اسلام کے حلال و حرام عام آدمی کے کان میں ’’مولوی‘‘ کے خطبہ و وعظ سے پڑے ہوتے ہیں۔ صحیح و غلط کی پہچان اور فرض و مباح کا تصور اس کو مساجد کے درس و بیان سے دستیاب ہوا ہوتا ہے۔ (جس ’تحقیق‘ کے پردے میں علماء پر عدم اعتماد کی دعوت یہاں کے عام مسلمان کو وقت کا جدت پسند بیانیہ دینے لگا ہے، وہ کیسا ایک ہولناک خلا chaos ہے جو لبرلزم وغیرہ بلاؤں کی پیش قدمی کےلیے معاشرے میں نادانستہ پیدا کیا جا رہا ہے، اس پر کسی اور فرصت میں بات کریں گے)۔ لبرل کے ساتھ مکالمہ عموماً اِس مضمون کی کسی بحث سے شروع ہوتا ہے:
عام مسلمان: بھائی! عالم سے یہ مسئلہ اِسی طرح سنتے آئے ہیں۔
لبرل: ارے، مولوی کیا نہیں کہتے! عالم تھوڑی ہوتے ہیں یہ۔
(یہاں؛ وقت کے کچھ جید علماء کے نام لبرل کو پیش کیے جاتے ہیں)۔
عام مسلمان: یہ سب نامور علماء اِس پر یہی کہتے ہیں۔ بلکہ ہر مسلک کا عالم۔ اختلافی مسئلوں میں کم از کم یہ مسئلہ نہیں آتا۔
لبرل: پھر بھی، علماء ہیں صحابہ نہیں!
(صحابہؓ کے ساتھ فرطِ عقیدت؟!)
یہاں؛ اسے صحابہؓ کا قول پیش کر دیا جاتا ہے۔
عام مسلمان: عالم سے پوچھا ہے، خود صحابہؓ سے اس مسئلہ میں یہی منقول ہے۔ لیجئے، ملاحظہ فرمائیے۔
لبرل: صحابہؓ قابل احترام ہیں۔ لیکن حجت تھوڑی ہیں! معصوم تو نہیں تھے نا صحابہؓ! آپ تو یوں حوالے دے رہے ہیں جیسے کوئی حدیث ہوتی ہے!
(ایک بار پھر آپ کو لگا، صاحب اسلام سے مخلص ہیں اور حدیث کی بڑی قدر کرتے ہیں!)
یہاں اس کو آں حضرت رسولِ معصومﷺ کی حدیث پیش کر دی جاتی ہے۔
عام مسلمان: دیکھیے، حدیث مل گئی۔ یہ رہی، پڑھ لیجئے۔ اس میں بھی یہی ہے۔
لبرل: لیکن یہ حدیث بخاری کی نہیں ہے۔ قوی ہوتی تو بخاری میں آنے سے بھلا رہتی!؟ معلوم ہوتا ہے سند میں کمزوری ہے۔
عام مسلمان: بخاری میں بھی یہ حدیث مل گئی۔ لیجئے۔
لبرل: لیکن بخاری کی ساری حدیثیں ٹھیک تو نہیں ہیں نا۔ کئی ساری حدیثوں پر محدثین کا بڑا بڑا کلام ملتا ہے۔ بخاریؒ بھی آخر انسان ہی تھے، غلطی ہر کسی سے ہو جاتی ہے۔ بڑا بڑا اختلاف ہوا ہے، آپ کبھی کتابیں پڑھ کر دیکھیں۔
عام مسلمان: مگر اِس حدیث پر کسی محدث نے کلام نہیں کیا۔ علم حدیث کے سب رجال نے اس کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ اور سب فقہاء نے استدلال میں اسے حجت مانا ہے۔ اِس پر آپ کو اجماع دکھا دیتے ہیں، اگر آپ اختلاف کی بات کرتے ہیں۔
لبرل: لیکن اجماع حجت تو نہیں ہوتا۔ قرآن میں تو یہ حکم نہیں ملتا نا۔
عام مسلمان: چلیے قرآن مجید سے آپ کو یہ ثابت کر دیتے ہیں۔ یہ رہی آیت۔
لبرل: لیکن آیت سے یہ بات صریح طور پر تو نہیں نکلتی۔ کچھ اور بھی مطلب ہو سکتا ہے اس آیت کا۔ تفاسیر پڑھیں، بڑی بڑی آراء ہیں۔
عام مسلمان: سب نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے حتیٰ کہ جدت پسندوں کے ائمہ نے بھی۔ کوئی اور احتمال ہی نہیں ہے اِس معنیٰ کے سوا۔
(غرض اس کے سب اشکالات دور کر دیے۔ عربی کے سب اوزار لا حاضر کیے گئے؛ اور آیت کا ’کوئی اور معنیٰ‘ ہونے کے تمام امکانات رفع کر دیے گئے)۔
لبرل: لیکن یہ حکم اُس وقت کےلیے مناسب تھا آج کےلیے نہیں۔ اعتبار کلی مقاصد کا رکھا جاتا ہے؛ جزوی صورتوں کا نہیں۔ آپ نے شاطبی کی الموافقات پڑھی ہے؟
(یہاں اس کو ’’مقاصدِ شریعت‘‘ سے بھی یہی بات ثابت کر کے دے دی جاتی ہے اور یہ واضح کر دیا جاتا ہے کہ یہ بات اسلام کے کلیات میں سے ہے؛ کوئی جزوی مسئلہ نہیں)۔
عام مسلمان: بھائی دیکھو! اگر اللہ اور رسولؐ کی بات ہے تو وہ تو ہے یہی۔ دینِ اسلام کے جو جو مصادر ہیں ان میں یہ مسئلہ عین اِسی طرح ہے۔ آگے بات کرو۔
’’تقیہ‘‘ کے اتنے پرت اترنے کے بعد کہیں جا کر… اندر کا لبرل نکلتا ہے (کسمساتا، با دلِ نخواستہ۔ ورنہ ابھی تک اپنی مسلمانی پکی تھی اور اسلام کو ردّ کرنے سے متعلق ہر بار بات ’آئی، گئی‘!)
