لبرل ازم کا اصول ہے کہ آپ کا جسم آپ کی ملکیت ہے اور اس پر آپ کو ہر قسم کی مرضی چلانے کا اختیار ہے، اور اس مرضی اور اختیار کا احترام ہر دوسرے فرد پر واجب ہے۔ لیکن 18 سال کی عمر سے پہلے اس مرضی کی عموماً کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، لہٰذا 18سال کی عمر سے چھوٹی “بچی” جنسی تعلق کے لیے رضا مندی کا اظہار کرے تو بھی اسے قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا چاہے اس کے والدین بھی اجازت دے دیں۔لیکن اگر وہ ایسا کر گزرے تو اسقاط حمل کے لیے اس کی رضا مندی کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے، خواہ اس کے والدین اجازت نہ بھی دیں، کیونکہ یہاں میڈیکل سائنس کی چھتری اسے قانون کی تمازت سے بچا لیتی ہے اور شیطنت کے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتی۔
اسی طرح بچہ اگر اپنی جنس پر راضی نہیں اور کوئی لڑکا لڑکی بننا چاہتا ہے، یا لڑکی لڑکا بننا چاہتی ہے، تو یہاں اس کی مرضی کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے کہنے پر ہارمونز کے ذریعے اس کی بلوغت کو ملتوی کر دیا جاتا ہے، اور پھر بلوغت کی عمر پر مخالف جنس کے ہارمونز کے ذریعے اور بعد ازاں 18 سال کی عمر پر سرجری کے ذریعے مکمل طور پر اس کی کایا کلپ کر دی جاتی ہے۔ یہاں بھی میڈیکل “مصلحہ اور مفسدہ کی فقہ” دجالی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی تاویل نکال لیتی ہے۔ مثلاً، ایسا نہ کیا تو بچے کو شدید نفسیاتی دباؤ سے گزرنا پڑے گا۔
تو بیوقوفو! اس نفسیاتی دباؤ کا علاج کرنے اور اس دماغی خلل کو دور کرنے کے بجائے تم اس کے ہارمونز کے ساتھ کھلواڑ کر کے اسے جن جسمانی مسائل کے رسک کے جہنم میں جھونک رہے ہو، اس کا تمہیں کوئی اندازہ ہے؟
یہ اچھی بھلی صحت مند لڑکی اب “ماہی منڈا” بن کر دوسری لڑکیوں پر ٹھرک جھاڑے گی پر کبھی ماں نہیں بن سکے گی۔ اور یہ بھلا چنگا گھبرو جوان اب کولہے مٹکا کر اپنے بھائی بندوں کی داد تو سمیٹے گا پر کبھی مردانہ وار اولاد کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکے گا۔اور دجالی تہذیب کے علم بردار لگائیں گے ٹرانز جینڈرز کے حقوق کی بحالی کے نعرے اور بجائیں گے خوشی کے شادیانے، لیکن شادیانے تو شادی سے مشتق ہیں ناں اور یہاں تو کیسی شادی، کہاں کی شادی…. بلکہ شادی بیاہ اور خاندان کے ادارے کو تہس نہس کرنے کو ہی تو یہ سارا پاکھنڈ مچایا گیا ہے۔
انتہا اس کھیل کی یہ ہے کہ ایک مکمل سیکس فری سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا جائے، جہاں ہر فرد کسی بھی جنس کا بن کر کسی بھی جنس کے کسی بھی فرد کے ساتھ اپنی ہوس پوری کرنے کے قابل ہو، اور اس کا تجربہ مغربی “جمہوری” ممالک میں ہو رہا ہے اور ان میں ہالینڈ سب سے آگے ہے۔اور اگر بچے ہو جائیں تو اس مصیبت کو کون پالے۔ انھیں حکومت کی تحویل میں دے دیا جائے جو انھیں اپنی ضرورت کے افراد میں ڈھال لے۔ اور اس کا تجربہ چائنہ جیسی “ٹوٹیلیٹیرین” حکومت میں ہو رہا ہے۔ آخر میں دجالی تہذیب کے یہ دونوں سینگ مل کر ایک عالمی شیطانی معاشرہ ترتیب دیں گے اور اسے کنٹرول کرنے والے کھرب پتی سرمایہ دار اپنے کلونز، کرپٹو کرنسی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، روبوٹس اور کوانٹم کمپیوٹرز کے ذریعے اپنا تسلط برقرار رکھیں گے۔
لیکن یہ “یوٹوپیا” صرف اسی صورت میں تشکیل پا سکتا ہے جب واقعی ان کے خیال کے مطابق کسی خدا کا وجود نہ ہو۔ ورنہ تو “ومکروا و مکر اللہ” کا نظارہ دیکھنے کے لیے ہم بھی یہیں ہیں اور یہ بھی۔
ڈاکٹر رضوان اسد خان