دلیل شعوری-خداکاانکاراپنی ذات کاانکار ہے[Denying God, Denying You: The Argument from Consciousness]

.

.

میرے ابا چہل قدمی کے لئے جانے کو پسند کرتے ہیں۔ وہ ایسے سوالات پر غور و فکر کرتے ہیں, جو متفکر آدمیوں کو لاحق رہتے ہیں۔ انھوں نے میرے بچپن میں مجھے ایک دفعہ بتایا کہ ایک بار وہ اپنے شوق کی تسکین کے لئے لندن کے اسپیکرز کارنر جا نکلے۔ یہ جگہ، انسان اور کائنات بشمول سیاسیات اورہمہ قسم کے تضادات سے متعلق  زور و شور سے جاری رہنے والے مباحثوں کے لئے مشہور ہے۔ یہ اظہار رائے کی بے لگام آزادی کی جگہ ہے جہاں کوئی بھی اور ہر کوئی بھی، جو جی میں آتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے، کہہ سکتا ہے۔ اس کارنر میں عام طور پر خدا کے وجود سے متعلق الٰہیاتی اور فلسفیانہ مباحث ہوتے رہتے ہیں۔ جس دن میرے ابا وہاں گئے تھے، اس دن وہاں انھوں نے ایک ایسے مباحثے میں دلچسپی لی جس کا موضوع  تھا کہ آیا ہمارے پاس خدا کے وجود کے عقیدے کو درست تسلیم کرنے کے لئے کافی شواہد ہیں یا نہیں۔ میرے ابا جان نے بحث کو کاٹتے ہوئے کہا کہ “اگر تم خدا کا انکار کرتے ہو تو تم خود اپنا انکار کرتے ہو۔ ” جس وقت میرے ابا نے مجھے یہ کہانی سنائی، اس وقت مجھے ان کی بات کے اثرات و نتائج کا اندازہ نہ ہوا۔ تاہم دسیوں سالوں بعد، میں اس باب میں ان کے مستحکم دانش کی تفصیل بیان کرنا چاہوں گا۔

میرے ابا جان اس مجمع کو بتا یہ رہے تھے کہ چونکہ ہم اپنے وجود اور شناخت (اور احساسات) کا شعور رکھتے ہیں، یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ کوئی با شعور ہستی ہے، جس نے ہمیں پیدا فرمایا۔ وسیع تناظر میں، میرے ابا جان جس چیز کی طرف اشارہ کر رہے تھے وہ ہے مظہری شعور(مظاہر قدرت کے متعلق آگاہی شعور۔ phenomenal  -consciousness)؛ بالفاظ دیگر یہ حقیقت کہ ہم اندرونی داخلی تجربات سے دوچار ہیں۔ مظہری شعور ہماری اس صلاحیت سے متعلق ہے، جو کسی خاص شعوری کیفیت میں ہونے کے تجربے سے متعلق ہم جو داخلی اور ذہنی  آگاہی رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب میں اپنا پسندیدہ چاکلیٹ کھاتا ہوں یا جب میں قرآن حکیم کی تلاوت سنتا ہوں ،تو میں اس ذہنی تجربے سے دوچار ہوتا ہوں اور میں اس بات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر سکتا ہوں کہ اس شعوری کیفیت میں ہونے کا احساس کیسا ہے۔ تاہم کوئی اور اس بات تک رسائی نہیں پا سکتا  کہ میرے لئے یہ ذہنی تجربات کیسے ہیں۔ چاکلیٹ اور تلاوت قرآن سے متعلق یقیناً دیگر لوگوں کے اپنے نقطہ ہائے نظر ہوں گے، لیکن وہ کبھی بھی ان تجربات کے دوران میرے احساسات کا نہ تو حقیقی طور پر تجربہ کر سکتے ہیںاور  نہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔

یہاں تک کہ اگر آپ میرے جسم میں موجود دماغ کے بارے میں ہر چیز جان بھی لیتے، تو بھی آپ کبھی نہ جان پاتے کہ میرے لئے کسی خاص تجربے سے دوچار ہونا  کیسا ہے، وہ چاہے کینو کا جوس پینا ہو،  یاغروب آفتاب کے خوب صورت منظر سے لطف انداوز ہونا ہو یا گرفتار محبت ہونا ہو۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ علم الاعصاب زیادہ تر اعضا کے مابین تعلق کا علم ہے۔ علم الاعصاب کے ماہرین دماغ کی سرگرمی کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس سرگرمی کا تقابل اس چیز سے کرتے ہیں جس کے شعور میں ہونے کی اطلاع شریک افراد دیتے ہیں۔ تاہم، یہ تقابلے ہمیں کبھی بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکتے کہ شریک افراد کے لئے متذکرہ کیفیت میں ہونا کیسا ہے؛ یہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہہ اٹھیں کہ شریک فرد اعصابیاتی ماہر کو اپنا داخلی(internal) تجربہ بتا سکتا یا سکتی ہے، اور یوں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ تاہم، یہ کوئی جواب نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی ‘سرد’، ‘دردناک’، ‘میٹھا’، ‘خوب صورت’، اور ‘غم گین’ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے، تب بھی کیا وہ کبھی یہ بتا سکتے کہ ایسے تجربات اور احساسات سے دوچار ہونا کیسا ہے۔ الفاظ معانی اور تجربات کی سواریاں ہیں، لیکن ہم پر لازم ہے کہ کسی دوسرے کے شعوری تجربات کو پوری طرح سمجھنے کے لئے الفاظ سے ماوراء تک جائیں۔ داخلی شعوری تجربے کا ایک دوسرا پر فریب پہلو یہ ہے کہ غیر ذی شعور حیاتیاتی اور طبیعیاتی سلسلہ اعمال سے داخلی تجربات ابھرتے ہیں۔ کیوں غیر ذی شعور مادے سے ایک منفرد داخلی تجربہ جنم لیتا ہے؟ فلسفہ نفس اور علم الاعصاب میں یہ ایک اور اہم  سوال ہے۔

اب تک میں نے جو مسائل متعارف کروائے ہیں، وہ علماء کی نظر میں ‘شعور کا پیچیدہ مسئلہ’[1] تشکیل دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ لاینحل چلا آ رہا ہے، باوجود اس کے کہ اس نے ہماری شناخت اور ہماری شعوری تجربات کی فطرت سے متعلق بہت سے گرما گرم بحثوں کے لئے چنگاری کا کام کیا ہے۔ ریسرچ فیلو ڈینئیل بور[2] اس مسئلے کی یوں وضاحت کرتا ہے:

“دنیا میں بہت سے سنگین مسائل ہیں، لیکن صرف ایک ہی اپنے آپ کو ‘سنگین مسئلہ’ کہلواتا ہے۔ وہ ہے شعور کا مسئلہ – کس طرح لگ بھگ 1300 گرام اعصابی خلیے ان رنگا رنگ احساسات، خیالات، یادوں اور جذبات کے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہیں جو ہر جاگتے لمحے پر محیط ہیں … سنگین مسئلہ لا ینحل رہتا ہے۔ “[i]

بذات خود یہ حقیقت کہ ہم داخلی ذاتی شعوری تجربات سے دوچار ہوتے ہیں، اس کی وضاحت صرف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ ایک باخبر اور باشعور ذات موجود ہے, جس نے ہم کو اپنی داخلی ذاتی تجربات سے آگاہی کی یہ صلاحیتیں بخشیں۔ دیگر وضاحتیں ابتدا ہی سے ناکام ہو جاتی ہیں – مثال کے طورپر، کائنات سے متعلق ایک یخ بستہ، مادہ پرستانہ نقطہ نظر اس مسئلے کے حل کی کوئی امید نہیں دیتا۔ تصور کریں کہ کائنات کی ابتدا میں آپ کے پاس صرف مادے کے اجزا کی ایک سادہ ترکیب تھی، اور پھر ایک لمبی مدت کے بعد انھوں نے اپنی ترتیب نو کے ذریعے اپنے آپ کو انسانوں میں ڈھال دیا، تاکہ وہ شعور پیدا کریں۔ یہ پورا جادو لگتا ہے کیونکہ مادہ زندگی کی حرارت سے عاری، اندھا اور غیر زی شعور ہوتا ہے، تو یہ کیونکر ایسے عظیم الشان مظہر کا ذمہ دار ہو سکتا ہے؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر میں آپ کو 1000 روپے نہیں دے سکتا، اگر یہ رقم میرے پاس نہ ہو۔ اسی طرح، مادہ شعور کو جنم نہیں دے سکتا اگر وہ اس میں موجود نہ ہو اور نہ اس میں اس کو جنم دینے کی کوئی صلاحیت ہو۔ ہو سکتا ہے آپ کہیں کہ میں پیسے کما سکتا ہوں اور پھر کسی کو دے سکتا ہوں؛ اسی طرح، مادہ بھی کسی نہ کسی طرح کسی پیچیدہ سلسلہ اعمال کے ذریعے شعور ‘کما’ سکتا ہے۔ یہ غلط ہے کیونکہ ایک انفرادی غیر ذی شعور سلسلہ عمل، جب دوسرے انفرادی غیر شعوری سلسلہ عمل کے ساتھ جمع ہو کر، دو غیر شعوری سلسلہ ہائے اعمال ہی پیش کریں گے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے لوہے کے ایک ٹکڑے کو لکڑی میں بدلنے کی کوشش کرنا؛ چاہے آپ لوہے کو جیسے مرضی الٹ پھر کریں، یہ کبھی بھی لکڑی میں نہیں بدلنے والا، حتیٰ کہ اگر آپ مزید لوہا ڈال دیں تب بھی۔

اس باب کا مقصد شعور کے سنگین مسئلے کی عمومی وضاحتی کوششوں کے تارو پود بکھیرنا اور یہ واضح کرنا ہے کہ کس طرح ایک الٰہیاتی نقطہ نظر، زیادہ درست طور پر اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات سے، ایک بہترین وضاحت میسر آتی ہے۔ میں یہ بھی واضح کروں گا کہ یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ ‘سائنس آخر کار ہمیں جواب دے دے گی’، کیونکہ یہاں تک کہ اگر ہم دماغ کے متعلق ہر چیز جان لیں اور محض حیاتیاتی، مادہ پرستانہ (یا یہاں تک کہ غیر الٰہیاتی فلسفیانہ) وضاحتوں پر زور دیں، تو پھر بھی ہم شعور کے سنگین مسئلے کا جواب نہیں دے پائیں گے۔

مسئلہ سنگین کے متعلق مزید باتیں

ان کے اپنے اعتراف کے مطابق، شعور کے مسئلہ نے محققین کے لئے بہت سے لاینحل مسائل پیدا کیے ہیں۔ خاص طور پر وہ، جو اپنے مادہ پرستانہ نقطہ نظر میں بہت پختگی سے یقین رکھنے والے ہیں۔ پروفیسر کرسٹوف کوچ اپنی کتاب”جذباتی تجزیہ پسند کے اعترافات”[3] میں کھلے عام اعتراف کرتا ہے:

“یہ ایک معما ہے کہ کس طرح دماغ ،حیاتیاتی برقی(Bioelectric) سرگرمی کو داخلی کیفیتوں میں ڈھالتا ہے، کس طرح پانی پر سے منعکس شدہ ضیائیہ (Photons) جادوئی انداز میں ایک ٹمٹماتی فیروزی پہاڑی جھیل کا تصور تشکیل دیتے ہیں۔ اعصابی نظام اور شعور کے درمیان تعلق کی فطرت ،ابہام کا شکار اور گرما گرم لا محدود بحث و تکرار کا موضوع بنی رہتی ہے… سائنسی اسلوب، جو اتنے بہت سے دیگر امور میں بے انتہا مفید ثابت ہوا ہے، کے لئے اس کی وضاحت کرنا جوئے شیر کا لانا ہے، کہ کس طرح مادے کا ایک شاندار طور پر منظم ٹکڑا ایک داخلی نقطہ نظر کا مالک ہو سکتاہے۔ “[ii]

