آپ ٹرانس جینڈر کو حقوق کیوں نہیں دینا چاہتے ؟

ہم ٹرانس جینڈرز کےلیے یہ حقوق مانتے ہیں!
پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ٹرانس جینڈرز ایکٹ کے ناقدین ٹرانس جینڈرز کے حقوق سے انکاری ہیں۔ اس لیے چند باتیں اچھی طرح نوٹ کرلیں:
پہلی بات یہ ہے کہ ٹرانس جینڈرز اور خنثیٰ کو مکس نہ کریں۔ یہ دو مختلف تصورات ہیں اور ان کا اطلاق دو مختلف حالتوں پر ہوتا ہے۔
جہاں تک خنثیٰ کا تعلق ہے، ہم تفصیل سے واضح کرچکے ہیں کہ یہ کوئی تیسری جنس نہیں ہے، بلکہ شریعت نے ان کے متعلق یہ اصول دیا ہے کہ ان کی ظاہری جسمانی علامات کی بنا پر یا اندرونی تولیدی نظام کی جانچ کے بعد انھیں مرد یا عورت مانا جاتا ہے اور جب ایک دفعہ انھیں مرد یا عورت مانا گیا، تو پھر شادی اور وراثت سمیت تمام حقوق جو مردوں یا عورتوں کو شریعت نے دیے ہیں، وہ انھیں بھی حاصل ہیں۔ اگر خنثیٰ کو جسمانی طور پر یا اندرونی تولیدی نظام میں کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہے جس کےلیے اسے علاج کی ضرورت ہے، تو شریعت نے اسے علاج کا حق بھی دیا ہے تاکہ وہ اپنی جسمانی علامات یا اندرونی تولیدی نظام کی بنا پر مرد یا عورت کے طور پر اپنی زندگی اطمینان کے ساتھ بسر کرسکے۔
البتہ ٹرانس جینڈر ایک بالکل ہی الگ تصور ہے جہاں کوئی شخص ظاہری جسمانی علامات یا اندرونی تولیدی نظام کے بجاے محض اپنی تفسیاتی الجھنوں کی بنا پر، یا ویسے ہی لذت کی خاطر، خود کو اپنی جنس کے بجاے کوئی اور جنس سمجھنے لگتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ اسے وہ صنف دی جائے جو اسے پسند ہے، خواہ وہ اس کی جسمانی جنس سے مختلف ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ جسمانی نہیں، بلکہ نفسیاتی عارضہ ہے، خواہ اہلِ مغرب نے اسے نفسیاتی عارضوں کی فہرست سے خارج کردیا ہو۔
اس لیے دوسری بات یہ ہے کہ ایسے لوگ جو خود کو ٹرانس جینڈرز قرار دے کر اپنی صنف سے نکل کر کسی اور صنف میں داخل ہونے کے خواہش مند ہیں، انھیں شریعت نے وہ تمام حقوق دیے ہیں جو نفسیاتی عارضے میں مبتلا لوگوں کو دیے جاتے ہیں، جیسے علاج کا حق اور دیکھ بھال کا حق۔ البتہ چونکہ یہ بیماری ہے اور بیماری بھی وہ جو چھوت چھات کی ہے، اس لیے دوسرے لوگوں کو اس بیماری کے اثرات سے بچانے کےلیے انھیں نفسیاتی شفاخانے میں الگ تھلگ رکھ کر ان کا علاج کیا جانا چاہیے، جیسے mental asylum کے دیگر کیسز ہوتے ہیں۔ یہ بات تو کورونا جیسی جسمانی بیماریوں کے معاملے میں بھی دنیا نے مانی ہے بلکہ سب پر مسلط کی ہے کہ بیمار کو دوسروں سے الگ تھلگ رکھا جائے، خواہ وہ چیخے چلائے کہ اس کی آزادی کا حق متاثر ہورہا ہے۔ ان الگ تھلگ شفاخانوں میں ان کے علاج میں ان پر تشدد نہیں کیا جائے گا، لیکن انھیں بیمار کی حیثیت سے دیکھا جائے گا اور ان کے علاج کی کوشش کی جائے گی۔ (امید ہے کہ علاج کی غرض سے ان کو انجیکشن لگانے یا دوا دینے یا ایکسرسائزز کروانے وغیرہ جیسے امور کو تشدد میں شمار نہیں کیا جائے گا۔)
