الحاد: تعریف، تاریخ اور ترویج [Atheism: Its Definition, History & Growth]

.

.

الحاد ایک تصور ہے جس کا ماننے والا اپنے آپ کو ملحد کہلواتا ہے۔ ملحد ایسا شخص ہوتا ہے جو خدا کے وجود کا صریح انکار کرتا ہے۔ انگریزی لفظ atheism، جو یونانی زبان سے آیا ہے، میں a کے سابقہ کا مطلب ہے نہیں یا کوئی نہیں اور theism، جو لفظ theos سے آیا ہے، کا مطلب ہے ‘کسی خدا یا خداؤں کے وجود کا عقیدہ’۔ انگریزی لفظ کا مطلب ہوا ‘خدا کے وجود کا عقیدہ نہ رکھنا’۔

لغوی مطالب پر اکتفا کرنا کفایت نہیں کرتا، یہ معلوم کرنا لازم ہے کہ خدا کے وجود سے انکار کا کیا مطلب ہے۔ الحاد کی کسی تعریف پر مکمل اتفاق نہیں ہے لیکن اس وقت میرا کام فلسفیانہ بال کے کھال اتارنا نہیں ہے۔ میری توجہ عملی حصے پر مرتکز ہے[i]۔ ہم اس ضمن میں تین سوالات پر تفصیلی نظر ڈالیں گے۔

  1. کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو اپنے آپ کو ملحد کہلواتا ہے، اس کے پاس ایسے دلائل ہیں جن سے الحاد کا عقیدہ سچا ثابت ہوتاہے ؟
  2. کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابھی تک کسی الٰہیاتی دلیل سے قائل نہیں ہوا؟ یا
  3. اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بس یونہی کسی خدا پر ایمان نہیں رکھتا؟

آئیے میرے پہلے سوال پر غور کیجئے: “کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو اپنے آپ کو ملحد کہلواتا ہے، اس کے پاس ایسے دلائل ہیں جن سے الحاد کا عقیدہ سچا ثابت ہوتا ہے؟ اس صورت میں، جبکہ ملحد یہ کہتا ہے کہ کوئی خدا موجود نہیں ہے، ملحد ایک ایسا شخص ہے جو اس بارے میں قوی علم کا دعویٰ کرتا ہے کہ کوئی خدا موجود ہی نہیں ہے۔ تاہم اس قسم کا دعویٰ کرنا جتنا آسان ہے، اس کے دلائل دینا اتنا ہی مشکل ہے۔ یہ دعویٰ ایک خبریہ فقرہ ہے، اور یہ اپنے آپ کو قائم کرنے کے لئے کچھ دلائل مانگتا ہے۔ اس لئے، ایسے ملحد کو لازم ہے کہ اپنے نقطہ نظر کے حق میں دلائل فراہم کرے۔

اب ہم دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں: کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ملحد اب تک کسی الٰہیاتی دلیل سے قائل نہیں ہوا؟ یہ بذات خود الحاد کے دائرہ سے باہر نکلنے اور تشکیک کے  گرداب میں داخل ہونے کی نشانی ہے۔ اس طرح کا موقف رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدا کے وجود کی کوئی اچھی دلیل پیش کردی جائے، تو وہ اس کو قبول کر لیں گے۔

آخر میں، ہمارے پاس اب یہ سوال درپیش ہے: کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص بس یونہی کسی خدا پر یقین نہیں رکھتا؟ اگر کوئی ملحد محض اپنی پسند کی وجہ سے خدا پر ایمان نہیں رکھتا، بغیر کسی عقلی غور و فکر کے، تو یہ کس طرح کسی دوسرے عقیدے سے مختلف قرار پاتا ہے، خواہ وہ توہماتی عقائد ہوں یا نجومی۔

میرا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سوال کہ “بھلا کیوں تم کسی خدا پر یقین نہیں رکھتے؟” کسی ملحد کے ساتھ گفتگو کے آغاز کا بہترین طریقہ ہے (دیکھئے باب نمبر 4)۔ اس پہلے ہی سوال کا جو جواب وہ دیں، اس سے ہی مجھے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تشکیک میں مبتلا ہیں، شوقیہ ملحد ہیں یا ایسے (پڑھے لکھے) ملحد ہیں، جو اپنے پاس خدا کے موجود نہ ہونے کی کوئی دلیل رکھتے ہیں۔ اگر وہ مبتلائے تشکیک ہیں، تو بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ آپ اس بات کے اچھے دلائل دیں کہ آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ خدا موجود ہے۔ اگر وہ مخلص ہوئے، اور آپ کی دلیل مضبوط ہوئی تو پھر ان کو خدا کے وجود پر ایمان لانا ہو گا۔ اگر وہ شوقیہ ملحد ہیں اور بغیر کسی دلیل ہی کے خدا کا انکار کر بیٹھے ہیں تو ان کو اپنے عقائد یا تصورات پر غور و فکر کرنے پر مجبور کریں۔ ایسے لوگوں سے میرا سوال ہوتا ہے: “خدا کے وجود کو جھٹلانے کے لئے تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟” میں ان کو بغیر کسی عقلی و فکری بنیادوں کے محض ذاتی پسند پر شوقیہ عقائد و تصورات رکھنے کے نقصانات دکھاؤں گا۔ اگر ان کا یہ دعویٰ ہو کہ ان کے پاس خدا کے موجود نہ ہونے کی دلیل ہے تو میں ان سے دلیل مانگوں گا۔ ایسی صورت میں بحیثیت مسلم اب یہ میری ذمہ داری ہو گی کہ ان کو سمجھاؤں کہ ان کی دلیل کس طرح بودی یا غلط فہمی پر مبنی ہے، ساتھ ہی ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ کے وجود کے دلائل بھی دینا ہوں گے۔

چنانچہ خلاصتاً، ملحد ہونے کا مطلب یہ ہو گا کہ، پہلے، تو ایک منفی دعوی کہ بندہ خدا کے وجود کا منکر ہے۔ دوسرے، خدا کے وجود کے حق میں جو دلائل ہیں، وہ قوی نہیں ہیں، یعنی بندہ مبتلائے تشکیک ہے۔ آخر میں، یہ اصرار کہ خدا کا وجود نہیں ہے۔ اس طرح کا اصرار کسی دلیل قوی کا محتاج ہے۔ میرا تجربہ بتاتا ہے کہ زیادہ تر ملحدین صرف اس لیے ملحد ہیں کہ وہ خدا کے وجود کے حق میں دلائل سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زیادہ تر ملحد حقیقی معنوں میں ملحد ہیں ہی نہیں بلکہ وہ تشکیک کا شکار ہیں۔ چنانچہ امید کی کرن باقی ہے، صرف اتنا کرنا ہے کہ خدا کے وجود کے حق میں کوئی اچھی سی دلیل پیش کی جائے۔ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا اہم ہے کہ یہاں پیش کردہ تعریفات پتھر پر لکیر نہیں ہیں؛ ہر قسم کے الحاد میں مختلف درجات ہیں۔ ملحدین کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان مختلف قسموں میں سے کچھ کا ملغوبہ بھی بناتے ہیں۔

لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ بنی نوع انسان محض علمی و عقلی مشینیں نہیں ہیں۔ سماجی، روحانی اور نفسیاتی عوامل کی ایک فہرست ہے جو اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ہم کون سا نقطہ نظر اپناتے ہیں۔ مخصوص فیصلوں اور عقائد پر منتج ہونے والے عوامل جو ہمہ جہت بکھرے ہوئے ہیں، ان سب کی گتھی سلجھانا ناممکن ہے۔ تاہم میرا تجربہ بتاتا ہے کہ الحاد کا عقیدہ محض سائنس اور عقل سے جنم لینے والا کوئی علمی و منطقی تصور نہیں ہے۔ اس کے برعکس، الحاد کی جڑیں انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہیں (اگرچہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کلیے کا اطلاق کچھ ملحدوں پر نہیں ہوتا)۔

میزوتھیزم: خدا سے نفرت

اگرچہ یہ الحاد کی قسم نہیں سمجھا جاتا، میرا خیال ہے کہ انکار خدا کی اس قسم کی وضاحت بھی دلچسپی سے لبریز ہو گی۔ بجائے خدا کا انکار کرنے کے، یہ نقطہ نظر خدا کے ساتھ ایک شدید قسم کی نفرت پر مشتمل ہے اور یہ خواہش کہ اس کا وجود نہ ہی ہو۔ الحاد کے انگریزی لفظ کی طرح یہ بھی یونانی زبان سے آیا ہے۔ اس کی بابت کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ یہ الحاد کی کچھ قسموں کو نفسیاتی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر برنارڈ شیوائزر نے اس موضوع پر ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں وہ ممتاز مفکرین اور مصنفین بشمول ایلجرنان چارلس سوین برن، زورا نیل ہرسٹن، ریبیکا ویسٹ، ایلی ویزل، پیٹر شیفر اور فلپ پُل مین وغیرہ کی متعدد ادبی نوعیت کی کارگزاریوں کی چھان بین کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ لوگ شر اور تکلیف سے اٹی ہوئی اس دنیا میں رحمان اور رحیم کی صفات والی کسی ہستی کے تصور کو قبول کرنے میں مشکلات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ واضح کرتا ہے کہ ان کے خدا سے نفرت کا محرک ان کی “عمومی طور پر قابل قدر انسان دوست جذبات سے مغلوبیت ہے”[ii]۔ شیوائزر واضح کرتا ہے کہ متنفرینِ خدا جذباتی اور نفسیاتی طور پر مشکلات سے دوچار ہیں۔ وہ کہتا ہےکہ “یہ بالکل سچ ہے کہ نفسیاتی، جذباتی اور جسمانی طور پر زخم خوردگان کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ خدا سے متنفر ہو جائیں”[iii] اور یہ کہ “کسی طرح یہ بات یقینی نہیں قرار پاتی کہ زیادہ مؤثر نوعیت کی مذہبی تبلیغ سے خدا سے نفرت کی آگ ٹھنڈی ہو گی یا الحاد کے راستے مسدود ہوں گے”[iv]۔ اگرچہ یہ مفکرین تنفیر خدا کی مختلف صورتوں کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ سارے انسانی اندوہ میں خدا کے کردار پر سوال اٹھاتے ہیں:

“متنفرِ خدا کی حالت اور ہے۔ اس کے لئے شر کی عالمگیر ارزانی کے پہلو بہ پہلو ایک ‘رحم و کرم اور جود و سخا کے پیکرِ خدا ‘کے تصور کا بے جوڑ ہونا اصل مسئلہ ہے۔ خدا کے متنفرین خدا کو اصلاً مطعون کرنے والے ہیں، اور وہ اس کو عام شر اور ناحق اندوہ پر مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ یوں، ملحدین اور متنفرین انسانی تکالیف میں خدا کے کردار پر مخالف اطراف سے سوال کرنے آ جاتے ہیں: ملحد کہے گا کہ متنفر محض تخیل کی بنیاد پر ایک فضول دعویٰ کرتا ہے۔ متنفر کے لئے، چونکہ وہ خدا کے وجود کا عقیدہ رکھتا ہے، اس کی نظر میں خدا کوئی قربانی کا بکرا نہیں ہے بلکہ شر کا مجرم اور شریک جرم ہے۔ “[v]

شیوائزر کا مطالعہ نہایت ستھرا ہے۔ وہ تنفیر خدا کی تشکیکی تنفیر، مکمل تنفیر اور سیاسی تنفیر میں درجہ بندی کرتا ہے۔  پروفیسر کے بنیادی نکتے کو سمیٹنے کے لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ متنفر اس بنیادی سوال پر اڑا ہوا ہے: انسانیت نے ایسا کیا برا کیا ہے کہ خدا اور اس کی طرف سے جاری کردہ تمام تر شر و فساد کا مستحق ٹھہرے؟ اپنے تجربے سے میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ ملحدین اور متنفرین میں بہت سی ذہنی قرابت ہے۔ ایک سوال جو عام طور پر اس نتیجے کی صداقت کو ثابت کر دیتا ہے، یہ ہے کہ: ‘اگر خدا بالواقع موجود ہو، تو کیا تم اس کی عبادت کرو گے؟’ (دیکھئے باب نمبر 15) بہت سے ملحدین کا جن سے میرا سامنا ہوا ہے، جواب ہوتا ہے “نہیں” اور وہ بکثرت دنیا میں ‘غیر ضروری’ اور ‘بلا وجہ’ کی شر اور اندوہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ اگرچہ میں ان کے غم میں اپنے آپ کو شریک پاتا ہوں اور اپنے جیسے حساس ذی روح افراد کی تکالیف پر ترس آتا ہے،  ملحدین اور متنفرین ایک پوشیدہ نوعیت کی انائیت کے بھی شکار ہیں۔ یعنی وہ دنیا کو اپنے نقطہ نظر کے علاوہ کسی اور نقطہ نظر سے نہ دیکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ تاہم، ایسا کرتے ہوئےوہ ایک قسم کی جذباتی – یا روحانی – مغالطہ دیتے ہیں۔ وہ خدا کو انسانی قالب دیتے ہیں اور اس کو ایک محدود انسان میں بدل دیتے ہیں۔ وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ خدا کو لازماً چیزوں کو اس انداز سے دیکھنا چاہیئے، جس انداز سے ہم دیکھتے ہیں اور اس لئے اس کو تمام شر کو ضرور ہی روکنا ہو گا۔  اگر وہ اس کو جاری رہنے دیتا ہے، تو اس پر سوال اٹھانا اور اس کے وجود کو مسترد کر دینا چاہیئے۔

