سرمایہ دارانہ انفرادیت و شخصیت کا حال

تحریر ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

۔ اسلامی انفرادیت (Islamic Subjectivity)
اس مضمون کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی تفہیم کے لیے چند مطلوب بنیادی مباحث کو مربوط انداز میں پیش کرنا ہے۔ سرمایہ داری یا کسی بھی نظام زندگی پر بحث کرتے وقت مفکرین کا نقطہ ماسکہ اجتماعی زندگی اور اسکے لوازمات کی تشریح و تنقیح رہتی ہے اور وہ انفرادیت جو ان تمام اجتماعی معاملات کو جنم دیتی ہے نظروں سے اوجھل رہتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی زندگی فرد کے تعلقات کے مجموعے کے سواء اور کچھ بھی نہیں (۱)۔ انسانی زندگی ایک مربوط عمل ہے۔ انسان کی سوچ، عمل اور تعلقات میں گہرا ربط ہے۔ عمل اور تعلقات سوچ کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ سوچ کی بنیاد احساس ہے۔ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ان معنوں میں ہے کہ وہ لامحالہ اپنی انفرادی حیثیت میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ خیر اور شر کیا ہیں؟ اس دنیا میں اس کا مقام کیا ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کو کیسے اعمال و افعال اختیار اور کیسے تعلقات استوار کرنے چاہئیں؟ اسی بنیادی انفرادی ذمہ داری کا یہ اظہار ہے کہ ہر شخص اپنی انفرادی موت سے دو چار ہوتا ہے اور اس کو انفرادی طور پر اپنی قبر میں اپنے اعمال کا جواب دینا ہوتا ہے۔ اپنی انفرادیت کے تعین کے لیے ہر شخص اس سوال کا جواب دینے پر مجبور ہے کہ ’میں کون ہوں؟‘ آج کل کے زمانہ میں اس سوال کے دو جوابات مقبول ہیں: (۱) میں مسلمان ہوں ، (۲) میں آزاد ہوں۔ ان میں سے جو جواب بھی دیا جائے گا وہ ہر چند قبل از احساس اور قبل از فکر پر مبنی مفروضات پر منحصر ہوتا ہے۔ اسی چیز کو ’’ایمان‘‘ کہتے ہیں۔ ایمان دلیل اور وجدان پر منحصر نہیں، دلیل اور وجدان ایمان پر منحصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کسی شخص کے ایمان لانے کو معجزہ کہا کرتے تھے (آپ کے دست مبارک پر ہزاروں لوگ ایمان لائے)۔ کوئی شخص محض اپنے احساسات یا اپنی سوچ کی بناء پر ایمان نہیں لاتا۔ نہایت عظیم مفکر ین اور روحانی پیشوا مثلاً ارسطو، گاندھی، ووکانندا، کانٹ، آئن اسٹائن وغیرہ ایمان نہیں لائے کیونکہ ایمان کی دولت اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کے نتیجے میں ملتی ہے۔

امام غزالیؒ المنقذ من الضلال میں فرماتے ہیں کہ علوم شرعی و عقلی کی تفتیش میں جن علوم میں میں نے مہارت حاصل کی اور جن طریقوں کو میں نے اختیار کیا ان سب سے میرے دل میں اللہ کی ربوبیت، نبوت اور یوم آخرت پر ایمان بیٹھ گیا۔ ایمان کے یہ تینوں اصول کسی دلیل خاص سے میرے دل میں راسخ نہیں ہوئے تھے بلکہ ایسے اسباب اور قرائن اور تجربوں سے راسخ ہوئے تھے جن کی تفصیل احاطہ حصر میں نہیں آسکتی۔ مزید فرماتے ہیں کہ جس شخص نے یہ گمان کیا کہ کشف حقیقت مجرد دلائل پر موقوف ہے تو اسنے اللہ کی وسیع رحمت کو نہایت تنگ سمجھا۔ احساس اور فکر کی بنیاد ایمان پر ہوتی ہے۔ اسی چیز کو صوفیاء تصورِ حال سے تعبیر کرتے ہیں۔ جو شخص اسلام پر ایمان لایا اس کے احساسات اور افکار اسی کے ایمان کا پر تو ہوتے ہیں اور اعمال و تعلقات اپنے احساس اور تفکرات ہی کا اظہار ہیں۔ چنانچہ اجتماعی تعلقات فرد کے مخصوص احساسات کا مظہر ہوتے ہیں اورانکا اظہار معاشرے اور ریاست کی دو سطحوں پر ہوتا ہے۔ معاشرہ ان تعلقات کے اجتماع کو کہتے ہیں جو افراد بغیر جبر و اکراہ اپنی انفرادیت کے اظہار کے لیے قائم کرتے ہیں اور چونکہ انفرادیت کا تعین مختلف ہے، کچھ لوگ مسلمان ہیں اور کچھ کافر لہٰذا معاشرے بھی مختلف النوع ہوتے ہیں۔ معاشرہ رضاکارانہ (voluntary) صف بندی سے وقوع پذیر ہوتا ہے یعنی معاشرے میں مختلف ادارے وجود میں آتے ہیں، مثلاً خاندان، مسجد، بازار، محلہ، قبیلہ، برادریاں، مدرسہ، مدینہ، نظامِ شفع وغیرہ۔ ان اداروں کے قیام کی بنیاد تاریخی روایات کا تسلسل ہوتاہے اور ہر ادارہ معاشرتی تسلسل کا مظہر ہوتا ہے۔ وہ انہی اقدار کی غمازی کرتا ہے جو قدیم زمانے سے معتبر تسلیم کیے جاتے ہیں، لیکن جیسے جیسے ان اقدار میں تبدیلی آتی ہے معاشرتی ادارتی تنظیم بھی تغیر پذیر ہو تی ہے۔ مثلاً مسلم معاشرے میں خانقاہی نظام تقریباً مکمل طور پر معطل ہوگیا ہے، بالخصوص بازار کی زندگی پر خانقاہ کا اثر تقریباً ختم ہوگیا اور اس کی جگہ Chamber of Commerce نے لے لی ہے۔ اسی طرح یورپی معاشرے میں خاندان اور برادری کا ادارہ ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ Cohabitation اور NGOs نے لے لی ہے اور اسی کی مماثل تبدیلیاں عبادت و محافل ذکر ونعت کی جگہ Entertainment industry اور فنون لطیفہ وغیرہ کا فروغ ہے۔

اس نوعیت کی تبدیلیاں جبر کی بنیاد پر وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔ کراچی اور لاہور کے تاجروں نے بہ رضا و رغبت بغیر کسی جبر کے خانقا ہوں سے اپنے قدیم تعلقات آہستہ آہستہ منقطع کرلئے ہیں۔ نیویارک کا نوجوان زنا کو نکاح پر ترجیح دیتا ہے کوئی اس کو زنا کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ معاشرتی تغیر (Social Change) کے عمل کی بنیاد اقدار کی تبدیلی ہے جبر نہیں ہے(۲)۔ ہر معاشرے کو ایک نظامِ جبر کی ضرورت ہے، اس نظامِ جبر کوریاست کہتے ہیں۔ ریاست سے مراد افراد کے جبری تعلقات کا مجموعہ ہے اور ریاست معاشرتی اقدار کی بنیاد پر جائز و ناجائز حلال اور حرام کے ان تصورات اور پیمانوں کو نافذ العمل بناتی ہے جن کو معاشرتی سطح پر مقبولیت حاصل ہے یا جن کو معاشرہ برداشت کرنے پر آمادہ ہے۔ ریاست محض نظامِ جبر نہیں بلکہ اقتدار کا وہ نظامِ جبر ہے جس کو عام مقبولیت یا عام برداشت حاصل ہو۔ ریاست مقبول اور برداشت کی جانے والی معاشرتی اقدار کو نافذ العمل بنانے کے لیے جبری صف بندی عمل میں لاتی ہے۔

اس گفتگو سے واضح ہوا کہ انسانی حیات کا اظہار تین سطحوں پر ہوتا ہے:

(۱) انفرادی سطح پر جہاں فرد اپنی ایمانیات کا تعین کرتا ہے اور ان ایمانیات کی بنیاد پر اپنے حال اور مقام کا تعین کرتا ہے۔

(۲) معاشرتی سطح پر جہاں ان اقدار کے فروغ کے لیے جو افراد نے غیر اکراہی طور پر اختیار کی ہیں انکے لئے غیر اکراہی یا رضاکارانہ صف بندی عمل میں لاتے ہیں ۔

(۳) ریاستی سطح پر جہاں جبری مقبول عام یا عام طور پر برداشت کیے جانے والے اقدار کو قانون اور قوت کے ذریعہ نافذ العمل بنایا جاتا ہے ۔

ان تینوں سطحوں کے ارتباط کو ’نظامِ زندگی‘ کہتے ہیں یا اسے ’تہذیب‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہر تہذیب ایک مخصوص انفرادیت، ایک مخصوص معاشرت اور ایک مخصوص ریاست کو فروغ دیتی ہے، اور ہم انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو الگ الگ خانوں کے طور پر تصور نہیں کرسکتے (۳)۔ ایک خاص انفرادیت ایک مخصوص معاشرت اور مخصوص ریاست ہی میں پنپ سکتی ہے، غیر مسلم معاشرے اور ریاست میں اسلامی انفرادیت عام نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے بلا ضرورت شرعی غیر مسلم علاقوں میں سکونت اختیار کرنے سے منع فرمایاہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہئے کہ سرمایہ داری محض کسی ’معاشی نظرئیے ‘ کا ہی نام نہیں، بلکہ ایک نظام زندگی ہے جس کا ایک خاص تصور فرد،معاشرہ اور ریاست ہے اور یہ تینوں تصورات باہم مربوط ہیں جو مل کر مذہب سے متصادم تہذیب وجود میں لاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ عقلیت اور سرمایہ دارانہ عمل معاشی جدوجہد تک محدود نہیں رہ سکتے، آج دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں سرمایہ دارانہ معیشت ترقی کررہی ہو لیکن خاندان تباہ نہ ہو رہے ہوں،زنا عام نہ ہو رہا ہو، ادب اور ثقافت دھوکہ ،غلیظ ترین اور فحش ترین رجحانات کی عکاسی نہ کر رہا ہو، استبداد، ظلم اور جعل سازی عام نہ ہو ۔ سرمایہ داری سے ہماری مراد وہ نظم زندگی ہے جہاں عقلیت اور فیصلوں کی بنیاد آزادی (یعنی حرص و حسد) کا فروغ ہو۔ چنانچہ سرمایہ داری :

فرد کو انسان (عبد) سے ہیومن بینگ (Human being) بنا دیتی ہے ۔
معاشرے کو مذہبی معاشرت سے سول سوسائٹی میں تبدیل کردیتی ہے ۔
ریاست کو خلافت سے ریپبلک (Republic) بنادیتی ہے ۔
سرمایہ داری کی مکمل تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ تصور انفرادیت، معاشرت و ریاست تینوں کا جائزہ لیں۔ البتہ اس مضمون میں ہمارا ہدف صرف تصور انفرادیت کی تفصیل بیان کرنا ہے۔ تصور انفرادیت کی بحث اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ قیام دین کی جدوجہد میں بنیادی حیثیت فرد کی ہے، یعنی ہم فرداً فرداً ہر شخص کو اس کا وہ عہد یاد دلانا چاہتے ہیں جو اس کی روح نے اللہ تعالی سے کیا تھا کہ ’تو ہی ہمارا رب ہے‘(۴)۔ یہ دعوت ہر شخص کی اصلاح اور اسے جنت کا مستحق بنانے کی دعوت ہے۔ ہماری دعوت کی بنیاد یہی ہے کہ دنیا کا ہر شخص اس بات کا مستحق ہے کہ ہم کوشش کریں کہ وہ جنت میں جائے۔ انہی معنی میں اسلامی تحریکات ایک روحانی دعوت دیتی ہیں اور انکی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ دعوت دینے اور قبول کرنے والوں کے حال و میلانات اور قلبی کیفیات تبدیل ہوجائیں۔ اس مضمون میں ہماری کوشش ہوگی کہ اس انفرادیت و شخصیت کے خدوخال بیان کریں جس کے تعلقات کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظم اجتماعی نمو پزیر ہوتا ہے۔ تصور انفرادیت کی تفہیم کے ضمن یاد رکھنا چاہئے کہ تعیین انفرادیت کی بنیاد احساس پر قائم ہوتی ہے اور یہی بنیادی نکتہ سمجھنے سے تصوف کی ضرورت و اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اس مرکزی بحث کے بعد ہم سرمایہ دارانہ شخصیت کا حال بیان کریں گے اور پھر تعمیر شخصیت کے ضمن میں اصلاح اسلامی کے کام کی نوعیت کو بیان کریں گے۔ وما توفیقی الا باللہ

۱۔ تعیین و تعمیر انفرادیت میں احساس کی اہمیت
تعمیر شخصیت میں احساس (feelings)کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مغربی معاشرتی علوم اور فلسفہ احساس کی عقلی اور مادی تشریح اور تعبیر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اسی نہج علم کی پیروی کرتے ہوئے ماہرین نفسیات نے احساس کے عقلی و مادی تجزئیے کے لیے متعدد سائنسی طریقے مرتب کیے ہیں۔ مغربی علوم کا مرکزی دھارا (۵) احساس سے بالاتر ہو کر حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کا دعوی کرتا ہے اور احساس کو علم کا ذریعہ تصور نہیں کرتا بلکہ اس کے مطابق احساسات اور میلانات عقلی تحقیق اور جستجو کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ اسی لئے مغربی عقلیت و علمیت یہ عمومی دعوی کرتی ہے کہ تمام ایمانیات، احساسات و جذبات سے اوپر اٹھ کر ہی انسان حقیقت کا معروضی (objective)مطالعہ اور مشاہدہ کرسکتا ہے (۶) ۔ اس کے برعکس علوم اسلامی میں احساس کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ احساس کا سرچشمہ قلب ہے اور آقائے دوعالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جان لو کہ انسانی جسم میں خون کا ایک لوتھڑا ہے کہ وہ اگر درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہوجائے اور اگر فساد کا شکار ہوجائے تو سارا جسم فساد کا شکار ہوجائے، آگاہ رہو کہ وہ قلب ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ اسلامی عقلیت قلب کی فوقیت کو تسلیم کرتی ہے۔ قرآن مجید حضورﷺ کے قلب پر اتارا گیا اور صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے قلوب میں محفوظ رہا۔ یاد رہنا چاہئے اسلامی دعوت بنیادی طور پر قلب کو مخاطب کرتی ہے اور اسی لئے اہل دل ہی دعوت اسلامی کے فطری امام ہیں ۔ امام غزالیؒ نے فرمایا: ’معرفت کی صلاحیت و استعداد قلب کو عطا کی گئی ہے اور اوامرو نواہی کا مخاطب قلب ہے‘۔ امام صاحبؒ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ قلب سے مراد ایک روحانی لطیفہ ہے جسکا جسمانی قلب سے تعلق ہے اور یہی لطیفہ مدرک (یعنی ادراک کرنے والا) بھی ہے اور عالم بھی۔ یہاں ہم یہ دکھانے کی کوشش کریں گے کہ احساسات کیونکر حصول علم اور تعمیر انفرادیت میں بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں نیز یہ کہ عقلیت دماغی (Reason of the mind) یعنی خرد درحقیقت قلبی عقلیت (Reason of the heart) کے تابع ہے۔

قلب و عقل کے اس تعلق کو سمجھنے کے لیے جاننا چاہئے کہ احساسات عقل سے ما قبل ہوتے ہیں اور انکے بغیر دماغی عقل فیصلہ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ ایک شخص کسی موذی حیوان مثلاً شیر کے سامنے جو بھی رویہ اختیار کرتا ہے وہ مخصوص احساسات کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً عقل شیر سے بچنے کی کوئی تدبیر تب سجھاتی ہے کہ جب فرد کے نفس میں خوف کی کیفیت پیدا ہو، لڑنے کا طریقہ کار تب سکھاتی ہے جب نفس میں بہادری کا احساس اجاگر ہو وغیرہ۔ الغرض اگر احساسات کو فرد سے منہا کردیا جائے تو اس کی زندگی انتشار کا شکار ہوکررہ جائے گی اور وہ کبھی یہ فیصلہ نہ کرسکے گا کہ مخصوص حالات میں اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ چنانچہ احساسات فرد کے لیے یہ فیصلہ کرنا ممکن بناتے ہیں کہ مخصوص حالات میں لامتناہی ممکنہ افعال میں سے دماغی عقل کو کن افعال کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہاں سے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ دماغی عقل قلبی عقل کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہے (۷) ۔ درحقیقت احساسات ہی وہ شے ہیں جسے دماغی عقل بطور ’معیار عقل ‘ پہچانتی ہے، دوسرے لفظوں میں احساسات بذات خود معقول یا غیر معقول ہوتے ہیں۔ درج ذیل دو مثالوں پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوسکے گی:

(۱) کسی روز تین بجے زید کے ساتھ آپکی ملاقات ہونا طے ہے۔ فرض کریں آپ تین منٹ تاخیر سے پہنچنے پر معذرت پیش کرتے ہیں مگر زید آگ بگولہ ہوکر آپ پر بری طرح برس پڑتا ہے اور آپ کو غیر ذمہ دار اور سخت سست کہتا ہے