یہ ناحل شدہ مسائل دماغ کی طبیعی ساخت اور اس سے متعلقہ مسائل نہیں ہیں, کہ ہم کیسے کسی شعوری حالت اور دماغی سرگرمی میں باہمی تعلق کو جان سکتے ہیں۔ اگر مجھے درد ہے تو میرے دماغ میں کوئی خاص سرگرمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ میں درد محسوس کر رہا ہوں۔ کوئی بھی جسمانی و مادی دماغ اور شعور کے تعلق  کا انکار نہیں کر ، لیکن میں یہاں ضرور اس بات پر زور دوں گا کہ یہ صرف ایک تعلق ہی ہے۔ دماغ اور شعور ایک ہی چیز نہیں ہے۔ اس مثالل پر غور کیجئے: دماغ گاڑی ہے اور شعور ڈرائیور ہے۔ گاڑی بغیر ڈرائیور کے نہیں چلے گی اور اگر گاڑی خراب ہوئی تو ڈرائیور گاڑی کو درست انداز میں چلا نہیں پائے گا۔ تاہم وہ دونوں کئی اعتبار سے مختلف اور خود مختار ہیں۔

وہ کون سے مسائل ہیں جن کا حل اس میدان کے ماہرین  ڈھونڈھنے میں لگے ہیں، اور کیوں دماغ اور شعور ایک ہی چیز نہیں ہیں؟ ان سوالوں کے جواب اس میں پوشیدہ ہیں، جس کو “شعور کا مسئلہ سنگین” کہا جاتا ہے۔ “شعور کا مسئلہ سنگین” ہماری داخلی ذاتی تجربات  کےمتعلق ہے ۔ بالفاظ دیگر، مسئلہ یہ ہے کہ  سائنس باہر سے یہ بیان نہیں کر سکتی کہ کسی خاص ذی روح کے لئے کسی داخلی شعوری تجربے سے دوچار ہونا کیسا ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ چالمرز[4] جنھوں نے سنگین مسئلہ کی اصطلاح متعارف کروائی، اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

“شعور کا سب سے سنگین مسئلہ تجربے کا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم دیکھتے ہیں، تو ہم بصری احساسات کے تجربے سے دوچار ہوتے ہیں: سرخی کی محسوس کردہ خوبی، تاریکی اور روشنی کا تجربہ، کسی  میدان میں گہرائی کی خوبی۔ دیگر تجربات، ادراک کے ساتھ ساتھ مختلف  صورتوں میں نمایاں ہوتے ہیں: بانسری کی آواز، کافور کی بو۔ پھر درد سے شہوانی مستی تک کی جسمانی احساسات ہیں؛ ذہنی تصاویر جو اندر جمع ہیں؛ جذبات کی محسوس کردہ خوبی؛ شعوری خیالات کی ایک قطار کا تجربہ۔ جو چیز ان سب حالتوں کو باہم جوڑتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسی چیز ہے جو ان سب میں مشترک ہے۔ یہ سب تجربے کی کیفیتیں ہیں … اگر کوئی مسئلہ شعور کا مسئلہ کہلائے جانے کے لائق ہے تو وہ یہ ہے۔ ‘شعور’ کے اس مرکزی احساس میں، ایک ذی روح، اور ایک ذہنی کیفیت باشعور ہے، اگر کوئی ایسی چیز ہے جس کے اس حالت میں ہونے کا امکان ہو۔ “[iii]

پروفیسر ٹارِن آلٹر[5] “شعور کے مسئلہ سنگین” کی تعریف میں ایک اور جہت کا اضافہ کرتے ہیں۔ لیکن ان کی مرکز توجہ اس بے بسی پر ہےکہ” جسمانی مادی دماغ کیسے شعوری تجربات پیدا کرتا ہے” کا جواب کیسے دیا جائے۔:

“جیسے میں یہ الفاظ رقم کرتا ہوں، میرے دماغ میں موجود ادراکی نظام، معلومات کی بصری اور احتسابی عمل کاریوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہ عمل کاری(processing) مظہری شعور کی حالتوں کو ساتھ لیے ہوتی ہے، جیسے کہ کی بورڈ کے ٹک ٹک ٹک کو سننے کا سمعی تجربہ اور پردہ اسکرین پر نمودار ہوتے حروف کو دیکھنے کا بصری تجربہ۔ ایسا کیوں ہے کہ میرے دماغی افعال ان تجربات کو وجود میں لاتی ہے؟ صرف وہی کیوں اور اس کے سوا کوئی دوسرا کیوں نہیں؟ بلا شبہ، کسی بھی مادی واقعہ کے ساتھ شعوری تجربہ کیوں مربوط ہے؟ ایسے مسائل کا مجموعہ، شعور کا مسئلہ سنگین کے طور پر جانا جاتا ہے… یہاں تک کہ جب تمام متعلقہ وظائف اور اہلیتوں کی وضاحت کیے جانے کے بعد بھی، کوئی معقول طور پر یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ کسی کمپیوٹر کے اسکرین پر حروف کو نمودار ہوتا دیکھنے کی سی کوئی چیز کیوں ہے۔ “[iv]

آئیے میں اوپر کی تعریفوں کی ایک مثال سے تسہیل کروں۔ فرض کیجئے کہ آپ ایک اسٹرابری کھانے والے ہیں۔ سائنسدان اور فلسفی دماغ کی ایسی سرگرمیاں معلوم کر پائیں گے جو یہ ظاہر کریں گی کہ آپ کوئی چیز کھا رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ یہاں تک بھی بتا سکیں کہ آپ کوئی پھل کھا رہے ہیں، اور آپ سے اپنی شعوری تجربے کی وضاحت کی درخواست کر کے وہ یہ بھی بتا سکیں کہ آیا آپ کو یہ تجربہ لذیذ یا میٹھا معلوم ہوا کہ نہیں۔ تاہم، وہ کبھی بھی معلوم نہیں کر سکیں گے، نہ مشاہدہ کر سکیں گے کہ اسٹرابری کھانا آپ کے لئے کیسا ہے، یا آپ کے لئے لذت یا مٹھاس کا مطلب کیا ہے اور ان سے آپ محسوس کیا کرتے ہیں، اور ایسا کیوں ہے کہ اسٹرابری کھانے کے مادی عمل سے آپ کو اس خاص داخلی تجربے کا سامنا ہوا۔

یہ مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ مسئلہ پیش دست محض ایک علمی مسئلہ نہیں ہے؛ یہ اعصابی حیاتیات کی ناقص فہم یا محض اعصابی حیاتیاتی وقوعات کے مشاہدے سے اس سمجھ بوجھ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے کہ ،کسی کے لئے کسی داخلی ذاتی شعوری تجربے سے دوچار ہونا کیسا ہے۔ بلکہ، یہ ایک وجودی مسئلہ ہے؛ یہ مظہری تجربے کے منبع اور فطرت سے متعلق ہے۔ مادی (اعصابی حیاتیات) اور داخلی شعور مکمل مختلف ہیں۔ ان سوالوں کا جواب معلوم نہ کر پانے کی وجہ سے کہ کسی انسان کے لئے کسی داخلی ذاتی شعوری تجربے سے دوچار ہونا کیسا ہے، اور یہ کہ کس طرح مادی و طبیعی سلسلہ اعمال سے یہ تجربات کیسے جنم لیتے ہیں، ذیل کے سوالات پیدا ہوتے ہیں:

  • شعوری تجربے کی حقیقت کیا ہے؟
  • ان تجربات کا منبع اولین کیا ہے؟

مسئلہ سنگین کی وضاحت کی ناکام کوششیں

مظہر شعور اور اس کے مسئلہ سنگین کی وضاحت کی بہت سی باہم مقابل کوششیں کی گئی ہیں۔ ان میں حیاتیاتی، مادی اور غیر مادی وضاحتیں شامل ہیں۔ میں یہاں یہ واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ شعور کے مسئلہ سنگین کی تسلی بخش وضاحت پیش کرنے میں یہ کوششیں کیوں ناکام ہو گئیں، اور کیوں اسلامی الٰہیات ہی اس کی بہترین وضاحت کر سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ خالق ارض و سماء کا وجود ہی ان سوالوں کے جواب کی عقلی بنیاد فراہم کرتا ہے جن کا جواب دینے میں فلسفی اور علم الاعصاب کے ماہرین ناکام ٹھہرے ہیں۔

حیاتیاتی وضاحتیں

آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ حیاتیاتی وضاحتیں کیوں ناکام ہوئیں۔ حیاتیاتی وضاحت کی بعض کوششوں میں:

  •  فرانسس کِرک(Francis  Crick) اور کرسٹاف کوش(Christof  Koch) کا ‘بر جانب اعصابی حیاتیاتی نظریہ شعور(Toward  a Neurobiological Theory of Consciousness)  ۔
  • برنارڈ بار(Bernard  Baars)کا ‘نظریہ عالمی مقام کار(Global Workplace Theory  (۔
  • جیرالڈ ایلڈرمین(Gerald   Elderman) اور گویلیو ٹونونی (Giulio   Tononi)کا ‘نظریہ مغزِ محرک'(The Dynamic  Core  theory)،
  • رڈولفو لیناس (Rodolfo  Llinas)کا ‘نظریہ ‘عصبی قشرئی لزوم(Thalamocortical Binding theory)’،
  • وکٹر لیم (Victor  Lamme)کا ‘نظریہ تکرار عمل کاری(Recurrent  Processing  theory)’،
  • سمیر ذکی (Semir  Zeki)کا ‘نظریہ خرد شعوری(Microconsciousness  theory)’اور
  • اینٹونیو دیمے سیو(Antonio  Damasio)کا ‘نظریہ احساس ماجرا(The Feeling of What Happens Theory)’شامل ہیں۔

 اگرچہ ان تجرباتی نظریات کی پیچیدگیوں اور کمزوریوں کی وضاحت اس مضمون کا مدعا نہیں ہے (کیونکہ ان سب کے فلسفیانہ اثرات اور مفروضے ہیں، جو ذیل میں بیان کیے گئے ہیں)، ان میں سے کوئی ایک بھی شعور کے مسئلے کی مفصل طور پر وضاحت نہیں کرتا۔ پروفیسر ڈیوڈ چالمرز اپنی کتاب ‘شعور کی خوبی’[6] میں شعور کے مسئلہ سنگین کی وضاحت میں حیاتیاتی نقطہ نظر کی ناکامی پر روشنی ڈلتے ہیں۔ وہ ایسے پانچ خطرناک تدبیروں کا ذکر کرتے ہیں جو اس ضمن میں استعمال کیے گئے ہیں:[v]

  •  پہلا اسلوب یہ ہے کہ کوئی اور چیز بیان کر ڈالی جائے۔ محققین محض یہ کہ دیتے  ہیں کہ تجربے کا مسئلہ ابھی کے لئے بہت ہی مشکل ہے۔ کوش(Koch) اس ناکام اسلوب کا کھلم کھلا اعتراف کرتا ہے۔ ایک شائع شدہ انٹرویو میں اس نے اعتراف کیا: “اچھا، پہلے تو زیادہ مشکل پہلوؤں کو بھول جائیے، جیسے داخلی احساسات، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان کا کوئی سائنسی حل ہی نہ ہو۔ تفریح کی، درد کی، لطف کی، نیلا رنگ دیکھنے کی، گلاب سونگھنے کی داخلی کیفیت – ایسا لگتا ہے کہ سالمہ(molecules) اور اعصابی خلیوں کی وضاحت کے مادی درجے اور داخلی درجے میں بہت بڑا خلا ہے۔ “[vi]
  • دوسرا اسلوب شعور کے مسئلہ سنگین کا انکار کرنے کا ہے۔ یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ہم ارادے کی آزادی کے محض ایک دھوکے میں مبتلا زومبی(zombies) ہیں۔ یہ اسلوب حقیقت انسانی کو بغیر کسی داخلی تجربے کے، محض حیاتیاتی مشین قرار دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر، یہ مسئلے کو نظر انداز کر دیتا ہے اور بنی نوع انسان کی ایک بالکل نئی تعریف پیش کرتا ہے۔
  • تیسرا اسلوب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ داخلی تجربے کی وضاحت ہمارے دماغ میں ہونے والی مادی سرگرمی کی تفہیم کے ذریعے کی جائے گی۔ تاہم یہ جادو جیسا لگتا ہے۔ شعوری تجربہ بغیر کسی وضاحت کے رونما ہوتی ہے۔ اس سوال کا کوئی جوب کبھی نہیں دیا گیا ہے کہ ‘کس طرح یہ سرگرمیاں ایک داخلی ذاتی تجربے کو رونما کرتی ہیں؟’ مزید برآں، مادی سرگرمیوں کی تفہیم ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا کہ ایک شخص کے لئے کسی خاص داخلی شعوری تجربے سے دوچار ہونا کیسا ہے۔
  • چوتھا اسلوب تجربے کی ساخت بیان کرنے کا ہے۔ یہ اسلوب ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ تجربے کا وجود ہی کیوں ہے، اور محض تجربے کی ساخت کے بیان سے یہ ہمیں اس بات کا کوئی جوب نہیں دیتا کہ ایک شخص کے لئے منفرد تجربات سے دوچار ہونا کیسا ہے۔
  • پانچوں اسلوب تجربے کی (اساسی بنیاد یا مرحلے) کے مادے کو علیٰحدہ کرنے کا ہے۔ یہ اسلوب مخصوص سرگرمیوں کی تفہیم کے ذریعے تجربے کی اعصابی بنیادوں کو علیٰحدہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم، یہ اسلوب یہ وضاحت نہیں کرتا کہ کسی داخلی شعوری تجربے سے دوچار ہونا کیسا ہے، یہ ان سرگرمیوں سے کیوں اور کیسے جنم لیتا ہے۔

