صدیوں سے دیکھا جاتا ہے آبادی کی بھاری اکثریت میں سے کچھ لڑکے نسوانیت زدہ ہوتے ہیں، اور فقط کچھ لڑکیاں مردانہ رویوں کی حامل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ ان کے نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں۔ ان نفسیاتی مسائل کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جیسے ایک لڑکا عورتوں کے درمیان پروان چڑھا ہو یا ایک لڑکی مردوں کے درمیان جوان ہوئی ہو۔ بچپن میں کوئی نفسیاتی یا حیاتیاتی ٹراما وغیرہ۔ ان مسائل کی بنیاد پر کسی بھی صورت نئی نئی اجناس اور اصناف کی سینکڑوں اقسام دریافت نہیں کی جاسکتیں۔
جنس کی تبدیلی اور ہم جنس پرستی کے پروجیکٹ اور سٹنٹ کو مشہور کرنے اور نارملائز کرنے کے پیچھے فارما کمپنیوں اور کارپوریشنز کا زبردست ہاتھ ہے۔ لوپران فارما جنس کی تبدیلی کے ہارمونز فروخت کرکے 1.3 بلین ڈالر ہر ماہ کما رہی ہے۔ سیاسی پارٹیاں، این جی اوز ان کارپویشنز کا صرف فرنٹ فیس ہے۔-جارڈن پیٹرسن مشہور محقق ، مقرر، کلینیکل سائیکالوجسٹ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
2011 میں، جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میں چھپنے والی ایک چشم کشا تحقیق کے مطابق، کراچی اور لاہور میں 400 ہیجڑوں کا طبی معائنہ کیا گیا تو ان میں سے 397۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔۔ 397 ۔۔۔۔ مکمل مرد نکلے جن میں کسی قسم کا نقص نہیں تھا۔،
اسی طرح اسی جریدے میں 2009 میں چھپنے والی، لاہور میں 200 ہیجڑوں پر کی گئی ایک اور سٹڈی کے ہوشربا نتائج کچھ یوں تھے:
۔۔ ان میں سے 46 شادی شدہ تھے
۔۔ ان 46 میں سے 41 نے کسی عورت سے شادی کر رکھی تھی اور ان میں سے 36 کے بچے بھی تھے جنکی تعداد 1 سے 7 تک تھی۔ 3 نے جواب دینے سے انکار کیا اور 2 بے اولاد تھے
۔۔ ان 46 شادی شدہ ہیجڑوں میں سے 5 نے کسی مرد کے ساتھ شادی کی ہوئی تھی۔
۔۔ 154 غیر شادی شدہ ہیجڑوں میں سے 42 بغیر شادی کے کسی نہ کسی پارٹنر کے ساتھ رہ رہے تھے جن کے ساتھ انکے جنسی تعلقات تھے۔ ان میں سے 32 کسی مرد کے ساتھ، 1 کسی دوسرے ہیجڑے کے ساتھ رہ رہا تھا اور باقیوں نے پارٹنر کی جنس کے بارے میں سوال کا جواب نہیں دیا۔۔۔۔
۔۔ تقریباً سب کے سب جسم فروشی کی لعنت میں مبتلا پائے گئے اور اس قبیح کاروبار کے آغاز کی اوسط عمر 13.5 سال پائی گئی۔ ان میں سے 84 فیصد میں پہلا جنسی پارٹنر کوئی مرد تھا، 6 فیصد میں عورت اور 5 فیصد میں کوئی دوسرا ہیجڑا۔۔۔!!!
۔۔ ان میں سے بیشتر کو ایڈز اور جنسی تعلقات سے پھیلنے والی دیگر انفیکشنز (STDs) پھیلانے کا رسک قرار دیا گیا
اور بھی تحقیقات ہیں جن کے ملتے جلتے ہولناک نتائج دیکھے گئے۔۔۔۔
کیا اب بھی حقیقی ہیجڑے یہ سمجھتے ہیں کہ مکمل طبی معائنہ انکی حق تلفی اور توہین کے مترادف ہے؟
اور یہ مرد کیا کم تھے جو اب ٹرانزجینڈرز بھی آپکا نام استعمال کر کے اپنے غیر شرعی اور غیر آئینی مطالبات کو “حقوق” کا نام دے کر میدان میں کود پڑے ہیں؟!!! اور پھر بڑی سادگی سے اور کبھی بڑی ڈھٹائی سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا ہم جنس پرستی سے کیا تعلق؟!!!
یقین کریں، حقیقی انٹرسیکس واقعتاً ایک مظلوم ترین قوم ہے۔ انکا اپنا تناسب تو پیدا ہونے والے 10 ہزار بچوں میں سے 1 کا ہے، لیکن انکا نام استعمال کرنے والے نوسرباز اب ہر چوک پر، ہر شادی پر نظر آتے ہیں ۔۔۔!!!
