سیکولرازم – مختصر مگر جامع

سچ کیوں نہیں بولتے؟
سیکولرازم کا معنی اگر بس اتنا ہی ہے جیسا کہ سیکولرازم کے دیسی حامی باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے لئے ایک معاشرے میں اپنی انفرادی زندگیوں میں اپنے اپنے مذھب کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنا ممکن ہو، تو یہ کونسی نئی اور انوکھی چیز ہے؟ ایسا تو صدیوں سے ہوتا آیا ہے۔ ھندوستان میں مسلمانوں کے تقریبا ہزار سالہ دور حکومت میں کیا مسلمان، ھندو و سکھ اکٹھے نہیں رہتے رہے؟ کیا مسلمانوں نے ھندووں و سکھوں کا اس طرح قتل عام شروع کررکھا تھا جیسے لبرل سیکولرز نے ریڈانڈینز کا قتل عام کیا؟ کیا مسلمانوں نے ھندووں اور سکھوں سے ان کی نجی مذھبی آزادیاں سلب کرلی تھیں؟ کیا مسلمانوں نے دیگر اہل مذاھب سے اپنے بچوں کو اپنے مذہب کی تعلیم و شناخت دینے کا حق چھین لیا تھا؟ کیا ان کی عبادت گاہوں پر تالے ڈال کر ان کے لئے مذھبی رسومات کی ادائیگی ناممکن بنا دی تھی؟ کیا ان لوگوں کو اپنے مذھب کی تعلیمات کے مطابق شادی بیاہ وغیرہ کے امور ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا؟ چنانچہ مسلمانوں کی کسی بھی خلافت و سلطنت کو دیکھ لیجئے، وہاں مذھبی اقلیتوں کو اپنے مذھب کے مطابق نجی زندگی گزارنے کا حق میسر رہا۔آپ کا دعوی اگر اتنا ہی ہے جو کہ آپ جانتے ہیں کہ نہیں ہے تو اس دعوے میں ایسی کونسی انوکھی بات ہے جو آپ اھل مذھب کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں؟
آخر آپ سچ کیوں نہیں بولتے؟
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مذھب، سیکولرازم، معاش اور معاد
“دنیا آخرت کی کھیتی ہے”، مطلب یہ کہ معاش (دنیا) معاد (آخرت) کمانے کا ذریعہ ہے۔ یہ مذہب کا تصور دنیا ہے کہ انسان اس دنیاوی زندگی کے ہر حصے و تعلق کو آخرت کمانے کے لئے استعمال کرنے کا مکلف و اہل ہے۔ اس دنیا سے آخرت کیسے کمائی جائے گی، مذہب کا دعوی یہ ہے کہ خدا کے نبیوں نے اس کا طریقہ بتایا ہے، اس طریقے کے سواء دیگر طریقوں سے برتی گئی دنیا سے انسان آخرت کمانے لائق نہیں رہتا۔
اس کے برخلاف سیکولرازم کا مقدمہ یہ ہے کہ دنیا اور اس میں قائم شدہ معاملات و تعلقات کو اس طرح برتنے کی کوئی ضرورت نہیں جیسے مذہب کہتا ہے، اگر کسی کو مذھب وغیرہ کا شوق ہے تو دنیاوی زندگی کے ایک نہایت ہی محدود سے حصے میں اسے برتتا رہے۔ ظاہر ہے سیکولر ریاست کے اس جابرانہ نظرئیے (کہ دنیا آخرت کمانے کا ذریعہ نہیں) کو مسلط کردینے کے نتیجے میں دنیا کے ذریعے آخرت کمانے کا بہت بڑا حصہ فرد کی پہنچ سے باہر ہوجاتا ہے کیونکہ سیکولرازم دنیا کو اس طرح برتنا غیر ضروری سمجھتا ہے جس کے نتیجے میں آخرت کمانا ممکن ہوسکے۔
چنانچہ سیکولرازم صرف کوئی سادہ مسئلہ نہیں ہے، یہ “معاش کے تعلق کو معاد سے کاٹ کر اسے بذات خود حصول معاش ہی کا ذریعہ بنانے” سے عبارت ہے۔ مذہب کی سیکولرازم سے لڑائی اسی بنیاد پر ہے کہ یہ لوگوں کو معاش کے ذریعے معاد کمانے سے روکتا ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

” یہ نظریہ کہ خدا اور مذہب کا تعلق صرف آدمی کی انفرادی زندگی سے ھے ” سراسر ایک مہمِل نظریہ ہے جسے عقل و خرد سے کوئی سروکار نہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ خدا اور انسان کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ یا تو خدا انسان کا اور ساری کائنات کا ، جس میں انسان رہتا ھے ، خالق اور مالک اور حاکم ھے ، یا نہیں ھے ۔ اگر وہ نہ خالق ھے نہ مالک اور نہ حاکم ، تب تو اُس کے ساتھ پرائیویٹ تعلق کی بھی کوئی ضرورت نہیں ھے ۔ نہایت لغو بات ہے کہ ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خوامخواہ پرستش کی جائے جس کا ھم سے کوئی واسطہ نہیں ھے ۔ اور اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اِس تمام ہَست و بود کا خالق ، مالک اور حاکم ھے تو اس کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں کہ اُس کی عملداری ( Jurisdiction ) محض ایک شخص کی پرائیویٹ زندگی تک محدود ہو اور جہاں سے ایک اور ایک دو آدمیوں کا اجتماعی تعلق شروع ہوتا ھے وہیں سے اُس کے اختیارات ختم ہو جائیں ۔
یہ حد بندی اگر خدا نے خود کی ھے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہیے اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خدا سے بےنیاز ہو کر خود ہی خودمختاری اختیار کی ھے تو یہ اپنے خالق اور مالک اور حاکم سے اُس کی کُھلی بغاوت ھے ۔ اِس بغاوت کے ساتھ یہ دعوےٰ کہ ھم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اُس کے دین کو مانتے ہیں ، صرف وہی شخص کر سکتا ھے جس کی عقل ماری گئی ہو ۔ اِس سے زیادہ لغو بات اور کیا ھو سکتی ھے کہ ایک ایک شخص فردًا فردًا تو خدا کا بندہ ہو مگر یہ الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تو بندے نہ رہیں ۔ اَجزا میں سے ہر ایک بندہ اور اَجزا کا مجموعہ غیر بندہ ، یہ ایک ایسی بات ھے جس کا تصور صرف ایک پاگل ہی کر سکتا ہے ۔
پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی رہنمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ھے ، نہ محلے اور شہر میں ، نہ مدرسہ اور کالج میں ، نہ منڈی اور بازار میں ، نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہاؤس میں ، نہ ہائیکورٹ اور نہ سول سیکریٹریٹ میں ، نہ چھاؤنی اور پولیس لائن میں اور نہ میدانِ جنگ اور صُلح کانفرنس میں ، تو آخر اس کی ضرورت ھے کہاں ؟ کیوں ایسے خدا کو مانا جائے اور اس کی خوامخواہ پوجا پاٹ کی جائے جو یا تو اتنا بیکار ھے کہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری رہنمائی نہیں کرتا ۔ یا معاذاللہ ایسا نادان ھے کہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابلِ عمل نظر نہیں آتی ؟ “
( سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ )

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اگر کوئی مسلمان سیکولرازم کی حمایت کرنے کے لئے گفتگو کرے تو اس سے پوچھ لینا چاہئے کہ یہ گفتگو تم کس حیثیت میں کررہے ہو، بطور مسلمان یا بطور ملحد و کافر؟ اگر بطور مسلمان، تو تمہارا تصور علم کیا ہے، یعنی کسی شے کے حق و باطل ہونے کا فیصلہ کرنے کے لئے تمہارا ماخذ کیا ہے؟ اگر تم اسلام کو مانتے ہو تو اسے کیا مانتے ہو، “حق” و عدل کا معیار یا کچھ اور؟ اور اگر اسے حق و عدل کا پیمانہ مانتے ہو تو “اسلام کیا ہے” کا جواب کہاں سے لیتے ہو؟ جب تک ان سوالات کا جواب طے نہ ہوجائے کسی مسلمان کے ساتھ سیکولرازم کی گفتگو میں الجھنا ضیاع اوقات ہے۔
جان لو کہ ایک مسلمان سیکولرازم کی مخلص حمایت صرف جہالت (یعنی لاعلمی) کی بنا پر کرتا ہے، یعنی وہ نہیں جانتا کہ سیکولرازم کی مخلص حمایت (یعنی اسے اس کی اقدار کے ساتھ قبول کرنا) اسلام کے ساتھ کفر کئے بغیر ممکن نہیں۔ ایک مسلمان کی سیکولرازم کی مخلص حمایت کرنے کے بارے میں اس کے سواء کوئی تاویل ممکن نہیں۔ جو بھی شخص سیکولرازم کی مخلص حمایت کی کوشش کرے گا وہ لازما خدا اور رسالت کے مضمرات کا انکار کرکے رہے گا۔ ایک مسلمان کے سامنے جب سیکولرازم کی حقیقت واضح کردی جائے تو وہ سیکولرازم کے لئے “گمراہ کن سیکولر” تاویلات کرکے اسے اپنے عقیدے کے ساتھ ھم آھنگ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کیا ایک جدید معاشرے میں دو ایسے فرد زندہ رہ سکتے ہیں جن میں سے ایک کو خدا کی راہنمائی کی ضرورت ہو اور دوسرے کے لئے یہ سوال سرے سے دلچسپی کا باعث ہی نہ ہو”۔
یہ اس پوچھنے کے بعد اس کا فوری و “ممکنہ معقول جواب” یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ یقینا ایسا ممکن نہیں، لہذا سیکولرازم ہی معقول ہے۔مگر یہ جواب دیتے وقت یہ حضرات نجانے کیسے اتنی سامنے کی بات سے سہو نظر کرجاتے ہیں کہ آخر سیکولرازم کے پاس اس مسئلے کا اس کے سواء اور کیا حل ہے کہ اول الذکر اجتماعی زندگی سے خدا کی ہدایت پر عمل کے مطالبے سے دستبردار ہوجائے اور موخر الذکر کی خواہش کے مطابق معاشرہ قائم کردیا جائے؟ آخر اس حل میں اور ایک مذہب پسند کے حل میں سوائے ترتیب بدل دینے کے جوہری سطح پر کیا فرق ہے؟
ہمیں معلوم ہے کہ سیکولر حضرات اس پر یہ مشہور زمانہ سوال پوچھتے ہیں کہ جب الف ب اور ج مختلف مذاھب کو ماننے والوں ہوں تو ایسے میں اجتماعی نظم ان میں سے کس بنا پر قائم ہو؟ پھر اس کا فوری جواب یہ اخذ کرلیا جاتا ہے کہ سیاسی سیکولرازم۔ مگر یہ جواب دیتے وقت یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ الف ب اور ج سب کے سب اپنے تصور خیر کی اجتماعی حیثیتوں سے دستبردار ہوکر ایک ایسے تصور خیر و ماخذ قانون (ہیومن رائٹس) کو درست مانیں جسے اصولا ان میں سے کوئی ایک بھی درست نہیں سمجھتا۔ کیا سیکولرازم کا مطلب یہ ہے کہ سب کے سب مذاھب کے مشترکات کی بنیاد پر قانون سازی ہوگی یا اس کا مطلب یہ ہے کہ سب مذاہب کے ماخذات کو کالعدم قرار دے کر ان سے ماوراء ایک ماخذ کو قانون کی بنیاد مانا جائے گا؟ تو اگر الف اپنے مذھب کی بنیاد پر ب اور ج کے مذھب کو اجتماعی نظم میں مغلوب کردے تو یہ تو آپ حضرات کے نزدیک “عقلی طور پر” ناقبل قبول و معاشرتی ظلم ٹھہرا مگر سیکولر (جو درحقیقت دال ہے) الف ب اور ج تینوں کے مذاھب کو لایعنی بتا کر انہیں مغلوب کردے تو یہ “اسی عقل کے نزدیک” کیسے عدل اور قابل قبول ہوگیا؟ آخر ان دونوں صورت حال میں “کسی ایک فریق کا اپنی اقداری ترجیحات کو کسی دوسرے پر مسلط کردینے” کے سواء اور کیا ہورہا ہے؟ کوئی ہے جو ان میں فرق سمجھا دے!
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اسلام اور عیسائیت دونوں سچ بولنے کی ترغیب دیتے ہیں، دونوں وعدہ پورا کرنے پر زور دیتے ہیں، دونوں قتل ناحق کو جرم کہتے ہیں، دونوں چوری کرنے سے منع کرتے ہیں، دونوں سود کو حرام کہتے ہیں، دونوں بدکاری سے منع کرتے ہیں، دونوں لباس کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، دونوں والدین کی نافرمانی سے منع کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الغرض اگر آپ عیسائیت و اسلام کے مابین مشترکات گننا شروع کریں تو آپ یہ بات کہے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ان دونوں کے باہمی مشترکات اسلام اور سیکولرازم کے مشترکات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ تو کیا اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک شخص مسلمان ہوتے ہوئے عیسائی بھی ہوسکتا ہے؟ آخر ان دونوں کے مابین اختلاف کی وہ نوعیت کیا ہے جسے ختم کرنا ناممکن ہے؟