فلسفہ ادراک  میں داخل ہو جائیے

اب ہم اس مقام پر ہیں، جہاں ہم اس بحث میں پڑ  سکتے ہیں کہ ادراکیت کے فلسفی، مسئلہ سنگین کو حل کرنے کے لئے، شعور کی وضاحت کیسے کرتے ہیں۔  یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی ضروری ہے کہ سائنسی نظریات کے ساتھ فلسفیانہ مفروضات وابستہ ہیں۔ چنانچہ فلسفیانہ نظریات کی وضاحت سے تجرباتی نظریات کی وضاحت بھی ہو جائے گی۔ پروفیسر انطی ریوونزوو[7] اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہیں:

“تاہم، یہ تجرباتی سائنسدانوں کے لئے مفید ہے کہ وہ مختلف فلسفیانہ متبادلات سے آگاہ رہیں، کیونکہ ہر تجرباتی نظریہ میں لازمی طور پر کسی نہ کسی قسم کا پختہ فلسفیانہ عزم بھی شامل ہوتا ہے… وہ مجموعی تجرباتی نقطہ نظر جو ایک سائنس دان شعور کی طرف اختیار کرتا ہے، وہ سائنس کی ماہیت اور شعور کی حقیقت کی طرف اس کے گزشتہ فلسفیانہ عزائم یا وجدان و ادراک سے متاثر ہوا ہوتا ہے، چاہے وہ ایسے عزائم سے آگاہ ہو یا نہیں۔ “[vii]

پروفیسر ریکارڈو مینزوطی اور پاولو مودریٹو[8] بھی واضح کرتے ہیں کہ علوم الاعصاب “مافوق الفطرت طورپر معصوم”[viii] نہیں ہیں اور یہ کہ “تجرباتی معلومات کا تجزیہ کسی خاص مقدمے کے نقطہ نظر سے کیے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ “[ix]

شعور کی وضاحت کی مختلف فلسفیانہ کوششوں میں سے کوئی بھی اتنی واضح اور مفصل نہیں ہے کہ الٰہی متبادل کو جھٹلا سکے۔ ان کی واضح طور پر مادی اور غیر مادی کوششوں میں تفریق کی جا سکتی ہے۔ ذیل میں ان کوششوں کا مختصر خاکہ پیش خدمت ہے اور اس بات کی وضاحت کہ وہ کیوں ناکام ہوئے۔

مادی نقطہ ہائے نظر

دوسرے محققین اور عالمانہ تکرار کے مطابق، طبعیت اور مادیت کی اصطلاحات کو ایک دوسرے سے بدلا جائے گا اور جا سکتا ہے۔[x] [xi]اگرچہ ان کے بیانیے مختلف ہیں اور کچھ نظریاتی اختلافات بھی ہیں[xii]، مگر اس باب میں جن تصورات کا ذکر ہے، یہ ان سے نہیں ٹکراتے۔ دونوں اصطلاحات کا مطلب یہ ہے کہ شعور کی وضاحت جسمانی علوم سے کی جاسکتی ہے ، لیکن  اس کا ہمیشہ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ شعوری حالتوں اور مادی اشیاء کا موازنہ ہونا چاہئے اور  لازماً مادے کے اجزا کے برابر حیثیت دی جائے۔

مادی حقائق کلی حقائق نہیں ہیں!

قبل اس کے کہ میں ایک ایک مادی نقطہ نظر کی گہرائی میں اتر جاؤں، میں اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ کس طرح فرینک جیکسن[9] کے ٹھوس دلیل مریم کے آگے مادی اعتقادیت کے تار و پود بکھر جاتے ہیں۔ ذیل میں اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے:

مریم اپنی آج تک کی ساری زندگی ایک ایسے کمرے میں گزارتی رہی ہے جس میں صرف سفید اور سیاہ دو ہی رنگ ہیں اور دنیا کے بارے میں معلومات بے رنگ کمپیوٹروں اور ٹی وی کے ذریعے خاصل کرتی ہے۔ مریم کو اپنے کمرے میں ان تمام سائنسی تجرباتی معلومات تک رسائی حاصل ہے کہ جب انسان مادی مظاہر کو دیکھتا ہے تو کیا واقع ہوتا ہے۔ وہ انسانی آنکھ کے ذریعے چیزوں کی ادراک کے عمل کی سائنس کے متعلق سب کچھ جانتی ہے۔ تاہم، وہ نہیں جانتی کہ رنگوں کو دیکھنا کیسا ہے۔ آج اس کو کمرے سے باہر نکلنے کی اجازت ملی ہے۔ جیسے ہی وہ دروازہ کھولتی ہے، اسے ایک سرخ گلاب نظر آتا ہے، اور زندگی میں پہلی دفعہ سرخ رنگ کے تجربہ سے دوچار ہوتی ہے۔ وہ تب ہی سرخ رنگ کو سمجھ پاتی ہے جب وہ اس کو دیکھ لیتی ہے۔[xiii] اس کا بصری تاثر اور رنگوں سے متعلق تمام مادی و جسمانی حقائق کا علم، اس کو اس نئے مشاہدے اور احساس کے لئے تیار نہیں کر پایا تھا، جو اسے پہلی دفعہ سرخ رنگ دیکھنے پر ہوا۔ مادی حقائق کی تفہیم کے ذریعے وہ یہ نہ جان سکی کہ سرخ رنگ دیکھنے کا تجربہ کیسا ہوتا ہے۔ وہ اس تجربے کے بارے میں صرف تب ہی جان سکی جس لمحے وہ تجربہ پیش آیا۔

چالمرز یہ واضح کرنے کے لئے کہ دلیلِ مریم،  فلسفہ مادیت  کا”شعور کے مسئلہ سنگین” کو حل کرنےکی ناکام کوشش کے کیسے ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہے ، ذیل کے مقدمات پیش کرتا ہے:

  • مریم تمام مادی حقائق کو جانتی ہے۔
  • مریم تمام حقائق کو نہیں جانتی۔
  • مادی حقائق تمام حقائق کا احاطہ نہیں کرتے۔ [xiv]

چالمرز کی دلیل یہاں یہ ظاہر کرتی ہے کہ مادی دنیا کا علم، داخلی شعوری حقائق کے علم تک نہیں لے جاتا – مثال کے طور پر سرخ رنگ کو دیکھنا کیسا ہے۔ یہ واضح طور پر مادہ پرستی کو غلط ثابت کرتی ہے۔ چالمرز دلیل کی تعمیم اس طرح کرتا ہے:

  • شعور کے متعلق ایسے حقائق ہیں جو مادی حقائق سے اخذ نہیں کیے جاسکتے۔
  • اگر شعور کے متعلق ایسے حقائق ہیں جو مادی حقائق سے اخذ نہیں کیے جاسکتے، تو پھر مادی اعتقادیت غلط ہے۔
  • مادی اعتقادیت غلط ہے۔ [xv]

مادیت اپنی تمام تر شکلوں میں داخلی شعور کی وضاحت نہیں کرتی, کیونکہ مادی دماغ کا علم کسی اندرونی ذہنی تجربے کی تفہیم کا راستہ ہموار نہیں کرتا، اور یہ کہ دماغی سرگرمی سے وہ تجربات کیوں جنم لیتے ہیں۔ مادی اعتقادیت اس مقصد کے لئے غیر مناسب ہے کیونکہ شعور کے متعلق ایسے حقائق ہیں جو مادی حقائق سے اخذ نہیں کیے جا سکتے۔

دلیل مریم پر بہت سے دلچسپ اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ ایک اعتراض یہ ہے کہ اگر مریم نے تمام مادی حقائق جان لیے ہیں تو یہ معلوم کرنا ممکن نہیں رہتا کہ وہ کیا جانے گی۔ یہ اعراضی دلیل، مریم کی ناقص تفہیم کی وجہ سے پیش آتا ہے۔ یہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ دلیلِ مریم اس بارے میں ہے کہ تمام مادی حقائق کو جاننا کیسا ہے۔ تاہم، یہ دلیل مریم کی اس نا اہلی پر مرکوز ہے کہ وہ جان لیتی کہ سرخ رنگ کو دیکھنا کیسا ہے، اگرچہ اس کو سرخ رنگ دیکھنے کا کبھی بھی تجربہ نہ ہوا ہو۔ لہٰذا دلیلِ مریم پر کیا جانے والا ہر اعتراض اس پر مرکوز ہونا چاہیئے کہ سرخ رنگ دیکھنے سے مریم کو کیا حاصل ہوتا ہے ، نہ کہ اس پر کہ اگر اس کے پاس تمام مادی حقائق ہوتے تو وہ کیا جانتی۔

دوسرا اعتراض صلاحیت کا مفروضہ ہے۔ یہ مفروضہ کہتا ہے کہ مریم کوئی نیا علم حاصل نہیں کرتی بلکہ صرف نئی صلاحیتیں حاصل کرتی ہے۔ مثال کے طورپر جب کوئی شخص سائیکل چلانا سیکھتا ہے تو وہ سائیکل کے متعلق نئی چیزیں نہیں جان رہا ہوتا، وہ محض اس پر سوار ہونے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ یہ اعتراض ناقص ہے۔ اگر مریم کمرے سے نکلنے پر نئی صلاحیتیں حاصل کر سکتی ہے، تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نئے حقائق بھی جان لے۔ جب کوئی شخص سائیکل کی سواری سیکھتا ہے، تو وہ محض اس کی صلاحیت حاصل نہیں کرتا، وہ نئے حقائق بھی حاصل کرتا ہے۔ مثال کے طور پراگر کوئی شخص تیزی سے اترائی اتر رہا ہے، تو وہ آخر کاریہ جان لے گا کہ بریک کا مسلسل استعمال نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ اس سے رِم زیادہ گرم ہو سکتے ہیں۔ اترائی میں رفتار پر قابو رکھنے کے لئے، بریک کو دو سیکنڈ کے وقفے سے آہستہ آہستہ دبانا ہوتا ہے۔

پروفیسر برِیان لآر[10] کا اعتراض دلیلِ مریم کو ایک سخت مقابلے کی دعوت دیتا ہے۔ لآر کہتا ہے کہ مریم سرخ رنگ کے متعلق نئی معلومات حاصل نہیں کرتی، بلکہ اس رنگ کے متعلق جو کچھ پہلے سے جانتی تھی، اس کی تفہیم کا صرف ایک نیا انداز جان لیتی ہے۔ یہ اسلوب کہتا ہے کہ ایک خوبی ، اسی خوبی کی مختلف تصورات کو جنم دے سکتی ہے۔ یہ تصورات، مادی و عملی تصورات اور مظہری تصورات (وہ تصورات جو داخلی تجربے کی طرف اشارہ کرتی ہیں) ہیں۔ چنانچہ جب مریم نے پہلی دفعہ سرخ رنگ دیکھا تو وہ کسی نئی خصوصیت کے تجربے سے دوچار نہیں تھی اور اس کے متعلق نئے حقائق کا علم نہیں حاصل کر رہی تھی۔ وہ جو کچھ پہلے سے جانتی تھی اس کو سمجھنے کے ایک نئے انداز کے تجربے سے گزر رہی تھی۔ کمرے سے نکلنے سے پہلے وہ مادی وعملی خطوط پر سرخ رنگ کی خصوصیات سے واقف تھی۔ لیکن جب وہ کمرے سے باہر نکلی، تو اس نے سرخ رنگ کی خصوصیات کو مظہری خطوط پر پہچاننے کا ایک نیا انداز سیکھا۔ مریم، مظہری تصورات کو صرف تب حاصل کر سکتی ہے جب وہ سرخ رنگ دیکھ لیتی ہے، کیونکہ یہ تصورات صرف سرخ رنگ دیکھنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ [xvi]

