مادی ترقی کا لازمہ ۔ واہمہ یا حقیقت؟

محمد ظفر اقبال
یہ زمانہ انسانی فکر اور معاشرے کی ہر سطح پر مغربی افکار اور تہذیب کے غلبے کا زمانہ ہے۔ جدید مغربی تہذیب اپنی ابتدا سے اب تک خالص مادیت کی علم بردار رہی ہے۔ مادی ترقی [material progress] ہی کے باعث مغرب آج پوری دنیا پر عملاً متصرف ہے۔ ماریہ سبرٹ لکھتی ہیں:
It was progress which had permitted Europeans to ‘Discover’ the whole world, and progress which would explain their growing hegemony over the global horizon.۱؂
اس حقیقت کے بالمقابل یہ بھی امر واقعہ ہے کہ مسلمان مادی ترقی میں بہت پیچھے ہیں۔ مغرب کی مادی ترقی اور فتوحات کا عروج، امت مسلمہ پر مغرب کے تسلط اور یلغار کی مسلسل اور متواترسرگرمیاں اور مسلمانوں کی استخلاف فی الارض سے محرومی نے مسلم دنیا کو عجیب و غریب صورت حال سے دو چار کر رکھا ہے۔ مسلمان اس وقت بیک وقت چار ادوار میں ایک ساتھ زندہ ہیں:
[۱] مسلمانوں کا دینی و مذہبی پس منظر تقریباً ۱۵۰۰ سال قدیم ہے۔
[۲] مسلمانوں کا معاشرتی ڈھانچہ کم و بیش سترھویں اٹھارویں صدی کا ہے۔
[۳] مسلمان عملاً بیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔
[۴] مسلمانوں کی معلومات اکیسویں صدی کی ہیں ۔
اس صورت حال نے مسلم دنیا کو عجیب مخمصے میں مبتلا کررکھا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہ حیثیت قوم مسلمان ایک شکست خوردہ دنیا کے باسی ہیں جو اپنی سمت اور مقام کے تعین میں سرگرداں ہو۔ گزشتہ ڈیڑھ صدیوں میں امت مسلمہ کے علمی نمائندوں نے زوال امت کے تعین کی جستجو میں جو تحریری سرمایہ جمع کیا ہے، اسے پڑھ کر بہ طور امت مسلم شناخت کاسوال پوری شدت کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔کیا واقعی مسلمان اپنی شناخت کا غالب حصہ کھو چکے ہیں؟ اورباقی ماندہ مسلسل کھو رہے ہیں؟ زوال امت کے اسباب اور تجزیوں کا غالب حصہ آپس میں متضاد اور متصادم معلوم ہوتا ہے۔ اور اس پوری بحث کے تفصیلی مطالعے کے بعد سوائے الجھاؤ کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
زوال سے دوبارہ کمال کی بازیافت کے لیے حکمت عملی اور لائحہ عمل کے حوالے سے مسلم اہل فکر و قلم بالعموم تین نقاط نظر کے حامی معلوم ہوتے ہیں:
مادّی ترقی اصل الاصول اور مذہب چند کلیات کا نام ہے: مفکرین کا پہلا طبقہ:
پہلا طبقہ قلیل افراد کے ایسے گروہ پر مشتمل ہے جس کے نزدیک مادی ترقی[material progress] کا حصول اصل الاصول ہے۔ غالب تعقل [dominant discourse] کے ساتھ چلنا ہی حقیقی دانش مندی ہے۔ مذہب اگر انسانوں کے لیے آیا ہے تو اس کے قابل قبول ہونے کی شرط لازم یہ ہے کہ وہ زمانے کے کسوٹی پر کسے جانے کے بعد اس سے کھرا نکل آئے۔ بہ صورت دیگر مذہب اکیسویں صدی میں رہنے والے معراج ارتقا پر فائز عقلیت اور تجربیت پسند انسانوں کے لیے اپنے اندر کشش کا کوئی سامان نہیں رکھتا۔ دنیا میں کامل انہماک، تمتع فی الارض اور تسخیر کائنات ہی فی الحقیقت دانش مندی اور فطرت کا تقاضا ہے۔ مذہب چند اصولی ہدایات اور کلیات کا نام ہے۔ اس کا تعلق انسان کی ذاتی اور انفرادی زندگی سے ہے۔ انسان کی اجتماعی زندگی اور معاشرتی معاملات کے ہر ہر پہلو میں مذہب کی ’’دراندازی‘‘ ہر گز قابل قبول نہیں۔ عہد جدید میں معاشرے مذہب کی بنیاد پر تعمیر و تشکیل نہیں پاتے بلکہ ترقی، ارتقا، معیار زندگی، سہولت، آسائش، طاقت، اقتدار اور سرمائے کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں۔ اور ان ہی اصولوں پر جانچے اور پرکھے جاتے ہیں۔ اگر اس مسلّمہ حقیقت کے باوجود بھی انسانی معاشرے کا کوئی طبقہ مذہب سے اپنا تعلق استوار اور قائم رکھنے پر مصر ہوتو اسے چاہیے کہ جرمن اور فرنچ قومیتوں کی طرح مسلم قومیت کی وحدت کو اپنے ساتھ ملحق رکھ کر مادی ترقی کے کسی بھی سیاسی، سماجی، عمرانی، معاشی یاقانونی ماڈل کو اختیار کر لے۔ اگر مادی ترقی کی راہ میں اسلامی علمیات [Islamic Epistemology] اور مابعد الطبیعیات [Metaphysics] میں تبدیلی، ترمیم یا تنسیخ کرنی پڑے تو اسے بے خوف و خطر قبول کرلینا چاہیے۔ عزت اور ذلت کافیصلہ کن اور حتمی معیار ’’مادی ترقی‘‘ ہے۔