خدا کو انسان کے ساتھ اس طرح موازنہ کرنے سے چیزوں کو ان کی کلیت میں سمجھنے میں ان کی نا اہلی ظاہر ہوتی ہے۔ متنفر اس نکتے پر غالباً یہ سنسنی خیز دعویٰ کرے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا سے زیادہ رحم دل ہے۔ اس بات سے ان کی نا اہلی اور ظاہر ہوتی ہے کہ وہ چیزوں کو اپنے نقطہ نظر سے ماوراء دیکھ سکیں، اور ان کی اس ناکامی کا اظہار کرتا ہے کہ وہ  اس نکتہ کو سمجھیں کہ خدا کی مرضی اور اس کے کام کسی الٰہی حکمت کے تابع ہے، جو ہماری فہم سے پرے ہے۔ اللہ تعالیٰ شر و فساد سے خوش نہیں ہوتا۔ اللہ ان چیزوں کو روکتا نہیں ہے کیونکہ اس کے فہم میں ہر شے ہے اور وہ ہر اس بات کو احاطہ میں لئے ہوئے ہے،  جو ہم نہیں دیکھ پاتے، نہ کہ اس لئے کہ وہ شر اور تکلیف کے جاری رہنے سے خوش ہوتا ہے۔ اللہ کے پاس پوری تصویر ہے اور ہم اس کے محض ایک نقطے کو ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس بات کی سمجھ سے روحانی اور ذہنی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ مؤمن یہ سمجھتا ہے کہ آخر کار اس دنیا میں جو کچھ واقع ہوتا ہےوہ ایک بالاتر الٰہی حکمت کے تحت ہوتا ہے، جو ایک بالا تر الٰہی رحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار ہی وہ مقام ہے جہاں اللہ کا انکاری غرور، انائیت اور آخر کار مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ آزمائش میں ناکام ہو چکا ہوتا ہے اور خدا سے اس کی نفرت اس کو اس مقام پر پہنچا دیتا ہے ،جہاں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ خدا کون ہے، اور وہ الٰہی حکمت، رحمت اور بھلائی کو مسترد کرتا ہے۔

الحاد اور فلسفیانہ فطرت پرستی

قبل اس کے کہ میں الحاد کی اسلامی تعریف پر گفتگو کروں، اس باب میں ایک ایسے تصور کا تعارف پیش کروں گا جس کا اس کتاب کی متعدد ابواب میں تذکرہ آئے گا۔ الحاد کی طرح، فلسفیانہ فطرت پرستی(Philosophical -Naturalism) بھی تصور الٰہ اور ماورائے فطرت کا انکار کرتی ہے۔ چنانچہ اس میں تعجب نہیں ہے کہ زیادہ تر ملحدین فلسفیانہ فطرت پرستی کو نظریہ حیات کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ فلسفیانہ فطرت پرستی وہ نظریہ حیات ہے کہ کائنات میں واقع ہونے والے تمام مظاہر کی، طبیعیاتی سلسلہ اعمال(Physical processes (کے ذریعے وضاحت کی جا سکتی ہے۔ فلسفیانہ فطرت پرست لوگ تمام تر ماورائے فطرت دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس کائنات سے “باہر” کسی چیز کا وجود ہے بھی، تو وہ اس کائنات کے ساتھ کسی قسم کا تعارض نہیں کرتی۔ جیسا کہ پروفیسر رچرڈ ڈاکنز کا بیان ہے، ہر ملحد “یہ یقین رکھتا ہے کہ فطری اور طبیعی دنیا سے ماوراء کچھ بھی موجود نہیں ہے”[vi]۔ تاہم کچھ ملحد دانشور فطرت پرست نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ ملحد خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں، وہ غیر طبعی مظاہر کے وجود کے قائل ہیں۔ خدا پر ایمان رکھنے والے کے لئے اس طرح کے الحاد پر علمی مباحثہ عمومی پیرایے میں آسان تر ہے کیونکہ وہ غیر طبعی مظاہر کا انکار نہیں کرتے۔

یہ نہایت اہم بات ہے کہ زیادہ تر ملحدین جو خدا کے وجود کی تردید میں دلائل دینے پر اصرار کرتے ہیں، فلسفیانہ فطرت پرستی کا تصور اپناتے ہیں، خفیہ یا علانیہ۔ تاہم، اس کتاب میں پیش کردہ زیادہ تر دلائل ان کو بھی پیش کیے جا سکتے ہیں جو فلسفیانہ فطرت پرستی کو نہیں اپناتے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں الحاد کا شکار ہیں۔

اسلامی تعریف

اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرنے کو ‘الحاد’ کہا جاتا ہے۔ الحاد عربی زبان کے لفظ ‘لحد’ سے آیا ہے جس کا استعمال قبر کھودنے کے اس اسلامی طریقے کو بیان کرنے کے لئے ہوتا ہےجس میں گڑھا کھودنے کے بعد اس کے ایک جانب میت کے لئے ایک خانہ سا بنایا جاتا ہے۔ یعنی لحد کا مطلب اصل گڑھے سے انحراف ہے۔ لغوی اعتبار سے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ الحاد فطری اور عقلی اعتبار سے درست نقطہ نظر سے انحراف ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ تمام انسان فطرت سلیمہ یا ایسی ذہنی و فکری حالت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ،جو اصولی طور پر خدا کے وجود کو تسلیم کرتی ہے اور اس کی عبادت کا جذبہ موجزن ہوتا ہے(دیکھئے باب نمبر 4)[vii]۔ اس حدیث نبوی سے اس اسلامی عقیدے کی بنیاد پڑتی ہے کہ الحاد غیر فطری ہے اور انسانی نفسیات سے سنگین بے اعتنائی کے مترادف ہے۔

اسلامی الٰہیات کے مطابق، اللہ تعالیٰ کے ناموں میں پیدا کرنے والا (الخالق)، پالنے والا (الرزاق)، اور ابتدا کرنے والا (المبدئ) شامل ہیں۔ ملحدین ان اسماء و صفات کو مسترد کرتے ہیں اور اس کائنات کے لئے کسی خالق کے وجود کو جھٹلاتے ہیں۔ اسلام کے نظریہ توحید کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں سے کسی ایک کا بھی انکار شرک تصور ہوتا ہے (دیکھئے باب 15)۔ چنانچہ اسلامی تعلیمات کے نقطہ نظر سے، ملحد کو مشرک تصور کیا جاتا ہے۔ اس میں تعجب نہیں ہے کہ قرآن حکیم اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ لوگ جو کسی خالق کے وجود کو جھٹلاتے ہیں، وہ لوگ “غیر یقینی کی کیفیت میں ہیں”[viii] اور یہ بھی کہ قرآن توحید کے منکروں کو “نادان” قرار دیتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین اور ان کے ساتھ ساتھ ملحدین بھی بے وقوف، نادان اور غافل ہیں[ix]۔ الغرض، الحاد کے متعلق اسلام کا موقف یہ ہے کہ یہ ایک غیر فطری تصور ہے جو بے یقینی اور بے وقوفی پر مبنی ہے۔