اس کا جواب اس کے سواء کچھ نہیں کہ عیسائیت خدا کے بارے میں جو تصور رکھتی ہے وہ اسلام کے تصور خدا نیز خدا کے رسولوں کے تصور و تفصیلات کے خلاف ہے۔ تو اب اسی پیمانے پر اسلام اور سیکولرازکے تعلق کو بھی جانچ لو کہ سیکولرازم کے پس پشت تصور خدا، انسان اور رسول کیا ہے۔ کیا واقعی سیکولرازم ان معاملات میں وہی رائے رکھتی ہے جو اسلام رکھتا ہے؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر سیکولرازم اور اسلام کے مشترکات بتا کر مسلمان کو اس دھوکے میں نہ ڈالا جائے کہ “تم مسلمان ہوتے ہوئے بھی سیکولر ہوسکتے ہو”۔ یہ اتنی ہی لغو بات ہے جتنی یہ کہ “تم مسلمان ہوتے ہوئے عیسائی بھی ہوسکتے ہو”۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

’’ایک بار مجھ سے کہا گیا کہ مذہبی قوتیں اپنی اقدار ہمارے حلق میں ٹھونسنا چاہتی ہیں‘‘۔میں نے کہا:’’ ٹھیک ہے، لیکن کیا سیکولر قوتیں بھی ایسا ہی نہیں کر رہیں؟جب وہ پبلک اسکولوں میں ۱۰ سالہ بچوں میں جنسی عمل کی تعلیم دے رہی ہیں اور ساتھ ہی محفوظ جنسی عمل کی مصنوعات تقسیم کر رہی ہیں؟کیا تم نے اسے سگریٹ نوشی جتنا ہی عام اور نارمل نہیں بنا دیا؟کیا تم فحاشی اور بے راہ روی کو تفریح بنا کر ہمارے ٹی وی لائونج میں نہیں لے آئے؟ دیانت داری سے فیصلہ کرو کہ کیا تم نے اپنی سیکولر اخلاقیات، ہم مذہبی امریکیوں کے حلق میں نہیں ٹھونس دیں؟میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم امریکا کے لیے ہماری مذہبی روایات کی خواہش کو دفاعی پوزیشن پہ لے آئے ہو اور جب تم حملہ آور ہوتے ہو تو دفاع تو کرنا پڑتا ہے۔ پھر اشتعال انگیزی کا الزام کیوں؟ یہ تو ’ذاتی دفاع‘ کا معاملہ ہے۔ تمھیں ڈر ہے کہ مذہبی اقدار تم پہ حاوی ہو جائیں گی اور مجھے ڈر ہے کہ ہم ہار جائیں گے، اور یہ بہت بُرا ہوگا ،کیونکہ یہ صرف ہماری ہار نہیں ہو گی‘‘۔

مشہور امریکی اسکالر ڈینیل لپن [پ:۱۹۴۷ئ] Real War [۱۹۹۸ئ]

لبرل ازم کا سب سے بڑا جھوٹ یہ یقین دہانی ہے کہ اگر آپ اپنی اخلاقیات پہ قائم رہنا چاہتے ہیں تو شوق سے رہیں، کوئی آپ کو نہیں روکے گا۔یہ وہ دھوکا ہے جو لبرل ازم آپ کواس لیے دیتا ہے کہ بظاہر آپ کی اخلاقیات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نظر نہ آئے، لیکن درحقیقت بہت کچھ بدل چکا ہو۔

شاہنواز فاروقی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

‘سیکولر لوگوں کا جہاد’ اس قدر وحشیانہ اور استحصالی کیوں ھوتا ھے؟

اسکی وجہ بالکل واضح ھے، مذہب پر ایمان لانے والے معاشرے کتنے ہی کرپٹ کیوں نہ ھوجائیں اتنی بربریت برپا نہیں کرسکتے جتنی کہ عقل پرست، جسکی علمی بنیاد یہ ھے کہ مذہبی شخص بہر حال خود کو کسی کے آگے (خدا وغیرہ) جوابدہ سمجھتا ھے، یہ تصور ایک فرد میں کتنا ہی دھندلا جاۓ مگر نا ممکن ہے کہ پوری معاشرت و ریاست اسکو خیر آباد کہہ دے۔ لہذا یہ تصور انسان کی بربریت برپا کرنے کی صلاحیت پر ایک داخلی چیک لگاۓ رکھتا ھے، اسکے مقابلے میں عقل پرست سواۓ اپنے نفس (اور بالا دست قانون جو کہ وہ خود ہوتا ہے) کے علاوہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ھوتا،اپنے تراشیدہ اخلاقیات کی ہر خلاف ورزی پر وہ خود کو معاف کرسکتا ھے۔ چنانچہ مشہور پوسٹ ماڈرن فلسفی رارٹی Rorty کہتا ھے کہ یقینا ہم نے ریڈ انڈینز پر ظلم کئے اور ہمیں اسپر افسوس ہے مگر چونکہ ہم خود مختار ہیں لہذا ہمیں حق ھے کہ ہم خود کو معاف کردیں (چنانچہ امریکہ ہیومن رائٹس کی تمام تر خلاف ورزیوں کے بعد خود کو معاف کردیتا ھے اور ہم ہیں کہ یہاں اسے ان حقوق کی دھائ دے رھے ھوتے ہیں)۔۔۔۔۔۔۔یہی وہ علمی بنیاد ھے جسکی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جدید الحادی تہذیب سے قبل کسی انسانی تہذیب نے اس منظم طور پر نہ تو کبھی انسانی نسل کشی کی اور نہ ہی براعظموں کے براعظم لوٹ لئے اور نہ ہی ایسے مہلک ہتھیار بنانے کا سوچا (اور نہ ہی ایسا کرنے والے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا) جسکے ذریعے لاکھوں انسانوں کو indiscriminately آنا فانا لقمہ اجل بنایا جاسکے۔

ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سیکولرازم کا معیار برداشت

ہر فکری فریم ورک صحیح و غلط کو جانچنے کے لئے کچھ معیارات و اقدار متعین کرتا ہے۔ سیکولر فریم ورک نے اس ضمن میں ایک معیار “ٹالرنس” (برداشت) کے فکری شوشے کے نام پر چھوڑ رکھا ہے (شوشا اس لئے کہا کیونکہ سیکولرازم بذات خود بے انتہا ان ٹالرنٹ نظریہ ہے) جس سے مذھب کے لئے نرم گوشا رکھنے والے لوگ بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس سب گفتگو میں:

ٹالرنس کا معنی کیا ہے اور کیا نہیں” یہ متعین کئے بغیر ہی لوگ یہ فیصلے کرتے ہیں کہ کونسا نظریہ زیادہ ٹالرنٹ (وسعت نظری کا حامل) ہے اور کونسا کم۔