یہ طبقہ مغربی افکار و تہذیب اور فکر و فلسفے کو ایک عالم گیر سچائی اور فطری حقیقت کے طور پر قبول کرتا ہے۔ مذہب اوردینی اخلاقیات اس طبقے کی نظر میں ازکار رفتہ باتیں ہیں، اور ذہن انسانی کی عدم بلوغت [immaturity] کی یادگار ہیں۔ اس طبقے سے وابستہ مفکرین بالعموم ادب، فلسفہ، عمرانیات اور معاشیات کے شعبوں سے وابستہ ہوتے ہیں، اس طبقے کے وہ افراد جو بر عظیم سے وابستہ ہیں، ان کی اکثریت اسلامی علوم اور دینی مصادر علمی تک بہ راہ راست رسائی نہیں رکھتے۔ اسلامی فکر سے متعلق ان کے خیالات کا بنیادی حوالہ مستشرقین ہی کی کتابیں ہیں۔ اس وقت اسلامی دنیا میں مغرب کے زیر اثر ’’بنیاد پرستی‘‘ کے خلاف جنگ میں اس طبقے سے وابستہ افراد کی خدمات وسیع پیمانے پر حاصل کی جارہی ہیں۔ عصری تعلیمی اداروں میں ’’روشن خیالی‘‘ کی ترویج کے لیے ایسے افراد کی افزائش مسلسل کی جارہی ہے تاکہ اسلامی دنیا میں لادینیت [Secularism] کو فروغ حاصل ہوسکے۔
اسلام کے دفاع اور ترویج کے لیے ترقی ایک ناگزیر ضرورت: مسلم مفکرین کا دوسرا طبقہ:
دوسرا طبقہ مخلص مسلم مفکرین کے ایسے گروہ پر مشتمل ہے جن کے نزدیک اسلام کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی غیر مشروط اور اٹوٹ ہے۔ مسلمانوں کی کامیابی اور ناکامی کا واحد پیمانہ اسلام ہے۔ اسلام کو ماننے اور اس پر عمل کا تقاضا اسلام کی ترویج، اشاعت اور اس کے عملی نفاذ سے عبارت ہے۔ امت مسلمہ کے دینی اور معاشرتی تشخص کو قائم رکھنے ، اسلام کو ریاستی سطح پر نافذ کرنے اور عسکری سطح پر مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے مادی ترقی [material progress] کا حصول ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ بالفاظ دیگر اسلام اصل ہے اور ترقی اس اصل کو مضبوط، محفوظ اور مستحکم کردینے کی ’’شاہ کلید‘‘ہے۔
مغربی فکر و تہذیب کے بے شمار پہلو مثلاً سیکولرازم، قوم پرستی، اباحیت پرستی، اخلاقی بے اعتدالی، جنسی بے راہ روی وغیرہ صریحاً مسترد کردینے کے قابل ہیں۔ اس کڑی تنقید کے باوجود مادی ترقی کا ’’قفل ابجد‘‘ بہ ہر حال مغرب ہی کے پاس ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مغرب کے بے شمار پہلو لائق رد سہی، لیکن اس کے بہت سے اجزا سے استفادہ خود اسلام کے دفاع و ترویج اور ملت اسلامیہ کے تہذیبی تشخص کی ناگزیر مجبوری ہے۔ مغربی تجربات اور اکتشافات خصوصاً سائنسی علوم و فنون اور سائنسی منہاج کا اخذ و کسب بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں تعلیم و تحصیل ہی وہ راہ ہے جس پر چل کر مطلوب و مقصود میں کامیابی کا امکان ہے۔ مغرب سے علوم و فنون سے اکتساب اور استفادے کے وقت نہایت حزم اور احتیاط اور چھان پھٹک کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں خذ ما صفا و دع ما کدر کا اصول پیش نظر رہنا چاہیے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلامی مابعد الطبیعیات، علمیات اور اخلاقیات کے حصار میں ان علوم و فنون کی تحصیل کریں۔ اس طرح ان مغربی علوم و فنون کی تحصیل کے نتائج اور اثرات ہر گز وہ نہ ہوں گے جن کا اظہار مغرب سے ہوا ہے۔ ایک بار جب ان علوم فنون کی تکمیل و تحصیل ہوجائے گی تو اس وقت مسلم سائنس دانوں کو چاہیے کہ وہ مغرب کے فلسفیانہ نظریات سے دامن جھاڑ کر اسلامی مابعد الطبیعیات، علمیات اور اقدار کے زیر اثر ایسے نتائج پیدا کریں جو مغرب سے الگ ہوں۔
مادی ترقی اور سائنسی علوم و فنون اصلاً غیر اقداری [value neutral] ہیں۔ بالفاظ دیگر سائنسی علوم اور اس کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی ترقی فی نفسہٖ کوئی اچھائی یا برائی نہیں رکھتی، بلکہ اس کے استعمال کا مقصد اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔
مخلص مفکرین کا یہ گروہ اسلامی علمیات پر تو گہری نظر رکھتا ہے، لیکن مغربی فکر و فلسفے پر ، الاماشاء اللہ، تجزیاتی اور تنقیدی نظر نہیں رکھتا۔
دین اور مادی ترقی دو الگ مابعد الطبیعی دائروں کے رہین: مفکرین کا تیسرا طبقہ:
تیسرا طبقہ مخلص مسلم مفکرین کے ایسے گروہ پر مشتمل ہے جو اسلامی علوم اور مغربی فکر و تہذیب کی اصلیت اور حقیقت کو اس کے بنیادی ماخذ اور سیاق و سباق کے ساتھ نہ صرف جانتا ہے، بلکہ اسلامی علوم کی روشنی میں اس کے محاکمے کی بھی اہلیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق مغربی طرز کی مادی ترقی کے حصول کے لیے صرف مغربی زبان اور سائنسی علوم و فنون کی تحصیل و تعلیم کافی نہیں ہے۔ زبان تو علوم کے ابلاغ، اظہار اور تفہیم کا محض ایک ذریعہ [medium]ہے۔ وہ فکری سرمایہ اور خرد افروزی امر دیگر ہے جو مادی ترقی کا لازمہ ہے۔ ترقی پذیر اقوام آج وہیں کھڑی ہیں، جہاں مغرب اب سے ۳۰۰ سال پہلے کھڑا تھا۔ ترقی کے حصول کے سفر میں ترقی پذیر اقوام کو بھی عملاً ان تمام راستوں اور مراحل سے گزرنا ہوگا، جن سے غیر ترقی یافتہ مغرب گزر کر ترقی یافتہ ہوا ہے۔