لآر کے اسلوب کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ ہم مظہری تصورات صرف مادی خصوصیات کے مشاہدے سے حاصل کر سکتے  ہیں۔ تاہم اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے: ‘ ، جب ہم کسی مادی وعملی خصوصیت کے مشاہدے کے شعوری حالت کے تجربے سے دوچار ہوتے ہیں، تو ہمارا دماغ کیونکر کوئی مظہری تصور حاصل کر لیتا ہے؟’ لآر کوئی مناسب جواب نہیں دیتا۔ چنانچہ یہی کہا جائے گا کہ دلیلِ مریم اپنی جگہ قائم رہے گی کیونکہ یہ اس بنیادی سوال کا جواب دیتا ہے: ہم مظہری تصورات اس لیے حاصل کرتے ہیں کیونکہ چیزوں (بشمول ہمارے) میں مادی اور مظہری خصوصیات شامل ہیں۔ الغرض، یہ کہنا کہ کسی مادی خصوصیت سے مظہری تصورات جنم لیتے ہیں، اس علم کی وضاحت کرنے کے لئے نا مناسب ہے جو ایک شخص کسی داخلی شعوری تجربے سے دوچار ہو کر حاصل کرتا ہے۔[xvii]

ایسی کئی دیگر وجوہات ہیں کہ کیوں لآر کا اسلوب مظہری تصور حتمی نہیں ہے۔ لآر کی بات پر مفصل بحث اور رد کے لئے:

  • ·          مائیکل ٹائے(Michael  Tye) کی ‘شعور پر نظر ثانی: مادہ پرستی بنا مظہری تصورات(Consciousness Revisited: Materialism -without- Phenomenal- Concepts.)’۔ [xviii]
  • اِرہان دیمرشی اغلو(Erhan-  Demircioglu)کی ‘مادہ پرستی و تصورات مظہری(Physicalism -and -Phenomenal -Concepts)’۔ [xix]
  • کیرول پولسِن (Karol-Polcyn)کی ‘بریان لآر بر مادہ پرستی و تصورات مظہری(Brian -Loar- on -Physicalism- and -Phenomenal- Concepts)’[xx]اور
  • ·          ڈیوڈ چالمرز(David- Chalmers)کا مضمون بعنوان ‘مظہری تصورات اور وضاحتی خلا(Phenomenal  – Concepts-   and  – the  – Explanatory-   Gap)’[xxi]کی طرف رجوع کیجئے۔

 دلیل مریم پر بھی مادہ پرستی کی حمایت اور مخالفت میں زبردست شہادتوں کے ساتھ خاصا وسیع علمی مواد موجود ہے۔ اس موضوع پر دستیاب مواد کی جانچ پڑتال کا یہ محل نہیں ہے۔ تاہم، ان علمی مباحث کی محض موجودگی سے اس باب میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے، اس کی حیثیت کمزور نہیں ہوتی۔

‘چلیں اس بات کو چھوڑ دین’:خارجی مادہ پرستی

خارجی مادہ پرست یہ مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ مادی سلسلہ اعمال کے ذریعے ہر چیز کی وضاحت کی جا سکتی ہے، اور وہ داخلی شعوری حالتوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ دماغ اعصابی خلیوں سے مل کر بنا ہے جن میں مادی اور کیمیاوی سرگرمیاں جاری و ساری رہتی ہیں؛ چنانچہ، ان پیچیدہ سرگرمیوں کی وضاحت سے،آخر کار شعور کی وضاحت ہو جائے گی۔ [xxii]اسقاطی مادہ پرستوں کا کہنا ہے کہ ‘عوامی نفسیات’ کا تصور، جو ہم نے (موجودہ مادی علوم کی طرف سے حل پیش نہ کیے جانے پر) داخلی شعور کی وضاحت کے لئے گڑھ رکھا ہے، علم الاعصاب کی “بلوغت” پر فالتو ہو کر رہ جائے گا۔[xxiii] یہ تب ہو گا جب علم الاعصاب، داخلی شعور کو “مخصوص عضویاتی مقامات میں اعصابی سرگرمیوں” سے بدل دے گا۔ [xxiv]الغرض، کسی نہ کسی دن سائنس اس چیز کی وضاحت کر دے گا جس کو ہم داخلی شعور کہتے ہیں؛ چنانچہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

خارجی  مادہ پرستانہ نقطہ نظر کی تقلید میں، تجزیاتی فلسفی پیٹریشیا چرچ لینڈ[11] کہتی ہے کہ جب ہم اپنے سائنسی علم کو بہتر بنائیں گے تو داخلی شعور کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ چرچ لینڈ کہتی ہے کہ شعور کے مسئلہ سنگین کو علم الاعصاب کے دیگر مسائل سے ممتاز نہیں رکھنا چاہیئے۔ چرچ لینڈ کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ محققین کے روبرو غیر حل شدہ مسائل کی ایک فہرست ہے، اور یہ کہنا کہ وہ کبھی حل نہیں ہوں گے، نامعقول لگتا ہے۔ محض اس لیے کہ مسئلہ سنگین کو پیچیدہ اور مشکل کہا گیا ہے، اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اس کا کبھی کوئی سائنسی حل سامنے نہیں آئے گا۔ چرچ لینڈ اپنے دلیل کے حق میں سائنس کی تاریخ کا حوالہ دیتی ہے۔ تاریخ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس نے بہت سے ‘سنگین مسائل’ کو حل کیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ” شعور کا مسئلہ سنگین” بھی حل ہو ہی جائے گا۔ [xxv]

تاہم، مادی اور کیمیاوی سرگرمیاں ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتیں کہ کسی خاص باشعور ہستی کے لئے کسی داخلی ذاتی تجربے سے دوچار ہونا کیسا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ خارجی مادہ پرست کی نظر میں، داخلی ذاتی تجربات محض ایک واہمہ ہیں۔ بالفاظ دیگر، اس نظریے کے پرچارک، شعور کے مسئلہ سنگین کو حقیقت میں تسلیم ہی نہیں کرتے، کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ مادہ اور مادی سرگرمیاں ہی ہر چیز کی وضاحت کے لئے کافی ہیں۔ تاہم، مادی اور کیمیاوی سرگرمیاں ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتیں کہ کسی داخلی ذاتی تجربے سے شعوری طور پر دوچار ہونا کیسا ہے۔ مزید برآں، مادہ، داخلی شعوری تجربے کے عالم وجود میں آنے کی وضاحت بھی نہیں کر سکتا کیونکہ مادہ یخ بستہ، اندھا اور غیر ذی شعور شے ہے۔ کوئی چیز کسی ایسی چیز کو جنم نہیں دے سکتی جب تک کہ وہ چیز پہلے سے اس میں موجود نہ ہو یا اس میں اس چیز کو جنم دینے کی صلاحیت نہ ہو۔ مادہ اور طبیعیاتی سرگرمیاں غیر ذی شعور ہیں اور اس لیے داخلی شعوری تجربے کو جنم نہیں دے سکتے کیونکہ یہ ان میں نہیں ہے۔

چنانچہ، خارجی مادہ پرستی، شعور کے مسئلہ سنگین کی وضاحت کے لئے ناقص ہے کیونکہ یہ اس چیز ہی کو نظر انداز کر دیتی ہے جس کی وضاحت طلب کی جا رہی ہے۔ خارجی مادہ پرستی کے نتائج کا نچوڑ یہ بے ہودہ بات ہے کہ ہم داخلی ذاتی شعور نہیں رکھتے۔ تاہم داخلی ذاتی تجربات سے دوچار ہونے کی ہماری صلاحیت “ہماری اپنی ذات سے متعلق” ایک حقیقت ہے؛ اس کا انکار کرنا بالکل لغو ہے۔

خارجی مادہ پرستی فلسفی ڈینئل ڈینٹ[12] کی وجہ سے  مشہور ہوئی، جب اس نے اپنی کتاب ‘شعور مفصل’[13] شائع کی۔ اپنی اس شدید تنقید زدہ کتاب میں، اس نے شعور کی تعریف نو کی، اسی چیز کو نظر انداز کرتے ہوئے، جس کی وضاحت طلب کی گئی تھی: ہماری داخلی شعوری حالتیں۔ ڈینٹ کے مطابق، ہم کوئی حقیقی ذاتی داخلی تجربات سے دوچار نہیں ہوتے؛ ہم محض حیاتیاتی مشینیں ہیں۔ بالفاظ دیگر ہم داخلی تجربے کے وہم میں مبتلا زومبی ہیں۔ ڈینٹ کے نقطہ نظر کی تنقید، جس کو ‘ نظریہ  مسوداتی مرکب ‘ بھی کہا جاتا ہے، کا خلاصہ پروفیسر اینطی ریوونسوو[14] نے اپنی کتاب، ‘شعور: داخلیت کی سائنس’[15] میں پیش کیا ہے:

“ڈینٹ کے نظریے پر بھاری تنقید کی گئی کیونکہ یہ شعور کی ایک ایسے انداز میں تعریف کرتی نظر آتی ہے کہ یہ لفظ اس سے بہت مختلف معنی اختیار کر جاتا ہے، جس کی ہم وضاحت کرنے نکلے تھے۔ ڈینٹ کی مشہور 1991 کی کتاب کا عنوان ‘شعور مفصل’[16] رکھا گیا ہے، لیکن بہت سوں کا خیال ہے کہ اس کو ‘شعور سے جان چھڑایا گیا’[17] کہا جانا چاہیئے تھا۔ جس کی اکثر لوگوں کو وضاحت درکار تھی، وہ مظہری شعور، کویلیا(واحد : Quale۔ذاتی، شعوری تجربے کے انفرادی نمونے) اور داخلیت تھی، لیکن ڈینٹ ان کو واہمے قرار دے کر مسترد کر دیتا ہے۔”[xxvi]

‘داخلیت کا وجود ہے، لیکن یہ محض مادہ ہے’: تخفیفی مادہ پرستی

تخفیفی مادہ اعتقادیت کا کہنا ہے کہ مادی سرگرمیوں اور داخلی شعوری تجربے میں واقعی ایک علمی خلا موجود ہے۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اس خلا کو مادی اعتقادی فلسفے کے اندر رہتے ہوئے پر کیا جا سکتا ہے۔ اس نظریے کے پرچارک کہتے ہیں کہ داخلی شعوری تجربے کا وجود ہے، لیکن یہ مادی سرگرمیوں سے مختلف نہیں ہے۔ ان کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ دماغ کی مخصوص سرگرمیوں اور شعور کے مخصوص تجربوں میں ایک ربط ہے؛ چنانچہ شعور کی مادی سرگرمیوں تک تخفیف کی جا سکتی ہے۔

خارجی مادہ پرستی کے برعکس، تخفیفی مادہ پرستی یہ تسلیم کرتی ہے کہ داخلی شعور کا وجود ہے، لیکن اسے ہمارے دماغ میں جاری مادی سرگرمیوں تک گھٹایا جا سکتا ہے۔ اس طرح، داخلی شعور، اعصابی کیمیاوی سرگرمیوں کی مانند ہے۔[xxvii] اگرچہ فی الوقت تمام داخلی شعوری حالتوں کو مادی مظاہر تک تخفیف کیے جانے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے، تخفیفی مادہ پرستی اس امید پر قائم ہے کہ علم الاعصاب کے پرانے الفاظ کو، دیگر سائنسی علوم کی طرح، نئے الفاظ سے بدلا جائے گا، جیسے کہ ‘حرارت’، جس کو ‘ذرات کی اوسط حرکی توانائی کی سائنس’[18] سے بدلا جائے گا۔ اسی طرح، علم الاعصاب کے لئے ممکن ہو گا کہ ‘محبت’ جیسے الفاظ کو اعصابی کیمیاوی متبادل بخش دے۔ درحقیقت، “شعور ہمارے دماغ میں جاری و ساری اعصابی سرگرمیوں کے ایک پیچیدہ مجموعے سے زیادہ اور اوپر کچھ بھی نہیں ہے”۔ [xxviii]

