جناب راشد شاز صاحب انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک متشدد قسم کے ماڈرنسٹ ہیں (جیسا کہ انکی کتاب کے نام ”مسلم ذھن کی تشکیل جدید” سے ظاھر ھے) اور غامدی صاحب سے بھی متاثر ھیں۔ ذیل کے پوسٹ میں یہ جناب اپنے تجددانہ افکار کے جواز کیلئے یہ سنہرا اصول بیان فرماتے ھیں کہ قرآنی الفاظ کا اطلاق کنٹکسٹ (یعنی ماحول) کا مرھون منت ھوتا ھے، اگر کنٹکسٹ بدل جاۓ تو الفاظ کے اطلاقات بدل جاتے ہیں۔ اس قسم کے استدلال ماڈرنسٹ لوگ اپنے حق میں پیش کرتے رھتے ہیں لہذا اسکا بھی تجزیہ کئے لیتے ہیں (اس پر کئ اعتبار سے گفتگو ھوسکتی ھے مگر یہاں ایک پر فوکس کرتے ھیں)۔
شاز صاحب جیسے دانشوران سے سوال یہ ھے کہ وہ کنٹکسٹ جسے معیار بنا کر الفاظ قرآنی کے اطلاقات بدلتے رھنے کی بات کی جارھی ھے کیا بذات خود اس کنٹکسٹ کو جانچنے کی ضرورت بھی ھوتی ھے یا نہیں؟ یعنی کنٹسکٹ بذات خود ٹھیک ھے یا غلط اسکا فیصلہ کرنے کی ضرورت بھی ھے یا نہیں، یا بس آنکھیں بند کرکے اسکے اندر الفاظ کا اطلاق کرتے چلے جانا چاہئے؟ اب کنٹکسٹ بذات خود تو اپنا جواز بن نہیں سکتا جب تک کہ یہ فرض نہ کرلیا جاۓ کہ ‘یہ بہر صورت ٹھیک ھوتا ھے؟’ ظاھر ھے یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ھے۔
اب فرض کریں اگر کنٹکسٹ ھی غلط ھو تو اسکے تناظر میں قرآنی الفاظ کے اطلاق بدلنے کی کوشش کا نتیجہ کیا یہ نہیں ھوگا کہ ھم قرآن کو ایک باطل کنٹکسٹ میں پڑھنے کی کوشش کرنے لگیں؟ آج اسلام کے نام پر سرمایہ دارانہ ادارتی صف بندیوں کے جتنے متبادل تیار کئے جارھے ہیں انکی بنیادی غلطی یہی ھے کہ اس میں کنٹکسٹ کو نظر انداز کرکے الفاظ کے اطلاقات تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ھے۔ چنانچہ مسلم ماڈرنسٹوں کا بنیادی مسئلہ یہی ھے کہ یہ موجودہ (سرمایہ دارانہ) کنٹکسٹ پر کسی قسم کا سوال اٹھانے کے روا نہیں (جسکی بنیادی وجہ انکی اس کنٹکسٹ سے ناواقفیت ھے)، یعنی یہ کنٹکسٹ تو انکے نزدیک بہر حال لامتبدل ھے کہ یہ درست اور غیر اقداری ھے، بس مسئلہ قرآن کو اسکے تناظر میں سمجھنے کا ھے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ھے جسکی بنا پر ھم ان لوگوں کو ماڈرنسٹ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ”جدیدی کنٹکسٹ کے اندر” اطلاقات قرآنی وضع کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔ ایسی ھر کوشش کا حاصل قرآن کے نام پر جدیدیت کا اثبات ھی ھوگا جیسا کہ ان متجددین کی ڑیڑھ سوسال تاریخ بتا رہی ھے۔