انسان مرکز کائنات: مادی ترقی کے حصول کا پہلا ہدف:
اس سفر کا پہلاہدف انسان اور کائنات کا رُخ ’’خدا مرکزی‘‘سے ’’بشر مرکزی‘‘ [Humanism] کی طرف پھیردینا ہے۔ ترقی کا حصول اور جدیدیت کی تشکیل جن فکری عناصر کی مرہون کرم ہے ان میں کلیدی عنصر ’’بشرمرکزی‘‘ [Humanism] ہے۔ چارلس سنگر کے مطابق جدید فکر [modern thought]، جدید سائنس [modern science]، جدید آرٹ [modern art] اور جدید ادب [modern letters] سب ’’بشر مرکزی‘‘ کی پیداوار ہیں۔ ۲؂ مغرب پر نظررکھنے والا ہر طالب العلم اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ سولہویں صدی سے یورپ میں لادینیت کے نشروفروغ نے یورپ بلکہ پورے مغربی ذہن میں یہ بات راسخ کردی کہ معاشی عروج اور تہذیبی برتری کی واحد راہ مذہبی بندشوں اور تحدیدات سے آزادی اختیار کرلینے میں ہی پنہاں ہے۔اس لیے ترقی کا مغربی ماڈل اسلام کے ساتھ غیر مشروط وابستگی اور عملی و محسوس تعلق کے ساتھ ممکن نہیں۔ جہاں توحید ہی مقدمہ ہے اور توحید ہی نتیجہ ہے۔ ماریہ سبرٹ لکھتی ہیں:
Progress is more than just a journey or an ideal. It is modern destiny. To modern man, and those who want to share his identity, rejecting faith in progress is unbearable. Modern man is defined by progress. His self-esteem is rooted in it and it is his deepest justification for the ruthlessness he displays towards his fellow men and nature.۳؂
آزاد منڈی کی معیشت، ترقی کا اصلی میدان:
دوسری بات یہ کہ اسلامی مابعد الطبیعیات کے زیر اثر مادی ترقی اس لیے بھی ممکن نہیں کہ حصول ترقی کا سب سے سریع العمل اور زرخیز میدان مارکیٹ [market] ہے۔ مارکیٹ میں صرف ایک ہی اصول کار فرما ہوتا ہے: زر سے زر کا حصول اور سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری [accumulation of capital for the sake of accumulation]۔ جب بھی ترقی کے مارکیٹ ماڈل پر خارج سے کوئی نظریہ [ideology] مسلّط [impose] کیا جائے گا، شرح ترقی گر جائے گی اور آزاد منڈی کی معیشت [free market economy] کے ذریعے حاصل ہونے والی ترقی کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔ بالفاظِ دیگر ترقی کے عمل میں اگر اسلامی احکام اور فرامین کے تحت حدود و قیود عائد کی جائیں گی[جو کہ اسلام کے ماننے والوں کے لیے ناگزیر ہیں] تو ترقی لازماً محدود ہوگی اور لامحدود ترقی کے آگے کھڑی نہیں رہ سکے گی اور اگر بالفرض اس عمل پر کوئی قدغن عائد نہ کی جائے تو اس کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی اقدار [values] سرمایہ دارانہ ہوں گی، اسلامی نہیں۔
مادّی ترقی مخصوص اقدار اور مستقل تہذیب ہی میں ممکن ہے:
تیسرا اہم ترین اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ سائنسی ایجادات اور اکتشافات ہر گز غیر اقداری [value neutral] نہیں ہیں۔ جدید اکتشافات کو مغرب کے نظام اقدار سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تمام علوم و فنون اور اس کے مظاہر ایک خاص تہذیب و تمدن، اقدار و روایات اور مابعد الطبیعیات میں پیدا ہوئے اور پھلے پھولے ہیں۔ یہ جہاں بھی جائیں گے اپنی اقدار، روایات، اسلوب حیات اور طرز زندگی ساتھ لے جائیں گے۔ ضیاء الدین سردار لکھتے ہیں:
’’جدید سائنس واضح طور پر مغربی ہے۔ پوری دنیا میں جہاں بھی سائنس کو اہمیت حاصل ہے وہ اپنے اسلوب اور طریق کار میں مغربی ہے۔ سائنس داں کا رنگ اور اس کی زبان خواہ کچھ بھی ہو‘‘۔۴؂
مغربی سائنس اور نیچرل فلاسفی: بنیادی فرق:
ممکن ہے بعض طبائع ’’مغربی سائنس‘‘ کا لفظ سن کر کچھ وحشت محسوس کریں کہ آیا سائنس بھی مشرقی یا مغربی ہوتی ہے؟ یہ امر واقعہ ہے کہ مغرب کی مادی ترقی [material progress]، جدید سائنس [modern science] کی مرہون کرم ہے۔ جدید سائنس قبل از جدید معاشروں میں مروج نیچرل فلاسفی سے اپنی ماہیت اور غایت دونوں میں مختلف بلکہ متضاد ہے۔ قبل از جدید معاشروں کی سائنسی سرگرمی فطرت اور اس کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئے اس کے پس پشت کار فرما اسرار کو جاننے سے عبارت تھی۔اس کا مقصود کائنات اور فطرت کی سچائی، رعنائی، حسن اور شان کو عیاں کرناتھا۔ جدید سائنس کی ترقی ایک خاص مابعد الطبیعیات کے زیر اثر ممکن ہوسکی ہے۔ اس کا مقصد اور محرک کائنات اور فطرت پر ارادۂ انسانی کا تسلّط ہے اوراس کا استحصال کی حد تک استعمال ہے۔ ہائیڈگر کے افکار اس طرف بڑا واضح اشارہ کرتے ہیں، اس کے مطابق:
The essence of technology, which he names “the enframing,” reduces the being of entities to a calculative order. Hence, the mountain is not a mountain but a standing supply of coal, the Rhine is not the Rhine but an engine for hydro-electric energy, and humans are not humans but reserves of manpower. The experience of the modern world, then, is the experience of being’s withdrawal in face of the enframing and its sway over beings.۵؂
قبل از جدید معاشروں میں فطرت اپنے اندر ایک شان تقدیس رکھتی تھی اور جدید معاشروں میں فطرت محض ایک ’’شے‘‘ [commodity] ہے۔ تسخیر کائنات اس کے مقاصد میں شامل نہیں بلکہ کائنات کا استحصال کی حد تک استعمال دنیائے جدید کا عزم ہے۔ مادی ترقی کے حصول کے پس پشت کار فرما دانش بدترین قسم کی سفاکی کی مظہر ہے، مارکوزے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے:
We submit to the peaceful production of the means of destruction, to the perfection of the waste, to being educated for a defense which deforms the defenders and that which they defend.۶؂
ٹیکنالوجی، جو جدید سائنسی ترقی اور تعیشات کا سب سے فعال مظہر ہے، کی حقیقت کے متعلق ضیاء الدین سردار لکھتے ہیں:
Technology is like fire. As long as it is under your control, you can derive benefit from it. Let it get out of hand, and you will be the first one it will destroy. And then the trees, and then the wood. And finally the earth itself.۷؂
اس لیے جدید سائنس کو غیر اقداری[value neutral] ان معنوں میں سمجھنا کہ اس کے ثمرات کو جس ظرف میں ڈال دیا جائے گا وہ اسی کی شکل اختیار کر لے گا اور ہم ان ثمرات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے اثرات سے متاثر نہیں ہوں گے، نادانی ہے۔ حسین نصر فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اپنے ساتھ ایک خاص تصور کائنات، ایک خاص طرز زیست، ایک خاص طرز عمل اور ایک خاص تصور وقت بھی لاتی ہے ۔۔۔ میں سوچ نہیں سکتا کہ اسلامی تہذیب مغربی ٹیکنالوجی کا ایک اچھا حصّہ اختیار کرے اور کہے کہ یہ اچھا اور کار آمد ہے اور دوسرا حصہ مسترد کردے اور کہے یہ برا اور بے کار ہے۔ آپ جدید ٹیکنالوجی کا جوبھی حصہ اختیار کریں و ہ اپنے ساتھ منفی اثرات بھی لائے گا‘‘۔۸؂
مزید کہتے ہیں:
’’مجھے ایسے حضرات سے سخت اختلاف ہے جو کہتے ہیں یورپ جاؤ وہاں بندوقیں بنانا سیکھو، واپس آؤ۔ بندوق بردار فوجیں کھڑی کرو اور باقی ہر چیز بھول جاؤ۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔در اصل تمام چیزیں اکھٹی آتی ہیں۔ بندوق سازی سے لے کر کمپیوٹر اور سیل فون بنانے کی ٹیکنالوجی تک فولاد سازی، جہاز سازی یہ سب صنعتیں آتی ہیں۔ کیوں کہ ان سب کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ ٹیکنالوجی اپنا ایک تصور کائنات رکھتی ہے اور انسان پر عائد کرتی ہے‘‘۔۹؂
ترقی کے فعلی محرکات اور دین کا اقداری نظام:
اسلامی مابعد الطبیعیات کے زیر اثر پروان چڑھنے والی مادی ترقی مغرب کے لیے کوئی خطرہ[threat]بن سکے گی یانہیں۔ یہ سوال تو رہا ایک طرف لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ یہ ترقی مسلمانوں کی اسلام کے ساتھ وابستگی میں ایک بڑا رخنہ ضرور ڈال دے گی۔
مادی ترقی[material progress] کے تمام تر فعلی محرکات ہوس[lust]، لالچ[greed] اور خود غرضی[self-interestedness] سے عبارت ہیں، جو مذاہب خصوصاً اسلام کی بنیادی تعلیمات صبر و شکر، فقر و توکل، غنا و عطا سے بہ راہ راست متصادم ہیں۔اس لیے ان میں جبرو مقابلہ ناگزیر ہے۔ ماریہ سبرٹ لکھتی ہیں:
Leniency bordering on approval towards such a sin, which is now perceived as the vertiable psychological engine of material progress.۱۰؂
مزید لکھتی ہیں:
Greed and arrogance in individual turn into prosperity and justice for nations and all mankind an invisible hand, a cunning reason that will do him humanity good even its members indulge in evil.۱۱؂
