تحریک تنویر و رومانیت [Romanticism & Enlightenment]

یہ دونوں تحریکیں بنیادی طور پر وحی کا انکار کرتی ہیں ۔ انہی معنوں میں یہ عیسائیت کا بھی انکار ہیں ۔ پروٹسٹنٹ(Protestanism) عیسائیت نے اس انکار کا اولین جواز فراہم کیا تھا۔ پروٹسٹنٹ ازم کا بانی لوتھر کفر کے غلبہ کے سلسلہ میں اصل مجرم ہے ۔ عقلِ انسانی کو وحی کی تعبیر اور تفسیر کا واحد ذریعہ قرار دے کر اور اجماع کی حجیت کو رد کر کے اس نے انکار وحی کی تحریکوں کے لیے زمین ہموار کی ۔ اس نے عیسائی تناظر میں وحی کے انکار کی عمومی قبولیت کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔ وحی کے انکار سے مراد کیا ہے ؟ وحی کے انکار سے مراد یہ ہے کہ عقل استقرائی(Inductive Reason) اور عقل استخراجی (Deductive Reason)کو استعمال کر کے حقیقت (Ontology)تک رسائی ہو سکتی ہے ۔ عقل وحی اور علم لدنی کے بغیر ان سوالات کا جواب دے سکتی ہے کہ انسان کیا ہے ؟ انسان کی کائنات میں حیثیت کیا ہے ؟ وغیرہ یہ Ontologicalسوالات ہیں ۔
عیسائیت یہ کہتی تھی کہ ان Ontologicalسوالات کا جواب وحی کے بغیر نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام بھی یہی کہتا ہے لیکن تحریک تنویر اس بات کی داعی ہے کہ ان سوالات کا شافی و کافی جواب عقل انسانی کے ذریعہ مل سکتا ہے اس کے لیے کسی ما ورائی ذریعہ علم کی ضرورت نہیں ہے ۔ جس طریقہ سے عقل کو استعمال کرتے ہوئے ریاضی اور منطق کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں اسی طریقہ سے عقل کو استعمال کر کے ما بعدالطبیعاتی حقائق اور حقیقت انسان و کائنات کے بارے میں مسائل بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔یہ تحریک تنویر کی علمیات (Epistemology) ہے ۔ اس علمیات کے مطابق اس قسم کے سوالات کہ تم کون ہو؟ تم کہاں سے آئے ہو؟ تم کہا ں جائو گے ؟ تمہیں کیا کرنا ہے ؟ کائنات کی حیثیت کیا ہے ؟ تخلیق کے عمل کی حیثیت کیا ہے وغیرہ ۔ ان سب سوالات کے جوابات عقل استقرائی اور عقل استخراجی کی مدد سے دئیے جا سکتے ہیں۔
تحریکِ تنویر کے بر عکس تحریکِ رومانویت (Romanticism)یہ قرار دیتی ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ عقل استقرائی اور عقل استخراجی نہیں ہے بلکہ وجدان (Intution)ہے ۔Intuition لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ”دیکھنا” ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تحریکِ تنویر کے بر عکس تحریکِ رومانویت کے نزدیک حقیقت کو براہِ راست’ ‘دیکھا ” جا سکتا ہے اور اس براہِ راست دیکھنے کے ذرائع انسانی جبلتیں ، انسانی خواہشات اور احساسات ہیں ، یہی وجدان ہے اور کچھ نہیں ہے ۔ عقل استقرائی اور عقل استخراجی انسانی جبلتوں ، خواہشات اور احساسات کی آلہ کار(Instrument) ہیں۔ تحریکِ رومانویت نے تحریکِ تنویر کے بر عکس انسانی جبلتوں ، خواہشات و احساسات کو بنیادی ذریعہ علم تصور کیا ہے۔
غرض تحریک رومانویت کے مطابق بنیادی ذریعہ علم وجدان Intuitionہے اور عقل خواہشات کی نوکر ہے (Reason is the Slave of Desire)جیساکہ بینتھم(Bentham) کہتا ہے (گو کہ وہ رومانوی نہیں تھا) کہ عقل تو دراصل خواہشات کی غلام ہے ، وہ تو در اصل Intuitionکی باندی ہے اور اصل میں حقیقت تک رسائی کا ذریعہ (Intuition) ہے ۔ خود انسان کے اند ر وہ جبلتیں ہیں جن کے ذریعہ وہ Ontological Realityتک پہنچ سکتا ہے ۔
روسو کے ذریعے تحریک تنویر اور تحریک رومانویت کا ادغام:
سیاسی اور معاشرتی نقطہ نظر سے اس دوسرے فلسفہ کا سب سے زیادہ اثر ہوا ۔ جس شخص نے تحریکِ تنویر کو اور تحریکِ رومانویت کو باہم ملا دیا وہ رو سو تھا۔ روسو کے ہاں ایک بڑا بنیادی تصور ارادئہ ِ عمومی(General Will) کا ہے ۔ روسو کے خیال میں انسان بنیادی طور پر خیر ہے اور ہمیشہ خیر کا طالب ہوتا ہے ۔ انسانی خواہشات ، جبلتیں ، احساسات فطرتاً پاک ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے ارادے کے تحت جس چیز کو پسند کرتا ہے وہ عمومی فلاح ہے۔