الحاد کی یہ تعریف غیر جانبدار نہیں ہے۔ یہ اثباتی طور پر ایک خدا یا خالق کا وجود فرض کرتا ہے۔ یہ غیر معمولی نہیں ہے کیونکہ قرآن الحاد کو نقطہ آغاز تسلیم نہیں کرتا۔ یہ آسمانی کتاب تسلسل کے ساتھ مظاہر قدرت کا حوالہ دیتا ہے۔ یہ آیتیں قاری یا سامع کے لئے مقدموں کے طور پر استعمال کی گئی ہیں تاکہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اللہ تعالیٰ ہی عبادت کے لائق ہے۔ اس نے کائنات کو حکمت، مقصد، باریکی اور خوب صورتی سے تخلیق کیا۔ یہ آیتیں اللہ تعالیٰ کی بڑائی، قدرت، عظمت، رحمت اور محبت کی بھی تعریف کے جذبات پیدا کرتی ہیں۔ اگرچہ کم از کم دو آیتیں الحاد کو براہ راست موضوع بناتی ہیں (دیکھئے باب 5)، قرآن کریم کا زیادہ تر حصہ جو دنیائے محسوس پر دلالت کرتا ہے، نہ صرف علمی دلائل کے لئے ثبوت فراہم کرتا ہے بلکہ اس نتیجے تک پہنچنے کی نشانی کے طورپر بھی کہ کائنات اور جو کچھ اس میں ہے، کسی الٰہی حکمت، قدرت اور مقصد کے ساتھ تخلیق کی گئی تھی۔ لازم ہے کہ یہ بات انسان کے ذہن اور قلب کو اس نتیجے تک مزید پہنچائے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہماری عبادت اور محبت کا حق دار ہے(دیکھئے باب 15)۔ یہ قرآنی حکمت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ الحاد اور متعلقہ سوال کہ کیا خدا موجود ہے؟ نقطہ آغاز نہیں ہے؛ بلکہ، یہ غیر فطری نقطہ نظر ہے جو کھلی حقیقت کا انکار کرتا ہے (دیکھئے باب 4)۔

الحاد کی مختصر تاریخ

تاریخ اسلام میں

آٹھویں صدی کے “دہریہ” کے ظہور تک الحاد کوئی معاشرتی اور علمی خطرہ نہیں تھا۔ یہ مفکرین شاہد پرست تھے جن کا ماننا تھا کہ تمام تر علم صرف تجربات سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ کائنات ازلی ہے اور چار خصوصیات سے مل کر بنی ہے، جو ہر موجود چیز کا ذمہ دار ہے۔ وہ کہتے تھے کہ تمام چیزیں ہمیشہ سے موجود ہیں اور کسی خالق یا بنانے والے کی ضرورت نہیں ہے۔ [x]

فرج الاصفہانی کی کتاب الاغانی کے مطابق، مشہور قاضی اور روایتی مکتب فکر کے بانی امام ابو حنیفہ نے آٹھویں صدی میں ایک دہری سے مناظرہ کیا تھا۔ ابو حنیفہ دہریوں کو عوامی مناظروں میں چاروں شانے چت کرنے میں مشہور تھے (دیکھئے باب 8)۔ امام الغزالی، ابن الجوزی، الجاحظ، محمد بن شبیب، ابن قتیبہ، اور ابو عیسیٰ الورّاق وغیرہ بہت سے علمائے اسلام نے دہریوں کے دعوؤں کی خوب بیخ کنی کی[xi]۔ امام غزالی اپنی کتاب کیمائے سعادت میں دہریہ کو اختزالی قرار دیا ہے جو کائنات اور اس کے مقصد کی کوئی تکمیلی فہم نہیں رکھتے۔ وہ دعوے سے کہتے ہیں کہ وہ لوگ ایک کاغذ پر چلتے چونٹیوں کی مانند ہیں جو روشنائی یا قلم سے پرے اپنی نظریں نہیں اٹھا سکتے، یوں وہ لکھنے والے کو دیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں[xii]۔

الحاد کی اسلامی تاریخ کے مطالعے سے نہایت واضح طور پر ایک علمی گفتگو اور مباحثے کی آزادی معلوم ہوتی ہے جو صرف باہمی احترام اور رواداری ہی سے ممکن ہے۔ قرآن اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ متنوع آراء کا ہونا اللہ تعالیٰ کی مرضی میں سے ہے، اور کسی قسم کا جبر نہیں ہونا چاہیئے سوائے باہمی احترام اور روداری کے:

” اور اگر تیرا رب چاہتا تو جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے، پھر کیا تو لوگوں پر زبردستی کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں۔”[xiii]

” دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے”[xiv]

مفکر اسلام اور عالم دین ڈاکٹر جعفر ادریس دیگر عقائد سے متعلق اسلام کے حکم کا خلاصہ بڑی خوب صورتی سے پیش کرتے ہیں:

“غیر اسلامی عقائد کے پیروکاروں کے ساتھ پر امن بقائے باہمی، اسلام کا ایک لازمی اصول ہے جو قرآن کی بہت سی آیتوں میں بیان ہوئی ہے اور جس پر مسلمان اپنی ساری تاریخ میں عمل پیرا رہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو مسلمان اپنے مذہب پر لاگو کرتے ہیں یا بیرونی حالات کی وجہ سے جس کی طرف پناہ لیتے ہیں۔ یہ دین اسلام کا ایک فطری تقاضا ہے۔ ۔ ۔ “[xv]

اسلام کا علمی ورثہ ایسے مسلمانوں کو اعتماد دلاتا ہے جو عصر حاضر میں ایسے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں جو ان کے دین کی علمی بنیادوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ سیکولرز اور ملحدین کی طرف سے اٹھائے جانے والے بہت سے سوالات جو نئے کہلائے جاتے ہیں، اسلام کے پرانے علماء پہلے ہی ان کا تشفی بخش جواب دے چکے ہیں۔ اس اعتبار سے مسلمان بڑی مظبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ ان کا کام صرف اتنا ہے کہ اس علمی خزانے تک رسائی لیں اور اس کو جدید ذہن کے موافق بنا کر پیش کردیں۔

مغرب میں

قدیم زمانوں میں الحاد کسی معروف تحریک کی صورت میں کبھی نہ تھی، اور اس کے قابل ذکر پیروکار بھی نہ تھے۔ مؤرخین کے مطابق، قدیم زمانوں میں جتنے ملحدین ملتے ہیں، وہ چند افراد تھے (کچھ مستثنیات) “جنھوں نے اپنے عدم ایمان کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی جرات کی یا کچھ فلسفی ایسے تھے جنھوں نے خداؤں کے وجود میں آنے کے متعلق علمی و عقلی نظریات پیش کیے، عام طور پر اپنے نظریات پر عمل درآمد کیے یا مذہب کو کلی طور پر مسترد کیے بغیر۔ “[xvi] الحاد کے انگریزی متبادل atheism کا پہلا استعمال یونانی عالم سر جان چیک[1] کے ہاں ملتا ہے ،جنھوں نے پلوٹارک[2] کی ایک کتاب[3] کے ترجمے میں یہ لفظ استعمال کیا۔ فرانس میں سترہویں صدی میں الحاد پر معرکہ آرائی شروع ہوئی اور اس نظریے کے خلاف سماجی و سیاسی اقدامات لیے گئے[xvii]۔ الحاد کو اٹھارہویں صدی کے برطانیہ میں ایک خطرہ تصور کیا جاتا تھا۔ مشہور زمانہ ڈرامہ نگار و مضمون نگار جوزف ایڈیسن[4] نے عیسائی مذہب کا ثبوت کے عنوان سے ایک کتاب لکھی، جس میں ایک حصہ الحاد کے خلاف بھی تھا۔ کتاب کے اس حصے میں، وہ ملحدین کی یوں تصویر کشی کرتے ہیں:

“اس قسم کے جذباتی لوگوں میں ایک چیز ایسی گھٹیا اور ٹیڑھی ہے کہ آدمی کو پتہ نہیں لگتا کہ ان کی اصلی رنگت کیا ہے۔ یہ ایسے جواری ہیں جو ہمیشہ ہی مار کھاتے ہیں، اگرچہ وہ کسی چیز کے لئے بھی نہیں کھیلتے۔ وہ ہمیشہ اپنے دوستوں کو اپنے جیسا بننے کی ترغیب دیتے ہیں، اگرچہ ان کو اس سے کوئی سر و کار نہیں کہ اس تبادلے سے دونوں ہی کو خاک فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ مختصراً، الحاد کے فروغ کا جذبہ خود الحاد سے زیادہ بے ہودہ ہے… وہ ایسے نظریات کی جال میں پھنسے ہوئے ہیں جو باہم تضادات اور ناممکنات سے پر ہیں۔ اور ہاں ایمان کے کسی ایک رکن میں کوئی چھوٹی سی مشکل پیش آنے پر اس کو سارے کا سارا مسترد کرنے کی مشکل ہی کو دیکھ لیجئے۔ ۔ ۔ میں ایسے کسی ہٹ دھرم کافر سے جو الحاد کے سارے بڑے نکات کو کائنات کے وجود کا سبب کے طور پر سہارا دیتا ہو، پوچھنا چاہوں گا؛ روح کی فنا پذیری، جسم کی اتفاقی طور پر شاندار تنظیم، مادے کی حرکات اور باہم کشش؛ اور اسی قسم کی چیزیں باہم ایک عقیدے کی مانند مرتب کر کے اس پر ایمان لے آنا اور اس عقیدے کا دنیا کے لوگوں پر مسلط کیا جانا، کیا اس کے لئے بے پناہ قسم کی ایمانی قوت درکار نہیں ہو گی، بمقابل ارکان ایمان کے کسی بھی مجموعے کے، جس کی یہ لوگ اتنی شدت سے مخالفت کرتے ہیں؟ چنانچہ میں اس جھگڑالو نسل کو، ان کی اپنی اور عوامی بھلائی کے لئے، یہ نصیحت کروں گا کہ کم از کم کسی ایک بات پر جم کر قائم تو رہ لو اور بے وقوفی سے بے دینی کے جوش میں جل کر کوئلہ نہ ہو جایا کرو۔ “[xviii]

ایڈیسن کے الفاظ اگرچہ مرصع ہیں، اٹھارہویں صدی میں مذہب پر ایک قسم کی پرجوش اور تند و تیز بحث و مباحثے کا پتا دیتے ہیں۔ اگرچہ برطانیہ میں الحاد کوئی معروف عام تحریک نہیں تھی، کفر کے کچھ بیج بو دیے جا چکے تھے اور ان کے کچھ پھل بھی پک کر سامنے آ رہے تھے۔

اگرچہ ایڈیسن کا الحاد کی وضاحت اس کے دور میں بڑھتے ہوئے مباحثوں کی ایک متعصب تصویر کشی ہے، سترہویں اور اٹھارہویں عیسوی کی صدیاں ایسی نمایاں علمی کارناموں سے پہچانی جاتی ہیں، جنھوں نے ایک علمی نوعیت کی تشکیکیت اور ایک قسم کی ماوراء عقیدہ الحاد کا راستہ ہموار کیا۔ بہت سے فلسفی اور مفکرین اس کے ذمہ دار تھے۔ 1689 میں پولش مفکر کازیمرز لزکزنسکی[5] نے اپنی ایک کتاب میں خدا کے وجود کا انکار کیا۔ لزکزنسکی کا کہنا تھا کہ خدا انسان کا ساختہ ایک تصور ہے اور یہ کہ انسان نے خدا کا تصور اس لیے گھڑا کہ دوسروں پر تسلط پا سکے۔ 1674 میں میتھیاس نطزن[6]نے، جس کی یورپ بھر میں شاندار مقبولیت تھی، الحاد کے دفاع میں تحریریں پیش کیں۔ اٹھارہویں صدی میں ڈیوڈ ہیوم[7] اور وولٹائر[8] جیسے لوگوں نے ایسے خیالات اور دلائل پیش کیے، جو الحاد کو جڑ پکڑنے کے لئے ناگزیر قسم کی زمین فراہم کرتے ہیں۔ وولٹائر نے ڈی ازم[9] کے حق میں دلائل دیے، جو ایک ایسا فلسفیانہ اور الٰہیاتی نقطہ نظر ہے، جو یہ کہتا ہے کہ ایک اکیلا خالق موجود ہے، لیکن یہ انسانی زندگی میں وحی اور مذہبی علم کے کردار کی نفی کرتا ہے۔ ڈیوڈ ہیوم نے خدا اور مذہب کے معاملے پر اچھا خاصا تحریری مواد چھوڑا۔ اس کا کہنا تھا کہ خدا کا تصور فہم سے بالا ہے۔ اس نے خدا کے وجود کے لازم ہونے کے تصور کی مخالفت کی اور “لازمی وجود(Necessary Existence)” کی کمزوریوں اور محدودیت کو واضح کرنے کی کوشش کی (دیکھئے باب نمبر 8)۔ ہیوم کا کہنا تھا کہ دنیا میں شر اور اندوہ کا وجود علمی طور پر مشکل ثابت ہوتا ہے۔ قدیم فلاسفہ کے اقوال کی باز گشت میں، اس کے دلائل نے خدا کے وجود کا انکار تو نہ کیا؛ تاہم ان دلائل نے اتنا ضرور کیا کہ شر کی شر انگیزی اور ایک انسانی نقطہ نظر سے اس کی توجیہ کی ہماری ناکامی کو عیاں کیا (دیکھئے باب 11)۔ ہیوم کے مذہب کے تصور معجزہ پر حملوں کا نمایاں اثر ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ معجزات پر ایمان صرف اس صورت میں معقول ہو گا اگر عینی شاہدین کے غلطی کرنے کا امکان ان معجزوں کے واقع ہونے کے امکان سے کم ہو۔  اگرچہ یہ بحث ایسے فلسفیوں، لکھاریوں اور مفکروں کی کوئی مکمل تصویر نہیں دیتی، جنھوں نے الحاد کو عوامی رواج میں جڑ پکڑنے میں مدد دی، یہ اس دور میں مغرب میں خدا کا انکار کرنے کی تاریخ پر ایک جھلک ڈالتی ہے۔

