دشمنانِ دانش-الحاد کیوں کر غیر معقول ہے؟ [adversaries- of- Reason: Why Atheism is Irrational]

.

.

تصوّر کریں کہ آپ ٹیکسی چلایا کرتے ہیں اور ایک دن آپ کو ایک کال آتی ہے اور آپ سے کہا جاتا ہے کہ دو مسافروں کو ریلوے سٹیشن سے لے لیں۔ آپ ریلوے سٹیشن کے قریب ہی ہیں اس لیے آپ مقررہ وقت سے پہلے ہی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی گاڑی پہنچ جاتی ہے اور اگلے چند ہی لمحوں میں وہ آپ کی کار میں ہوتے ہیں۔ سلام کے بعد آپ ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں جانا پسند کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ انھیں ان کے دفتر پہنچا دیں جو تقریبا 9 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ آپ گاڑی سٹارٹ کر کے چل پڑتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں انھیں ان کے منزل پر پہنچا دیتے ہیں۔

اب اس کہانی کو دوبارہ سے شروع کریں؛ تصور کریں کہ جب وہ مسافر سوار ہوجاتے ہیں تو آپ فورا ہی اپنی آنکھوں پر ایک پٹی باندھ لیتے ہیں۔ اس صورت حال میں کیا آپ اس قابل رہ جاتے ہیں کہ ان مسافروں کو ان کی منزلِ مقصود تک پہنچا پائیں؟ سیدھا سا جواب ہے کہ آپ قطعا انھیں ان کی منزلِ مراد تک نہیں پہنچا پائیں گے کیونکہ آپ اندھے ہو چکے ہیں؛ آپ دیکھ نہیں پا رہے کیونکہ آپ کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ کیسا رہے گا اگر آپ اصرار کریں کہ آپ اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی سمیت گاڑی چلائیں گے؟ کیا آپ کے سوار آپ کو غیر معقول نہیں قرار دیں گے ،یا  وہ آپ کو پاگل ہی نہ کہہ دیں؟

اوپر کی مثالوں میں وہ پہلا ڈرائیور جو سب کچھ دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ ایک مسلم مومن کی مثال ہے، جبکہ دوسرا ،جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے، ایک ملحد (منکرِ وجودِ الٰہ) کی مثال ہے۔

قبل اس کے کہ میں اس بات کی وضاحت کروں کہ اوپر کی مثال میں دونوں ٹیکسی ڈرائیور کیسے مسلم مومن اور ملحد کے مثل ہیں، مجھے کچھ ضروری پس منظر بیان کر لینے دیجئے۔ مسلم اور ملحد دونوں ہی یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں فہم و دانش کی صلاحیت ہے۔ یعنی ہم (بحیثیتِ انسان) اس قابل ہیں کہ ہم فکر و تدبر سے کام لیں۔ ہم اپنے ذہن میں کسی نتیجے کی طرف جانے والا راستہ “دیکھ” لیتے ہیں۔ ہمارے ذہن منطقی مقدموں[1] اور جملوں کو (سوار کی مانند) لے لیتے ہیں اور ان کو کسی ذہنی منزل (منطقی نتیجے) تک “پہنچا دیتے” ہیں۔ یہ صلاحیت کسی بھی سمجھدار دماغ کی لازمی خصوصیت ہے۔

تو الحاد اس ٹیکسی ڈرائیور کی مانند کیوں ہے جس نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے؟ الحاد کی زیادہ تر صورتیں طبیعیاتی فلسفہ [2]پر قائم ہیں، جس کا تقاضا ہے کہ ہر چیز (بشمول ذہانت) صرف اندھے، غیر ذی عقل طبیعیاتی اعمال کے تسلسل کے طور پر سمجھی اور دیکھی جائے۔ تاہم جس طرح آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر مسافروں کو ان کے منزل تک نہیں پہنچا سکتے، طبیعاتی اعمال بہر حال اندھے ہیں  اورکبھی بھی  ہمارے ذہن میں منطقی مقدموں کو ان کے فکری منزل تک نہیں لے جا سکتے[3]۔ بالفاظ دیگر وہ دو یا زائد منطقی مقدموں کے مابین منطقی ربط کو پہچان نہیں سکتے۔ چنانچہ الحاد (کسی بھی خدا کے وجود کا انکار) در اصل ذہنی و فکری صلاحیتوں ہی کا انکار کرنے کے مترادف ہے کیونکہ یہ اپنے مفروضے کو خود ہی توڑ دیتا ہے۔ ہماری فکری صلاحیت کسی طرح بھی طبیعیاتی نقطہ نظر سے میل نہیں کھاتی کیونکہ فکری صلاحیت کبھی بھی اندھے اور غیر معقول طبیعیاتی اعمال کے تسلسل سے ظہور پذیر نہیں ہو سکتی۔ اس بات پر زور دینا کہ ایسا ہو سکتا ہے، ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ کوئی چیز اپنے آپ سے وجود میں آ سکتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو الحاد غیر معقول ہے۔ الحاد اس چیز کو خود ہی توڑ دیتا ہے جس کے ذریعے، اس کا دعویٰ ہے کہ وہ خدا کا انکار کرتا ہے: یعنی فکری صلاحیت۔

اب کس طرح اسلامی الٰہیات اس ٹیکسی ڈرائیور کی مانند ہے جو دیکھ سکتا ہے؟ یہ بات کہ ہم ذہنی بصیرت سے آراستہ ہیں، اسلامی الٰہیات کے منظر نامے سے مکمل مناسبت رکھتی ہے کیونکہ یہ صلاحیت اس وقت مکمل طور پر سمجھ میں آتی ہے (اس صلاحیت کی پوری وضاحت کی جا سکتی ہے) اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ہمیں اس خالق کی طرف سے عطا ہوئی ہے جو البصیر سب کچھ دیکھنے والا، العلیم سب کچھ جاننے والا اور الحکیم پوری حکمت والا ہے۔ اک چیز کسی ایسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتی اگر وہ خود اس میں نہ ہو یا اس میں اس کو پیدا کرنے کی صلاحیت یا طاقت نہ ہو۔ بالفاظ دیگر عقل صرف عقل ہی سے ظہور پذیر ہو سکتی ہے اس لیے ہماری ذہنی و فکری بصیرت صرف کسی ذی شعور پیدا کرنے والے کی طرف سے ہی آسکتی ہے۔

اس باب میں جو نکتہ پیش کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے والے اور خدا کے وجود کا انکار کرنے والے دونوں ہی یہ سمجھتے ہیں کہ بحیثیتِ انسان ہم ذہنی و فکری صلاحیت سے آراستہ ہیں۔ تاہم یہ مفروضہ اسلامی الٰہیاتی منظر نامے میں تو پورا اترتا ہے جبکہ الحاد کے منظر نامے میں نہ تو پورا اترتا ہے اور نہ سمجھ میں آتا ہے (کہ انسان کو یہ صلاحیت کیسے حاصل ہوئی)۔ چنانچہ یہ نہایت معقول ہو گا کہ اسلامی الٰہیاتی منظر نامے کی سچائی کو قبول کیا جائے بجائے الحاد کے۔ اس باب میں ہم اس نکتے کی تفصیلی وضاحت کریں گے لیکن اس سے پہلے ذیل میں ایک مکالمہ ملاحضہ کیجئے جو ایک طرح کا خلاصہ ہو گا جس کی ہم آگے وضاحت کرنے جا رہے ہیں۔

ملحد: خدا کے وجود کی کوئی دلیل نہیں ہے، خدا پر ایمان رکھنا غیر معقول ہے۔

مسلم: واہ یہ ایک دلچسپ اصرار ہے۔ کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ آپ ذہنی و فکری صلاحیتیں رکھتے ہیں؟ بالفاظِ دیگر کیا آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ فہم و ادراک رکھتے ہیں؟

ملحد: ظاہر ہے۔ کوئی بھی صاحبِ فہم خدا کا انکار ہی کرے گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ کوئی ثبوت نہیں ہے کہ خدا موجود ہے۔

مسلم: بہت اچھے۔ تو کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ اپنی ذہنی و فکری صلاحیتوں کی کیسے وضاحت کریں گے، الحاد کے منظر نامے میں؟

ملحد: کیا مطلب؟

مسلم: اچھا، کیا آپ یقین رکھتے ہیں کہ تمام مظاہر کی وضاحت طبیعیاتی اشیاء اور اعمال کے ذریعے کی جا سکتی ہے؟ اور کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ کوئی ماوراءالفطرت ہستی موجود نہیں ہے؟

ملحد: یقینا

مسلم: طبیعیاتی اشیاء محض اندھی چیزیں ہیں اور غیر ذی عقل ہیں۔ تو کیسے فہم و ادراک جیسی اعلیٰ صلاحیتیں غیر ذی عقل چیزوں سے جنم لے سکتی ہیں؟ کیسے کوئی چیز کسی ایسی چیز سے ظہور پذیر ہو سکتی ہے جو اس میں نہیں ہے نہ ہی اس میں اس چیز کو پیدا کرنے کی صلاحیت ہے؟ ہم محض اندھے طبیعیاتی اعمال کے بدولت ہی کیسے ذہنی ادراک کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ اس تناظر میں تم اپنی ذہنی و فکری صلاحیتوں کی کیسے وضاحت کر سکتے ہو؟

ملحد: ہم ایک ایسا دماغ رکھتے ہیں جو ترقی کرتے کرتے اس قابل ہو گیا ہے۔

مسلم: بہت خوب۔ اور الحاد کے منظر نامے میں ایک ترقی یافتہ دماغ بھی محض طبیعیاتی شے ہی ہے،کیا  نہیں؟

ملحد: جی لیکن ہمارے دماغ ترقی کر کے صاحبِ فہم ہو گئے ہیں کیونکہ جتنا زیادہ کوئی دنیا کے بارے معلومات رکھتا ہے، اس کا جینا اتنا ہی زیادہ ممکن ہوتا ہے۔

مسلم: یہ بات درست نہیں ہے، غیر معقول باتوں پر ایمان رکھنے سے بھی جینے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

ملحد: تو کیا؟ ہم دونوں ہی یہ مانتے ہیں کہ فہم و ادراک انسانوں کو حاصل ہے، اس لیے یہ بحث غیر متعلقہ ہے۔

مسلم: جی نہیں۔ یہ نہایت اہم سوال ہے کیونکہ الحاد کے منظر نامے میں تمہاری ذہنی و فکری صلاحیت ناقابلِ فہم ہے۔ الحاد نے خود ہی اس مفروضے کو توڑ ڈالا ہے جس کے استعمال کے دعوے کے ساتھ وہ خدا کا انکار کرتا ہے۔ چنانچہ ملحد ہونا مضحکہ خیز ہے کیونکہ الحاد خود فہم و ادراک کا انکار کرتا ہے۔