انسان خود بخود ، بغیر کسی وحی کے ، بغیر کسی رہنمائی ، بغیر کسی نظام اطاعت کے ، بذات خود اس چیز کا مکلف ہے کہ وہ ارادئہ ِ عمومی (General Will)کے ذریعہ خیر کا تمنائی ہو۔ ہر فرد کا ارادہ ، ارادئہ ِ عمومی کا اظہار اس لیے ہے کہ ہر فرد بنیادی طور پر خیر ہے ۔ یہی خیال ارادئہ ِ عمومی کا یہی تصور جمہوریت اور سرمایہ داری کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ جمہوریت اور سرمایہ داری کی بنیاد یہ عقیدہ ہے کہ “General Will always wills human welfare”
”ارادہ عمومی ہمیشہ انسانی فلاح کا ارادہ کرتا ہے ”
مقصد یہ ہے کہ انسان کا عمومی ارادہ خیر ہے ۔ وہ اس بات پر مجبور بھی ہے اور تمنائی بھی ہے کہ وہ جس چیز کا ارادہ کرے وہ ایسی ہو جس سے سب لوگوں کی بھلائی اور فلاح ہو۔ ارادئہ ِ عمومی فی نفسہ خیر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فی نفسہ خیر ہے ۔
“The Self is essentially good”
”انسانی ذات فی نفسہ خیر ہے ”(ترجمہ)
انسانی Selfفی الواقع خیر کا ادراک کرتا ہے اور ارادہ بھی خیرکا کرتا ہے ۔ تحریک رومانویت کے نزدیک انسانی نفس بنیادی طور پر خیر کا منبع ہے ۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ خیر کے ادراک اور خیر پر عمل پیرا ہونے کے لیے وحی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
انسان اور خدا میں کوئی فرق نہیں:
تحریک تنویر میں تو شروع ہی سے یہ تصور مو جود ہے کہ انسان اور خدا میں در اصل بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس خیال کو مختلف سطحو ں پر مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ سب سے زیادہ سارتر کے افکار میں یہ بات واضح ہے۔ عموماً بیسویں صدی میں یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے لیکن شروع سے ہی یہ خیال کہ انسان علم و عمل ، معاشرت و سیاست کسی شعبہ میں بھی دوسرے کا محتاج نہیں ہے۔ آزادی (Freedom)اور خودمختاری(Autonomy)کے تصور کی یہی بنیاد ہے اور یہ دونوں تصورات تحریکِ تنویر اورتحریکِ رومانویت کی مشترکہ میراث ہیں ۔
مغربی تہذیب میں انسان کے قائم بالذات ہونے کا یہی تصور ہے جو اوپر بیان ہوا۔ اسی لیے ہم مغربی تہذیب کو ایک مکمل اور بد ترین گمراہی سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی بقائے باہمی کے قائل نہیں ہیں۔ ہم اسے مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مغرب کے پاس ایک تصور حق و خیر ہے اور ہمارے پاس ایک دوسرا تصور حق و خیر اور اس بنیاد پر اسلام اور مغرب میں کوئی مکالمہ ہو سکتا ہے ۔ مغرب سے کسی مکالمے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کا تصورِ خیر اور تصورحق و خیر صریحاً باطل ہے۔
مغرب کا بنیادی عقید ہ الوہیت انسان کا عقید ہ ہے ۔ مغرب کا بنیادی کلمہ لا الہ الاالا نسان ہے اور اگر بنیادی کلمہ لا الہ الاالا نسان ہے تو مغرب اور ہمارے درمیان مکالمہ ممکن ہی نہیں ۔ اس بنیادی فرق کے باعث ہمارے اور مغرب کے درمیان تو بعد المشرقین ہے ۔ ہم مغرب کو خالص جہالت تصور کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے مغربی تہذیب وحی کا انکار کرتی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ حقیقت تک وحی الہٰی کے بغیر (عقل کی بنیاد پر، جبلتوں کی بنیاد پر ) رسائی ممکن ہے۔ یہ مغرب کا بنیادی عقیدہ ہے اور اسی عقیدہ کے سبب مغرب، مغرب ہے کسی اور وجہ سے نہیں ہے ۔
ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password