انیسویں صدی میں الحاد کی جنگ لڑنے والی ایک اہم شخصیت ابھری، جس کا نام چارلس براڈلا[10] ہے۔ برطانوی پارلیمان کے مذکورہ رکن نے الحاد کو معاشرے کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے ایک طویل جنگ لڑی۔ اگرچہ اس نے اپنا مقصد حاصل نہیں کیا، لیکن صدی کے آخر تک اس نے دوسروں کے لئے راستہ ہموار کیا کہ وہ اس جد و جہد کو آگے بڑھائیں[xix]۔ براڈلا نے بہت سے مضامین لکھے ، جن میں Humanity’s  Gain  from  Unbelief,  A   Plea  for  Atheism  اور  Doubts  in Dialogue شامل ہیں[xx]۔ براڈلا، تشکیک اور الحاد کا حامی و مددگار،نے اپنی تحریروں کی مدد سے ” کافی سارے موجودہ تعصبات، جو نہ صرف الحادی نظریات رکھنے والوں کے خلاف تھے، بلکہ ان کے خلاف بھی، جن پر الحاد کا شک تھا”کی مدد کی[xxi]۔براڈلا کی تحریک صرف برطانوی معاشرے کو الحاد کو قبول کرنے پر قائل کرنے تک محدود نہ تھی بلکہ یہ بھی واضح کرنے میں لگی ہوئی تھی کہ الحاد سے انسانوں کی زندگی زیادہ خوش ہوتی ہے اور آدمی کی بہبود میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے “تشکیکیت سے انسانیت بہت کچھ حاصل کرنے والی ہے، اور یہ کہ عیسائیت کی بتدریج اور بڑھتی ہوئی تردید نے درحقیقت آدمی کی خوشی اور بہبود میں اضافہ کیا ہے اور یہ اضافہ جاری رہے گا۔ “[xxii]

1920 کی دہائی نے منطقی اثباتیوں[11] کا ظہور دیکھا۔ سائنس میں ترقی سے متاثر ہو کر اس شدت پسند فلسفیانہ تحریک نے یہ نقطہ نظر اپنایا کہ الفاظ اور جملے تب ہی معنی خیز ہوتے ہیں جب ان کی تجرباتی طور پر تصدیق کی جا سکتی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی ایسا جملہ بولتا ہے جو کسی ایسی چیز کی جانب اشارہ کرتا ہو جو حسِ انسانی کی رسائی سے ماوراء ہو تو پھر یہ بکواس ہے۔ منطقی اثباتیوں کا کہنا تھا کہ طبیعی دنیا سے ماوراء کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ الفاظ اور جملے یا تو تجزیاتی ہوتے ہیں یا تشریحی۔ تجزیاتی جملے ایسے جملے ہیں جو اپنی تعریف کے اعتبار سے درست ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، “گیند گول ہے” کہنا درست ہے کیونکہ  “گول” لفظ “گیند” میں شامل ہے۔ تشریحی جملے ایسے جملے ہیں جو تجرباتی طور پر درست ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس جملے کی صداقت کہ “گیند اچھل رہا ہے”، گیند کی حالت دیکھ کر معلوم کی جا سکتی ہے۔ اس اصول کی روشنی میں، منطقی اثباتیوں نے معنویت کا ایک تجرباتی پیمانہ مقرر کر لیا۔ یہ اصول کہتا ہے کہ کسی بھی جملے کو معنی خیز ہونے کے لئے، اس کو لازمی طور پر طبعی تجربے سے تصدیق کیا جانا ضروری ہے۔ اس سبب سے، خدا، مابعد الطبیعیات، اخلاقیات اور تاریخ کے متعلق بہت سے سوالات لایعنی سمجھے گئے۔ اس لئے، الحاد کو نقطہ آغاز سمجھا گیا، کیونکہ خدا کی تصدیق طبعی تجربے سے نہیں کی جا سکتی۔

1960 کی دہائی نے منطقی اثباتیت کی موت دیکھی۔ اس کی موت کا ایک بنیادی سبب یہ حقیقت تھا کہ یہ اپنے آپ کو خود توڑ دینے والی تھی۔ منطقی اثباتیتیوں کا معنویت کا یہ پیمانہ ہے کہ ہر جملے کی طبعی تجربے سے تصدیق کی جائے؛ تاہم خود اس پیمانے کی طبعی تجربے سے تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ نتیجتاً یہ پیمانہ خود ہی بے معنی ٹھہرتا ہے۔

منطقی اثباتیت کے زوال کے بعد علمی دنیا نے وجود خدا پر ایمان کو دوبارہ جڑ پکڑتے دیکھا۔ 1980 میں Time میگزین نے علمی دنیا میں خدا کے وجود کے یقین کے فروغ پر تبصرے میں کہا: “فکر و دانش کی دنیا میں آنے والے ایک خاموش انقلاب میں، جس کو بیس سال قبل کوئی پیش بینی سے نہیں دیکھ سکتا تھا، خدا کے وجود پر یقین لوٹ کر آ رہا ہے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسا مذہبی علماء یا عام ماننے والوں میں نہیں بلکہ علمی فلسفیوں کے خالص فکری حلقوں میں ہو رہا ہے، جہاں ایک اتفاق رائے سے خدا کو مفید مباحثے سے یکسر خارج کر دیا گیا تھا۔ “[xxiii]

علمی حلقوں میں خدا کے وجود کے یقین کی واپسی کی وجہ, بیسویں صدی کے وسط میں ہونے والی چبھتی ہوئی سائنسی دریافتیں تھیں۔ ان میں ‘بِگ بینگ’ بھی شامل ہے، جو کائنات کے لئے ایک نقطہ آغاز کا تصور دیتا ہے۔ یہ اس وقت کے متعلق عمومی خیال (یعنی کائنات ہمیشہ سے ہےاور اس کو کسی خالق کی ضرورت نہیں ہے) سے ہٹی ہوئی بات تھی (دیکھئے باب نمبر 5)۔ 1970 کی دہائی میں سائنسدانوں نے کائنات میں ہر طرف “کمال درستگی(Fine Tuning)” دریافت کر لی, جس سے اس خیال کو سائنسی تقویت ملی کہ کائنات کی ترتیب اور اس کے قوانین بڑی باریکی سے تعین کیے گئے ہیں۔تاکہ یہاں باشعور حیات، جیسے کہ انسان، پرورش پا سکے (دیکھئے باب 8)۔ بیسوں صدی کے آغاز تک انسان علم حیاتیات(Biology) کے پیچ و خم کے بارے میں تقریباً لابلد تھا۔ ماہرین حیاتیات خلیوں کو (جو زندہ اجسام کی اینٹ ہیں) پروٹوپلازم(Protoplasm) کا یکساں ملغوبہ ہی سمجھتے رہے یہاں تک کہ 1935 میں جا کے، جیمس واٹسن اور فرانسس کِرک[12] نے DNA کی ساخت دریافت کی اور بتایا کہ یہ خلیے اور حیوان کی ساخت و پرداخت کی بابت تمام تر معلومات کا حیرت انگیز ذخیرہ اور مرکز ہے۔ اس دریافت کے بعد حیاتیاتی ساخت(Molecular Biology) کے رازوں کے انکشاف کا ایک زبردست سلسلہ اب تک جاری ہے۔  کِرک (جو خود ملحد تھا) جینیاتی معلومات کے اس خزانے کی آفاقیت سے اتنا متاثر ہوا تھا کہ وہ اس بات سے متفق ہو گیا تھا، کہ یہ سارا محض اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہو سکتا اور کہا کہ کسی قسم کی ماوراء الارض طاقتوں کا عمل دخل شامل ہے[xxiv]۔

