سیکولرانتہاءپسندی کے فکری تضادات

سیکولرزم اگر واقعی انسان دوستی، محبت، پیار، احترام انسانیت ، برداشت، تحمل اور بقائے باہمی کا نام ہے تو سر آنکھوں پر، ان اعلی قدروں سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے ۔ہم ان اقدار کو اسوہ ِ حسنہ کہتے ہیں،آپ بھلے انہیں سیکولرزم کا نام دے لیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن امر واقع یہ ہے کہ سیکولرزم انسان دوستی، محبت، پیار، احترام انسانیت ، برداشت، تحمل اور بقائے باہمی کا نہیں ردعمل کی غیر متوازن نفسیات اوڑھے ایک لادین انتہا پسندی کا نام ہے۔۔۔۔۔۔سوال یہ کہ مذہبی انتہا پسندی سے گھائل سماج دیکھتی آنکھوں سے لادین انتہا پسندی کی مکھی کیسے نگلے؟
سیکولر انتہاپسندی کے فکری تضادات بہت خوفناک ہیں۔اب چونکہ احباب کی جانب سے اس موضوع پر مکالمے کا اذنِ عام ہے اس لیے چند گذارشات پیش خدمت ہیں۔سیکولرزم کے بارے میں میرے گذشتہ کالم پر یہ تنقید سامنے آئی کہ سیکولرزم کے معانی لغت سے تلاش کرنا کوئی علمی رویہ نہیں ہے۔فکری برتری کے جھوٹے احساس میں ڈوب کر ایک صاحب نے گرہ لگائی المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں ننانوے فیصد لوگوں کو پتا ہی نہیں سیکولرزم کیا ہوتا ہے اور وہ خواہ مخواہ اس پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔یہ انتہا پسندانہ اسلوبِ گفتگو بہت سوں کو گد گدا گیا۔حیرت بھی ہوئی کہ یہ احباب خود کہہ رہے ہیں ننانوے فیصد لوگوں کو سیکولرزم کے معانی ہی معلوم نہیں اوراس گوہر نایاب کے جوہر تو صرف اس ایک فیصد طبقے پر آشکار ہوئے ہیں جو سول سوسائٹی تخلص کرتا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں ضد ہے کہ ان ننانوے فیصد حشرات الارض کو اپنے لیے نظام اختیار کرنے کا کوئی حق نہیں اور انہیں سیکولر ہو جانا چاہیے ۔سوال یہ ہے وہ نظام ِ حیات قوم پر کیسے مسلط کر دیا جائے جس کے معانی ہی ابھی تک صرف ایک فیصد طبقے پر آ شکار ہوئے ہوں؟یہ ایک فیصد طبقہ بھی سیکولر زم کی کسی ایک تعریف کا قائل ہوتا تو کوئی بات ہوتی یہاں تو احباب با جماعت سیکولرزم کے عارض و رخسارپرمضامین باندھ رہے ہیں اور ہر ایک کے پاس ا پنا ا پنا ، الگ الگ سیکولرزم ہے اور اس کا اصرار ہے اسی کے سیکولرزم کو حقیقی سیکولرزم مانا جائے۔میرے جیسا طالب علم ان تضادات کو دیکھ کر سوچتا ہے:
” کس کا یقین کیجیے ، کس کا نہ کیجیے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ‘ ‘
