وحدانیت خداوندی [Divine -Singularity: The -Oneness -of-God]

.

.

تصور کیجئے کہ آپ ایک مہم جو ہیں، جو ایک خلائی جہاز کے ذریعے کسی دوسرے سیارے پر انسان نما مخلوقات سے ملنے گئے ہیں۔ جیسے آپ اس سیارے پر اتر پڑتے ہیں، تو آپ اپنے رہبر سے ملتے ہیں۔ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کا جہاز سافِنگا پر اتر پڑا ہے جو اس سیارے کا بے سرحد ملک ہے۔ آپ تذبذب کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے رہبر سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس سیارے پر اور بھی ملک ہیں۔ وہ آہ بھر کر کہتا ہے، ہاں، دو ہیں۔ آپ جواباً پوچھتے ہیں “اچھا تو آپ یہ کیسے جانتے ہیں کہ آپ دوسرے ملک میں آ گئے ہیں، اگر فرق واضح کرنے والی کوئی چیز ہی نہیں ہے؟” آپ کا رہبر آہ بھر کر کہتا ہے، “جی ہمیں یہی مسئلہ درپیش ہے۔ ملکوں کی کوئی حد بندی نہیں ہے اور ایک ملک کی خصوصیات دوسرے ملک سے ملتی جلتی ہیں۔ ” آخر کار آپ گفتگو کو یہ کہتے ہوئے ختم کرتے ہیں کہ، “آپ کو چاہیئے کہ ان دونوں کو ایک ہی ملک بنا دیں، کیونکہ یہ مجھے ایسا لگتا ہے۔ “

آپ اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور  کھانے کی دعوت پر، سرکاری افسروں کی ایک جماعت سے ملنے جاتے ہیں۔ کھانے کے دوران ایک افسر ملک کے بادشاہوں کی تعریف بیان کرتا ہے۔ اس کی بات سن کر آپ شائستگی سے پوچھتے ہیں، “آپ کا مطلب ہے، کہ ایک سے زیادہ بادشاہ ہیں؟” وہ افسر جواب دیتا ہے، “جی، ہمارے دو بادشاہ ہیں۔ ” آپ الجھن میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ملک دو بادشاہوں کے ساتھ کیسے چلتا ہے۔ “آپ اپنے قوانین میں ہم آہنگی اور معاشرے میں نظم و ضبط کیسے حاصل کرتے ہیں؟” افسر کہتا ہے، “جی وہ ہمیشہ اتفاق رکھتے ہیں۔ ان کی خواہشات ایک ہیں۔ ” آپ اپنے آپ کو روک نہیں پاتے اور جوباً کہتے ہیں، “خوب، دراصل پھر آپ کے بادشاہ دو نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ ایک ہی ارادے کے تحت چل رہے ہیں۔ “

اس کہانی میں ان پانچ میں سے تین دلائل شامل ہیں جو میں اس حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے پیش کروں گا کہ صرف ایک خدا کا وجود ہی ممکن اور لازم ہے۔  کہانی کا پہل حصہ ایک دلیل کا خلاصہ کرتا ہے جس کو میں “تصوراتی اختلاف(conceptual  differentiation)” کہتا ہوں۔ یہ کہتا ہے کہ کثرت کے وجود ہی کے لئے کچھ ایسے تصورات ہونے چاہئیں، جو ایک چیز کو دوسری سے ممتاز کرے۔ مثال کے طور پر، اگر میں کہوں کہ ٹوکری میں دو کیلے ہیں، تو آپ ان کے مشاہدے کے ذریعے اس جملے کی توثیق کرنے کے قابل ہوں گے۔ آپ کے دو کیلے دیکھ پانے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے تصورات ہیں جو ان میں فرق واضح کرتے ہیں؛ مثال کے طور پر، ان کی جسامت، شکل اور ٹوکری میں ان کا محل وقوع۔ تاہم اگر ان کے درمیان کوئی چیز فرق کرنے والی نہ ہوتی، تو آپ ان کے مابین فرق نہ کر پاتے۔ اسی طرح، چونکہ اب تک اس کتاب نے یہ کہا ہے کہ ایک لازمی، غیر مخلوق خالق ہے جو قدیر، علیم، اور ماوراء ہے۔ پھراس کے بعد یہ کہنا کہ دو ہیں، ایک ایسے تصور کی ضرورت پیدا کرے گی جو ان دونوں میں فرق کرے۔ لیکن خالق کو خالق ہونے کے لئے ان صفات کا حامل ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا ایک دوسرے سے مختلف ہوئے بنا یہ کہنا کہ دو ہیں، بنیادی طور پر یہی کہنا ہے کہ ایک ہی خالق ہے۔ اگر صورت یہ ہے کہ جو بات ایک خالق کے لئے درست ہے وہ دوسرے کے لئے بھی بعینہ درست ہو، تو پھر ہم نے صرف ایک ہی خالق کو پہچانا ہے نہ کہ دو۔