یہ فرض کرلیا جاتا ہے گویا ٹالرنس سب اقدار سے بڑی و اہم تر قدر ہے نیز “زیادہ ٹالرنٹ” کا مطلب “زیادہ درست” ہونا ہے جو ظاہر ہے غلط مفروضات ہیں۔ علم و سچائی میں عدم برداشت جہالت و جھوٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ بطور مثال آپ دیکھ لیں کہ وہ لوگ جو خود کو authentic ڈاکٹر کہتے ہیں وہ جعلی ڈاکٹروں کو بالکل برداشت نہیں کرتے جبکہ جعلی ڈاکٹر ایک دوسرے کو بڑی تعداد میں برداشت کرتے ہیں اور اصلی والوں کو بھی کام کرنے سے نہیں روکتے (جب تک وہ ان کے پیٹ پر لات نہ ماریں)۔ تو “وسعت برداشت” کے اس اصول سے معلوم ہوا کہ جعلی ڈاکٹر اصلی ڈاکٹر سے اچھے ہوتے ہیں!
شریعت کو جانچنے کے لئے شرع سے ماوراء اقدار کا استعمال خطرناک طریقہ ہے۔ چنانچہ جس طرح کوئی ماورائے شرع تصورعدل و فطرت شریعت کو جانچنے کا پیمانہ نہیں اسی طرح ٹالرنس بھی کوئی ایسا پیمانہ نہیں۔

ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لبرل ازم اور امپیرئیل ازم
لبرل ازم اور امپیرئیل ازم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ان دونوں کے اس ساتھ کی نوعیت حادثاتی اور واقعاتی نہیں تھی کہ جس دور میں یورپی استعمار دنیا پرقبضہ جما رہا تھا اسی دور میں لبرل ازم کے بڑے بڑے مفکرین بھی اپنے خیالات پیش کررہے تھے بلکہ دونوں کا یہ ربط نظریاتی و عملی حمایت کا تھا۔ یعنی بڑے بڑے لبرل مفکرین نے نہ صرف یہ کہ یورپی استعمار کی نظریاتی حمایت کی بلکہ ان میں سے کئی ایک استعمار کے نمک خوار بھی رہے۔ اس ضمن میں درج ذیل کتب کا مطالعہ سود مند رہے گا:
Liberalism and Empire by Uday Singh Mehta
A Turn to Empire: The Rise of Imperial Liberalism in Britain and France by Jennifer Pitts
دونوں کتب میں بڑے بڑے لبرل مفکرین مثلا بینتھم، جان لاک، جان سٹارٹ مل، ٹوک ول وغیرہ کی آراء و عمل کی روشنی میں دکھایا گیا ہے کہ یہ لوگ کس طرح استعمار کی کاسہ لیسی کا فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے (موخر الذکر کتاب عبارت سمجھنے کے لحاظ سے نسبتا آسان ہے)۔
ان دونوں کتب کے مصنفین نے استعمار نوازی میں ایمانیول کانٹ کا ذکر نہیں کیا۔ Michael C. Desch نے اپنے مقالے America’s Liberal Illiberalism: The Ideological Origins of Overreaction in U.S. Foreign Policy میں یہ دکھایا ہے کہ امریکی استعمار کی بنیاد جان لاک نہیں بلکہ کانٹ کے نظریات میں ملتی ہے۔

ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جدید مسلم ذھن کی غلامی کا یہ عجب حال ھے کہ اگر امریکہ اور پورپی اقوام کی سفاکیت کی پول کھولی جائے تو اسے نجانے کیوں ناگواری ھونے لگتی ھے۔ تاریخ کے بدترین استعمار کی سسٹمیٹک نسل کشی اور لوٹ مار (کہ جسکی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی) کو یہ ماضی کے چند برے قسم کے حکمرانوں کے مظالم کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرنے لگتا ھے (مثلا یہ کہے گا کہ ”مسلمانوں میں بھی بہت سے برے حکمران گزرے ہیں، سپر پاور ایسا ھی کرتی ھے، وغیرہ”)۔ ایسا کہتے وقت یہ ذھن بڑی معصومیت کے ساتھ یہ فرض کرلیتا ھے گویا مسلمانوں کی خلافتیں بھی شاید اسی طرح استحصال اور نسل کشی پر قائم ہوتی رھی ھونگی، مسلمان بھی اسی طرح لوٹ کھسوٹ سے کام لیتے ھونگے اور شاید دنیا میں ایسا ہی ھوتا رھا ھوگا۔

اس پر بھی غور کیجئے کہ ان ذہین جدید لوگوں کو بادشاھوں کے مظالم تو ”نظم ملوکیت” کا شاخسانہ نظر آتے ہیں اور اس وجہ سے یہ ملوکیت سے سخت نالاں ھونگے مگر جمہوری استعمار کی نسل کشی بھی انہیں چند جمہوری حکمرانوں کی غلطیاں دکھائی دیتی ہیں، فیاللعجب۔ قرآن نے اسی رویے کو ‘مطففین’ (لینے اور دینے کے پیمانوں کا فرق کرنے والوں) سے تعبیر کیا ھے۔ انسانی تاریخ میں جمہوریت کے دامن پر جتنے انسانوں کی قتل و غارت گری، استحصال اور لوٹ کھسوٹ کے داغ ہیں پوری انسانی تاریخ میں ان سے زیادہ بدنما داغ کسی اور نظم اجتماعی کے دامن پر نہیں ملیں گے۔ مگر یہ جدید مسلم ذھن پھر بھی اسی پر فدا ھوا چلا جا رہا ھے، اتنا ہی نہیں قرآن کی آیات پڑھ پڑھ کر یہ ثابت کررھا ھے کہ خدا کا ازلی ارادہ بھی ایسا ہی (سفاکانہ) نظام قائم کرنا رھا ھے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اسلام کی ترقی کے لیے آپ ضروری سمجھتے ہیں کہ مسیحیت کی طرح اسلام سے بھی شرعی حدود اٹھا دی جائیں اور اسلام صرف ایک عقیدہ کی حیثیت میں رہ جائے۔ کیونکہ مسیحیت کی ترقی کا راز جو آپ نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں حلال وحرام کی قیود نہین ہیں۔ اخلاقی پابندی نہیں ہیں۔ اس میں آدمی کے انسانی حقوق سلب کرکے اس کو ایک لاشہ بے جان اور بے بس بچہ نہیں بنایا گیا ہے۔ بلکہ اس کو آزادی دے دی گئی ہے کہ مسیح پر ایمان رکھ کر جو چاہے کرے مگر آپ نے یہ غور نہیں فرمایا کہ اسلام جس چیز کا نام ہے وہ قرآن میں ہے اور قرآن نے ایمان وعمل صالح کا مجموعہ کا نام اسلام رکھا ہے۔ عمل صالح کے لیے حدود و قیود مقرر کیے ہیں۔ قوانین بنائے ہیں اور انفرادی واجتماعی زندگی کے لیے ایک مکمل نظام عمل مقرر کیا ہے۔ جس کے غیر اسلام بحیثیت ایک دین اور ایک تہذیب کے قائم نہیں ہوسکتا۔ اس نظام اور اس کی حدود کو منسوخ کرنے کا اختیار کسی مسلمان کو نہیں ہے کیونکہ اس کا نسخ قران کا نسخ ہے اور قران کا نسخ اسلام کا نسخ ہے اور جب اسلام خود ہی منسوخ ہوجائے تو س کی ترقی کے کیا معنی؟ آپ خود کسی مذہب کو ایجاد کرکے اس کی اشاعت فرما سکتے ہیں مگر جو چیز قرآن کے خلاف ہے اس کو اسلام کے نام سے موسوم کرنے اور اس کی ترقی کو اسلام کی ترقی کہنے کا آپ کو کیا حق ہے۔؟

سید مودودی ؒ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہمارے ہاں سیکولر ازم کا روایتی تصور روشن خیالی، جدت اور ترقی پسند ی سے مخصوص سمجھتا ہے حالانکہ سیکولرازم کی حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ یہ سیکولرازم کا طریقہ واردات ہے ۔ یہ ابتداء میں ایک تنقیدی شکل میں سامنے آتا ہے جس کا ہدف کسی معاشرے کی قدامت اور اسکی پرانی روایات ہوتی ہیں اور یہ سب کھیل ترقی اور جدیدیت کے نام پر ہوتا ہے ۔ پھر دوسرے مرحلے میں یہ قدروں پر حملہ آور ہوتا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ لڑکھڑانے لگتا ہے ، اولین شکار عقائد اور ایمانیات کا وہ مجموعہ ہوتا ہے جو ہر طاغوتی حملہ کے خلاف حیات انسانی کا واحد سہار ا ہوتا ہے، یہ طرز فکر اس سے عبارت سب چشمہ ہائے حیات کو خشک کردیتا ہے۔ سیکولرازم کوکسی بھی معاشرے میں اپنے قدم جمانے کے لیے اس پربڑا حملہ کرنا انتہائی ضرور ہوتا ہے ، سیکولر پارٹیاں بخوبی سمجھتی ہیں کہ سیکولرازم (لادینیت)کو تبھی فروغ مل سکتا ہے جب ملک و قوم کی مذہبی شناخت ختم کردی جائے ۔تیسرے مرحلے میں اپنے مقابل کے خلاف اس کا رویہ جارحانہ ہوجاتا ہے اور یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اپنی گرفت قائم کرنا چاہتا ہے اسے آپ سیکولرازم کی تنگ نظری کہہ لیں یا پھر سیکولروں کا پسندیدہ مغرب کا مادر پدر آزاد انداز فکر اور طرز زندگی ہے جسے وہ نافد کرنا چاہتے ہیں ۔یہ ایک اذیت ناک امر ہے کہ مسلمان معاشرے کی توڑپھوڑ اور نئی صورت گری کے لیے مغرب اور ہندوستان کے پاس قابل فروخت مال سیکولرازم ہی ہے ۔ سامراجیت کی تجسیم نو ممکن ہی نہیں اگر اسے لادینیت کا سہارا اور تصور مہیا نہ کیا جائے۔یہ اس لحاظ سے ہمارے قومی وجود کے لیے ذیادہ خطرناک ہے اور جب بھی ہندوستان یا امریکہ کی طرف سے پاکستان کے لیے کوئی مصیبت کھڑی کی گئی تو انہیں افغانستان کے ‘شمالی اتحاد’ جیسے کسی چہرے کی تلاش ہوگی اور یہی سیکولر عناصر اور پارٹیاں فورا لبیک کہیں گیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رعوبیت کا سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں اور ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ میں اپنی روایات کی مخالفت اور اپنے مذہب سے بے زاری بطور فیشن کے ترقی پکڑ رہی ہے۔ بطور فیشن کے ترقی پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مخالفت اور بے زاری کی بنیاد کسی علم و تحقیق پر نہیں ہے، بلکہ مجرد احساس کہتری اور انفعال پر ہے۔ یہ نہیں ہوا ہے کہ غور و فکر اور تحقیق و تنقید سے ان پر ایک عقیدہ کی غلطی اور دوسرے نظریہ کی صحت ثابت ہو گئی ہے، اس وجہ سے وہ ایک کو رد اور دوسرے کو اختیار کر رہے ہیں۔ اگر یہ بات ہوتی تو خواہ یہ کتنی ہی غلط ہوتی ہمارے نزدیک زیادہ تشویش انگیز نہیں تھی۔ تشویش انگیز بات یہ ہے کہ محض اس وہم نے کہ جو قومیں سائنس کے میدان میں ہم سے برتر ہیں، لازماً مذہب و شریعت میں بھی وہ ہم سے برتر ہیں، بہتوں کے اندر یہ رجحان پیدا کر دیا ہے کہ وہ اپنی روایات کی مخالفت کریں اور دوسروں کی روایات کو سراہیں۔ بدقسمتی سے چونکہ عام طور پر اس طبقہ کے اندر اپنے مذہب کا علم محض روایتی ہی تھا، اس کی گہری بنیاد نہیں تھی، اس وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں اور ہر آنکھیں رکھنے والا شخص دیکھ سکتا ہے کہ جس طرح جنگل کی آگ پھیلا کرتی ہے، اسی طرح ہمارے کالجوں ہماری یونیورسٹیوں، اور ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں الحاد کی یہ آگ بھی پھیل رہی ہے۔