انتہائی عزیز دوست وجاہت مسعود تو سیکولرزم کا ’سافٹ امیج ‘ ہیں،سیکولرزم وہی ہے جو وجاہت بیان کرتے ہیں تو اس کا غالب حصہ قدرِ مشترک قرار دے کر اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن لاہور ہی میں،ان کے قرب و جوار میں، سیکولرزم کی بالکل مختلف تشریحات رکھنے والے بھی موجود ہیں ، پھرچکوال سے اٹھتے سیکولر فکری بیانیے کا کیا کریں جو لاہور کی تتلیوں اور خاص مشروب کے تذکرے سے بلند ہونے سے یکسر معذور دکھائی دیتا ہے۔جب ایک لفظ کی متضاد شرح بیان کی جا رہی ہے تو ایسے میں مغرب کے فکری ماخذ سے رجوع کر کے سیکولرزم کے معانی تلاش کرنا غلط کیسے ہو گیا؟جن لغات اور انسائیکلو پیڈیاز سے سیکولرزم کے معانی میں نے نقل کیے ،کیا وہ میری مرتب کردہ ہیں کہ مزاجِ یار برہم ہو گئے ؟یہ کیسا نظام ہے جس کے لغت میں دیے معانی نقل کر دیے جائیں تو اس کے داعی خفا ہو جاتے ہیں ۔آ پ اس ملک میں سیکولرزم لانا چاہتے ہیں،یہ فکری تکبر بھی آ پ کے ہمراہ ہے کہ ننانوے فیصد لوگ سیکولرزم کے معانی نہیں جانتے، آ پ ہمیں لغت اور انسائیکلوپیڈیا سے رجوع بھی نہیں کرنے دیتے ،آپ کا دعوی ہے سیکولرزم کی صرف اس تعبیر کو حتمی سمجھا جائے جو آ پ کے منہ سے ادا ہو۔کیا علم کی دنیا میں اس رویے کا کوئی اعتبار ہے؟
ملا ئیت اور انتہا پسندی وضع قطع کا نہیں، طرز فکر کا نام ہے اور انتہا پسند ہونے کے لئے باریش ہونا ضروری نہیں، آدمی ساغر و مینا بغل میں لئے بھی ’ انتہا پسند ‘ ہو سکتا ہے۔
اختلاف رائے میں تنوع ہے اور تنوع زندگی کا حسن،لیکن اگر دلیل اور دیانت کی قوت ساتھ نہ ہو اور تعصبات غالب آ جائیں تو صرف مُلائیت اور انتہا پسندی ۔جب آدمی سحر زدہ معمول کی طرح ایک ہی دائرے میں گھومنا شروع کر دیتا ہے،جب وہ اپنی عصبیتوں کا اسیر ہو جاتا ہے،جب وہ دلیل کی بنیاد پر موقف اختیار نہیں کرتا بلکہ اپنے موقف کے حق میں حجتیں تراشتا ہے،جب وہ ایک رائے قائم کر کے آنکھیں کان بند کر کے اعلان کرتا ہے کہ اب اس کی رائے میں کسی غلطی کا اور دوسروں کے موقف میں کسی صحت کا امکان نہیں رہا،جب اس کے موقف میں ہٹ دھرمی کی آمیزش ہو جاتی ہے،جب وہ مکالمہ نہیں کرتا مجادلہ کرتا ہے اور دوسروں کی تضحیک سے لطف اندوز ہوتا ہے ،جب اس کا مخاطب پورا سماج نہیں بلکہ صرف اس کی ہم خیال اقلیت ہوتی ہے اور وہ صرف اس اقلیت کو آسودہ کرنا چاہتا ہے،جب وہ ایک لکیر کھینچ کر فکری صف بندی کر کے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کر دیتا ہے،جب وہ دوسروں کی بات کو اہمیت نہیں دیتا اورجب وہ اپنے تضادات سے قطع نظرخود ہی کو سچائی کا واحد علمبردار سمجھ لیتا ہے تو اس کا یہ رویہ انتہا پسندی کہلاتا ہے اور خود وہ فرد انتہا پسند ۔مکرر عرض ہے انتہا پسندہونے کے لئے باریش ہونا ضروری نہیں،یہ خصوصیات موجود ہوں تو آدمی ساغر و مینا بغل میں لئے بھی ’ انتہا پسند‘ ہو سکتا ہے۔جب آپ وضع قطع سے ہٹ کر طرز فکر کی بنیاد پر دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا وطن عزیز میں انتہا پسندی کی کئی اقسام موجود ہیں ، جن میں سے ایک کا نام سیکولر انتہا پسندی ہے۔