لبرل: ہو گی وہ اللہ یا رسول کی بات، جس کا ویسے میں احترام کرتا ہوں۔ لیکن لوگوں کو پابند کسی بات کا نہیں کیا جا سکتا۔ آزادی ہر انسان کا حق ہے۔
(یہاں چونکہ لبرل نے وہ ماسک اتار ڈالا، جو مسلم معاشرہ میں ’روزمرہ آمد و رفت‘ کے دوران اس کے زیر استعمال رہتا ہے.. اور اس کا وہ رخ سامنے آ گیا جو خدائی تنزیل کے اُس سٹیٹس پر ہی سوال اٹھاتا ہے جو انبیاء اور ان کے پیروکاروں کے یہاں مسلَّم مانا گیا… لہٰذا بقیہ مکالمہ میں ’مسلمان‘ کے ساتھ لفظ ’عام‘ کا اضافہ شاید ضروری نہیں رہا۔ گو ایک ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ہماری آئندہ تحریر میں آ ئے گا۔ مختصراً، رسالتِ محمدؐی اور اس میں وارد احکام کو بائنڈنگ یعنی ’’پابندی کا موجب‘‘ ماننے والا ہر شخص ہمارا مسلمان بھائی ہے خواہ وہ لبرل کہلائے یا کچھ اور۔ یہاں سیاقِ گفتگو ذرا ایک حقیقی قسم کا لبرل ہے اور وہ کسی بھی ملت سے ہو سکتا ہے)۔
مسلمان: آزادی کا تو ہم نے انکار نہیں کیا میرے بھائی۔ لوگوں کو حق بات بتا دو اور پھر آزاد چھوڑ دو؛ ماننا چاہیں تب، نہ ماننا چاہیں تب۔ زبردستی تو نہیں کی کسی سے۔ ہمارا دین ہی ہمیں ایسی کسی دھونس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے ان کو آزادی دے کر ہی یہ چناؤ ان کے آگے رکھا ہے کہ چاہے ’’فرماں بردار‘‘ ہوجاؤ اور چاہے ’’نافرمان‘‘۔ إمَّا شَاكِرًا وَّ إمَّا كَفُوْرًا. آزادی (لبرٹی) کا کیا مسئلہ اٹھا دیا آپ نے یہاں، کس نے اس پر جھگڑا کیا؟
لبرل: صرف زبردستی نہ کرنا اور لوگوں کو ماننے نہ ماننے کا اختیار دینا ہی آزادی (لبرٹی) ہے؟ ہونہہ!
مسلمان: تو آپ کس آزادی کی بات کر رہے ہیں؟
لبرل: جس میں انسان کی سوچ اور مرضی پر کوئی دباؤ نہ ہو۔ ریاستی قوانین کی استثناء کے ساتھ۔ یا ایک دوسرے کےلیے ضرر رساں اشیاء کی استثناء کے ساتھ۔ بقیہ تمام پابندیوں سے آزادی۔
مسلمان: آپ کی مراد: انسان کی انسان پر لگائی ہوئی پابندیاں؟ یہ تو ہمارے نزدیک بھی نادرست ہے۔ ہمارے دین نے بہت پہلے یہ گھناؤنا بُت توڑا: وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللهِ ’’اور نہ بنائیں ہم آپس میں ایک دوسرے کو اللہ کے ما سوا رب‘‘۔ انسانوں کو یہ آزادی فراہم کرنا تو اسلام کا طرۂ امتیاز ہے کہ ایک خدائے لاشریک کے سوا یہ کسی کے حکم کے غلام نہ ہوں۔ لِنُخْرِجَ الْعِبَادَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ، إلَى عِبَادَةِ رَبِّ الْعِبَاد ’’تاکہ نکال لائیں ہم بندوں کو بندوں کی بندگی سے، بندوں کے رب کی بندگی کی طرف‘‘۔ یہاں؛ کم از کم بھی یہ شرط ہے کہ بندوں کو کسی بات کا پابند کرنے میں آپ خدا کے دیے ہوئے ایک متعین دائرے سے باہر نہیں نکلیں گے چاہے آپ کوئی بڑی سے بڑی اکثریت یا مقننہ یا کوئی فرماں روا یا کوئی ایمپائر کیوں نہ ہوں۔ انسان کا وہ حق یہاں آپ سے آپ ’’خدا کی حد‘‘ ہوتا ہے جسے توڑنا صاف شریعت کو توڑنا۔ اور یہ آزادیوں کا اتنا بڑا دائرہ ہے کہ انسان کے سب حقوق خدا کی اپنی تشریع سے ہی محفوظ ہو جاتے ہیں۔ غرض شریعت یہاں خود اس بات کی ضامن ہو جاتی ہے کہ انسان انسان کی آزادی میں مخل نہ ہو۔