ملحد: نہیں۔ تمہیں چاہیئے کہ پہلے تم مجھے خدا کا وجود ثابت کر کے دکھاؤ۔

مسلم: یہ خوب بہانہ ہے۔ تمہارا لفظ “ثبوت” کا استعمال کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تم میں فہم و ادراک کی صلاحیت ہے تاہم تمہارا حق نہیں بنتا کہ تم اس بات کا دعویٰ بھی کرو کیونکہ الحاد فہم و ادراک کا انکار کرتا ہے۔ دانش نادان چیز سے تو نہیں آ سکتی۔ چنانچہ اس نقطہ نظر سے الحاد غیر معقول ہے۔ تاہم دانش نادانی سے آ سکتی ہے مگر اس کے لیے اسلامی الٰہیاتی منظر نامے کو ماننا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی الٰہیات بہترین طور پر ہماری فکر و دانش کی وضاحت کرتا ہے کیونکہ یہ کہتا ہے کہ یہ اس خالق کی طرف سے آیا ہے جو البصیر سب کچھ دیکھنے والا، العلیم سب کچھ جاننے والا اور الحکیم پوری حکمت والا ہے۔

فہم کیا چیز ہے؟

اس موقف کے تناظر میں فہم سے مراد یہ ہے کہ ہم (بطورِ انسان) عقلی لوازمات و خصوصیات رکھتے ہیں۔ ہم سچ کو پا سکتے ہیں، ہم معلوم کرنے کی آرزو رکھتے ہیں اور ہم استدلال، استنتاج اور استنباط[4] کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری فکری خصوصیات میں سے ایک اہم خاصہ یہ ہے کہ ہم منطقی[5] اعتبار سے ٹھوس نتائج تک پہنچنے کی لیاقت رکھتے ہیں۔ جب ہم منطقی انداز میں سوچتے ہیں تو ہمارے نتائج ہمارے عقلی بصیرت کے تابع ہوتے ہیں؛ ہم نتیجے کو آتا ہوا دیکھ لیتے ہیں۔ تکنیکی طور پر ہم جس نتیجے پر پہنچتے ہیں، وہ منطقی مقدموں اور نتیجے کے مابین منطقی تعلق پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہم اس تعلق کی بنا پر نتیجے کو نکلتا ہوا “دیکھ” لیتے ہیں، لیکن ہمارا یہ “دیکھنا” حسی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ بالفاظِ دیگر ہم ایک عقلی نظر رکھتے ہیں اور ہم دیکھ لیتے ہیں کہ منطقی طور پر ایک نتیجہ نکل رہا ہے؛ یعنی یہ منطقی اعتبار سے اپنے گزشتہ مقدموں کے ساتھ منسلک ہے۔

عقلی نظر کی وضاحت استنباطی سلسلہ دلائل کے ذریعے بخوبی کی جا سکتی ہے۔ استنباطی دلائل وہ ہوتے ہیں جہاں منطقی مقدمے نتیجے کی صداقت کی ضمانت دیتے ہیں۔ استنباطی دلیل درست ہوتا ہے اگر یہی نتیجہ اس کے مقدموں سے لازما نکلتا ہو (لیکن استنباطی دلیل کا درست ہونا ناکافی ہے جب تک کہ وہ ثابت بھی نہ ہو)۔ استنباطی دلیل ثابت اس وقت ہوتا ہے اگر نتیجہ منطقی طور پر درست ہو اور ساتھ ہی ساتھ اس کے مقدمے بھی سچائی پر مبنی اور منطقی طور پر قابلِ قبول ہوں۔

مندرجہ ذیل استنباطی دلیل کی مثال ملاحضہ کیجئے:

  • تمام مجرد افراد غیر شادی شدہ ہوتے ہیں۔
  • زید ایک مجرد ہے۔
  • اس لیے زید غیر شادی شدہ ہے۔

ہم اپنی فہم کے بل بوتے پر خوب جانتے ہیں کہ (1) اور (2) سے (3) لازما نکلتا ہے۔ ہم مقدمہ نمبر (1) اور (2) کی سچائی پر یقین رکھنے میں بھی حق پر ہیں۔ تاہم اس طبیعیاتی دنیا کی کوئی چیز یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ (3)، (1) اور (2) سے کیسے منسلک ہے۔ بالفاظِ دیگر منطقی طور پر یہ نتیجہ کیوں نکلتا ہے۔  ضروری نہیں کہ یہ نتیجہ صرف مقدمہ میں موجود الفاظ کے معنی کی وجہ سے آئے[i]۔ بلکہ یہ ان کے مابین ہونے والے تعلقات کی وجہ سے اخذ ہوتا ہے[ii]۔آپ بھلے زید سے پہلے کبھی نہ ملے ہوں اور بھلے آپ کا کبھی کسی مجرد سے واسطہ نہ پڑا ہو، لیکن بہر حال آپ کی فکری صلاحیتیں سمجھ لیتی ہیں کہ یہ نتیجہ لازما ان مقدموں سے نکلتا ہے۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ عقل کی مادی دنیا سے ایک بلند تر جہت ہے۔

اس بات کو پوری طرح سمجھنے کے لئے نیچے دی گئی استنباطی دلیل کی مثال ملاحضہ کیجئے۔

  • زید نے پانچ موڈیفَس دیکھے۔
  • جو پانچ موڈیفَس زید نے دیکھے وہ زرد رنگ کے تھے۔
  • اس لئے کم از کم کچھ موڈیفَس زرد رنگ کے ہوتے ہیں۔

یہ ایک درست دلیل ہے؛ نتیجہ اپنے مقدموں سے لازمی طور پر نکلتا ہے۔ زید نے چونکہ پانچ زرد موڈیفَس دیکھے اس لیے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کم از کم کچھ موڈیفَس لازما زرد رنگ کے ہوں (آیا کہ سارے موڈیفَس زرد رنگ کے ہیں یا نہیں، اگر پانچ سے زیادہ موڈیفَس پائے جاتے ہوں، ان مقدموں سے واضح نہیں ہوتا؛ کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے)۔ مقدمہ نمبر 1 اور 2 سے 3 لازما نکلتا ہے۔ لیکن ہم کیوں یہ مانتے ہیں کہ نتیجہ (3) اپنے مقدموں سے لازما برآمد ہوتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ ہم نتیجے کے منطقی طور پر درست ہونے کے قائل ہیں اگرچہ ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ موڈیفَس کیا چیز ہوتی ہے؟ (آپس کی بات ہے کہ یہ لفظ میں نے خود ہی بنا ڈالا ہے)۔ ایسا اس لیے ہے کہ دلائل ہمارے ذہن میں اس طرح چلتے ہیں اور اس بات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ ہمارے ذاتی تجربات کی بنیاد پر ہم نے کیا نتائج مرتب کیے ہیں۔ ہم نے اپنی فکری بصیرت کی بنیاد پر نتیجہ (3) کو دیکھ لیا بغیر کسی بیرونی مادی معلومات کے۔ ہم نے ایک ایسی چیز کے بارے میں ایک خیالی منظر بنا لیا جو ہمارے تجربات کی بنیاد پر نہیں تھی (ہم نہیں جانتے کہ موڈیفَس چیز کیا ہے)۔ امر واقع یہ ہے کہ اگر زرد کے بجائے ہم لفظ “بزد” ڈال دیں (جو ایک دوسرا من گھڑت لفظ ہے) تو پھر بھی اس سے نتیجے کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور نتیجہ لازمی طور پر وہی نکلتا یعنی کچھ موڈیفَس (کم از کم 5) ضرور بزد ہیں۔

نہ صرف یہ کہ ہمارا ذہن ایک ایسے نتیجے تک پہنچتا ہے جو کسی بیرونی شواہد پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہمارا ذہن ہمیں اس سمت میں لے جاتا ہے اور ہماری رہنمائی کرتا ہےجہاں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ (3) لازما (1) اور (2) سے نکلتا ہے۔ یعنی ہمارے ذہن نے مقدمہ نمبر (1) اور (2) کو لیا اور ہماری ذہنی بصیرت کی اس طرف رہنمائی کی اور اس سمت میں لے گیا جہاں ہم نے دیکھ لیا کہ (3) نکل رہا ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ کسی ذہنی منزل یا مقام کی طرف لے جانا کسی طبیعیاتی عمل کے سلسلے کی خصوصیت نہیں ہے۔ طبیعیاتی اعمال کے سلسلے اندھے اور بے ہنگم ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے کوئی ارادی قوت کارفرما نہیں ہوتی جو ان اعمال کو کسی طرف لے جاتی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم منطقی نتائج تک پہنچنے کی انسانی فکری صلاحیت کی وضاحت کے لئے طبیعیاتی اعمال کا سہارا نہیں لے سکتے۔

فکری صلاحیت: سائنس کا ایک مفروضہ

انسانی ذہن کی ایک ممتاز خوبی ہے؛ ہم صحیح اور غلط، سچ اور جھوٹ، خوب صورت اور بد صورت میں تمیز کر سکتے ہیں اور یہی خوبی ہمیں واضح طور پر جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ہماری ذہنی صلاحیتوں نے ہمیں اس قابل بنایا ہے کہ ہم ترقی کر یں اور آگے بڑھیں۔ در حقیقت ہمیں سائنسی کام شروع کرنے سے پہلے اپنی ذہنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ سائنس کا ایک بنیادی مفروضہ ہے کہ ہمارا ذہن اس قابل ہے کہ فکر و تدبر کر سکے۔ ایسے مفروضے کے بغیر ہم کبھی اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے جیسے دلیل، حقیقت، سچائی اور ثبوت۔