دعوی تو یہ ہے کہ سیکولرزم ا نسان دوستی، محبت، پیار، احترام انسانیت ، برداشت، تحمل اور بقائے باہمی کا نام ہے لیکن سیکولر اجباب کے رویے اور ان کی تحریریں کچھ اور ہی بیان کر رہی ہوتی ہیں۔ایک آدھ استثناء کے ساتھ ان کے ہاں قدر مشترک دوسروں کی تضحیک اور مذہب کا تمسخر اڑانا ہے۔چونکہ سیکولرزم ہے ہی رد عمل کی غیر متوازن نفسیات کا ایک پہلو، اس لیے یہ عدم توازن ایک فطری بات ہے۔تاہم ان کے دعووں کی روشنی میں یہ ایک فکری تضاد کہلائے گا۔
سیکولر انتہا پسندی کے فکری تضادات کی تفہیم کے لیے ہم ان کے سماجی رویوں سے آغاز کر تے ہیں۔سیکولر حضرات کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگتی ہے کہ یہ دھرتی کی مقامی شناخت کے بارے میں بہت حساس ہیں اور خارجی تصورات کے ناقد،جب شاہراہوں کے نام برصغیرپر حملہ آور مسلمان جنگجوؤں کے نام پر رکھے جاتے ہیں تو یہ معترض ہوتے ہیں کہ اپنے مقامی اکابرین کو عزت دینے کی بجائے یہ کیا ہم غوری اور ابدالی کو لے کر بیٹھ گئے،ہم جیسے طالب علم ان سیکولر احباب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں کہ بات تو درست ہے پا کستانی نیشنلزم کے احیاء کے بغیر ہماری شناخت کیسے ہو سکے گی۔احباب غصے میں ہوں تو چودھری نثار کو طعنہ دیتے ہیں: ’ اب ا پنے بدو آقاؤں کی طرح تو پ بھی پہننا شروع کر دو‘ اور ہم اسے بھی ایک حساس قوم پرست کی برہمی کے باب میں لکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں،کوئی آدمی زندگی کے ایک دو عشرے عرب دنیا میں گزار کر لوٹے اور شوق سے گاڑی کی نمبر پلیٹ عربی میں لگا لے تو احباب طنز سے اسے ’ الباکستانی‘ کہتے ہیں ، انہیں اپنی ثقافت اور تہذیب خطرے میں محسوس ہوتی ہے اور یہ کرب ناک سنجیدگی سے سوال اٹھاتے ہیں: ’’ کیا اب رمضان کو’ رامادان ‘ پڑھا جائے گا ، ہم اس رویے کو بھی ایک وطن پرست کی برہمی سمجھ کر خوش ہو رہتے ہیں ۔لیکن ان کا فکری تضاد اس وقت سامنے آتا ہے جب کوئی کہہ دے کہ جناب یہ ویلنٹائن ڈے تو دوسروں کی ثقافت اور تہذیب کا استعارہ ہے ۔اب احباب کا بیانیہ بالکل دوسرا ہوتا ہے۔اب یہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ کوئی تہذیب مقامی اورغیر مقامی نہیں ہوتی ، یہ علمی اسلوب میں روشنی ڈالتے ہیں کہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور ہم سب اس ولیج کے باشندے ہیں۔ یعنی ان کا رویہ مقامی تہذیب سے محبت کا عکاس نہیں ہے بلکہ برہمی اس بات پر ہے کہ عرب دنیا کے مسلم معاشروں سے کوئی چیز اس سماج میں کیوں آ رہی ہے۔نفرت کا ہدف واضح اوربے زاری کا مرکزی نکتہ عیاں ہے۔
