروضہ نہیں قائم کیا جا سکتا ۔ یہ ہر انسان کا ذاتی حق ہے اور وہ اسے کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔)

 چنانچہ   مندرجہ ذیل مثال پر غور کیجیے:

۱: ٹونی پیدائشی طور سے نر ہے۔ لیکن جب وہ بالغ ہوا تو اسے یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ عورت ہے۔ لیکن اس کا جنسی جھکاو  بھی عورتوں ہی کی طرف ہے۔ اسی طرح، وہ اپنا نام بھی نہیں بدلتا، یہ مطالبہ بھی نہیں کرتا کہ گفتگو میں اس کے لیے تانیث کی ضمائر برتی جائیں وغیرہ۔ بس اس کے اندر کا احساس ہے۔

۲: نومی پیدائشی طور سے مرد ہے۔ اسے بھی یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ  عورت ہے۔ اس کا بھی جنسی جھکاو عورتوں ہی کی طرف رہتا ہے۔ تاہم  وہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ سماجی مظاہر میں اس کے ساتھ عورتوں کا سلوک کیا جائے۔ وہ اپنا نام نومی سے عینی کردیتا ہے۔ اپنے لیے، مونث کی ضمائر استعمال کروانا پسند کرتا ہے۔اب روایتی نقطہ نظر سے یہ مخالف جنس رجحان کا حامل ہے (Heterosexual)  لیکن اپنے احساس کے تحت وہ موافق جنس رجحان (Homosexual) والا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ خنثی (Intersex)اور متغیر جنس (Transgender) متبادل اصطلاحات نہیں۔

خنثی اور متغیر صنف میں فرق:

خنثی سے مقصودطبی اصطلاح میں  وہ لوگ ہیں جن کے جنسی خصائص، نظام تولید، ہورمونز، یا کروموسومز نہ خالص مردانہ ہوتے ہیں نہ خالص زنانہ، روایتی تناظر میں۔[روایتی تناظر اس وجہ سے کہا کہ ٹرانس سے متعلقات تحریکات اسے ہی ختم کرنا چاہتی ہیں کہ کسی کو معیار بنا کر دوسرے کو اس پر پرکھا جائے۔]

چنانچہ کئی متغیر جنس لوگ ایسے ہیں جو خنثی نہیں ہوتے۔ اور کئی خنثی اپنے آپ کو  متغیر جنس (Transgender)شمار نہیں کرتے۔اسی طرح، اسی حوالے سے بھی اختلاف ہے کہ آیا خنثی کو ایل جی بی ٹی (LGBT)  میں شمولیت کرنی چاہیے یا نہیں۔چناچہ عمرانیات کی ایک مشہور نصابی کتاب میں آتا ہے جسے  اوپن سٹیک نے متعدد اساتذہ  فن کے اشتراک سے شائع کیا:

Intersex and transgender are not interchangeable terms; many transgender people have no intersex traits, and many intersex people do not consider themselves transgender. Some intersex people believe that intersex people should be included within the LGBTQ community, while others do not.

ترجمہ:خنثی اور متبدل صنف دو الگ الگ اصطلاحات ہیں، ہر موقع پر ، ایک دوسرے کی جگی نہیں لے سکتی۔ کئی ٹرانس لوگوں میں خنثی کی خصوصیات نہیں ہوتیں اور کئی خنثی اپنے آپ کو ٹرانس نہیں گردانتے۔ نیز خنثی برادری کے کچھ لوگوں کاخیا ل ہے کہ انہیں   ایل جی بی ٹی کیو(LGBTQ) میں شامل کیا جانا چاہیے جبکہ دوسرے ایسا نہیں سمجھتے۔۱۲

ایل جی بی ٹی کیو دراصل جنسی رجحانات (Sexual Orientation)کے حوالے سے استعمال کیا جانے والا مخفف ہے جو مخصوص جنسی رجحانات کے حامل لوگوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے استعمال کرتے ہیں:

۱: ایل(L): وہ عورت  جو عورت کی طرف جنسی جھکاو رکھے۔

۲: جی(G): وہ مرد جو مرد کی طرف جنسی جھکاو رکھے۔

۳: بی (B): وہ انسان جو دونوں جنسوں کی طرف جھکاو رکھے

۴: ٹی(T): متبدل صنف یعنی ٹرانس جینڈر

۵: کیو (Q): یہ ایک عام لفظ ہے جس سے مقصود “سماج کے مارےہوئے ”  ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے  جو روایتی صنفی وجنسی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں تاہم وہ اوپر کے چاروں میں بھی نہیں سماتے۔ اس لیے، اس سے اشارہ عجیب وغریب (Queer)کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور “پوچھنے” (Questioning) کی طرف بھی کہ خود سے کچھ فرض کرنے کے بجائے پوچھ لیا جائے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں جنسی شناخت کے حوالے سے آتا ہے:

gender identity, an individual’s self-conception as a man or woman or as a boy or girl or as some combination of man/boy and woman/girl or as someone fluctuating between man/boy and woman/girl or as someone outside those categories altogether. It is distinguished from actual biological sex—i.e., male or female. For most persons, gender identity and biological sex correspond in the conventional way. Some individuals, however, experience little or no connection between sex and gender; among transgender persons, for example, biological sexual characteristics are distinct and unambiguous, but the affected person identifies with the gender conventionally associated with the opposite sex.

ترجمہ:صنفی شناخت ایک انسان کا اپنے حوالےسے ذاتی تصور ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ، مرد ہے یا عورت، یا انکے بیچ میں کہیں یا وہ بالکل ان تصورات میں آتا ہی نہیں۔ صنفی شناخت حیاتیاتی جنس  نر ومادہ سےجداگانہ تصور ہے۔ عام طور سے، صنفی شناخت اور جنس  ہم آہنگ ہوتے ہیں۔تاہم کچھ افراد کو اپنی صنفی شناخت اور جنسی شناخت    کے درمیان  تعلق بالکل یا بڑی حد تک اپرا اور اجنبی لگتا ہے۔مثلا ٹرانس اشخاص میں حیاتیاتی جنسی خصائص بالکل واضح اور غیر مبہم ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود متاثرہ شخص اپنے آپ کو جنس مخالف سے وابستہ صنف سے وابستہ کرتا ہے۔

بریٹینکا کا یہ اقتباس بہت حد تک واضح کر دیتا ہے کہ کیسے صنف کو جدید ادبیات میں ایک مسلسل اور مائل بہ سیلان (Fluid)  تصور ہے۔ اور اسی طرح، جنس کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے، اس سلسلہ تحریر کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ جنس وصنف کا روایتی تصور دوٹوک دوئی پر مبنی ہے۔

متغیر صنف کے آثار:

تاہم “متغیر صنف” کے لیے اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی جنس،  سماجی مظاہر میں تبدیلی کروائے کہ یہ محض ایک احساس کا نام ہے، لیکن ان میں کئی ایسے ہیں جو یہ تبدیلی کرواتے ہیں۔اور ان تبدیلیوں کو تین  حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے:

۱: طبی: اس میں ظاہری اعضا کی تبدیلی، اسی طرح جنسی خصائص کی تبدیلی شامل ہے۔ مثلا بعض مرد اپنا عضو تناسل کٹوا کر اندام نہانی بنوا لیتے ہیں۔(Neovagina Creation)

۲: قانونی تبدیلی۔

۳: سماجی:اس میں نام، ضمائر کا استعمال ،رشتے خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ رشتے  سے مقصود یہ ہے کہ ایک شادی شدہ مرد کو  یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ عورت ہے اور اس نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر کے خود کسی دوسرے کی بیوی بننا پسند کیا۔

چونکہ یہاں بنیاد انسانی احساس وشعور ہے، اس لیے یہ بحث “علم نفسیات” سے جڑتی ہے جو سماجی علوم کی ایک شاخ ہے۔ سماجی علوم میں منہج کے حوالے سے بحث  معروف ہے کہ کیا انسان کے مطالعے کے لیے وہی منہج برتا جا سکتا ہے جو ارادے سے عاری مادے کے مطالعے کے لیے برتا جاتا ہے ؟ تاہم اس وقت جن تحقیقات پر پیسہ صرف ہوتا ہے و ہ اسی منہج کو استعمال کرتی ہیں۔