سائنس کی دنیا میں ہونے والی ان ترقیوں اور دریافتوں نے اور ان سے ملحق فلسفیانہ مسائل نے الٰہیات کے موضوع کو علمی اور عالمانہ گفتگو میں واپس داخل کر دیا۔ آج الٰہیات کا موضوع ایک مکمل طور پر قابل قدر موضوع کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بہت سے عالمانہ نوعیت کی اشاعتیں الٰہیات کے مسئلے پر ملتی ہیں اور عوام الناس کے لئے بھی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس مسئلے سے متعلق اربوں کے حساب سے پوسٹس ملتی ہیں۔

الحاد کا فروغ

ان عوامل کے باوصف، الحاد آج تیزی سے بڑھتی ہوئی علمی تحریکوں میں سے ایک ہے۔ گزشتہ بیس سالوں میں ایسے افراد کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو اپنے آپ کو ملحد یا غیر مذہبی قرار دینے میں فخر جانتے ہیں۔ یہ تحریک، جس کو نیو ایتھیزم(new  atheism) بھی کہا جاتا ہے، الحاد اور سیکولر ازم (الحاد کا سیاسی رخ ) کے مقاصد کی ترجمانی میں پیش پیش ہے۔ آج کے ملحد قلم کار اور مفکرین بشمول رچرڈ ڈاکنز، سام حارث، کرسٹوفر ہیچنز اور ڈان ڈینیٹ وغیرہ نے اس تحریک کو بڑی شد و مد سے فروغ بخشا ہے۔ ان کی کتابیں ، سب سے زیادہ بکنے والی کتابیں بن گئیں اور ہزاروں لوگوں نے ان کی تقریریں سنیں۔ تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا بیانیہ گھناؤنا، گول مٹول اور باہم الجھن کا شکار ہے۔

کرسٹوفر ہیچنز کہتا ہے “مذہب ہر چیز کو زہر آلود کر دیتا ہے[xxv]“، سام حارث کا اصرار ہے “ہماری مذہبی شناخت کے دن گنے جا چکے ہیں[xxvi]” اور رچرڈ ڈاکنز کا موقف ہے کہ خدا کا تصور ایک “دھوکا[xxvii]” ہے۔ ان مشابہتوں کے باوصف، ملحدین کوئی یکساں گروپ تشکیل نہیں دے پاتے۔ بعض ملحد محققینء در اصل نئے ملحد بیانیے سے غیر متفق ہیں۔ مثال کے طور پر فلسفی ٹِم[13] کرین لکھتا ہے:

“مجھے ایسا لگتا ہے کہ بہت سارے دعوے جو نئے ملحدین کر رہے ہیں، وہ بلاشبہ درست نہیں ہیں، اور دنیا کے امور میں مذہب کے کردار کے متعلق ان کا نقطہ نظر کئی لحاظ سے گمراہ ہے۔ ۔ ۔ مذہب کے متعلق اس قسم کا رویہ برقرار رکھنا اس دنیا کے مسائل سے نمٹنے کا کو ئی سمجھدار انداز نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہ حیرت انگیز طور پر مشکل ہے۔ ۔ ۔ کہ لوگوں کے عقائد تبدیل کیے جائیں۔ لیکن اگر کوئی ایسی چیز ہے جو اس معاملے میں واضح ہو، تو وہ یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لئے (عام طور پر) لوگوں کو بے وقوف، نامعقول یا مایوسی کی حد تک  جاہل نہیں کہنا ہو گا۔”[xxviii]

مشہور ملحد فلسفی مشل ریوز[14] نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “میرا خیال ہے کہ ڈاکنز فلسفہ اور الٰہیات کے ہر ایک پہلو کے بارے میں جاہل ہے اور یہ بات عیاں ہے۔ ” ریوز، نو ملحدین کی “نقشہِ دانا(intelligent design) اور عیسائیت کے روبرو حکمت عملیوں کی کامیابی کا جائزہ لینے سے نہیں ہچکچاتا اور ان کے متعلق کہتا  ہے کہ وہ:

” نقشہِ دانا کے خلاف جنگ ایک سانحہ ہے – ہم جنگ ہار رہے ہیں۔ ۔ ۔ ہمیں بے مقصد جوابی الحاد کی نہیں بلکہ مسائل کے ساتھ سنجیدگی سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے – تم دونوں میں سے کوئی بھی سنجیدگی کے ساتھ عیسائیت کا مطالعہ کرنا اور افکار کے ساتھ الجھنا نہیں چاہتے – یہ دعویٰ جھاڑنا کہ عیسائیت سیدھی سیدھی ایک شیطانی قوت ہے، جیسے رچرڈ دعویٰ کرتا ہے، محض صاف صاف پاگل پن اور کلیۃً غیر اخلاقی ہے – اس پر مستزاد، ہم ایک جنگ میں ہیں، اور ہمیں اس جنگ میں دوست بنانے کی ضرورت ہے، نہ کہ ہر نیک نیت کو دھتکارنے کی۔ [xxix]

“باہمی” لڑائیوں کے باوجود، الحادِ نو کی تحریک اپنے افکار اور نقطہ نظر کی اشاعت میں خاصا کامیاب ہے۔ برطانیہ اور ویلز میں 25.1 ٪ لوگ اپنے آپ لا مذہب کہلواتے ہیں، اور ان میں یونیورسٹی والوں کی غالب اکثریت ہے[xxx]۔ یورپ میں 46٪ لوگ خدا کے مروجہ تصور پر یقین نہیں رکھتے، اور 20 ٪ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ کوئی روح، خدا یا قوت حیات کا وجود ہے[xxxi]۔ چین کی آبادی کا نصف حصہ اپنے آپ کو ملحد سمجھتا ہے[xxxii]۔ عُمرانیات کے پروفیسر فِل زکرمین کہتا ہے کہ بہت سے معاشروں میں الحاد فروغ پا رہا ہے[xxxiii]۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اہم عالمی مذاہب کے بعد الحاد چوتھے درجے پر آتا ہے: “عیسائیت (2 کھرب)، اسلام (1 کھرب 20 ارب)، اور ہندو مت (900 ارب) کے بعد عوامی طور پر اختیار کیے جانے والے مذہب کی عالمی درجہ بندی میں خدا پر ایمان نہ رکھنے والے، بطور گروہ کے، چوتھے نمبر پر آتے ہیں۔ [xxxiv]