یہ ان کا فکری تضاد ہے جو انہیں خلط مبحث کی طرف لے جاتا ہے۔چنانچہ اب جس نے ویلنتائن ڈے پر نقد کیا اس کے جواب میں اختلافی نقطہ نظر انداز کر کے خلط مبحث شروع ہو جاتا ہے۔طعنے اور کوسنے شروع ہو جاتے ہیں؛ ’’ پھول سے ڈرتے ہو؟ محبت کے دشمن ہو، محبت تو آفاقی جذبہ ہے، دنیا سے پیار ختم نہیں ہو سکتا، نفرت کے سوداگر ہو، لہو کے رسیا ہو‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ویلنتائن ڈے کے ناقدین، ایسا نہیں کہ، محبت سے آشنا نہیں یا ان کے دل نہیں دھڑکتے، اختلاف کسی اور بات کا ہے، اس پر لیکن بات نہیں ہوتی ۔کھلنڈرے لہجوں میں ہاؤ ہو کا شور ، ناقدین کے لیے کچھ دشنام ، چند کوسنے ، تھوڑی تضحیک۔۔۔یہ ہے ان کا طرز بیاں۔
کہنے کو سیکولرزم سماج کی اقدار کا احترام کرتا ہے۔ہمارے ہاں معاملہ دوسرا ہے۔یہ ہر اس چیز کو سینگوں پر لے لیتے ہیں جس کے بارے میں سماج میں حساسیت ہو۔آرٹ کے نام پر کسی آن لائن روزنامے میں عورت کی برہنہ تصاویر چھاپنا کیا پاکستانی سماج کی اقدار کے احترام کے باب میں لکھا جا سکتا ہے؟عورت کے وجود کا آزادی کے نام پر جتنا استحصال سیکولر انتہا پسندی نے کیا یہ اتنا ہی خوفناک ہے جتنا مذہبی انتہا پسندی کے ہا تھوں عورت کا ہونے والا استحصال۔ایک دوست مجھے لاہور کے شاکر علی میوزیم میں لے گئے کہ ان کے بقول یہ میوزیم آرٹ کا شاہکار تھا۔ہر طرف عورت کی برہنہ تصاویر دیکھ کر عرض کی :’’ یہ آرٹ ہے یا غلاظت‘‘۔۔۔جواب ملا:’’ غلاظت دیکھنے والی آنکھ میں ہوتی ہے ،یہ آرٹ ہے‘‘۔ عرض کی :’’اگر یہ آرٹ ہے تو تین چار برہنہ تصاویر کسی مرد کی بھی بنا کرآویزاں کر لیں ، کہنے کو تو آپ مردو زن میں کسی تفریق کے قائل نہیں، پھر برہنہ تصاویر کے لیے آپ کا انتخاب صرف عورت کیوں؟وطن عزیز میں مردانہ وجاہت کے کئی نمونے موجود ہیں،کسی ایک کو مجسم کیجیے اور آرٹ گیلری میں جگہ نہ ملے تو درائنگ روم میں لٹکا لیجیے‘‘۔کیا یہ خوفناک تضاد نہیں کہ ایک چیز کو آپ آرٹ کا اعلی نمونہ بھی قرار دیں اور اسے اپنے گھر کی زینت نہ بنا سکیں؟
بالعموم ان کا رویہ مکالمے یا ہمدردی کا نہیں ہوتا ، بلکہ مذہبی طبقے کی توہین اور اس کا تمسخر اڑانا ان کے بیانیے کا بنیادی وصف ہے۔سائنس کی دنیا میں کہیں کوئی نئی تحقیق سامنے آئے یہ اپنے ملک کے مذہبی طبقے کا تمسخر اڑانا شروع کر دیں گے کہ ’’ مولویو دیکھو دنیا کہاں پہنچ گئی تم کہاں کھڑے ہو‘ ‘وغیرہ وغیرہ۔خدا کے بندو تم تو مولوی نہیں ہو ، سیکولر ہو، آسودہ بھی ہو، اچھی تعلیم بھی تمہیں ملی، اقتدار بھی تمہارے طبقے کے پاس رہا ، کچھ اپنے گریبان میں بھی جھانک لو، تم ہی سائنس کی دنیا میں کوئی انقلاب بپا کر دیتے۔یہ ہمارے معاشرے کا اجتماعی زوال ہے ، تعزیر کے لیے کسی ایک طبقے کو چن لینا کہاں کا انصاف ہے؟
جمہوریت اور جمہوری روایات کا شمار سیکولرزم کی بنیادی اقدار میں ہوتا ہے ۔سیکولراحباب کی جو خوبیاں مجھے بہت عزیز ہیں ان میں سے ایک جمہوریت کے باب میں ان کی غیر معمولی حساسیت ہے۔جمہوری اقدار، پارلیمان کی فعالیت اور آئین کی بالادستی کے بارے میں ان کا بیانیہ قابلِ تحسین ہے۔المیہ مگر یہ ہے کہ وطن عزیز میں جب جمہوری روایات اور آئین اسلام کے ساتھ اپنی نسبت استوار کرتے ہیں تو سیکولر احباب کو ان کے فکری تضادات آن گھیرتے ہیں اور یہ ان جمہوری روایات اورآئین سے لاتعلق ہی نہیں ہو جاتے ،ان پر بیجا نقد بھی شروع کر دیتے ہیں،یہ ا پنے ہی آدرشوں پر قائم نہیں رہ پاتے۔
