فیمنزم کے کچھ محرکات درست بھی تو ہیں !

کہا جاتا ہے کہ فیمنزم کا اصل محرک تو عورت پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہے اور اسی بنیاد پر لوگ خود فیمینسٹ کہتے ہیں۔ اس بات کو جان رکھئیے کے محرکات تو کسی بڑے سے بڑے جرم کے بھی نیک نیتی پر مبنی ہو سکتے ہیں۔انسانیت میں شرک کیسے شروع ہوا، اس کی اصل وجہ قوم نوح میں کچھ افراد کا صالحین کو یاد رکھنے کا طریقہ تھا۔ اسی طرح عربوں میں شرک کی ابتدا امر بن لحی الخزاعی نے نیک نیتی سے ہی کی تھی۔ جو کے یہ تھی کے عرب قوم ترقی کر کے شام کی امالکہ قوم کے جیسی ہو۔
اور ایک اور بات بھی ذہن نشین رکھیں کے باطل بہت کم ہی “نیرا باطل” ہوتا بلکہ اکثر اوقات حق کی بنیاد کے اوپر باطل کی تہ چڑھائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے کیونکہ انسان کی فطرت میں خیر ہے اور برے سے برے انسان کی مسخ شدہ فطرت میں بھی تھوڑا بہت خیر مل سکتا ہے۔ اس خیر کو اپیل کرنے کے لئیے ہر باطل فکر میں کہیں نا کہیں سچ ہوتا ہے۔ صرف فیمینزم نہیں بلکہ کیپیٹلزم، کمیونزم ذور حتی کے بعض مشرکین بھی شرک کی یہ توجیح دیتے تھے کے ہم تو اس ایک خدا کے قریب جانا چاہتے ہیں۔
فیمینیزم کے محرکات میں یہ بہت سی چیزیں ہیں جو انسان کا فطری رد عمل ہیں۔ نا صرف مرد کی نا انصافی کے خلاف بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کے مرد و عورت میں اسلام نے قوامیت، فضیلت کو رکھا ہے اس کے خلاف بھی فطری رد عمل ہو سکتا ہے۔
جس طرح جنسی جذبہ انسانی فطرت میں ہے اور اس کا ایک صحیح اور ایک غلط استعمال ہے۔ اسلام اس کے دبانے کا قائل نہیں بلکہ اس کو “ریگولیٹ” کرنے کی بات کرتا ہے۔اسی طرح انسانوں میں ایک فطری جذبہ موجود ہے تقابل کا۔ اور کسی کو اگر کسی پر فضیلت ہو تو مفضول کا دل کھڑ سکتا ہے۔ اسلام اس تقابل کے جذبے کی مکمل نفی نہیں کرتا بلکہ اس کو “ریگولیٹ” کرتا ہے۔ “فلیتانفس المتنافسون’ میں جہاں اخروی اجر کے لئیے مقابلے کا کہتا ہے تو وہیں ولا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ میں بعض کی بعض پر فضیلت کو ماننے کا درس دیتا ہے اور اس میں تقابل کرنے سے روکتا ہے۔ اس آیت کا پس منظر حضرت ام سلمہ کا سوال تھا کے مرد تو جہاد پر جاتے ہیں اور اس سے ان کو دنیاوی فضیلت(مال غنیمت) ملتا ہے اور اخروی بھی اور عورتیں نہیں جا سکتیں۔ تو ام سلمہ رض کے سوالات میں آپ کو پتا چل جائے گا کے عورتوں کے “کنسرنز” کن معاملات میں جائز ہیں اور کن میں نہیں۔ مثلا جب انھوں نے یہ سوال اٹھایا کے مردوں کو قران میں مخاطب کیا جاتا ہے مگر عورتوں کو نہیں تو اللہ نے سورہ احزاب کی وہ آیات اتاریں جن میں اس شکایت کو رفع کیا گیا۔ اسی طرح ظہار کے معاملات اور دیگر معاملات میں اللہ نے صحابیات کی جائر باتوں پر آیات نازل کیں۔ ان تمام میں جانے سے بات لمبی ہو جائے گی ۔ تاہم جب اللہ کی دی گئی فضیلت جس میں آپ مردوں کا حق امامت، قوامیت، جہاد وغیرہ سب شامل کر سکتے ہیں جب اس پر اشکال اٹھا تو اللہ نے اس سے منع کیا اور پھر اس کے بعد ایک مومن کے لائق نہیں جب اللہ اور اس کے رسول کوئی فیصلہ کر دیں تو اس پر مزید تذبذب ہو۔
فیمینزم کی اصل بنیاد مرد و عورت میں مطلق برابری ہے جو کے اسلام کے خلاف ہے۔ اس میں خیر اس لئے کہیں نہیں کے یہ ہمیشہ ایک “سلپری سلوپ” کی طرح آپ کو صراط مستقیم سے ہٹاتا جاتا ہے ، کچھ کو کم، کچھ کو زیادہ ۔ اب اس کا اثر مسلم معاشروں میں عورتیں مختلف لیتی ہیں۔ بعض مسلم خواتین اسلام کے دائرے کے اندر رہتی ہیں مگر شاذ فقہی آرا کو استعمال کر کے اس برابری کا کچھ حصہ حاصل کرتی ہیں۔ بعض تو اس فیمینزم کے زیر اثر اجماعی پہلووں کا انکار کر دیتی ہیں۔ اور بعض مرتد ہی بن جاتی ہیں۔

میں ان بہت سے پہلوؤں سے نقاب کشائی کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں جنکے لحاظ سے فیمن ازم اسلام سے متضاد ثابت ہوتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان اس زہر سے واقف ہو جائیں.سو اس ضمن میں یہ بحث ملاحظہ فرمائیں:

  1. ایک شخص اسوقت تک فیمنسٹ نہیں کہلا سکتا جب تک وہ فیمن ازم کے “مردانہ بالادستی” (پیٹری آرکی) کے مقدمے کو تسلیم نہیں کرتا. اس مقدمے کے مطابق روز ازل سے ہی مردوں کا بنایا ہوا ایک ایسا معاشرتی نظام بزور چلایا جا رہا ہے جسکا مقصد ہی عورت کو دبا کر رکھنا اور اسکا استحصال کرنا ہے.