انسان کے تمام تر سائنسی اعمال کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ ہم فکر و تدبر کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فکر و تدبر کا وجود کسی بھی طرح کے سائنسی وضاحت کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر جب ایک سائنسدان کسی قابلِ جانچ مفروضے کو یا کسی قابلِ جواب سوال کو حل کرنے لگتا ہے تو پس منظر میں ایک مفروضہ چل رہا ہوتا ہے کہ نتائج کو فکر و تدبر سے سمجھا جا سکتا ہے۔ سائنسدان یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ کسی سائنسی وضاحت کی منطقی صحت بھی جانچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ سائنسدان کوئی بھی سائنسی عمل کرنے سے پہلے یہ فرض کرتے ہیں کہ وہ اپنی فکری صلاحیت سے کام لے سکتے ہیں۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سائنس ہماری فکر و تدبر کی صلاحیت کی کوئی بھی جزوی وضاحت بالکل بھی نہیں کر سکتی۔ تاہم سائنس ان صلاحیتوں کی بنیاد کے متعلق کوئی تسلی بخش وضاحت کرنے میں بے بس ہے۔ کسی طبیعیاتی عملی تسلسل کے ذریعے اس بات کی وضاحت کی کوشش کرنے سے کہ فکر و تدبر کیسے ظہور پذیر ہوئی، اس کے بلند تر جہت کی وضاحت خاک بھی نہیں ہوتی۔ بلند تر جہت کی خوبیوں میں سے منطقی طور پر درست نتیجے تک پہنچنے کی صلاحیت بھی شامل ہے۔ اس نتیجے کا تعین انسانی ذہن میں کارفرما ایک فکری بصیرت کرتی ہے۔ چونکہ اس بلند تر جہت کی وضاحت سائنس نہیں کر پاتی اس لیے ان صلاحیتوں کی وضاحت کے لئے سائنس پر کلی انحصار غیر مناسب ہے۔ سائنس اس بات کی وضاحت کرنے سے عاجز ہے کہ ہم منطقی نتیجہ کو اپنے ذہن میں “دیکھ” لیتے ہیں جبکہ اس “دیکھنے” کی تصدیق کسی بھی تجرباتی مشاہدہ کے ذریعے نہیں کی جا سکتی۔ سائنس صرف انھی چیزوں سے معاملہ کرتی ہے جو کسی نہ کسی طرح سے تجربہ اور مشاہدہ میں آسکتی ہیں۔ چونکہ فکر و تدبر کی صلاحیت کی وضاحت شروع کرنے سے پہلے سائنس کو فکر و تدبر کی صلاحیت درکار ہوتی ہے، اس لیے یہ کہنا کہ سائنس کسی نہ کسی طرح ہماری فکر و تدبر کی صلاحیت کی وضاحت کر پائے گی، ایک دائرے میں بحث کرنے کے مترادف ہے۔ سائنس ہمیں دنیا کو سمجھنے میں مدد کرنے کے اعتبار سے ایک اچھا آلہ ہے لیکن اس کی بہت سی کمزوریاں ہیں۔

یہاں شاید کوئی یہ کہہ دے کہ مفروضوں کو جانچنے پرکھنے یا وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ مفروضے بغیر ثبوت کے سچ مان لیے جاتے ہیں۔ یہ ایک درست نکتہ ہے لیکن درست اور نادرست مفروضوں میں فرق ہوتا ہے۔ کسی مفروضے کے درست ہونے کے لئے لازم ہے کہ یہ اس تصور یا نظریے کے مطابق سمجھا جا سکے جس کو یہ سہارا دے رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی مفروضہ اس نظریہ میں پورا نہ اترتا ہو جس کو یہ سہارا دینے کی سعی کرتا ہو تو ایسا مفروضہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیئے۔ مثال کے طور پر، سائنس اس خیال پر کھڑی ہے کہ “کارخانہ قدرت کو چلانے والے اسباب میں ربط و تسلسل پایا جاتا ہے”[iii]۔ اگر سائنسدان ہمیشہ اس نتیجے پر پہنچا کریں کہ طبیعیاتی اسباب غیر مسلسل ہیں تو پھر اس مفروضے کو ترک کر دینا چاہیئے یا اس کی اصلاح کی جانی چاہیئے۔ اگر فلسفیانہ فطرت پرستی (اور سائنس بھی) یہ یقین کرتی ہے کہ فکر و تدبر کی صلاحیتوں کی وضاحت بے ہنگم اور غیر ذی عقل طبیعیاتی اعمال کے تسلسل کے ذریعے کی جا سکتی ہے، تو پھر کوئی ملحد (جو فطرت پرستی کا عقیدہ اختیار کرتا ہے) کیسے ایک ایسے مفروضے کو اپنا سکتا ہے جو خود ہی واضح طور پر فطرت پرستی کے تناظر میں پورا نہیں اترتا؟ درحقیقت فطرت پرستی فہم و ادراک کا انکار کرتی ہے، کیونکہ عقل و فہم کی صلاحیت غیر ذی عقل طبیعیاتی اعمال سے جنم نہیں لے سکتی۔ فکر و شعور کی بصیرت اندھی طبیعیاتی اعمال کے تسلسل سے پیدا نہیں ہوتی۔ چنانچہ ملحدین کو چاہیئے کہ یا تو اپنا نقطہ نظر بدل لیں یا اس خیال کو مسترد کر دیں کہ انسان فکر و تدبر کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔

الحاد کے منظر نامے میں ہماری فکر و تدبر کی صلاحیت کی وضاحت نہیں کی جا سکتی

اکثر ملحدین فلسفیانہ فطرت پرست ہیں۔ فطرت پرستی کا اصرار ہے کہ کوئی فطرت سے بالا تر ہستی موجود نہیں ہے اور یہ کہ تمام مظاہر طبیعیاتی اعمال کے تسلسل کی صورت میں سمجھے جا سکتے ہیں۔ فطرت پرستی کے مطابق: اگر ہم حقائق کی نہایت بنیادی تہوں کی کھوج لگائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چیز ایک اندھے، غیر ذی عقل اور بے ہنگم طبیعیاتی اعمال کے تسلسل کا نتیجہ ہے؛ ذیر اتمی اجزا[6]، جوہر[7] اور مولکل[8] بغیر کسی سمت، رہنمائی یا مطلوبہ نتیجہ کے بے ہنگم تھرتھراتے پھر رہے ہیں۔ طبیعیاتی چیزوں کی کوئی مقصدیت نہیں ہوتی؛ ان طبیعیاتی اعمال کو کوئی چیز بھی سوچ سمجھ کے نہیں چلا رہی۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم کیسے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہمارے دماغ میں یہ صلاحیت ہے کہ فکر و تدبر کی بصیرت حاصل کرے؟ ہم کسی نتیجے تک پہنچنے کی صلاحیت کا کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں؟ فکر و تدبر کی صلاحیت کا ایک اہم حصہ ذہنی بصیرت ہے، یعنی آدمی اپنے ذہن کی نظر سے دیکھ پائے کہ کوئی چیز کسی دوسری چیز سے منطقی طور پر نکلتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں فطرت پرستی ٹھوکر کھاتی ہے کیونکہ اس کا اصرار ہے کہ تمام مظاہر بے ہنگم، غیر ذی عقل طبیعیاتی اعمال کے تسلسل پر مبنی ہے۔

منطقی مقدموں کو لے کر کسی ذہنی “منزل” کی طرف لے جانے کی صلاحیت باطل ہو جاتی ہے اگر کوئی یہ توجیہ کر دے کہ یہ صلاحیت اندھے، غیر ذی عقل طبیعیاتی اعمال کے سلسلے سے آتی ہے۔ ایک چیز کسی ایسی چیز کو جنم نہیں دے سکتی اگر اس میں وہ چیز نہ ہو یا اس کو پیدا کرنے کی صلاحیت یا طاقت نہ ہو۔ مثال کے طور پر میں آپ کو 500 روپے نہیں دے پاؤں گا اگر میرے پاس یہ رقم نہ ہو اور میں اتنی رقم جمع بھی نہیں کر پاؤں گا اگر میں بے روزگار ہوں اور میرے بینک میں بھی پیسے نہ ہوں (یہ اصول اس کتاب میں بارہا استعمال ہو گا)۔ اسی طرح اگر طبیعیاتی اعمال کے سلسلوں میں فکر و تدبر کی روشنی نہ ہو تو وہ اس کو کیسے پیدا کریں گے؟ طبیعیاتی اعمال کے سلسلوں کے تعارف ہی میں یہ بات ہے کہ یہ فکر و تدبر کی صلاحیتوں سے عاری ہیں اور ان میں کسی قسم کی ذہنی بصیرت نہیں ہوتی۔ یہ کسی منطقی مقدمے سے نکلنے والے نتیجے کو نہیں دیکھ پاتے۔ طبیعیاتی اعمال کے سلسلے بامقصد یا ارادی طور پر کسی متعین سمت میں چلائے ہوئے نہیں ہوتے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ فکر و تدبر کی صلاحیت غیر معقول طبیعیاتی اعمال کے تسلسل سے ظہور پذیر ہوئی ہے، یہ ماننے کے مترادف ہے کہ کوئی چیز نیستی[9] سے آ سکتی ہے۔

مندرجہ ذیل مثال ملاحضہ کیجئے۔ باب کے آغاز میں گزری کہانی کی طرح، تصور کریں کہ دو بس ڈرائیور ہیں۔ ان میں سے ایک کی بینائی اچھی ہے اور وہ تجربہ کار بھی ہے۔ دوسرا اندھا ہے اور ناتجربہ کار بھی۔ پہلا اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے اور دو لوگوں کو سوار کر لیتا ہے جنھیں ہم مقدمہ نمبر 1 اور مقدمہ نمبر 2 کہیں گے۔ ان مسافروں کی منزلِ مراد “نتیجہ” ہے۔ ڈرائیور اپنے نقشے میں اس منزل کو ڈھونڈ لیتا ہے اور اس کی طرف سفر شروع کر لیتا ہے یہاں تک کہ منزل قریب آنے لگتی ہے تو وہ رکنے کی جگہ کو واضح دیکھ لیتا ہے۔ دوسرے ڈرائیور کو اس کی اسٹیشن پر کھڑی بس تک لے جایا جاتا ہے۔ اس کی بس میں مقدمہ نمبر 1 اور مقدمہ نمبر 2 بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ ان کی بھی منزل وہی ہے۔ ڈرائیور کسی نہ کسی طرح بس کا انجن اسٹارٹ کر لیتا ہے لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اس منزل تک پہنچ جائے گا؟ بالکل اس ٹیکسی ڈرائیور کی طرح جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، یہ بھی کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ پائے گا۔ طبیعیاتی اعمال سلسلے بھی اسی الجھن کا شکار ہیں۔ وہ بھی اندھے ہیں اور فکر و تدبر کی وضاحت نہیں کر پاتےکیونکہ فکر و تدبر کی یہ خوبی ہے کہ وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ ذہنی بصیرت کو بروئے کار لائے اور کسی نتیجے پر پہنچ جائے۔ اور کوئی شخص کسی ایسی چیز سے ذہنی بصیرت نہیں لے سکتا جو خود اندھی ہو۔ ایسی بات پر اصرار کرنا اس کے مترادف ہے کہ یہ کہا جائے کہ کوئی چیز نیستی سے وجود میں آسکتی ہے۔

اس نقطہ نظر سے الحاد اپنی فطرت پرستانہ نقطہ نظر کے بسبب نہ صرف غیر معقول ہے بلکہ دشمن دانش بھی ہے۔ یہ خود اسی چیز کو ہی ختم کر دیتا ہے جو خدا کے متعلق کوئی بھی دعویٰ کرنے کے لئے درکار ہوتی ہے؛ یعنی فہم و دانش۔ چونکہ فہم و دانش غیر ذی عقل چیزوں سے ظہور پذیر نہیں ہو سکتی اس لیے اس سے یہ مطلب برآمد ہوتا ہے کہ فطرت پرستی انسان کی فکر و تدبر کی صلاحیتوں کی وضاحت نہیں کر سکتی۔