ان وجوہات کی بنا پر تیسرے طبقے کے مطابق مغربی ترقی کے حصول کی کوشش اور اسلام کے ساتھ وابستگی بہ یک وقت ممکن نہیں۔
اسلامی دنیا: مادّی ترقی کا حصول مغربی مفکرین کے بیانات کی روشنی میں:
یہ تو مادی ترقی کے حوالے سے اسلامی تہذیب کے علمی نمائندوں کے بیان فرمودہ خطوط اور مجوزہ احتیاطیں اور دوسرے طبقے کے خدشات، اعتراضات اور نتائج پر گفتگو تھی اس مبحث کو اگر ایک اور زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو بات زیادہ واضح ہوسکے گی۔ اہل مغرب جن سے مادی ترقی کے حصول کے لیے استفادہ کیا جائے گا، خود وہ مسلمانوں کے اس طرز عمل کو کس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آیا وہ اس تعلیم و تحصیل کو بلا کسی شرط اور قید کے مسلمانوں تک منتقل کردینے پر تیار ہیں؟کیا یہ ممکن ہے کہ مسلمان مغرب سے علوم و فنون سیکھ کر الگ ہوجائیں اور مغرب کو اس کی خبر بھی نہ ہو؟ یا انھیں مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں، عزائم، خواہشات، جذبات، احساسات کی پوری پوری خبر ہے اور وہ نہایت کڑی شرائط اور قیود کے ساتھ اہل اسلام کو مغربی علوم و فنون سے استفادے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند شواہد او ر نظائر کا مطالعہ ضروری ہے۔
مغربی مفکرین کا متفقہ اعلان: مادی ترقی اور غرب زدگی لازم و ملزوم:
مرحوم ڈاکٹر محمود غازی [سابق صدر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد] اپنی آپ بیتی بیان فرماتے ہیں کہ:
’’آج سے چند سال پہلے جرمنی میں ایک اجتماع میں جانے کا موقع ملا۔ میرے علاوہ باقی مفکرین یورپ سے بلائے گئے تھے۔ اس اجتماع کا عنوان تھا:’’کیا اسلام مغرب اور یورپ کے لیے خطرہ ہے؟‘‘ جس کے ایک سوال کے جواب میں میں نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ اب مسلمان مفکرین اور دانش وروں کی بڑی تعداد اس بات کی نمائندگی کرتی ہے کہ مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا چاہیے۔ ان کی سائنس اور ٹیکنالوجی، ان کی سہولتیں یہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہونی چاہییں اور ان کو اپنانا چاہیے۔ جب کہ ان کے جومنفی پہلو ہیں مثلاً اخلاقی اقدار کے متعلق ان کے خیالات و نظریات یا سیکولرازم اور لامذہبیت یا مردوزن کی آزادی جو ان کے یہاں ہے، یہ چیزیں دنیائے اسلام کو قبول نہیں کرنی چاہییں۔ تو اس کے جواب میں اجتماع کے شرکانے تقریباً بالاتفاق میر ی بات کو مسترد کردیا اور کہا کہ ٹھیک ہے، آپ اس رویّے کو درست سمجھتے ہوں، لیکن مغرب ان شرائط پر اپنی ٹیکنالوجی سے آپ کو استفادہ کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہ ہوگا۔ انھوں نے کہا یہ ایک پورا پیکج ہے، جسے آپ کو جوں کا توں قبول کرنا پڑے گا۔ اس میںآپ کو اخذ و انتخاب[pick and choose]کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔۱۲؂
اگراس سلسلے میں مستند مغربی مفکرین کے چند ایک بیانات بہ راہ راست پڑھ لیے جائیں تو بات زیادہ واضح اور مؤکد ہوجائے گی۔
معروف مغربی ماہر معاشیات اور مؤرخ ٹائن بی لکھتا ہے:
Possibly experience has already shown that this attempt to pick and choose [aimed at receiving from the West the maximum amount of Western technology while taking the minimum amount of the rest of our civilization] may not be practicable in the long run. If you once commit your self to taking one element from some alien civilization you may find yourself led on, in unexpected ways, into being constrained also to receive other elements which, at first sight, might seem to have no connection with the element that you have originally taken intentionally and deliberately. In the long run, it may not be possible to take a part and leave the rest; What that is ۔۔۔ all non-western civilization have been trying to do during the last two hundered years. They have been trying to take as much possible of our technology and as little as possible of the rest of our civilization.۱۳؂
معروف امریکی تجزیہ نگار اور مسلمانوں کے خلاف امریکی عسکری یلغار اور تہذیبی حملے کو جواز فراہم کرنے والا مفکر سیمویل ہن ٹنگٹن صاف لفظوں میں لکھتا ہے:
Only when Muslims explicitly accept the Western model will they be in a position to technicalize and then to develop.۱۴؂
ایک اور مغربی مفکر ہملٹن گب کی یہ حتمی رائے ہے کہ جدید کاری[modernization]اور غرب زدگی[westernization]دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ عالم اسلام کے در پیش مسائل کا واحد حل مغربی اقدار و تہذیب کو ترقی اور ٹیکنالوجی کے ساتھ جوں کا توں اختیار کرلینے میں ہے۔ ۱۵؂
گب تصریح کرتا ہے کہ جن ممالک میں مغرب سے مستعار اور ماخوذ مادی ترقی اور صنعتی ترقی رواج پکڑ رہی ہے ان ملکوں کا بہ یک وقت مغربی تہذیب و اقدار سے محفوظ رہنا اور اس کے بالمقابل اسلامی تہذیب، اقدار اور روایات سے اپنا تعلق استوار رکھنا امر محال ہے:
A wave of antipathy, if not contempt, for everything to do with Western civilization has to late become manifest in the Arab World ۔۔۔ The plain truth of the matter that “modernization” means “westernization”. But on the other hand, it would be impossible for the Arabs [Muslims] to follow the path taken by the Turkish Republic without losing their identity completely. This, then, is the question: how in a world in which technology is making progress at a ever vaster scale, can the social values and cultural ideals of Islam be reaffirmed in such a way as to rebuild a stable society endowed with vigorous and homogeneous social order capable of playing an active and constructive role.۱۶؂
مغرب: مادی ترقی کے نتیجے میں درپیش مسائل:
متذکرہ بیانات اور شواہد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کا حصول ترک واخذ کے اصول پر تو ممکن نہیں۔ کیا اب اس کی واحد متبادل صورت وہی رہ جاتی ہے جس کا مشورہ زوال کے تجزیے کے ضمن میں مسلم مفکرین کے پہلے طبقے نے دیا تھا؟ کیا اس بات کو نظر انداز کردینا آسان ہے کہ مغرب نے اس ترقی کے حصول کی خاطرغیر شعوری طور پر ہی سہی اپنی تمام مذہبی[religious]، معاشرتی[social]، اخلاقی[moral] اورخاندانی[family]اقدار کو قربان کردیا۔زندگی اور معاشرے سے متذکرہ اوصاف کے انخلانے مغرب کو مختلف النوع مسائل اور مشکلات سے دو چار کردیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی معاشرے کو خود غرضی[self -interestedness]، تشویش[anxiety]، دل شکستگی[despair] اور individuality جیسے اوصاف رذیلہ مادی ترقی کے ’’تحفے‘‘کے طور پر عطا ہوئے ہیں۔ مغربی معاشرے کا انسان، انسانی تعلقات کی سلک میں منسلک نہیں بلکہ قانونی تعلقات کا اسیر بن کر رہ گیا ہے۔ دو سو سال تک مادیت اور ترقی کے دفاع کے باوجود اب مغرب میں خاندان اور مذہبی اخلاقیات کے احیا کی کوششیں شروع ہورہی ہیں۔ ہائیڈگر جیسا فلسفی کہہ رہا ہے کہ مغربی تہذیب اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکی ہے۔ وہ جدید دنیا کے مسائل کے حل کے لیے the other thinkingکا قائل ہوگیا تھا۔ Der spiegel نے جب ہائیڈگر سے سوال کیا کہ دنیا کیسے بدلی جاسکتی ہے تو اس نے کہا:
No! I know of no path toward a direct change of the present state of the world, assuming that such a change is at all humanly possible.۱۷؂
اسلامی دنیا: مادی ترقی کا حصول: چند سوالات اور حقائق:
مسلم مفکرین کے مختلف نقطہ ہائے نظر اور مغربی مفکرین کے بیانات کے مطالعے سے جو صورت حال سامنے آتی ہے اس کو سامنے رکھ کر چند نتائج اور چند سوالات کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ یہ بات ہر شبہے سے بالا ہے کہ امت مسلمہ کا مجموعی مزاج، چند مستثنیات کے ساتھ، یہی ہے کہ وہ اگرچہ مغرب جیسی مادی ترقی کے خواہاں ہیں، لیکن دوسرے طرف من حیث الکل اب تک اپنے مذہبی، اخلاقی، تہذیبی اور روایتی اقدار سے بھی دست بردار ہونے کو تیار نہیں، ملٹن ویورسٹ [Milton Viorst] جیسے مغربی مفکرین جس بات کو ’’عربوں کی مقفل سوچ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ مسلمان اس دور میں بھی مذہب کو قابل عمل سمجھ رہے ہیں۔۱۸؂ خواہشات اور جذبات کی حد تک یہ رویہ بہت خوش نما معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ اسلام سے غیر مشروط وابستگی میں اب بہت حد تک تبدیلی آگئی ہے، مذہب کی گرفت مسلم معاشرے سے بہ تدریج ڈھیلی ہوتی جارہی ہے۔ جنوبی ایشیاکی تاریخ کا ماہر محقق فرانسس رابنسن [Francis Robinson] ، گزشتہ سو سالوں میں مسلمان معاشروں میں پیدا ہونے والی اس تبدیلی کا تجزیہ کرتے ہوئے، اسے ٹھیک وہی راستہ قرار دیتا ہے جس پر چل کر عیسائیت نے سیکولرازم کی راہ اپنائی تھی۔ وہ بتاتا ہے کہ اب مسلم معاشروں میں بھی سماجی و معاشرتی قوانین کے لیے وحی کی رہ نمائی کو بالعموم عوامی زندگی میں لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا، مذہبی علم کو ارزاں باور کیا جاتا ہے، وہ لوگ جو تہذیبی سطح پر مسلمان تھے، عملی طور پر مکمل ’’عقلی‘‘ ہوگئے ہیں۔ سیکولرازم تک لے جانے والا یہی وہ راستہ ہے جو مسلمانوں سے قبل عیسائیت اختیار کرچکی تھی۔رابنسن لکھتا ہے:
For the hundered years preceding the Muslim revival of the late twentieth century, the Islamic World seemed to be following a path of secularization similar to that on which the Western Christian world embarked some centuries before. Law derived from revelation had been increasingly removed from public life; religious knowledge had steadily lost ground in education; more and more Muslims who were Islamic by Culture but made ‘rational’ calculations about their lives — in much the same way as Christians formed in the secular West might to do — had come forward.۱۹؂
کیا کوئی قوم آزادی[freedom] اور ترقی[progress]کو بہ طور قدر[value] اختیار کرلینے کے بعد مذہب[خصوصاً اسلام]سے اپنا رشتہ برقراررکھ سکتی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسلام کا تصور بندگی آزادی کو سلب کرلیتا ہے اور ترقی کا مغربی ماڈل دنیا کو دار الامتحان ماننے کے انکار اور Kingdom of Heavenکے اصرار پر قائم ہے؟ یہ مبحث انتہائی غور و تدبر کا متقاضی ہے ۔ کیا اس کے جواب میں، تمام خطرات و مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے،جذبات میں آکر فقط اتنا کہہ دینا کافی ہوجائے گا کہ ’’مضمون نگار مسلمانوں کو فقرو افلاس میں دھکیلنے کے متمنی اور پتھر کے زمانے میں بھیج دینے کے خواہاں ہیں‘‘؟ اس وقت مسلم امّہ کا اپنی مجموعی دانش سے یہ سوال ہے کہ کیا مسلم تہذیب اس بات کی متحمل ہوسکتی ہے کہ وہ ترقی کی خاطر اپنی اخلاقی، تہذیبی، معاشرتی اور مذہبی اقدار کو قربان کردے؟ کیا مغرب کے لیے اصل خطرہ[threat] مذہب سے غیر مشروط وابستگی میں پنہاں نہیں ہے؟ یہ بات قابل غور ہے کہ مسلمان مغرب سے ترقی کی تحصیل کے بعد مغرب ہی کے لیے ترقی کے میدان میں خطرہ بن جائیں، کیا یہ بات فی الواقع اتنی ہی سادہ ہے؟ جب مسلمان ، اپنے زعم میں، ترقی کی دوڑ میں مغرب سے آگے بڑھ رہے ہوں گے تو مغرب سو رہا ہوگا؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ خطرہ تو اس وقت ہوگا جب دو بنیادی مابعد الطبیعی تصورات [’’خدا مرکزی‘‘ اور ’’انسان مرکزی‘‘] کے مابین معرکہ آرائی الحق اور الخیر کی سطح پر ہو؟کیا ترقی کے مغربی ماڈل کو اختیار کرلینے کے بعد مسلمانوں کے لیے بدیہی طور پر وہی طرز زندگی پر کشش اور بامعنی نہیں ہوگا جو ترقی کا لازمہ ہے اور جس کا عملی اظہار مغرب میں ہورہا ہے؟ اس صورت حال میں تصادم یا ٹکراؤ کا کیا سوال؟ یہاں تو اصل جنگ مادی میدان میں مسابقت[competition] سے عبارت ہے۔ جو جتنا اچھا صارف[consumer] اور آزاد مارکیٹ کی معیشت[free market economy] کو فروغ دینے والا ہوگا وہ زیادہ طاقت ور کہلائے گا۔ کیا یہاں خدا سپردگی، خود فراموشی، توکل، غیبی مددوغیرہ مضحکہ خیز تصورات معلوم نہیں ہوں گے؟کیا یہاں اصل پیمانہ، قدر، فرقان ، برہان، حق، خیر اور سچ صرف اور صرف سرمایہ[capital] نہیں ہوگا؟ کیا فکری اور نظریاتی سطح کی یہ تبدیلی مسلمانوں کو اس قابل چھوڑے گی کہ وہ اسلام کو اس کی اصل صورت اور تعبیر کے ساتھ دنیا میں پورے تحکم اور قوت کے ساتھ غالب اور نافذ کرنے کی کوشش کرسکیں؟ کیا ترقی کا یہ ماڈل غیر اقداری[value neutral]ہے؟ کیا یہ اقدار ایک علیحدہ تہذیب اور اسلوب حیات کی داعی نہیں ہیں؟ کیا ہمارا مضبوط اسلامی اقداری اور خاندانی نظام اس مزعومہ ترقی کے بعد قائم رہ سکے گا؟کیا ہمارے پاس مغرب کی طرح ایسے ادارے [institutions] موجود ہیں جو اخلاقی طور پر بدعنوان اور بگڑے ہوئے معاشرے کو سہارا دے سکیں؟ ہمارا آخری فعال ادارہ جواب تک بہت مضبوط ہے: خاندانی نظام کیا وہ اسprogress اور developmentکی خاطر پاش پاش نہیں ہوجائے گا؟
