سرمایہ دارانہ تصورِ ترقی اور مابعدِ نوآبادیاتی معا شرے

طلحہ افتخار
یہ مقالہ سرما یہ دارانہ تصورِ ترقی، جس کو دنیا بل عموم اور ما بعدِنو آبادیاتی معا شروں میں بل خصوص من و عن تسلم کر لیا گیا ہے، کا ایک تنقیدی جائذہ پیش کرے گا۔ سرمایہ داری صرف ایک معاشی نطام نہیں بلکہ ایک ایسا نطامِ حیات ہے جو کہ باقی تمام نطامِ حاے ٗ زندگی کو اپنے اندر زم کرنے، سمولینے کی قابلیت رکھتا ہیا ور ان کو بدل کر سرمایہ دارانہ شکل و سورت میں دھا ل دیتا ہے۔
اس کے علاوہ اس مقالے میں ہم دیکھے گے کہ سرمایہ دارانہ نطام ایک فطری نظام نہیں بلکہ ایک تاریخی نظام ہے جس کی اپنی ایک تاریخ ہے جو کے جدید مغرب کی پیداوار ہے۔ اس نظام کو مغربی آبادکاروں نے نو آبادیاتی معشروں میں متعارف کرایا اور سرمایہ دارانہ نطام غیر محسوس طریقے سے روایتی معاشروں میں منتقل حو گیا۔
نیز اس مقالے میں ہم سرمایہ دارانہ تصورِ شخصیت جو کہ سرمایہ دارانہ تصورِ ترقی کی بنیاد ہے کو بھی تفصلا دیکھے گے۔ سرمایہ دارانہ تصورِ شخصیت وہ مابعدالطبعیاتی بنیاد ہے کہ جس پر موجودہ ترقی کا تصور کھڑا ہوا ہے۔ اس عمل میں ہم Gilles Deleuze اور Gustavo Esteva کی مدد سے یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح سرمایہ دارانہ تصورِترقی کسی تہذیب اور اقداری ڈھانچوں کو Deterritorialize کرتی ہے اور پھر کس طرح اس ہی تہذیب واقداری ڈھانچے کو Reterritorialize کر تی ہے اپنی اقداری روشنی میں۔
جدیدیت کی شروعات ہی اس مفروضے سے ہوئی کہ ’انسان آزاد ہے‘ ۔ ۔ اس بات کو Immanueal Kant اس طرح بیان کرتا ہے کہ Maturity تو ہے ہی یہ کہ اسان اپنے فیصلے اپنی مرضی کی بنیاد پر بغیر کسی Transcendental Authority کی مدد کے لے۔ Kantکا ماننا تھا کہ انسان کو اپنی خود ساخۃ بیڑیاں (مذہبی، خاندانی، معاشرتی، اقداری وغیرہ) توڑنی چاہیں اور یہی آزادی ہے۔ آزادی کا بہتریں اظھار جب ہی ممکن ہے جب وسائل کی بلاتعطل ترسیل کو یقنی بنایا جائے اور لگتا ایسے ہے کہ وسائل کی بلا تعطل ترسیل کو ممکن اور یقنی بنانے کے لیے مغرب نے دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں۔
جو دلیل ہم پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ جب مغرب نے اپنی آبادیاں قائم کی تو انہوں نے وہاں سے صرف وسائل کی ترسیل ممکن نہ بنائی بلکہ ان آبادیوں میں سرمایہ دارانہ تصورِ شخصیت بھی منتقل کیا لہذا اس تصورِ شخصیت سے جو تصورِ ترقی نوآبادیوں میں وجود میں آئی وہ سرمایہ دارانہ تصورِ ترقی ہی ہے۔
سرمایہ دارانہ تصورِ شخصیت اس بات کو فرض کرتی ہے کہ فرد فطری طور پر آزاد ہے کہ فرد اپنا تصورِ خیر کا تعین کر سکتا ہے، فردکو صلاحیت حاصل ہے کہ وہ Truth کو discover کر سکتا ہے اپنی عقل کی مدد سے بغیر کسی ماورائی اور الہی رہنمائی کے۔ عموما اس قسم کا استدلال ہم کو تمام جدید مغربی مفکروں کہاں کم وبیش نطر آئے گا۔ چاہے وہ Descartes ہو، Locke ہو، Hume ہو، Kant، ہو، Husserl یا کوئی اور جدید مفکر۔ جو بات مشترک وہ یہی کہ انسان آزاد ہے اپنے خیر کا تعین کرنے میں۔
Descartes کے لیے Cogito (فرد) کو ہر چیز پر ترجیح حاصل ہے۔ فرد ہے تو کچھ اور ہے، فرد ہے تو ہی خدا ہے، فرد ہے تو ہی کائنات ہے وغیر۔ Descartes کا ’ٰ‘ I ایک ایسا سچ ہے کہ جس پر شک ممکن نہیں، I ایک clear & distinct، Indubitable، سچائی ہے کہ جس پر پوری جدید تہذیب قائم ہے۔ Cogito وہ Foundation ہے کہ جس پر جدید مغرب کی بنیاد رکھی گئی۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ انسان Cosmologial اور Ontological درجہ بندیوں سب سے اوپری و اعلی مقام پر فائز ہوا۔ جدیدیت نے انسان کو ایک مرکزیت مہیا کی، اس مرکزیت کو فلسفے میں Anthropocentricity کہا جاتا ہے اور اس ہی صفت کو سرمایہ دارانہ تصورِ شخصیت کی نمایاں صفت کہا جاسکتا ہے۔