اس دلیل پر کچھ اعتراضات ممکن ہیں جن پر اس باب کے آخر میں بحث کی جائے گی۔ تاہم ایک اہم اعتراض یوں کیا جاتا ہے کہ کمپیوٹر کے پروگرام استنباطی طرزِ استدلال کی صلاحیت رکھتے ہیں: کمپیوٹر کے پروگرام طبیعیاتی اشیا سے مل کر بنے ہوتے ہیں؛ اس لیے طبیعیاتی اعمال کے تسلسل سے انسانی فکری صلاحیت کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ اس بحث کی تفصیل سے وضاحت اسی باب کے آخر میں آ رہی ہے لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ کمپیوٹر کے پروگراموں میں فکری بصیرت نہیں ہوتی؛ خاص طور پر ان میں بامعنی فکری بصیرت نہیں ہوتی۔ انسانی فہم و فراست کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ بامعنی نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ بات کہ ہم کسی نتیجے کے معانی یا اثرات پر سوال اٹھا سکتے ہیں، (یہاں تک کہ اگرچہ ہم اس کے معنیٰ سے ناواقف ہی ہوں، جیسے اوپر موڈیفَس کی مثال) بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی فہم و فراست میں با معنی فکری بصیرت شامل ہے۔ کمپیوٹر کے پروگراموں میں اس طرح کی معنی خیز فکری بصیرت نہیں ہوتی۔ در حقیقت کمپیوٹر کا نظام ایک ایسے نظام پر استوار ہے جسے syntactics کہا جاتا ہے (جس میں علامات کا استعمال کیا جاتا ہے)۔ یہ نظام الفاظ کے معانی سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتا۔ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

کیا ڈاروِنی ارتقائیت ہماری فکر و تدبر کی وضاحت کر سکتی ہے؟

فطرت پرستوں کے مطابق ہمارے دماغ ترقی کرتے کرتے فکر و تدبر کی صلاحیت سے آراستہ ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے آبا و اجداد کی زندگی کے لئے فائدہ مند تھا کہ وہ اپنے ماحول کے متعلق زیادہ سے زیادہ جان لیتے۔ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی صلاحیت ان کی زندگی کے لئے ضروری تھی۔ سطحی طور پر یہ دلیل خوب صورت نظر آتی ہے اگرچہ فطرت پرستی کے عقیدے میں انسانی فکر و تدبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔  تاہم جب ہم تھوڑی سی کھرچا کھرچی کرتے ہیں ہم مسائل کے ایک انبار میں دھنس جاتے ہیں۔ چارلس ڈارون کو خود ان مسائل کا احساس تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اگر محض کمتر جانوروں سے ترقی کرتے کرتے ہم یہاں پہنچ گئے ہیں تو پھر ہماری فکر و تدبر کی صلاحیت کا مسئلہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ ڈاروِن نے سنہ 1881 میں ایک خط میں لکھا تھا: “لیکن پھر مجھے یہ خوف ناک شبہ ہمیشہ گھیر لیتا ہے کہ کیا انسانی دماغ (جو اپنے سے کم تر درجے کے جانوروں کے دماغ کی ترقی یافتہ شکل ہے)میں پیدا ہونے والے افکار و خیالات کی کوئی قدر و قیمت ہے یا وہ قابلِ اعتبار ہی ہے۔ کیا کوئی کسی بندر کے دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کا اعتبار کرے گا اگر کسی ایسے دماغ میں افکار و خیالات پیدا ہوتے ہوں؟”[iv]

اب ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا فطرتی ارتقائیت کا نظریہ کوئی سہارا دے سکتا ہے، جس سے انسانی فکر و تدبر کی ڈوبتی کشتی کو بچایا جا سکے۔ جب ہم فطری ارتقائیت کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ ارتقائی عمل کسی مافوق الفطرت ذات کی مداخلت یا رہنمائی کے بغیر چل رہی ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق ہمارے دماغ ترقی کرتے کرتے اس صلاحیت سے آراستہ ہو گئے کیونکہ ہماری فکر و تدبر اور سچی اعتقادات کی صلاحیت ہماری حیات کے لئے ضروری تھی۔ اس دعویٰ کے ساتھ بہت سے مسائل وابستہ ہیں؛ اولا سچ اور غلط میں تمیز ہماری ضروریاتِ حیات میں سے نہیں ہے، ثانیا ذہنی بصیرت بھی زندہ رہنے میں بہت مددگار نہیں ہے۔ ارتقا زندہ رہنے کے لئے مددرگار صلاحیتوں کے حصول کا نام ہے نہ کہ منطقی طور پر درست نتائج تک پہنچنے کی صلاحیتوں کا حصول۔ آخر میں ہماری دریافت کی خواہشیں، جو فکر و تدبر سے مالا مال دماغ کا ثمرہ ہیں، اکثر و بیشتر ہماری حیات کے لئے شدید نقصان دہ بھی ہوتے ہیں۔

ہمارے ذہن کی اہم خصوصیات میں سے ایک سچائی کا حصول اور جھوٹ سے بچنے کی صلاحیت ہے۔ ہمیں ذہنی بصیرت بھی حاصل ہے اور ہم منطقی مقدموں کی بنیاد پر آنے والے نتیجے کو دیکھ بھی سکتے ہیں۔ یہ بالکل وہی صلاحیتیں ہیں جو ہم سائنس میں استعمال کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فطرتی ارتقائیت ان صلاحیتوں کی وضاحت کر سکتی ہے؟ سیدھا سا جواب ہے کہ نہیں کر سکتی۔ بنا بریں یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے کہ جھوٹے اور غلط عقائد رکھنے سے بھی آدمی کی حیات یقینی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ارتقائی سلسلے میں فکر و تدبر کی کوئی ضرورت اور گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔

تو کیا غلط عقائد رکھنے سے بھی آدمی کی حیات یقینی ہو جاتی ہے؟ یہ ثابت کرنے کے لئے پاپڑ بیلنے کی ضرورت نہیں پڑتی کی بے شمار غلط عقائد سے ایسا ہوتا ہے۔ ایک شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ ایسے تمام کیڑے جن کے جسم پر سرخ نشان ہوں، وہ سارے زہریلے ہیں، تمام سرخ نشان والے کیڑوں سے بچے گا اور جی لے گا۔ تاہم یہ عقیدہ غلط ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے سرخ نشان والے کیڑے زہریلے نہیں ہوتے لیڈی برڈ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کوئی دوسرا شخص ممکن ہے تمام قسم کی پھپھوندیوں سے اس وجہ سے بچتا ہے کہ اس کا عقیدہ ہے کہ تمام پھپھوندی نقصان دہ ہوتے ہیں اور اس طرح نقصان دہ پھپھوندی سے بھی بچ جاتا ہے اور زندہ رہ لیتا ہے۔ تاہم یہ بات خوب جانتے ہیں کہ بہت سے پھپھوندی مثلا بٹن مشروم مکمل صحت بخش اور غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سے دیگر پھپھوندی نہایت زہریلے ہونے کے ناطے جان لیوا ہوتے ہیں، اس لیے اگر کوئی شخص تمام قسم کی پھپھوندی سے بچا رہتا ہے تو اس کا یہ عقیدہ اس کو ایک خطرناک اور مہلک چیز سے مکمل تحفظ فراہم کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔  فلسفہ کے پروفیسر انتھونی اوہئر نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ ارتقاء صحیح کی بجائے باطل وقائد پیدا کرسکتا ہے، ایسی ہی ایک مثال پیش کی ہے اور اس طرح یہ ظاہر کیا ہے کہ غیر عقلی عقائد بقا کا باعث بن سکتے ہیں۔

” ایک پرندہ رنگوں کی کچھ خاص قسم کے رنگ کی سنڈیوں سے پرہیز کر سکتا ہےکیونکہ وہ زہریلی ہیں۔ لیکن یہ اسی طرح کے رنگوں کی ان سنڈیوں سے بھی پرہیز کرے گا جو زہریلی نہ ہوں ، جس کی وجہ اس بے ضرر سنڈی کے زہریلے پن کے غلط یقین کے ساتھ منسوب ہو سکتا ہے۔ یقینا، اس سنڈی کی ہر قسم، چاہے زہریلی ہو یا نہ ہو، سے کنارہ کشی، پرندے کے بقا کے امکانات میں اضافہ کر دیتا ہے۔ لہذا ایک خاص سنڈی کے بارے میں غلط یقین، خطرات سے بچنے والے طریقہ کار کے عناصرکا ذیلی پیداوار ہو گا۔”[v]

یہ حقیقت  کہ غلط عقائد بقا کا باعث بن سکتے ہیں، فطرت پسندی کے لئے ایک اور مشکل سوال کھڑا دیتا ہے: ہم کیوں اپنے ذہنوں پر اعتماد کریں ؟چونکہ سچائی اور بقاء  کے درمیان کوئی لازمی ربط نہیں ہے، اور یہ کہ غلط عقائد بھی بقا کا باعث بن سکتے ہیں — پھر ہم اپنی عقلی صلاحیتوں پر کیسے اعتماد کرسکتے ہیں جبکہ وہ غلط عقائد کی بنیاد پر کھڑے ارتقائی عمل پر قائم ہیں۔

ہماری دریافت کرنے کی خواہش بھی ارتقا کو ایک مشکل سے دوچار کرتی ہے۔ ارتقائی عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم مادی دنیا کے قوانین کو سمجھنے کے چکر میں پڑ جائیں یا ہم ریاضی سیکھنے بیٹھ جائیں۔ ارتقائیت کے تناظر میں یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آتی کہ ہم ایسے دماغ لے کے پھریں جو اس کائنات کو سمجھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں۔ لال بیگ اور چیونٹیاں بہترین زندگی گزارتے ہیں اور کروڑوں سالوں سے گزار رہے ہیں لیکن ہم کبھی نہیں دیکھتے کہ وہ کافی ٹیبل پر بیٹھے الحاد (یا کسی اور چیز) کے منطقی اور وجودی اثرات کیا ہیں۔

