غامدی صاحب کے پیش کردہ مسائل کے حل کی نوعیت


ایک صاحب دوران گفتگو فرمانے لگے کہ ”غامدی صاحب نھایت ذہین اور قابل انسان ہیں، انہوں نے جدید دور کے مسلمانوں کے بہت سے مسائل کا حل پیش کیا اور جدید ذھن اسی لئے ان سے متاثر ھوتا ھے”۔
میں نے عرض کی کہ غامدی صاحب نے جدید تناظر میں موسیقی، مصوری، حجاب، جہاد الغرض سیاسی و معاشرتی نظم کے ہر پہلو پر حل کے نام پر جو بھی کچھ پیش کیا اسے ”مسئلے کا حل” نہیں بلکہ ”مسئلہ کو فطری سمجھ کر قبول کرلینا (naturalizing, internalizing or adapting to the problem) کہتے ہیں”۔ حل کب اور کہاں پیش کیا انہوں نے؟ چونکہ جدید ذھن کی اٹھان ہی اس خمیر سے ھوئی ھے جو ان مسائل کو فطری سمجھ کر قبول کرتا ھے لہذا غامدی صاحب کی آواز اسے اپنے دل کی آواز محسوس ھوتی ھے اور بس، اس میں انکی علمیت کا کوئی کمال نہیں۔


غامدیت سٹاک ہوم سنڈروم کی انٹلکچوالائزیشن ہے۔


سٹاک ہوم سنڈروم ایک نفسیاتی کیفیت کو کہتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ ایک مرد یا عورت کو کسی ظالم نے اغوا کرلیا۔ اب مغوی فرد نے اول اول تو بہت مزاحمت کی۔ لیکن جب اس کے چھوٹنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئی تو پھر اس نے صبر کرلیا اور آزادی کی تمام امیدوں سے دست بردار ہوگیا۔ پھر کچھ اور عرصے گذرنے کے بعد اس مغوی فرد نے اپنی سہولت اور بقا کی پوری امیدیں اس ظالم اغوا کرنے والے فرد سے وابستہ کرلی۔ پھر دھیرے دھیرے اب اس مغوی فرد کو اپنے مالک سے انسیت ہوجاتی ہے۔ کچھ اور وقت اور گذرا تو اسے اپنے اس مالک سے محبت ہوجاتی ہے۔
یہاں پر اب جو کیفیت ہے اس کو سٹاک ہوم سنڈروم کہتے ہیں، یعنی کسی مغوی کا اپنے اغوا کرنے والے فرد سے محبت کرنا۔ اسی طرح عمومی طور پر اپنے اوپر ظلم کرنے والے فرد سے اس قسم کی وابستگی رکھنے والے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہے۔
اب غامدی صاحب کی فکر جو ہے اس میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں بس مسلمان غلط ہیں اور باقی سب صحیح ہیں۔ میرے خیال میں یہ استعماری چالبازیوں کے سامنے مسلمانوں کی مسلسل شکست کا نتیجہ۔ وہ اسی تھکی ہاری شکست خورہ ذہنیت کے نتیجے میں مغربی فکر سے ایک گونہ لگاؤ محسوس کرتے ہیں۔ اور پھر اسلام کی تشریح اس طرح سے کرتے ہیں جس سے اسلام اور مغربی فکر میں کسی قسم کا ٹکراؤ محسوس نہیں ہوتا یا انصاف سے کہا جائے تو بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسی نفسیاتی کیفیت کو بڑے فاضلانہ اندازمیں پیش کرنے کا نام غامدیت ہے۔
میرا اندازہ ہے کہ یہ جو غامدی کے فین ہیں یہ بھی اسی شکستہ ذہنیت کے شکار ہیں۔ اس لئے ان کی سمجھ میں صرف اپنی بات آتی ہے۔ ظاہر ہے نفسیاتی کیفیت کسی کے قابو میں نہیں رہتی۔
غامدی کے طرفدار برا نہ مانیں۔ جب غامدی کے طرفدار پوری امت کی اخلاقی کیفیت کا تجزیہ دھڑلے سے پیش کرتے ہیں، تو ہمیں بھی ان کی نفسیاتی کیفیت کا تجزیہ پیش کرنے دیں۔