سید امین احسن اصلاحیؒ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سیکولر ڈسکورس کا تقاضا صرف یہ نہیں ہے کہ شرع کے فلاں فلاں “فقہی” مسائل نامناسب ہیں لہذا انہیں یا تو رد کیا جائے اور یا پھر انکی تعبیر نوع کی جائے بلکہ اس کا اصل تقاضا انسانی معاشرت کے قیام میں “عقیدے” کو غیر متعلق ثابت کرنا ہے۔ چنانچہ اس کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ “عقیدے کی درستگی وخرابی (چاہے کسی بھی نوعیت کی ہو)” ایک ذاتی چیز ہے، کسی فرد کے بارے میں رائے قائم کرتے وقت اس سے سہو نظر کرنا چاہئے اور “اچھائی” کی صرف انہی جہات کو مدنظر رکھنا چاہئے جو “مذھبی جہت” سے ماوراء ہوں۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“سیکولرازم میں کچھ بھی مقدس نہیں ہوتا جبکہ مذھب تقدیس کی بنیاد پر اپنا مقدمہ رکھتا ہے” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیکولرازم کے حامی اس قضیے کو کچھ یوں پیش کرتے ہیں گویا یہ کوئی خوبی کی بات ہو۔ آیا سیکولرازم میں کچھ مقدس ہوتا ہے یا نہیں یہ بحث ایک طرف لیکن سیکولرازم جن امور کو غیر مقدس (گویا “غیر عقلی”) قرار دے کر انسانی زندگی سے نکال باہر کرتا ہے اس میں فخر کرنے یا اچھا محسوس کرنے کی کیا بات ہے؟ یہ تو ایک انتہائی نامعقول بات ہے کیونکہ تقدیس و حفظ مراتب، یہ انسان کے فطری جذبات بھی ہیں اور انسانی معاشرت کی خوبصورتی بھی اور شرع نے ان کا بھر پور لحاظ رکھا ہے۔ اگر سیکولرازم میں کچھ مقدس نہیں رہتا (جیسا کہ مثلا محرم رشتے بھی نہیں رہتے) تو اس میں “بھلائی” کی بھلا کونسی بات ہے، یہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نظام میں شرع کو تحفظ دینا ناممکن ہے (اور یہی تو ہم کہتے ہیں)۔ حیرت ہے کہ ہمیں سیکولرازم کی نامعقولیت بھی معقول لگتی ہے۔ شاید اسی کے لئے شاعر نے کہا تھا ‘خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا نام خرد’!

ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جب کوئی فرد یا غیر سرکاری گروہ نہی عن المنکر کے لئے قوت استعمال کرے تو غامدی صاحب بتاتے ہیں کہ اسلام کی رو سے اس کا حق صرف ریاست کو ہے۔ پھر جب ریاست مذھبی بنیاد پر کسی معاملے میں (مثلا لباس غیر ساتر کے منکر کے خلاف) کاروائی کرنے لگے تو غامدی صاحب پھر سے بتاتے ہیں کہ “ریاست کو اس کا حق حاصل نہیں ہے”۔
جناب ایک مرتبہ اچھی طرح سوچ کر بتا دیجئے کہ اسلام کی رو سے بذریعہ قوت نہی عن المنکر کا حق کسی کو حاصل بھی ہے یا نہیں؟
مذھبی بنیاد پر ریاست کی عملداری کو غیر معقول بتانے کے لئے غامدی صاحب ٹی وی پروگراموں میں یہ بات متعدد مرتبہ فرماچکے ہیں کہ “لوگوں کو نیک بنانا یہ بھلا ریاست کا کام تھوڑی ہوتا ہے، ریاست تو صرف حقوق تلفی روکنے کے لئے ہوتی ہے”! لیکن “کون سے حقوق” اور “کس بنیاد پر متعین شدہ حقوق”، غامدی صاحب اور ان کے سامعین ان امور کو فارگرانٹڈ لیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں کیونکہ کہنے اور سننے والے دونوں کے دماغ میں سیکولر حقوق کی تفصیلات ہوا کرتی ہے جنہیں وہ “فطری” سمجھتے ہیں اور انہی کے لئے وہ نہی المنکر کے قائل ہوتے ہیں۔ ان کا یہ سارا استدلال واضح کرتا ہے کہ نہی عن المنکر میں منکر سے ان کی مراد “سیکولر منکر” ہوتا ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سیکولرازم کا معنی یہ ماننا ہے کہ خیر وحق کا تعین کسی خدا کے حکم سے نہیں کیا جائے گا کیونکہ عدل، خیر و حق سب خدا کے حکم سے بالاتر معاملات ہیں۔ ان امور میں مذھب سے راھنمائی لینا غیر عقلی و ناجائز ہے، الا یہ کہ آپ یہ ثابت کردیں کہ آپ کا خدا وہی کہتا ہے جو فرد اپنی مرضی و ارادے سے کہتا ہے۔
اسی طرح یہ جنہیں “ھیومن رائٹس” کہتے ہیں ان سے مراد وہ مفروضہ حقوق ہیں جو ہر تصور خیر سے ماوراء و بلند تر ہیں، یعنی:

  • ان کا جواز کسی مخصوص الہامی تصور خیر (مثلا اسلام، عیسائیت) پر مبنی نہیں
  • چونکہ یہ کسی مخصوص تصور خیر پر مبنی نہیں لہذا انہیں کسی الہامی تعلیمات کی بنا پر رد یا منسوخ نہیں کیا جاسکتا
  • یہ حقوق خود اپنا جواز رکھتے ہیں کیونکہ یہ فطری ہیں
    ظاہر ہے یہ سب مفروضات شرعا و عقلا باطل ہیں۔
    ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سیکولرزم لادینیت نہیں ہے!
جی ہاں،کیونکہ سیکولرزم ایک مستقل دین ہے جس کا اپنا تصور خدا، کائنات میں انسان کی حیثیت کے بارے میں اپنا تصور، زندگی و مابعد کے متعلق اپنے عقائد اور توہمات کے علاوہ عبادات، رسومات اور حلال و حرام کے ضوابط ہیں. یہ ایک پورا پیکیج ہے.اور ہاں. اس دین کے مختلف ایڈیشن بھی ہیں جو باہم گتھم گتھا بھی ہیں اور ان مین ہر ایڈیشن اپنے حتمی ہونے اور واحد حق ہونےکا دعویدار بھی ہے.
ڈاکٹر مشتاق

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ویسے تو سیکولرازم کا ذکر زیادہ تر ریاست کی سطح پر کیا جاتا ہے، لیکن انفرادی سطح پر بھی اس کے نتائج دین کے حوالے سے بھیانک ہیں.
جب ایک شخص یہ باور کر لیتا ہے کہ دین اس کا ذاتی معاملہ ہے تو اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے کسی بھی مسئلے میں نہ کسی کی مداخلت قبول کرے اور نہ ہی کسی معاملے کے دینی پہلو کے لیے اپنے آپ کو کسی کا محتاج خیال کرے. یوں اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ؛
میرے کمپیوٹر اور موبائل میں قرآن اور صحاح ستہ موجود ہیں. دنیا جہان کی تفاسیر اور ترجمے میرے ایک اشارے کے منتظر ہیں. میں خود ایک تعلیم یافتہ، باشعور شہری ہوں اور اس قسم کے مسائل خود حل کر سکتا ہوں. کسی مولوی کو یہ اختیار نہیں کہ مجھے رہنمائی دیتا پھرے.
میں مسجد جاتا ہوں تو مولوی کون ہوتا ہے جو مجھے بغیر بازو یا تصویر والی شرٹ پہننے سے منع کرے. یہ میرا اور خدا کا معاملہ ہے.
زکوٰۃ میرا مسئلہ ہے. میں دوں، نہ دوں، کتنی دوں، یہ میرا اور خدا کا مسئلہ ہے. میں خود چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہوں؛ کسی مولوی کو یہ حق نہیں کہ میرے اثاثوں کا آڈٹ کر کے مجھے بتائے کہ کتنی زکوٰۃ نکالنی ہے.
میں روزہ رکھوں، نہ رکھوں، گھر میں کھاؤں، ریڑھی پر کھاؤں، فائیو سٹار ہوٹل میں کھاؤں، یہ مولویوں کو کیا تکلیف ہے کہ پولیس سے چھاپے مروا کے ریسٹورنٹ بند کروائے اور کھانے پینے جیسے انتہائی ذاتی فعل میں مداخلت کرے.
میں وراثت میں کسی کے لیے کتنا مال چھوڑ کے جاؤں، سارا چیرٹی میں دوں، کسی کو عاق کروں، یہ مولوی کون ہوتا ہے میرے وارثوں کو پٹیاں پڑھانے والا.
میں کسی کو نبی مانوں یا ولی، یہ میرے ایمان کا مسئلہ ہے. یہ مولوی کو کس نے حق دیا میرے ایمان و کفر کے فیصلے کا. میں کیوں انہیں خدا مانوں.
و علی ہذا القیاس…
یعنی گیم یہ ہے کہ دین کو بھی ایک گیم بنا دیا جائے، جس کے پلیئرز کا تعین بھی “مائی لائف، مائی چوائس” کی بنیاد پر ہو گا نہ کہ کسی دینی ہدایت کی بنیاد پر.
ڈاکٹر رضوان اسد