متغیر صنف کے احساس کی سماجی وقانونی معنویت:

ہم بات آگے بڑھانے سے پہلے، ایک مرتبہ پھر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کسی ایک انسان کا دوسرے انسان کی “جنس یا صنف” کا تعین، ایک معاشرے کا یا قانون کا ایسا کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان اپنے اندر کوئی احساس رکھتا ہے، تو دوسرا انسان، سماج یا قانون اسےکچھ نہیں کہتا؟ یہ اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے۔ اسی وجہ سے اب تک ہم جنس، صنف، جنسی رجحان، سماجی مظاہر اور سماجی کردار کی بات کرتے آئے ہیں لیکن “صنفی شناخت ” کو اس فہرست میں نہیں لائے کیونکہ انسان میں ابھرنے والا نرا احساس ایسا نہیں کہ اس پر شریعت کوئی حکم لگائے جب کہ انسان خود اس کی آبیاری نہ کر رہا ہو۔اسی طرح، جہاں انسان کسی احساس کو پکا رہا ہے، وہاں بھی فرد  کی ذات سے متعلق یہ سوال  کسی دوسرے کے لیے اس  وقت معنی خیز ہوتا ہے جب وہ سماجی مظہر بنتا ہے، اس کا ظہور کسی عمل  سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے، ایک انسان کی جنس وصنف کا سوال  غیر کے لیے ، مندرجہ ذیل وجوہ سے اہمیت اختیار کرتا ہے: جنسی تعلق قائم کرنا، شادی بیاہ میں بندھنا، معاشرتی کردار ادا کرنا، معاشرتی مظاہر وغیرہ۔اور سوال کچھ یوں بنتا ہے کہ کیا انسانی جذبات واحساسات اور اس کے جبلی رجحانات ان افعال کو جواز بخشنے کے لیے کافی ہیں؟ کیا کسی مرد کا مرد کی طرف رجحان یا زن کا زن کی طرف صرف اس وجہ سے سند جواز یافتہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ذہن میں ایسے کیمیائی تفاعلات جنم لے رہے ہیں، جو اسے ان چیزوں پر ابھار رہے ہیں؟

انسانی نفسیات اور اخلاقی ذمے داری:

 اس کے لیے، آپ اس پر غور کیجیے کہ بچے سے زیادتی کرنے کا عادی اور سلسلاتی قاتل (سیریل کلر) کی ذہنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ اگر پہلا کسی سے بھی جنسی تعلق قائم کر لیے اسے قرار نہیں آتا جب تک کسی بچے کا شکار نہ کرے اوردوسراجسے بھی قتل کر لے جب تک وہ اپنے طے کیے ہوئے پیمانے کے مطابق قتل نہیں کرتا، تو بے چین رہتا ہے۔ اب طبی آلات کی ترقی کے بعد، ہم کسی بھی انسان کی ایم آر آئی(MRI)  کر کے اس کے ذہن کی ساخت کی تصویر کشی کر سکتے ہیں اور “ایف ایم آر آئی “(FMRI) کے ذریعے  سے، اس کے ذہن کے مختلف حصوں میں جاری  کیمیائی تفاعلات اور توانائی بننے کا عمل (میٹابولزم) دیکھا جا سکتاہے۔ بلاشبہ، اگر ان دونوں کے دماغوں کی تصویریں لی جائیں، تو وہ ایک نامرد سے اور اس مسکین سے جس کے دل  میں مرغی کو ذبح کرنے کے تصور سے ہول اٹھتے ہیں، بہت مختلف ہوگا۔ اور سائنسی مجلا ت میں اس طرح کی مختلف تحقیقات چھپتی رہتی ہیں.مثلا “سائنٹفک امریکا”  میں ایک مضمون اس  موضوع پر چھپا کہ  آیا “ایم آر ائی “کے ذریعے سے کسی انسان کی بابت یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے اندر (دو سے دس سال تک کے )بچوں کی طرف جنسی رجحان ہے تا کہ بچوں کو اس کی پہنچ سے دور رکھاجا سکے؟  یہ ایک بالکل ابتدائی  ناپختہ تحقیق ہے اور اس پر اخلاقی وقانونی سوالات بھی ہیں۔ تاہم یہاں اس کا حوالہ دینے کی وجہ مضمون نگارکا، جس کی تحقیق کا میدان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے  ہیں، مندرجہ ذیل تبصرہ ہے:

Despite the fact that sexual interest in children was once believed to be the result of sexual abuse in childhood, current research suggests that pedophilia is biological as opposed to learned, and apparently immutable due to associated differences in brain structure and function. Furthermore, a recent fMRI study showed that non-offending pedophiles have greater inhibitory control than pedophiles who have offended, which likely explains why some are more successful in avoiding abusing a child.

ترجمہ:اگرچہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ بچوں کی طرف  جنسی رجحان رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے رجحان کے حامل  انسان کے ساتھ خود بچپن میں یہ سانحہ پیش آیا،  تاہم جدید تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان رجحانات  کی بنیاد حیاتیاتی وعضویاتی ہے، نہ کہ تجربہ جس سے وہ گزرتا ہے۔ نیز  ذہنی ساخت اور اس کے عمل میں جو فرق ہے ان کی وجہ سے، بظاہر یہ میلان بدلا نہیں جا سکتا ۔مزید بر آں، ایک قریب کی “ایف ایم آر ائی “پر مبنی تحقیق سے یہ سامنے آیا کہ ان جذبات کے حامل غیر جارحانہ   لوگوں کو اپنے آپ پر قابو ان سے زیادہ ہوتا ہے جن کی طبیعت میں جارحیت ہو، اور غالبا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیوں بعض ایسے رجحان مند لوگ (اس کے تقاضے پر عمل کر کے) بچے سے زیادتی سے باز رہتے ہیں۔

اسی طرح، علم اعصاب وعلم جرمیات کے امتزاج سے  پھوٹنے والی شاخ “عصبی جرمیات” (نیوروکرائمولوجی) میں جرم اور مجرم کی ذہنی ساخت پر بہت تحقیق ہو رہی ہے۔نیز ان تحقیقات کی بنیاد پر عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو رہی ہے، عدالتوں پر دباو  پڑ رہا ہے۔ ہم اس کی مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔ مقصود صرف اشارہ ہے۔

ا ب سوال یہ ہے کہ کیا انسانی ذہن اور اس میں جاری کیمیائی عمل  کسی فعل  کے جواز کے لیے کافی ہے؟

یہاں واضح رہے کہ ہمارا مقصود یہ نہیں کہ انسان کی “اہلیت ادا “کا فقہی وقانونی فیصلے پر اثر نہیں پڑتا۔ بلاشبہ پڑتا ہے۔ چنانچہ مجنوں کے فعل کے احکام الگ ہیں۔ اسی طرح، اگر کسی نے اتنے شدید غصے میں طلاق دی کہ اس حالت کے ڈانڈے جنون سے جا ملتے ہوں، تو اس طلاق کا حکم الگ ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہ ثابت ہوجانا کہ بعض لوگوں کے دماغ  کا کسی فعل سے ہم آہنگ ہے اور ان کا رجحان اس طرف پایا جاتا ہے، اس فعل کو “جرم” کی فہرست ہی سے نکال دے گا؟ظاہر ہے شاید ہی کوئی اس کا جواب اثبات میں دے۔ اب اس پر سوال یہ اٹھے گا کہ پھر کس “فعل ”  کو جرم مانا جائے اور کسے نہیں؟ ہمارا جواب واضح ہے کہ یہ “تہذیبی قدر ” کا سوال ہے۔یہ سائنس کا سوال ہی نہیں جس کا دعوی ہے کہ وہ صرف بیان پر اکتفا کرتی ہے، معیار ی حکم نہیں لگاتی۔

انسانی نفسیات اور انسانی ارادہ:

یہاں پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ یہ بحث دراصل “انسانی ارادے” سے جا ملتی ہے کہ کیا واقعی انسان میں کوئی ارادہ بھی ہے یا نہیں۔ اور پھر اخلاق وقانون کے وجود ہی پر سوال اٹھے گا۔ اس حوالے سے، سماجی علوم میں تحقیق جاری ہے اور جرگہ ابھی بھی بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ یہ علوم کچھ بھی ثابت کر دیں اور خواہ کتنے ہی تجرباتی ثبوت لے آئیں، جب وہ “چاہیے” کا جملہ تشکیل دیں گے اور “قدر” کا سوال اٹھائیں گے، تو اس وقت وہ کچھ بھی کر رہے ہوں، پر “سائنس ” کی حدود سے نکل چکے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نوم چومسکی نے ، اپنے مخصوص  انداز میں، اس طرح کی تحقیقات پر بڑا دلچسپ تبصرہ کیا  جب ان سے کسی نے یہی سوال پوچھا کہ جدید اعصاب وغیرہ کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں اس کا عمل غیر شعوری طور سے طے ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کا یہ سوچنا کہ وہ باارادہ ہے ایک دھوکا ہے۔ چومسکی کا کہنا تھا کہ یہ سب تحقیقات بہت اچھی ہے لیکن یہ ہمیں اس موضوع سے متعلق کچھ نہیں بتاتیں۔ ہم میں ارادہ ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن اسے ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں۔چومسکی نے ولیم جیمز کی طرف سے نقل کیا کہ جو لوگ انسانی ارادے کو مانتے ہی نہیں، تو یہ دلائل کیوں دے رہے ہیں؟! ان کے نظریے کے مطابق ماننے والے ماننے پر مجبور ہیں۔ ان کے مخالفین بھی نہ ماننے پر مجبور ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ وہ بیٹھ کر کوئی تفریحی پروگرام دیکھ لیں۔ (یہ محض ایک مزاح تھا۔ جس میں اصل بنیاد یہ تھی کہ اگر واقعی انسان میں اپنا ارادہ نہیں، تو کسی انسان کو دلائل کی بنیاد پر قائل کرنا ایک بے معنی عمل ہے کیونکہ دلائل کی بنیاد پر دوسرے کو قائل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسرے کو ذی ارادہ مانتے ہیں)

یہاں پھر واضح کرتا چلوں کہ مقصود یہ نہیں کہ ارادہ ہے یا نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ جب انسانی ارادے کا فیصلہ یہ فنون نہیں کر سکتے اور ہم کسی بنیاد پر اسے مانتے ہیں، تو ان علوم سے جو بھی تحقیقات یا ، صحیح الفاظ میں  ، تخمینیں سامنے آتے ہیں، وہ ہماری اقدار کے حوالے سے کوئی خاص رہنمائی نہیں کر سکتے۔

اس لیے، جرگہ اگرچہ بیٹھا ہوا ہے، لیکن کیا اسے حق سماعت بھی ہے؟! ہمارا جواب نفی میں ہے۔ انسانی صنف اور سماجی کردار کا فیصلہ نفسیات اور ذاتی رجحان پر نہیں چھوڑا جا سکتا!

اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلامی شریعت کا تصور جنس وصنف  کیا ہے۔ نیز علم جینیات میں ان تصورات کو کیسے دیکھا جاتا ہے۔ نیز نفسیات کی بنیاد پر اس قضیے کی کیا حیثیت ہے۔

نیز فقہا نے جس علمیت پر جنس کا تصور کھڑا کیا تھا، وہ آج بھی بالکل متعلق اور زندہ ہے۔ جینیات کے علم نے کچھ ایسا ثابت نہیں کیا کہ وہ بدل جائے۔ بس اس نے ظاہری اعضا کے پیچھے جینز کا تصور کھڑا کیا ہے۔ بلاشبہ، یہ ایک بہت بڑی کاوش ہے اور اس سے کئی بیماریوں  کے علاج میں مدد ملی۔ لیکن انسان اب بھی وہی ہے۔

اس لیے، ہم اب ہم  خنثی سے متعلق شرعی احکام کی طرف لوٹتے ہیں۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password