کہانی کا دوسرا حصہ  دلیلِ استثناء اور تعریف کی دلیل دونوں کا خلاصہ پیش کرتا ہے۔ استثنا کی دلیل یہ ہے کہ صرف ایک ارادۂ الٰہی کا وجود ممکن ہے۔ اگر دو خالق ہوتے اور ان میں سے ایک درخت بنانا چاہتا اور دوسرے کی خواہش یہ نہ ہوتی، تو ایسی حالت میں تین صورتیں ممکن ہوتیں۔ پہلی صورت یہ کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ارادوں کو منسوخ کر دیتے؛ یہ کوئی معقو ل امکان نہیں ہو گا کیونکہ مخلوق موجود ہے، کیونکہ اگر وہ ہر دفعہ ایک دوسرے کے ارادے کو کامیابی سے منسوخ کر ڈالتے تو آج کسی مخلوق کا وجود نہ ہوتا۔ دوسری صورت یہ ہوتی کہ ان میں سے ایک دوسرے پر غالب آ جاتا اور نتیجتاً اپنا درخت بنا ڈالتا۔ تیسری صورت یہ کہ وہ دونوں ایک ہی درخت کو ایک ہی طرح پر بنا لینے پر راضی ہو جاتے۔ دوسری اور تیسری صورتوں کا مطلب یہ ہوتا کہ صرف ایک ارادہ ہے اور ہماری بحث میں ایک ارادہ کا مطلب صرف ایک خالق کی نشانی ہے۔

تعریف کی دلیل یہ ہے کہ ایک سے زیادہ خالق نہیں ہو سکتے۔ اگر ایک سے زیادہ خالق ہوتے تو کائنات میں یہ ہم آہنگی نہ ہوتی جو آج دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ کتاب خدا کے وجود کے حق میں دلائل دینے کے ساتھ ساتھ خدا کے روایتی تصور کی دلیل بھی دیتی ہے۔ چونکہ روایتی تصور خدا کی وضاحت یوں کرتا ہے کہ اس کے پاس ارادہ کی تنفیذ کی بے پناہ قوت و طاقت ہے جس کو اس کے ذات سے خارج کی کوئی چیز روک نہیں سکتی۔ چنانچہ یہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ دو لا متناہی ارادوں کا وجود نہیں ہو سکتا۔

اس باب میں ان دلائل کی تفصیل آئے گی اور دو مزید دلائل بھی پیش کیے جائیں گے کہ خالق ایک اکیلا ہی ہونا چاہیئے۔

  • استثنا کی دلیل
  • تفہیمی اختلاف
  • اوکام کا استرا
  • تعریف سے دلیل
  • وحی سے دلیل

استثناء کی دلیل

اس دلیل کا کہنا ہے کہ کئی خالقوں کا وجود ممکن نہیں ہے کیونکہ ارادہ صرف ایک ہو سکتا ہے۔ ہم پہلے ہی (باب نمبر 5 میں) یہ وضاحت کر آئے ہیں کہ خالق کا کوئی ارادہ ضرور ہونا چاہیئے، لہٰذا یہ سوال کرنا کہ کتنے ارادے موجود ہو سکتے ہیں، ہمیں اس دلیل کی تفصیل میں جانے کا راستہ دیتا ہے۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ دو خالق تھے۔ خالق الف ایک پتھر کو حرکت دینا چاہتا ہے، اور خالق ب بھی اسی پتھر کو حرکت دینا چاہتا ہے لیکن کسی اور سمت میں۔ اب تین ممکنہ صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں:

  • ایک خالق دوسرے پر غالب آتا ہے اور پتھر کو اپنی مرضی کی سمت میں حرکت دے ڈالتا ہے۔
  • وہ دونوں ایک دوسرے کے ارادوں کو منسوخ کر دیتے ہیں اور پتھر وہیں کا وہیں پڑا رہ جاتا ہے۔
  • وہ دونوں سمجھوتے کے تحت پتھر کو ایک ہی سمت میں حرکت دے دیتے ہیں۔

پہلی صورت کا مطلب ہے کہ ایک ہی ارادہ اپنا اظہار کرتا ہے۔ دوسری صورت میں کوئی ارادہ روبہ عمل نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ مخلوق کے کامیاب وجود کے لئے کسی ارادے پر عمل ضروری ہے۔ تیسری صورت آخر کار ایک ہی ارادے کی وضاحت کرتی ہے۔ چنانچہ یہ نتیجہ اخذ کرنا معقول تر ہے کہ ایک ہی خالق ہے کیونکہ صرف ایک ہی ارادہ ہے۔