ترقی اور اسلام: مجموعی مسلم دانش کا ذہنی خلجان:
یہ چند اہم اور قابل غور سوالات ہیں۔ ان سوالات کو جذبات کی سطح پر نہیں مسائل اور درپیش صورت حال کی تفہیم کی غرض سے واقعیت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ امت مسلمہ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ pre-industrialعہد میں جیتے ہوئے post-industrialمعاشرے کے مسائل اور مصائب سے آگہی اور واقفیت رکھتی ہے۔ ان سوالات و اشکالات سے قطع نظر یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ صنعتی انقلاب نے مسلم دانش ورانہ ذہن کو مجموعی طور پر تشکیک کا خوگر بنادیا ہے۔ آج کا دانش ور ذہناً مفلوج معلوم ہوتا ہے۔ اسے اسلام اور ترقی کے مابین تطبیق و تلفیق کی کوئی تسلی بخش راہ نہیں مل رہی۔ یا غالباً ان میں تطبیق کے عدم امکان نے مسلمانوں کو دانش ورانہ سطح پر’’ کیا ہورہاہے‘‘ اور ’’کیا ہونا چاہیے ‘‘کے درمیان stuck کردیا ہے۔ ماریہ سبرٹ کا ترقی کے خواہاں تیسری دنیاکے لوگوں کو دیا گیا مشورہ بہت اہم اور قابل توجہ ہے کہ :
The third world had to develop first before even think about REAL PROGRESS.۲۰؂
اس سلسلے میں مغربی مابعد الطبیعیات و علمیات اور بلا تاویل اسلامی حقائق و نکات پر مسلسل اور سنجیدہ غور و فکر کے بعد امید ہے کسی ایسے نتیجے تک پہنچا جاسکے جو رومانویت اور جذباتیت سے زیادہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہو۔

حواشی
1- Jos233 Maria Sbert, “Progress” in The Development Dictionary: A Guide to Knowledge as Power, [ed., Wolfgang Sachs], London & New Jersey: Zed Book Ltd., 1993, p. 197.
2- Charles Singer, A Short History of Science: to the Nineteenth Century, Oxford: Clarendon Press, 1941, p. 167.
3- Jos233 Maria Sbert, op.cit., 195.
4- Ziauddin Sardar, Explorations in Islamic Science, London: Mansell Pub., 1989, p. 6.
5- Stanford Encyclopedia of Philosophy Online, s.v. “Postmodernism”, accessed Feb, 4, 2014. http://plato.stanford.edu/entries/postmodernism/
6- Herbert Marcuse, One-Dimensional Man, London & New York: Routledge, 1964, p. xxxix.
7- Ziauddin Sardar, Science, Technology and the Development in the Muslim World, London: Croom Helm, 1977, p. 128.
۸- حسین نصر/ مظفر اقبال، ’’اسلام، سائنس اور مسلمان‘‘، مشمولہ اقبالیات، جنوری-مارچ، ۲۰۰۷ء، صفحہ۱۰۔
۹- ایضاً،صفحہ۱۲۔
10-Jos233 Maria Sbert, op.cit., p. 196.
11-Ibid.
۱۲- محمود احمد غازی، ’’مغرب کا فکری و تہذیبی چیلنج اور علما کی ذمے داریاں‘‘ مشمولہ ماہنامہ الشریعہ، مارچ ۲۰۰۵ء، صفحہ۱۲۔
13-Arnold J. Toynbee, Christianity Among the Religions of the World, New York: Charles Scribner’s Sons., 1957, p. 51.
ٹائن بی نے اپنی بعض دیگر تصانیف میں بھی اسی نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
Arnold J. Toynbee, The World and the West, New York: Oxford University Press, 1954, pp. 66-84, pp. 99-100.
Arnold J. Toynbee, Idem, Civilization on Trial, New York: Oxford University Press, 1949, pp. 184-212.
14-Samuel P. Huntington, The Clash of Civilization and the Remarking of World Order, Penguine Books, 1997, p. 74.
۱۵- ملاحظہ کیجیے:
Hamilton Gibb, Modern Trends in Islam, Chicago: Chicago University Press, 1972.
16-Hamilton A.R. Gibb, Studies on The Civilization of Islam, Lahore: Islamic Book Services, 1987, p. 331.
17-“Spiegel Interview with Martin Heidegger,” in Martin Heidegger and National Socialism: Questions and Answers, eds. G252nther Neske and Emil Kettering, trans. Harries Lisa, New York: Paragon House, 1990, p. 60.
۱۸- تفصیل کے لیے دیکھیے:
Milton Viorst, “The Shackles on the Arab Mind”, The Washington Quarterly, Spring 1998, Vol. 2, pp. 168-175.
19-Francis Robinson, “Secularization, Weber and Islam”, in Islam and Muslim History in South Asia, Delhi: Oxford University Press, 2010, p. 122.
20-Jos233 Maria Sbert, op.cit., p. 195.

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password