(ڈاکٹر رضوان اسد خان)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ٹرانس جینڈر بحث کے تین پہلو ہیں:
1) حقیقی خنثی: یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقتا بعض اعضاء کی انڈر ڈویلپمنٹ کی وجہ سے مرد و عورت کی شناخت کے مابین آتے ہیں۔ اس طبقے کی بھلائی اور بحالی کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر کسی کو تحفظ نہیں ہے۔ ان کا حال اسی نوع کا ہے جیسے کوئی شخص آنکھ یا ہاتھ پیر وغیرہ کسی خاص نقص کے ساتھ دنیا میں آگیا ہو اور جس طرح دیگر سپیشل لوگوں کی مدد کرنا مطلوب ہے، اس طبقے کی مدد بھی اچھی بات ہے۔
2) تغییر فی الخلق: یہ وہ لوگ ہیں جو مرد و عورت ہونے کے باوجود سرجری کے ذریعے دوسری شناخت بنانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ ان کا حال ان لوگوں کا سا ہے جو دو ھاتھ ہوتے ہوئے ان کی جگہ دو پیر لگوانا چاہتے ہوں یا ہونٹ کی جگہ چونچ لگوانے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔
3) ٹرانس جینڈر شناخت: یہ وہ لوگ ہیں جو طبی لحاظ سے مکمل مرد و عورت ہونے کے باوجود دوسری شناخت اختیار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ سرجری وغیرہ کے بغیر ہی محض ذاتی احساس کی بنا پر خود کو دوسری جنس قرار دینے پر مصر ہوتا ہے۔ یہ لوگ دراصل نفسیاتی مریض ہوتے ہیں جن کے ساتھ معاشرے کو ہمدردی رکھتے ہوئے ان کا علاج کرانا چاہئے جیسے دیگر نفسیاتی امراض سے دوچار لوگوں کے علاج کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مذاق اڑانے کی نہیں، سنجیدہ بات ہے۔
کن اصولوں کے تحت آپ طے کریں گے کہ ایک شخص کا عمل ذہنی مرض ہے اور دوسرے کا جینوئن ؟ آپ کس اصول کے تحت وولف گرل کو ذہنی مریض کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کے پاس کوئی بلڈ ٹیسٹ ہے؟ کوئی جینز؟ کوئی کیمکل ٹیسٹ؟ کوئی برین ٹیسٹ جس سے علم ہو کہ ایک شخص کا احساس یا اس کا مطالبہ عقل سے فروتر ہے یا عصبیت پر مبنی ہے؟ اور کسی دوسرے کا بالکل جینوئن ہے۔
یاد رکھیے یہ سائنسی بحث نہیں ہے۔ اسے جو لوگ محض سائنسی بحث بنارہے ہیں ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے۔
بین الاقوامی میڈیکل اور نفسیاتی سائنسز کا کوئی حتمی حوالہ نہیں ہے۔ سب متفرق رسیرچرز ہیں جنہیں کہیں بھی تشخیص یا علاج کے لیے استعمال بھی نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ماہرین اور ڈاکٹرز اپنے ڈسکشنز میں ان پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ایسے بایولوجیکل ریسرچرز کو ہم نے پیش کرکے تنقید ہی سنی ہے۔
اب سنجیدگی سے سوچیے یہ مذاق اڑانے کی نہیں درد دل کے ساتھ سوچنے کی بات ہے کہ ایک شخص کو اپنی شناخت سے کیوں نفرت ہوتی ہے؟ اپنے آپ سے، اپنی شخصیت، اپنے اوصاف سے بے زار ہو کر خود کو کسی اور شناخت میں ڈھالنا کہیں
Dissociation,
فرار تو نہیں ؟ کسی دکھ، کسی الجھن، کسی مسئلے کا علامتی اظہار تو نہیں ؟ کون سا دھاگہ کہاں الجھا، کہاں ٹوٹا اور کہاں غلط گرہ لگ گئی۔ اور کہیں کسی مسئلے کو اس بہروپ میں چھپایا تو نہیں جارہا ؟
جو جسم اور شخصیت، اوصاف، رنگ، جنس، وغیرہ آپ کو عطا کیے گئے تھے وہ قیمتی تھے۔
آپ قیمتی ہیں، اسی طرح جیسے آپ کو بنایا گیا۔ آپ وہ سرا کیوں نہیں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے؟ گتھی سلجھانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جس نے آپ سے اپنا آپ چھین لینا چاہا ہے؟
اس رخ پر سوچیے۔
ڈاکٹر جویریہ سعید
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