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ جسم ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں اور پھر بھی ارادہ ایک ہو سکتا ہے۔ میں جواب میں یہ پوچھوں گا کہ آپ کیسے جانتے ہیں کہ ایک سے زیادہ اجسام ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ لا علمی کی دلیل ہے، کیونکہ ایسے کسی دعوے کے لئے کسی قسم کی کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس سے ہم دوسری دلیل تک پہنچ جاتے ہیں۔

تفہیمی اختلاف

دو خالقوں کے وجود کے لئے ان کو کسی نہ کسی طرح سے مختلف ضرور ہونا چاہیئے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کے پیش نظر دو درخت ہوں، تو وہ شکل، جسامت، رنگ، عمر اور محل وقوع میں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔ اگرچہ ان کی کچھ جسمانی خصوصیات ملتی جلتی ہوں، کم از کم ایک چیز ایسی ہو گی جو ہمیں ان دونوں میں فرق کرنے میں مدد دے گی کہ در اصل دو درخت ہیں۔ اس میں ان کی جگہ یا مقام شامل ہو سکتا ہے۔ آپ یہ جڑواں بچوں پر بھی لاگو کر سکتے ہیں؛ ہم جانتے ہیں کہ دو لوگ ہیں کیونکہ کوئی چیز ان کے درمیان فرق کرتی ہے۔ یہ صرف اتنا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دونوں ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر نہیں ہو سکتے۔

اگر ایک سے زیادہ خالق ہوتے تو ان کے مابین فرق کرنے کے لئے کوئی چیز لازماًہونی چاہیئے۔ تاہم اگر وہ تمام ممکنہ صورتوں میں یکساں ہوں، تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ دو ہیں؟ فرض کیجئے کہ دو چیزیں ہیں الف اور ب۔ اگر وہ ہر طرح سے ایک جیسے ہوں اور کوئی چیز ان کے مابین فرق کرنے والی نہ ہو تو پھر وہ ایک ہی چیز ہیں۔ اگر ب کے لئے بھی وہ سب کچھ درست ہوں جو الف کے لئے درست ہو تو پھر الف اور ب ایک ہی چیز ہو گی۔

اب آئیے اس کا اطلاق خالق پر کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ دو خالق موجود ہیں جنھیں خالق الف اور خالق ب کہا جاتا ہو، اور یہ کہ جو کچھ خالق الف کے بارے میں درست طور پر کہا جا سکتا ہےوہ خالق ب کے لئے بھی سو فی صد درست ہو۔ مثال کے طور پر، خالق الف مکمل طاقت ور اور پر حکمت ہے؛ اسی طرح؛ ب مکمل طاقت ور اور پر حکمت ہے۔ تو حقیقت میں کتنے خالق ہیں؟ صرف ایک۔ کیونکہ ان میں کوئی چیز فرق کرنے والی نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ وہ مختلف ہیں تو پھر وہ کسی دوسرے خالق کی وضاحت نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ کسی ایسی چیز کو خالق سمجھ رہے ہوں گے، جو مخلوق ہے، کیونکہ یہ فرق اس کو خالق کے لائق صفات سے محروم کر دے گا۔

اگر کوئی اس پر ڈھٹائی کرے کہ دو خالق ہو سکتے ہیں، اور وہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں، پھر سادہ سا سوال یہ ہے کہ “وہ کس طرح مختلف ہیں؟” اگر وہ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں، تو وہ مجادلہ بغیر علم[1] کا شکار ہو جاتے ہیں، کیونکہ ان کو اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے ثبوت گھڑنے پڑ جائیں گے۔

اوکام کا اُسترا(Occam’s razor)

اوپر کے تناظر میں، ہمیں کچھ نا معقول اور ضدی لوگ ملتے ہیں جو اب تک متعدد خالقوں یا اسباب کا عقیدہ پیش کرتے ہیں۔ اوکام کے اُسترے کی روشنی میں یہ کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ اوکام کا استرا ایک فلسفیانہ اصول ہے جو 14ویں صدی عیسوی کے منطق دان اور فرانسسکی درویش ولیم آف اوکام[2] سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس اصول کی تاکید یہ ہے کہ ‘کثرت بلا ضرورت قائم نہ کی جاوے’[3]۔