ایک لمحے کے لئے اس بارے میں غور کیجئے: ایک راکٹ ہے جس میں پانچ لاکھ کیلو گرام کا ایندھن بھرا ہوا ہے، جسے17500 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خلا میں دھکیلا جائے جانے والا ہے۔ کیا چیز ہے جو ایک خلا باز کو اس میں سوار کرواتی ہے، جو اس بات سے لاعلم ہے کہ وہ خلا تک پہنچ جائے گا اور واپس لوٹ بھی پائے گا یا نہیں؟ کیا یہ دریافت اور تلاش کی خواہش اس کی بقا کا باعث ہے؟  کیا چیز ہے جو ایک کوہ پیما کو دنیا کی بلند ترین چوٹی چڑھنے پر مجبور کرتی ہے، باوجود سردی اور سخت حالات کے، اس بات سے بے خبر کہ وہ چوٹی ہر پہنچ بھی پائے گا کہ نہیں؟ کیا اس نے اپنی بقا کو اولین ترجیح دینے کے لئے نہیں بنایا گیا؟ ایک سادھو کو کیا چیز اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے آپ کو تنہائیوں میں دھکیل دے، تجرد کی زندگی گزارے اور اپنے آپ کو باطنی راحت کے حصول کے لئے وقف کر دے؟ کیا یہ چیز زندگی اور افزائش نسل کے ارتقائی اصولوں کے بالکل برعکس نہیں جاتی؟ بلا شبہ دریافت کرنے کی خواہش انسانوں میں بہت طاقتور ہے اور بہت سے مواقع پر زندگی کی خواہش پر غالب آجاتی ہے۔ ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو زندگی کے لئے مددگار تمام چیزوں سے دور کرتے ہیں اور ایسا کرنے میں حقیقی خوشی اور اطمینان پاتے ہیں۔

تو ارتقا کے نظریے پر ایمان رکھنے والوں سے سوال ہے کہ وہ کیسے ہماری اس خواہش کی وضاحت کرتے ہیں جو ایسے اعمال سرانجام دینے کا باعث بنتی ہیں جو انسان کی زندگی کے لئے تباہ کن خطرات رکھتے ہیں؟ انسان کی یہ خواہشات سمجھ میں نہیں آتیں اگر قدرتی ارتقا کا نظریہ اپنا لیا جائے۔ ہماری بلند تر ذہنی صلاحیتیں اور سیکھنے کی خواہشیں ہمیں ایسے امور میں مصروف کیے رکھتی ہیں جن سے ہماری زندہ رہنے اور نسل بڑھانے کے امور میں کوئی مدد حاصل نہیں ہوتی، جیسے فنونِ لطیفہ، روحانیت، فلسفہ اور اسقاطِ حمل کے نئے سے نئے طریقوں میں تحقیق۔ قدرتی چناؤ کے عمل میں ایسی تمام چیزوں کو ترک کیا جانا چاہیئے تھا، کیونکہ ایسے رویے اپنانے کا کوئی فائدہ انسان کی زندہ رہنے کے ساتھ وابستہ نہیں ہے۔ چونکہ ڈاروِنی ارتقائیت کی ترتیب میں صرف فرد کے زندہ رہنے اور نسل بڑھانے کے عمل کی وضاحت ملتی ہے، یہ ہماری فکر و تدبر کی صلاحیتوں کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے نہ ہی یہ انسان کی سب سے نمایاں خصوصیت: انکشاف کی خواہش ہی کی وضاحت کر پاتی ہے۔

ان دو مسائل سے یہ بات واضح ہو جانی چاہیئے کہ ڈارونی نظریہ ارتقاء جو فرد کی زندگی پر مرتکز ہے نہ کہ سچائی کی طرف، ہماری فکر و تدبر کی صلاحیتوں اور دریافت کی خواہشوں کی وضاحت کے لئے ناقص ہے۔ محققین نے ان مسائل کا ادراک کیا ہے اور کچھ مزیدار تبصرے کیے ہیں۔ ماہر حیاتیات جان گرے لکھتا ہے:

“اگر انسان کا دماغ زندگی کے مسائل کی پیروی میں ترقی کرتے کرتےبن گیا ہے، پھر اس سوچ کی کیا دلیل رہ جاتی ہے  کہ یہ (انسانی دماغ) سچائی کی معرفت حاصل کر سکتا ہے، جبکہ نسل کی افزائش کے لئے جو چاہیئے،  وہ یہ ہے کہ انسان کی غلطیاں اورتوہمات جان لیوا نہ ہوں ؟ خالص فطرت پرستانہ فلسفہ اس علم کی وضاحت نہیں کر پاتا جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس ہے۔ “[vi]

DNA کے دریافت کار فرانسس کرِک کا کہنا ہے، “بہر حال، ہمارے اعلیٰ ترقی یافتہ دماغ سائنسی سچائیوں کی تلاش کے دباؤ میں ترقی پاتے یہاں تک نہیں پہنچے تھے، بلکہ اس کا کام صرف اتنا تھا کہ ہم اتنے ہوشیار ہو جائیں کہ ہم خود زندہ رہیں اور اپنی نسل بڑھائیں۔ “[vii]

نفسیاتی و ادراکی سائنس دان سٹیوَن پِنکر[10] نے لکھا ہے، “ہمارے دماغ کی تشکیل، بہتریِ صحت کے لئےتھی نہ کہ سچائی کے لئے ۔ بعض اوقات سچائی ہمارے اختیار میں ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ “[viii]

اگرچہ الحاد کے اعلانیہ داعی اور ماہر اعصاب، سام حارث کا ماننا ہے کہ سائنس ہمیں بالآخر ان سوالوں کا جواب دے دے گا، وہ اعتراف کرتا ہے کہ “… ) قدرتی چناؤ کے نتیجے میں  ہماری منطقی، ریاضیاتی اور طبیعیاتی وجدان (کی صلاحیتیں) سچ کی تلاش کے لئے نہیں بنائی گئی  تھیں۔[ix]

الغرض جب ملحد خدا کی عدم وجود کو ثابت کرنے کے لئے انھوں نےاپنی فکر و تدبر کی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے، تو یہ علمی خیانت کی ایک قسم ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لئے کہ ان کے پاس ایک عقل مند دماغ ہے، ان کو کسی علیم اور بصیر ذات کی تخلیقی کمالات پر ایمان لانا پڑتا ہےیا پھر اپنی فکر و تدبر کی صلاحیتوں ہی کا انکار کرنا پڑتا ہے۔ علمی طنز یہ ہے کہ ان کی فکر و تدبر کی صلاحیت ہی کی بہترین وضاحت اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے ہی ہوتا ہے۔

ارتقائی اعتباریت پر ایک نوٹ

بہت سے فطرت پرست اقرار کرتے ہیں کہ جینے کی جستجواور حقیقت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ حیاتیاتی عوامل کی وجہ سے انسان کی فکری صلاحیتیں جنم لیں اور کسی خاص عقیدے کو اس کی فکر کاحصہ بنا دیں۔ ان انتظامی معاملات کی وجہ سے حیاتیاتی طور پر تندرست جسم پرورش پاتا ہے اور اس کے پیچھے کاربند عمل فطری چناؤ کا یہ درپیش ہوتا ہے۔

یہ کہنا کہ ڈارون کا پیش کردہ ارتقائی عمل دراصل ہماری سچائی اور حقیقت کے معاملات کی تہہ تک پہنچ کر ان کی وضاحت پیش کر سکتا ہے، ارتقائی اعتباریت کہلاتا ہے۔ ارتقائی اعتباریت کے درست ہونے کے لیے لازم ہے کہ وہ فطری چناؤ جو حق پر منحصر فکر کو جنم دے، کا امکان اس فطری چناؤ جو حق پر منحصر نہ ہو اور فکری صلاحیتیں جو اس قسم کے چناؤ سے جنم لیں، کے امکان سے زیادہ ہونا چاہیئے۔

اس دلیل کا اصل محل یہ ہے کہ سچ پر مبنی فطری صلاحیتوں سے جنم لینی والی فکر کی وجہ سے جینے کا امکان اور بڑھ جاتا ہے۔ لیکن دراصل یہ دلیل صحیح نہیں۔ اور اس کے صحیح نہ ہونے کی وجوحات مندرجہ ذیل ہیں۔   

ممکن ہے کہ غلط عقائد، جن کی بنیاد ناقابل اعتماد علمی اور فکری صلاحیتیں تھیں، ہماری بقا اور افزائش نسل کا باعث ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم ایسے محتاط عقلی و فکری عمل سے گرے ہوں، جو غلط ہوں، مگر ہماری فلاح و بہبود کے لئے بہتر ہوں. محقق جیمز سیج کہتے ہیں:

“مثال کے طور پر، ایک جاندار اس لئے چھپ جاتا ہے کیونکہ اسے یہ غلط یقین ہے کہ کوئی شکاری آس پاس ہے۔ ارتقائی طور پر، خطرناک شکاریوں سے بھاگنے کے لئے، ضرورت سے زیادہ محتاط عقلی عوامل بہتر ہیں، خاص طور پر جب ان کا نقصان بہت کم ہو۔[x]

ارتقائی انتخاب، حقیقت پر اعتماد کرنے والی فکری صلاحیتوں کی طرفداری نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کا نقصان زیادہ ہے۔ جیمز سیج کا خیال ہے کہ حقیقت سے متعلق ادراکی صلاحیتیں”نا پسندیدہ انجام پر منتج ہوتی ہیں”[xi]۔ ان صلاحیتوں کی حیاتیاتی قدر میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:

“(i) دماغ کو آکسیجن، حرارت، اور خنک سازی کی ضرورت ہوتی ہے، (ii)کسی منطقی نتیجے پر پہنچنے کے لئے (یہاں تک کہ کم سے کم اعداد و شمار کے ساتھ بھی) کافی وقت اور ارتکاز کی ضرورت ہوتی ہے، (iii) ماضی کے تجربوں سےمعلومات حاصل کرنے کے لئے وسیع ذخیرہ کرنے کی گنجائش اورپھر اس ذخیرے سے دوبارہ معلومات ھاصل کرنے کے طریقے، (iv) متعلقہ معلومات کی نشاندہی کرنے کے لئے چھانٹی کرنے والے،کثیر سطی معمولوں کی ضرورت، (v) مرتبہ ھاصل کرنے کی خواہشات اور اہداف، شدید غور و فکر مانگتا ہے، اور (vi) “شناختی عوامل” کا استعمال (اور دیگر ادراکی توانائیاں) تیز فہمی اورکمال درستگی مانگتا ہے۔ [xii]

چونکہ قابل اعتماد فکری صلاحیتیں، ان بنیادی حیاتیاتی وسائل پر بہت بوجھ ڈالتی ہیں، جو بقا کے لئے ضروری ہیں، لہذا ارتقائی انتخاب کو ان غیر معتبر فکری صلاحیتوں کی طرفداری کرنی چاہئے تھی، جو گو کہ غلط عقائد پیدا کرتیں مگر کم بوجھ ڈالتیں۔[xiii]

باقی فلسفیانہ موضوعات کی طرح، ارتقا پر اعتبار کے حق اور خلاف، دونوں طرف کے دلائل موجود ہیں۔ ارتقائی اعتباریت، یہ کیوں ہماری فکری صلاحیتوں کی مناسب طریقے سےکیوں وضاحت نہیں کر پاتیں اور مشہور اور تحقیقی اعتراضات کے جواب کے لئے میرا مضمون : کیا ارتقا ہماری سچ پر مبنی فکری صلاحیتوں کی توجیح کر سکتی ہیں؟ پڑھیں۔[xiv]