اپنے تجددانہ افکار کے جواز کیلئے متجددین یہ سنہرا اصول بیان فرماتے ھیں کہ قرآنی الفاظ کا اطلاق کنٹکسٹ (یعنی ماحول) کا مرھون منت ھوتا ھے، اگر کنٹکسٹ بدل جاۓ تو الفاظ کے اطلاقات بدل جاتے ہیں۔ یہ کہتے ھیں کہ اکیسویں صدی میں ساتویں صدی کے اطلاقات کی بات کرنا غیر علمی بات ھے کیونکہ اب کنٹکسٹ تبدیل ھوچکا لہذا اطلاق بدل جانا عقلی تقاضا ھے۔ یہ دلیل درحقیقت اسلاف کے فہم اسلام کو ترک کردینے کا ایک بہانہ ھے۔
مگر ماڈرنسٹوں کی یہ دلیل انکے تضاد عقلی کا شاخسانہ ھے۔ اس دلیل پر ذرا غور کریں، اس دعوے کا تقاضا یہ بات ماننا بھی ھے کہ ”اسلاف کا فہم اسلام بہرحال درست ھونا چاھئے کیونکہ ساتویں صدی کے اطلاقات کی روشنی میں وہی نتیجہ نکلنا چاھئے تھا جو انہوں نے نکالا نیز وہ اس میں حق بجانب بھی تھے”۔ مگر ھم تو دیکھتے ہیں کہ یہ ماڈرنسٹ لوگ اپنے فہمِ قرآن اور لسانِ عرب کی بنیاد پر اسلاف کے فہم اسلام کو سرے سے ہی غلط قرار دیتے ہیں، تبھی تو انکی غلطیاں پکڑتے ہیں۔ مثلا آل غامدی کی مثال لیجئے جو بڑے مزے سے ’فقہاء کو یہ غلطی لگی‘، ‘دین کی اس بات کو یوں سمجھنا انکے سوء فہم اور قلت تدبر کا نتیجہ تھا’ وغیرہ جیسے فتوے جاری کرتے ہیں۔ ان ماڈرنسٹوں کا یہ رویہ صاف بتا رھا ھے کہ انکے نزدیک اسلاف کا فہم اسلام آج کے کنٹکسٹ نہیں بلکہ ساتویں صدی کے کنٹکسٹ میں بھی غلط تھا کہ اگر انکے تئیں یہ غلط نہ ھوتا تو اسکی غلطی نہ پکڑتے۔ یہ بات صاف بتا رہی ھے کہ انکے نزدیک اسلاف کے فہم اسلام کی طرف رجوع کیلئے ’اکیسویں صدی‘ میں ’ساتویں‘ صدی کا ماحول پیدا کرنے کی شرط خود انکے نزدیک بھی غیرضروری اور غیر متعلقہ شرط ھے (کہ انکے نزدیک وہ بات اس وقت بھی اتنی ہی غلط تھی جتنی آج ھے کیونکہ انکے بقول ہم نے یہ بات درست فہم قرآن کے درست اصولوں سے اخذ کی ھے نہ کہ اسکے اطلاقات سے)۔ ماڈرنسٹوں کا یہ کنبہ اکیسویں صدی میں بیٹھ کر ’ساتویں‘ صدی کا کنٹکسٹ خود ساتویں صدی کے لوگوں کیلئے بھی غلط ہی سمجھتا ھے مگر اپنے نظریات کا جواز دینے کیلئے اس قسم کی متضاد دلیلیں وضع کرتا ھے۔ درحقیقت ساتویں اور اکیسویں صدی کے کنٹکسٹ اور اطلاقات کی بات صرف ایک بہانا ھے، اصلا یہ لوگ صرف اکیسویں صدی کے جدیدی کنٹکسٹ میں تیار کی جانے والی ذاتی فہم اسلام ہی کو اسلام کا اصل اطلاق سمجھتے ہیں۔
٭جدید ذھن کا تصور اجتہاد اور ھمارے متجددین:
جدید ذھن کا دینی طبقوں سے مطالبہ یہ ھے کہ جدید دنیا میں تمام تر فیصلے تو ایک ”ماورائے اسلام” (تنویری) علمی ڈسکورس کی بنیاد پر ہی کئے جائیں گے، ”ملائیت نہیں چلے گی” کے نام پر دینی علم کے ماھرین کو تو بے دخل کردیا جائے گا، ھاں اقتدار اور فیصلوں کی کنجیاں ماورائے اسلام علمیت کے ماھرین کے ھاتھ میں بہرحال رہنی چاہئیں کہ یہ ‘عقل کا تقاضا’ ھے،البتہ