اس بڑھتی ہوئی سماجی تحریک کے اثرات سے مسلم دنیا محفوظ نہیں ہے۔ وِن گیلپ انٹرنیشنل کے مطابق، 5٪ سعودی باشندے اپنے آپ کو باضابطہ ملحد سمجھتے ہیں، اور 19 ٪ سے زیادہ لوگ اپنے آپ کو غیر مذہبی سمجھتے ہیں[xxxv]۔ عرب دنیا نے الحاد کو فروغ پاتے ہوئے دیکھا ہے اور عربی زبان میں اس موضوع پر کتابوں کا ترجمہ بہت زیادہ کیا جا رہا ہے۔ مغربی ملکوں کے مسلمان بھی اسی قسم کے حالات سے دوچار ہیں۔ مرتدین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ مرتدین اپنے آپ کو ملحد قرار دے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ مسلم کمیونٹی میں مختلف درجات پر ابھر رہا ہے جبکہ یونیورسٹیوں میں گہری تبدیلیاں عمل میں آ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر الحادی مطبوعات کی مقبولیت، اور اس کے ساتھ جارحانہ اور پر جوش قسم کی تحریکی سرگرمیوں نے مل کر علمی و فکری چیلنج اور معاشرتی دباؤ کا ماحول تشکیل دیا ہے۔ کیمپس پر آج کوئی مسلمان جو ان مسائل سے نمٹنے کے لئے ناگزیر روحانی، علمی اور الٰہیاتی لوازمات سے آراستہ نہ ہو، وہ آسانی سے خدا کے وجود کا انکار کرنے والی نامعقول راہ پر بھٹک سکتا ہے۔

اس کتاب کو لکھنے کی اہم وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کو یہ ضروری ساز و سامان بہم پہنچاؤں تاکہ یہ واضح کر دوں کہ، اسلامی تعلیمات باہم مربوط اور سچائی پر مبنی ہیں، اور الحاد ایک فکری سراب ہے۔


[1] Sir John Cheke

[2] Plutarch

[3] On Superstition

[4] Joseph Addison

[5] Kazimierz Lyszczynski

[6] Mathias Knutzen

[7] David Hume

[8] Voltaire

[9] Deism

[10] Charles Bradlaugh

[11] Logical Positivists

[12] James Watson and Francis Crick

[13] Tim Crane

[14] Michael Ruse


[i]    Bullivant, S. (2015). Defining ‘Atheism’. In: The Oxford Handbook of Atheism.

Oxford: Oxford University Press, pp. 11-21.

[ii]  Schweizer, B. (2010). Hating God: The Untold Story of Misotheism. New York:

Oxford University Press, p. 28.

[iii] Ibid, p. 216.

[iv] Ibid, pp. 217-218.

[v] Ibid, pp. 217-218.

[vi] Dawkins, R. (2006). The God Delusion. London: Bantam Press, p. 14.

 [vii]   صحیح مسلم

[viii]  قرآن کریم ، سورت 52 ، آیت 36. اس کتاب میں، میں نے مختلف قرآنی ترجمے استعمال کیے ہیں۔ میں نے سب سے زیادہ پروفیسر عبد الحلیم صاحب کا ترجمہ استعمال کیا ہے۔ [See Abdel Haleem, M. A. S. (2005 & Reissue Edition, 2008) The Qur’an: A New Translation. New York: Oxford University Press] and the translation by Sahih International [available at: www.quran.com].

[ix] اور کون ہے جو ملت ابراھیمی سے روگردانی کرے سوائے اس کے جو خود ہی احمق ہو۔ سورہ بقرہ آیت 130

[x] Crone, P. Atheism (pre-modern). In: Encyclopaedia of Islam, THREE, Edited by:Kate    Fleet, Gudrun Krämer, Denis Matringe, John Nawas, Everett Rowson. 322 |  The Divine Reality. Available at: http://dx.doi.org/10.1163/1573-3912_ei3_COM_23358 [Accessed 1st October 2016].

Ibid.   [xi]

           [xii] Al-Ghazali. (2007). Kimiya-e Saadat: The Alchemy of Happiness. Translated by Claude Field. Kuala Lumpur: Islamic Book Trust, p. 22. The translator refers to physicists; however, in the original context it refers to those who reject God’s providence.

[xiii] سورہ یونس، آیت  99

[xiv] سورہ بقرہ ، آیت  256

[xv] Idris, J. (2012). An Islamic View of Peaceful Coexistence. Available at:                               www.jaafaridris.com/an-islamic-view-of-peaceful-coexistence

[Accessed 1st October 2016].

                   [xvi]  Bremmer, J. N. (2007). Atheism in Antiquity. In: M. Martin, ed., The Cambridge Companion to Atheism, 1 st Edition. New York: Cambridge University Press, p. 11.

         [xvii] Hyman, G. (2007). Atheism in Modern History. In: M. Martin, ed., The Cambridge Companion to Atheism, p. 29.

       [xviii] Addison, J. (1753). The Evidence of the Christian Religion. London,      pp. 224-223

Hyman, G. (2007). Atheism in Modern History, p. 31.                                                                  [xix]

                        [xx] Bradlaugh, C. (1929). Humanity’s Gain from Unbelief and Other Selections from the Works of Charles Bradlaugh. London: Watts & Co. The Thinkers Library, No. 4

[xxi] Ibid, p. 23.

[xxii] Ibid, p. 1.

                       [xxiii] Modernizing the Case for God. Time Magazine, 7 April 1980, pp. 65-66. Available at:

http://content.time.com/time/magazine/article/0,9171,921990,00.html [Accessed 2nd October 2016].

              [xxiv] Crick, F. (1982). Life Itself: Its Origin and Nature. London: Futura Publications, pp. 117-129.

                 [xxv] Hitchens, C. (2007). God Is Not Great: The Case Against Religion. New York: Atlantic Books, p. 13

                  [xxvi] Harris, S. (2006). The End of Faith: Religion, Terror and the Future of Reason. London: The Free Press, p. 227

[xxvii] Dawkins, R. (2006). The God Delusion, p. 20.

                   [xxviii] Cited in William, P. S. (2009). A Sceptic’s Guide to Atheism. Milton Keynes: Paternoster, p. 41

[xxix] Ibid p. 44.

        [xxx]Office for National Statistics. (2011). Religion in England Wales 2011.                              

[online] Available at:

http://www.ons.gov.uk/ons/rel/census/2011-census/key-statistics-for-

local-authorities-in-england-and-wales/rpt-religion.html#tab-Changing-picture-of- religious-affiliation-over-last-decade.

[Accessed 1st October 2016].

                 [xxxi] Biotechnology Report. Fieldwork January 2010 – February 2010. Bruxelles: TNS

Opinion & Social, p. 203. Available at:

http://ec.europa.eu/public_opinion/archives/ebs/ebs_341_en.pdf  [Accessed 1st October 2016].

      [xxxii] The history of atheism in China has its own complexities and cannot be equated with Western atheism. Chinese atheism is not due to Darwinism or a Dawkins type of new atheism. Atheism in China is based on a unique set of cultural, political and intellectual factors. It has to be studied on its own.

    [xxxiii] Zuckerman, P. (2007). Atheism: Contemporary Numbers and Patterns. In: M. Martin, ed, The Cambridge Companion to Atheism, p. 61

[xxxiv] Ibid, p. 55.

             [xxxv] WIN-Gallup International. (2012). Global Index of Religiosity and Atheism, p. 16.

Available at: http://www.wingia.com/web/files/news/14/file/14.pdf

[Accessed 2nd October 216].

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password