لبرل: نہیں۔ انسان کی انسان پر پابندیاں تو بالکل ٹھیک ہوتی ہیں جب وہ اکثریتِ رائے سے ہوں۔ (ان پابندیوں کی حد کیا ہو، یہ بحث البتہ دینِ لبرلزم کے اپنے فرقوں کے مابین خاصی طویل اور فی الحقیقت لا ینحل ہے۔ بس یہ کہہ سکتے ہیں، اکثریت کی خواہشات و شہوات ’’قانون‘‘ کا ڈنڈا ہاتھ میں لے کر معتبر بن جائیں، اس کی ایک وسیع گنجائش تقریباً ہے)۔ پس ’’انسانوں کی لگائی ہوئی پابندیوں‘‘ کے تو اصولاً ہم قائل ہیں اور یہ تو آپ پر ٹھونسی جائیں گی۔ میں ان کی بات نہیں کر رہا۔
مسلمان: تو پھر آپ کن پابندیوں سے آزادی کی بات کر رہے ہیں؟
لبرل: ہر قسم کی پابندیوں سے آزادی، سوائے انسان کی اجتماعی (اکثریتی) مرضی کے۔
مسلمان: خواہ وہ پیدا کرنے والے کی عائد کردہ پابندیاں ہوں؟ چلیے صرف آخری آسمانی رسالت کی بات بھی نہیں کرتے۔ خواہ وہ سب ملتوں کے ہاں مسلّم چلی آتی شرم، حیاء، عفت اور اخلاق سے متعلقہ قدریں ہوں جو ہمیشہ انسانوں کے یہاں خدا کی تشریع سے ہی منسوب چلی آئی ہیں۔ پیدا کرنے والا جہاں پابند کرے، اور وہ بھی روئےزمین کی تمام ملتوں کی شہاد ت سے، وہاں بھی، آزادی؟
لبرل: دیکھیے آزادی ہر انسان کا حق ہے؛ کوئی قدر اس سے اوپر نہیں۔
مسلمان: کیا آپ آسمانی صحیفوں کو مانتےہیں؟ ان کی رُو سے بات کر لیں کہ انسان بطور معاشرہ اپنے پیدا کرنے والے کی مرضی خصوصاً حیاء و عفت سے متعلقہ قدروں پر مبنی اُس کے حکموں کا پابند ہے یا نہیں؟ یعنی ان کی بنیاد پر معاشرے میں روک ٹوک ہو سکتی ہے یا نہیں؟
لبرل: آزادی خود سب سے بڑی قدر ہے۔ اور یہ آپ اپنی دلیل ہے۔ اس سے اوپر کوئی بات نہیں۔
مسلمان: آزادی، پیدا کرنے والے کے صریح حکم کے آگے بھی؟ اس بات کے داعی ہیں آپ؟
لبرل: کیا کہلوانا چاہتے ہیں آپ مجھ سے؟ میں مذہب کی قدر کرتا ہوں۔ آپ اپنی مرضی سے اس پر عمل پیرا ہیں، بس میں اس بات کا احترام کرتا ہوں۔
مسلمان: اور اگر میں پیدا کرنے والے سے ڈر کر اور اُس کی شان اور مرتبے سے دب کر مذہب پر عمل پیرا ہوں اور ہر پل اُس کے حکم کے آگے اپنی ’’مرضی‘‘ کو قربان کروں.. اور اِس خوئےتسلیم کو اپنے سرخرُو ہونے کی بنیاد اور معیار مانوں…؟ بلکہ ایک مذہب کا نام ہی یہ ہو ’’اسلام‘‘ یعنی اپنی مرضی سے دستبرداری اور اس کے مقابلے پر خدا کی مرضی کی، جو زمین پر اُس کی رسالت کے ذریعے سے معلوم ہوتی ہے، بلا چوں و چرا پابندی۔ خاص اُس کی منشا کی تعظیم، ساتھ ہمہ وقت اُس کی حمد اور پاکی (جس میں یہ معنیٰ بھی شامل ہے کہ وہ اپنی ہر بات میں ٹھیک اور اُس کا ہر فرمان حق ہے)… اور پل پل اپنے قصور و کم مائیگی کا اعتراف اور اپنے عہدِ بندگی اور اظہارِ غلامی کا اِعادہ۔
لبرل: یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے جس میں میں نہیں پڑنا چاہتا (پاکستانی پبلک میں لبرلسٹ تحریک کےلیے ’فی الحال‘ ریڈ لائن)، میں اس کی قدر بہرحال اس حوالے سے کرتا ہوں کہ بطورِ انسان یہ آپ کا فیصلہ ہے۔ ایک سچا لبرل ہوں، کسی مذہب کے خلاف تعصب نہیں رکھتا۔
مسلمان: یعنی میرا یہ فیصلہ خاص اس حوالے سے قابل قدر ہے کہ وہ میری مرضی ہے ؛ اِس حوالے سے نہیں کہ وہ خالقِ کائنات کی عبادت ہے اور اُس کے حکم کی پابندی!