قراردادِ مقاصد کا شمارپاکستان کے جمہوری ،پارلیمانی اور آئینی تحرک کے اولین نقوش میں ہوتا ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ایک جمہوری طریقے سے طے کیا کہ پاکستان کا دستوریورپی طرز پر نہیں ہو گا بلکہ اسلام اور جمہوری اصولوں کے تحت وضع کیا جائے گا،حاکمیت اعلی اللہ کی ہو گی ،اور منتخب نمائندے ایک مقدس امانت کی طرح اپنے اختیارات بروئے کار لائیں گے۔اقلیتوں کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں نہ صرف اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی ہو گی بلکہ انہیں اپنے کلچر کے فروغ کا بھی حق ہو گا ۔پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں خود وزیر اعظم نے اس قرارداد کوپیش کیا، اس پر جمہوری روایات کے مطابق بحث ہوئی۔اپوزیشن رہنما سریس چندرا چٹوپا دھیا نے کھل کر اس کے متن پر تنقید کی، ان کا کہنا تھا حاکمیت اعلی اللہ کے پاس نہیں صرف عوام کے پاس ہونی چاہیے ،کسی نے ان کو اختلاف کے حق سے محروم نہیں کیا ، وہ اور ان کے رفقائے کارمکمل آزادی فکر کے ساتھ بولے لیکن آخر کار ایک جمہوری عمل میں فیصلہ اکثریت رائے سے ہو تا ہے اور اکثریت کا فیصلہ قرارداد مقاصد کے حق میں تھا۔جمہوریت سے وابستگی کی بہت بات کی جاتی ہے لیکن جب جمہوری عمل اسلام کی بات کرتا ہے تو سیکولر احباب اس عمل کو مشکوک قرار دے دیتے ہیں، ان کے نزدیک یہ فکر قائد سے انحراف اور غداری ہے اور وہ اسے ریاست کی فکری بنیاد میں لگائی جانے والی پہلی ٹیڑھی اینٹ کا درجہ دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کیا ان کا یہ رویہ جمہوریت دوست کہلایا جا سکتا ہے؟دنیا بھر کو آپ یہ حق دیتے ہیں کہ وہ جمہوری طریقے سے اپنے لیے نظام چن لے لیکن مسلمانوں کو آپ یہ حق نہیں دیتے،کیا یہ رویہ جمہوریت دوستی کے باب میں درج کیا جا سکتا ہے؟ کیا اللہ کی حاکمیت کا اصول طے کرنا ایک خالصتا جمہوری عمل نہ تھا؟کیا دستور ساز اسمبلی کے باہر خود کش حملہ ٓاور کھڑے تھے کہ قرارداد مقاصدپا س نہ کی گئی تو اسمبلی کو اڑا دیں گے؟آپ بجا کہتے ہیں کہ بندوق کے زور پر شریعت نافذ نہیں کی جا سکتی لیکن ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کیا جمہوری طریقے سے اس کے نفاذ کی اجازت ہے؟ایسا تو نہیں آپ کا مسئلہ بندوق یا جمہوریت ہے ہی نہیں آپ کو کد صرف اسلام سے ہے اور مسلمانوں کا نظم اجتماعی جمہوری طریقے سے اسلام کی بات کرے تو آپ اسے بھی مان کر نہیں دیتے؟