**********

مغربی انلائیٹنمنٹ اور جدیدیت کے پروجیکٹ سے شروع ہوکر سرمایہ دارانہ نظام پر منتج ہونے والا سلسلہ اپنے راستے کے ہر ہر پڑاؤ منزل اور اس سے حاصل ہونے والے ذہنی مرغولوں کی ہر ہر صورت کو ایک ایسی معیاری شکل دے دیتا ہے کہ اس فریم اف ریفرینس کے اندر رہ کر اس پر تنقید کی جو بھی شکل آپ پیدا کر لیں وہ اس اس عمارت کے رنگ روغن اور کھڑکی دروازوں کی تنقید تو کرسکتی ہے مگر اس کلی نظام کی نہاد کو چیلنج کرنے کی ہر صلاحیت سے عاری ہو جاتی ہے۔
بالفرض اگر کوئی کوئی سر پھرا اس کی نہاد کو چیلنج کرے تو اسے پاگل بیوقوف عصر نا آشنا یعنی رجعت پسند کہا جاتا ہے۔اسی بات کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام انسانی فطرت کے جن ادنٰی مہیجات سے پیدا ہوا ہے ان مہیجات کا علاج کرنے والے ذرائع کا اگر آپ کا نام بھی لے لیں تو آپ کو دقیانوسی دور کا فرزند کہا جائے گا۔
عزیز ابن الحسن

************

اگر کسی طریقے سے ہر قوم کی رغبتوں اور خواہشوں کا لحاظ کرکے اسلام کے قوانین میں ڈھیل دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو شراب‘ جوا‘ زنا‘ سود اور ایسی ہی دوسری تمام چیزوں کو ایک ایک کرکے حلال کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے احکام ماننے اور اس کے قائم کیے ہوئے حدود کی پابندی کرنے اور اس کے حرام کو حرام سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کو اسلام میں داخل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اسلام ان کا محتاج کب ہے کہ وہ ان کو راضی کرنے کے لیے کم و بیش پر سودا کرے؟

سید مودودی ؒ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دورِ حاضر میں جدید ذہن نے مذہبی تعبیرات سے جان چھڑانی تو ضرور چاہی ہے مگر ملتی جلتی تعبیرات نئے ناموں سے ایجاد بھی کر ڈالی ہیں.
گویا آج کے انسان کو لفظ ‘مذہب’ سے تو ضرور چڑ ہے مگر خودساختہ فلسفوں سے مزین ‘آرٹ آف لیونگ’ یا ‘وے آف لائف’ اسے خوب متاثر کرتے ہیں. جس میں عقائد سے لے کر عبادات تک موجود ہیں.
اسے لفظ ‘خدا’ سے تو الرجی ہے مگر ‘مدر نیچر’ ، ‘سپریم انٹیلجنس’ یا ‘ کولیکٹیو کانشئیس نیس’ جیسے اصطلاحات اس کی توجہ کھینچ لیتی ہیں.
وہ کسی خالق کے لافانی ہونے کا تو انکاری ہے مگر ‘لاء آف تھرموڈائنامکس’ کے تحت انرجی کو ابدی و ازلی ماننے سے نہیں جھجھکتا.
اسے ملائکہ یا شیاطین و جنات کا ذکر تو نری جہالت محسوس ہوتے ہیں مگر اپنے اردگرد موجود ‘پازیٹو اور نیگٹو انرجیز’ پر وہ بڑے بڑے سیمنار منعقد کرتا ہے.
اسے نظر کے لگنے یا جادو کے ہونے پر تو ہنسی آتی ہے مگر ‘ہپناسس’ یا ‘ریموٹ ویوینگ’ جیسے موضوعات میں خوب دلچسپی ہوتی ہے.
اسے نماز، تسبیحات، اعتکاف جیسی عبادات تو وقت کا زیاں لگتی ہیں مگر مختلف طریقوں کی ‘میڈیٹشن’ یا ‘یوگا’ خوب دل کو بھاتے ہیں.
اسے ‘دعا’ کا مانگنا تو سراسر حماقت محسوس ہوتا ہے مگر ‘لاء آف ایٹریکشن’ جیسے فلسفے اسے اتنے پسند ہیں کہ اس پر لکھی کتب کو بیسٹ سیلر بنادیتا ہے.
اسے روح کے ہونے پر بات بھی کرنا پسند نہیں مگر کیا ‘مائنڈ اور کانشیس نیس’ ہمارے دماغ سے الگ رہ کر بھی موجود ہوسکتے ہیں؟ اس پر وہ بات کرنے، سننے اور بعض اوقات ماننے پر بھی تیار ہو جاتا ہے.
.
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا دور ہے، ساز بدلے گئے

عظیم الرحمان عثمانی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ماڈرن ازم (جدیدیت) کے عقیدوں آزادی مساوات ترقی نے پاکستانی عورتوں کو کہاں پہنچایا ہے مدیحہ وارث قریشی کا مضمون Pursuit of Happiness اس کی ہلکی سی جھلک دکھاتا ہے،سیکولر لبرل تعلیمی اداروں اور اسلامی سیکولر اسکولوں سے نکلنے والی لڑکیاں چاہتی ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کریں زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں اچھی نوکری کریں تنہا زندگی گزاریں شادی نہ کریں بچے پیدا نہ کریں مگر چند سال کے بعد ان کو بھی پتہ چلتا ہے کہ زندگی خالی ہے اور نفسیاتی مسائل الگ ہیں اور تنہائی ڈس رہی ہے آخر کاروہ لڑکیاں جو ماں باپ کی اجازت سے مغرب میں جاکر سنگل لائف بہترین کردار کے ساتھ گزارنا چاہتی ہیں’ نہیں گزار سکتیں آخر کار وہ مغرب میں اکیلے رہنے کے بجائے تھک ہار کرشادی کرلیتی ہیں، بچے پیدا کرتی ہیں۔ یعنی عورت کی آزادی اسلام نہیں آزادی عورت کی فطری خلقی ساخت چھینتی ہے آزادی کا عقیدہ اسے بتاتا ہے کہ تیرا وجود ہی آزادی میں اصل رکاوٹ ہے لہٰذا عورت کو مرد ہونا چاہیے مگر عورت تو مرد نہیں ہوسکتی اب بے چاری کیا کرے لہٰذا بس شادی کرے بچے پیدا کرے اور اچھے دنوں کی آرزو میں زندگی بسر کرے۔
آرٹیکل لنک:

ڈاکٹر خالد جامعی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سیکولرازم اپنے قبول کرنے والوں سے جو قیمت مانگتا ہے وہ بے حد گراں ہے ۔ یہ انسان کو روحانیت سے محروم کرکے اسے محض ایک مادی انسان بنا دیتا ہے ، روحانیت سے محروم یہ ادھورا وجود جب کوئی معروضی طور طریق سامنے نہیں پاتا تو مایوس ہو کر اپنی ذات کی طرف لوٹتا ہے لیکن اسے یہاں بھی بے چینی اور اضطراب کے سوا کچھ نہیں ملتا ، بغیر سانچے کی لائف ، نہ اخلاق نہ قدریں ، ایک بے سکون اور ناپائیدار زندگی ، ایک بے سمت تغیر جس میں ثبات نہیں ، جس میں حرکت تو ہے لیکن بے منزل بے مراد ، اسے قدم قدم پر فیصلہ کرنا پڑتا ہے لیکن نہ کوئی میزان سامنے ہوتا ہے اور نہ کسوٹی ۔ ۔یہی وجہ ہے کہ وہ مسلم معاشرے جنہوں نے اول اول لادینیت کا زہر نگلا، انجام کاری قوت سے عاری، لنگڑے لولے وجودبن کر رہ گئے ہیں کیونکہ جسموں سے حرکت پذیری کا داعیہ نچڑ چکا ہے اور اسلام کی کشمکش میں انکی روح اور وجود باہم متصادم کھڑے نظر آتے ہیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کچھ لوگ مولوی طبقے کو بالعموم غلط کہتے ہیں۔ کسی مولوی کی کوئی بات غیرمناسب دیکھ کر مولویت کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رویہ زیادتی پر مبنی ہے۔
عمومی حقیقت یہ ہے کہ “ملائیت” ریاستی اسلام کی ڈوبتی کشتی سے پیدا ہونے والا ناگزیر اور ضروری ردعمل تھا۔ نو آبادیاتی دور میں جب ریاستی طاقت، تعلیمی نظام اور lingua franca سب کچھ تبدیل ہو کر کالونئل بھیڑیوں کے مطابق ہو گئی تب اسلام کی اکیڈمک ساخت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک طبقے کا “مولوی” بننا لازم ہو گیا۔ انہوں نے زمانے کے بہاو کے خلاف چلتے ہوئے وہ نصاب تشکیل دیا اور پڑھا جس کے باعث اکیڈمک اسلام باقی رہا۔ اب چونکہ وہ لوگ صاحب اقتدار نہیں تھے لہذا وہ اپنی استطاعت میں جو کر پائے، کر گئے۔ خامیاں ان میں بھی رہیں جیسے کہ ہر شعبے میں ہوتی ہیں۔ پھر زمانے کے دھارے سے مخالف ہونے کے باعث ان کے وسائل بھی بہت محدود رہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ “ملائیت” نے اپنے شعبے میں دستیاب وسائل اور وقت کے چیلنجز کے اعتبار سے بالعموم مثبت کردار ادا کیا ہے۔
ابو ابراھیم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

خراب آپ کا اپنا حال ہے اور حملہ آپ اسلام کے ماضی پر کرتے ہیں
اس دُنیا میں احساس کمتری سے بڑا عذاب شاید کوئی نہیں !کتنی عجیب بات ہے کہ اسلام سے بیزار طبقہ شدید دُکھ میں مبتلا ہے کہ مسلمانوں کا ماضی سائنس کے میدان میں اتنا تاریک کیوں رہا ! میں قطعا یہ ثابت کرنے کی ً کوئی کوشش نہیں کرنے لگا کہ مسلمانوں کا ماضی سائنس کے میدان میں بھی اُتنا ہی تابناک تھا کہ جتنا معاشرت و معاملات میں تھا ۔میں تو چند سادہ سے سوالات اُٹھانے لگا ہوں کہ یار لوگوں کا تو منشور ہی ” سوال کی حرمت کا سوال ہے ” جیسا کچھ ہے۔

