لبرل تہذیب اور صیہونی پروگرام

لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی 14جولائی 2016ء کی اشاعت میں ایک خبر رپورٹ کی جس میں بتایا گیا کہ کیلیفورنیا اسٹیٹ بورڈ آف ایجوکیشن نے دوسری کلاس کے نصاب میں LGBT (ہم جنس پرستی) کی تحریک کی تاریخ کو شامل کر لیا ہے۔ یعنی کے کیلیفورنیا میں اب دوسری کلاس کے بچوں کے ہم جنس پرستی کی تعلیم دی جائے گی۔ LGBT 1990ء میں بنائی گئی ایک کمیونٹی کا نام ہے جس کا مقصد ان لوگوں کو جو عام دنیا میں فٹ نہیں بیٹھتے، پہچان دلانا ہے۔ اس کمیونٹی کو 2016ء میں میڈیا پر بہت زیادہ پروموٹ کیا جا رہا ہے اور اسے GLAAD کا نام دیا گیا ہے۔ ہم جنس پرست وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہوتے تو عام مرد اور عورت ہی ہیں لیکن ان کا دل جنس مخالف کی طرف مائل نہیں ہوتا، بلکہ ان کا جنسی میلان اپنی ہی جنس کے لوگوں کی طرف ہوتا ہے۔ آج کل دنیا بھر میں اسے بھرپور پروموٹ کیا جا رہا ہے۔
رالف ایپرسن ( Ralph Epperson) نے 1989ء میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا نیو ورلڈ آرڈر (New World Order)۔ ایپرسن امریکہ کا ایک لکھاری اور محقق تھا جو سازشی نظریات (Conspiracy Theroies) پر تحقیق کرتا تھا۔ ایپرسن نے اپنی کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا:’’دنیا کا پرانا نظام اپنے آخر کو پہنچنے والا ہے اور اسے نئے نظام میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ نئی دنیا کا نام نیو ورلڈ آرڈر ہو گا اور اس نظام کو پوری دنیا میں پھیلایا جائے گا۔ اس نئے نظام میں خاندانی نظام کچھ اس طرح کا بنا دیا جائے گا جس میں ہم جنس شادیاں قانونی طور پر جائز ہوں گی۔ والدین بچوں کی دیکھ بھال نہیں کریں گے بلکہ حکومت ان بچوں کی دیکھ بھال کرے گی۔ دنیا کی ساری عورتوں کو حکومت نوکریاں دے گی تاکہ عورتیں گھر نہ بنائیں۔ طلاق حد سے زیادہ آسان کر دی جائے گی اور ایک شادی کے تصور کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا جائے گا۔ اس نظام میں مذہب غیر قانونی قرار دے دیے جائیں گے، اور جو بھی مذہب کی بات کرے گا یا تو اُسے ختم کر دیا جائے گا یا قید کر دیا جائے گا۔ ایک نیا مذہب متعارف کروایا جائے گا، یعنی انسان کی پرستش کا مذہب اور اس کے ذہن کی پرستش کا مذہب، اور تمام انسان اس مذہب کے پیروکار بنیں گے۔ امریکہ اس نظام کے نفاذ میں سب سے اہم کردار ادا کرے گا‘‘۔
نیو ورلڈ آرڈر نامی یہ کتاب 1989ء میں لکھی گئی تھی، اور جیسا جیسا اس کتاب میں لکھا گیا ہے آج بالکل ویسا ہی ہو رہا ہے۔ اگر آج آپ اپنے آس پاس دیکھیں اور کسی بھی سیکٹر میں چلے جائیں، وہاں خواتین کو مردوں سے زیادہ نوکریاں دی جا رہی ہیں،امریکہ اور برطانیہ میں 14-15سال کے بچوں کو اس بات کی تعلیم دی جا رہی ہے، بچوں کو اکسایا جا رہا ہے کہ اگر کوئی لڑکا لڑکی بننا چاہتا ہے تو وہ اس کا حق ہے۔ سکولوں میں اس بات کو بھی عام کیا جا رہا ہے کہ اگر کلاس میں ایسے رجحانات کا حامل کوئی طالب علم ہے تو اسے چھیڑا مت جائے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ جو کر رہا ہے، بالکل صحیح کر رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ 14-15سال کا بچہ جنسیات کے موضوع کی اتنی آگاہی نہیں رکھتا۔ بعض لڑکے لڑکیوں والی چیزوں کو اپنا لیتے ہیں تو کبھی لڑکیاں لڑکا بننے کے چکر میں لڑکوں جیسے کپڑے پہننے لگتی ہیں، ایسے موقع پر ماں باپ ہی ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کو سمجھاتے ہیں، لیکن آج کل معاملات کچھ اس طرح کے ہوگئے ہیں کہ بچے ماں باپ کی بات کم اور سکول والوں کی بات کو زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں، اور عمل بھی کرتے ہیں کیونکہ نسلی خلا بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس نسلی خلا کی بنا پر بچے ماں باپ کی سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان معصوم بچوں کی سکول اور میڈیا جو پروگرامنگ کر رہا ہے، یہ اسی کو سچ مان بیٹھتے ہیں۔ یہ فتنہ ان بچوں کوعام مرد اور عورت رہنے کے بجائے ہم جنس پرست بننے پر اُکسا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان بچوں میں بھی ویسا بننے اور اس ناپاکی کو آزمانے کی جستجو جنم لے گی۔
دنیا کا کوئی بھی مذہب ہم جنس پرستی کو جائز قرار نہیں دیتا۔ اللہ تعالی نے حضرت آدم ؑ کو مرد اور حضرت حواؑ کو عورت بنایا تھا اور یہی نظام فطرت ہے اب جو شخص بھی ہم جنس پرستی جیسی ناپاک دلدل میں پھنسے گا، وہ ہر مذہب سے انکاری ہو جائےگا کیونکہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں ہم اس کی گنجائش نہیں ہے۔ دجالی تنظیمیں دنیا کوعقلی پروپیگنڈا اور طاقت سے اس بات کے لیے مجبور کردیں گی کہ لوگ اللہ تعالی کے قانون کی خلاف ورزی قبول کر لیں ۔ ہنری کسنجر امریکہ کا ایک سفارت کار اور سیاستدان ہے اور اس کا کہنا ہے کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کا نمبر ون مقصد اس دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنا ہونا چاہیے۔ یہ ہم جنس پرستی کا سارا پروپیگنڈا آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے اور مذہب/ روحانیت کو اس دنیا سے ختم کر دینے کے لیے ہے۔ ہر طرف شیطانیت کا راج ۔
جو انسان لڑکا پیدا ہوا ہے، وہ چاہے آپریشن کروا کر اپنے جنس ہی کیوں نہ بدل ڈالے، وہ مکمل طور پر لڑکی نہیں بن سکتا اور نہ ہی ماں بن سکتا ہے، کیونکہ لڑکوں میںX-Y کروموسومز ہوتے ہیں اور لڑکیوں میں X-X کروموسومز۔ مستقبل میں جن لڑکوں کو آپریشن کروا کر لڑکی بننے کا خبط چڑھے گا، انہیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اس آپریشن پر لاکھوں روپے لگتے ہیں اور اس کی کامیابی کی بھی 100%گارنٹی نہیں ہوتی، اور نہ ہی اس بات کی گارنٹی ہے کہ ایک آپریشن کے بعد اور زیادہ آپریشنز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔(تفصیل گزشتہ تحریر میں پیش کی گئی )
یہ سب پڑھنے کے بعد اگر چند احباب یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ سب تو امریکہ یا یورپ میں ہی ہو رہا ہے اور پاکستان میں یہ سب نہیں ہو سکتا، تو ان سب احباب کے لیے عرض ہے کہ 12 جنوری 2016ء کو ایکسپریس نیوز میں ایک خبر رپورٹ ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ایک پاکستانی نوجوان رضوان کی محبت میں گرفتار بھارتی لڑکے گوروو نے جنس ہی تبدیل کر ڈالی اور گوروو سے میرا بن گیا۔
پاکستان میں ہم جنس پرستی کے پروپیگنڈے کو خواجہ سراؤں کے ذریعے پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ 2جنوری2016ء کو دی نیشن نے ایک خبر LGBT Rights In Pakistan: An Open Letter To Imran Khan کے نام سے شائع کی تھی۔ یہ سلسلہ 10مئی 2012ء سے جاری ہے جب اسلام آباد کے ایک نجی سکول میں اس بارے میں آگاہی کے لیے سکول کے بچوں میں آپس میں تقریری مقابلہ کروایا گیا، ایسے تقریری مقابلے اور پروگرامز پوری دنیا کے سکولوں میں کروائے جا رہے ہیں اور ان کا حلقہ مزید وسیع بھی کیا جائے گا۔ آج اگر صرف میڈیااور ان نام نہاد Awareness Programs کے ذریعے بچوں کے ذہن خراب کیے جا رہے ہیں تو آنے والے وقتوں میں کتابیں لکھی جائیں گی جو ان معصوم بچوں کو پڑھائی جائیں گی، ان کے نصاب میں شامل ہوں گی، جس کا آغاز کیلیفورنیا میں کر دیا گیا ہے۔
حمزہ زاہد

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password