اسلامی عقیدۂ خالق و مخلوق: اعلیٰ ترین وضاحت

میں آپ کو ایک روٹی نہیں دے پاؤں گا اگر میرے پاس پہلے سے ایک بھی نہ ہویا میرے پاس ایک بھی روٹی حاصل کرنے یا بنانے کی صلاحیت نہ ہو۔ یہ مندرجہ ذیل منطقی اصول پر مبنی ہے: ایک چیز کسی دوسری چیز کو پیدا نہیں کر سکتی اگر وہ اس میں نہ ہویا اس میں وہ چیز پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔ مثال کے طور پر فکر و تدبر سے عاری قوتیں فکر و تدبر پیدا نہیں کر سکتیں، کیونکہ یہ پہلے سے ان میں ہیں ہی نہیں۔ طبیعیاتی اعمال کے سلسلے عقل و فہم سے عاری ہیں کیونکہ ان میں کوئی ذہنی بصیرت موجود نہیں۔ وہ گزشتہ منطقی مقدموں کی بنیاد پر کسی نتیجے کو آتا ہوا نہیں دیکھ پاتے۔ اللہ  کی موجودگی سے یہ بات آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے کہ ہم ایک ذی شعور نفس رکھتے کیونکہ فکر و تدبر کی یہ صلاحیتیں اس خالق کی طرف سے ہیں  جو البصیر سب کچھ دیکھنے والا، العلیم سب کچھ جاننے والا اور الحکیم پوری حکمت والا ہے۔ اگر اس کائنات کے آغاز میں محض عقل و فہم سے عاری، اندھے اور اندھا دھند طبیعیاتی مادے اور اعمال کے سلسلے ہوتے، تو پھر جیسے مرضی ان کی ترتیب لگائی جائے، وہ فکر و تدبر جیسی صلاحیتیں پیدا نہیں کر سکتیں۔ لیکن اگرآغاز میں کوئی خالق ہو جس میں اور ذکر کردہ صفات پائی جاتی ہوں، تو پھر یہ بات بآسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس کائنات میں فکر و تدبر کی صلاحیتوں سے مالا مال ہستیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ ملحدوں کو اپنی فکر و تدبر کی وضاحت کے لئے خدا کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسی لیے ایک ایسی ذات کا وجود جو البصیر سب کچھ دیکھنے والا، العلیم سب کچھ جاننے والا اور الحکیم پوری حکمت والا ہے، ہی سب سے بہترین وضاحت ہے کہ کائنات میں ایسے ہشیار مخلوقات بھی بستی ہیں جو فکر و تدبر کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔

اس باب میں پیش کردہ اہم سوالات کا خوب صورت اور آسان جواب اسلام کا عقیدۂ خالق و مخلوق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں فکر وتدبر کی صلاحیتوں سے آراستہ دماغ عطاکیا، جو انکشافات کی خواہشات سے بھی مالا مال ہے، تاکہ ان صلاحیتوں کی مدد سے ہم اپنے مقصد حیات کو پورا کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کام کرنے کے لئے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ وہ اپنی مخلوقات میں پوشیدہ اپنی نشانیوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان نشانیوں پر غور فکر کے نتیجے میں ہم اس کی عظمت اور تخلیقی قدرتوں کو بہتر طور پر جان سکتے ہیں، کیونکہ یہی معرفت اور علم ہمیں فطری طور پر اس کی عبادت کی طرف راغب کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے علم، قدرت اور ارادے سے اس کائنات کو اور ہمارے قلوب و اذہان کو تخلیق کیا، یوں ہماری فکر و تدبر اور کائنات کے باہم مربوط اصولوں پر پڑے رازوں سے پردہ اٹھانے کی صلاحیتوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ یہاں قرآن حکیم کی ایک خوب صورت آیت یاد آتی ہے: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ” ہم عنقریب ان کو اطراف (عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ (قرآن) حق ہے۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے.”[xv]

اللہ تعالیٰ متواتر ہمیں غور و فکر اور اپنی ذہانت کے استعمال کی دعوت دیتا ہے:

” بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر قفل لگ رہے ہیں.”[xvi]

” بھلا تم سمجھتے کیوں نہیں؟”[xvii]

یہ آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم فکر و تدبر، قدرتی دنیا پر غور و خوض کے ذریعے سچائی تک پہنچنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتا ہے کہ: “بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔[xviii]

اس سے ہم ایک مفصل نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فکر و تدبر کی صلاحیتوں سے مالا مال دماغ عطا کیا اور اس کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی خواہش ودیعت کر دی تاکہ ہم اپنی ذہنی و فکری صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے اس کائنات کو اس کی تمام تر رعنائیوں سمیت سمجھ سکیں، جس سے ہم اس اللہ واحد کی عبادت کی طرف راغب ہوں گے،جس نے اس کی تخلیق فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر وہ تمام لوازمات رکھے جو سائنس جیسے میدانوں میں کام کرنے کے لئے ہمیں مطلوب تھے، تاہم جب ہم میں سے بعض لوگ اس نعمت الٰہی کو پا لیتے ہیں، وہ اسی اللہ کو جھٹلانے کے لئے ان صلاحیتوں کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لئے باب 12 اور 15 کا مطالعہ کیجئے)

اس دلیل کے جواب میں کچھ اعتراضات بھی کیے جاتے ہیں جن کو ہم ذیل میں زیر بحث لائیں گے۔

نقائص کا خدا

یہ اعتراض اس طرح ہے کہ کسی خاص منظر سے متعلق سائنسی علم میں باقی رہ جانے والا کوئی نقص کسی طرح بھی خدا کے وجود پر ایمان لانے یا خدائی کردار کی طرف دلالت کرنے کا سبب نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ آخر کار سائنس اتنی ترقی کر جائے گی کہ وہ اس کا جواب دے پائے۔ یہ اعتراض اس باب میں بیان کیے گئے مسئلے پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ یہ سائنسی علم میں باقی رہ جانے والے کسی نقص پر منحصر نہیں ہے؛ یہ تو سائنس کی بنیادوں ہی کو ہلا دیتا ہے۔ کسی سائنسی علم کے آغاز سے پہلے ہمیں فکر و تدبر کی صلاحیتیں درکار ہیں۔ یہ کہنا کہ سائنس بالآخر اپنے مفروضوں کی آپ وضاحت کر دے گی، چکر دار بحث [11] میں الجھنا ہے۔ یہ بحث سائنس کی دنیا سے باہر کی ہےکیونکہ ہم خود سائنس کی بنیادی مفروضوں کو زیر بحث لا رہے ہیں۔ لہٰذا “نقائص کا خدا” والی دلیل غیر متعلقہ ہے۔

یہ ایک پیش قیاسی[12] دلیل ہے

پیش قیاسیت[13] ایک ایسی دلیل ہے جو کہتی ہے کہ ہم عیسائی منظر نامہ حیات کے بغیر اپنی فکر و تدبر کی صلاحیتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس دلیل کا موقف ہے کہ اگر آپ فکر و تدبر کو نہیں سمجھ سکتے تو آپ اس سے استفادہ بھی نہیں لے سکتے۔ تاہم ملحد بجا طور پر یہ دلیل الٹا عیسائی کو دے سکتا ہے اور وہ ایسا کرتا ہے۔ ملحد پوچھ سکتا ہے کہ عیسائی یہ کیوں سمجھتا ہے کہ اس نے اپنی فکر و تدبر کی صلاحیتوں کو سمجھ لیا ہے۔ اگر عیسائی یہ جواب دے کہ عیسائی منظر نامہ حیات اس کی فکر و تدبر کی صلاحیتوں کی وضاحت کرتا ہے، تو ملحد کا یہ سوال کرنا حق بنتا ہے کہ کیسے، اور اس طرح یہ مباحثہ دائرے میں گھومتا رہ جائے گا۔

اس باب میں پیش کی گئی دلیل پیش قیاسی دلیل نہیں ہے۔  یہ دلیل اس مفروضے کو تسلیم کرتی ہے کہ ہم فکر و تدبر کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور یہ دلیل یہ نہیں کہتی کہ جب تک آپ فکر و تدبر کی صلاحیتوں کی وضاحت نہیں کر لیتے تب تک آپ اس سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ اس باب میں پیش کی گئی دلیل اس سوال کا جواب دیتی ہے: جبکہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کر تے ہیں کہ ہم فکر و تدبر کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، کون سا منظر نامۂ حیات اس کی بہتریں وضاحت کر سکتا ہے؟ یہ کہتا ہے کہ ہماری فکر و تدبر کی صلاحیتوں کی بہترین وضاحت اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے ہوتی ہے جبکہ فطرت پرستی اور اس سے نکل کر الحاد اس مفروضے کو توڑ ڈالتا ہے کہ ہم فکر و تدبر کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہیں۔ اس لیے الحاد کو مسترد کیا جانا چاہیئے۔

فکر و تدبر کی صلاحیتیں پیچیدہ حیاتیاتی نظاموں سے جنم لے سکتی ہے

نمودی مادہ[14] پرست کہتے ہیں کہ پیچیدہ طبیعیاتی سلسلے جو گنجلک تعاملات سے گزرتے ہیں، ایسی خصوصیات اور مظاہر پیدا کر سکتے ہیں جو اس نظام کو تشکیل دینے والے اجزاء میں انفرادی طور پر نہیں پائے جاتے۔ یہ لوگ سائنس کی تاریخ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں جب سائنسی علوم کم تھے تو لوگ ہر چیز کو پر اسرار سمجھتے تھے، لیکن جیسے جیسے سائنس ترقی کرتا گیا، ہر قدرتی مظہر کے پس منظر میں واقع ہونے والے سلسلہ ہائے اعمال سے پرۂ راز اٹھا لیا گیا اور تمام تر اسرار ختم ہو گئے۔ ایک عام مثال جو نمودی مادہ پرست پیش کرتے ہیں، پانی H2O کی ہے۔ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنتا ہے، جو دونوں ہی گیس ہیں، لیکن جب ان دونوں کو کیمیاوی طریقے سے باہم ملا دیا جاتا ہے تو وہ زندگی کے لئے ناگزیر مائع بناتے ہیں۔ اب پانی میں ایسی خصوصیات ہیں جو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں نہیں ہیں۔ اس طرح کی مثالیں نمودی مادہ پرستوں کو یہ اعتماد دلاتی ہیں کہ وہ کہیں کہ ایک پیچیدہ نظام الاعمال سے کچھ نئی خصوصیات پیدا ہو سکتی ہیں اگرچہ وہ خصوصیات ان اجزاء میں نہ ہوں جو اس نظام کو تشکیل دیتے ہیں۔