(۲) زید کو فون آتا ہے کہ اس کے والد سخت زخمی حالت میں ہسپتا ل لائے گئے ہیں اور اس وقت وہ ICU میں داخل ہیں۔ فرض کریں زید کہتا ہے ’اوہو، آج تو مجھے کرکٹ میچ دیکھنے جانا تھا، چلو اب ہسپتال ہی چلتے ہیں‘

دونوں مثالوں میں زید کے رویے کو ’غیر معقولیت ‘ سے تعبیر کیا جائے گا۔ پہلی مثال میں اس کا رویہ غیر معقول ہے کیونکہ اسنے ’مطلوبہ مقدار سے زیادہ‘ جذبات کا اظہار کیا جبکہ دوسری مثال میں ’مطلوبہ مقدار سے کم ‘ ۔ دونوں صورتوں میں اس کا رویہ معقول تب کہا جائے گا جب وہ ’ مناسب مقدار میں مناسب جذبے ‘ کا اظہار کرے۔ دوسرے لفظوں میں کسی مخصوص حالات میں جس رویے کو معقول کہا جاتا ہے وہ مخصوص احساسات یعنی قلبی عقلیت کا ہی اظہار ہوتا ہے۔

اب یہ جاننا چاہئے کہ عقل اور قلب جس طریقے سے کسی چیز کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں ان میں بنیادی نوعیت کا فرق ہے اور دعوت کے کام کو سمجھنے کے لیے ان دونوں کا فرق سمجھنا نہایت اہم ہے۔ احساس قلبی عقلیت کے اظہار کا ذریعہ ہے اور یہ حقیقت کے مکمل ، فوری اور بلاواسطہ ادراک کا وسیلہ ہیں۔ خرد مشاہدے (observation)کے ذریعے علم حاصل کرتی ہے جبکہ قلب و احساس کا ذریعہ علم شرکت (participation)ہے۔ قلب کسی چیز کا علم اسے اپنا کر حاصل کرتا ہے۔ مشاہدے میں کوشش یہ ہوتی ہے کہ مشاہد (observer)خود کو مشہود (observed) سے جتنا دور کرسکے اتنا بہتر ہے، نیز مشاہد اور مشہود کے درمیان جتنے تعلقات ہیں ان سے صرف نظر کیا جا سکے۔ اس کے برعکس احساسات کے ذریعے جو علم حاصل ہوتا ہے اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ مشاہد و مشہود ایک دوسرے کے درمیان کس قسم کا تعلق قائم کرپاتے ہیں اور کس قدر ایک دوسرے کے وجود میں شرکت اختیار کرسکتے ہیں۔ مشاہد حقیقت کو ایک خارجی شے (reality as an external observer) کے طور پر پہچاننے کی کوشش کرتا ہے جبکہ احساس کے ذریعے ہم کسی شے میں شرکت کرکے اس کی حقیقت کا ادراک حاصل کرتے ہیں۔ مشاہدے کے ذریعے کسی شے کی حقیقت کی وہ داخلی بصیرت (insight) حاصل نہیں ہوسکتی جو اسمیں شرکت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ایک ہی شے کے بارے میں ہمارا ادراک حقیقت شرکت سے پہلے اور بعد یکسر مختلف ہوا کرتا ہے۔ کسی اجنبی شخص کی موت کا معنی موت کی اس حقیقت سے یکسر مختلف ہواکرتا ہے کہ جب کوئی اپنا عزیز فوت ہوتا ہے جسکی وجہ صرف یہ ہے کہ اپنے عزیز رشتہ دار کی ہستی میں ہم احساس محبت کے ذریعے شرکت کرتے ہیں۔ ایک شخص کسی قریبی عزیز کے مر نے کے بعد کس کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے اس کا ادراک بطور مشاہد ممکن نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے اس کی ذات میں شرکت کرنا ضروری ہے۔ گویا کسی کیفیت میں مبتلا ہونے سے پہلے اور اس میں شرکت کے بعد ہم دو مختلف چیزوں کا ادراک حاصل کرتے ہیں اور یہ تبدیلی در حقیقت ہمارے ان احساسات کی مرہون منت ہوتی ہے جسکے ذریعے ہم اس شے سے اپنا تعلق قائم کرتے ہیں۔ جب ہم کسی کو دیکھتے ہیں تو ہم مشاہدہ کرتے ہیں لیکن جب ہم کسی کے لیے محسوس کرتے ہیں تو ہم اس کا مشاہدہ نہیں کرتے بلکہ ہم اس سے یا تو محبت کرتے ہیں یا نفرت کرتے ہیں۔ اگر ہم لاتعلق ہیں تو کسی کے لیے محسوس نہیں کرتے بلکہ صرف مشاہدہوتے ہیں۔ جذبات کے ذریعے کلی مشاہدہ صرف ان معنوں میں نہیں ہوتا کہ ہم اس کو سمجھ لیتے ہیں بلکہ اس چیز سے ہمیں اپنا تعلق سمجھ میں آجاتا ہے اور وہ ہماری ہستی کو مکمل کرنے میں ایک اہم جزو کی حیثیت حاصل کرلیتی ہے۔ چنانچہ احساسات یہ طے کرتے ہیں کہ مخصوص حالات میں ہم خود کو کیسے پاتے ہیں (how do we find ourselves in a given situation) اور کسی شے کے بارے میں میری بصیرت کا انحصار اسی شے پر ہے کہ اس شے کے ساتھ میں خود کو کیسا پاتا ہوں یعنی میرا اس کے ساتھ کیسا تعلق ہے۔ جب ہم کسی کے لیے محسوس کرتے ہیں تو من و تو کے فاصلے عبور ہوتے ہیں اور ہمارے اور اس کے درمیان تعلق قائم ہوکر ایک ہستی (shared-subjectivity) وجود میں آتی ہے جس میں وہ اور ہم بیک وقت شریک ہوتے ہیں اور اس شرکت کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔ علمیاتی (epistemologically) طور پر وہ علم جو شرکت کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے وہ اس علم سے بالکل مختلف ہے جو ہم مشاہدے کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ شرکت کے ذریعے حاصل کردہ علم مقدم اور بنیادی ہے۔

چنانچہ عقلیت قلبی اور خرد میں یہی بنیادی فرق ہے۔ خرد آہستہ آہستہ ، قدم بقدم ، جزواً جزواً حقیقت کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ اطلاع اور مشاہدے کی بنیاد پر بتدریج معلومات کو جمع کرکے ان سے منطقی نتائج اخذ کرتی ہے اور اپنی اس کوشش میں کلی حقیقت کو اجزاء میں تحلیل کرکے سمجھنے کی نامکمل سعی کرتی ہے۔ اس کے برعکس احساس کے ذریعے ان بنیادی معروضات کا براہ راست اور کلی مشاہدہ ممکن ہوپاتا ہے جو دماغی عقلیت کی رسائی سے پرے ہیں۔ جس شخص کے احساسات پاک ہوں گے اس کا حال درست ہوگا اور جس کا حال درست ہوگا وہ ان ماورائی حقائق تک وجدانی (intuitive) رسائی حاصل کرسکتا ہے جو یا تو خرد کی دسترس سے کلیتاً باہر ہیں یا ان کے قریب پہنچنے کے لیے دماغی عقلی مباحث نہایت پیچیدہ اور عمیق ہیں اور مکمل تیقن کے ساتھ کبھی ان ما بعدالطبعیاتی حقائق کا اثبات نہیں کرسکتے۔ مثلاً خدا کے وجود کی کوئی بھی ایسی دلیل نہیں جسکو دماغی عقلیت کی بنیاد پر رد نہ کیا جاسکتاہو۔ اس کے برعکس جس وقت نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے سامنے دعوت پیش کی تو آپؓ نے اسے یوں قبول کیا گویا وہ اس کے منتظر تھے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی آپؓ کی قلبی کیفیت نہایت پاکیزہ تھی۔ صدیق اکبرؓ نے جن احساسات کی بنیاد پر اپنی دماغی عقل کو استعمال کیا وہ انکی قلبی طہارت کے غماز ہیں اور ابوجہل نے جن جذبات کی بنیاد پر حضور پر نورﷺ کی دعوت کو مٹانے کے لیے اپنی دماغی عقلیت کو استعمال کیا وہ اس کی قلبی کثافت کے عکاس ہیں۔ قبل از اسلام بیشتر صحابہؓ اسی حال میں تھے جس میں ابوجہل تھا لیکن صحابہؓ کے حال بدل گئے مگر ابوجہل کی قلبی کیفیات نہ بدلیں، اس کی دماغی عقلیت اس کے کافر دل کے تابع رہی تاآنکہ وہ جہنم واصل ہوگیا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ لوگ ایمان دل میں تبدیلی کی وجہ سے لاتے ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ فرمایا کرتے کہ جب کوئی شخص صدق دل سے ایمان لاتا ہے تو معجزہ رونما ہوتا ہے (۸)۔ چونکہ ایمان دل کے بدلنے کا متقاضی ہے اس لئے احساسات کو پاک کرنا اور اس کے ذریعے لوگوں کے حال کو بدلنا دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں کے لیے اشد ضروری ہے۔ حال یعنی احساسات کی دستگی کے بغیر دماغی عقلیت کو اسلامی خطوط پر پروان چڑھانا ناممکن ہے۔

احساس کو سمجھنے کے لیے تعلق کا استوار کرنا لازم ہے۔ مادی تغیرات کا مشاہدہ صرف خارج سے ممکن ہے جیسے ایک ڈاکٹر ایک مریض کے جسم کا مطالعہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر مریض کے جذبات و احساسات سے جتنا دور اور لاتعلق ہوگا اس کی تشخیص اتنی ہی سائنسی اور معروضی سمجھی جاتی ہے (۹)۔ لیکن اگر ڈاکٹر مریض کے احساسات کو سمجھنا چاہتا ہے تو خارجی مشاہدہ کافی نہ ہوگا، اسے مریض سے ہمدردی اور انسیت کا ایک ایسا تعلق پیدا کرنا ہوگا جسکے نتیجے میں ڈاکٹر مریض کی زندگی پر اثر انداز ہونے کے قابل ہوجائے گا۔ جن ہستیوں میں ایسے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں وہ ایک دوسرے کے وجود میں شرکت کرلیتی ہیں۔ دماغی عقلیت محض اجسام کا مشاہدہ کرسکتی ہے، اس کے ذریعے کسی کے احساسات کا ادراک ممکن نہیں ہے۔ احساسات کے ادراک کے لیے غیر کو اپنانا ہوگا اور انہیں سمجھنے کے لیے خارجی سطح سے اوپر اٹھ کر روحانی تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ اس روحانی تعلق کو محبت کہتے ہیں جسکا مطلب غیر کی ذات کو اسطرح اپنا لینا ہے کہ اس کی خوشی و غم اپنے وجود کا حصہ بن جائے۔ محبت کرنے والوں کے وجود بلاشبہ جدا ہوتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کے وجود میں شرکت اختیار کرکے مشترکہ ہستی قائم کرتے ہیں (۱۰) ۔ خارجی مشاہدے کے ذریعے احساسات کا ادراک ممکن نہیں اس کے لئے شرکت ناگزیر ہے جسکی بنیاد یا محبت ہوتی ہے اور یا نفرت۔ نفرت کرنے والا شاہد مشہود کے وجود کو تباہ کرتا ہے جبکہ محبت کرنے والا شاہد اسے نمو بخشتا ہے۔ احساسات کے ذریعے حقائق کا داخلی مطالعہ ممکن ہوپاتا ہے اور ہم حقائق تک رسائی وجود میں شریک ہوکر حاصل کرتے ہیں۔ اسی کیفیت کو قرآن مجید میں ’ادخلوا‘ (۱۱) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی اسلام کو محض خارجی طور پر سمجھنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اسلام میں داخل ہونا ضروری ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کے لیے انسان کے افعال اور احساسات (یعنی حال) وہ ہونے چاہئیں جو اسکو کائنات کے اساسی حقائق تک رسائی کے قابل بناسکیں۔ اگر وہ احساسات پیدا نہ ہوں تو سالہا سال کے مطالعے اور مشاہدے کے باوجود فرد محض اسلام کا مداح بن سکے گا لیکن اس میں داخل نہ ہوسکے گا، جیسا کہ دور حاضر میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا حال ہے کہ وہ اسلام کو پسند تو کرتے ہیں اور اس کے حق میں عقلی دلائل بھی دیتے ہیں مگر اسمیں داخل نہیں ہوتے۔

پس واضح رہنا چاہئے کہ احساس کی پرورش کے لیے تعلقات کا قیام و تسلسل نہایت ضروری ہے۔ تصوف سے فیض کسی شیخ کی توجہ اور تصرف فی الذات کے بغیر ممکن نہیں ہے، جب تک پیر ومرید اپنی ذاتی انفرادیت کوبرقرار رکھتے ہوئے وجود میں شریک نہ ہوں وہ احساسات مرتب نہیں ہو سکتے جو تصوف کو دخول اسلام کا ذریعہ بنادیں (۱۲) ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ افراد جو صوفی تعلیمات و کردار کا محض خارجی مطالعہ کرتے ہیں اور انکو محسوس نہیں کرتے انکے ذریعے اسلام میں داخل نہیں ہوپاتے۔ امام غزالیؒ المنقذ من الضلال میں فرماتے ہیں کہ طریقہ تصوف کی خاص الخاص باتیں سیکھنے سے نہیں آسکتیں بلکہ وہ درجہ حال و تبدیلی صفات سے پیدا ہوتی ہیں۔ کس قدر فرق ہے ان دوشخصوں میں جن میں سے ایک صحت و شکم سیری اور ان کے اسباب و شرائط کو جانتا ہے اور دوسرا فی الواقع تندرست اور شکم سیر ہے۔ جو شخص صحت مند ہے تعریف صحت اور اس کے علم سے ناواقف ہے وہ خود حالت صحت میں ہے لیکن اسے علم نہیں، دوسرا شخص صحت مند نہیں ہے مگر وہ اسباب صحت سے خوب واقف ہے۔ طبیب حالت مرض میں گو تعریف صحت ، اس کے اسباب اور اس کی دوائیں جانتا ہے مگر صحت سے محروم ہے۔ اسی طرح اس بات میں کہ تجھے حقیقت زہد اور اس کے شرائط و اسباب کا علم حاصل ہو جائے اور اس بات میں کہ تیرا حال عین زہد بن جائے اور نفس دنیا سے ذہول ہوجائے بہت فرق ہے۔ غرض صوفیاء صاحب حال ہوتے ہیں نہ کہ صاحب قال۔

اب تک کی بحث سے یہ نکتہ واضح ہوجانا چاہئے کہ ادراک حقیقت میں انسان کے احساسات یعنی اس کے حال کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ احساس اسی چیز کا نام ہے کہ ہم خود کو اس دنیا میں کس حال میں پاتے ہیں (۱۳) ۔ ’تمہارا حال کیا ہے؟‘ کا معنی یہی ہے کہ تمہارے احساسات کی کیفیت کیا ہے، تم کن خواہشات کے قابو میں ہووغیرہ ۔ احساسات کائنات میں شرکت کا ذریعہ ہیں، اور جس طریقے سے ہم کائنات میں شریک ہوتے ہیں وہ اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ ہمارا مشاہدہ کیا ہے بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمارا حال کیا ہے۔ ایک مسلمان اور سائنسدان کے نزدیک زلزلے کی معنویت میں جوفرق ہے وہ انکے مشاہدے کے نہیں بلکہ حال میں فرق کی بناء پر ہوتا ہے (مسلمان کو زلزلہ خدائی عذاب یا تنبیہ دکھائی دیتا ہے جبکہ سائنسدان کو انسانی آزادی کی حد، مسلمان کی عقلیت زلزلے سے توبہ و اصلاح کا سبق سیکھتی ہے جبکہ سائنسدان کی عقلیت زلزلہ پروف گھر بنانے کا)۔ چنانچہ حال اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس کائنات کے بارے میں ہماری بنیادی بصیرت (insight)کیا ہے۔ گویا حال ہمارے احساسات کی خاص ترتیب اور کیفیت (quality) کا آئینہ دار ہوتا ہے، جس قسم کی ہماری کیفیات اور احساس ہوں گے ویسا ہی ہمارا حال ہوگا۔ چونکہ مومن، کافر اور فاسق کے نفوس کی حالت جدا جدا ہوگی اس لئے انکا حال یعنی دنیا سے انکا تعلق بھی جدا ہوگا۔

۱۔ مومن اطمینان کی حالت میں ہوگا، وہ اپنے رب کے تمام فیصلوں سے راضی ہوگا اور اس کی رضا کی جستجو میں ہوگا۔ وہ صابر اور شاکر ہوگا ۔

۲۔ کافر اضطراب کی حالت میں ہوگا۔ وہ خود کو قدرت کے جبر سے مغلوب تصور کرے گا۔ وہ شہوت اور غضب کے ذریعے اس قدرتی نظام میں فساد پھیلاکر اپنی خدائی قائم کرنے کی پیہم جستجو کرے گا ۔

۳۔ فاسق گو مگو کی کیفیت میں ہوگا۔ اس پر کبھی ایمانی جذبات غالب ہوں گے اور کبھی کافرانہ۔ اگر کافر یا فاسق کو مومن کی توجہ میسر آجائے اور وہ انکے ساتھ گہرے تعلقات استوار کرے (یعنی انکی ذات میں تصرف کرے) تو عین ممکن ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے انکا حال بدل جائے ۔