سرمایہ دارانہ شخصیت کی بنیادی Presumption آزادی ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ Kant اپنے مشہور زمانہ مقالہ ’An answer to the question What is Enlightenment‘ میں لکہتا ہے کہ اگر انسانوں کو صر ف آزادی مہیا کر دی جائے تو یہ Modernity ’‘ کو ممکن بنانے کے لے کافی ہو گا، Kant کے لیے آزادی Modernity کی لازمی شرط ہے۔ Kant یہاں تک لکھتا ہے کہ اگر آزادی کا انکار کیا گیا تو یہ انسانیت کا انکار ہو گا، یہ انسانیت کے خلاف جر م و گناہ ہوگا۔
Kant کے لیے آزادی انسان کا وہ بنیادی و پیدائشی حق ہے کہ جس کی بنا پر انسان اپنا تصورِ خیر طے کر سکے بغیر کسی مافوق الفطری ہستی یا مذہب یا معاشرے یا خاندان یا روایات وغیرہ کے بغیر۔
اس کا ماننا ہے کہ اگر انسان اپنے پیدائشی حق کے باوجود اپنا خیر کسی اور کی مدد سے کرے تو یہ ہی Immaturity ہے۔ لہذا Enlightenment وہ تحریک ہے کہ جس کے ذریعے مغرب نے خودساخۃ زنجیروں کو توڑا جس کے ذریعے مغربی انسان۔ جکڑا ہوا تھا۔ یہی Maturity ہے اور انسانیت کی معراج ہے۔ لہذا آزادی سرمایہ دارانہ شخصیت کی مابعدالطبعیاتی بنیاد ہے۔
سرمایہ دارانہ تصورِ شخصیت کی تسکیل میں تحریکِ تنویر کا اہم کردار رہا ہے۔ تحریک ِ تنویر کی دو شاخیں ہیں پہلی German Enlightenment جس کا روح رواں کانٹ تھا جبکہ دوسری شاخ English Enlightenment جس کے روح رواں Adam Smith اور David Ricardo تھے۔
ٓAdam Smith کا خیال ہے کہ انسانوں کی خواہشات لامحدود ہوتی ہیں۔ Smith کا ماننا ہے کہ انسانوں کا یہ عمل کہ وہ زیادہ سے زیادہ کی خواہش کرتا ہے یہ ایک فطری وجائز عمل ہے۔ چونکہ تمام انسان ہی اپنی تمام خواہشات پوری کرنا چہاتے ہیں لہذا جو انسانی رویہ اس سے جنم لیتا ہے اس کو Avarice یا Acquisitiveness (حرص و لالچ) کہا جاتا ہے۔
اب چونکہ تمام انسان ہی خواہشات کی تکمیل میں مگن رہتے ہیں پر دوسری طرف وسائل مجموعی طور پر محدود ہوتے ہیں اس لیے تمام سرمایہ دار ا فرد ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ مخاصمتی تعلق قائم کیے رہتے ہیں۔

خلاصتاً کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ تصورِ شخصیت کی بنیاد و ایمان آزادی (Freedom ( پر ہوتا ہے۔ نیز یہ تصورِ شخصیت Anthropocentric ہے اور یہ تصورِ شخصیت Oscillate کرتی ہے Acquisitiveness اور Competitive تعلقات کے درمیان۔
اس حصے میں ہم Gustavo Esteva کی مدد سے دیکھیں گے کہ Development (ترقی) کے کیا معنی ہیں، اس اصطلاح کی ابتداء کہاں ہوئی اور کیسے اس کا پھیلاؤ عمومی سطح پر ہوا۔ Esteva بتاتا ہے کہ 17 صدی سے پہلے اس اصطلاح کا استعمال علم النباتات میں ہوتا تھا۔ اس وقت Development کو ایک ایسا عمل سمجھا جاتا تھا کہ جس میں جاندار وں کی فطری نشوونما کو ناپا جاتا تھا۔ Esteva اس بات کو ایسے بھی بیان کرتا ہے کہ Darwin بھی Development کو اسی معنوں میں لیتا ہے یہاں تک کہ وہ Development اور Evolution کو Interchangeably استعمال کرتا تھا۔
17 صدی اور 18 صدی کے درمیان اس اصطلاح کا استعمال سماجی تبدلیلیوں کو سمجہنے اور سیاسی دائرہ کار میں بھی ہونے لگا پر جنب Adam Smith نے 19 صدی میں علمِ معاشیات (Economics ( کا انکشاف کیا تو Development اس علم کا خاصہ بن گئی، Economics کا اہم تریں تصور بن گئی۔ اور اب Development کا مطلب صرف لامتناہی بڑھوتریِ پیداوار، لامتناہی صنعت فروغی، لامتناہی بڑھوتریِ صارفیت، لامتناہی بڑھوتریِ فی کس آمدنی یا لامتناہی بڑھوتریِ سرمایہ وغیرہ کے علاوہ کچھ نہیں۔
Esteva کا ماننا ہے کہ 18 صدی کے بعد Development کو ایک ناگزیر و برحق مقصدِ حیات سمجھا جانے لگا ہے جس سے انکار ممکن نہیں، وہ لکھتا ہے ”Development becomes