  2. مردانہ بالادستی کا یہ تصور اسلام کا صاف رد ہے.
  3. چنانچہ فیمن ازم فی الحقیقت اسلام کا کھلا رد ہے.
    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مردانہ بالادستی کا یہ مقدمہ اسلام کیلئے اسقدر زہریلا کیوں ہے؟
    پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مقدمہ نبوت کے تصور کی جڑ کاٹ دیتا ہے. کیونکہ تمام انبیاء مرد تھے(جی جی، میں جانتا ہوں کہ ابن حزم رح اور کچھ علماء کے مطابق چند خواتین پر بھی وحی نازل ہوئی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ انبیاء تقریباً تمام کے تمام مرد ہی تھے). کیا یہ تمام انبیاء اس مردانہ بالادستی کے نظام کا حصہ تھے جسکا مقصد عورت پر غالب آنا ہے؟
    دوسرا یہ کہ مردانہ بالادستی کا یہ مقدمہ روایتی علماء کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے. علماء کی انتہائی کثیر تعداد مردوں پر مشتمل رہی ہے اور ان میں سے بھی بڑے بڑے اور عظیم نام تمام تر “رجال” کے ہیں. اور ان میں سے بلامبالغہ ہر ایک عالم سے ایسے بیشمار اقوال منقول ہیں جن کو فیمن ازم کے علمبردار بدترین زن بیزاری پر مشتمل ہفوات قرار دیتے ہیں. کیا یہ تمام مرد(علماء) اس مردانہ بالادستی کے نظام کا حصہ تھے جسکا مقصد عورت پر غالب آنا ہے؟
    مردانہ بالادستی کا یہ مقدمہ اسلام کے الہیات کے تصور پر بھی ضرب لگاتا ہے. اگر مردانہ عصبیت ایک ایسی ہی تخریبی قوت ہے جو بنی نوع انسان کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے اور جسکے نیچے دب کر انسانیت درد سے کراہ رہی ہے تو ہمیں قرآن میں اسکا حل کیوں نہیں ملتا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسکا حل کیوں نہیں بتایا؟ کیا اس منظم استحصال کو بےنقاب کئیے بغیر قرآن و سنت کو کامل ہدایت قرار دیا جا سکتا ہے؟ فیمنسٹس کے مطابق مردانہ عصبیت اور بالادستی تاریخ انسانی میں شر کی بدترین قوتوں میں سے ایک ہے اور حد یہ ہے کہ عربی مبین میں اس(پیٹری آرکی) کے لئیے کوئی ایک لفظ تک نہیں. کوئی ایک بھی آیت یا حدیث اس خوفناک استحصال سے خبردار کرتی ہمیں نظر نہیں آتی.