یہ نظریہ داخلی شعوری حالتوں کی کوئی مناسب وضاحت نہیں ہے، کیونکہ یہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ داخلی تجربات حقیقی ہیں، لیکن ان کی وضاحت مستقبل میں علم الاعصاب کی ترقی کے بعد کی جائے گی۔ اصلاً، تخفیفی مادہ پرستی کا کہنا ہے کہ داخلی شعوری حالتوں کی مادی دماغ کی کیفیتوں تک تخفیف کی جا سکے گی۔ یہ شعور کے مسئلہ سنگین کو حل نہیں کرتا۔ محض اعصابی خلیوں کے کسی گچھے کو مصروف عمل دیکھ کر یہ جاننا کبھی ممکن نہ ہو گا کہ کسی مخصوص ذی روح کے لئے کسی خاص داخلی شعوری تجربے سے دوچار ہونا کیسا ہے۔ تخفیفی مادہ پرستی, شعوری تجربے کے منبع کی کوئی وضاحت دینے سے قاصر ہے۔ علم الاعصاب اور داخلی تجربہ بالکل مختلف ہیں۔ سادگی سے یہ کہہ دینا نا معقول ہے کہ غیر ذی شعور مادی سرگرمیوں سے شعور یونہی جنم لے لیتا ہے۔ خارجی مادہ پرست کی طرح، تخفیفی مادہ پرست بھی مسئلہ سنگین کی وضاحت نہیں کرتا۔ ایک بار پھر انسانوں کی داخلی ذاتی حقائق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پروفیسر ریوونسوو وضاحت کرتا ہے:

“پھر بھی، یہ واضح ہے کہ اعصابی سرگرمیوں، مختلف دماغی خطوں کی فعالیت اور عدم فعالیت یا اعصابی جوڑ توڑ میں ارتعاشی یکسانیت اس چیز کی طرح نہیں ہے ،جس طرح درد کے احساس، رنگوں کے ادراک، آتشیں جذبات یا داخلی خیالات کے متعلق گفتگو کرنا ہے – اور نہ کبھی ہو گا۔ جو چیز اولاً و آخراً چھوڑی جا رہی ہے، وہ شعوری ذہنی وقوعات کا داخلی پہلو ہے۔ “[xxix]

خارجی مادہ پرستی اور تخفیفی مادہ پرستی کا باہمی فرق نہایت خفیف ہے۔ خارجی مادہ پرستی کا کہنا ہے کہ داخلی شعور محض ایک واہمہ ہے اور کوئی حقیقی وجود نہیں رکھتا۔ تخفیفی مادی اعتقادیت یہ تسلیم کرتا ہے کہ داخلی شعور کا وجود ہے، لیکن یہ بھی قرار دیتا ہے کہ یہ دماغ میں جاری مادی سرگرمیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ دونوں ہی داخلی شعور کے صیغہ متکلم کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

“یہ وہ ہے جو آپ کرتے ہیں”: نظریہ کردار

ایک دوسرا نقطہ نظر جو خارجی مادہ پرستی کے ساتھ نتائج میں مشترک ہے وہ نظریہ کردار ہے۔ نظریہ کردار کا موقف ہے کہ شعور کی تعریف رویوں کی بنیاد پر کی جائے۔ نظریہ کردار والے کہتے ہیں کہ کسی شخص کی کوئی خاص شعوری حالت اسی صورت میں ہو گی اگر اس کی تصدیق اس کے رویے یا ردعمل سے کی جا سکتی ہو (مثال کے طور پر، سوسن درد کی کیفیت میں ہے اگر، کسی چیز سے ٹھوکر کھانے کے بعد، وہ کراہتی ہے ‘آہ!’)۔ سلوکیت داخلی شعوری تجربے کا انکار کرتی ہے اور شعور کی تعریف ہماری حالت کے بجائے ہمارے طرز عمل کے طور پر کرتی ہے۔ یہ طرز فکر شعور کے مسئلہ سنگین کا انکار کرتی ہے کیونکہ یہ اس بات کو تسلیم کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ انسانوں کی ذہنی حالتیں کوئی رویہ ظاہر کیے بغیر بھی ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ فلسفی ڈایوڈ لینڈ[19] کہتا ہے کہ ہم اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے کہ ہم ایسی داخلی ذاتی کیفیتوں میں ہو سکتے ہیں جو ہمیشہ ہمارے رویوں کے ذریعے ظاہر نہیں ہوتیں۔ [xxx]

نظریہ کردار شعوری حالت کو مادی حالت کے مشابہ بناتی ہے۔ اس نقطہ نظر کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیتا ہے کہ یہ شعوری حالت ہے جو کردار اور رویے کا سبب بنتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ درد ہے، جو سوسن کو ‘آہ!’ کہنے پر اکساتی ہے، لہٰذا درد اور ‘آہ!’ کہنا ایک دوسرے کے مشابہ نہیں ہے۔

‘محض کچھ درآمدی معلومات(inputs)، ذہنی حالتیں اور نتائج’: فلسفہ فعلیت

عملی معتقدین کہتے ہیں کہ شعور کی تعریف یہ ہے کہ یہ کسی ذی روح میں کمپیوٹر کی مانند کام کرتا ہے۔ یہ درآمدی معلومات، ذہنی کیفیات اور نتائج کے تعلق کا نام ہے۔ مثال کے طور پر، اگر میں دیکھوں کہ میری بس آ رہی ہے (input)،  میں پریشانی کی ذہنی کیفیت کے تجربے سے دوچار ہوں گا کہ ممکنہ طور پر میری بس چھوٹ جائے گی (ذہنی کیفیت) اور پھر میں بس کی طرف دوڑ لگاتا ہوں (نتیجہ)۔ عملی معتقدین کہتے ہیں کہ شعور کمپیوٹر پروگرام کی مانند ہے، جو دماغ میں جاری اعمال و افعال کے پیچیدہ ترتیب سے جنم لیتا ہے۔ [xxxi]

عملی اعتقادیت کو بہت سی اعتراضات کا سامنا کیا ہے۔[xxxii] ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ داخلی شعوری کیفیتوں کو مد نظر رکھنے میں ناکام ہے کیونکہ ان کو عملی طور پر سمجھا نہیں جا سکتا۔[xxxiii] یہ لازم نہیں آتا کہ محض تمام ادخالات(inputs)، ذہنی کیفیات اور نتائج کو جان لینے سے ہم کسی نہ کسی طرح یہ بھی جان لیں گے کہ کسی خاص ذی روح کے لئے کسی ذہنی کیفیت سے دوچار ہونے کا تجربہ کیسا ہے۔ میں یہ تو سمجھ سکتا ہوں کہ جب کوئی کسی خوف ناک کتے کو ان کی طرف لپکتا ہوا دیکھتا ہے (ادخال)، تو وہ خوف کے تجربے سے دوچار ہوں گے (ذہنی کیفیت)، پھر لازماً وہ تحفظ کے لئے بھاگیں گے (نتیجہ)۔ تاہم، درآمدی معلومات، ذہنی کیفیت اور نتیجے کے مابین تعلق کو سمجھ لینے سے، میں اس بات کو دور دور تک بھی نہیں سمجھ سکتا کہ اس شخص کے لئے خوف کی اس کیفیت کا تجربہ کیسا تھا۔ یہ مجھے اس بارے میں بھی کچھ نہیں بتاتا کہ تعلقات کے اس مجموعے سے ذہنی کیفیتیں کیوں اور کیوں کر جنم لیتی ہیں۔ اوپر کی مثال میں، میں نہیں جان سکتا کہ کسی اور کے لئے کسی خوف ناک جانور سے ڈرائے جانے کے احساس کا تجربہ کیسا ہوتا ہے۔ یہ سمجھ لینے سے، کہ کس طرح ذہنی کیفیتیں ، حاصل کی گئی معلومات اور نتائج کے ساتھ کس طرح متعلق ہیں، یہ فہم حاصل نہیں ہوتا کہ اس ذہنی کیفیت میں ہونے کا تجربہ کیسا ہے۔ بہت سے اہل علم یہ موقف رکھتے ہیں کہ اپنی شہرت کے بوجود، عملی اعتقادیت ،”شعور کے مسئلہ سنگین” کے حل کے طور پر کوئی وزن نہیں رکھتا۔ [xxxiv]

‘اس کا جوب پیچیدگی میں ہے’: ہنگامی مادہ پرستی

یہ تصور ہنگامیت کے نظریے پر مبنی ہے۔ ہنگامہ تب واقع ہوتا ہے جب چیزیں کچھ اس طرح ترتیب پاتی ہیں کہ وہ پیچیدہ اکائیوں میں بدل جاتی ہیں اور ان میں ایسی الجھی ہوئی سببی نسبتیں ہوتی ہیں کہ جن سے نئے مظاہر رونما ہوتے ہیں۔[xxxv] ہنگامی مادہ پرست دو طرح کی ہیں: سخت اور کمزور۔

کمزور قسم کا کہنا ہے کہ ہم داخلی شعور کو بالآخر سمجھ جائیں گے، جب تمام پیچیدہ مادی سرگرمیاں سمجھ لی جائیں۔ کمزور قسم کے لئے ممکن ہے کہ اس بات کی وضاحت کر دے کہ مادی سرگرمیوں سے شعور کیسے جنم لیتا ہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے یہ علم بھی حاصل ہو جائے کہ کسی باشعور ذی روح کے لئے کسی داخلی ذاتی تجربے سے دوچار ہونا کیسا ہے۔ کیا ایسا ہے کہ ہمارے یہ سمجھ لینے سے داخلی شعور کی گتھی سلجھ جائے گی کہ کس طرح تمام تر پیچیدہ مادی سرگرمیوں سے شعور وجود میں آتا ہے؟ اگر اس کا جوب ہاں میں ہے، تو پھر ظاہر ہے کہ اس چیز ہی کا انکار کیا جا رہا ہے جس کی وضاحت طلب کی گئی تھی۔ اگر داخلی شعور کا مسئلہ برقرار رہتا ہے، تو پھر ہنگامی مادہ پرستی اسی مسئلے سے دوچار رہتی ہے، جو تخفیفی مادہ پرستی کو در پیش ہے؛  یعنی داخلی شعور کی کوئی ایسی مادی بنیاد ہو سکتی ہے، بغیر ہمیں کچھ بھی بتائے ہوئے ،کہ ان داخلی شعوری تجربات سے دوچار ہونا کیسا ہے۔ [xxxvi]

کمزور ہنگامی مادہ پرستی کی ایک ذیلی قسم کا موقف ہے کہ ہم ان تمام مادی سرگرمیوں کو کبھی نہیں سمجھ پائیں گے جو داخلی شعور کی بنیاد بناتی ہیں۔ تاہم، فکری طور پر، اگر ہم کسی بھی وقت اس بات کی مکمل تفہیم حاصل کر پائیں کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے، تو ہم داخلی شعور کو سمجھ لیں گے۔ اس قسم کی کمزور ہنگامی مادہ پرستی تو کچھ بھی وضاحت نہیں کرتی۔  اس باب کے تناظر میں، ایک ایسی تشریح  کو قبول کرنا جو  “شعور کے سنگین مسئلے” کی واقعی وضاحت کر سکے، زیادہ منطقی ہے، بہ نسبت ایسی  تشریح کے، جو نہ کر سکے۔