necessary and inevitable destiny ”
اس طرح بڑھوتریِ ترقی، بڑھوتریِ سرمایہ کے علاوہ کچھ نہیں اور بڑھوتریِ سرمایہ بڑھوتریِ آزادی کے علاوہ کچھ نہیں۔ جتنی ترقی اتنا ہی سرمایہ اور اتنی ہی آازادی۔ ترقی، بڑھوتریِ سرمایہ اور آزادی میں تعلق Direct Proportionality پر مبنی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام صر ف ایک معاشی نظام نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے، ایک ایسا نظام کہ جو دیگر نظامِ ہائے زندگیوں کو اپنے اندر سموتا چلا جا تا ہے، یہ دوسرے نظام ِ زندگیوں کو Colonize کرتا ہے ان کے اقداری ڈھنچوں کو توڑتا اور مسخ کرتاہے اور ان کی جگہ ایک نیا اقداری ڈھانچا قائم کرتا ہے جو کہ سرمایہ دارانہ اقدار سے مناسبت رکھتاہو۔ Gilles Deleuze سرمایہ داری کے اس عمل کو Deterritorialization کا نام دیتا ہے۔
Deleuze کے مطابق Deterritorialization ہی سرمایہ دارانہ نظام کے پنپنے کا ذریعہ ہے۔ Deterritorialization کسی بھی نظام میں ساخت کی سطح پر تبدلی کرتا ہے۔ سرمایہ داری جس بھی جگہ جاتی ہے وہاں کی مروجہ اقداری ڈھنچے کی تخفیفِ ِ اہمیت کرتی ہے اور یہ عمل آہستہ آہستہ، بتدریج وقوع پزیر ہوتا ہے۔
کوئی بھی نظام اقداری خلا میں پنپ نہیں سکتا اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہداری بھی اپنا اقداری ڈھنچا قائم کرتی ہے اور Deleuze سرمایہداری کے اس عمل کو Reterritorialization کا نام دیتا ہے۔ سرمایہ داری Reterritorialization کے عمل کے ذریعے نئی اقداری صفبندیاں قائم کرتی ہے جن کی بنیاد صرف و صرف معاشیات پر مبنی ہوتی ہے۔ Esteva اس بات کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ سرمایہ داری زندگی کے تمام شعبوں کو معاشیات کے زیراثر کر یتی ہے۔ زندگی کا ہر حصہ معاشی پہلو پر پرکھا جانے لگتا ہے اور اس طرح انسان ایک سرمایہ دارانہ شخصیت، سرمایہ دارانہ فرد کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس کا مقصدِحیات لامتناہی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ کچھ نہیں رہے جاتا۔

نوآبادیات، مابعدِنوآبادیاتی معاشروں میں
مغربی آبادکار جہان بھی تجارت کے غرص سے گئیوہاں انھوں نے صرف تجارت نہیں کی بلکہ وہاں سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی بھی متعارف کرائی اور رفتا رفتا سرمایہ داری نے نوآبادی معاشروں میں Deterritorialization َ ْReterritorialization کی اور اس طرح، بغیر کسی سازشی نظریے کے، سرمایہ دارانہ معاشرے قائم کیے۔
مابعدِنوآدیاتی معاشروں کا مسئلہ یہ رہا کہ جو روایتی شناخت ان معاشروں کی تھی، جو ان معاشروں کا خاصہ تھی اور جو ان کو منفرد بناتی تھی، وہ شناخت یہ معاشرے کھو بیٹھے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ روایتی معاشروں میں بنیادی و ایمانی ساخت پر تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ روایتی زبان تبدیل ہو کر معاشی زبان بن گئی ہے، روایتی اخلاقیات کی جگہ کاروباری اخلاقیات آ گئی ہے، اور روایتی علوم غائب ہو کر جدید علوم براجمان ہو گئے ہیں۔ ایسے میں لگتا ایساہے کہ مابعدِنوآبادی معاشرے جدید، سرمایہ دارانہ معاشروں کی ”Xerox Copy“ کے علاوہ کچھ نہیں رہے۔
لہذا کہ مابعدِنوآبادی معاشروں کا فرد ایک دہرے الجھاؤ کا شکار ہے۔ ایک طرف اس کو لگتا ہے کہ وہ آبادکاروں سے آزاد ہو گیا ہے جبکہ یہ فرد دوسری طرف سرمایہ دارانہ تصورِ ترقی کے سحر میں شدید مبتلا ہے۔ منطقی نتیجہ یہی ہے کہ کہ مابعدِنوآبادی فرد ایک ”Continual State of Confusion“ میں مبتلا نظر آتا ہے۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password