دراصل ہمارے یہ اصحاب جس چیز کو ’عقل‘ کہتے ہیں وہ موسمی وباؤں سے متاثر اور سلف کے دستور سے متنفر کوئی نحیف و لاغر ذہنی عمل ہے؛ لہٰذا وقت کی فکری و تہذیبی وباؤں کو لازماً ان کے اندر بولنا ہے؛ ورنہ یہ ’عقل‘ لگے گی ہی نہیں ’اسلاف کی تقلید‘ نظر آئے گی!
یا پھر ’عقل‘ وہ الاسٹک ہے جس کو ’زمانے کے رجحانات‘ جیسے جیسے اور جس جس طرف کو کھینچتے چلے جائیں یہ لاشعوری طور پر اور بلا چوں و چرا اُسی طرف کو کھچتی چلی جائے؛ نہیں کچھے گی اور کسی ’پیچھے سے چلے آتے‘ دستور پر ہی ضد اور ’ہٹ دھرمی‘ اختیار کرے گی تو محسوس ہوگا یہ تو عقل ہی نہیں ہے!
آپ اِس (دستورِ سلف سے آزاد) عقل کی آوارگی خود دیکھ لیں؛ بےشک یہ اپنا نام ہمیشہ عقل رکھے گی بلکہ اپنے مخالف موقف رکھنے والے کو ’عقل‘ سے بےدخل بھی کر ڈالے گی، لیکن زمانے کے سب مؤثرات کا اثر لےگی اور اسی کے دیے ہوئے سانچوں میں ڈھلتی چلی جائے گی البتہ نام اس کا برابر ’عقل‘ ہی رہے گا! ہاں یہ ماننا ہوگا، اپنے زمانے کے رجحانات کو ’اکاموڈیٹ‘ کرنے کےلیے دلیلیں اور فارمولے اس کے پاس کبھی کم نہ ہوں گے؛ اور ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد، ہر زمانے کے مدعیانِ عقل کچھ ایسے ’یونیورسل‘ حقائق کی جانب ’قطعی وحتمی‘ راہنمائی پائیں گے کہ دستورِ سلف پر چلنے والے تو ایک طرف، خود پچھلے زمانے کے مدعیانِ عقل بھی ہونق نظر آئیں گے! حتیٰ کہ ان کے اپنے چند عشرے پیشتر کے امام قرآن اور عربی مبین کے ’واضح‘ اشارے ’مِس‘ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ صاف محسوس ہوگا، کہ پچھلے زمانوں کے مدعیانِ عقل کی عقل بھی گھاس ہی کھاتی رہی ہے (کیونکہ پچھلے زمانے میں گھاس ہی ہوتی تھی!)۔ پس یہ ’یونیورسل‘ عقلیات ہر تھوڑے تھوڑے زمانے بعد خود پرستارانِ عقل ہی کے اوپر ایک بالکل نیا ظہور کرتے ہیں؛ پس ہر زمانے کے ’قطعی‘ و ’یونیورسل‘ عقلیات تھوڑی دیر بعد ’’عقل‘‘ کا مذاق نظر آئیں گے اور بےپروائی کے ساتھ کباڑ کی نذر کردیے جائیں گے؛ ’موسمی اثرات‘ ان کا رنگ ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں اور وہ پرانے (آؤٹ ڈیٹڈ) تڑےمڑے ’یونیورسل‘ حقائق کچھ نئے (اپ ڈیٹ) ’یونیورسل‘ حقائق کے ساتھ ’ری پلیس‘ ہوجاتے ہیں؛ مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور عقل و بےعقلی کی یہ ’یونیورسل‘ کشمکش اُسی اخلاص اور اُسی زعم اور پندار کے ساتھ جاری رہتی ہے اور عالم اسلام مسلسل اِس ’فکری‘ اکھاڑپچھاڑ کا میدان بنا رہتا ہے! ’عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے‘!
ہمارے پاس اس کےلیے البتہ جو صحیح لفظ ہے وہ ’’عقل‘‘ یا ’’تحقیق‘‘ نہیں ’’اھواء‘‘ ہے۔ ’’اھواء‘‘ ہے ہی کتاب، سنت اور دستورِ سلف سے اِعراض کا نام۔ یہ (اھواء) بےشمار رنگ بدلتی ہیں اور آئے روز کسی نئے روپ میں ہمیں دعوتِ گمراہی دینے آ کھڑی ہوتی ہیں؛ ہواؤں کی طرح کبھی ان کا رخ ایک طرف کو ہوتا ہے تو کبھی اس کے بالکل مخالف سمت۔ یہ جدھر کو بھی چلیں، ہلکی پھلکی چیزوں کو مسلسل اپنے ساتھ اڑانے کی کوشش کرتی ہیں ورنہ ’جمود‘ کا طعنہ دیتی ہیں؛ جو ان ہلکی پھلکی اشیاء کےاٹھانے کا نہیں ہوتا! مگر ہمارے ہاں اس کےلیے ایک ہی دائمی ’ریفرنس‘ اور ایک ہی ثابت ’ڈسکرپشن‘ رہتا ہے: ’’اھواء‘‘۔ یہ البتہ فی الواقع یونیورسل ہے؛ ہم ہزار سال پہلے بھی اپنے خطبوں میں یہی پڑھتے تھے اور اگر دنیا کو باقی رہنا نصیب ہوا تو ہزار سال بعد بھی ان شاء اللہ العزیز یہی پڑھ رہے ہوں گے: اَمَّا بَعدُ؛ فإنَّ کلَّ مُحۡدَثَۃٍ بِدۡعَۃ، وکلَّ بِدۡعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وکلَّ ضَلالۃٍ فی النَّار۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