لبرل: ہاں ’’پابندی‘‘ کے حوالے سے نہیں بلکہ ’’آزادی‘‘ کے حوالے سے۔
یعنی مومن کے اِس فیصلے میں بھی جتنا سا ’انسانی مرضی‘ کو دخل ہے اُسی کے بقدر یہ ایک لبرلسٹ کےلیے قابل احترام ہے۔ (گو جتنی سی اس میں ’انسانی مرضی‘ کی نفی ہے اُس کے بقدر یہ ایک ’حقیقی‘ لبرلسٹ کی نظر میں قابل اعتراض بھی ہے۔ لیکن یہ دوسری بات فی الحال پاکستانی معاشرے میں زبان پر لانے کی نہیں! لہٰذا پہلے حوالے سے؛ خدا کا فرماں بردار ہونے سے متعلق آپ کے فیصلے کا جب اُس نے احترام کیا تو کچھ ایسی غلط بیانی نہ کی۔ بس ایک غلط فہمی میں آپ کو رکھا، جسے شاید وہ ’آئندہ‘ کسی مرحلے میں دُور کرے! یہ بہرحال طے ہے کہ اُس کے عقیدے میں مطلق قدر absolute value ’’انسانی مرضی‘‘ human will ہے جس سے وہ اشیاء کی قدروں کو ماپتا ہے۔ یہی اس کا معبود)۔ یہاں بھی؛ اصل میں وہ اپنے معبود – انسانی مرضی – کو سیلوٹ کر گیا ہے۔ ساتھ میں آپ کے مذہب کی تعظیم ہو گئی! ایک گونا، اِس میں وہ سچا بھی رہا : اس نے اپنے معبود – انسانی مرضی human will – کو خاص اس کی اپنی منشا سے خدا کے حکم کے آگے جھکے ہوئے دیکھا۔ اب معبود سے جواب پُرسی تو ہونے سے رہی خواہ وہ جتنا بھی ’سمجھ سے بالاتر‘ کام کرے! لہٰذا یہاں خاموش ہونا بنتا تو ہے۔ کم از کم بھی، یہاں خاموشی لبرل عقیدہ کے منافی نہیں ہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ اس سے آگے ایتھزم etheism وغیرہ کی حدود شروع ہو جاتی ہیں جو سب لبرلز کے جانے کی نہیں۔ لہٰذا (معاشرے کی سطح پر) وہ ایریا ایتھسٹک لبرلز atheistic liberals یا اگناسٹس agnosts وغیرہ ڈیل کریں گے۔ اور یہ ہم مانتے ہیں کہ بہت سے لبرل صدقِ دل سے یہاں رک جاتے ہیں۔ البتہ باقی ماندہ کام ان کے ’بھائی‘ کرتے ہیں۔ (اصل بیریئر توڑا جا چکا ہوتا ہے)۔
مسلمان: تو پھر خدا کے ایک نافرمان کا خدا کے حکم سے سرتابی کا فیصلہ بھی اتنا ہی قابل قدر ہوا؟
لبرل: میں نے کہا نا آزادی سب سے بڑی قدر ہے۔
(بلکہ انسان پرست Humanist سپرٹ کے تحت، خدا کے حکم سے سرتابی کے وقت وہ زیادہ قابل قدر ہے! کیونکہ اس میں ’’انسانی مرضی‘‘ کا ظہور زیادہ ہوا۔ مگر یہ بات ’ابھی‘ منہ پر لانے کی نہیں یا پھر اپنے ملحد ’بھائیوں‘ کےلیے چھوڑ دینے کی ہے)۔ پاکستانی سوسائٹی میں لبرلزم فی الحال اپنے اول الذکر حوالے کو ہی عوامی سطح پر لے کر چل رہا ہے یعنی مذہبی ہونے کی صورت میں آپ کی ’مرضی‘ کا احترام۔ البتہ طبعی طور پر یہ احترام وہاں بڑھ جائے گا جہاں اس کا معبود – انسانی مرضی – اپنی مطلق العنانیت کا ظہور کرے، یعنی اپنے ما سوا کسی ہستی کی ’’مرضی‘‘ کے آگے جھکنے سے اِبا کرنے لگے۔ ذاتِ انسانی Human Ego کا اثبات ظاہر ہے یہاں زیادہ مقدار میں ہوا ہے۔ (لیکن لبرلزم کا یہ extreme profile سامنے لانے کےلیے زمین ابھی خاصی ہموار کرنی ہو گی! خدا کی شرم ختم کرنے میں انسان کو اُس پوائنٹ تک لے کر جانا کچھ ایسا آسان بھی نہیں ہے؛ گو سال گزرتے رُت بدلتے پتہ بھی نہیں چلتا!)۔
مسلمان: اور ایک تیسرے آدمی کا بُت کی پوجا کرنے کا فیصلہ بھی اتنا ہی قابل قدر ہوا؟
لبرل: ہم تمام مذاہب کو ایک برابر رکھتے ہیں۔ کوئی تفریق نہیں۔ کوئی خدا کو پوجے کوئی بُت کو، یہ اس کا مسئلہ ہے اور اسے ایسا کرنے کا حق ہے۔
مسلمان: ابلیس کا خدا کے حکم کو انکار کرنا اور ملائکہ کا خدا کے حکم پر سجدہ بجا لانا، دونوں قابل قدر؟
لبرل: کوئی کیا فیصلہ کرتا ہے، یہ بعد کی بات ہے۔ لبرلزم یہ کہتا ہے کہ ہر کسی کو اپنی مرضی کرنے کا حق دیں۔