  • اگر آپ اسلام اور مسلمانوں سے بیزار ہیں تو اسلام اور مسلمانوں کے ماضی کے حوالے سے اتنی حساسیت کی کوئی خاص وجہ ؟؟؟؟
  • آپ ماضی کو کھودنے کریدنے میں اس درجہ منہمک ہیں کہ حال آپ کو دِکھتا ہی نہیں !! کیوں بھلا ؟؟؟
    بچے گٹروں میں گر کے مر رہے ہیں ۔ اسکولوں میں مویشی بندھے ہیں ۔ تھانے منڈیاں ، عدالتیں تماشا اور اسمبلیاں مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہی ہیں ۔ یہ تو حال ہے اور آپ کا ہاتھ اسلام کے ماضی کے گریبان سے ہی نہیں اُتر رہا ۔
    ماضی جن کے ہاتھ میں تھا وہ ماضی سمیت گزر چکے ۔ حال تو آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ اسکول ، تھانے ، اسمبلیاں اور عدالتیں نہ تو ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ماتحتی میں ہیں نہ ہی ان کو چلانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کا کوئی عمل دخل ہے ۔ تابعین و تبع تابعین و فقہاء و محدثین بھی ان تمام اداروں کی کارکردگی سے بری الزمہ ہیں ۔
  • خراب آپ کا اپنا حال ہے اور حملہ آپ اسلام کے ماضی پر کرتے ہیں ۔ کیوں بھلا !! ؟
  • اس ملک میں لاکھوں مسلمان فزکس ، کیمسٹری اور لاتعداد سائنسی مضامین پڑھ بھی رہے ہیں اور پڑھا بھی رہے ہیں ۔ تو پھر گلہ کیسا ؟ دُکھ کیوں ؟
  • ٹھیک ہے ایک آدھ بچے کو اُس کے والدین نے اُس کی مرضی کے بغیر مُلا بنا دیا !! اُس بیچارے کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے احساس کمتری کا ڈھنڈورا بیچ چوراہے پیٹے !! لیکن آپ تو ایم آئی ٹی کے گریجویٹ ہیں ! آپ کے ساتھ تو کوئی ظلم بھی نہیں ہوا ! آپ کے مروڑ کیوں نہیں تھم رہے !
    آپ کو میں لبڑل اس لیے کہتا ہوں کہ آپ زرداری ، نواز شریف ، الطاف ، فضل الرحمان ، بابا سراج ، نیازی کے کرتوت اسلام کی گود میں ڈالتے ہیں !
    جتنی ہوا اسلام کی آپ کو لگی ہے اُتنی ہی یا کچھ کم زیادہ نے ان سب کو بھی چھوا ہے !
    یہ میرا اور آپ کا معاشرہ ہے ۔ یہ بالکل ہم جیسا ہے ۔ اس کو اسلام کے منہ پر مت مَلیے !!
    آئیے پہلے اس کیچڑ کو میں اپنے منہ پر مَلتا ہوں اور تھوڑی ہمت کر کے آپ بھی اسے اپنے گالوں پر تھوپیے!!
    باقی جہاں تک اسلام ، اسلام کے فلسفے و حقیقت کا تعلق ہے تو اُس کے لیے آپ کو تھوڑا سفر کرنا پڑے گا !!
    “” ہارورڈ اسکول آف ڈی وِنِیٹی “” کا کہ جہاں الہامی مذاہب کا مطالعہ کرنے والے اکثر طلبہ کی تحقیق اسلام کو دِل و جان سے تسلیم کرنے پر منتج ہوتی ہے !!
    عابی مکھنوی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہمارے سیکولر دوست اکثر یہ سوال اُٹھاتے ہین: ’’کس کا اسلام؟ یہاں تو ہر فرقے کا اپنا اسلام ہے‘‘۔ یہ سوال یا تو اسلام سے عدم واقفیت کی دلیل ہے یہ محض ایک تجایل عارفانہ۔ اسلام اپنی قانونی اور عائلی شکل میں ایک بہت واضح اتفاقِ راۓ (consensus) کا نام ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مذہبی قضیات علمی اور فقہی موضوعات بھی ہیں، اس لیےان پر کسی ریاضیاتی اتفاق راۓ کا مطالبہ نہ صرف غیر مناسب ہے بلکہ ایک غیر علمی مطالبہ بھی ہے۔ حقیقت میں یہ معاملہ ۱۹۵۱ میں کم از کم پاکستان کی حد تک اُس وقت حل کر دیا گیا تھا جب تمام مکاتب فکر کے نمائیدہ علما نے باہمی اتفاقِ راۓ سے اپنے بائیس نکات حکومت کو پیش کر دیئے۔ پھر بھی اس سوال کو سیکولر دوستوں کی طرف سے بار بار اُٹھایا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
دوسری طرف البتہ ایک متوازی سوال اُٹھایا جاسکتا ہے: ’’کس کا سیکولرازم؟ ساختی سیکولرازم (structural secularism), سیاسی سیکولرزام، ریاستی سیکولرازم (state secularism)، الحادی سیکولرازم (atheistic secularism)، نیم مذہبی سیکولرازم (semi-religious secularism)، اشتراکی سیکولرازم (socialist secularism) وغیرہ وغیرہ۔ مسٹر اینڈ مسز جان مارٹن فیمن ازم پر ایک کتاب میں لکھتے ہیں :
Even Socialism, with its fifty-seven varieties, is more authoritatively defined, because there is at least a Socialist party with a representative convention
and a formally adopted platform.
یہاں سوشل ازم کی 57 ورائٹیاں شمار کی گئی ہیں۔
جو سوال آپ نے اسلام کے بارے میں اٹھایا ہے بالکل یہی سوال سیکولرازم اور جموریت کے بارے میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ کس کا سیکولرازم؟ اس میں بھی ہزار ہا درجے اور کیٹگریز ہیں۔ لیکن وہاں ہم سے سوال نہیں اٹھاتے۔ کیوں؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سیکولرازم کے اندر موجود بہت سے فرقوں کا ذکر کر کے ’’صحیح سیکولرازم‘‘ کی بابت دریافت کیا جاتا ہے تو احباب موٹے موٹے ’’بنیادی‘‘ نکات گنوا کرکے سادہ انداز میں ایک ’’متفقہ علیہ‘‘ سیکولرازم کی ایمان مجمل بیان فرما دیتے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ جہاں ہم چاہیں وہاں نہ صرف اتفاق راۓ بلکہ اشتراک عمل بھی ڈھونڈ لیتے ہیں، اور جہاں نہ چاہیں وہاں نافدانہ اور فلسفیانہ چہ مگوئیوں کا کوہ ہمالیہ کھڑا کر دیتے ہیں؟
ڈاکٹر جمیل اصغر جامی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سیکولرازم کا ڈسکورس بالعموم اور ہمارے یہاں کے طبقات کا بالخصوص مغالطوں سے عبارت ہے۔ مثلا ایک مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ سیکولرازم فرد کی نجی زندگی میں ریاستی قانون سازی نہ کرنے سے عبارت ہے۔
سیکولرازم کے بارے میں یہ بیان اپنے اندر پورے سیکولرانہ ڈسکورس کو مفروضے کے طور پر فرض کئے ہوئے ہے مگر اسے پیش یوں کیا جاتا ہے گویا یہ بالکل کسی سادہ حقیقت کا نام ہو۔ سوال یہ ہے کہ “نجی زندگی کے جس دائرے میں قانون سازی نہیں کرنی” اس دائرے کا تعین کس چیز سے ہورہا ہے؟ قرآن و سنت سے، بائبل سے یا ویدا سے؟ جواب ہے ان میں سے کسی سے بھی نہیں کیونکہ اس کا جواب ہے “ھیومن رائٹس” کے فریم ورک سے جو قرآن سمیت کسی مذھبی کتاب کو قبول نہیں کرتا۔ پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مذھبی ماخذ قانون اور ھیومن رائٹس کے طے کردہ “قانون کے دائرہ کار” میں اختلاف ہو تو پھر فوقیت کسے حاصل ہوگی؟ مثلا ھیومن رائٹس کے فریم ورک میں غیرساتر لباس، بدکاری، مسلم کا مشرک سے نکاح وغیرہ (یا ھندو روایت کے برخلاف ھندو بیوہ خاتون کا نکاح کرلینا) سب قانون کے دائرے سے باہر کے معاملات ہیں۔ تو جناب اس فریم ورک سے متعین ہونے والے “نجی زندگی کے دائرے” کو کس دلیل کی بنیاد پر قبول کیا جائے؟
دیسی سیکولرز کے بارے میں میری تشخیص یہ ہے کہ ان کی بڑی اکثریت کو سیکولرازم کی ماھیت کی خبر نہیں، یہ اس کے ظاہری پہلو پر فریفتہ ہیں۔ اور جن تھوڑے سے لوگوں کو مکمل خبر ہے وہ اس کے مقدمے پر بحث و گفتگو کرنے میں بہت محتاط ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پوری بات سامنے رکھنے سے لوگ بدک جاتے ہیں کہ ابھی “مناسب ماحول” میسر نہیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ مولوی جوان بهی عجیب ہیں ان میں ‘اخلاق’ ڈهونڈے سے نہیں مل پاتے ..
جب بهی دیکها لڑکیوں کو گهر چهوڑتے جدید مہذ ب تعلیم یافتہ کو ہی دیکها ..یہ مولوی گنوار کسی کی ماں بہن کو بهلا گهر کیوں چهوڑنے آئیں ایسی خدمت انکے نصیب میں کہاں !
ادهر دیکھ ساری موبائل کمپنیوں کے نائٹ پیکج ان تہذیب و تعلیم یافتہ جوانوں کی بدولت ہی چل رہے ہیں
کسی کو فائدہ دینا انکی قسمت میں کہاں۔۔
فٹے منہ !کبهی سینما یا تهیٹر کا رخ بهی کر لو ہمیشہ مسجد و ممبر کے طواف ہی کرتے رہتے ہو ۔ ۔
اتنی خوبصورت برہنہ بدن مورتیاں خالق نے عبث پیدا کی ہیں یا جانوروں کے لیے ہیں جب مرد هی نہ دیکهے تو ان آبگینوں کا کیا مقصد ۔۔؟!
پرانے اور قدیم خیالات کی آماجگاه ہونے کو تو چهوڑیار ۔۔فیشن اور رواج بهی پرانے ہی اپنائےہوئے رہتا ہے۔۔
وائن شینڈی یا ووڈکا تو ان کے ہاتھ میں نظر ہی نہ آوے .۔۔ بس مسواک منہ میں اور شلوار گهٹنوں تک ۔۔
بھولے بندے آج کل کا فیشن ہے ایک عدد تیلی منہ میں، لمبی مونچھ، داڑهی صاف اور شلوار گھسٹتی ہوئی .۔۔
کیا سمجها انٹلیکچول بن انٹلیکچول۔۔!
استاد کو ایسا رتبہ دیتا هے جیسے وہ کوئی دوسرے جہان سے آیا ہے بهلا همارے جیسا انسان ہے ایسی بهی کیا عزت۔۔؟
سرخاب کے پر تهوڑی لگے ہیں سالے کو ۔۔
دوسری طرف ماں باپ ہیں کہ ترستے ہی رہتے ہیں کہ کبهی ہمارا بیٹا بهی جوان ہو کسی کی بیٹی کو چهیڑے ۔۔
مگر مجال ہے کہ جناب جوان ہو جائیں ۔۔!
میرا تو دل کڑہتا ہے کہ
ان مولویوں کو اخلاق کی دهونی دے دے کر تعلیم یافتہ تهک گئے لیکن یہ بے چارہ گنوار پن پر ایسے ڈهیٹ ہوئے بیٹهے ہیں جیسے اس کے پورکھ ان اخلاق سے بهاگتے تهے۔۔
اے دانشمندان فیس بک!!
خدارا ان کو سمجهائیے کہ یہ’ اخلاق ‘ہی سب کچھ ہیں ان کے بغیر نہ زندگی لذیذ ہے نہ پر رونق۔۔
اور یہ کہ اس عزت کی فکر چهوڑ دو یہ اب دنیا میں صرف تمہارے یہاں ہی پائی جاتی ہے۔۔ ‘اہل علم و دانش’ اس پر کب کے فاتحہ والی دسترخوانی کر چکے ہیں۔۔!!
تعلیم یافتہ گنوار