    وجہ؟
    یہ وہ منطقی نکات ہیں جو فیمنسٹس اسلام کے حوالے سے پیش کرتے ہیں اور جن کے زیر اثر مسلم فیمنسٹس اسلام سے بدظنی کے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں اور ان میں سے بہت سے بالآخر اسلام کو ہی خیر باد کہہ بیٹھتے ہیں. ابتدا میں وہ تمام تر روایتی علماء کو مسترد کرتے ہیں جو انکے خیال میں عورتوں سے متعلق مردانہ عصبیت پر مبنی خیالات بد کے حامل ہیں. پھر وہ مذید جری ہو کر انبیاء پر تنقید کرتے ہیں (آمنہ ودود کی مثال یاد کریں). اور بالآخر ایک قدم اور آگے بڑھ کر قرآن پر ہی نکتہ چینی شروع کر دیتے ہیں. مثلاً اللہ اپنے لئیے مذکر کا صیغہ کیوں استعمال کرتا ہے؟ اللہ نے پہلے آدم (علیہ السلام) یعنی ایک مرد کو کیوں پیدا کیا؟ اللہ نے سورۃ النساء کی آیت 34 کیوں نازل فرمائی…
    یہ وہ منطقی الہیاتی تناؤ ہے جو فیمن ازم کے مردانہ بالادستی اور عصبیت کے مقدمے کا نتیجہ ہے. اور اسی کی وجہ سے بہت سے فیمنسٹس بعید سے بعید تر گمراہی حتی کہ ارتداد تک کے مرتکب ہو چکے ہیں.
    لہٰذا جو لوگ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ فیمن ازم اور اسلام میں ہم آہنگی ممکن ہے وہ اوپر دئیے گئے 3 نکات کا سامنا کریں. آپکے پاس آپشنز محدود ہیں. چلیں میں آپکا کام کچھ آسان کئیے دیتا ہوں:
  4. یا تو آپ یہ دعوٰی کریں کہ ایک شخص مردانہ بالادستی کے اس تصور پر ایمان لائے بغیر بھی فیمنسٹ کہلا سکتا ہے، جس تصور کے مطابق روز ازل سے ہی مرد عورت کا استحصال کر رہا ہے.
  5. یا پھر آپ یہ دعوٰی کریں گے کہ مردانہ بالادستی کا یہ تصور اسلام کے ساتھ متناقض نہیں… یعنی یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف نہیں.
    تو آپ کونسا نکتہ نظر اختیار کرتے ہیں؟
    جن لوگوں کیلئے (مرد) علماء اور فقہاء کے فرمودات کو بلا جھجھک رد کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں، وہ آپشن نمبر دو کو اختیار کریں گے (“اصلاحی”، “تجدیدی”، “قرآنی”، “منکر حدیث” قسم کے فیمنسٹس). لیکن جو “نارمل مسلمان” درست اسلامی عقیدہ رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان (مرد) علماء کے بغیر نہ قرآن ہم تک درست حالت میں پہنچ سکتا تھا، نہ سنن کی روایت ممکن ہوتی اور نہ اسلام محفوظ رہتا. علماء سے جان چھڑانا پورے دین سے جان چھڑانے کے مترادف ہے. علماء انبیاء کے ورثاء ہیں. جو بھی یہ دعوٰی کرتا ہے کہ ہر زمانے اور ہر علاقے کے علماء عورتوں سے زیادتی اور ناانصافی پر مبنی مؤقف پر ایک منظم طریقے سے متفق رہے ہیں، وہ دراصل علماء کی توہین کرتا ہے اور نتیجتاً پورے اسلام کو بے وقعت ٹھہراتا ہے.
    بہرحال میرے نزدیک یہی ایک منطقی استدلال پر مبنی بحث ہے. جو لوگ اس سے متفق نہیں وہ مقابلے پر اپنے دلائل پیش کریں بغیر کسی جذباتی بلیک میلنگ یا متعصبانہ طعن و تشنیع کے.
    نوٹ..
    کچھ امور جنکی وضاحت ضروری ہے:
    مردانہ بالادستی سے انکار ممکن ہی نہیں. اور اسلام بھی علم بشریات(اینتھروپولوجی) کی رو سے مردانہ بالادستی کا علمبردار مذہب ہے. اسلامی فقہ اور قوانین کے مطابق نسل مرد سے چلتی ہے اور بہت سے سماجی اور خاندانی مسائل میں مرد کا اختیار و اقتدار ہی بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے. لیکن فیمن ازم میں مردانہ بالادستی کا جو تصور ہے وہ ان امور میں مردوں کے اختیار کو شدید نفرت کے ساتھ پیش کرتا ہے. فیمن ازم کے مطابق یہ مردانہ اختیار کا نظام بنایا ہی عورتوں کو مردوں کے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی نیتِ بد کے ساتھ ہے.
    بلفاظ دیگر، مردوں کا پورا شریر جتھہ غریب، معصوم اور سادہ خواتین کے حقوق کو زندگی کے ہر موڑ پر سبوتاژ کرتا آیا ہے اور پچھلی چند دہائیوں میں ہی یہ دلیر فیمنسٹس اس بھیانک سازش سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اب وہ عورتوں کے حقوق کیلئے “مقدس جہاد” میں مصروف ہیں…!!!
    مجنونانہ بات لگتی ہے نا؟
    جب ہے ہی مجنونانہ تو لگے کیوں نہ.
    تحریر ڈینئیل حقیقت جُو ، ترجمہ عثمان ای ایم، محمد صبیح

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password