مسلمان: آپ اپنی اِس عبارت میں صرف ایک لفظ کی تبدیلی کر لیں؛ میں آپ کا ہم خیال ہو جاتا ہوں۔ اس سے وہ اشکال بھی ان شاء اللہ دور ہو جائے گا جو اس بحث کے مرکزی نقطہ پر مسلسل پردہ ڈالتا اور غیر ضروری طور پر اسے الجھاتا آ رہا ہے۔
لبرل: کونسا لفظ؟
مسلمان: ’’حق‘‘ کی بجائے یہاں ’’اختیار‘‘ بول لیں۔ یعنی (خدا کے امر و نہی کے آگے) ہر کسی کو اپنی مرضی کرنے کا اختیار دیں حق نہیں۔ فریڈم freedom نہ کہ رائٹ right ۔ آپ دیکھیں حکمت اور عدل کے مالک خداوند نے ابلیس کو سجدہ سے سرتابی کا اختیار دیا تھا حق نہیں۔ اسی لیے سجدہ نہ کرنے پر راندۂ درگاہ کر دیا اور آج تک انسانی لغت اسے مردود بولتی ہے۔ بس یہی نقطہ ہے۔ لوگوں کو آپ خدا کی فرماں برداری یا نافرمانی کا وہ ’’اختیار‘‘ دیں جس کےلیے انہیں روزِ قیامت خدا کے آگے جوابدہ ہونا اور جزا و سزا کا سامنا کرنا ہے البتہ خدا کی نافرمانی کا ’’حق‘‘ آج بھی نہیں۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ خدا کی عبادت کو ان پر ’’فرض‘‘ اور خدا کی عبادت سے روگردانی کو ان کے حق میں ’’گناہ‘‘ ماننے والوں میں آپ بہرحال رہیں۔ خدا کی حدیں توڑنے کو ایک صریح ’’پاپ‘‘ یعنی ایک نہایت شنیع اور قابل اعتراض چیز معاشرے میں ضرور بنا کر رکھیں۔ (تعلیم اور ابلاغ میں اختیار کیے جانے والے لہجے اِس سلسلہ میں اہم ترین بلکہ فیصلہ کن ہو جاتے ہیں۔ ہو نہیں سکتا کہ ایک ماحول میں پائے جانے والے ’’ابلاغ‘‘ اور ’’تعلیم‘‘ سے صاف ایک ’’تصورِ زندگی‘‘ نہ جھلک رہا ہو۔ جبکہ انبیاء نے، سب سے پہلے، انسانوں کو کوئی چیز دی ہے تو وہ ’’زندگی کا ایک تصور‘‘ ہی ہے۔ اور یہ ’’تصور‘‘ انسانوں میں انڈیلنے اور اسے اُن میں زندہ live اور روزمرہ زندگی سے متعلقہ relevant رکھنے کا نام ہے: تعلیم یا ابلاغ)۔ غرض خدا کی عبادت کی ایک سماجی رِٹ قائم رکھنا۔ اور اس سے سرتابی کو ایک شجرِ ممنوعہ بنا رکھنا۔ البتہ دھونس forcing سے احتراز۔ یوں معیارات بھی قائم رہے (میزان)۔ اور لوگوں کو آزادی بھی حاصل رہی (ابتلاء)۔ کیا یہ بات نہایت قرینِ انصاف نہیں جو اسلام نے چودہ سو سال پہلے بہت واضح الفاظ میں کر دی ہے: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ (البقرۃ: 256) ’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی، اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیشٰ پر ایمان لائے اس نے یقیناً وہ مضبوط کڑا تھام لیا، جو کبھی نہیں ٹوٹنے کا‘‘۔ چونکہ انسان کو گناہ کا اختیار ہے حق نہیں… لہٰذا؛ ’’ہدایت اور ضلالت‘‘ کا تصور بھی یہاں پوری طرح موجود رہا (قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيّ) جوکہ انبیاء کی بعثت کا اصل محور ہے، جبکہ ’’انسانی آزادی‘‘ بھی پوری طرح باقی رہی (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ) جوکہ انسانی ہستی (فی الحقیقت آزمائش) کا مرکزی نقطہ ہے۔ آپ کا کام بھی ہو گیا ہمارا بھی۔
لبرل: جی نہیں۔ آپ کا کام ہوا ہے ہمارا نہیں۔ یہ تو وہی بات ہے جو آپ پہلے کہہ چکے۔ یعنی دھونس زبردستی نہ کرنا ہی کُل آزادی ہوئی۔ یہ وہ ’’لبرٹی‘‘ نہیں جس کی ہم بات کرتے ہیں۔ ’’اختیار‘‘ دینے کا کیا مطلب؟ وہ تو ہے ہی ہے۔ تمہاری اِس ’’ہدایت اور ضلالت‘‘ والی لغت کو ہی تو ہم ٹھکانے لگانا چاہتے ہیں۔ تمہارا یہ ’’حق اور باطل‘‘ والا زعم ہی تو نکالنا ہے، جس کے بل پر یہاں مذاہب ایک دوسرے کو ’ٹھیک‘ اور ’غلط‘ کہنے چل دیتے رہے اور جس کے باعث انسانوں کے مابین مسلسل ایک روک ٹوک رہی۔ بھائی سب کا اپنااپنا سچ ہے یہاں۔ سب کا اپنااپنا ٹھیک غلط ہے۔ کوئی کسی پر معترض ہی کیوں ہو؟ مسئلے کو یہاں سے پکڑیے۔ ہر کسی کو اپنی مرضی کرنے کا مکمل ’’حق‘‘ ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کیا مرضی کرتا ہے۔ جی ہاں اختیار نہیں حق۔ (’’لبرٹی‘‘ کی اصل تعریف)۔