چنانچہ نمودی مادہ پرست اس باب میں بیان کردہ فکر و تدبر کی دلیل کا جواب دینے کے لئے کہتے ہیں کہ ہماری فکر و تدبر کی صلاحیتیں(خاص طور پر کسی مقدمے سے چل کر کسی نتیجے تک پہنچنے کی صلاحیت) ہمارے دماغ میں جاری پیچیدہ سلسلہ ہائے اعمال پر مبنی ہیں۔ جیسے ہی ان سلسلہ ہائے اعمال کی گتھی سلجھ جاتی ہے، ہماری فکر و تدبر کی صلاحیتوں کی مکمل وضاحت ہو جا ئے گی۔

تاہم یہ دلیل بودی ہے کیونکہ اس باب میں بیان کردہ دلیل یوں نہیں ہے کہ ایک طبعی[15] چیز دوسری طبعی چیز کو پیدا کر رہی ہو (جس طرح گیسیں، ہائیڈروجن اور آکسیجن، پانی کی طبعی خصوصیات کو جنم دے رہی ہوں)۔ اس کے برعکس حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایک غیر طبعی[16] خصوصیت (نتیجے کو دیکھنے کی فکری بصیرت) طبعی چیزوں سے ابھر رہی ہے (جو لازما اندھی ہیں)۔ اگر دماغ میں جاری تمام تر پیچیدہ سلسلہ ہائے اعمال کی تفہیم حاصل ہو بھی جائے اور ان تمام اعمال کے باہمی ربط و تعلق کا نقشہ بھی مکمل بن جائے تو بھی اس بات کی وضاحت کیسے ہو گی کہ ہم فکر و تدبر کی صلاحیتوں سے لیس ہیں؟ یہ سوال پھر بھی تشنہ ہی رہے گا: ایک ایسے دماغ کے بل بوتے پر جو پہلے اندھے اور بے ہنگم طبیعیاتی اعمال سے پیدا ہوا ہو، اس میں ذہنی بصیرت کہاں سے در آئی اور اس بصیرت کی بنیاد پر ہم سچائی تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟

صرف پیچیدگی کا خوف دلانے سے کوئی بات نہیں بنتی اور یہ یوں کہنے کے مترادف ہے کہ: “بس ایسا ہو جاتا ہے”۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ نمودی مادہ پرستی اس خلا کو پر کرنے کی ایک بودی کوشش ہے جو فطرت پرستانہ منظر نامہ حیات نے پیدا کر دیا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پیچیدگی نئی خوبیوں کی وضاحت کے لئے کافی ہے، یہ وضاحت کیے بغیر کہ یہ نئی خوبیاں کیوں کر نمو پاتی ہیں، تو پھر ہم کیوں یہ یقین کریں کہ کوئی نظریہ کسی چیز کی وضاحت کر سکتی ہے؟ (باب نمبر 7 اس بات کی خوب وضاحت کرتا ہے کہ نمودی مادہ پرستی کس طرح ہماری شعوری تجربات کی وضاحت سے قاصر ہے)۔

H2O کی مثال کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ عقلی وجدان —متعلقات کے مابین تعلقات کی بنیاد پر طبعی عملیات (دماغی سرگرمیاں) سے بہت مختلف ہیں۔ H2O مثال یہ فرض کرتی ہے کہ عقلی بصیرت اور مادی عمل ایک جیسے ہیں۔ پروفیسر ریمنڈ ٹیلس نے استدلال کیا کہ “چمکدار پانی اور H2O دونوں کو، ایک یا دوسرے کے طور پر ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ مشاہدے کے دو مختلف طریقوں سے مطابقت رکھتے ہیں… پانی کی دو صورتیں، دو آثار ہیں ، اس کی جانچ کرنے کے دو طریقے ہیں، اور یہ دماغ کی برقی کیمیائی سرگرمیوں پر غیر امکانی مشکل سے ہی لاگو ہوتا ہے۔”[xix]

نمودی مادہ پرستی اپنانے کے مضمرات یہ ہیں کہ ہم ان نظریات کی اجازت دیتے ہیں جو طبیعاتی تعلقات یا نظام کے افعال کی وضاحت نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ الجھاو نئی خصوصیات کی وضاحت کر سکتا ہے، یہ سمجھائے بغیر کہ وہ (الجھاو) ظہور میں آیا کیسے، تو ہم اس نظیہ سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ کسی بھی چیزکی وضاحت کر سکتا ہے۔؟ محض سائنس کی ترقی کا انتظار کیا جائے؟ کہ کبھی نہ کبھی تو اس کا ثبوت مل جائے گا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک زیر تربیت راج کو بتایا جائے کہ اگر تمہارے پاس کافی اینٹیں ہوں تو تم گھر بنا سکتے ہو۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ ظلط ہے؛ ایک گھر بنانے کے لئے اور بھی اشیا کی ضرورت ہے جیسے، سیمنٹ ، نقشہ، پلمبر، الیکٹریشن ، اوزار وغیرہ۔ نتیجتا، نمودی مادیت کوئی مربوط نظریہ نہیں ہے۔ یہ فطرت پسندی میں پائے جانی والی مشکلات کوحل کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔

کمپیوٹر فہم و تدبر رکھتے ہیں؟

فہم و تدبر کی اس دلیل کے خلاف ایک عام اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ کمپیوٹر کے پروگرامز استنباطی طرز استدلال کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چونکہ کمپیوٹر کے نظام طبیعیاتی سلسلہ ہائے اعمال پر مبنی ہیں اور وہ فکر و تدبر کی ایک اہم خصوصیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، چنانچہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طبیعیاتی سلسلہ ہائے اعمال سے ہماری فکر و تدبر کی صلاحیتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ یہ ایک دوسری بے جا کی حجت ہے۔ جیسا کہ اس باب میں وضاحت کی گئی ہے، انسانی عقل و فہم ذہنی بصیرت پر مبنی ہے جو منطقی مقدموں کے مابین تعلق کو سمجھ کر نتیجے تک پہنچنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ کمپیوٹر کے کسی پروگرام میں کسی قسم کی “بصیرت” نہیں پائی جاتی۔ انسانوں میں نہ صرف بصیرت موجود ہے بلکہ بامعنی اور نتیجہ خیز بصیرت موجود ہے۔ ہم منطقی نتائج کو سمجھنے اور ان کے معانی پر سوال اٹھانے کی بھرپور صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ کمپیوٹر کے پروگرام syntax کے قوانین (اشاروں کے استعمال) پر مبنی ہیں نہ کہ معنویت پر۔

اشارتیت اور معنویت کے مابین فرق کو سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل جملوں پر غور کیجئے:

  • مجھے اپنے خاندان سے محبت ہے۔
  • αγαπώ την οικογένειά μου.
  • আমি আমার পরিবারকে ভালবাসি .

اوپر کے تین جملوں کا ایک ہی مطلب ہے۔ یہ بات یعنی ان حروف میں پنہاں مفہوم معنویت ہے۔ لیکن اوپر کے تینوں جملوں کے اشارات مختلف ہیں۔ پہلا جملہ اردو کے اشارات میں ہے، دوسرا گریک اور تیسرا بنگلہ۔  اس سے مندرجہ ذیل استدلال نکالا جا سکتا ہے:

  1. کمپیوٹر پروگرام مرکبات کا مجموعہ ہے(جملوں کی نحوی ترکیب کے  مطابق)۔
  2. عقل، الفاظ و اصوات اور منطق کا مجموعہ ہے۔
  3. الفاظ و اصوات اور منطق کے عقلی مجموعے کے لئے جملوں کی ترتیب و ترکیب نہ تو اس معتدبہ ہے اور نہ ہی تعمیری ہے۔
  4. لہذا، کمپیوٹر پروگرام اپنی اصل میں شعوری نہیں ہیں۔[xx]

ذرا تصور کریں کہ برف کا طوفان کسی طرح پہاڑی پتھروں سے “مجھے اپنے خاندان سے محبت ہے” کے الفاظ کی ترتیب دے دیتا ہے۔ یہ کہنا بےوقوفانہ  ہوگا کہ پہاڑ، پتھروں کی اس ترتیب (علامتی و تصویری تحریر) کا مطلب جانتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محض علامتی تحریر کے جوڑ توڑ (نحو)، معنی کو جنم نہیں دیتی (الفاظ)۔[xxi]

کمپیوٹر کے پروگرام اشارات کا استعمال کرتے ہیں اور انھیں ان میں پوشیدہ معانی سے کچھ سروکار نہیں ہوتا۔ اگر مجھے گریکی زبان نہیں آتی تو چاہوں جتنا بھی گریکی زبان کے اشارات کو الٹ پھیر کرتا رہوں، میں کبھی بھی ان حروف سے بننے والے الفاظ کے معانی سے آگاہ نہیں ہوں گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معنویت کے لئے اشاروں کی درست ترتیب کے سوا بھی بہت کچھ چاہیئے۔ چونکہ کمپیوٹر کے پروگرام صرف اشارات پر کام کرتے ہیں اور انھیں معنویت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ کمپیوٹر کے پروگرام عقل و فہم کا ادنیٰ سا شائبہ بھی رکھتے ہیں۔

پروفیسر جان سیرل کا “چینی کمرے” کا فکری تجربہ خوب واضح کرتا ہے کہ محض اشارات کے الٹ پھیر سے ان کے معانی کے سمجھنے میں کسی قسم کا امکان بھی پیدا نہیں ہوتا۔ فاضل پروفیسر لکھتے ہیں:

“فرض کریں کہ آپ ایک کمرے میں بند کیے گئے ہیں، اور اس کمرے میں متعدد ٹوکریوں میں چینی زبان کے اشارات بھرے پڑے ہیں۔ تصور کریں کہ آپ (میری طرح) چینی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے لیکن یہ کہ آپ کو اردو زبان میں چینی زبان کے اشارات کو توڑ جوڑ کرنے  کا ایک ہدایت نامہ دیا جاتا ہے۔ یہ ہدایات آپ کو اس قابل بناتی ہیں کہ آپ ان اشارات کی شکلوں کو پہچان کر ان کو ترتیب دیں نہ کہ ان کے معانی کو سمجھ کر۔ چنانچہ ہدایت نامے میں لکھا ہو سکتا ہے: “پہلی ٹوکری میں سے ایک آڑھا ترچھا اشارہ لیں اور دوسری ٹوکری میں سے ایک آڑھے ترچھے اشارے کے ساتھ جوڑیں۔ ” اب فرض کریں کہ کمرے میں کچھ چینی اشارات باہر سے ڈالے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہدایات ہوتی ہیں کہ آپ کچھ دیگر مخصوص اشارات باہر نکالیں۔ مزید فرض کریں کہ ہدایات کار اپنی ہدایات کاری میں اتنے زبردست ہیں اور آپ ان اشارات کی الٹ پھیر میں کہ آپ کے جوابات کسی مقامی چینی خواں کے جوابات سے ناقابل شناخت ہوتے ہیں۔ یہ لیجئے آپ اپنے کمرے میں بند، چینی اشارات کی الٹ پھیر میں لگے ہیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ ایک باضابطہ کمپیوٹر پروگرام کے اطلاق کے ذریعے، ایک باہر سے مشاہدہ کرنے والے کی نظر میں آپ بالکل ایسا سلوک کر رہے ہیں جیسے آپ چینی زبان پوری طرح سمجھ رہے ہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آپ چینی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتے۔ “[xxii]