سخت قسم کی ہنگامی مادہ پرستی کا کہنا ہے کہ داخلی شعور ایک قدرتی مظہر ہے؛ تاہم کوئی بھی مادی اعتقادی نظریہ جو اس کی حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ انسانی ذہنی صلاحیت سے ماوراء ہے۔ ہنگامیت کی یہ قسم کہتی ہے کہ ہم مظہر الف سے مظہر ب حاصل کر سکتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ ب ، الف سے کس طرح نمودار ہوتا ہے۔ سخت ہنگامی مادہ پرستی کا موقف ہے کہ پیچیدہ مادی سرگرمیوں سے کوئی نئی چیز بن سکتی ہے، لیکن یہ نئی چیز کیسے بنی ہے، اس کی سمجھ میں جو خلا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو گا۔ یہ نقطہ نظر” شعور کے مسئلہ سنگین” کی کچھ وضاحت نہیں کرتا، بلکہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ اس چیز کی وضاحت ممکن نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ ایسا کہنے سے کچھ مختلف نہیں ہے کہ، “یہ بس یونہی ہوتا ہے۔ یہ اتنا پیچیدہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا۔ ” ریوونسوو کہتا ہے کہ سخت ہنگامی مادہ پرستی, داخلی شعور کی وضاحت کرنے کے قابل کبھی نہیں ہو گی، اور اگر ہمیں کوئی صحیح نظریہ دے بھی دیا جائے گا تو”یہ اس کے برابر ہو گا کہ چوہے کی پنجرے میں چارلس ڈارون(Charles- Darwin) کی کتاب،آغاز انواع (Origins- of- Species) رکھ دی جائے”۔[xxxvii] اب چونکہ ہم شعور کے مسئلہ سنگین کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، داخلی شعور کو محض ایک راز قرار دے لینے سے کسی معقول آدمی کو ایک ایسا نقطہ نظر اپنانے سے روکا نہیں جا سکتا, جو اس کی مربوط انداز میں وضاحت کرتا ہو۔

کیا سائنس آخر کار داخلی شعور کی وضاحت کر دے گی؟

جیسے اوپر کی مادی اعتقادی نقطہ ہائے نظر سے واضح ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ کوئی سائنسی وضاحت کسی نہ کسی دن ہماری فہم میں موجود خلا کو پر کر دے گی۔ یہ نقطہ نظر شعور کی کوئی وضاحت نہیں کرتا، کیونکہ میرا ماننا ہے کہ یہ ایک طرح سے ‘جہالت کی سائنس’ کا منطقی دھوکہ ہے۔

اگر ہم سائنسی اسلوبِ تحقیق اور فلسفہ ِسائنس کا مشاہدہ کریں، تو ہم سمجھ جائیں گے کہ داخلی شعور کا مسئلہ سائنس کی دسترس سے باہر کا مسئلہ ہے۔ سائنس کی گزشتہ کامیابیاں اس وجہ سے پیدا ہوئیں کہ وہ نئے مظاہر کا مشاہدہ کرنے یا نئے نظریاتی نقشے فراہم کرنے کے قابل تھے، جو پہلے سے موجود قابل مشاہدہ معلومات کی وضاحت کر سکیں۔ کسی خاص با شعور ذی روح کی پسند و نا پسند کو سائنس کے ذریعے نہیں جانا جا سکتا۔ سائنس دان ان مشاہدات تک محدود ہیں جو ان کے بس میں ہیں، کیونکہ سائنس “اپنی توجہ ایسے مسائل پر مرتکز رکھنے پر مجبور ہے جو مشاہدات کی بس میں ہو”۔[xxxviii] اب چونکہ داخلی شعور (صیغہ متکلم کا نقطہ نظر) کا مشاہدہ صیغہ غائب کے نقطہ نظر سے کرنا ممکن نہیں ہے، لہٰذا سائنس داخلی شعور کے مسئلے کو حل نہیں کر سکتا۔

جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا، یہاں تک کہ اگر ہم دماغ کے متعلق سب کچھ جان بھی لیں، تو پھر بھی ہم “شعور کے مسئلہ سنگین” کا حل پیش کرنے میں مکمل ناکام رہیں گے۔ دماغ کے اندر کی سرگرمیاں محض یہ بتا سکتی ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے، نہ یہ کہ کچھ ہونا کیسا لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے دماغ میں ہونے والی تمام اعصابی کیمیاوی سرگرمیوں کا نقشہ مرتب کر لیا جائے، اور اس کے داخلی تجربات کے ساتھ مطابقت معلوم کر بھی لی جائے، سائنس پھر بھی اس شخص کے مخصوص تجربے کو معلوم کرنے یا یہ معلوم کرنے کہ یہ مادی سرگرمیوں سے کیوں منتج ہوتی ہیں، ناکام ہی رہے گی۔

یہاں تک کہ اگر ، اب سے دس سال بعد ، شعور کے لئے ایک نیا سائنسی نظریہ یا حیاتیاتی وضاحت آ جاتی ہے ، تو یہ پھر بھی  طے نہیں کرسکے گی کہ کسی شخص کا داخلی و ذہنی تجربہ کرنا کیساا ہے ، یا وہ مخصوص داخلی تجربہ مادی اعمال سے ہی کیوں نکلا ہے؟ داخلی شعوری تجربہ، سائنسی وضاحت کے دائرہ سے باہر ہے۔ مذکورہ بالا کی روشنی میں ، شعور کی وضاحت کرنے کی مادہ پرستی کی کوششیں مکمل طور پر ناکام ہو جاتی ہیں۔ اعصابی نفسیات دان جان سی اِکلس[20] اس ناکامی کا خلاصہ کمال خوب صورتی سے بیان کرتا ہے: “میرا موقف ہے کہ انسانی تجسس کو سائنسی تخفیفیت نے اپنے اقراری مادہ پرستی میں یقین کے دعوے کے ساتھ بے حد ذلیل کر کے رکھ دیا ہے…”[xxxix]

غیر مادی نقطہ ہائے نظر

اس نقطہ نظر کے ماننے والے تسلیم کرتے ہیں کہ مادے سے ماوراء بھی حقائق ہیں۔ یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس کو اسلام اور الحاد عمومی طور پر تسلیم کرتا ہے۔ ہم مادہ اور توانائی سے زیادہ ہیں؛ ہماری وجود کا ایک روحانی حصہ ہے۔ تاہم، ان میں بہت سے اسلوب شعور کی تعریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں بغیر خدا کی وجود کو تسلیم کیے یا سہارا لیے ہوئے۔

‘وہ مختلف ہیں، لیکن کیوں، یہ ہم نہیں جانتے’: مادی دوہرا پن

مادی دوہرا پن یہ نقطہ نظر ہے کہ دو مختلف اشیاء ہیں: ایک مادی اور دوسری غیر مادی۔ یہ اشیاء بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ایک دوسرے سے بے نیاز ہیں۔ ہماری بحث کے ضمن میں، مادہ دوہرا پن کا موقف ہے کہ دماغ اور شعور مختلف ہیں اور ایک ہی چیز سے نہیں ہیں؛ ایک مادی ہے اور دوسری غیر مادی، لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔ شعور کی یہ وضاحت بہت وجدانی ہے، ہماری روزمرہ کی تجربات کی رو سے قابل فہم ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں اس بات کا تجربہ ہوتا ہے کہ شعوری حالتیں مادی حالتوں کا سبب بنتی ہیں اور مادی حالتیں شعوری حالتوں کا۔ اگر مجھے غم کا  داخلی تجربہ ہو تو یہ رونے یا منہ لٹکانے کی مادی حالت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر میں اپنا سر کسی چیز سے ٹکرا بیٹھوں، تو مجھے درد کا داخلی تجربہ محسوس ہو گا۔

مادی دوہرا پن پر اہم ترین اعتراض یہ ہے کہ چونکہ شعوری حالتیں اور دماغ کلیدی طور پر مختلف ہیں، تو یہ جاننا ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے سے تعامل کیسے کرتے ہیں۔ اس کو تعاملاتی مسئلہ(interactionist  problem) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ کچھ فلسفیوں کے بقول اس کی کوئی مربوط وضاحت نہیں ہے کہ مادی دماغ اور غیر مادی شعور کیوں اور کیونکر باہمی تعامل کرتے ہیں۔[xl] تاہم یہ اس غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ اگر ہم یہ نہیں جانتے کہ ‘الف’ ‘ب’ کا سبب کیسے بنتا ہے تو پھر ہم یہ ماننے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ ‘الف’ ‘ب’ کا سبب بنتا ہے۔ تاہم ایسے بہت سے سببی تعاملات ہیں جن میں ہم یہ جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کا سبب بنتا ہے، یہ جانے بغیر کہ کیسے۔

اگرچہ بادی النظر میں مادی دوہرا پن الٰہیاتی متبادل کا بڑا طاقت ور مقابل ہے، لیکن اگر مادی دوہرے پن کو کسی غیر الٰہی پس منظر میں لیا جائے، تو یہ کچھ بنیادی سوالات کا جواب دینے سے قاصر رہ جاتا ہے: ‘غیر مادی شے کہاں سے آئی؟ یہ مادی کائنات میں کیسے رہ لیتی ہے؟’چنانچہ الٰہیاتی وضاحت اس بات کی ایک بہتروضاحت پیش کرتا ہے کہ کیسے مادی دماغ اور غیر مادی شعور باہم تعامل کرتے ہیں۔

‘یہ ایک خوش بخت حادثہ ہے’: ضمنی علامتیت

اس نظریے کے مطابق شعوری حالتیں مادی حالتوں سے مختلف ہیں، اور مادی حالتیں شعوری حالتوں کا سبب بنتی ہیں، لیکن اس کے برعکس نہیں ہوتا۔ اس طرح شعوری حالتیں سببی طور پر بے بس ہیں۔ ضمنی علامتیت کے رد میں مشہور اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر یہ سچا ہے تو گرم شعلے کی وجہ سے میرے ہاتھ میں درد کا احساس (شعوری حالت) میرے ہاتھ کو دور ہٹا نے (مادی حالت) میں کوئی سببی کردار ادا نہیں کرتا۔ ایک دوسری مثال یہ ہے کہ اگر آپ کو، کسی سر پھرے نشئی کا آپ پر ایک شکستہ جام پھینکنے کا، بدقسمت تجربہ ہوا، تو یہ تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو، بوتل کو اپنی طرف آتا دیکھ کر خوف کا شعوری تجربے کا سامنا ہو، لیکن خوف کے اس احساس سے آپ اپنے آپ کو بچانے کی خاطر کوئی حرکت کرنے پر متحرک نہیں ہوں گے؛ آپ کی دفاعی حرکت کسی اتفاقی حادثے کی وجہ سے ہو گی۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں داخلی شعوری حالتوں کی وجہ سے جسمانی (مادی) رد عمل کا تجربہ ہوتا ہے اور مادی اسباب کی وجہ سے ہم داخلی احساسات کے تجربات سے بھی دوچار ہوتے ہیں۔ اگر ضمنی علامتیت درست ہوتی، تو انسانی نفسیات تباہی میں ہوتیں۔

‘ہر چیز باشعور ہے’: ہمہ نفسیت

ہمہ نفسیت کسی حد تک مادی دوہرا پن سے ملتا جلتا نظریہ ہے، جو کہتا ہے کہ )مادی) شے ایک ہوتی ہے لیکن خصوصیات دو ہوتی ہیں (مادی اور غیر مادی یا داخلی شعوری خصوصیات)۔ ہمہ نفسیت کا موقف ہے کہ مادے میں ایک قسم کا داخلی شعور شامل ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق شعور کائنات کی ایک جبلی خصوصیت ہے اور یہ ایک سببی کردار ادا کرتا ہے۔ ہمہ نفسیت کے پرچارکوں میں ڈیوڈ چالمرز اور تھامس نیجل[21] شامل ہیں۔ چونکہ مادے کا ہر جزو اپنے اندر شعور رکھتا ہے، لہٰذا دماغ کا شعور محض ان شعوری اجزاء کا اکٹھ ہے۔ ہمہ نفسیت کی ایک شاخ کا کہنا ہے کہ تمام مادہ اسی طرح باشعور ہے جس طرح انسان ہے۔ دوسری قسموں کا کہنا ہے کہ مادے میں موجود شعور اپنی بنیادی حالت میں ہے، جس کو شعورِ ابتدائی بھی کہا جاتا ہے۔