جس طرح ان تینوں کے حال میں فرق ہے اسی طرح انکے مقام بھی مختلف ہیں:

۱۔ مومن کا مقام عبدیت کاہے۔ مومن کو اللہ نے خلافت فی الارض سے سرفراز فرمایا ہے ۔

۲۔ کافر کا مقام باغی و سرکش کا ہے۔ وہ زمین میں فتنہ و فساد برپا کرتا اور اسے قائم رکھتا ہے ۔

۳۔ فاسق ایک گستاخ اور حکم ٹالنے والا ملازم ہے۔ وہ اللہ کو اپنا مالک تصور کرتا ہے اور اپنی عبدیت کا انکار نہیں کرتا لیکن مالک کے حکم کو بجا لانے سے جی چراتا ہے اور گاہے بگاہے اپنے نفس کی بندگی بھی کرتا ہے ۔

واضح ہوا کہ مومن و کافر اپنے زمانی و مکانی حال اور مقام کو احساس کی بنیاد پر متعین کرتے ہیں۔ مغربی عقلیت کا یہ دعوی کہ مابعد الطبعیاتی حقائق تک خرد کے ذریعے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے ایک باطل اور جھوٹا دعوی ہے۔ مغربی فلسفے کے پاس ایسی کوئی دلیل اور سائنس کے پاس ایساکوئی مشاہدہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر وجہ تخلیق کائنات اور کائنات میں انسان کے مقام کا تعین کیا جا سکے۔ ادراک حقیقت کا واحد معتبر ذریعہ تعلیمات انبیاء پر ایمان لانا اور ان کے مطابق احساسات کی تطہیر کرنا ہے جس کے بعد ہی ان حقائق تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔

۲۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت (Capitalist Subjectivity)
اب ہم دیکھیں گے کہ سرمایہ دارانہ یعنی موجودہ مغربی تہذیب کا عام باشندہ عقائد اور حال کے فساد کا شکار ہے۔ پہلی صدی عیسوی کے آخر تک بیشتر عیسائیوں نے ان عقائد کے ایک حصے کو رد کردیا جنکی تبلیغ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمائی اور جنہیں انکے حواریوںؓ نے قبول کیا تھا۔ دوسری سے چودھویں صدی عیسوی تک کی مغربی عیسائیت حضرت مسیح علیہ السلام اور یونانی افکار کا ایک مرکب بن گئی تھی۔ تحریک نشاۃ ثانیہ اور تحریک اصلاح مذہب (Renaissance and Reformation) نے مسیحی عقائد کو تقریباً مکمل طور پر رد کردیا اور یونانی عقائد و افکار کی ایک مسیحی تشریح پیش کی۔ انقلاب فرانس کے بعد اس ظاہری نمائشی عیسائی ملمع کاری کو بھی ترک کردیا گیا (۱۴) اور ہیوم جیسے فلسفیوں نے دہریت کے عقائد کی وکالت کی جو فی العمل یورپی عوام پر اثر انداز ہوئی۔ یورپی عوام کافر تو ہمیشہ سے تھے لیکن مسیحی تعلیمات کے زیر اثر قرون وسطی میں وہ بہیمیت اور دہریت سے قدرے محفوظ رہے اور ان میں عبدیت کا احساس موجود رہا گو کہ یہ احساس صرف مذہبی امور تک ہی محدود تھا۔ اٹھارویں صدی کے آخر تک یہ احساس نہایت مجروح ہوگیا اور ہیوم اور کانٹ کے فلسفوں نے عبدیت کو بے دخل کرکے آزادی یعنی بغاوت (۱۵) کو یورپی عوام کا اساسی عقیدہ اور احساس بنا دیا۔ یوں ایک عام یورپی کا حال اور مقام تبدیل ہوگیا۔ اس کی زندگی میں اضطرار (frustration / anxiety) نے اطمینان کی جگہ لے لی اور وہ عبدیت کے مقام سے گر کر مذہبی دائرے میں بھی خدا کا باغی بن گیا۔ اس مراجعت کی وجہ یہ تھی کہ ایک عام یورپی کانٹ اور ہیوم وغیرہ کے فلسفوں پر اسی طرح ایمان لے آیا جس طرح ایک عیسائی انجیل پر ایمان رکھتا ہے(۱۶)۔ واضح رہنا چاہئے کہ کانٹ اور ہیوم کے فلسفوں کے ما بعد الطبعیاتی مفروضے بھی ان کے احساسات پر نہ کہ کسی دماغی عقلیت کے فراہم کردہ شواہد اور دلائل پر قائم تھے۔

سرمایہ دارانہ شخصیت کی اساسی اقدار: آزادی، مساوات اور ترقی
الحاد پرستی پر مبنی مغربی فلسفے کے مرکزی دھارے یعنی تحریک تنویر (Enlightenment) کا کلیدی تصور “Humanity” ہے۔ “Humanity” کا ترجمہ ’’انسانیت‘‘ کرنا غلط ہے۔ ’’انسانیت‘‘ کا درست انگریزی ترجمہ “Mankind” ہے۔ یہی لفظ انسانی اجتماعیت کے لیے انگریزی زبان میں ۱۸ ویں صدی سے قبل رائج تھا۔ “Humanity” کا تصور ’’انسانیت‘‘ کے تصور کی رد ہے۔ Humanity انسانیت کے تصور کا ان معنوں میں رد ہے کہ human being عبدیت اور تخلیقیت کا اصولاً اور عملاً رد ہے۔ Kant کے مطابق human being کا بنیادی وصف اور اس کی اصل “autonomy” یعنی خود ارادیت اور خود تخلیقیت ہے۔ انسان اپنے رب کے ارادے کا مطیع ہوتا ہے جبکہ human being خود اپنا رب ہوتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے اسے کر گزرنے کا مکلف سمجھتا ہے۔ چنانچہ تصور humanity نے جس قدر کو فرد کا مقصد وجود قرار دیا وہ تھا آزادی۔ آزادی کس سے ؟ خدا کی بندگی سے۔ آزادی کی طلب گار انفرادیت کیا چاہتی ہے؟ یہ کہ جو چاہنا چاہے چاہ سکنے اور اسے حاصل کرنے کا حق۔ آزادی کا مطلب ہے ارادہ انسانی کے اظہار کے ’حق‘ کو ’خیر‘ پر فوقیت دینا یعنی خیروشر کا تعین کرنے کا مساوی حق ہر انسان کو ہونا چاہئے ما ورائے اس سے کہ انسان اس حق کو استعمال کرکے اپنے لئے خیر وشر کا کونسا پیمانہ طے کرتا ہے کیونکہ اصل خیر یہی ہے کہ انسان خود خیر وشر طے کرنے کا مکلف و مجاز ہو ۔ چنانچہ فرد اپنی ترجیحات کی جو بھی ترتیب مرتب کرے گا وہی اسکے لئے خیر ہوگا۔ اگر ہنری پتے گننے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے تو یہی اسکے لئے خیر ہوگا، اگر ابرار گلوکار بننا چاہتا ہے تو یہی اسکا خیر ہوگا اور اگر عبداللہ مسجد کا امام بننا چاہتا ہے تو یہ اسکا خیر ہوگا۔ الغرض اصل بات یہ نہیں کہ وہ اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرتا ہے بلکہ اصل خیر یہ ہے کہ وہ اپنے لئے خیر وشر طے کرنے کا حق استعمال کرنے میں آزاد ہو۔ دوسرے لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے choice of choice (جو چاہنا چاہوں چاہ سکنے کا حق)، یعنی کوئی عمل فی نفسہ اچھا یا برا نہیں اور نہ ہی ہیومن کے ارادے کے علاوہ کوئی ایسا پیمانہ ہے جسکے ذریعے کسی عمل یا شے کی قدر (value)متعین کی جاسکے، human being معیارات خیر وشر خود متعین کرتا ہے۔

Kant کے مطابق خیر و شر کے تعین کے لیے human being کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ کیا وہ عمل صفت آفاقیت (Universalisation) کا متحمل ہوسکتا ہے یا نہیں، یعنی کیا تمام افراد کو اس عمل کی اجازت دینے کے بعد بھی اس عمل کو کرنا ممکن ہوگا یا نہیں؟ اس اصول کے مطابق ایک فرد کا ہر وہ فعل اور خواہش قانوناًجائز ہے جسے وہ خواہشات میں ٹکراؤ پیدا کیے بغیر تمام انسانوں کو کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہوسکتا ہے۔ کانٹ کے اصول کی طرح نظریہ افادیت (Utilitarianism) نے بھی قدر کے تعین کا ایک پیمانہ پیش کیا ہے اور وہ ہے شدت لذت (Intensity of Pleasure) ۔ مثلاً اگر ہنری زنا کرنے سے زیادہ اور کتاب پڑھنے سے کم لذت حاصل کرتا ہے تو وہ زنا کو بدرجہ کتاب زیادہ قدر دے گا لیکن اسے بش کا یہ حق تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ کتاب پڑھنے سے حاصل شدہ لذت کو زنا سے حاصل شدہ لذت کے مقابلہ میں زیادہ قدر دے۔ تعین قدر کے ان دونوں تصورات میں human being آزاد ہے کہ وہ قدر کو اپنے ارادہ کے مطابق متعین کرے، لیکن قدر کا تعین اس طریقہ سے کیا جائے گا کہ ہر human beingکو قدر کا تعین اپنے ارادے کے مطابق کرنے کا اختیار حاصل ہو۔

واضح ہوا کہ Humanist تصورِ انفرادیت آزادی کے بعد جس قدر کو مرکزی اہمیت دیتی ہے وہ ہے مساوات (Equality) ، یعنی یہ ماننا کہ چونکہ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے قدر کا جو پیمانہ چاہے طے کرلے، لہٰذا ہر شخص کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ دوسروں کے اس مساوی حق کو تسلیم کرے کہ وہ بھی اپنی زندگی میں خیر اور شر کا جو پیمانہ چاہیں طے کرلیں اور اس با ت کو مانے کہ خیر و شر کے تمام معیارات مساوی (Equal)ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص کے تعین قدر کی ترتیب کو یکساں اہمیت دی جائے اور کسی بھی فرد کے معیار خیر وشر اور اقداری ترجیحات کی ترتیب کو کسی دوسرے کی ترتیب پر فوقیت نہیں دی جانی چاہئے۔ پس خود ارادیت اور خود تخلیقیت (autonomy) کا ہر human being یکساں مکلف ہے اور سرمایہ دارانہ شخصیت کی تعمیر کے لیے صرف آزادی کافی نہیں بلکہ مساوی آزادی (equal freedom) کوتسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ آزادی کچھ نہیں بلکہ یہ عدم محض (empty space OR nothingness) ہے، یعنی یہ صرف اس ’صلاحیت ‘ کا نام ہے جو مجھے میری ’ہر چاہت‘ حاصل کرسکنے کا مکلف بنا دے، ماورائے اس سے کہ وہ چاہت کیا ہے۔ ہیومن یا سرمایہ دارانہ انفرادیت کیا چاہتی ہے؟ یہ کہ ’میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکنے کا حق ‘ (preference for preference itself) نہ کہ کوئی مخصوص چاہت ، کیونکہ جونہی میں کسی مخصوص چاہت کو اپنی ذات کا محور و مقصد بناتا ہوں آزادی ختم ہوجاتی ہے جسے یوں بیان کرتے ہیں کہ “his self can possess ends but cannot be constituted by them” ۔ جمہوریت سرمایہ دارانہ انفرادیت کے سیاسی اظہار کا نام ہے جسکا مقصد ایسی ریاستی صف بندی فراہم کرنا ہے جسکے ذریعے ہر شخص کے لئے یہ ممکن ہوسکے کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہ سکنے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف ہوجائے۔ البتہ مغربی تہذیب کا یہ دعوی کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ’جو‘ چاہنا چاہے چاہ سکے ایک جھوٹا دعوی ہے کیونکہ فرد کو آزادی یعنی سرمایہ دارانہ نظام زندگی رد کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ میں اگر گوشت کھانا چاہتا ہوں تو چاہوں، ہمہ وقت کھیلنا چاہتا ہوں تو چاہوں، مگر میں ایسا کچھ نہیں چاہ سکتا جس سے اصول آزادی یعنی دوسروں کا اپنی چاہت چاہنے اور اسے حاصل کرنے کا حق سلب ہوجائے۔ مثلاً میں یہ نہیں چاہ سکتا کہ کسی شخص کو شرعی منکر (مثلاً زنا) سے روک دوں کیونکہ جونہی میں اپنی اس چاہت پر عمل کرتا ہوں اصول آزادی کی خلاف ورزی ہوگی اور جمہوری ریاست مجھے ایسا کرنے سے بذریعہ قوت روک دے گی (۱۷) ۔ چنانچہ فرد اپنے کسی مخصوص تصور خیر مثلاً اظہار مذہبیت پر ’بطور ایک حق‘ عمل تو کرسکتا ہے مگراسے دیگر تمام تصورات خیر پر غالب کرنے کا ارادہ نہیں کرسکتا کہ ایسا کرنا اصول آزادی کے خلاف ہے اور اگر اصول آزادی ہی رد کردیا گیا تو پھر میرا یہ حق کہ میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکتا ہوں خود بخود فسخ ہوجائے گا۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں ہر فرد اپنی انسانیت ترک کرکے ہیومن بننے پر مجبور ہوتا ہے، وہ آزادی کے سواء اور کچھ نہیں چاہ سکتا۔ فرد کی ہر وہ خواہش قانوناً اور اخلاقاً ناجائز اور قابل تنسیخ ہے جو اصول اظہار آزادی کے خلاف ہویعنی جسکے نتیجے میں دوسروں کی آزادی چاہنے کی خواہش میں تحدید ہوتی ہو۔ مشہور لبرل مفکر Rawls کہتا ہے کہ مذہبی آزادی کو لبرلزم کے لئے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں (یعنی فرد کے تعیین خیر وشر کے حق) کا انکار کریں ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا امراض کو ختم کرنا ضروری ہے۔

مساوی آزادی کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ human being اپنے ارادے کو غیر human اشیاء پر مسلط کر کے انہیں اپنے ارادے کا تابع کرے (ان غیر human موجودات میں غیر human انسان اور فطری قوتیں دونوں شامل ہیں)۔ Human ارادے کے اس کائناتی تسلط کو progress یا ترقی کہتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی اور انفرادیت کی تیسری اہم قدر ہے۔ Progress کا ذریعہ سرمایہ کی بڑھوتری ہے۔ محمد مارماڈیوک پکتھالؒ نے سرمایہ کو تکاثر کے مماثل کہا ہے اور اپنے ترجمہ قرآن میں تکاثر کے انگریزی معنی “Rivalry in Wordly Increase” بیان فرمائے ہیں۔ سرمایہ میں بڑھوتری آزادی کے فروغ کی عملی شکل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص اپنے human ہونے کو تسلیم کرتا ہے تو وہ خواہشات کی زیا دہ سے زیادہ تکمیل (maximum satisfaction) کو مقصد حیات کے طور پر قبول کرتا ہے اور ارادہ انسانی کی یہی منتہا تکمیل ترقی کا جوہر ہے ۔ وہ سرمایہ کی بڑھوتری کو اپنی زندگی کے اولین مقصد کے طور پر قبول کرتا ہے کہ آزادی کا مطلب ہی سرمایہ کی بڑھوتری ہے اس کاکوئی دوسرا مطلب نہیں، جو شخص آزادی کا خواہاں ہے وہ لازماً اپنے ارادہ سے اقدار کی وہ ترتیب متعین کرے گا جس کے نتیجے میں اس کی آزادی میں اضافہ ہو کیونکہ سرمایہ ہی وہ شے ہے جو میری اس صلاحیت میں اضافے کو ممکن بناتا ہے کہ میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکوں۔ ترقی درحقیقت وہ طریقہ ہے جسکے ذریعے آزادی اور مساوات کا اظہار ممکن ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی معاشرہ آزادی اور مساوات کے اصول پر زندگی گزارنا چاہتا ہے تو وہ واحد طریقہ جسکے نتیجے میں ہر فرد اپنی خواہشات کی ترتیب طے کرنے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف بن سکتا ہے ترقی یعنی سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی جدوجہد ہے۔ Rawls کہتا ہے کہ human being کی زندگی میں صرف چار مقاصد اصل خیر ہوتے ہیں، (ا) دولت، (۲) آمدنی، (۳) قوت اور (۴) اختیار۔ یہی اقدار خیر مطلق (absolute goods) ہیں اور ان میں اضافے کی جدوجہد ہی حاصل زندگی ہے۔ چنانچہ سرمائے میں لامحدود اضافے کے علاوہ اور کوئی ایسا مقصد ہے ہی نہیں جسے سرمایہ داری کے اندر تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہو۔ یہی وہ واحد شے ہے جو ہر تصور خیر کے پنپنے کے امکانات ممکن بنا تی ہے لہٰذا اصل خیر جس سے ہر ہیومن منسلک (committed) ہوتا ہے وہ سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش ہے اور اسی کیلئے وہ اپنا تن من دھن سب کچھ وار دیتا ہے۔ ہر تصور خیر کے پنپنے کے مواقع میں اضافہ (maximization of opportunities)جمہوری ریاست کااصل مقصد (end in itself)ہوتا ہے ماورائے اس سے کہ وہ مواقع کس شے کے اظہار کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ مواقع کے بدستور اضافے کے اس عمل کا اظہار ہمیشہ معاشی اعدادوشمار (economic indicators) کی کارکردگی کی صورت میں ناپا جاتا ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ سرمائے میں اضافے کا مجموعی عمل کس رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ مواقع اور سرمائے کا اضافہ ہی ارادہ محض کے اظہار کا واحد ممکن اور جائز طریقہ ہے۔

سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن بینگ) کا معیار عقلیت
جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا کہ دماغی عقلیت یعنی خرد مخصوص احساسات ہی کو بطور معیار عقل قبول کرتی ہے، سرمایہ دارانہ عقلیت کے نزدیک بھی عقلیت کا معیار آزادی سے ماخوذ شدہ احساسات ہیں۔ چنانچہ علم معاشیات فرد کو یہ باور کراتا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت (یاآزادی) کا اظہار عمل صرف (Consumption) کے ذریعے کرتا ہے یعنی وہ جتنی اشیاء صرف (Consume) کرتا ہے اتنی ہی زیاد ہ خواہشات کی تسکین کر سکتا ہے اورایک صارف (Consumer) زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین تبھی کر سکتا ہے جب اس کے پاس زیادہ سے زیاد ہ اشیاء خریدنے کے لیے آمدنی (Income) ہو۔اسی طرح معاشیات کا مضمون یہ بھی کہتا ہے کہ human being کی خواہشات لامحدود (Infinite) ہونی چاہئیں اور وہ انہیں پورا کرنے کا مکلف بھی ہے۔ مگر چونکہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع لامحدود نہیں ہیں، لہٰذا زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فرد اپنے ذرائع کو اپنے وجود کی ممکنہ حد تک بڑھانے کی کوشش میں لگارہے اور ذرائع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کی اس خواہش ہی کو ماہرین معاشیات عقلیت (Rationality) کا معیار کہتے ہیں ، یعنی عقلمند شخص (Rational agent) وہی ہے جو سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش رکھتا ہو۔ سرمایہ دارانہ عقلیت ہر human being سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو اس طرح مرتب کرے کہ ان کے حصول (realisation) کی جدوجہد سرمایہ کی بڑھوتری کے فروغ میں ممد اور معاون ہو۔ خواہشات کی ہر وہ ترتیب جو انسان کو سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کا آلہ کار نہیں بناتی، اس عقلیت کے خلاف ہے یعنی irrational ہے۔ معلوم ہوا کہ سرمایہ دارنہ انفرادیت کا نفس جن دو بنیادی اقدار و احساسات سے مغلظ ہوتا ہے وہ حرص اور حسد ہیں۔ یعنی سرمایہ دارانہ معیارعقلیت کے مطابق فرد کو ہر وقت اپنا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ مادی ذرائع کے حصول کی خواہش اور کوشش کرتے رہنا چاہئے، نیز چونکہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر شخص لامحدود خواہشات کی تکمیل کیلئے محدود ذرائع کے حصول میں سرکرداں ہے لہٰذا حصول ذرائع کیلئے ہر فرد دوسرے شخص سے مسابقت میں مصروف رہے ۔ فرد کو محض زیادہ کی خواہش پر اکتفا نہیں کرناچاہئے بلکہ ’دوسرے سے زیادہ‘ کو اپنی جدوجہد کا محور بنانا چاہئے۔ اتنا ہی نہیں کہ افراد محض عمل تکاثر ( حسد) میں مصروف ہوں بلکہ وہ اس عمل سے بھی لذت حاصل کریں اور اس عمل کو بالذات مقصد اور عقلمندی کا تقاضا سمجھیں۔ حرص و حسد کا فروغ ہی سرمایہ دارانہ عقلیت کا اصل وظیفہ ہے اور انہی کا فروغ human being کے تمام فیصلوں کی بنیاد ہے ۔ جیسا کہ امام غزالی ؒ نے تہافۃ الفلاسفہ میں فرمایا کہ عقلیت کے کئی جاہلانہ تصورات ہیں، سرمایہ دارانہ عقلیت وہ جاہلانہ عقلیت ہے جو human being کے ارادہ محض (یعنی سرمایہ کی بڑھوتری) کو اصل الاصول اور اصل مقصد کے طور پر فرض (presume) کرتی ہے اور ہر عمل اور شے کی قدر اس فاسد اور باطل مقصد (یعنی سرمایہ کی بڑھوتری) کے حصول کے ذریعہ کی حیثیت کی بنیاد پر متعین کرتی ہے۔ مگر سرمایہ دارانہ عقلیت درحقیقت جہالت ہے جیسا کہ امام صاحبؒ فرماتے ہیں کہ عقلمندی تو خدا کا خوف ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہوا راس الحکمۃ مخافۃ اللہ یعنی اللہ کا خوف دانش مندی کی بلند ترین چوٹی ہے۔

سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن بینگ) کے تعلقات
دھیان رہے کہ آزادی کا مطلب ہے خود کفیل (autonomous or self-sufficient) ہو جانے کا دعوی کرنا (۱۸) یعنی تمام تعلقات کی نفی کرنا ۔ چونکہ سرمایہ دارانہ انفرادیت خواہشات کی تمام ترجیحات کو برابر تسلیم کرتی ہے نیز اسکے پاس خواہشات کی قدر متعین کرنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں، لہٰذا یہ محبت اور ذات میں شرکت کی نفی کرتی ہے۔ محبت کیلئے ضروری ہے کہ دوسرے کی خواہشات کو اپنا لیا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب خواہشات میں ترجیح کا پیمانہ قائم کرنا ممکن ہو۔ تعلیمات انبیاء کے سواء نفس کے پاس ایسا کوئی پیمانہ و اصول موجود نہیں جسکی بنیاد پر وہ خواہشات کو جانچ سکے۔ آزادی کی پرستار انفرادیت غیر کو اپنا نہیں سکتی کیونکہ وہ وسیع سے وسیع تر احاطہ میں اپنی ربوبیت قائم کر نا چاہتی ہے۔ لہٰذا دوسرا فرد لازماً ’اسکا غیر ‘ ہے اور ان معنوں میں اسکا مدمقابل ہے کہ غیر کا وجود اس کی آزادی (جو چاہنا چاہے چاہ سکنے کی خواہش) کی تحدید کرتا ہے۔ بقول سارتر ‘hell is other people’ (Sartre) (یعنی جہنم کیا ہے، میرے علاوہ دوسرے لوگ ہی میری جہنم ہیں)۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے پاس اپنے جیسے دوسرے افراد کے ساتھ بسنے کیلئے تعلقات کے بجائے معاہدے (contract) کا تصور ہوتا ہے(۱۹) ۔ یہ انفرادیت خود اپنے آپ اور دوسروں کو ’مجرد فرد ‘ (ahistorical and asocial anonymous individual ) کے طور پر پہچانتی ہے نہ کہ ماں پاب، بھائی بہن، استاد شاگرد، میاں بیوی، پڑوسی وغیرہ کے ۔ اس فرد مجرد کے پاس پہچان (identity) کی اصل بنیاد ذاتی اغراض ہوتی ہیں، یعنی وہ یہ تصور کرتا ہے کہ میری طرح ہر فرد کے کچھ ذاتی مفادات ہیں اور ہمارے تعلقات کی بنیاد اور مقصد اپنے اپنے مفادات (self-interests)کا حصول ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ ان اغراض کی تکمیل کیلئے وہ معاہدے پر مبنی تعلقات استوار کرتا ہے جنکی بنیاد اس کی اپنی اغراض (interests)ہوتی ہیں اور انہیں اغراض اور حقوق کے تحفظ کی خاطر وہ جدوجہد کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی معاشرت میں ہر شخص اپنے مفادات کے تحفظ و حصول کیلئے اپنی اغراض کی بنیاد پر interest-groups (اغراض پر مبنی گروہ) بناتا ہے، مثلاً مارکیٹ کمیٹیاں، مزدور تنظیمیں، اساتذہ و طلبہ تنظیمیں، صارفین و تاجروں کی یونین، عورتوں اور بچوں کے حقوق کی تنظیمیں و دیگر این جی اوز وغیرہ اسکے اظہار کے مختلف طریقے ہیں جہاں تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی یا محبت نہیں بلکہ انکی اغراض ہوتی ہیں۔ ذاتی اغراض کی ذہنیت (rationality) در حقیقت محبت کی نفی ہے۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت دوسرے شخص سے صرف اسی وقت اور اتناہی تعلق قائم کرتی ہے جو اس کی اپنی اغراض پوری کرنے کا باعث بنیں۔ ایک مذہبی معاشرے میں استاد کا تعلق اپنے شاگرد سے باپ اور مربی کا ہوتا ہے،اس کے مقابلے میں مارکیٹ (یا سرمایہ دارانہ) سوسائٹی میں یہ تعلق ڈیمانڈر اور سپلائیر (demander and supplier) کا ہوتا ہے یعنی استاد محض ایک خاص قسم کی خدمت مہیا کرنے والا جبکہ طالب علم زر کی ایک مقررہ مقدار کے عوض اس خدمت کا طلب گار ہوتا ہے اور بس۔ شاگرد سے فیس لینے کے علاوہ استاد کو اس کی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور یہی حال شاگرد کا ہوتا ہے۔ ہر وہ تعلق جس کی بنیاد طلب ورسد (demand and supply)اور زر (money and finance)کی روح پر استوار نہ ہو سرمایہ دارانہ معاشرے میں لایعنی، مہمل، بے قدرو قیمت اور غیر عقلی (irrational)ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیار عقلیت کے مطابق عقل مندی (rationality) اسی کا نام ہے کہ آپ ذاتی غرض کی بنیاد پر تعلق قائم کریں۔ معاہدات پر مبنی یہ معاشرت خاندان کو تباہ و برباد کردیتی ہے کیونکہ خاندان اور برادری کی بنیاد محبت و صلہ رحمی ہے نہ کہ ذاتی اغراض کی تکمیل۔ لازم تھا کہ ہم سرمایہ دارانہ معاشرے (سول سوسائٹی) کی خصوصیات پر مزید کچھ گفتگو کرتے کیونکہ یہی وہ معاشرت ہے جہاں سرمایہ دارانہ انفرادیت نشونما پاکر دوام اختیار کرتی ہے لیکن یہ بحث ہمارے موضوع سے براہ راست تعلق نہیں رکھتی۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ معاشرتی تعلقات اور صف بندی کی نوعیت کو سمجھنا نہایت اہم ہے کیونکہ یہ تعلقات وہ جال ہیں جن کے اندر شامل ہوکر فرد اپنی شناخت کرتا ہے کہ ’میں کون ہوں؟‘ معاشرتی تعلقات کی بنیاد پر فرد ایک خاص قسم کی اغراض اور شخصیت کو قبول کرلیتا ہے۔

سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن بینگ) کے بنیادی احساسات
آزادی کے طلب گار مغربی فرد کا المیہ احساس کی کثافت ہے۔ اس کا قلب شہوت اور غضب کے احساسات سے مغلوب ہے اور یہی حال ان لوگوں کا ہے جو مغرب سے متاثر ہیں۔ اس پر اضطرار اور یاسیت (frustration and boredom) کی کیفیات بالعموم طاری رہتی ہیں۔ احساس محرومی اور تنہائی نے اسے ابدی طور پر گھیر لیا ہے۔ عیسائی تعلیمات کے مطابق اضطرار انسان کا وہ ابدی ورثہ ہے جو اسنے پہلے گناہ (original sin) کی وجہ سے اپنے اوپر مسلط کرلیا ہے۔ عیسائی مفکرین مثلاً کیرکگارڈ (Kirkegard) کے بقول آدمؑ جنت میں اپنی تنہائی کی وجہ سے اضطرار کا شکار ہوئے اور پہلا گناہ کر بیٹھے۔ لہٰذا تنہائی اور اضطرار کا احساس مقدم اور دائمی ہے اور ان احساسات سے دنیاوی زندگی میں نجات ناممکن ہے۔ مغربی دہریت بھی احساس اضطرار و تنہائی کا اقرار کرتی ہے۔ یہ دہریت فرد کو آزادی حاصل کرنے یعنی خدا (الصمد) بن جانے کی تلقین کرتی ہے۔ مگر آزادی کا مطلب ہی تعلقات کی نفی کرناہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ آزادی احساس تنہائی کا دوسرا نام ہے۔ انسان جتنا تنہا ہوگا اس کی آزادی اتنی بڑھے گی۔ چونکہ اضطرار اور یاسیت کی وجہ تنہائی ہے، اس لئے :

جیسے جیسے آزادی بڑھے گی ویسے ویسے تنہائی بڑھے گی
جیسے جیسے تنہائی بڑھے گی اضطرار اور یاسیت بڑھے گی اور انسان کا احساس محرومی اور اسکا غضب و شہوت قلب کو مسخر کرے گا
چنانچہ اضطرار مغربی انسان یعنی ہیومن کا اساسی احساس ہے اور مغربی مفکرین مثلاً ہائیڈیگر اور سارت وغیرہ کے نزدیک یہ انسان کی فطری کیفیت ہے۔ ہائیڈیگر کہتا ہے کہ ’اضطرار بالکل غیر معین ہے اور یہ عدم محض کی تلاش اور جستجو کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے‘۔ پھر آزادی کا حصول بھی ناممکن ہے جسکی چار بڑی وجوہات ہیں:

(۱) مغربی فرد وجود کی لامعنویت کا قائل ہے، وہ وجود کا واحد مقصد حصول آزادی قرار دیتا ہے اور چونکہ آزادی خود کچھ نہیں بلکہ عدم محض اور تعلقات کے عدم وجود کا نام ہے لہٰذا وجود کچھ حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ اسلئے اسکے نزدیک زندگی محض کھیل تماشا ہے جس میں معنویت انسانی خواہشات پیدا کرتی ہیں اور چونکہ ہر خواہش ان معنی میں لایعنی ہے کہ اس کی کوئی قدر نہیں لہٰذا وہ زندگی کو معنی دینے کیلئے اظہار ذات کے نت نئے طریقوں کی تلاش میں رہتا ہے (۲۰) ۔ مگر چونکہ آزادی عدم محض ہے، لہٰذا اسکا قلب لامعنویت اور اضطرار کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا رہتا ہے اور اسے کبھی اطمینان کی دولت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اطمینا ن تو کسی شے کے حصول اور اسپر راضی ہوجانے کے بعد نصیب ہوتا ہے اور اسکا واحد منبع ذکر الہی ہے جو انسان کو اسکے ابدی مقام کی مسلسل یا ددلاتا ہے

(۲) پھر کوئی شخص بھی اپنے جینیاتی (genetic)ورثہ اور اپنے تاریخی وقوع (historical situation) کو خود متعین نہیں کرسکتا۔ میں محمد صدیق کا بیٹا اور مرد ہونے پر مجبور ہوں۔ میں اپنے ارادے کے بغیر مجبوراً یکم دسمبر ۱۹۷۸ کو کراچی کے ایک مسلمان اور متوسط آمدنی کے گھرانے میں پیدا ہوگیا۔ نہ میں اپنا زمان و مکان خود متعین کرسکتا ہوں اور نہ اپنی صلاحیتیں خود منتخب کرسکتا ہوں۔ ان تمام مجبوریوں کے پیش نظر میری آزادی کس قدر محدود ہے

(۳) ان سب سے بڑھ کر آزادی کو محدود کرنے والی شے موت ہے کہ میں عنقریب اپنے کسی ارادے کے بغیر مرجاؤں گا، پھر آزادی کا کیا مطلب؟

(۴) اور پھر آزادی طلب کرنے کیلئے فرد کو آزادی یعنی سرمائے کا جبر قبول کرنا پڑتا ہے۔ آزادی (choice of choice) چاہنے کیلئے ضروری ہے کہ میں سرمائے کو چاہوں کہ یہی وہ شے ہے جو ہر تصور خیر کے پنپنے کے امکانات ممکن بنا تی ہے۔ لہٰذا اصل خیر جس سے ہر ہیومن کو منسلک (committed) ہونا پڑتا ہے وہ سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی خواہش ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے وضع کی جانے والی ادارتی صف بندی (institutionalization) کو اسے قبول اور برداشت کرنا پڑتا ہے۔ فرد اس دھوکے میں رہتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو خود اپنی مرضی سے معنی دے رہا ہے جبکہ حقیقتاً وہ اپنی خواہشات کو اسی طرح ترتیب دینے پر مجبور ہے جسکی مارکیٹ اسے اجازت دیتی اور مواقع فراہم کرتی ہے (اور مارکیٹ اخلاق رزیلہ ہی کے اظہار کے مواقع فراہِم کرتی ہے)

