‘ اسلام دین ہے’ کا درست مفہوم

اسلام دین ھے” کا درست معنی:
”اسلام دین ھے” کا یہ معنی سمجھ لیا جاتا ھے کہ اسلام کے پاس چند ایسے ابدی اصول ہیں جنہیں کسی بھی ماورائے اسلام نظام زندگی میں برت کر اسے اسلامی بنایا جاسکتا ھے، نیز اسلام ہر دور کے تقاضوں کا ساتھ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ھے۔ اس معنی کے اعتبار سے اسلام کسی معین شے نہیں بلکہ چند ایسے مبہم اصولوں کا نام رہ جاتا ھے جن کی تطبیق کسی بھی نظام کے ساتھ کرنا ممکن ھے (گویا اسلام ‘جیسا دیس ویسا بھیس’ کا معاملہ ھے)۔ یہ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ھے کہ مسلم مفکرین دور حاضر کے ہر مظہر کو اسلام سے ثابت کرنے کی فکر میں مبتلا رھتے ہیں، یعنی آج اگر دنیا جمہوریت پر فدا ھے تو یہ اسلام سے جمہوریت نکال لاتے ہیں، اگر آج کا انسان حرص و حسد (سرمائے) کے فروغ کیلئے کارپوریشن و بینک چاھتا ھے تو انکے خیال میں اسلام بھی اسکا متبادل فراھم کرسکتا ھے، اگر آج کا انسان سائنس کو علم سمجھتا ھے تو انکے خیال میں یہ سائنس اسلام ہی کی عطا ھے، آج کا انسان اگر عورت کو پبلک آرڈر میں پروفیشنل دیکھنا چاھتا ھے تو انکے نزدیک اسلام اس امر میں بھی اسکے شانہ بشانہ کھڑا ھے، اگر آج کا انسان میوزک، گانے بجانے کو جمالیاتی احساسات کا تقاضا سمجھتا ھے تو انکے نزدیک اسلام یہاں بھی رکاوٹ نہیں، الغرض اس مفروضہ معنی کی بنا پر کبھی اسلام کو سوشل ازم اور کبھی لبرل ازم سے نتھی کردیا گیا۔ الغرض دور حاضر کے ہر تقاضے (ماوراء اس سے کہ وہ جائز ہے یا ناجائز) کا حل و متبادل اسلام سے فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ھے۔
چنانچہ اسلام دین ھے کا معنی یہ نہیں کہ اسلام ہر دور کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ھے بلکہ یہ ھے کہ اسلام انسانی زندگی (انفرادیت، معاشرت و ریاست) کو خود اپنے اصولوں و اقدار پر اس طرح مرتب کرتا ھے کہ انسانی زندگی کا کوئ گوشہ اسکی گرفت سے باہر نہیں رھتا۔ اسلام کامیاب زندگی کا اپنا ایک تصور رکھتا ھے جسکے اپنے مخصوص تقاضے ہیں اور اسلام اس میں کسی مخالف نظام کی آمیزش قبول نہیں کرتا۔ اسلام باطل تقاضوں کا حل یا متبادل پیش نہیں کرتا بلکہ انہیں تبدیل کرنے کا تقاضا کرتا ھے۔ انبیاء باطل تقاضوں کو پورا کرنے نہیں بلکہ اس ذھن کی اصلاح کرنے آتے ہیں جو ایسے باطل تقاضوں کی تکمیل کا متلاشی ھوتا ھے۔ اس کے برعکس جدید سکالرز و مفکرین نے ان تقاضوں ہی کی آبیاری کا بیڑا اٹھالیا اور نتیجتا جدید ذھن کے تقاضوں کا حل پیش کرتے کرتے دین کا حلیہ تو بگڑ گیا البتہ یہ جدید ذھن آج بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہمہ تن و ہمہ گوش ‘Do more’ کی صدا بلند کررھا ھے۔ پس اسلام قیامت تک کیلئے دین ھے کا معنی یہ ھے کہ اسلام قیامت تک ہر دور کو جانچنے کا پیمانہ ھے کہ یہ محفوظ رھے گا، دیگر ادیان کی طرح مسخ نہ ھوگا اور نہ ہی ایسا ھوگا کہ چودہ سو سال تک اسے کوئی سمجھ ہی نہ سکے گا اور امت آج کے کسی سکالر یا مفکر کی منتظر رھے گی جو پہلی دفعہ نصوص کو ڈی کوڈ کرے گا۔

جدید تعبیرات اسلام کو جانچنے کا سادہ پیمانہ
اسلام کی ہر وہ جدید تعبیر، تشریح و تشکیل نوع جس کے اندر جدید تہذیب کی شکست و ریخت اور قرون اولی کی طرف مراجعت (احیائے اسلام) کا تصور موجود نہ ہو اس بات کی واضح اور کھلی ہوئی نشانی ہے کہ وہ تعبیر و تشریح مسلمانوں کو اسلامی تاریخ سے کاٹ کر سرمایہ داری کی تاریخ میں ضم کرکے رہے گی۔ایسا ہونا اٹل ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ایسی تشریح کرنے والا مفکر اپنے دور کی جاہلیت سے ناواقف ہوتا ہے لہذا وہ لازما اسلام کو جاہلیت کے ساتھ ملا کر رہتا ہے۔ پس ایسی ہر جدید تعبیر و تشریح کے مشکوک و مردود ہونے کیلئے یہی ایک پیمانہ بہت کافی ہے کہ اس پیمانے نے پچھلے ڑیڑھ سو سال میں آج تک کبھی غلط نتیجہ نہیں دیا۔

ڈاکٹر زاہد مغل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password