ہمہ نفسیت میں بہت سے مسائل ہیں۔ اولاً، اس دعوے کے لئے شہادت دستیاب نہیں ہے کہ مادے میں داخلی شعور ہے۔ پروٹون، الیکٹرون، کوارک اور ایٹم داخلی طور پر باشعور ہونے کی کوئی نشانی ظاہر نہیں کرتے۔[xli] ثانیاً، یہ نقطہ نظر اس بات کی کوئی مناسب طبیعیاتی یا مابعد الطبیعیاتی وضاحت دینے سے قاصر ہے کہ مادہ اپنے اندر شعور کس طرح رکھتا ہے۔  شعور کی خاصیت کہاں سے آئی؟ مادہ کس طرح یہ داخلی شعوری خصوصیت رکھتا ہے؟ ہمہ نفسیتی کی ان سوالوں کے جواب دینے میں ناکامی، ہر قسم کی طبیعیاتی و مابعد الطبیعیاتی وضاحت کی وقعت گھٹا دیتی ہے۔ ثالثاً، کسی زندہ جسم سے باہر شعور کے وجود کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ مثال کے طور پر کسی نفس یا کسی “میری ذات” سے باہر درد کا کیا مطلب ہے؟ کسی سوچنے والے کے بغیر کسی خیال کے شعور میں ہونے کا کیا مطلب ہے؟ یہ سوالات ٹھوس انداز میں بتاتے ہیں کہ شعور صرف کسی منظم باشعور ذی روح ہستی کے ساتھ ہی قابل فہم ہے، جو داخلی حالتوں کی ایک قطار کے تجربے سے دوچار ہو۔ رابعاً ،کس طرح ایک متحد و منظم شعوری تجربہ، مادے کے بہت سے ایسے اجزاء سے جنم لے سکتا ہے جو سارے الگ الگ شعور رکھتے ہوں؟کس طرح مادے کے ایسے ذرات جو خود مختار طور پر شعور کی خوبی رکھتے ہوں، وہ سارے جمع ہو کر ایک با مقصد، متحد و منظم شعوری طاقت تشکیل دیتے ہیں؟ پروفیسر ایڈورڈ فسر[22] ایک اکلوتے شعوری تجربے کے متحدہ مطلب پر تبصرہ کرتے ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ہمارے تجربات بہت سے مختلف باشعور اجزاء کا محض ایک مجموعہ نہیں ہیں؛ ہماری تجربات کا ایک متحدہ احساس ہوتا ہے۔ وہ اپنا مسئلہ ایک کتاب کے مطالعے کے شعوری تجربے کے مثال کے ساتھ پیش کرتا ہے:

“اس تجربے کی ایک متحد و منظم اہمیت یا معنی ہے، اور اہمیت ایک واحد تجرباتی موضوع کے لئے۔ آپ نہ صرف شکل، ساخت، رنگوں وغیرہ سے جدا جدا اجزاء کے طور پر آگاہ ہوتے ہیں، بلکہ ان کا بطور کتاب بھی ادراک رکھتے ہیں؛ اور یہ آپ ہیں جو ان سے آگاہ ہیں، نہ کہ بے ہنگم اعصابی وقوعات جو کسی نہ کسی طرح کتاب کے کسی ایک پہلو سے جدا جدا ‘واقف’ ہوں۔ “[xlii]

جو علمی مباحث اور نقطہ ہائے نظر اوپر خلاصتاً بیان ہوئے ہیں، ان پر بہت وسیع و عریض علمی بحثیں ہیں۔ تاہم، اصل مقصد ان نظریات کا مختصر تعارف کرنا تھا اور ساتھ ساتھ ان پر کچھ تنقید بھی تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ داخلی شعور کی وضاحت میں ان کی کوششیں الٰہیاتی وضاحت کے مقابلے میں کوئی قابل قدر وقعت نہیں رکھتیں۔

اللہ تعالیٰ ہی بہترین جواب ہے

ناکام کوششوں کے تناظر میں ہم اپنی داخلی ذاتی تجربات کی کیسے وضاحت کرتے ہیں؟ الٰہیاتی نقطہ نظر مناسب ترین وضاحت پیش کرتا ہے۔ یہ کہنا سب سے زیادہ معقول ہے کہ ایک سب کچھ جاننے والی، باشعوروبامقصد اور ارادہ و ارادہ و عمل کی طاقت سے لیس ہستی ہی تمام تر شعور کا منبع ہے۔ ذیل میں تین اہم وجوہات پیش کی جا رہی ہیں کہ کیسے اللہ تعالیٰ ہی بہترین جواب ہے۔

اولاً، یہ ایک ایسے سوال کا جواب دیتا ہے جس کا جواب کسی بھی موجودہ نظریے نے نہیں دیا: ‘شعور کا منبع اولیٰ کیا ہے؟’ پروفیسر جے پی مورلینڈ[23] اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کیسے یہ قدرتی مادی سلسلہ اعمال سے نہیں آ سکتا۔ “قدرتی دنیا کے بارے میں ہماری معلومات ہمیں اس بات پر یقین نہ کرنے کے لئے ایسی ٹھوس وجوہات فراہم کرتا ہے کہ ناقابل تحویل شعور اس میں جنم لے سکتا ہے، مثال کے طور پر، بے جان مادی اجزاء کو مختلف مکانی ساختوں میں ترتیب نو دینا کسی بھی طرح شعور کی نموداری کی وضاحت کے لئے معقول نظر نہیں آتا۔ “[xliii]

اگر مادہ اور شعور مختلف ہیں، تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ شعور مادے سے نمودار نہیں ہو سکتا۔ تاہم، اگر مادے میں شعوری خصوصیات ہیں، تو پھر یہ خوبی کیسے مجتمع اور متحد ہوتی ہے؟ ہمیں یہ وجودی سوالات پوچھنے ہیں کیونکہ شعور مادی اشیاء سے بہت مختلف ہے۔ اس حقیقت کی وضاحت کے لئے کہ داخلی شعوری تجربات کا وجود ہے، لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ایک با خبر اور باشعور ہستی کی حیثیت سے شعور کی تخلیق فرمائی ہو۔ چنانچہ اسلامی الٰہیات معقول ترین جواب فراہم کرتا ہے۔ مورلینڈ کہتا ہے کہ شعور کی مادہ پرستانہ اور مادی اعتقادی وضاحت کی کوشش کرنے والوں کے پاس “… کائنات میں ناقابل تحویل، حقیقی ذہنی خصوصیات/وقوعات کے ظہور میں آنے کی کوئی معقول طرز وضاحت نہیں ہے … بمقابل پر مغز الٰہیاتی وضاحتی ذرائع کے…”[xliv]

ثانیاً، اسلامی الٰہیات اس بات کا بھی جواب دیتی ہے کہ شعور اس مادی دنیا میں آیا کس طرح۔ عام طور پر لوگ اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ کس طرح غیر مادی وجودات جیسے کہ روح، اس مادی دنیا ،جیسے کہ انسانوں اور جانوروں کے جسموں کے ساتھ باہم تعامل اور درحقیقت، قابو کر سکتی ہیں۔ تاہم، الٰہیاتی نقطہ نظر اس کی بہت فطری وضاحت پیش کرتا ہے۔ خدا کا مفصل ارادہ اور الٰہی عمل ایک ایسی دنیا تشکیل دیتے ہیں کہ جہاں مادی اور غیر مادی باہم تعامل کرتے ہیں۔ چارلس ٹیلیا فیرو کہتا ہے:

“لیکن شعور کی ایک الٰہیاتی تفہیم میں، شعور کے رونما ہونے کے پیچھے خدا کی کوئی جادو کی چھڑی یا مجرد معجزاتی عمل نہیں ہے۔ شعور اس مادی کائنات سے ہی خدا کے اس ارادے سے نمودار ہوتی ہے کہ مادی اور غیر مادی اشیاء، خصوصیات، اور تعلقات کی ایک دنیا ہو گی۔ مادہ، توانائی، شعور، زمان-مکان کے قوانین، مختصراً سبھی کچھ ایک زبردست الٰہی عمل سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ “[xlv]

شعور کے غیر الٰہیاتی نقطہ ہائے نظر کے مطابق، ایسا لگتا ہے کہ شعور معجزاتی طور پر بغیر کسی مناسب مادی وضاحت کے عالم وجود میں آ گیا تھا۔ لیکن الٰہیاتی نقطہ نظر کو اس مشکل کا سامنا نہیں ہوتا کیونکہ شعور کے ظہور کو حقیقت کے جزو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ چونکہ خدا باشعور، الحی القیوم اور العلیم ہے، لہٰذا یہ مناسب ہے کہ جو دنیا اس نے تخلیق فرمائی، اس میں ایسے نفوس بھی ہیں جن کو اپنے وجود کا ایک شعوری ادراک ہے۔ ٹیلیا فیرو ملخص نتیجہ پیش کرتا ہے۔

“کائنات کو ایک ٹھیٹھ مادہ پرستانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے، تو شعور کا وجود میں آنا بہت عجیب لگتا ہے؛ یہ یوں دعویٰ کرنے کے مانند ہے کہ ‘پھر ایک معجزہ ہوتا ہے۔ ‘ لیکن ایک الٰہیاتی نقطہ نظر سے، شعور کا وجود میں آنا، حقیقت کی اپنی فطرت ہی میں پیوستہ ہے۔ جانوروں اور انسانوں کے شعور کی تخلیق کوئی غیر مربوط معجزہ نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت کے بنیادی ڈھانچے کا پرتو ہے۔ “[xlvi]

اسلامی الٰہیات غیر مادی ذہن اور مادی دماغی حالتوں کے درمیان تعلق کی وضاحت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے اور قدرت نے اس تعلق کو قائم ہونے کی طاقت بخشی، کیونکہ یہ تعلق اس حقیقت کا جزو لاینفک ہے, جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمائی ہے۔ سیدھی بات ہے، اگر کائنات کے آغاز میں، صرف مادہ ہی ہوتا، تو پھر کم از کم شعور تو کبھی نہ وجود میں آتا۔ تاہم، اگر ابتائے آفرینش اگر ایک قسم کے شعور نے اس مادی دنیا کو تخلیق بخشی ہو، تو پھر غیر مادی ذہنی کیفیتوں اور مادی دماغ کے مابین تعلق آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔

ثالثاً، اسلامی الٰہیات داخلی شعوری تجربات سے دوچار ہونے کی ہماری صلاحیت کی وضاحت کرتا ہے۔ اور اس بات کی بھی کہ ہمیں ایک ادراک ہے کہ ہمارے جیسا ہونے، چکھنے، سننے اور ساخت کے تجربات کا احساس کیسا ہوتا ہے۔ چونکہ کائنات ایک الحی القیوم، العلیم ہستی کا تخلیق کردہ ہے، اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ہمیں اپنی داخلی ذاتی حالتوں سے آگاہ ہونے کی صلاحیت بخشی گئی ہے:

” اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔”[xlvii]

” وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے۔”[xlviii]

شعور کے ظہور کے لئے اسلامی الٰہیات کے پاس حریف وضاحتوں کے مقابلے میں وضاحت کی بہتر قوت ہے۔ میں یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ میں اعصابی متعلقات کا کھوج لگانے میں حیاتیاتی وضاحتوں کی افادیت کا انکار نہیں کر رہا۔ علم الاعصاب، ایک توحید پرستانہ سیاق و سباق میں بھی ایسے ہی بھرپور اور نتیجہ خیز انداز میں جاری رہ سکتا ہے۔

میں جس بات کی وکالت کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ الٰہیات کو بطور بنیاد استعمال کیا جائے تاکہ وہ مسئلہ بھی حل ہو جائے، جو اس بنیاد کی غیر موجودگی میں نہیں ہو رہا۔ علم الاعصاب کے تجربات، الٰہیاتی پس منظر میں بھی اتنی ہی شدت و وسعت اور افادیت کے ساتھ عمل میں لائے جا سکتے ہیں۔ اس کی رو سے میرا نقطہ نظر ایک طرح سے دوہریت کا مدعی ہے؛ جس کو الٰہیاتی دوہرا پن کہا جا سکتا ہے۔ الٰہیاتی دوہرے پن میں، علم الاعصاب کو مسترد نہیں کیا جاتا، اور تمام تحقیقاتی منصوبے اس موضوع پر اپنے حیران کن نتائج کی فراہمی جاری رکھ سکتے ہیں۔ تاہم، الٰہیاتی دوہرا پن ایک مابعد الطبیعیاتی مضمون ہے، جو ایک مبسوط وضاحت پیش کرتا ہے۔ پروفیسر ٹیلیا فیرو ایک ایسا ہی نقطہ نظر پیش کرتا ہے:

”مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ دماغی علوم کیوں نفسیاتی-جسمانی تعلقات پر اپنے مطالعے جاری نہیں رکھ سکتے۔ دماغی حالتوں کے ساتھ شعور کو مابعد الطبیعیاتی طور پر سمجھنے میں ناکامی سے تعلقات کے مطالعے کو، لمحہ بھر کے بھی نہیں روکتی۔ مزید برآں ایک شخص دوہریت پسند ہو سکتا ہے اور شعور اور دماغی حالتوں کو شخص اور جسم کے طور پر دیکھ سکتا ہے، بطور عملی اکائیوں کے، یہ فرض کیے بغیر کہ وجودی طور پر صرف ایک قسم کی چیز روبہ عمل ہے۔ ذہن-جسم (یا جیسے میں اس کو کہنا پسند کرتا ہوں، تعاملاتی) دوہرا پن وجودیت کا ایک مضمون ہے … تعاملاتی دوہرا پن کوئی سائنسی مفروضہ نہیں ہے کہ جس کو سائنسی دعوؤں کا سامنا کرنا پڑے۔ “[xlix]

داخلی شعوری تجربے کے وجود اور ظہور پذیر ہونے کی وضاحت کے لئے اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر مستزاد، شعور کا مسئلہ سنگین اور داخلی ذاتی شعور کا وجود واضح طور پر ایک باخبر ہستی کا پتہ دیتے ہیں جس نے کائنات کی تخلیق فرمائی اور آپ کو اور مجھے اپنی داخلی شعوری کیفیتوں کے ادراک کی صلاحیت بخشی۔

روح کے متعلق کچھ جاننا ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے

مسلم قارئین بجا طور پر سوال کریں گے کہ کیا یہ دلیل اسلامی الٰہیات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ عام اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ قرآن واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ روح (یعنی جان، روح، شعور، یا وہ چیز جو جسم کو حرکت دیتی ہے) اللہ کے حکم یا معاملہ سے ہے اور انسان کو اس کے بارے میں بہت محدود علم ہی دیا گیا ہے۔ چنانچہ ہمیں اس موضوع پر خاموشی اختیار کیے رکھنی چاہیئے۔

“اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے۔”[l]

اس الٰہیاتی تضاد کو حل کرنے کے لئے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ آیت شعور یا روح کی ماہیت سے متعلق ہے، نہ کہ اس کے وجود سے۔ یہ آیت توثیق کرتی ہے کہ کوئی غیر مادی شے جسم کو حرکت میں لاتی ہے – بالفاظ دیگر، روح یا شعور۔ یہ عین وہی چیز ہے جس کو اس باب میں بطور دلیل بیان کیا گیا ہے: کہ شعور کے وجود کو صرف ایک غیر مادی تصور حیات کے سہارے سے ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ باب کوئی چیز اس سے زائد بیان نہیں کر رہا ،جو کچھ پہلے ہی اسلامی ذرائع علمی میں بیان ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ روح ہماری مادی کائنات سے مختلف ہے، یہ کہ یہ جسم کو حرکت کی قوت بخشتی ہے اور یہ کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمائی ہے۔ چنانچہ یہاں پیش کی گئی کوئی دلیل، اصلی اسلامی تعلیمات کی ضد میں نہیں ہے۔

خلاصتاً، میرا ماننا ہے کہ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نفس میں غور کرنے کا حکم دیتا ہے، اور ایسا کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اگر کوئی رب نہ ہوتا، تو پھر ہم کوئی داخلی شعور و ادراک کا تجربہ نہ کر پاتے – بالفاظ دیگر، اللہ رب العالمین کا انکار کرتے ہوئے، ہم اپنے آپ کا انکار کر بیٹھتے ہیں!

کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور نہیں کیا؟[li]


[1] The hard problem of consciousness

[2] Daniel Bor

[3] Christof Koch; Consciousness: Confessions of a Romantic Reductionist

[4] David Chalmers

[5] Torin Alter

[6] The Character of Consciousness by David Chalmers

[7] Antti Revonsuo

[8] Ricardo Manzotti and Paolo Moderato

[9] Frank Jackson

[10] Brian Loar

[11] Patricia Churchland

[12] Daniel Dennet

[13] Consciousness Explained

[14] Antti Revonsuo

[15] Consciousness: The Science of Subjectivity

[16] Consciousness Explained

[17] Consciousness Explained Away

[18] ‘The science of mean kinetic energy of molecules’

[19] David Lund

[20] John C. Eccles

[21] David Chalmers and Thomas Nagel

[22] Edward Feser

[23] J. P. Moreland


[i] New Scientist: The Collection. The Big Questions. Vol I, Issue I, p. 51.                              

                       [ii] Koch, C. (2012). Consciousness: Confessions of a Romantic Reductionist. Cambridge, Massachusetts: MIT Press, pp. 23-24.

        [iii] Chalmers, D. (2010). The Character of Consciousness. Oxford: Oxford University Press, p. 5.

    [iv] Alter, T. (2014). Hard Problem of Consciousness. In: Bayne, T., Cleeremans, A., and Wilken, P. (ed.). The Oxford Companion to Consciousness. Oxford: Oxford University Press, p. 340.

       [v] The following 5 points have been taken and adapted from Chalmers, D. (2010) The Character of Consciousness, pp. 11-13.

            [vi] Discover Magazine. (2016). What is Consciousness? | DiscoverMagazine.com. Available at: http://discovermagazine.com/1992/nov/whatisconsciousn149. [Accessed 1st October 2016].

               [vii] Revonsuo. A. (2010). Consciousness: The Science of Subjectivity. Hove, East Sussex: Psychology Press, p. 202.

                 [viii] Manzoti, R. and Moderato, P. (2014). Neuroscience: Dualism in Disguise. In: Lavazza, A. and Robinson, H. (ed.). Contemporary Dualism: A Defense. Abingdon: Routledge, p. 82.

[ix] Ibid.                                                                                                                                                               

[x] Chalmers, D. (2010). The Character of Consciousness, p. 105.                                              

[xi] Levine, J. (2011). The Explanatory Gap. In: Bayne, T., Cleeremans, A., and Wilken, P. (ed.). The Oxford Companion to Consciousness. Oxford: Oxford University Press, p. 280.

  [xii] Stoljar, D. (2016). “Physicalism”, The Stanford Encyclopedia of Philosophy. Edward N. Zalta (ed.). Available at: http://plato.stanford.edu/archives/spr2016/entries/physicalism [Accessed 4th October 2016].

        [xiii] Jackson, F. (1986). What Mary Didn’t Know. The Journal of Philosophy, 83, 5, pp. 291-295.

[xiv] Chalmers, D. (2010). The Character of Consciousness, p. 108.                                              

[xv] Ibid, p. 109.                                                                                                                                                

    [xvi] Loar, Brian. (1997). “Phenomenal Consciousness”, in The Nature of Consciousness: Philosophical Debates. ed. by Ned Block et al. Cambridge, Massachusetts: MIT Press.

               [xvii] The above discussion has been taken and adapted from the relevant lecture and seminar discussion that was held during my postgraduate degree (Masters in Philosophy). Patterson, S. (2016). Week 6: Responses to the Modal and Knowledge Arguments. Lecture notes distributed in Philosophy of Mind at Birkbeck College, University of London on 16th November 2016.

        [xviii] Tye, Michael. (2009). Consciousness Revisited: Materialism without Phenomenal Concepts. Cambridge, Massachusetts: MIT Press, pp. 49-51.

 [xix] Demircioglu, Erhan. (2013). “Physicalism and Phenomenal Concepts.” Philosophical Studies: An International Journal for Philosophy in the Analytic Tradition, 165, 1.

[xx] Polcyn, Karol. (2007) “Brian Loar on Physicalism and Phenomenal Concepts.”               Diametros, 11, pp. 10-39.

  [xxi] Chalmers, D. (2007). Phenomenal Consciousness and the Explanatory Gap. In: Alter, T. and Walter, S. (ed). Phenomenal Concepts and Phenomenal Knowledge: New Essays on Consciousness and Physicalism. New York: Oxford University Press.A version of this essay can be found online at: http://consc.net/papers/pceg.pdf [Accessed 21st November 2016].

[xxii] Chalmers, D. (2010). The Character of Consciousness, p. 111.                                              

      [xxiii] Churchland, P. (1988). Matter and Consciousness: A Contemporary Introduction to the Philosophy of the Mind. Cambridge: MIT Press, pp. 43-39.

[xxiv] Ibid.                                                                                                                                                              

[xxv] Ibid.                                                                                                                                                               

[xxvi] Revonsuo, A. (2010). Consciousness: The Science of Subjectivity, pp. 180-181.           

[xxvii] Ibid, p. 21.                                                                                                                                                  

[xxviii] Ibid, p. 22.                                                                                                                                                    

[xxix] Ibid, p. 24.                                                                                                                                                   

        [xxx] Lund, D. (2014) Materialism, Dualism and the Conscious Self. In: Lavazza, A. and Robinson, H. (ed.). Contemporary Dualism: A Defense. Abingdon: Routledge, p. 57.

      [xxxi] Solomon, R. (2005). Introducing Philosophy: A Text with Integrated Readings. 8th Edition. Oxford: Oxford University Press, p. 416.

      [xxxii] Block, N. (1980). Troubles with Functionalism. In: Block, N. (ed.). Readings in the Philosophy of Psychology. Cambridge, MA: Harvard University Press. Vol 1, pp. 268-205.

[xxxiii] Van Gulick, R. (2008). Functionalism and Qualia. In: Velmans, M. and Schneider, S.    (ed.). The Blackwell Companion to Consciousness. Oxford: Blackwell Publishing, p. 381.

[xxxiv] Revonsuo, A. (2010). Consciousness: The Science of Subjectivity, p. 39.                          

[xxxv] Ibid, p. 26.                                                                                                                                                    

[xxxvi] Ibid, pp. 29-30.                                                                                                                                          

[xxxvii] Ibid, p. 30.                                                                                                                                                   

[xxxviii] Sober, E. (2010). Empiricism. In: Psillos, S. and Curd, M. The Routledge Companion   to Philosophy of Science, pp. 137-138.

                     [xxxix] Eccles, J. C. (1989). Evolution of the Brain, Creation of the Self. Abingdon: Routledge, p. 241.

Edition. Boulder, CO: Westview Press, p   [xl] Sober, E. (2000). Philosophy of Biology. 2nd  24.

                     [xli] Seager, W. and Allen-Hermanson, S. (2015). “Panpsychism”, The Stanford Encyclopedia of Philosophy (Fall 2015 Edition), Edward N. Zalta (ed.). Available online at: http://plato.stanford.edu/archives/fall2015/entries/panpsychism/.

[xlii] Feser, E. (2006). The Philosophy of Mind. Oxford: OneWorld, p. 138.                                

                    [xliii] Moreland, J. P. (2008). Consciousness and the Existence of God: A Theistic Argument. Abingdon: Routledge, p. 35.

[xliv] Ibid, p. 192.                                                                                                                                                

[xlv] Taliaferro, C. (2006). Naturalism and the Mind. In: Craig, W. L. and. Moreland, J. P.     (ed.). Naturalism: A Critical Analysis. Abingdon: Routledge, pp. 148-9.

[xlvi] Ibid p. 150.                                                                                                                                                 

[xlvii]  سورت بقرہ، آیت 255

[xlviii]  سورت الملک۔ آیت 14

                 [xlix] Taliaferro, C. (2014). The Promise and Sensibility of Integrative Dualism. In: Lavazza, A. and Robinson, H. (ed.). Contemporary Dualism: A Defense. Abingdon: Routledge, pp. 202-203.

[l]  سورت الاسراء، آیت 85

[li]  سورت الروم، آیت 8

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password