ان خیالات کو قبول کرکے جو بھی شخص آزادی کی جستجو میں ہے اپنی زندگی کو لایعنی بنا لیتا ہے۔ مشہور جرمن فلسفی ہائیڈیگر کہتا ہے کہ ’انسان اشیاء کو پاتا ہے انہیں تخلیق نہیں کرسکتا، وہ کائنات میں پھینک دیا جاتا ہے ‘ (we are thrown into the universe)۔ بقول سارت کون کس وقت کیوں کائنات میں پھینکا گیا یہ ہم نہیں جان سکتے اور چونکہ انسان کائنات میں پھینک دیا جاتا ہے، چونکہ وہ کائنات میں تنہا ہے، چونکہ اسکے وجود کو ایک دن ختم ہوجانا ہے، چونکہ وہ واقعیت (facticity) کی جکڑ بندیوں میں ازلی ابدی طور پر جکڑا ہوا ہے، چونکہ واقعیت کی جکڑ بندیاں صرف یہی نہیں کہ وہ اپنے جینیاتی ورثہ اور تاریخی وقوع کے بارے میں مجبور ہے بلکہ واقعیت اس بات کا بھی احاطہ کرتی ہے کہ وہ نیک ہے یا بد، جس طرح وہ جینیاتی اور تاریخی وقوع کے اعتبار سے مجبور ہے اسی طرح میلانات کی پاکیزگی یا کثافت کے اعتبار سے بھی مجبور ہے، لہٰذا نیکی اور بدی کے پیمانے بھی ازلی اور ابدی نہیں ہیں ۔ موت وجود کو ختم کردیتی ہے اور مغربی تصورات خیروشر انفرادی موت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر موت وجود کو ختم کردیتی ہے تو خیروشر کے ایسے پیمانے جو ذاتی اخلاقیات پر محیط ہوں پیش نہیں کئے جاسکتے، بالخصوص ان حالات میں جب فرد حصول آزادی کو مقدم رکھتا ہو۔ ہر وہ انفرادی فعل جائز ہوگا جس کے ذریعے موت کو موخر یا بھلایا جاسکے ۔ مغربی انفرادیت کے پاس خیر کا کوئی substantive (مثبت،منجمدیا حقیقی ) تصور سرے سے موجود ہی نہیں، کیونکہ جس آزادی کو وہ خیر اعلی گردانتا ہے اسکا مافیہ کچھ نہیں بلکہ وہ عدم محض ہے۔ یہاں خیر ’کوئی مخصوص چاہت ‘ نہیں بلکہ ’کسی بھی چاہت کو اختیار کرسکنے کا حق‘ ہے۔ دوسرے لفظوں میں مغربی تصور خیر درحقیقت عدم خیر (absence of any good) ، یعنی ہر خیر کی نفی کا نام ہے اور یہ عدم خیر ہی اسکے خیال میں خیر اعلی ہے۔ انہی معنی میں مغربی تصور خیر اصلاً شر محض (absolute evil)ہے کیونکہ شر درحقیقت عدم خیر ہی کا نام ہے اسکااپنا علیحدہ کوئی وجود نہیں۔ اسی لئے مارماڈیوک پکتھال فرمایا کرتے تھے کہ مغربی تہذیب در حقیقت تہذیب نہیں ’بربریت‘ (savagery) یعنی تہذیب کی ضد ہے، اور مغربی انفرادیت یعنی ہیومن درحقیقت ابلیس (۲۱) ہے۔

سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن بینگ) کا تصور علم
معلوم ہوا کہ سرمایہ دارانہ انفرادیت حالت اضطرار میں اس لئے مبتلا ہے کیونکہ وہ شہوت و غضب کا شکار ہے۔ جس شے کو وہ مفروضے اور عقلمندی کے طور پر قبول کرتی ہے وہ آزادی یعنی ارادہ انسانی کی بالا دستی یا حصول لذات و غضب کو زندگی کا مقصد سمجھنا ہے۔ اس بیماری کی حالت میں جس شے کا علم وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ دنیا ہے۔ ادراک ذات کے امکان کو وہ سرے سے ناممکن سمجھتی ہے کیونکہ ادراک ذات کیلئے ضروری ہے کہ خواہشات میں ترجیح کا پیمانہ قائم کیا جائے جو اسکے لئے ممکن نہیں ہے۔ Rawls کہتا ہے کہ تم جو کچھ بھی چاہتے ہو وہ ٹھیک ہے یعنی اس بات کو حتمی سمجھو کہ انسان جو چاہتا ہے وہ اس کا مکلف ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ تم کہہ سکو کہ انسان کو کیا چاہنا چاہئے اور ہر انسان اس چاہنے کے حق میں برابر ہے۔ گویا یہ لاعلمی لازم جانو کہ ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے جو یہ بتائے کہ انسان جو چاہتا ہے اسے چاہنا چاہئے یا نہیں۔ پس جتنا زیادہ وہ دنیا پر تصرف کرتا ہے اتنی ہی زیادہ تسکین حاصل کرسکتا ہے۔ لہٰذا ایسا فرد جس شے کو علم سمجھتا ہے وہ دنیا کے بارے میں اس کی وہ اطلاع ہے جو اسکے کلیات (faculties) مثلاً حواس اسے فراہم کرتے ہیں۔ وہ اپنے رب کا باغی ہے اور سمجھتا ہے کہ علم اور معنی کا منبع اس کی ذات ہے۔ دنیا کے علاوہ ہر علم کا وہ انکاری ہے، مگر ہم اس کی معلومات کو علم نہیں مانتے کیونکہ جیسا کہ امام غزالیؒ نے فرمایاکہ علم تو خدا کا ڈر ہے یعنی جو معلومات خشیت پیدا کرے وہ علم ہے اور جو ایسا نہیں کرتی وہ جہالت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء یعنی علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں، معلوم ہوا کہ علم کا حاصل تقوی ہے ۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے پاس دنیا کی چیزوں کی اطلاعات بہت ہیں لیکن یہ اسے کوئی علم مہیا نہیں کرتیں۔ جو بھی اطلاعات اسے ملتی ہیں صرف ان چیزوں سے متعلق ہیں جو محسوسات سے تعلق رکھتی ہیں اور ظاہر ہے محض محسوسات کی بناء پر جو اطلاعات فراہم ہوتی ہیں انکی یہ حیثیت نہیں کہ فرد کے اندر خوف خدا پیدا کردیں ۔ خوف خدا پیدا ہونے کیلئے ضروری ہے کہ فرد ان تمام اطلاعات کا مشاہدہ کرنے کیلئے صحیح مقام (عبدیت) پر ہو، بصورت دیگر وہ اطلاعات اسے محض اس بات پر تقویت دیں گی کہ وہ ایک خدا ہے جو کہ اس کی قلبی بیماری ہے۔ گویا اس کے پاس اطلاعات تو ہیں لیکن چونکہ وہ مشاہدہ درست مقام سے نہیں کرتا، اسلئے اسکے پاس علم نہیں آتا بلکہ وہ ان تمام اطلاعات کو ترتیب دیکر اپنی لذات کی تسکین اور غلبے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن نے اس حقیقت سے یوں پردہ اٹھایا فاعرض عن من تولی عن ذکرنا ولم یرد الا الحیوۃ الدنیا ذالک مبلغہم من العلم (جو لوگ میرے ذکر سے منہ موڑتے ہیں اور صرف دنیاوی زندگی کے طالب ہیں ان سے اعراض کرو، ان کے علم کا مقصد و محور بس اتنا ہی ہے)۔ یاد رکھو کہ علم کی بنیاد ما بعد الطبعیات پر مبنی مفروضات ہوتے ہیں، جاننے کا عمل محض جاننے کیلئے نہیں بلکہ ’کسی لئے جاننا ‘ ہوتا ہے۔ یعنی جانناعالم و معلوم کے درمیان ایک تعلق کا نام ہے اور اس تعلق کی نوعیت عالم کے مقصد سے متعین ہوتی ہے ۔ اگر مقاصد جدا ہونگے تو جاننا بھی جدا ہوگا۔ میرے استاد اور باس کے مجھے جاننے میں جو فرق ہے وہ ان کے مقاصد کے فرق کی بناء پر ہے۔ میرے باس میری ذات کو بطور یونیورسٹی میں علم معاشیات کے مضامین پڑھانے والے ایک وجود کی حیثیت سے پہچانتے ہیں جبکہ میرے اساتذہ مجھے تحریکات اسلامی کے ایک کارکن کے طور پر پہچانتے ہیں کہ خدمت اسلام کے ضمن میں مجھ سے کیا کام لینا ممکن ہے۔ مغربی انفرادیت کے نزدیک جاننے کا مطلب رضا ئے الہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں بلکہ جاننے کا واحدجائز مقصد تصرف فی الارض و تسخیر کائنات یعنی ارادہ انسانی کو کائنات پر مسلط کرنا ہے کیونکہ اسکے نزدیک زندگی کے معنی ہی ارادہ انسانی کی تکمیل ہے۔ اسکا علم اس جاہلانہ ذہنیت و جنون کو پروان چڑھاتا ہے کہ عقل انسانی کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اسکے اپنے سواء ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے ۔ کانٹ کہتا ہے کہ انسانی ذات (self) کے اندر ایسا نظام (structure) اور ترتیب (order) موجود ہے جو انسانی تجربے کو ہئیت (form) اور معنی (meaning) فراہم کرتا ہے، ذات کے اس اندرونی نظام کے بغیر تجربہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔ کائنات اپنے اندر کوئی معنی نہیں رکھتی، جب ذات کے اندر موجود نظام کو اس پر مسلط کیا جاتا ہے تو اس میں معنی پیدا ہوتے ہیں۔ کائنات کو ایک معقول کائنات کے طور پر سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے ذات کے نظام کے ذریعے سمجھا جائے، یعنی تعقل، معانی، ربط و ضبط، نظام زندگی ہر چیز کا منبع انسانی ذات ہے اور اس منبع نور کے علاوہ علم کا اور کوئی ذریعہ نہیں ۔ کانٹ کے نزدیک ذات کی اس صلاحیت پر ایمان لانے کے بعد ہم ایسے عمومی اصول وقوانین و ضع کرسکتے ہیں جو آفاقی ہوں، اسکے لئے کسی شریعت کی ضرورت نہیں۔ اسکے خیال میں انسانی نفس جانتا ہے اور جاننے کا ذریعہ ہے، مگر ذات خود اپنی حقیقت کے ادراک کے سوال پر مکمل خاموش ہے ۔ ہاں انسانی ذات کے نظام کو درست طریقے سے استعمال کرکے (جسے scientific methodکہتے ہیں) ایسا مثالی اور عادلانہ معاشرہ ترتیب دینا ممکن ہے جسے کانٹ Kingdom of Endsسے تعبیر کرتا ہے ، جہاں ریاست ہر فرد کا یہ اختیار تسلیم کرلے کہ وہ خود مختار (autonomous)اور قائم بالذات (self-determined)ہے، جہاں ہر شخص اس بات کا تعین کرسکے گا کہ وہ کیسی زندگی گزارے گا یعنی جہاں ہر شخص کیلئے خیر وشر کی تعیین اور اپنے ارادے کی تکمیل ممکن ہو سکے گی۔

سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن بینگ) کی مختلف تعبیرات
انسان جب عبدیت کا انکارکرتا ہے تو خدا کہ جگہ یا تو اپنی ذات کو رکھتا ہے اور یا پھر اپنی نوع کو۔ یاد رکھو کہ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے اظہار کی بعض تعبیرات انفرادی ہیں اور بعض اجتماعی۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ انفرادیت کا اظہار بطور نوع کے دو بڑے نظریات ہیں، ایک اشتراکیت اوردوسرا قوم پرستی ۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ انفرادیت کی خدائی بطور ذات کے بڑے نظریات لبرل ازم اور انارکزم (Anarchism)ہیں(۲۲) ۔ ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ سب آزادی کے طلب گار اور خدا کے باغی ہیں جبکہ فرق کرنے والی شے آزادی کے حصول کا طریقہ ہے۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کی جو تفصیل اوپر بیان کی گئی وہ لبرل مفکرین اور قائدین کی فکر سے ماخوذ ہے۔ لبرل مفکرین فرداً فرداً ہر شخص کو الوہیت انسانی کا مکلف سمجھتے ہیں، یعنی انکے خیال میں یہ حق ہر ’فرد‘ کا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی جو ترتیب متعین کرنا چاہے کرے۔ یہ مفکرین فرد کو تاریخ اور معاشرے سے ماوراء وجود کی حیثیت سے پہچانتے ہیں اور الوہیت انسانی کے مقصد کے حصول کیلئے ذرائع پیداوار میں اضافے کو ہدف قرار دیکر انہیں مارکیٹ نظم کے تابع کردینا چاہتے ہیں کیونکہ یہی نظم انکے خیال میں فرد کی منتہا آزادی کا محافظ ہے۔ وہ جمہوری معاشرہ اور ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں کہ یہی معاشرتی و ریاستی تنظیم ا س بات کو ممکن بناتی ہے کہ فرد جو چاہنا چاہے چاہ سکے۔ اشتراکی اور قوم پرست سرمایہ داری کے مفکرین بھی تحریک تنویر کے ورثاء ہیں جن میں سب سے نمایاں نام Hegal, Marx اور Neitzshe وغیرہ کے ہیں۔ یہ تینوں بھی الوہیت آدم کے قائل ہیں اور ان کا مشن بھی انسان کو human being بنانا ہے۔ یہ بھی آزادی، مساوات اور ترقی کو اقدار کے طور پر قبول کرتے ہیں اور بڑھوتری سرمایہ کو ان مقاصد کے حصول کے ایک ناگزیر اور لازمی ذریعہ سمجھتے ہیں۔ قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ داری کے فلاسفر ہیگل، مارکس اور نطشے humanity کو بحیثیت نوع الوہیت کا مکلف سمجھتے ہیں۔ لبرل مفکرین کے برخلاف یہ فلاسفہ کہتے ہیں کہ Human being انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی وجود کا اظہار ہے۔ Human being اپنی الوہیت کا اظہار تاریخی عمل میں کشمکش کے ذریعہ کرتی ہے۔ قوم پرست مثلاً نطشے کہتا ہے کہ یہ کشمکش مختلف اقوام کے درمیان ہوتی ہے جبکہ اشتراکی سرمایہ داری کے وکیل مثلاً مارکس اس کشمکش کو طبقاتی سمجھتے ہیں۔ اشتراکیوں کا خیال ہے کہ طبقاتی کشمکش کے ذریعے تاریخ کے آخری سرے پر ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جہاں ہر خواہش کی تسکین ممکن ہوگی۔ ایسے معاشرے کے حصول کیلئے ذرائع پیداوار اور قوت کو استحصالی طبقے سے چھین کر مظلوم طبقے کے قبضے میں کرنے کی سعی لازم ہے اور یہی وہ جدوجہد ہے جسکے نتیجے میں وہ انفرادیت (specie being) پیدا ہوگی جو اشتراکی معاشرے کو قائم کرے گی۔ اس معاشرے میں اخلاقیات کی بحث لایعنی ہوگی کیونکہ وہاں مکمل آزادی ہوگی اور کسی فعل پر قدغن کا سوال نہیں ہوگا۔ انسان ہر اس چیز کی خواہش کرسکتا اور اس کی تکمیل کرسکتا ہوگا جسکی وہ خواہش کرنا چاہتا ہے۔ یہ سوال کہ انسا ن کو کس چیز کی خواہش کرنا چاہئے اشتراکی ، لبرل یا قوم پرست نقطہ نگاہ سے ایک ناقابل تفہیم سوال ہے۔ چونکہ ان تینوں نظریات کے مطابق حصول آزادی واحد مقصد حیات ہے اور چونکہ وہ انسان کو خدائی صفات کا مکلف گردانتے ہیں لہٰذا انکے نزدیک ہر شخص کو مساوی حق ہے کہ وہ جو چاہتا ہے چاہے۔ چونکہ خواہشات لا محدود ہیں لہٰذا اشتراکی، لبرل یا قوم پرست مثالی معاشرے کا کوئی واضح تصور ممکن نہیں۔ بقول نطشے وہ محض لامعنویت کی ابدیت (eternalisation of absurdity) ہے۔ قوم پرست فکر میں لامعنوی ابدیت کے حصول کیلئے ایک فوق البشر (super man) یا فوق البشر قومیت کی تعمیر ضروری ہے، ایک ایسی شخصیت یا قوم کا وجود جسکے پاس تمام کائناتی قوت مجتمع ہو اور جو خود خیروشر کی تخلیق کرے۔ الغرض دونوں قسم کے مفکرین کی رائے ہے کہ اس تاریخی کشمکش میں جو قوم یا طبقہ (class) غالب آتا ہے وہی human being کا اصل نمائندہ (representative) ہوتا ہے اور وہی اپنے ارادہ کے نفاذ کے ذریعہ الوہیت human being کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ پوری human نسل کا فرض ہے کہ وہ اس غالب قوم یا طبقے کی اطاعت کرے۔ یہی غالب قوم یا طبقہ خیر اور شر کی تعبیر اور تنفیض کا حق دار ہے اور تمام human انفرادیتوں کو اسی غالب قومی یا طبقاتی انفرادیت میں ضم ہوجانا چاہیے۔ یہ غالب قومی یا طبقاتی انفرادیت ان تمام خصوصیات کی حامل ہوتی ہے جو لبرل مفکرین شخصی انفرادیت کے ضمن میں بیان کرتے ہیں۔ اس غالب قوم یا طبقے کا مقصد وجود آزادی اور ترقی کا حصول ہوتا۔ یہ غالب قوم یا طبقہ آزادی اور قوت کے اضافے کی تگ و دو میں انتہا درجہ کا حریص اور حاسد ہوتا ہے اور اپنی آزادی اور ترقی کے لیے سرمایہ کی بڑھوتری ہی کو اصل ذریعہ سمجھتا ہے ۔ وہ اپنی آزادی اور ترقی کے لیے لوٹ مار، قتل و غارت اور بدترین سفاکیت اور بہیمیت کو نہ صرف جائز بلکہ فرض عین گردانتا ہے کیونکہ اسی قتل و غارت، لوٹ مار اور دھوکہ اور فریب کے ذریعہ ہی اس کی آزادی اور ترقی ممکن ہوتی ہے اور اس طبقے اور قوم کا غلبہ ہی الوہیت ہیومن بینگ [human being] کا اظہار ہے حق صرف وہ ہے جو اس اظہار کو ممکن بناسکے(۲۳)۔ اشتراکی، قوم پرست اور لبرل نظریات کسی ابدی اخلاقیات کی نشاندہی نہیں کرسکتے۔ ان کا مقصد حصول آزادی ہے اور چونکہ آزادی کچھ نہیں صرف عبدیت اور دیگر تعلقات کی نفی ہے لہٰذا قدر کا اثبات کرنے سے قاصر ہے۔ قدر کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان یہ سوال اٹھاسکے کہ اسے کیا چاہنا چاہئے اور کیا نہیں، کیا اہم ہے اور کیا غیر اہم۔ ان نظریات میں اخلاقیات کی بنیاد صرف انسانی خواہشات ہیں۔ مگر یہ واضح ہے کہ نفس لوامہ خواہشات کو صرف احکام الہی کے سامنے تول کر ہی پرکھ سکتا ہے اور اگر احکامات الہی سے انکار کرکے انسان خدا بن بیٹھے تو روح اور نفس کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور نفس امارہ نفس لوامہ پر غالب آجاتا ہے۔ ہائیڈیگر کہتا ہے کہ مغربی علمی تناظر میں ’نفس لوامہ کی بحث صرف خاموشی ہے‘ (discourse of discriminatury self is pure silence)۔ وہ نفس جسکے احکام کی بنیاد خواہشات ہوں قدر کی پہچان اور علم و عرفان کے حصول سے قاصر رہتا ہے۔ قدر کا تعین صرف احکام الہی کی بنیاد پر ممکن ہے۔ امام غزالیؒ کا ارشاد ہے کہ علم خشیت الہی سے حاصل ہوتا ہے اور اسی خشیت کو پروان چڑھا کر مومن اپنے حال پر مطمئن اور مقام سے آگاہ ہوتا ہے۔ یہی آگاہی اسے بندگی کیلئے تیار کرتی ہے۔ صوفیاء کا مشہور قول ہے ’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘۔ اپنے نفس کی حقیقت کی آگاہی انسان کو عبدیت پر راضی کرتی ہے۔ اب ہم مختصراً اس کام کی نوعیت بیان کرتے ہیں جسے اصلاح انفرادیت کے ضمن میں تحریکات اسلامی کو مد نظر رکھنا چاہئے۔