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سیکولر طبقہ ایک ایسے پاکستان کو قبول کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں جس کے پیچھے مسلم قومیت کی کرشمہ سازی ہواس لیے انکی طرف سے اکثر یہ طعنہ سننے, پڑھنے کو ملتا ہے کہ اگر اسلام میں اتنی قوت ہوتی تو پاکستان ایک رہتا، پاکستان معاشی طور پر ایک مستحکم قوت ہوتی، اسکے ادارے مضبوط ہوتے، یہ ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہوتا۔ ۔
پہلے تو ان سے پوچھنے کا سوال یہ ہے کہ کیا مشرقی پاکستان مذہبی طبقہ کی وجہ سے علیحدہ ہوا؟ کیا اس ملک میں کرپشن دین دار طبقہ کررہا ہے؟ کیا اسکی حکومت ، تحقیقی ادارے، کالج یونیورسٹیاں مولوی چلا رہے ہیں ؟کیا تمام ملکی ادارے اسلامی اصولوں کے مطابق کام کررہے ہیں ؟ اتنی دیر پا یا موثر رہنے کی صلاحیت تو کسی نظام میں بھی نہیں کہ آپ اسے نافد بھی نہ کریں اور نظام صرف نام (اسلامی جمہوریہ ) رکھ دینے کی وجہ سے یہ آپ کو اکٹھا رکھے یا سیاسی جلسوں میں صرف اسلام زندہ باد کے نعرے لگا دینے سے اس نظام کے ثمرات آپ کو ملنا شروع ہوجائیں ۔
دوسری طرف سیکولر طبقہ کے اپنے حالات یہ ہیں کہ پاکستان کی وحدانی قوت کو پاش پاش کرنے کے لیے لسانی اور علاقائی تعصبات ابھارنے میں انکا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ آج بھی دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ ملک میں قومیتوں کی سیاست کون سے گروہ کررہے ہیں؟ بنگلہ دیشی تحریک سے لے کر سندھو دیش، بلوچ قوم پرست تحریکیں، مہاجر ازم کے علم بردار ، خود پنجاب میں پنجابیت اور سرائیکیت کا فتنہ جگانے والے کون لوگ ہیں؟ ۔ کیا یہ دینی پس منظر کے حامل لوگ ہیں؟ ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ پاکستان کے ملی اور جغرافیائی وجود پر تیشہ زنی کرنے والے یہ تمام لادین گروہ جس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اسکے عناصر ترکیبی لسانی قوم پرستی، بے دینی ، ہندو دوستی ہے۔ سیکولر یہ سب کچھ جو کررہے ہیں کیا اس سے معاشرے میں وحدت پیدا ہوتی ہے؟
اس سے بڑی منافقت اور کیا ہوگی ایک طرف اسلام کو بغیر نافد کیے یہ طعنہ دیا جائےکہ ” یہ ترقی اور قومی وحدت کا وسیلہ نہیں، یہ تجربہ ناکام ہوگیا ہے” دوسری طرف خود اسکی پیدا کردہ وحدت کو لسانی اور نسلی سیاست اور فکرکے ذریعے بربا د بھی کیا جائے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کیا مسٹر جناح جھوٹے اور دھوکے باز تھے؟ (نعوذ بااللہ)
انگریزوں، انگریز پرستوں، کانگریسیوں، یونینسٹوں، مہا سبھائیوں اور اَکالیوں سے لے کر۔ خود بانیانِ پاکستان۔Founding Fathers of Pakistan۔ تک، کسی کا بھی یہ خیال نہیں تھا کہ ہندوستان کا بَٹوارا اِس لیے ہورہا ہے کہ یہاں دو، تین یا زائد ’’سیکولر مملکتیں‘‘ بنیں گی اور چلیں گی۔ اُس وقت جنوبی ایشیا کی کسی قوم اور گروہ کی سیاسی قیادت اتنی احمق، بھولی بھالی، کم نظر یا کنفیوزڈ نہیں تھی کہ آج کے ’’روشن خیالوں‘‘ جیسا واہمہ پالتی اور یہ حماقت آمیز، بلکہ خیانت آمیز بات سوچتی۔ بانئ پاکستان کی شخصیت اور کردار میں جو اُجلاپَن، کھراپَن اور بے ساختگی تھی اُس میں ایسی ’’مُنافقت‘‘ یا ’’حماقت‘‘ کا کوئی گزر نہیں تھا۔
اُردو کی عظیم ناول نگار قراۃ العین حیدر نے ایک بار کراچی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے کسی سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے نہیں بنا تو دراصل آپ تحریکِ پاکستان اور مسٹر جناح کے بارے میں یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بددیانت، جھوٹے اور دھوکے باز تھے کہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر وَرغلا کر پاکستان تو بنوا لیا۔ مگر دراصل یہاں ایک ’’سیکولر ریاست‘‘ اُن کے پیشِ نظر تھی۔ کم از کم مَیں، مسٹر جناح کو ایسا نہیں سمجھتی۔
تاریخ کا یہ باب اگر یکسر مٹایا نہ جاسکے تو سیکولر اور روشن خیال طبقے کے پاس اِس سوال کا کیا جواب ہی، کہ ایک کروڑ افراد کا، سرحدوں کے آرپار منتقل ہونا، ایک مِلین انسانوں کا قتلِ عام، صدیوں سے آباد بستیوں کا اُجڑ جانا کیا ’’سیکولر انڈیا‘‘ سے الگ ہوکر، محض ایک ’’سیکولر پاکستان‘‘ بنانے کی قیمت تھی؟؟؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک استدلال یہ بھی وضع کیا جاتا ھے کہ”اگر ہندوستان بھی اپنے ملک کو ہندو سٹیٹ ڈیکلیر کردے یا امریکہ عیسائی سٹیٹ ڈیکلیئر کردے تو آپ مسلمانوں کو کیسا لگے گا؟ تو اگر آپ ان سے انکے ملکوں میں برابری کے حقوق طلب کرتے ہیں تو اپنے ملک میں یہ حقوق کیوں نہیں دیتے؟’
“ریسیپروسیٹی” (Reciprocity) کی عقلیت پر مبنی یہ نہایت عجیب و غریب استدلال ہے ۔ہم انکے ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے سیکولرازم کی بنیاد پر حقوق اس لئے نہیں مانگتے کہ ہم سیکولرازم کو حق سمجھتے ہیں بلکہ اس لئے مانگتے ہیں کہ وہ “خود اسکا اقرار کرتے ہیں”۔ اگر ہمیں قوت حاصل ہو تو ہم کب اس سیکولرازم کی دہائی دینے والے ہیں؟
پھر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو لوگ “خود” سیکولرازم کو پروموٹ کرتے ہیں ہم انکے منہ میں یہ بات کیوں ڈال کر استدلال وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ “اگر وہ یوں کرلیں یا ووں کرلیں تو؟”بھائی ہم تو ان سے انکی پوزیشن پر بات کریں گے، نہ کہ کسی مفروضہ پوزیشن پر۔جب وہ ایسا کریں گے تو اس وقت “بطور حکمت عملی” ہمیں حسب استطاعت کیا کرنا ہے ہم دیکھ لیں گے۔
مگر اس بنا پر ہم سے یہ مطالبہ ہرگز جائز نہیں کہ ہم بھی اپنے یہاں اسی اصول پرحقوق دینے کے پابند ہونگے۔ آخر کیوں فرض کیا جائے کہ ایک ہی اصول ہر جگہ لاگو ہونا چاہئے؟ دیکھئے جب آپ امریکہ جاتے ہیں تو امریکی آپ کو “زنا کا حق” دیتے ہیں، تو کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ جب امریکی ہمارے یہاں آئے تو ہم بھی اسے یہ حق عطا کریں؟
پھر اس استدلال کی نوعیت سے معلوم ہورہا ہے کہ آپ اسلام کو معاملے میں “ایک فریق” بنا کر خود اس سے “باہر کھڑے” ہوکر گویا فریقین کے درمیان منصفی کرانا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بہت سے سیکولر حضرات کے پاس جب کوئی معقول دلیل باقی نہ رہے تو چند ایسے مخصوص فقہی احکامات کو بنیاد بنا کر اپنا مقدمہ مضبوط بنانے کی غیر منطقی کوشش کرنے لگتے ہیں جو جدید ذھن کے لئے قابل قبول نہیں ہوتے۔ مثلا ایک دلیل یہ دیں گے کہ دیکھئے اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے جس سے معلوم ہوا کہ اسلام غیر مذھب والوں کو قبول نہیں کرتا۔
اس مسئلے کی فقہی حیثیت اور بصیرت پر ہمیں یہاں کچھ نہیں کہنا، سوال یہ ہے کہ اگر ھم اس مسئلے میں قتل کی سزا کی رائے چھوڑ کر کوئی دوسری رائے اختیار کرلیں (جس کی گنجائش فقہ اسلامی میں بھی موجود ہے) تو کیا پھر آپ ایک اسلامی ریاست کے قیام کی معقولیت پر راضی ہوجائیں گے؟ کیا واقعی کچھ اسی قسم کے چند مشکل سے ھضم ہونے والے فقہی مسائل پر آپ کو اشکال ہے کہ اگر انہیں حل کرلیا جائے تو “ھمارا قضیہ” حل ھوجائے گا اور یا پھر ان مسائل کو اچھالنے کا مقصد “کچھ اور” ہی ہے؟ سیکولر حضرات کے ساتھ ان جزوی فقہی مسائل میں الجھنے کے بجائے “اصل قضیے” پر بات کرنا چاہئے۔ اصل قضیہ “ماخذ قانون” کی بحث ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ایک کے سواء سب اقلیت” کا جھانسا
سیکولر حضرات یہ دعوی فرماتے ہیں کہ دیکھو ایک مذھبی ریاست میں چونکہ دیگر تمام مذاھب کے ماننے والے مستقلا اقلیت بن جاتے ہیں جو عدل و انصاف کے خلاف ہے، لہذا ریاستی (اجتماعی) نظم کو سیکولر ہونا چاہیے۔
اس دعوے میں سیکولر حضرات یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں گویا مذھبی ریاست میں تو “ایک کے سواء سب” (all but one) اقلیت ہوتے ہیں مگر سیکولر نظم میں کوئی بھی مذھب اقلیت نہیں ہوتا۔ جبکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ ھیومن رائٹس پر مبنی سیکولر نظم تو “سب” ۔۔۔۔۔۔۔ جی “سب کے سب” ۔۔۔۔۔۔۔ مذاھب کے ماننے والوں کو مستقل اقلیت میں تبدیل کردیتا ہے، وہ بھی عین اسی معنی میں جس معنی میں کسی ایک مذہب کی بالادستی کے نتیجے میں دیگر مذاھب کے لوگ اقلیت بن جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کہ اجتماعی نظم میں حقوق کی تفصیلات ان کے مخصوص تصور خیر، اقداری ترتیب اور ماخذ حق سے اخذ نہیں کی جاتیں۔ تو بتائیے کہ سب کے سب اھل مذھب پر “اپنا پسندیدہ” ماخذ و تصور حق مسلط کرکے انہیں اقلیت بنا کر آپ نے اہل مذھب پر کونسا احسان عظیم کیا کہ جسے آپ ان پر جتلانے کی کوشش کرتے ہیں؟ آپ کے اس دعوے میں کچھ دم تو تب ہو جب آپ کوئی ایسا حل پیش فرمائیں جس میں “سب کے سب” مذاھب ایسی اکثریت بن جائیں کہ جن کا تصور خیر ماخذ قانون ٹھرے۔ تو جب آپ کے پاس ایسا کوئی حل ہے ہی نہیں، بلکہ آپ بھی ان “سب کو ھٹا کر” بس اپنا پسندیدہ “ایک” ان پر لانا چاہتے ہیں تو آخر آپ کو “ایک کے سواء سب” کے اقلیت ہونے سے کیا پریشانی ہے؟ آپ بھی تو سب کو all but one کا ہی قائل کرنا چاہتے ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ وہ آپ کا “من چاہا ایک” ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر اسلامی نظامِ زندگی پنپ سکتا ہے وہ ایک سراب کی تلاش میں ہیں کیونکہ غیر اسلامی ریاست میں اسلامی انفرادیت اور معاشرت کبھی عام نہیں ہوسکتے۔ ریاست تو نام ہی نظامِ اقتداراور جبر کا ہے جس میں مقصد جبری مقبول یا عمومی طور پر برداشت کی جانے والی معاشرتی اقدار کا فروغ ہوتا ہے تو لامحالہ کافرانہ ریاست کافرانہ معاشرت ہی کو مسلط کرے گی جس کے نتیجے میں ایک کافرانہ انفرادیت کے فروغ اور عموم کے مواقع ہی پنپ سکتے ہیں۔ اسی سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ہمارے فقہاء کرام بلا شرعی عذر کیوں کافر ریاستوں میں رہائش اختیار کرنے کے خلاف تھے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مذھبی ریاست کی حقیقت سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جس کی بنا پر اسلامی تاریخ اور حال میں موجود حکومتوں کے بارے میں متضاد تجزیہ کاری وجود میں آتی ہے۔ ایسی تجزیہ کاری پر مبنی گفتگو کچھ ایسی ہوتی ہے:

  • صرف خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی حکومت تھی۔ پھر مسلمان بادشاہوں کی حکومتیں آگئیں جس میں خاندان حکومت کیا کرتے تھے
  • یہ بات کہنے والوں کی اکثریت اہل علم سے اگر پوچھا جائے کہ کیا پاکستان اسلامی ریاست ہے تو جواب ملے گا “ہاں”۔ کیوں؟ اس لئے کہ آئین میں لکھا ہوا ہے۔
  • کیا مسلمان بادشاہوں نے کہیں لکھ کر طے کررکھا تھا کہ ہماری سلطنت میں فیصلے اسلام کے مطابق نہ ہونگے؟ کیا ان کے ادوار میں قضا کا سارا نظام شرع پر مبنی نہیں تھا؟
  • نہیں بادشاہ اپنی مرضی کیا کرتے تھے، ان پر شرع کا حکم نہ چلتا تھا، وہ فلاں غیر شرعی تصرف کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔
  • موجودہ دور میں جن ریاستوں کو آپ اسلامی مانتے ہیں ان کے حکمران کیا ایسے کرتوت نہیں کرتے؟ تو پھر اس تخصیص کی وجہ کیا ہے کہ ان بادشاہوں کے جرائم تو نظام کو غیر اسلامی بنانے کے لئے کافی ہوں مگر آج والوں کے نہیں؟
    دراصل اس تجزیہ کاری کی بنیاد وہ غلط مفروضات ہیں جو کسی نظام کے اسلامی ہونے کے بارے میں قائم کرلئے گئے ہیں۔ فقہاء نے مسئلے کو جڑ سے پکڑا: اسلامی سلطنت وہ ہوتی ہے جہاں احکام شرع کا نفاذ و سربلندی ہو۔
    کیا مطلب؟
  • احکام کے نفاذ کے لئے پہلے ان کے صدور (derivation) کا عمل ہوتا ہے، اگر احکام صادر ہی نہ ہوں تو وہ کبھی بھی نافذ نہیں ہوسکتے۔ مطلب یہ کہ اسلامی حکومت وہ ہوتی ہے جہاں پالیسی سازی (اخذ احکام) کا ماخذ شریعت ہو اور منصب اقتدار پر بیٹھے لوگوں کی جانب سے انہیں جاری بھی کیا جاتا ہو۔ حکمران کا “عوام کا نمائندہ” ہونا نہ تو اس کی لازمی شرط (necessary condition) ہے اور نہ ہی کافی شرط (sufficient condition)۔
    ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قومی ریاستوں کے دور میں امت کا تصور
کیا وہ لوگ جوامت کی موت کانوحہ پڑھتے ہیں اورہمیں یہ درس دیتےہیں کہ قومی ریاستوں کے دورمیں ہر قوم بس اپنی ہی فکرکرتی ہے، یہ جانتے ہیں کہ قومی ریاستوں کےاس دور میں ہی کتنی دفعہ بعض رہاستوں نے “انسانیت کے نام پر” دوسری ریاستوں میں مداخلت کی ہے؟
کیا وہ یہ بھی جانتےہیں کہ عام طورپریہ مداخلت جس ریاست میں کی جاتی ہےاس پرالزام یہ ہوتاہےکہ وہ اپنےہی باشندوں کےحقوق کی پامالی کررہی ہے؟
کیا وہ یہ بھی جانتےہیں کہ “نفسی نفسی” یا “قومی قومی” کےاس دور میں بھی یورپی طاقتوں نےامریکا کیساتھ ملکر اجتماعی دفاع کا معاہدہ کیاہےجسکی رو سےان میں کسی ایک پر حملہ سب پر حملے کےمترادف ہوتاہے؟
کیا یہ جانتے ہیں اس اجتماعی حقِ دفاع کا عنوان استعمال کرکے کئی بار ان طاقتوں نے ان ملکوں پر بھی حملے میں پہل کی ہے جنھوں نے ان پر حملہ کیا ہی نہیں تھا؟
پھر کیا یہ جانتے ہیں کہ ان ممالک نےقومی ریاستوں کےاسی دور میں اقوامِ متحدہ کی تنظیم نامی ایک ادارہ بنایا ہےجسکی سلامتی کونسل کو یہ حق دیا گیاہےکہ جب وہ یہ سمجھےکہ کسی ریاست کی جانب سے “بین الاقوامی امن کو خطرہ” ہے تو وہ اسکےخلاف فوجی کارروائی کرے؟ کیا یہ جانتےہیں کہ اس طرح کی کارروائی اس وقت بھی کی جاتئ ہے جب بین الاقوامی امن کو خطرہ اس ملک کے “اندرونی امور” سے ہواور یہ کہ ایسے موقع پر “اندرونی امور میں عدم مداخلت” کا اصول معطل ہوجاتا ہے؟
اس سب کچھ کی موجودگی میں یہ دعوی کیسےکیاجاسکتا ہے کہ “امت” کا دور چلا گیا ہے اور اب “قوموں” کا دور ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اب بھی دور امت ہی کا ہے لیکن یہ امت مغربی اقوام پر مشتمل ہے اور اس میں مسلمانوں کی حیثیت کبھی اہل ذمہ کی ہوتی ہے، کبھی اہل صلح کی اور کبھی اہل حرب کی۔
ڈاکٹر محمد مشتاق

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password