اصولاً، یہاں اسلام کے تصورِ دعوت کا بھی خاتمہ ہوا۔ (بعید نہیں اپنے جدت پسند دبستان کے ہاں کچھ ایسا قولِ جدید اس وقت پراسیس میں ہو کہ: دعوت میں چونکہ لوگوں کے عقیدہ و عمل پر معترض ہونا آتا ہے اور یہ کام اگر ایک مہم (پیہم لگاتار عمل) کے طور پر ہو تو لا محالہ ایسی کشیدگی کا موجب ہوگا جو حکمت اور موعظہ حسنہ کے تمام تر التزام کے باوجود مکہ کی دو جماعتوں کے مابین ’مرحلۂ دعوت‘ میں بھی پیدا ہو کر رہی، جہاں قومی یکجہتی معدوم اور شہر کا چین تقریباً ختم ہو گیا تھا۔ اور جوکہ ’دعوت‘ کے نام پر لوگوں کو ان کے دین و مذہب سے روکنے کا منطقی نتیجہ ہے… لہٰذا لوگوں کے مذہب اور طرزِ بود و باش سے یوں الجھنا ہی ناجائز ہوا تاوقتیکہ کوئی ایسا آسمانی پروانہ آپ اپنے پاس نہ رکھیں جیسا رسالت مآبﷺ کو جزیرۂ عرب میں ایک مخصوص عرصے کےلیے منجانب اللہ عطا تھا، اور جس کے بل پر مکہ میں یہ کشیدگی کھڑی کر لینا روا کیا گیا؛ ورنہ اصل تو آزادی، رواداری اور ہم آہنگی ہے! رسالت مآبﷺ کے بعد البتہ ’کسی کا یہ منصب نہیں‘ کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں ’دعوت‘ کے نام پر یوں مداخلت کرے اور ان کے مذہب، ان کی تہذیب اور ان کے طرزِ بود و باش پر یوں معترض ہوتے ہوئے مختلف سماجی ہتھیاروں سے ان پر حملہ آور ہو۔ لہٰذا دورِ نبوت کے بعد جن جن لوگوں نے ’’دعوت‘‘ کا یہ منصب ہاتھ میں لیا اور وہ اپنے زبان و بیان سے لوگوں کے بُتوں یا ان کے طور طریقوں کی خبر لینے چل دیے وہ صریح زیادتی کے مرتکب رہے!)۔ دعوت ظاہر ہے ایک ’’غلط‘‘ دین سے ’’صحیح‘‘ دین پر آنے کی تحریک اٹھانے کا نام ہے۔ شرائعِ آسمانی کے حرام کردہ امور سے ’’روک ٹوک‘‘ کرنے اور شرائع کے فرض کردہ امور کا لوگوں کو ’’پابند‘‘ کرنےسے عبارت ہے۔ (اب اگلے مرحلے میں شاید اِسی کا ہی گھونٹ بھرا جائے)۔ دینِ انبیاء کا ایک بڑا حصہ دراصل ہے ہی نفسِ انسانی کو ہوس کے نشیب میں لڑھکنے سے روک کر تزکیہ (پاکیزگی) کی چڑھائی چڑھانا اور پورے ایک معاشرے کو اس پاکیزگی پر لانا اور پھر اسی پر رکھنا، جس سے طبیعتیں بہرحال بھاگتی ہیں (لیکن آخر شکرگزار ہوتی ہیں)۔ یہاں؛ آسمانی دلیل کی روشنی میں آپ جہاں لوگوں کا عقیدہ وعمل فاسد دیکھیں تو اچھے اسلوب کے ساتھ سہی مگر ایک درجے میں اس پر معترض آپ بہرحال ہوتے اور اس کے خلاف ایک سماجی مزاحمت ضرور اٹھاتے ہیں۔ یوں معاشرے میں ہوس کے لشکروں کے ساتھ مسلسل برسر پیکار رہتے اور شیاطین کی جلی کٹی سنتے ہیں۔ اور یہ دعوت کا باقاعدہ حصہ ہے)۔ یہاں ’لبرلزم‘ کی گنجائش!؟
مسلمان: تو یہ ہے شخصی آزادی؟
لبرل: جی ہاں۔ آپ جو ’’اِکراہ‘‘ (زبردستی) سے ممانعت پر اکتفا فرما رہے تھے، اُس کا نام آزادی نہیں ہے۔ لبرٹی آتی ہے اصل میں سماجی قیود ہٹانے سے۔ یہ سماجی قدغنیں برقرار ہوں اور taboos کی تلواریں ذہنوں پر لٹکتی ہوں تو کون اس کو ’’آزادی‘‘ کہتا ہے؟ یہ تو ’’ظالم سماج کا جبر‘‘ ہوا جو طعنے دے دے کر ہی ایک ’غلط کار‘ کا جینا دوبھر کر دے؛ جس کے باعث فرد کی آزادی شدید متاثر ہوتی ہے۔ ’’لبرلزم‘‘ اس صورتحال کا معاشرے میں باقاعدہ نوٹس لیتا ہے اور آزادی کے اس ’اصل‘ معنیٰ کو وہاں ممکن بناتا ہے۔ بھئی ایک عاقل بالغ شخص جس بھی چیز کو اپنے لیے پسند کرے۔ اُس کی اپنی رائے آپ کی اپنی۔ اُس کی اپنی زندگی آپ کی اپنی۔ جب تک اُس کا وہ فعل خود آپ کی آزادی میں مخل نہیں، آپ کو اُسے ٹوکنے کا حق؟ محض ’’اختیار‘‘ کی کیا بات؟ یہ اُس کا ’’حق‘‘ ہے۔ اس پوائنٹ تک آنا پڑے گا آپ کو معاشرے کے ساتھ۔