جب کوئی فرد یا غیر سرکاری گروہ نہی عن المنکر کے لئے قوت استعمال کرے تو غامدی صاحب بتاتے ہیں کہ اسلام کی رو سے اس کا حق صرف ریاست کو ہے۔ پھر جب ریاست مذھبی بنیاد پر کسی معاملے میں (مثلا لباس غیر ساتر کے منکر کے خلاف) کاروائی کرنے لگے تو غامدی صاحب پھر سے بتاتے ہیں کہ “ریاست کو اس کا حق حاصل نہیں ہے”۔
جناب ایک مرتبہ اچھی طرح سوچ کر بتا دیجئے کہ اسلام کی رو سے بذریعہ قوت نہی عن المنکر کا حق کسی کو حاصل بھی ہے یا نہیں؟
مذھبی بنیاد پر ریاست کی عملداری کو غیر معقول بتانے کے لئے غامدی صاحب ٹی وی پروگراموں میں یہ بات متعدد مرتبہ فرماچکے ہیں کہ “لوگوں کو نیک بنانا یہ بھلا ریاست کا کام تھوڑی ہوتا ہے، ریاست تو صرف حقوق تلفی روکنے کے لئے ہوتی ہے”! لیکن “کون سے حقوق” اور “کس بنیاد پر متعین شدہ حقوق”، غامدی صاحب اور ان کے سامعین ان امور کو فارگرانٹڈ لیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں کیونکہ کہنے اور سننے والے دونوں کے دماغ میں سیکولر حقوق کی تفصیلات ہوا کرتی ہے جنہیں وہ “فطری” سمجھتے ہیں اور انہی کے لئے وہ نہی المنکر کے قائل ہوتے ہیں۔ ان کا یہ سارا استدلال واضح کرتا ہے کہ نہی عن المنکر میں منکر سے ان کی مراد “سیکولر منکر” ہوتا ہے۔

ڈاکٹر زاہد مغل، ذیشان وڑائچ

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password