۳۔ اصلاح انفرادیت کے اسلامی کام کی نوعیت
یاد رہنا چاہیے کہ مغربی فرد کے اضطرار کی بنیاد گناہ سے آگاہی ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے انسان کو عبد پیدا کیا ہے اور جب وہ عبدیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو درحقیقت اپنی اصل اور فطرت سے لڑتا ہے اور نتیجتاً ہر وقت اضطرار اور گناہ کے احساس سے معمور رہتاہے اور گناہ پر مطمئن ہونے کے لیے لغو تعبیریں تلاش کرکے خود کو دھوکا دیتا ہے۔ گناہ سے چھٹکارا اس وقت ممکن ہے جب انسان عبدیت کی نیت کرے، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور گناہ معاف کردیتا ہے۔ اس کے دل کو اضطرار سے نجات دلا کر اطمینان کی دولت سے نوازتا ہے۔ حقیقت نفس کی آگاہی انسان کو عبدیت پر راضی کرتی ہے۔ لہذا تعمیر شخصیت میں کرنے کا سب سے پہلا کام نیتوں کو ٹھیک کرنے کا ہے یعنی فرد کی نیت حصول رضائے الہی کے سواء اور کچھ نہ رہے اور وہ ہر کام اور فیصلے کو اس بنیاد پر جانچے کہ اس کے نتیجے میں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ پھر محض نیت ٹھیک ہونے سے انسان اللہ کی رضا حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوجاتا بلکہ نیت کے ساتھ ساتھ اس کو اپنے حال کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔ حال کو ٹھیک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر معاملے میں اتباع سنت کی جائے۔ فرد اپنی ذاتی زندگی میں وہ پیمانے مقرر کرے کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل سے لیکر بڑے سے بڑے عمل تک اپنے محبوب نبیﷺ کی اتباع کرے۔ ہر شخص کا حال اتنا ہی ٹھیک ہے جتنا وہ اتباع سنت کرتا ہے اور جو اتباع سنت سے جتنا دور ہے اس کا حال اتنا ہی خراب ہے ، ممکن ہے اس کی نیت ٹھیک ہو۔ گویا ہم چاہتے ہیں کہ فرد کی محض خواہش ہی نہ ہو کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ افعال بھی انجام دے ۔ وہ آپﷺ کی زندگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے اور آپﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا خواہش مند ہوجائے(۲۴) ۔ دھیان رہے کہ حال سے ہماری مراد ظاہری اعمال اور احوال قلب دونوں ہیں کیونکہ احساس قلبی کیفیات اور جسمانی کیفیات دونوں کے تعلق کو بیان کرتا ہے۔ جس طرح قلبی میلانات انسان کے ظاہر پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی طرح جسمانی اعمال بھی قلبی احوال پیدا کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں، الغرض دونوں کا تعلق نہایت پیچیدہ اور پہلو دار ہے۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قلبی کیفیات کی تشکیل میں جسمانی کیفیات کے علاوہ دیگر ماورائے جسم ذرائع کا بھی اہم کردار ہے۔ رویائے صادقہ کا ورود عموماً باوضو اجسام پر ہوتا ہے لیکن باوضو ہونا رویائے صادقہ کے لیے نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی کافی۔ احساسات کو سمجھنے کے لیے محض بدنی، ماحولیاتی اور دیگر مادی حالات کا سمجھنا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے تعلقات استوار کرکے ذات میں شرکت کرنا لازم ہے۔ تو دعوت اولاً نیت کو ٹھیک کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر حال کو راہ راست پر لاتی ہے۔

جب یہ حال کو ٹھیک کرتی ہے تو انسان کو اس بات کے لیے تیار کردیتی ہے کہ وہ کائنات میں اپنے مقام کی پہچان (appreciate) کر کے معرفت حاصل کرلے ، یعنی یہ کہ وہ یہاں کس آزمائش میں رکھا گیا ہے اور اس کی حقیقی پوزیشن کیا ہے۔ وہ یہ ’محسوس کرنے ‘ لگے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے، دوسرے بندوں کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے اور اس کائنات کے ساتھ اس کا معاملہ کیا ہونا چاہیے۔ یاد رہے جب تک حال ٹھیک نہیں ہوگا وہ قلبی کیفیات اور تناظر (perspective) قائم نہیں ہوسکے گا جسکے نتیجے میں انسان اپنے مقام کو پہچان کر اسپر راضی ہوجائے۔ جس شخص کا قلب گناہوں کا اثیر ہو وہ اپنے مقام کو نہیں پہچان سکتا۔ حدیث شریف میں بیان ہوا کہ جو شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ دھبہ لگا دیا جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرکے اپنے حال کو درست کرلے تو اسے مٹا دیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی روش برقرار رکھے تو آہستہ آہستہ اس کا سارادل سیاہ ہوجاتا ہے اور اس شخص سے توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ پس ادراک حقیقت کے لیے گناہوں سے توبہ کرکے حال کی درستگی لازم ہے۔ خود قرآن نے کہا کہ میں ھدی للمتقین ہوں۔ جب انسان اپنا مقام پہچان لیتا ہے تو اس کے اندر شہوت و غضب کے خبیث میلانات کم یا ختم ہو جاتے ہیں (اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کس کا حال کتنا درست ہوا)۔ جب انسان اپنے اصل مقام کو پہچان لیتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے، اس کی مرضی کو قبول کرنا اور اسے نافذ کرنا اس کا مقصد ہے ، اپنے نفس کو تابع بنا کر خود کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے، اپنی تمام قوتوں کو خواہشات کی تسکین کے لیے صرف نہیں کرتا یعنی اپنے آپ کو خدا بنانے کی کوشش ترک کردیتا ہے اور اپنے مقام پر راضی ہوجاتا ہے تو شہوت و غضب جو عبدیت کو رد کرنے اور اسے خدا بنانے کے ہتھیار ہیں ان کے لیے اس کے دل میں کراہیت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے میلانات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو فرد کا حال ٹھیک نہیں ہے اور اہل دعوت و دل اسی بنیاد پر انسان کو چانچتے ہیں کہ اسمیں کس حد تک اپنے مقام پر راضی رہنے کی صلاحیت موجود ہے نیز کس حد تک اس کے اندر لذات کی رغبت موجود ہے۔ شیوخ فرد کی تربیت اسی بنیاد پر کرتے ہیں کہ وہ غضب اور شہوت کو ترک کرکے عبدیت کو چاہے جس کی شکل عشق ہے (۲۵) ۔ تو خوب دھیان رہے کہ مقام کو پہچاننا صرف کوئی فکری (intellectual) چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری و قلبی چیز ہے، یہ ظاہر کا نہیں ہے بلکہ اندرون کا معاملہ ہے۔ اس کے ادراک کے لیے یہ کوشش کار آمد نہیں ہوسکتی کہ داعی کوئی منطقی دلیل دے کر یہ ثابت کردے کہ اللہ رب ہے اور میں اس کا بندہ ہوں یا یہ کہ کائنات مخلوق ہے، بلکہ یہاں تو معاملہ فرد کے اندر جذبات اور احساسات کا ہے کہ وہ رزائل کو دور کرکے عبدیت پر راضی ہوجائے۔ کتنی ہی اسلامی تحریکات ہیں جو لوگوں کے قلوب تک پہنچنے کے بجائے محض عقلی تقریر وں کی بنیاد پر ان کے مقام کو درست کرنے کی ناکام سعی کرتی ہیں۔ آخر کیا راز ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت باوجود عقلی مسلمان ہونے کہ اسلام میں داخل نہیں ہوپاتی؟

جب انسان کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مقام پہچان کر اس میں بلندی حاصل کرلے تو وہ مشاہدے کے قابل ہوجاتا ہے کہ جو کچھ اس کے حواس کے سامنے پیش آئے اور جو کچھ اس کے قلب پر وارد ہو اس سے صحیح نتائج اخذ کرسکے۔ جب تک اس کے اندر عبدیت اور ربوبیت کو قبول کرنے اور اسپر راضی ہونے کی کیفیت نہیں ہوگی تو اس کا زاویہ نگاہ (vision) اور تناظر ٹھیک نہیں ہوگا۔ ایسا اس لیے کہ اصل میں تو وہ عبد ہے مگر جب رب کا بندہ بننے کی خواہش نہ ہوگی تو جس چیز کا بھی وہ مشاہدہ کرے گا غلط مقام و نقطہ نگاہ (distorted vision)سے دیکھے گا اور نتیجتاً اس کی حقیقت تک رسائی حاصل نہ کرسکے گا۔ مگر جب اس کے ادراک کامقام درست ہوگا تو وہ معروضیت یعنی objectivity (چیزوں کو جیسی وہ ہیں ویسی دیکھنے) کے لائق ہوجاتا ہے کیونکہ شہوت وغضب کو رد کرکے وہ اس مقام سے دیکھنے لگتا ہے جو اس کا اصل مقام ہے۔ جب قلب شہوت و غضب سے پاک اور عشق الہی سے معمور ہو تو ایسے شفاف آئینے کی مانند ہوجاتا ہے جہاں انوار الٰہی منعکس ہوتے ہیں ۔

حدیث شریف میں ارشاد فرمایاگیا کہ ’بندۂ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘، ایسا قلب ادراک حقیقت کے قابل ہوجاتا ہے اور اسی کو معروضیت کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں بیان ہوا کہ جب بندہ مومن فرائض اور نوافل پر استقامت اختیار کرکے اپنے رب کا قر ب اختیار کرتا ہے تو پھر اللہ تعالی اس کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔ خوب سن لو کہ معروضیت کی بلند ترین سطح یہی ہے کہ انسان پوری طرح خدائی تناظر (perspective) میں آجائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلاَمِ (اللہ تعالی جس شخص کو راہ راست دکھانا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے)۔ رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ شرح صدر سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ نور ہے جو اللہ تعالی دل میں ڈالتا ہے اور جب پوچھا گیا کہ اس کی علامت کیا ہے تو حبیب خداﷺ نے فرمایا ’اس دار غرور سے کنارہ کشی اور ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف رجوع اختیار کرنا‘۔ قرآن میں ارشاد ہوا: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا (انفال: ۲۹) ’اے ایمان والو اگر تم خدا خوفی اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں ایک کسوٹی فراہم کردے گا (جسکے ذریعے تم حق و باطل میں تمیز کرسکوگے )‘۔ جان لو تقوی و زہد ہی معروضیت ہیں ، بجز تقوی اور نفس کشی کے ادراک حقیقت اور سعادت اخروی کی امید نہیں کی جاسکتی۔

وہ لوگ جو اللہ ہی کے لیے ہو لیتے ہیں امام ابو نصر سراج طوسیؒ نے ان کے بالترتیب سات مقامات بیان فرمائے ہیں: (ا) مقام توبہ (۲) مقام ورع (۳) مقام زھد (۴) مقام فقر (۵) مقام صبر (۶) مقام توکل اور (۷) مقام رضا (۲۶) ۔ انہی مقامات کے ادراک میں درجات بلند کرکے بندہ مومن ادراک حقیقت کے لائق ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس جسکا حال اور مقام جتنا بلند ہوتا ہے اس کا مشاہدہ بھی اتنا ہی معروضی اور درست ہوتا ہے۔ معروضیت قلب کو غضب و شہوت سے پاک کرکے اسے انوار الہی کا مسکن بنانے سے حاصل ہوتی ہے، عقلیت دماغی کے استعمال اور فروغ سے حاصل نہیں ہوتی۔ جو قلب طاہر نہیں وہ حقیقت کا شناسا نہیں ہوسکتا اور اس کا غضب و شہوت اس کے احساس پر غالب ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں کفار کے بارے میں ارشاد ہوا : بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ (دراصل ان کے قلوب پر ان کے گناہوں کے سبب زنگ چڑھ گیا ہے)۔ چونکہ ایسے شخص کا حال درست نہیں لہذا وہ کائنات میں اپنے مقام سے نہ آگاہ ہوسکتا ہے اور نہ مطمئن۔ ایسا شخص حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی کائنات تخلیق کرنا چاہتا ہے، ایک ایسی کائنات جو اس کی خودی (شہوت و غضب) کا اظہار بن سکے ۔ خود اظہاری (self-expression) کی اسی جستجو کو subjectivity (یعنی چیزوں کو اپنی ذات کی عینک سے دیکھنا) کہتے ہیں۔ خود اظہاری یا نفس پرستی کی یہ جستجو قلب اور حقیقت کے درمیان ایسے تاریک پردے حائل کردیتی ہے کہ انسان کو کائنات کی ہر شے میں اپنی ذات کا پرتو نظر آتا ہے۔ ایسا شخص ہر چیز کو ذاتی تناظر میں (subjectively) دیکھے گا، یعنی جو چیزیں اس کے مشاہدے میں آرہی ہیں کس طرح اس کے غضب یا شہوت کی تسکین کا باعث بن سکتی ہیں۔ معروضیت درحقیقت فنا (تمام خواہشات کو ختم کرکے نفس مطمئنہ کا درجہ حاصل کرلینے) کا دوسرا نام ہے۔ چونکہ فی الواقعہ انسان عبد ہے اس لیے اس subjectivity میں ہی objectivity ہے اس لیے کہ حقیقت یہی ہے اور فرد خود کو اس پوزیشن میں لے آتا ہے جو اس کا اصل میں حق مقام ہے۔ اسی لیے اللہ کا ایک نام حق بھی ہے اور ہم عبد الحق ہیں۔ یاد رکھو عقلیت دماغی عقلیت قلب کے ماتحت ہے۔ اگر قلب شہوت و غضب سے مغلوب ہے تو عقلیت دماغی شہوت و غضب کے فروغ کے طریقوں کی نشاندہی کرے گی۔ عقلیت دماغ کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس کی مدد سے قلب کو شہوت و غضب سے پاک کیا جا سکے۔ سترہویں صدی سے لیکر آج تک کی مغربی تاریخ اسی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ وہاں عقلیت دماغی کو شہوت و غضب کی تسکین و فروغ کا ذریعہ بنایا گیا ہے (۲۷) ۔