البتہ ان میں کچھ وہ ہیں جو ذہنی مریض نہیں ہیں لیکن انھوں نے ذہنی مریضوں کی سی وضع قطع اختیار کی ہے تاکہ جنسی بے راہ روی کو بیماری کا عنوان دے کر خود کو قانون کے اثرات سے بچائیں۔ ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ان میں جو صرف خود کو ہی ایسا نہیں بنائے ہوئے بلکہ دوسروں کو بھی ایسا بننے کی ترغیب دیتے ہیں یا اس کی کوشش کرتے ہیں، تو اس آخری کیٹگری کے ساتھ تعزیری قوانین کے ذریعے نمٹنا چاہیے۔
تاہم یہ بات اہم ہے، اور اسی کو تیسری بات سمجھیے، کہ اس مؤخر الذکر کیٹگری میں شامل افراد کےلیے بھی شریعت نے حقوق تسلیم کیے ہیں۔ بھلا کون سے حقوق؟ اپنی پسند سے صنف تبدیل کرنے کا حق نہیں، نہ ہی اپنی جسمانی جنس کے خلاف صنف چننے کے بعد اس صنف کے مقابل صنف کے ساتھ شادی کا حق، بلکہ ایسے لوگوں کےلیے شریعت نے وہ سارے حقوق تسلیم کیے ہیں جو اس نے کسی بھی ملزم کےلیے تسلیم کیے ہیں، مثلاً انھیں مجرم نہیں مانا جائے گا جب تک ان کے خلاف الزام ثابت نہ ہو، انھیں صفائی کا اور دفاع کا حق ہوگا، انھیں اپنے خلاف گواہی پر مجبور نہیں کیا جائے گا، وغیرہ۔
پھر جب ایک دفعہ اس آخری کیٹگری کے کسی فرد کا جرم ثابت ہوجائے، تو اس کے بعد بھی شریعت نے اس کےلیے کچھ حقوق دیے ہیں، اور یہ وہ سارے حقوق ہیں جو شریعت نے مجرموں کےلیے دیے ہیں، جیسے عدالت نے اسے جو سزا دی اس کے سوا اسے کوئی اور سزا نہیں دینا؛ ایک جرم پر بار بار سزا نہیں دینا، البتہ بار بار ارتکاب کرے تو ہر بار کےلیے الگ الگ سزا دی جاسکتی ہے، عادی مجرم ہو تو کڑی سزا بھی دی جاسکتی ہے؛ سزا کاٹنے کے دوران میں بھی اس کے کھانے پینے، صحت اور دیگر متعلقہ امور کی دیکھ بھال، سزا کاٹ کر، یا توبہ تائب ہونے کی صورت میں اس کا ماضی یاد دلا کر اسے عار دلانے کی ممانعت وغیرہ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ خنثیٰ کو تو جنس کے تعین کے بعد اسی جنس کے تمام حقوق میسر ہوں گے۔ اسے تو ایک طرف رکھیے۔
ٹرانس جینڈرز کےلیے ہم تین طرح کے حقوق مانتے ہیں:
اگر وہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں، تو ذہنی بیماروں کے حقوق؛
اگر ان پر الزام ہے کہ وہ بیمار ہیں نہیں بلکہ جھوٹ موٹ خود کو بیمار بنا کر پیش کررہے ہیں تاکہ اہنی جنسی بے راہ روی کو جواز دیں یا دوسروں کو گمراہ کریں، تو ملزموں کے حقوق؛ اور
اگر ان پر الزام درست ثابت ہوجائے، تو مجرموں کے حقوق۔
کون کہتا ہے کہ ہم ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے قائل نہیں ہیں؟
ڈاکٹر محمد مشتاق

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password