حسینی کبھی سیکولر نہیں ہوسکتا

سیاسی اور مزاحمتی تحریکوں تاریخ میں کم ہی لوگ نفسی خواہش، علاقائی و قومی عصبیت، یا کسی لبرل، سوشلسٹ اور سیکولر تناظر و مقاصد سے بالاتر ہو کر، ایک آفاقی مقصد حیات کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی جان قربان کر تے ہیں۔ ان ہستیوں میں سر فہرست نام سید الشہداء، امام عالی مقام، امام حسین علیہ السلام کا ہے، جنکی لازوال قربانی کو زندہ رکھنے کا اہتمام، حق تعالٰی نے خود فرما دیا ہے۔ گویا خدا خود چاہتا ہے کہ مسلمان تاقیامت، امام حسین علیہ السلام کی قربانی، کو غم میں ڈوبی محبت، رغبت، رشک اور اہتمام سے یاد کرتے رہیں۔ لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ان غم گساروں میں کم لوگ اس حقیقی مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں، جس کے لیے امام حسین علیہ السلام نے اتنی بڑی قربانی دی۔ آئیے ہم اس عظیم الشان قربانی کو اسکی اصل روح کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ مقصد کیا تھا؟
کیا یہ محض اپنی ذاتی منفعت حاصل کرنے کی بات تھی۔ بالکل نہیں، اگر اپنی ذات ہی عزیز ہوتی، تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟
کیا یہ سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے تھا؟ ہر گز نہیں، جو شخص بھی، حضرت امام حسین کی سیرت اور اسلامی تربیت سے واقف ہے، وہ ایسی سطحی بدگمانی نہیں کر سکتا۔
کیا انہیں عارضی دنیاوی اقتدار کی طلب تھی؟ کیا وہ کسی لبرل یا سیکولر آئیڈیل کے احیاء کے لیے، گھر سے نکلے تھے؟ دل تھام کر سوچئے، کیا لبرل اقدار کے لیے جدوجہد کرنے والا، اپنی شہادت کے وقت اللہ تعالٰی سے مناجات اور دعائیں کر رہا ہوتا ہے، تہجد اور ذکر اذکار میں مشغول ہوتا ہے، کیا سیکولر تصور جہاں کے علمبرداروں کے لبوں پر، مرتے وقت قرآنی آیات کا ورد ہوتا ہے؟، سیکولر اقدار کو مقصد حیات و ممات بنانے والوں کے سروں کو اگر، نیزوں کی انی پر لٹکایا جاتا ہے، تو اس میں سے اللہ کی وحدانیت اور کلام الہی کے پرُسوز نغمے نہیں پھوٹتے۔

ہر گز نہیں، مادی مقاصد کے علمبرداروں کے برعکس، حضرت امام حسین نے قربانی اس لیے دی کہ دین اسلام، اپنی معتبر اور خالص شکل میں، اپنے جزوی و کلیُ محاسن کے ساتھ، زندگی سے متعلق relevant اور منسلک رہے، اور اسلامی نظام حیات میں کوئی ٹیڑھ نہ آئے، جو بعد میں، آنے والی مسلمان نسلوں کے لیے فتنے اور فساد کا موجب بنا رہے۔ آپ نے اپنی دینی بصیرت سے بھانپ لیا تھا، کہ اگر اس نازک وقت میں، غیر جانبدار رہا گیا، تو دین حق مشتبہ ہو کر رہ جائے گا، گویا غیر متحرک ہو کر سیکولرلائز ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے، سہولت اور عافیت پرستانہ راستوں کے بجائے، عزیمت کے راستے کو ترجیح دی، تا کہ مسلمان حق و باطل میں امتیاز کر سکیں اور حکومت و سیادت کے لئے دینی راہنمائی کے مطابق کردار ادا کرسکیں۔ امام چاہتے تو گوشہ نشین ہوکر اپنی ذاتی زندگی دینی عبادات و فرایض کی ادائیگی کرتے گزارسکتے تھے مگر انہوں نے دین کے اجتماعی اور سیاسی کردار کے تقاضوں کو نبھانے کے لئے میدان میں نکلنا ضروری جانا اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی اسلامی تصور جہاں کو غیر متعلق نہ ہونے دیا۔

امام حسین کی یہ کوشش یقینا مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں دین کے اٹوٹ کردار کا بھرپور اظہار تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے، تو امام حسین نے اپنی عملی شہادت سے، مسلم معاشرے میں، de-secularization کی سب سے loud اور موثر کوشش کی۔ امام حسین کی قربانی چودہ سو سال میں سیکولرزم کے خلاف مسلمانوں کی سب سے بڑی اور روشن مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسین کی نسبت اور اسوہ حسنہ، سے اپنی زندگی کے اصول کشید کرنے والے، حسینی نہ تو دنیا پرست ہو سکتے ہیں اور نہ ہی، دینی حق کو غیر متعلقہ کرنے کے مفہوم میں، سیکولرازم نواز ہو سکتا ہے۔

حضرت امام حسین کے حقیقی پیروکاروں اور نام لیواؤں میں بشری تقاضوں کے تحت، خامیاں ہو سکتیں ہیں نقص ہو سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی مسلمان حضرت امام حسین کی سیرت کو حرز جاں بنائے لیکن، سیکولرلائزیشن کی سرگرمی کے ذریعے دین اسلام کو، مسلم معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی نظم سے غیر متعلقہ، کرنے کی سیکولر مہمات کا بھی حصہ بنا رہے۔ کیونکہ صحبتِ حسینیت، اپنے اثرات مرتب کر کے دم لیتی ہے، اس لیے، ایک اصول کے طور پر یاد رکھنا چاہیے، کہ حسینی نہ تو دنیا پرست ہو سکتا ہے اور نہ ہی دین حق کو عہد جدید میں غیر متعلقہ irrelevant کرنے والا، سیکولر ہوتا ہے۔
گویا وہ صرف حسینی ہوتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حسین
اطہروقارعظیم

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password