اوّل اوّل بہت خوشی ہوئی، دل نے مان کر نہ دیا کہ ایک انگریزی اخبار نے غیر ملکی تہذیبی یلغار کے ہنگام پاکستانیت کی بات کی ہے۔ اہتمام سے میں نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ میرے دوست کو شکوہ تھا کہ عرب کلچر ہمیں اپنی آ غوش میں لیتا جا رہا ہے۔ گاڑیوں کی نمبر پلیٹیوں پر اب پاکستان کی جگہ ’ الباکستان‘ اور پنجاب کی جگہ’ بنجاب‘ لکھا ہوتا ہے۔ وہ پریشان تھے کہ عربی لہجہ ہماری پاکستانیت کو کہیں چاٹ نہ لے اور ان کے دوست رضا رومی کو کہیں ردھا رومی نہ کہا جانا لگے، معلوم نہیں رمضان المبارک میں ان کی ہم نصابی سرگرمیوں کا عالم کیا ہوتا ہے لیکن رمضان سے ان کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہیں پاکستانیوں کے رمضان کو عرب لہجے میں رمدھان کہنا نہ شروع کر دیا جائے۔ انہیں شکوہ ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی رمضان مبارک کی جگہ رمضان کریم کہا جا رہا ہے اور اس عالم کرب میں وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی پہچان تبدیل ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے لاہور میں ہر دوسری گاڑی پر عربی کا بھوت سوار ہے۔ وہ پوچھتے ہیں، عربی الفاظ اور تلفظ استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہماری قومی زبان اردو موجود ہے؟ وہ سوال اٹھاتے ہیں:’’کیا یہ سب چند اشارے ہیں کہ پاکستان عربائزیشن کی طرف جا رہا ہے؟ کیا پانچ دریاؤں کی سرزمین آہستہ آہستہ ریت کے ٹیلوں، اونٹوں اور کھجور کے درختوں کے لیے جگہ بناتی جا رہی ہے‘‘؟ تاہم جب میں یہ تحریر پڑھ چکا تو اب میرے پیشِ نظر چند سوالات ہیں۔ جب تک ان سوالات کا جواب نہیں مل جاتا میرے لیے پاکستانیت کے اس نومولود ترجمان کی فکری دیانت کا قائل ہونا ممکن نہیں۔ ان سوالات کا شافی جواب ملنے تک اپنے دوست کی اس تحریر کو فکری اضطراب نہیں عصبیت کی جگالی کہا جائے گا۔
میرے دوست کی اصل تکلیف کیا ہے؟یہ کہ ایک غیر ملکی کلچر پاکستان میں آ رہا ہے یا یہ کہ عرب کلچر پاکستان میں آ رہا ہے؟اگر یہ ایک غیر ملکی کلچر کے خلاف ایک پاکستانی کا اضطراب تھا تو ہم اس کی تحسین کرتے ہیں لیکن اگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ صرف امریکی اور برطانوی کلچر آنا چاہیے تھا، عربی کلچر کیوں آ رہا ہے تو معاف کیجیے یہ ایک بیمار رویہ ہو گا اور ایسے رویوں کا علم کی دنیا میں کوئی بھرم ہوتا ہے نہ معتدل رویے ایسی سطحی اور احمقانہ باتوں کی تائید کر سکتے ہیں۔ جب ہم بیرونی کلچر کے مقابلے میں پاکستانی کلچر کی بات کرتے ہیں تو اس میں صرف عرب کلچر کے اثرات پر بات کیوں کی جائے؟ دیار فرنگ سے جو تہذیب لا کر ہمارے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ رضا رومی تو معلوم نہیں کبھی ردھا رومی بنیں گے یا نہیں لیکن ہماری کئی یاسمینیں تو کب سے ’ جیسمین‘ بن چکی ہیں ان پر تو فاضل دوست نے کبھی مضمون نہیں باندھا کہ بی بی جیسمین رشید جب ہماری اپنی اردو موجود ہے تو انگریزی تلفظ اپنانے کی کیا ضرورت ہے۔ اور یہ اپنے ندیم ایف پراچہ صاحب ندیم ف پراچہ کیوں نہیں لکھتے؟جب اردو کا ’ ف‘ موجود ہے تو انگریزی کے ’ ایف‘ کی پخ لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ محترمہ ماروی سرمد صاحبہ ایک عرصے سے پورے اہتمام کے ساتھ ماتھے پر تلک لگا کر ٹی وی پروگراموں میں تشریف لاتی ہیں ان پر تو میرے دوست نے کبھی اعتراض نہیں کیا کہ بی بی جب پاکستانی کلچر موجود ہے تو آپ یہ بھارتی ناریوں کا فیشن کیوں کر رہی ہو۔ عرب کلچر کے صرف دو تین مظاہر دیکھ کر میرے دوست کی ’ پاکستانیت‘ جاگ اٹھی لیکن جو احباب باقاعدہ منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی تلفظ کی نقالی کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے۔ قومی زبان کی محبت میں آج آپ شمشیر بکف ہو گئے لیکن آپ جیسے دوست جب حقارت سے دوسروں کو اردو میڈیم کہتے ہیں اس وقت آپ کی یہ ’ پاکستانیت‘ کہاں چلی جاتی ہے۔ عربوں کا چغہ پہننے سے آپ کی ’پاکستانیت‘ جاگ اٹھی لیکن جب ہمارے نوجواوں کی جینز کمر سے ایک کلو میٹر نیچے چلی جاتی ہے اس وقت آپ نہیں بولتے کہ بھائی اپنا کلچر اپناؤ۔ پینٹ پتلون پہننے والے کو کبھی یہ طعنہ آپ نے نہیں دیا کہ صاحب کیا ہو گیا ہے اپنا کلچر اپناؤ۔ جون کے مہینے میں یار لوگ پاکستان میں ٹائی لگاتے ہیں اور پتلون کوٹ پہن لیتے ہیں کبھی ان سے تو ’ مسٹر پاکستانی‘ نے نہیں کہا کہ بے وقوفو لباس تو موسم کی مناسبت سے پہن لو۔ ۔۔۔ یہ پاکستانیت آخر اس وقت ہی کیوں جاگتی ہے جب سیکولر احباب کی متعین فکر سے ہٹ کر کوئی کام ہونے لگتا ہے؟
میں ایک عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ سیکولر انتہاپسند مذہبی انتہا پسندوں سے کم جنونی نہیں بلکہ یہ ان سے کچھ زیادہ ہی خطرناک ہیں۔ یہ دو انتہائیں ہیں اور سماج کو ان دونوں سے بچنا ہو گا۔ اب جیسے جیسے وقت گذرے گا آپ کو پتا چل جائے گا کہ لبرل اور کلچرڈ کہلانے والوں کی من کی دنیا کتنی متعصب اور کتنی شدت پسند ہے۔ رچرڈ ریویز نے کہا تھا: ’’ہم امریکی اپنے مفادات کے لیے واہیات باتیں علی الاعلان کر سکتے ہیں‘‘۔ آج یہی دعوی ہمارے سیکولر انتہا پسند بھی کر سکتے ہیں۔ کل تک مذہبی طبقے کے جن دلائل پر یہ کندھے اچکا کر ’ بلڈی نان سینس‘ کہہ دیا کرتے تھے آج خود انہی دلائل سے مسلح ہو کر آ گئے ہیں۔ اس سے زیادہ واہیات بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ کل جب مذہبی طبقہ کہتا تھا انگریز کلچر سے خود کو بچانا چاہیے تو یہ سیکولر احباب کہتے تھے کلچر تو کلچر ہوتا ہے ، اور زبانیں تو ساری ہی محترم ہوتی ہیں ۔ کل جب لوگ کہتے تھے یہ ویلنٹائن ڈے ہم پاکستانیوں کا کلچر نہیں تو یہ سیکولر احباب حقارت سے کہتے تھے کلچر کو سرحدوں میں قید نہیں کیا جا سکتا یہ تو انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے، لیکن آج عرب کلچر کی دو چیزیں کیا آئیں یاروں نے ہاتھ سر پر رکھ کر دہائی دینا شروع کر دی ہے۔ اس سے شرمناک رویہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یعنی جب تک چیزیں آپ کی ترجیحات کے مطابق چلتی رہیں آپ کو نہ مذہب کی پرواہ ہوتی ہے نہ پاکستانیت کی لیکن جیسے ہی آپ کے تصورات سے ہٹ کرکچھ ہونے لگتا ہے تو آپ چیخ و پکار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ انگریزی میں نمبر پلیٹس بنتی رہیں تو پاکستانیت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا عربی میں دو چار بن گئیں تو آپ ’ نظریاتی سرحدوں کے نومولود محافظ ‘ بن کر سامنے آ گئے۔ کیا آپ ایک تہذیب کی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے مقابل کوئی آئے تو آپ ’ پاکستانیت‘ کے نام پر شمشیر بکف ہو جاتے ہیں۔ یعنی تعصب کی انتہا دیکھیے ’ کے ایف سی ‘ اور میکڈونلڈ سے ان کی پاکستانیت کبھی متاثر نہیں ہوئی اور انہوں نے کبھی نہیں لکھا کہ جب پاکستان میں برائلر مرغ دستیاب ہے تو کے ایف سی ، میکڈونلڈ اور اٹالین پزا کیوں کھائیں لیکن عرب کی دو درجن کھجوروں سے انہیں تکلیف ہونا شروع ہو گئی ہے۔
اگر کسی کے پیش نظر واقعی پاکستانی تہذیب و اقدار کا تحفظ ہے تو وہ بتائے یہ جو روز فیشن شوز ہو رہے ہیں ان میں پہنے جانے ملبوسات ( اگر کچھ پہنا جاتا ہے)پاکستان کے کس علاقے کی تہذیب کے عکاس ہیں اور یہ ہمارا میڈیا ہم پر بھارتی کلچر مسلط کر رہا ہے اس کے خلاف کب آپ میدان میں آئیں گے؟ پاکستانیت کے یہ نومولود خیر خواہ بھائیوں کا نام لے لے کر یاروں کو مت روئیں۔
تحریر آصف محمود