دھیان رہے کہ یہ جو غیر جانبدار (neutral) ہونے کی دعوت دی جاتی ہے محض فریب اور جھوٹ ہے، اس دنیا میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں پہنچ کر انسان غیر جانبدار ہوجائے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ’تم مسلمان کے بجائے غیر جانبدار ہو کر غور کرو ‘ یہ نری جہالت ہے، کیا اسلا م سے باہر نکل کر انسان کافر ہوتا ہے یا غیر جانبدار ؟ کیا کفر بذات خود ایک جانبدارانہ مقام نہیں؟ ائمہ علم الکلام نے جو ’ المنزلۃ بین المنزلتین‘ (۲۸) کے عقیدے کی بیخ کنی فرما ئی یہ اسی گمراہی سے امت کو بچانے کے لیے فرمائی۔ عبدیت سے باہر نکل کر انسانی عقل غیر جانبدار نہیں بلکہ خواہشات اور شیاطین کی غلام ہو جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا : فَاِن لَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُونَ اَھْوَاءَہُمْ وَمَنْ اَضَلَّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہِ (پس اے رسول اگر وہ قبول نہ کریں آپ کے ارشاد کو تو جان لو کہ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیرو کارہیں اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو خدائی ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرے)، مزید فرمایا: لاَ تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ (اس شخص کی اطاعت نہ کرجس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور جس نے اپنے خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے) ، نیز: مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَاناً فَہُوَ لَہُ قَرِینٌ (جو کوئی رحمن کے ذکر سے منہ موڑتا ہے تو ہم اس کے اوپر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اس کا دوست بن جاتا ہے)۔

جب فرد اپنے مقام کو پہچان کر مشاہدے کے قابل ہوجاتا ہے تو پھر اس مشاہدے کے دو طریقے ہیں، ایک وہ جسے مراقبہ کہتے ہیں اور دوسرے کو مجاہدہ۔ مشاہدہ ایک تو اس چیز کا ہے کہ انسان پر ان حقیقتوں کو وارد کرے جو عقل و حواس سے ماوراء ہیں، یعنی جن کا تعلق عالم لاہوت وغیرہ سے ہے۔ یہ وہ دائرہ ہے جن سے مابعد الطبعیات (metaphysics) بحث کرتی ہے اور جہاں عقل کی رسائی ممکن نہیں۔ ان حقائق کو قلبی کیفیات پر وارد کرنے کی سعی کو مراقبہ کہتے ہیں۔ انسان جتنا زیادہ اپنے مقام کا ادراک حاصل کرتا ہے اور اس کا مشاہدہ جتنا زیادہ معروضی ہوجاتا ہے اس کے قلب پر بذریعہ مراقبہ سکون نازل ہوتا ہے اور اس کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے ۔ مراقبے سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان اپنے قلب کو پاک کرلے اور اس کے اندر وہ کیفیت پیدا ہوجائے جسے نفس مطمئنہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ وہ ذریعہ ہے جس سے گزر کر فرد استقامت اختیار کرتا ہے اس نعمت پر جو اللہ تعالی اسے عطا فرماتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ محض مراقبہ کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جہاں لوگ گمراہ ہیں وہاں ہدایت و ارشاد کی شمع جلانا اور جہاں غیر اللہ کا حکم جاری ہے وہاں غلبہ اسلام کی کوشش کرنا بھی لازم ہے، بصورت دیگر مراقبہ ایک بے جان شے بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ مراقبہ انسان کو فنا فی اللہ کے لیے تیار کرتا ہے لیکن اگر گرد وپیش کے ماحول میں فنا کے مواقع ہی موجود نہ ہوں تو مراقبہ صرف اپنے اندر جانے کی چند ٹیکنیک کا نام رہ جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے عالم انوار تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ فنا عملاً ممکن ہوسکے یعنی ایسی معاشرت و ریاست موجود ہو جو تطہیر قلب اور اسلامی انفرایت کے فروغ کو ممکن بنائے ۔ حصول فنا کا جو طریقہ سنت نبویﷺ سے ثابت ہے وہ جہاد کا طریقہ ہے کیونکہ منزل جہاد منصب ارشاد کا لازمی نتیجہ ہے اور جب صوفیاء تحریکیں جہاد سے ہاتھ کھینچ لیتی ہیں تو نہ صرف یہ کہ ان کا معاشرتی اثر بھی زائل ہوجاتا ہے بلکہ وہ ایک بے جان ساخت بن کر رہ جاتی ہیں ۔

واضح رہنا چاہیے کہ اصلاح معاشرہ اور قیام ریاست بذات خود مطلوب نہیں بلکہ تطہیر قلوب کا ذریعہ ہے ۔ تعمیر معاشرہ اور ریاست کی کوشش اسی حد تک رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہیں جس حد تک ان کے ذریعے تطہیر قلوب ممکن ہو (۲۹)۔ غلبہ اسلام تطہیر قلب کے ہم معنی ہے، ہر تاریخی دور میں اسلام اتنا ہی غالب ہوتا ہے جتنی عقیدے اور حال کی درستگی عام ہوتی ہے۔ اسلامی ریاست کا کام یا اس کے اثر اور حدود میں توسیع تطہیر قلوب کا ذریعہ بن کر غلبہ اسلامی کو ممکن بناتا ہے۔ پس غلبہ اسلامی تطہیر قلوب کا ہم معنی ہے قیام و استحکام ریاست کا ہم معنی نہیں۔ تطہیر قلوب کا اسلامی طریقہ تصوف ہے اور اسی طریقے پر امت کا عمل رہا ہے۔ تصوف کا تربیتی نظام قلوب کو شہوت و غضب سے پاک کرکے ان کو عشق الہی سے معمور کردیتا ہے۔ معروف سلسلہ ہائے تصوف سے تعلق اتنا ہی ضروری اور مفید ہے جتنا آئمہ اربعہ سے مطابقت اور تعلق ضروری اور مفید ہے۔ جن تحریکات نے تطہیر قلوب کے لیے طریقہ تصوف کو ترک کیا وہ اپنے کارکنان کے لیے تطہیر قلوب کا کوئی دوسرا طریقہ وضع نہ کرسکے اور نتیجتاً وہ بڑے خیر سے محروم ہوگئیں۔

المختصر دعوت کا مقصد فرد کے لیے جنت میں داخلے کو آسان بنانا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر تحریکات اسلامی اس بات کی کوشش کرتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ان تمام مراحل سے گزار لیں، یعنی :

(۱) فرد کی نیت ٹھیک کردیں ۔

(۲) اس کا حال ٹھیک کردیں ۔

(۳) وہ اپنے مقام کو پہچان کر اسپر راضی ہوجائے ۔

(۴) اس پہچاننے اور راضی ہونے کی بناء پر وہ اس مشاہدے کے لائق ہوجائے جس کے ذریعے حقیقت تک رسائی ممکن ہے۔

(۵) پھر اس رسائی کو تعمیر کرنے اور تقویت دینے کے لیے لوگوں کو مراقبے کے لیے تیار کریں کہ وہ اپنی نیت حال اور مقام پر مستحکم رہیں اور اس دعوت کو عام کرنے کے لیے جہاد بطور بنیادی طریقہ اختیار کریں کہ جسکے ذریعے فرد اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ سنت نبویﷺ کو نہ صرف قائم کرسکے بلکہ قائم رکھ بھی سکے

خوب سمجھ لو کہ اگر جہاد کو ترک کردیا جائے تو باقی تمام مراحل بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ نیتیں بھی آلودہ ہونے لگتی ہیں (یعنی فرد میں حصول رضائے الٰہی اور حصول جنت کا جذبہ مدہم پڑجاتا ہے اور شہوت و غضب اس کے قلب کو گھیر لیتے ہیں )۔ اسی طرح اگر جہاد کا تعلق بھی باقی تمام مراحل سے کٹ جائے تو محض قتال بن جاتا ہے اور ایسا جہاد معاشرے اور تاریخ پر اثر نہیں چھوڑتا۔ یہ بھی اچھی طرح جان لو کہ یہ سب کام ایک مسلسل عمل (process) ہے، ان میں تقدیم و تاخیر کا سوال غیر اہم ہے۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج میں اپنی نیت ٹھیک کرلوں، کل حال کی فکر کروں گا، پرسوں مقام کو پہچانوں گا، پھر مشاہدہ کرکے جمعہ کے روز جہاد کروں گا۔ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے اسی لیے اداروں (institutions) کا قیام ناگزیر ہے جو ایک مستقل عمل کو چلاتے رہیں اور ہمیشہ نیتیں بھی ٹھیک ہوتی رہیں، ہمیشہ حال بھی درست ہوتا رہے، ہمیشہ لوگ اپنا مقام بھی پہچانتے رہیں اور ہمیشہ جہاد بھی جاری و ساری رہے۔ یہ سب بیک وقت کرنے کے کام ہیں۔ ان میں پہلے اور بعد یا زیادہ اہم اور کم اہم کا سوال نہیں ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ کسی معاشرے میں جب تعلیم کو عام کرنا ہو تو وہاں اس کولوں کی تعمیر، اساتذہ کی تربیت، بچوں کی تعلیم، ماں باپ میں تعلیم کی اہمیت کے احساسات کا فروغ ، نصاب کی تعمیر و تطہیر ، ریاستی تعلیمی پالیسی کا وضع کرنااور اس کی پشت پناہی کے لیے مناسب قانونی انتظام کا بندوبست وغیرہ سب پر ایک ساتھ توجہ کی جاتی ہے۔ پس اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عقائد کا درست ہونا حال کے درست ہونے پر اور کائنات میں اپنے صحیح مقام کو پہچاننے پر منحصر ہے۔ حال درست اس وقت ہوتا ہے جب قلب ایمان باللہ اور اخلاص فی اللہ سے معمور ہو۔ اگر ایمان کمزور اور اخلاص نا پید ہو تو انسان کے احساسات ایسے نہ ہونگے جو حال کی درستگی اور مقام کی اصلیت تک پہنچنے کے لیے مدد گار ہوں۔

حقیقت الہی کا ادراک صرف ان قلوب کے لیے ممکن ہوتا ہے جو عشق سے سرشار اور شہوت و غضب سے پاک ہوں۔ عشق عبادت اور خود فراموشی کو ممکن بناتا ہے۔ عشق مومن کا دائمی حال اور تحریکات اسلامی کا اساسی جذبہ ہے۔ تحریک اسلامی کا کارکن اصلاً اور فطرتاً ایک عاشق ہوتا ہے۔ اسے خدا سے محبت ہوتی ہے اسے عبادت کہتے ہیں، اسے خدا کے بندوں سے محبت ہوتی ہے اسے رفاقت کہتے ہیں۔ تحریک اسلامی کا کارکن عشق کے جذبے سے سرشار ہو کر ہی میدان کارزار میں اترتا ہے۔ اس کو اپنے رفیقوں کی فلاح اور اخروی کامیابی کی تمنا ہوتی ہے اور وہ انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اس کی یہی وارفتگی اور خود فراموشی دعوت کے مخاطب کا حال بدل دیتی ہے۔ وہ تحریک اسلامی کے کارکن کو اپنا محب، محسن اور اپنا اتنا بہی خواہ سمجھنے لگتا ہے کہ اپنا سب اس کے سپرد کردیتا ہے۔ خوب سن رکھو کہ لوگ ایمان دل کے بدلنے کی وجہ سے لاتے ہیں۔ دعوت اسلامی اگر پنپ سکتی ہے تو صرف محبت کی بنیاد پر خود غرضی اور حسد کی بنیاد پر ہرگز نہیں پنپ سکتی۔ خود غرضی اور حسد کو بنیاد بنا کر غیر کو اپنایا نہیں جاتا بلکہ اسے تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ تمام غیر اسلامی تحاریک (مثلاً لبرل ازم، قوم پرستی ، اشتراکیت وغیرہ) غیر کو فنا کرنے کی تحاریک ہیں۔ ان کی دعوت خود غرضی اور نفس پرستی کی دعوت ہے، وہ شہوت اور غضب کو فروغ دیتی ہیں۔ لبرلزم فرد کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ وہ اپنی انفرادی آزادی کے حصول اور توسیع کو ہر چیز پر مقدم رکھے، کسی غیر کو اس کی خواہش کی تحدید کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد نفسانی خواہشات کی تسکین کے سواء کچھ نہیں ہوتا۔ وہ فطرتا شہوت اور ہوس سے مغلوب ہوتا ہے۔ قوم پرستی اور اشتراکیت انسانی گروہ کی خدائی کے قیام و استحکام کے دلدادہ ہیں۔ ایک قوم پرست اپنی شخصیت اپنی قوم میں سمو دیتا ہے، وہ اپنی قوم کو دیگر اقوام پر فوقیت دیتا ہے اور اسی فوقیت کا تحکم اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ وہ دیگر قوموں کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور ان سے سب کچھ چھین لینا چاہتا ہے ۔ ایک قوم پرست کے قلب پر غضب کا پردہ پڑا رہتا ہے اور یہی اس کی subjectification ہے کہ وہ غضب کو فروغ دیکر اپنی قوم کی پرستش کرتا ہے۔ اگر تم قوم پرست اور اشتراکی کی قلبی کیفیات پر غور کرو تو جان لو گے کہ اشتراکی کا قلب بھی حسد اور غضب کے اندھیروں کا شکار ہوتا ہے۔ حقیقت کا شناسا عشق کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے اور یہی مومن کا اصل حال ہے۔ فتح مکہ کے وقت حضور پر نورﷺ نے جو اسوہ حسنہ اختیار فرمایا وہ ایک مومن اور قوم پرست کے حال کا فرق واضح کرتا ہے۔ مومن عشق سے معمور ہوتا ہے جبکہ کافر و فاسق شہوت و غضب سے مغلوب ہوتے ہیں۔ کافر صرف اپنی ذات سے محبت کرسکتا ہے، وہ ہستی کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ ہستی کی بقا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ تمام تعلقات استوار کیے جائیں جو انسان کے حقیقی مقام کا تعین کرتے ہیں۔ ہستی کی بقا کا وسیلہ محبت ہے:

خدا سے محبت جو کہ عبدیت ہے
بندوں سے محبت جو کہ رفاقت ہے
کائنات سے محبت جو کہ خلافت ہے
کافر خدا کی ربوبیت کا انکار کرکے خود خدا بننے کی جستجو میں دوسرے انسانوں پر ظلم کرکے انہیں اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی باطل جستجو میں وہ کائنات کو مسخر کرتاہے۔ وہ رفاقت اور خلافت کا اہل نہیں کہ اس کا قلب شہوت و غضب کی آماجگاہ ہوتا ہے۔ اس کا مقام ایک سرکش باغی کا مقام ہے۔ اس کی معاشرت اغراض کی معاشرت ہے۔ اغراض کی اس جستجو کو اسنے حقوق (قومی حقوق، انسانی حقوق وغیرہ) کا نام دیا ہے۔ اس کی سیاست بھی حقوق کی سیاست ہوتی ہے جسکا مقصد انسانوں کی ربوبیت یعنی جمہوریت کا قیام و استحکام ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کی نیت حصول آزادی اور پرستش نفس ہے، اس کا حال شہوت و غضب اور اضطرار ہے، اس کا مقام باغی کا مقام ہے، اس کا مشاہدہ دنیا ہے اور اس کا مجاہدہ اسی مقصد یعنی تصرف فی الارض میں لامحدود اضافے کی سعی کرنا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس برے حال اور مقام سے محفوظ فرمائے ۔

حواشی

  • مضمون میں ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کے مضامین ’حال و مقام‘ ، ’فرد، معاشرہ و ریاست‘ اور ’عالم اسلام اور مغرب کی کشمکش: نئے تناظر میں‘‘ سے جا بجا مدد لی گئی ہے اور ان کے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں ۔

۱۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ معاشرتی تعلقات بھی احساسات پر اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ ان تعلقات کے نتیجے میں فرد اپنی ذات کا ادراک کرلیتا ہے کہ وہ کون ہے اور اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے ۔

۲۔ یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ ریاست اپنے جبر کے ذریعے مخصوص اقداری تبدیلی کو ممکن اور سہل بنا دیتی ہے ۔

۳۔ جو لوگ انسانی زندگی کی کلیت کو سمجھنے سے قاصر رہے انہوں نے مذہبی تعلیمات کو اصل اور اضافی کے خانوں میں بانٹ کر یہ کہا کہ وہ تعلیمات جنکا تعلق فرد کی ذاتی زندگی سے ہے وہی شریعت کا اصل مدعا ہیں، باقی رہیں اجتماعی تعلیمات تو انکی حیثیت اضافی اعمال کی ہے نیز انکے قیام کا فرد سے کوئی لازمی مطالبہ نہیں۔ اس فلسفے کے تحت انہوں نے فریضہ اقامت دین کو سرے سے ساقط ٹھرا دیا اور یہ دعوے کیے کہ ’اسلام مکمل بندگی کا نام ہے نہ کہ مکمل نظام کا‘۔ نجانے انسانی زندگی کے مکمل نظام کو خدائی اطاعت کا پابند بنائے بغیر مکمل بندگی اختیار کرسکنے کا کون سا طریقہ ممکن ہے؟

۴۔ قرآنی آیت ’انا ربکم الاعلی قالوا بلی‘ کی طرف اشارہ ہے ۔

۵۔ مغربی فلسفے کے مرکزی دھارے سے مرادفکر تنویر (Enlightenment) ہے جسکا آغاز سترہویں صدی میں ڈیکارٹ سے ہوا اور جسے لاک، ہیوم، کانٹ، ہیگل اور مارکس وغیرہ نے مرتب کیا ۔ مغربی فکر کا دوسرا دھارا تحریک رومانویت (Romanticism)تھی جسے تحریک تنویر کے مقابلے میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوسکی ۔