سیکولر احباب کا کہنا ہے کہ قائد اعظم ایک سیکولر آدمی تھے اور وہ ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے، ان کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے اپنے مفادات کے لیے قائد کی فکر کا ابطال کیا اور دستور ساز اسمبلی سے قرارداد مقاصد منظور کروا لی، اور یہی تمام خرابیوں کی بنیاد ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قائد اعظم سیکولر تھے اور سیکولر پاکستان چاہتے تھے ، یہ صریحا جھوٹ ہے اور اس پر ہم تفصیل سے آگے جا کر بات کریں گے۔فی الوقت ہم سیکولر احباب کی ( صریحا غلط) بات مان لیتے ہیں کہ قائد سیکولر تھے اور سیکولر پاکستان چاہتے تھے ۔اب سوال یہ ہے کہ جس جمہوری طرز عمل کی سیکولر احباب بات کرتے ہیں اس میں کس کی رائے کو فوقیت دی جائے گی،ایک انتہائی قابل احترام فرد کی رائے کو یا دستور ساز اسمبلی کی اجتماعی رائے کو؟ تھوڑی دیر کے لیے مان لیا کہ قائد اعظم سیکولرپا کستان چاہتے تھے،کیا اس سے دستور ساز اسمبلی کی فیصلہ ساز حیثیت پر کوئی فرق پڑتا ہے؟سیکولرزم تو اپنا مقدمہ ہی اس بات پر کھڑا کرتا ہے کہ فرد واحد تو کیا کوئی الہامی کتاب بھی حرف آخر نہیں اور اجتماعی زندگی کا فیصلہ اجتماعی شعور کی روشنی میں جمہوری طریقے سے کیا جائے گا۔اب یہ عجیب تضاد ہے کہ اللہ کی حاکمیت آپ نہیں مانتے، کسی الہامی کتاب یا اللہ کے فرستادہ نبی ﷺ تک کو آ پ اجتماعی زندگی میں حرف آ خر ماننے کو تیار نہیں۔لیکن دوسری طرف فکری دیانت کو طلاق بائن کبری دے کر آپ پہلے تو قائد اعظم پر یہ تہمت دھرتے ہیں کہ وہ سیکولر تھے اور سیکولر پاکستان چاہتے تھے اس کے بعد آ پ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ چونکہ قائد اعظم سیکولر تھے اس لیے پاکستان کو سیکولر ہونا چاہیے۔اس دلیل اور اس استنباط کا علم کی دنیا میں کیا اعتبار؟
پاکستان کی اسلامی شناخت کسی جبر کا نتیجہ نہیں ، خالصتا جمہوری عمل کا نتیجہ ہے۔لیاقت علی خان ہی نہیں ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت بھی اس پر شاہد ہے۔ماضی قریب میں بھی ہم نے دیکھا کہ پارلیمان نے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے خاصی تبدیلیاں کیں ،لیکن آئین کی کسی اسلامی شق کو ختم نہیں کیا، اگر یہ اسلامی شقیں کسی جبر کا نتیجہ ہوتیں تو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے پارلیمان انہیں ختم کر دیتی، وہ کہ دیتی کہ قرارداد مقاصد آج سے آئین کا باقاعدہ حصہ نہیں رہا اور آرٹیکل ( 2(a کو منسوخ کیا جاتا ہے۔وقت بھی سازگار تھا اور ملک میں مذہبی انتہا پسندی سے بے زاری اپنے عروج پر تھی لیکن پارلیمان نے ایسا کچھ نہیں کیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی اسلامی شناخت پا کستان کے جمہور کا شعوری اور جمہوری فیصلہ ہے۔کیا وجہ ہے کہ سیکولر احباب اس شناخت کو مان کر نہیں دے رہے ؟کیا یہ رویہ جمہوریت پسندی اور آئین دوستی کے با ب میں درج کیا جا سکتا ہے؟