مسلمان: یعنی کفر کرنا، زنا کرنا انسان کا حق ہے محض اختیار نہیں؟ یہ تو جہمیہ اور قدریہ سے بدتر قول ہوا۔
لبرل: پہلے کہہ چکا ہوں، میں ریاستی قانون کو مستثنیٰ رکھتا ہوں۔ لہٰذا زنا وغیرہ کے متعلق اِس ملک میں (’فی الحال‘) بات کرنے سے احتراز کروں گا۔
مسلمان: یعنی ریاستی قانون ہی ایک چیز ہوئی، ورنہ زنا کرنا انسان کا حق ہے؟ سود؟ جوا؟ لواطت؟ عصمت فروشی؟ ’بن بیاہی ماں‘ ہونا آپ کی صاحبزادی کا ایک باقاعدہ حق، جس سے آپ اُسے روکنے کے مجاز نہیں؟ بھائی کا بہن کے ساتھ، باپ کا بیٹی کے ساتھ ’باہمی رضامندی‘ سے حرامکاری کرنا؟ کوئی پابندی ہو سکتی ہے تو ’ممکنہ ضرر رسانی‘ کی دلیل سے غبارہ condom رکھنے یا بچہ ٹھہرنے سے بچانے کےلیے کچھ اور ترکیب نکالنے کی؛ کیونکہ ایسے بچے کے اپاہج پیدا ہونے کے امکانات بڑھے ہوتے ہیں، ورنہ حرج اس میں بھی کچھ نہ تھا؟ (فحش نگاری مقصود نہیں، معاملے کی سنگینی واضح کرنے کےلیے کچھ صریح الفاظ استعمال کرنا پڑے)۔ اصل چیز اب سامنے آئی، یعنی فرائڈ والا حیوان جسے پٹہ ہو تو صرف گورمنٹ کا۔ باقی ہر قید، ہر وعید، ہر ضابطۂ اخلاق بیچ میں لانا اور معاشرہ میں اس کو دستور ٹھہرانا منع۔ تو پھر ’’احکامِ خداوندی‘‘ کا کیا سٹیٹس status رہا آپ کے یہاں؟ آسمانی رسالتوں اور شرائع کو آپ نے کہاں پر رکھا؟
لبرل: آسمانی شرائع پر آپ خود عمل کریں نا جتنا کرنا چاہتے ہیں، کس نے آپ کو روکا ہے۔ انسانی آزادی وہ اصل ویلیو ہے جس پر کوئی کومپرومائز نہیں۔ آزادی بمعنیٰ حق۔ اِسی سے ’’حقوق‘‘ rights کے سب مباحث آتے ہیں ہمارے لبرل پیراڈائم میں۔
مسلمان: کیا آپ خاتمی آسمانی رسالت ’’قرآن‘‘ کو مانتے ہیں؟ چلیے، انجیل اور توراۃ کو؟ دنیا میں کسی آسمانی صحیفے کو؟ أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ؟ اس کی رُو سے بات کر لیں کہ انسان کو کس بات کا ’حق‘ ہے اور کس بات کا خدا کی اِس زمین پر انسان کو کوئی ’حق‘ نہیں؟ ’اختیار‘ کی اور بات ہے، جوکہ ہمیں تسلیم ہے۔ ’حق‘ کی بات ہو رہی ہے۔
اس آخری سوال (کیا آپ قرآن کو مانتے ہیں) کا جواب بالعموم گول! (پاکستانی پبلک میں قرآن اور محمدﷺ کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا ’ابھی‘ لبرلسٹ کی ریڈ لائن ہے اور کچھ سال اِس کا ’وہ‘ جواب شاید پبلک میں آنے کی غلطی نہ کرے۔ کچھ گنجائش ’فی الحال‘ ہے تو سوشل میڈیا پر یا یونیورسٹی کلاس روموں میں، جو ایک چیز کا اندازہ کروانے کےلیے کافی تو بہت تھا، اگر آپ جاگ جانے پر آمادہ ہوتے)۔
آخر کھلا یہ کہ لبرل کی بحث اسلام کی ’تحقیق‘ سے متعلق کبھی نہ تھی۔ اِس اعتبار سے؛ نہ مولوی کے ساتھ اس کا کوئی الجھاؤ نہ مفتی کے ساتھ۔ جمہور علماء اس کا مسئلہ اور نہ غیرجمہور۔ نہ یہ فرقہ نہ وہ مسلک۔ (مولوی کی ’فرقہ واریت‘ لبرل کےلیے محض ایک سیلنگ پوائنٹ selling point )۔ لبرل کا اپنا تعرُّض البتہ نہ اجماع سے اور نہ حدیث کی کسی سند یا متن یا علت یا روایت یا تخریج سے۔ نہ صحیح اور نہ ضعیف۔ نہ بخاری نہ مسلم نہ صحاح ستہ۔ نہ کنز نہ ہدایہ۔ نہ فقہاء نہ محدثین نہ مفسرین۔ کسی سےاِس کو معاملہ نہیں۔ نہ قرآن، نہ متواتر اور نہ آحاد۔ نہ لغت اور نہ تفسیر۔ نہ قطعی اور نہ ظنی۔ یہ سب بحثیں اگر یہ کرے گا یا ایسی بعض بحثوں کی سرپرستی فرمائے گا اور ان کےلیے اپنے چینل میں ’پروگرام‘ کی گنجائش نکالے گا تو ایک معاملے کو الجھانے یا دینداروں کو بانٹنے اور اسی حساب سے مسلم معاشرے میں وقت اور گنجائش لینے اور اپنے اصل ایجنڈا کی خاطر زمین ہموار کرنے کےلیے۔ پس یہ تو ٹیکٹکس tactics ہوئے (کیونکہ مسلم معاشرے میں قدم لگانا آسان بہرحال نہیں ہے)۔ فقہ پر جابجا سوال اٹھانا، حدیث کو شریعت کا ماخذ نہ ماننا یا اجماع کا انکار وغیرہ ایسی جدت پسند ’’اسلام‘‘ کی شروحات تو اِس تیزرفتار گاڑی کے ’شاکس‘ shock absorbers ہیں۔ مگر فی نفسہٖ یہ بحثیں لبرل کا سروکار نہیں۔ وہ تو پیدا کرنے والے کو اس مقام سے ہی فارغ کر چکا کہ بنی نوعِ انسان کو وہ اجتماعی طور پر کسی بات کا ’’پابند‘‘ کرے۔ لبرل کا جھگڑا سیدھا اُس خدا کے ساتھ، جو اِسے ’’معاشرت‘‘ کے متعلق اپنے احکامات commandments پہنچانے کےلیے زمین میں رسول بھیجتا اور اِس کےلیے حق و ناحق کے پیمانے (میزان) ٹھہرانے کےلیے کتابیں اتارتا ہے۔ یہاں تک کہ اس ’’میزان‘‘ کے کچھ حصے وہ زمین پر اس حیثیت میں دستیاب کراتا ہے کہ یہ کرۂ ارض کی ان تمام ملتوں کی زبان پر بیک آواز بولیں جو آسمان سے کچھ بھی اترنے کی دعویدار ہوئیں۔ آسمانی پیغام کے اس (تمام ملتوں کے ہاں متفق علیہ unanimous چلے آتے) حصے کو بھی یہ اہل زمین کےلیے دستور ماننے پر آمادہ نہیں۔ کیونکہ… ایک بار اگر آسمانی پیغام کے اس حصے پر آنا قبول کر لیا گیا اور اس کو ’’پابندی‘‘ کا سرچشمہ مان لیا گیا تو خالق کے ’’فرمائے‘‘ کا مقام زمین میں طے ہو گیا۔ نیز ’’رسالت‘‘ کا ادارہ اصولاً اسٹیبلش establish ہو گیا، جس کے بعد اس کا تسلسل ڈھونڈنا رہ جاتا ہے جو خدا کے فضل سے وہ روشن آفتاب (سِرَاجًا مُّنِيْرًا) ہے جسے جھٹلانے کےلیے دن کو رات کہنا پڑے۔ یہ سب نہ بھی ہو، انسانی مرضی سے بالاتر ایک مرضی اس صورت میں واجب الاتباع بہر حال مان لی گئی اور انسان دیوتا کی ’’لبرٹی‘‘ پر وہ آسمانی قیدایک اصول کے طور پر تسلیم ہوئی جو اہل ایمان کے کیس کا مرکزی نقطہ ہے۔ مگر نہیں۔ اُس آسمانی ہستی اور اُس کے فرستادہ رسول ہی کو زمین پر اپنے اختیارات کے معاملہ میں اب لبرل کی مقرر کردہ حدود میں رہنا ہو گا! معاذ اللہ
اور جب ایسا ہے… تو اے دین کے داعیو! بےشک یہ لبرل آج تمہیں نشانۂ طعن بناتا اور اپنے ’ترقی پسند‘ ادب کی دھار پر تمہیں رکھتا ہے… مگر اِس کی جنگ درحقیقت تمہارے ساتھ نہیں۔ اِس کی خصومت، سیدھی خدا کے ساتھ۔ تمہارا شرف بس اِتنا کہ تم آج زمین پر اُس خدا کی بات سکھانے پڑھانے والے ہو۔ یعنی انبیاء والی آزمائش سے کچھ معمولی سا حصہ۔ جو تمہارے لیے صد ہا سعادت کا باعث ہونا چاہئے۔ [قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ (الأنعام: 33) ’’ہم کو معلوم ہے (اے نبی) کہ ان کی باتیں تمہیں رنج پہنچاتی ہیں (مگر) یہ تمہاری تکذیب نہیں کرتے بلکہ ظالم خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں‘‘]۔
مختصر یہ کہ… زمین خدا کی اور اصول قاعدے لبرل بہادر کے!
صرف وہ وثیقہ ناپید ہے جس میں خدا نے یہ زمین لبرل کے نام الاٹ کر دی اور خود یہاں سے دستبرداری اختیار کر لی! (معاذ اللہ)
مَّا أَشْهَدتُّهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُدًا (الکہف: 51)
’’ میں نے ان کو نہ تو آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا اور نہ خود ان کے پیدا کرنے کے وقت۔ اور نہ میری یہ شان کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا کچھ بھی مدد گار بناؤں‘‘۔
(لبرل پینتروں سے متعلق مضمون کا تھوڑا ابتدائی حصہ، عربی کی ایک پوسٹ سے استفادہ)
نوٹ: اس موضوع کے بعض جوانب ہماری اگلی تحریر ’’لبرلزم، الحاد اور اسلام‘‘ میں کھولے گئے ہیں۔
حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