۶۔ یہ تصور سب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ کانٹ نے پیش کیا ۔

۷۔ ہیوم کا مشہور قول ہے کہ ‘Reason is the slave of passions’

۸۔ معجزہ وہ چیز ہے جس کی توجیہہ دماغی عقلیت کے لیے ناممکن ہو۔ چونکہ نو مسلم کے قلب میں تغیر واقع ہوتا ہے اور قلبی تغیر کی وجوہات دماغی عقلیت کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں اس لئے ایک معجزہ ہوتی ہیں ۔

۹۔ یہاں یاد رکھنا چاہئے گو سائنس میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ سائنسی طریقہ علم (scientific method) سے حاصل کردہ علم محض دماغی عقلیت کا مظہر ہوتاہے اور جو شخصی خصوصیات سے ماوراء ہوتا ہے مگر یہ دعوی غلط ہے کیونکہ سائنٹفک میتھڈ بذات خود مخصوص (سرمایہ دارانہ ) انفرادیت ہی کا اظہار ہے۔ سائنسی مشاہدے کے لیے سائنسی تناظر اختیار کرنا لازم ہے بصورت دیگر سائنسی مشاہدہ ممکن نہیں ہوتا۔ سائنٹفک میتھڈ ان معنی میں اور بھی زیادہ خطرناک ہے کہ یہ شخصیت کو بھی جامد (fix) کردیتا ہے اور ہر وہ شخص جو اس طریقہ علم کو اختیار کرتا ہے لازماً اس مخصوص انفرادیت میں ڈھل جاتا ہے ۔

۱۰۔ وجود اور ہستی میں فرق کرنا لازم ہے۔ وجود اللہ تعالی کی نعمت ہے جو اس نے ہر فرد کو عطا فرمائی۔ وجود ہر شخص کا جدا ہے اور اس کی انفرادیت قائم رکھنا نہایت ضروری ہے ، اسی لئے شریعت پر عمل ہر حال میں لازم ہے۔ ہستی تعلقات کے اس مجموعے کا نام ہے جس کے ذریعے انسان دوسرے افراد سے، کائنات سے اور خدا سے اپنے تعلق کو سمجھتا بھی ہے اور قائم بھی رکھتا ہے۔ ہستی کو قائم کرنے کا بنیادی ذریعہ ذکر یعنی یاد ہے اور اسی وجہ سے ذکر اللہ کی اہمیت بیان فرمائی گئی ہے ۔

۱۱۔ سورۃ آل عمران کی آیت ادخلوا فی السلم کافۃ کی طرف اشارہ ہے ۔

۱۲۔ تصور شیخ کی بحث اور اس کی اہمیت کو اس تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے ۔

۱۳۔ حال ظاہری اعمال و قلبی کیفیات دونوں کے مجموعے کا نام ہے ۔

۱۴۔ آزادی کی پرستار انفرادیت اظہار ذات کے تمام طریقوں کے سامنے پیش کی جانے والی ہر قسم کی رکاوٹوں (مذہبی، معاشرتی، ریاستی وغیرہ) کو ہٹا دینا چاہتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ یہ تمام رکاوٹیں یک جنبش ختم ہوجاتی ہیں بلکہ یہ تدریجی عمل ہوتا ہے جیسا کہ عیسائی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہے کہ سب سے پہلے باغی انفرادیت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے مذہب کی معتبر تاریخ کو ترک کرکے اصلاح و تعبیر مذہب کے نام پر نئے تقاضوں کی مذہب میں گنجائش پیدا کی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ جب نفس پرست انفرادیت کے نفس امارہ کی خوب پرورش ہوجاتی ہے اور وہ منکرات کا رسیا ہوجاتا ہے تو وہ رہی سہی مذہبیت کا بھی انکاری ہوجاتا ہے۔ یہی حال موجودہ دور میں متجدیدین کا ہے کہ بجائے نفس پرست انسان کی تطہیر قلب کی فکر کرنے کے وہ نئے تقاضوں کی روشنی میں اسلام کی تشریحات کرکے فنون لطیفہ وغیرہ کا جواز فراہم کرنے میں مصروف ہیں

۱۵۔ آزادی کیلئے قرآنی اصطلاح بغی ہے جیسا کہ سورۃ نحل میں فرمایا ’ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی وینہی عن الفحشاء والمنکر والبغی‘

۱۶۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے ورود میں انقلابات برطانیہ و فرانس ، استعماری دور میں ہونے والی لوٹ مار، عیسائی تعلیمات کی کمزوری اور عیسائی علماء کے نفاق وغیرہ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ تفصیلات کیلئے دیکھئے ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری کا مضمون ’عالم اسلام اور مغرب کی کشمکش: نئے تناظر میں‘ ، ماہنامہ ساحل شمارہ اگست ۲۰۰۶

۱۷۔ مجاہدین لال مسجد کے ساتھ ہونے والا سلوک اس کی واضح مثال ہے جہاں ریاست نے زنا کاری پھیلانے والے عناصر کی خبر لینے کے بجائے اصول آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے مجاہدین پر مظالم توڑ کر ہیومن رائٹس کا تحفظ کیا

۱۸۔ کانٹ کہتا ہے کہ انسان قائم بالذات (autonomous) ہے، وہ کہتا ہے کہ Enlightement کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنی صمدیت (self-sufficiency) کو پہچانے اور ہر بیرونی سہارے کو رد کرے، جو ایسا نہیں مانتا وہ کم عقل (immature) ہے اور ہیومن کہلانے کا اہل نہیں

۱۹۔ سوشل سائنسز میں خلوص، محبت، صلہ رحمی، گناہ وغیرہ کی اصطلاحات کلیتاً غائب ہیں کیونکہ انکی جگہ ’عمرانی معاہدے ‘ کے تصور نے لے لی ہے

۲۰۔ فیشن کا مطلب ہے بے معنی کاموں میں معنی تلاش کرنا ۔ کیونکہ مغربی فرد وجود کی لامعنویت کا قائل ہوچکا لہٰذا وہ ہر اس طریقے سے اپنی خودی کا اظہار کرتا ہے جسے لوگ عام طور بے معنی سمجھتے ہیں۔ اس طرز عمل کی بین مثالیں اچھوتے لباس، داڑھی اور سر کے بالوں کے مختلف انداز، نت نئے کھیلوں کی ایجاد ، گانے بجانے کے بے ڈھنگ طریقوں، فنون لطیفہ کے فروغ وغیرہ کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ الغرض خبط پن کے ہر طریقے کو ذات کے با معنی اظہار کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے

۲۱۔ انگریزی میں ابلیس کا لغوی معنی the frustrated one ہیں یعنی وہی کیفیت جسکا مغربی فرد شکار ہے

۲۲۔ سرمایہ داری کوئی نظریہ نہیں بلکہ نظام زندگی ہے جسکے مختلف نظریات اور تعبیرات (لبرلزم، قوم پرستی، اشتراکیت) ہیں۔ ہر تعبیر کی تفصیلات میں اختلاف ہے البتہ مقصد سب کے نزدیک یکساں ہے (یعنی انسانی ارادے کی بالادستی )۔ یہ اسی بات کا اظہار ہے کہ لبرل ممالک (مثلاً امریکہ یا یورپ) ہوں یا اشتراکی (مثلاً روس یاچین)، ہر جگہ اخلاق رزیلہ سے متصف ایک ہی جیسی انفرادیت پروان چڑھتی ہے نیز ہر جگہ یکساں نوعیت کی غلیظ معاشرت عام ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک معاشرے میں ولی اللہ ، عبادت گزار اور متقی پیدا ہوتے ہیں اور دوسری جگہ فساق و فجار۔ نہیں بلکہ ان میں سے جو بھی نظریہ کسی معاشرے پر غالب آیا وہاں بلا کسی استثناء خدا کی باغی اور جہنمی اعمال کرنے والی انفرادیت عام ہوئی

۲۳۔ قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا نظام اقتدار (state) لبرل نظام اقتدار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس نظامِ اقتدار میں غالب قوم یا طبقہ کی نمائندگی ایک رہبر (ہٹلر، اسٹالن) یا ایک پارٹی (نازی یا کمیونسٹ) کرتی ہے۔ اس فرد یا جماعت کا حق ہے کہ وہ خیر اور شر کی تعبیر و تشریح کرے جو اس کی آزادی اور ترقی کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو اور اس غالب فرد یا جماعت کا فائدہ ہی پوری قوم اور طبقہ کا فائدہ تصور کیا جاتا ہے۔ دیگر افراد کا فرض ہے کہ وہ اپنی انفرادیت، غالب پارٹی یا رہنما کی انفرادیت میں ضم کر دیں۔ اس عمل میں مہمیز دینے کے لیے چین میں ۱۹۶۶ء میں مشہور ثقافتی انقلاب (Cultural Revolution) برپا کیا گیا اور نازی جرمن اور سویت یونین کی ثقافتی پالیسی سوپرمین (Superman)، نیومین (New man)اور سوویٹ مین(Souvait man) کو وجود میں لانے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن تاریخ نے ثابت کر دیا جب سرمایہ کی بڑھوتری مقصد وجود کے طور پر اجتماعی سطح پر قبول کیا جاتا ہے تو بیشتر افراد کی زندگی فاسد اور رذیل رجحانات سے ملوث ہوجاتی ہے جس کا اظہار نظام اقتدار اور غالب قائد یا پارٹی کرتی ہے۔ لہٰذا قوم پرست یا اشتراکی انفرادیت کو عام آدمی ہیجانی ادوار کے علاوہ کبھی بھی قبول نہ کرسکا اور غالب قیادت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں ایک آدمی کی زندگی میں ہوس، حرص، شہوت رانی، دنیا پرستی، خود غرضی اور سفاکیت نے فروغ پایا اور اس کو اشتراکی اور قوم پرست نظام اقتدار کے فروغ اور استحکام کے لیے ریاستی استبداد کے ذریعہ عام آدمی کو مسلسل مجبور کرنا پڑا۔ جیسے جیسے ریاستی استبدادی گرفت ڈھیلی پڑی، عام آدمی نے اشتراکی نظام سے چھٹکارا حاصل کر کے بدترین اخلاقی رزائل کو اپنا لیا۔ لوٹ مار، جھوٹ، دھوکہ اور فریب، جنسی بے راہ روی اور فحاشی کا جو سیلاب مشرقی یورپ، روس اور چین کے ساحلی شہروں میں آیا ہوا ہے اس کی مثال تو یورپ اور امریکہ کے غلیظ ترین معاشرہ میں بھی نہیں ملتی۔ اس سے ثابت ہوا کہ اشتراکی یا قوم پرست انفرادیت کوئی علیحدہ چیز نہیں سرمایہ دارانہ انفرادیت وہ انفرادیت ہے جو:

الوہیت human being کی طالب ہے
جس کے احساسات اور خواہشات پر حرص اور حسد شہوت اور غضب حاوی ہوجاتے ہیں
اور جو اپنی عقل کو ان ہی رذائل کے اظہار کے لیے بذریعہ بڑھوتری سرمایہ استعمال کرتی ہے
یہ انفرادیت شخصی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی (قومی طبقاتی) بھی، دونوں صورتوں میں اس انفرادیت کو پنپنے کے لیے سرمایہ دارانہ معاشرت کی ضرورت ہوتی ہے۔

۲۴۔ امام ابو نصر طوسیؒ اپنی کتاب اللمع فی التصوف میں بندہ مومن کے جن احوال کا ذکر فرماتے ہیں وہ یہ ہیں: (۱) حال مراقبہ (۲) حال قرب (۳) حال محبت (۴) حال خوف (۵) حال رجاء (۶) حال شوق (۷) حال انس (۸) حال اطمینان (۹) حال مشاہدہ اور (۱۰) حال یقین

۲۵۔ حال کا انحصار دو چیزوں پر ہے، ایک نیت اور دوئم اخلاص۔ صوفیاء کے نزدیک وہ حال جسکی بنیاد پر نیت اور اخلاص کو ٹھیک رکھا جا سکتا ہے وہ محبت کی کیفیت ہے۔ یعنی اگر کیفیت ایک عاشق کی ہے تو ہماری نیت بھی ٹھیک ہوسکتی ہے اور اخلاص بھی قائم رہ سکتا ہے اور ہم کائنات میں اپنے مقام پر مطمئن اور راضی ہوسکتے ہیں۔ ہائیڈیگر کے الفاظ میں we are in home at the world والی کیفیت ہوگی۔ اگر بنیادی کیفیت عشق کی نہیں ہے تو جیسا صوفیاء نے ارشاد فرمایا کہ دو ہی کیفیات ہو سکتی ہیں، (۱) شہوت (۲) غضب۔ ان دونوں کیفیات کے نتیجے میں ہم اس مقام سے مطمئن نہیں رہ سکتے جس میں خود کو پاتے ہیں اس لیے یا تو ہمیں ہوس اور شہوت دامنگیر ہوگی اور یا پھر حسد و غضب ۔ دونوں خبیث قوتوں کا بنیادی جذبہ تخریب ہے، یہ جذبہ ہمیں کائنات کو مسخر کرنے کے لیے آمادہ کرتا ہے جسکے نتیجے میں فساد برپا ہوتا ہے اور ہمیں ایک ایسا مقام حاصل کرنے کی طرف راغب کرتا ہے جو ہمارا حقیقی مقام نہیں ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں نہ تو ہماری نیت ٹھیک رہ سکتی ہے اور نہ ہی حال ۔

۲۶۔ دیکھیے ان کی کتاب اللمع فی التصوف

۲۷۔ آج کا پس جدیدی (post-modern) فلسفہ اس بات کا معترف ہے کہ عقلیت دماغی کے ذریعے غضب اور شہوت پر قابو پانا ناممکن ہے۔ عقلیت دماغی کسی معروضی اور آفاقی اخلاقیات کی نشاندہی یا تعبیر کرنے سے قاصر ہے۔ شہوت و غضب سے مغلوب ہوکر عقلیت دماغی کے ذریعے عیسائی اخلاقیات کو رد تو کردیا گیا لیکن اس کی جگہ کوئی اثباتی اخلاقی نظام آج تک مروج نہ ہوسکا اور جو کچھ مغرب میں قائم ہے تو وہ محض سرمایہ دارانہ اخلاقی قدروں (شہوت و غضب) کا غماز ہے ۔

۲۸۔ معتزلہ کا عقیدہ تھا کہ کفر اور اسلام کے درمیان ایک ایسا مقام بھی ہے جہاں انسان نہ کافر ہوتا ہے اور نہ مسلمان۔ ان کے خیال میں گناہ کبیرہ کا مرتکب اسلام سے نکل کر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔

۲۹۔ تطہیر قلب ، اصلاح معاشرہ اور قیام ریاست کے کاموں کے ربط کو اچھی طرح سمجھنا تحریکات اسلامی کے کارکنان کے لیے نہایت ضروری ہے۔ آج کل یہ تینوں کام ان معنی میں جدا ہوگئے ہیں کہ تطہیر نفس اور اصلاح معاشرے کاکام وہ علماء وصوفیا ء اور جماعتیں کررہی ہیں جو تعمیر ریاست کے کام سے لاتعلق ہیں، تعمیر ریاست کا کام وہ جماعتیں کررہی ہیں جن کے پاس بالعموم تطہیر قلب کا کوئی واضح ضابطہ موجود نہیں ہے۔ نتیجتاً تطہیر قلب کا کام محض تبلیغ و تطہیر اور ریاست کا کام محض قتال یا جمہوری عمل بن کر رہ گیا ہے۔ تقریباً ہر اسلامی گروہ و جماعت اپنے کام کو دوسرے اسلامی گروہ کے کام کا متبادل (substitute) اور اس سے اعلی و ارفع سمجھتی ہے جبکہ حقیقتاً ان کے درمیان تعلق ایک دوسرے کے تکملے (complementarity) کا ہے اور ان تینوں میں سے کسی دینی کام کو دوسرے دینی کام پر کوئی اقداری فوقیت حاصل نہیں۔ اصل ضرورت کسی نئے دینی کام کو شروع کرنے، یا ایک دینی کام و جماعت کو چھوڑ کر کسی دوسری دینی جماعت میں ضم ہوجانے یا کوئی ایسی نئی دینی جماعت بنانے کی نہیں جو سب کام کرے کیونکہ الحمد للہ مختلف انفرادی دینی جماعتوں کا کام مل کر مطلوبہ مجموعی دینی کام کی کفایت کرتا ہے، اصل ضرورت موجودہ دینی تحاریک کے کام میں ارتباط پیدا (relate) کرنے کی ہے۔ ہر دینی گروہ اس بات کو لازم پکڑے کہ اپنے کارکنان کو دوسری دینی تحاریک کا قدر دان بنائے اور ان کے ساتھ اشتراک عمل کرنے پر رغبت دلائے۔ جب تک اسلامی گروہوں میں اشتراک عمل کا یہ طرز فکر عام نہ ہوگا، دوسرے گروہ کے دینی کام کو برابر اہمیت نہ دی جائے گی اور مجموعی کام کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں کیا جائے گا انقلابی جدوجہد کا سہ جہتی (three dimensional) کام ادھورا ہی رہے گا۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password