باطل کے دوفرقوں میں جنگ اور گل خان کی ٹینشن

ایل جی بی ٹی کیو” تحریک کے ارتقائی مراحل میں دنیا سے “ایل”، “جی” اور “بی” کو منوا لینے کے بعد آجکل زیادہ زور “ٹی” پر صرف کیا جا رہا ہے.
“ٹی” سے مراد ہے “ٹرانس جینڈر” یعنی حقیقت میں تو جن کا دماغ الٹا کام کرتا ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری جنس الٹی لگ گئی ہے…!!!
ہمارے معاشرے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ وہ بدنصیب لڑکے ہوتے ہیں جو پانچ پانچ بہنوں کے بعد منتوں مرادوں سے پیدا ہوتے ہیں اور جنکی پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے کہ اللہ نے بالآخر ہمیں ایک وارث عطا کر دیا…. پر یہ وارث ساب بڑے ہو کر کہتے ہیں کہ میں تو دراصل لڑکی ہوں… مجھے تو صائمہ خان بننا ہے، یہ سب لوگ مجھے “شان” کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ مجھے تو جسم ہی غلط لگا کر بھیج دیا گیا ہے… مجھے نہیں پتہ، ڈارلنگ، اسے چینج کرو پلیز…!!!
یا وہ لڑکیاں ہوتی ہیں جو بچپن میں “پاپا کی لاڈلی” اور “بےبی ڈول” وغیرہ ہوتی ہیں لیکن فیسبک کے غلط استعمال، لبرل صحبت اور انگریزی فلموں کی وجہ سے بڑے ہو کر اپنے آپ کو سنی لیون کی بجائے “جان ریمبو” سمجھنے لگتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہمارے “ڈیزائن” میں گڑبڑ ہے… اور خالقِ کائنات پر بھی (نعوذبااللہ) کسی ٹیلر ماسٹر کی طرح تنقید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم سے پوچھ کر ہمارا جسم کیوں نہیں بنایا… اب دیکھو ناں، “ٹھیک کروانے پر” کتنے پیسے لگ جائیں گے.
تو جناب یہ لوگ کہتے ہیں کہ پبلک میں “میل” اور “فی میل” کی تفریق سے ہماری دل آزاری ہوتی ہے. اور انکا دل رکھنے کیلئے دنیا کے “مہذب” یعنی لبرل معاشروں میں پبلک مقامات پر مردانہ اور زنانہ بیت الخلاء کی تفریق ختم ہوتی جا رہی ہے. بچوں پر 10 سال کی عمر تک کسی جنس کا ٹھپہ نہیں لگایا جاتا اور پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ ہاں بھی، اب بتاؤ تم نے لڑکا بننا ہے یا لڑکی. اگر تو قدرتی جنس پر راضی ہو تو فبھا ورنہ ادویات کے ذریعے اسکی بلوغت کے عمل کو “زبردستی” روک کر 18 سال کی عمر میں تبدیلی جنس کا آپریشن کر دیا جاتا ہے.
برطانیہ میں 2 ایسے واقعات ریکارڈ پر ہیں کہ پیدائشی طور پر لڑکی جو لڑکا بننا چاہتی تھی، جیسے ہی اسکا آپریشن کر کے اسے لڑکا بنایا گیا، وہ حاملہ/حامل ہو گئی/گیا، کیونکہ موصوفہ/موصوف نے بچہ دانی اور اووریز نکلوانے سے انکار کر دیا تھا…!!!
تو اس عظیم الشان کارکردگی سے متاثر ہو کر برطانوی حکومت نے دو فقید الامثال فیصلے کئیے ہیں:
1. مردم شماری میں جنس کا خانہ “اختیاری” سوال بنا دیا گیا ہے تاکہ “نالائق” ٹرانس جینڈرز (اختیاری خسروں) کی دل آزاری نہ ہو اور وہ اسے چوائس پر چھوڑ سکیں…
2. اختیاری ہیجڑوں کے جذبات کے احترام میں اقوام متحدہ کی دستاویزات میں حاملہ “خواتین” کی بجائے حاملہ/حامل “لوگ” کی اصطلاح استعمال کرنے کی سفارش کی جائے گی…
مزے کی بات یہ ہے کہ اس پر فیمنسٹ طبقہ بہت جزبز ہوا ہے، خوب مرچیں چبا رہا ہے اور اسے خواتین کی حق تلفی اور انکے ساتھ زیادتی قرار دے رہا ہے. انکا خدشہ بھی بجا ہے کہ حمل کی تکلیفات جھیلنے والی خواتین سے کریڈٹ کیوں چھینا جا رہا ہے. مزید یہ کہ ٹرانس جینڈر ریسٹ روم کنسیپٹ کے عام ہونے کے بعد کوئی بھی “حقیقی” اور “مطمئن” مرد اپنے آپ کو ٹرانس جینڈر کہتے ہوئے زنانہ واش رومز میں گھس سکے گا اور………
گل خان کہتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ باطل کے ان دونوں فرقوں میں جنگ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے. لیکن اسے اصل ٹینشن یہ ہے کہ داعش والے ایسے نمونوں کو پکڑ کر لونڈی قرار دینگے یا غلام….!!!
(ڈاکٹر رضوان اسد خان)

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password