چینی کمرے کے فکری تجربے میں کمرے کے اندر موجود شخص ایک کمپیوٹر کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ باہر موجود شخص اشارات کو اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ کمرے میں موجود شخص کو چینی زبان پوری طرح آتی ہے۔ حالانکہ اندر موجود آدمی کو چینی زبان کا کچھ علم نہیں ہے؛ وہ صرف ہدایات پر عمل کیے جا رہا ہے۔ پروفیسر سیرل اس تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:

“محض اشارات کا ہونا – یعنی صرف SYNTAX کا ہونا – معنویت کے ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ صرف اشارات کا درست الٹ پھیر ان کے معانی کے علم کی ضمانت نہیں دیتا۔ “[xxiii]

معترض اس پر یہ کہہ سکتا ہے کہ اگرچہ کمپیوٹر کے پروگرام معانی نہیں جانتے، لیکن نظام کلی طور پر معانی سے واقف ہے۔ پروفیسر سیرل نے اس کو “نظام کا جواب”[xxiv] قرار دے دیا ہے۔ تاہم ایسا کیوں ہے کہ پروگرام معنی نہیں جانتا؟ جواب سادہ ہے: پروگرام کے پاس اشارات کو معانی دینے کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہے۔ چونکہ ایک کمپیوٹر پروگرام اشارات کو معنی نہیں دے سکتا تو کمپیوٹر کا نظام – جو پروگرام پر انحصار کرتا ہے – معنی کیسے سمجھ سکتا ہے؟ آپ کسی درست پروگرام کے ذریعے فہم و فراست یا فکر و تدبر پیدا نہیں کر سکتے۔ سیرل چینی کمرے والے فکری تجربے کو مزید پھیلا کر ثابت کرتے ہیں کہ سسٹم کلی طور پر معنی کو نہیں سمجھتا: “تصور کریں کہ آپ ٹوکریوں میں موجود تمام اشارات اور ہدایات نامے کے تمام مندرجات کو زبانی یاد کر لیتے ہیں، اور آپ اپنے دماغ میں تمام تر حساب کتاب کر لیتے ہیں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ اس کمرے سے باہر آ کر بھی یہی کام جاری رکھتے ہیں۔ اب سسٹم میں ایسا کچھ نہیں ہے جو آپ میں نہیں ہے، اور چونکہ آپ محض اس طرح چینی زبان نہیں سمجھ سکتے، تو بالکل اسی طرح کمپیوٹر سسٹم بھی نہیں سمجھ سکتا۔ “[xxv]

اس اعتراض کا (کہ کمپیوٹر کا سسٹم مجموعی طور پر فہم کی طاقت رکھتا ہے) ایک سادہ جواب یہ بھی ہے کہ کمپیوٹر کے نظام, استنباطی استدلالات میں مشغول ہونے کی لیاقت سے لیس خود مختار نظام نہیں ہیں۔ وہ ذی فہم انسانوں کے ڈیزائن کردہ، تیار کردہ اور چلائے گئے ہیں۔ اس لئے، کمپیوٹر صرف ہماری فہم و تدبر کی صلاحیتوں کی نشانی ہیں۔ ولیم ہاسکر وضاحت کرتا ہے،

“کمپیوٹر ایسے  کام اس لئےکرتے ہیں کیونکہ انھیں فہم و شعور کی صلاحیتیں بخشی گئی ہیں۔ ایک کمپیوٹر، بالفاظ دیگر، محض اپنے بنانے والے اور استعمال کرنے والے کی فکر و فراست کی نشانی ہے؛ اس کے پاس فکر و تدبر کے آزادانہ ذرائع اس سے زیادہ نہیں ہیں جتنے ٹیلی ویژن سیٹ کے پاس خبروں اور تفریح کے آزادانہ ذرائع ہیں۔ “[xxvi]

الحاد فکر و تدبر پر اجارہ داری نہ تو رکھتا ہے اور نہ ہی اس کی اجارہ داری  ہے۔ یہ ایک شرم کی بات ہے کہ اس مفروضے کو فروغ مل رہا ہے کہ ملحد فہم و فراست رکھتے ہیں اور یہ کہ الحاد فکر و تدبر پر مبنی ہے۔ اس سے زیادہ حقیقت سے دور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ اندھے اور الل ٹپ طبیعیاتی سلسلہ ہائے اعمال ہماری فکر و تدبر کی صلاحیتوں کی وضاحت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ الحاد خود اسی چیز کو توڑ ڈالتا ہے جس کو استعمال کرنے کے دعوے کے ساتھ وہ خدا کا انکار کرتا ہے۔

تاہم، اسلامی الٰہیات کے مطابق، ہم ایک حقیقی اور برمحل، دلائل سے آراستہ دنیا میں بستے ہیں، جو ایک سب کچھ دیکھنے والے، تمام تر حکمتوں سے بھر پور اور سب کچھ جاننے والے خالق کی پیدا کردہ ہے۔ یہ ایک مربوط تصور ہے اور ہماری فکر و تدبر کی صلاحیتوں کی مکمل وضاحت کرتا ہے؛ کوئی دوسرا تصور ایسا نہیں کرے گا (بلا شبہ، کوئی دوسرا تصور ایسا کر ہی نہیں سکتا)۔ یہ کہنا کہ اندھے، الل ٹپ طبیعیاتی سلسلہ ہائے اعمال ہماری دیکھنے، سوچنے اور سیکھنے کی صلاحیتوں کی وضاحت کر سکتی ہے، نامعقول ہے۔ وہ لوگ جو اس خیال پر اڑے رہتے ہیں دراصل دشمنانِ دانش ہیں۔ وہ ایسے ٹیکسی ڈرائیور سے کچھ مختلف نہیں ہیں جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور بضد ہے کہ وہ اپنے سواروں کو ان کے منزل مقصود پر پہنچا سکتا ہے۔


[1] premises

[2] Philosophical Naturalism: مظاہر فطرت کی ایسی فلسفیانہ تشریح جو ہر چیز کو طبیعیاتی اصولوں سے سمجھتی اور دیکھتی ہے اور مابعد الطبیعی شریحات کو یک قلم مسترد کرتی ہے۔

[3] یعنی اس عمل کے واقع ہونے کے لیے ایک گونہ بصیرت چاہیئے جو اندھے طبیعیاتی اعمال میں نہیں ہے۔

[4] Inference, induction and deduction

[5] Logical

[6] Sub-atomic particles

[7] Atoms

[8] Molecules

[9] nothing

[10] Steven Pinker

[11] Circular Argument

[12] Presuppositional

[13] Presuppositionalism

[14] Emergent Materialists

[15] Physical

[16] Nonphysical


        [i] BonJour, L. (1998). In Defense of Pure Reason. Cambridge: Cambridge University Press, pp. 100-102

[ii] BonJour, L. (1995). “Toward a Moderate Rationalism.” Philosophical Topics 23, no. 1: 50

                                                                   [iii] Basic assumptions of science (no date) Available at: http://undsci.berkeley.edu/article/basic_assumptions [Accessed 14th November 2016]

                                                                 [iv] Darwin Correspondence Project (2016) Available at: https://www.darwinproject.ac.uk/letter/DCP-LETT-13230.xml [Accessed 4th October 2016]

   [v] O’Hear, A. (1997). Beyond Evolution: Human Nature and the Limits of Evolutionary Explanation. New York: Oxford University Press, p. 60

[vi] Gray, J. (2014). The Closed Mind of Richard Dawkins. Available at:                                     https://newrepublic.com/article/119596/appetite-wonder-review-closed-mind-richard-dawkins [Accessed 4th October 2016]

        [vii] Francis, C. (1994). The Astonishing Hypothesis: The Scientific Search for the Soul. New York: Charles Scribner’s Sons, p. 262

[viii] Pinker, S. (1997). How the Mind Works. New York: W. W. Norton, p. 305.                       

.                                  [ix] Harris, S. (2010). The Moral Landscape. New York: Free Press, p. 66

         [x] Sage, James. “Truth-Reliability and the Evolution of Human Cognitive Faculties.” Philosophical Studies: An International Journal for Philosophy in the Analytic Tradition 117, no. 1/2 (2004): 102.

[xi] Ibid, p. 104.

[xii] Ibid.

[xiii] Ibid.

          [xiv] Tzortzis, H. (2019). Can evolution adequately explain our truth-reliable cognitive faculties? Available at: http://www.hamzatzortzis.com/can-evolution-adequately-explain-our-truth-reliable-cognitive-faculties. [Accessed 30th September 2019]   September 2019]

[xv] سورة فصلت، آیت 53

[xvi] سورة محمد، آیت 24

[xvii] سورة هود، آیت 51

[xviii] سورہ آل عمران، آیت 190

[xix] Tallis, R. (2014). Aping Mankind: Neuromania, Darwinitis and the Misrepresentation    of Humanity. New York: Routledge, p. 87.

[xx] Taken and adapted from Searle, J. (1989). Reply to Jacquette. Philosophy and                    Phenomenological Research, 49(4), 703.

[xxi] The response to this objection has been inspired by and adapted from Kane B. (2014)     Philosophy of mind 4.2 – objections to functionalism. Available at: https://www.youtube.com/watch?v=ZmEk1lq_Wgk [Accessed 24th October 2016].

      [xxii] Searle, J. (1984). Minds, Brains and Science. Cambridge, Mass: Harvard University Press, pp. 32-33.

[xxiii] Searle, J. (1990). Is the Brain’s Mind a Computer Program? Scientific American, 262:    27.

[xxiv] Ibid, p. 30.                                                                                                                                                    

   [xxv] Ibid. For responses to other objections and more detail on this topic please see: Searle, J. (1980) Minds, Brains, and Programs. Behavioral and Brain Sciences, 3, pp. 417-424; Searle, J. (1980) Intrinsic Intentionality. Behavioral and Brain Sciences, 3,  pp. 450-456; Searle, J. (1989). Reply to Jacquette. Philosophy and Phenomenological Research, 49(4), pp. 701-708; Searle, J. (1990). Is the Brain’s Mind a Computer Program? Scientific American, 262, pp. 26-31; Searle, J. (1992). The Rediscovery of the Mind. Cambridge, MA: MIT Press

    [xxvi] Hasker, W. Metaphysics. Downer’s Grove, Ill: InterVarsity, 1983, p. 49, and see: “The Transcendental Refutation of Determinism,” Southern Journal of Philosophy, 11, 1973, pp. 175–83.

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password