اس (جاہلی) علمیت سے انسانیت کیلئے جو مسائل پیدا ھورھے ہیں اسلام یا تو اس جدید تناظر کے اندر رھتے ھوئے انکا بطور مشیر حل پیش کرے اور یا پھر اس علمیت سے نکلنے والے مجوزہ حل کو بطور آلہ کار جواز فراھم کرے،اگر اسلام یہ دونوں کام (سرمایہ داری کی مشیری و نوکری) نہیں کررھا تو اسلام ناقابل عمل اور ناکام ھے۔
گویااس جدید ذھن کے نزدیک اسلام کا کام یہ ھے کہ وہ ایک ظالمانہ اور باطل نظم اجتماعی کے پیدا کردہ اور حرص و حسد سے مغلوب جدید انسان کے مسائل کو ”اسی کے اندر” حل کرنے کے طریقے تجویز کرے۔مزے کی بات یہ ھے کہ ہمارے یہاں ایسے جدید مذھبی سکالرز و دانشوران کی بھی کوئی کمی نہیں جو ”اجتہاد مطلق کا دروازہ کھولنے” کے شوق میں اس جدید تصور اجتہاد کی آبیاری کرنے میں مصروف ھیں۔
اس جدید مسلم ذھن کی غلامی کا یہ عجب حال ھے کہ اگر امریکہ اور پورپی اقوام کی سفاکیت کی پول کھولی جائے تو اسے نجانے کیوں ناگواری ھونے لگتی ھے۔ تاریخ کے بدترین استعمار کی سسٹمیٹک نسل کشی اور لوٹ مار (کہ جسکی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی) کو یہ ماضی کے چند برے قسم کے حکمرانوں کے مظالم کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرنے لگتا ھے (مثلا یہ کہے گا کہ ”مسلمانوں میں بھی بہت سے برے حکمران گزرے ہیں، سپر پاور ایسا ھی کرتی ھے، وغیرہ”)۔ ایسا کہتے وقت یہ ذھن بڑی معصومیت کے ساتھ یہ فرض کرلیتا ھے گویا مسلمانوں کی خلافتیں بھی شاید اسی طرح استحصال اور نسل کشی پر قائم ہوتی رھی ھونگی، مسلمان بھی اسی طرح لوٹ کھسوٹ سے کام لیتے ھونگے اور شاید دنیا میں ایسا ہی ھوتا رھا ھوگا۔
اس پر بھی غور کیجئے کہ ان ذہین جدید لوگوں کو بادشاھوں کے مظالم تو ”نظم ملوکیت” کا شاخسانہ نظر آتے ہیں اور اس وجہ سے یہ ملوکیت سے سخت نالاں ھونگے مگر جمہوری استعمار کی نسل کشی بھی انہیں چند جمہوری حکمرانوں کی غلطیاں دکھائی دیتی ہیں، فیاللعجب۔ قرآن نے اسی رویے کو ‘مطففین’ (لینے اور دینے کے پیمانوں کا فرق کرنے والوں) سے تعبیر کیا ھے۔ انسانی تاریخ میں جمہوریت کے دامن پر جتنے انسانوں کی قتل و غارت گری، استحصال اور لوٹ کھسوٹ کے داغ ہیں پوری انسانی تاریخ میں ان سے زیادہ بدنما داغ کسی اور نظم اجتماعی کے دامن پر نہیں ملیں گے۔ مگر یہ جدید مسلم ذھن پھر بھی اسی پر فدا ھوا چلا جا رہا ھے، اتنا ہی نہیں قرآن کی آیات پڑھ پڑھ کر یہ ثابت کررھا ھے کہ خدا کا ازلی ارادہ بھی ایسا ہی (سفاکانہ) نظام قائم کرنا رھا ھے۔
تحریر : زاہد مغل