شہنشاہیت،یقیناًہمارے سیکولر دوستوں کے ہاں بھی، ایک موزوں چیز نہیں لیکن جب برطانیہ کے عوام خود فیصلہ کر لیں کہ ایک ادارے کے طور پر اس علامت کو قائم رکھنا ہے اور اس کا احترام بھی کرنا ہے تو سیکولر احباب برطانیہ کے عوام کو جہالت یا قدامت پسندی کا طعنہ دیے بغیر ان کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں لیکن اگر پاکستان کے عوام جمہوری اور دستوری طریقے سے فیصلہ کر لیں کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے اور ریاست کا مذہب اسلام ہو گا تو ہمارے دوست اسے قبول اور برداشت نہیں کرپا تے۔اس رویے کو کیا نام دیا جائے؟
کچھ مذہبی لوگ دستور پاکستان کو نہیں مانتے کہ ان کی نظر میں یہ مکمل اسلامی نہیں ،اسی طرح سیکولر حضرات اس آئین کو نہیں مانتے کہ ان کی نظر میں یہ تھوڑا تھوڑا اسلامی ہے۔اب ایک کو انتہا پسند کہا جائے تودوسرے کو کیا نام دیا جائے؟آئین کی بالادستی پر روز ایک غزل کہنے سیکولر احباب بتائیں وہ دستور کی ان شقوں کو کیوں نہیں مانتے جن میں اسلام کی بات کی گئی ہے؟ جمہوری عمل اور دستور کی بالادستی کا تصور سیکولر احباب کے ہاں مسلمہ ہے لیکن وہ جمہوریت اور آئین اسلام کی بات کریں تویہ سیکولر حضرات ان مسلمات کی بھی نفی کر دیتے ہیں ، دین سے اتنی بے زاری۔۔۔۔اور دعوی پھر بھی یہ کہ سیکولرزم لادینیت نہیں ہے۔
پاکستان جمہوری اور آئینی انداز سے اپنی شاخت طے کر چکا ہے۔دستور پاکستان کے آرٹیکل2 کے مطابق : پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہو گا،آرٹیکل (a)2 کے مطابق قرارداد مقاصد آئین کا اہم اور بنیادی حصہ ہو گی جس میں کہا گیا ہے کہ حاکمیت اعلی اللہ کے لیے ہے ۔منتخب نمائندے ا پنے اختیارات کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہوئے ان کا استعمال اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر کریں گے ،مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی نجی اور اجتماعی زندگی قرآن وسنت میں دیے گئے اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں( گویا ہمارے دستور نے اس سیکولر تصور کی، کہ مذہب کا تعلق صرف فرد کی ذات اور نجی معاملات سے ہے، واضح طورپر نفی کر دی اور بتا دیا کہ اس کا تعلق اجتماعی زندگی سے بھی ہے)،آئین کا آرٹیکل 31 تو یہاں تک کہتا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہو گی کہ مسلمانوں کو وہ سہولیات فراہم کرے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کا مفہوم جاننے کے قابل ہو سکیں،سوال یہ ہے کیا سیکولر احباب دستور پاکستان میں طے شدہ ان امور کو تسلیم کرتے ہیں؟ اور نہیں کرتے تو کیا اس رویے کو جمہوریت دوستی اور آئین دوستی کے باب میں درج کیا جا سکتا ہے؟
تحریر آصف محمود

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password