اس صورت میں، ہمیں کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کائنات کا خالق اصل میں دو، تین یا زیادہ سارے خالق ہوں لہٰذا سادہ ترین وضاحت یہ ہے کہ خالق ایک ہی ہے۔ خالقوں کی کثرت کا نظریہ پیش کرنے سے موقف کی وضاحت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر مزید خالقوں کا اضافہ کرنے سے موقف کی وضاحتی قوت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ دعویٰ کہ ایک کلی طور پر طاقت ور خالق نے اس کائنات کی تخلیق کی اس دعوے سے زیادہ آسان اور سادہ ہے کہ دو طاقت ور خالقوں نے اس کو پیدا کیا۔ ایک ہی خالق کی ضرورت ہے کیونکہ وہ کلی طور پر طاقت ور ہے۔ میں تو کہوں گا کہ متعدد خالقوں کا تصور پیش کرنے سے کثرت خالق کا تصور پیش کرنے سے درحقیقت وضاحتی قوت اور دائرہ کار کو گھٹا دیا ہے؛ یہ اس لیے ہے یہ جتنے مسائل حل کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ مسائل پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، مندرجہ ذیل سوالات اس قسم کے شرک کی نا معقولیت کو آشکار کرتے ہیں: ‘کتنی ابدی ہستیاں بیک وقت وجود رکھتی ہیں؟’ ‘متضاد ارادوں کے پیدا ہونے کے امکانات کس قدر ہیں؟’ ‘وہ باہم تعامل کس طرح کرتے ہیں؟’

ایک عوامی اعتراض اس پر یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ہم اس اصول کو اہرام مصر پر لاگو کر دیں، تو ہم گمراہ کن طور پر اس نظریے کو اختیار کر بیٹھیں گے کہ ان کو ایک ہی شخص نے تعمیر کیا تھا، کیونکہ یہ سب سے سادہ وضاحت معلوم ہوتی ہے۔  یہ اس اصول کا غلط استعمال ہے، کیونکہ یہ وضاحت سے متعلق اصل نکتے کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ نظریہ قائم کرنا کہ اہرام ایک ہی شخص نے تعمیرکیے تھے، یہ کسی بھی لحاظ سے سادہ ترین اور واضح ترین وضاحت نہیں ہے؛ کیونکہ یہ اتنے مسائل حل نہیں کرتا جتنے پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، کیسے ممکن ہے کہ یہ سارے اہرام ایک ہی آدمی نے تعمیر کر ڈالے ہوں؟ یہ کہنا کہیں زیادہ واضح ہے کہ ان کی تعمیر میں بہت سے لوگوں نے حصہ ڈالا۔ اس پر قیاس کرتے ہوئےیہ لوگ کہتے ہیں کہ کائنات اس اہرام سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے اور اس لیے اس کی تخلیق میں زیادہ اسباب یا خالقوں کا نظریہ زیادہ معقول ہے۔ اگرچہ یہ بحث، اگرچہ معقول ہے، لیکن بے محل ہے۔ ایک کلی طور پر طاقت ور اور با اختیار ہستی کا ساری کائنات کی اکیلے تخلیق فرمانا ہی سب سے زیادہ معقول اور واضح بات ہے، کیونکہ خالقوں کی کثرت سے کئی ایسے سوالات جنم لیتے ہیں جن کا جواب دینا ممکن نہیں ہے۔ تاہم، معترض اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ یہ کوئی ایک عام شخص نہیں تھا جس نے اہرام بنائے، بلکہ یہ ایک کلی طاقت ور خالق تھا جس نے بنائے۔ اس دلیل کا مسئلہ یہ ہے کہ کائنات کے اندر کوئی چیز بھی کلی طور پر طاقت ور اور با اختیار نہیں ہے۔ چونکہ اہرام انسانی تعمیراتی شاہکارہیں اور عمارتیں کسی مؤثر سبب سے بنتی ہیں (ایک شخص یا کئی لوگ جو کام کرتے ہیں)، چنانچہ اہرام ایسی کسی سبب سے ہی بنے ہیں۔ یہاں سے ہم واپس اصلی نکتے تک پہنچ جاتے ہیں کہ اہرام کی تعمیر کے لئے ایک سے زیادہ افراد/ اسباب کی ضرورت ہے۔

تعریف سے دلیل

عقل اس بات کو لازم قرار دیتی ہے کہ اگر ایک سے زیادہ خالق ہوتے تو، کائنات فساد کی لپیٹ میں ہوتی۔ کائنات میں وہ ترتیب اور نظم و نسق بھی مفقود ہوتا جو آج ہم اس میں پاتے ہیں۔ قرآن حکیم بھی یہی بات کہتا ہے:”  اگر آسمان اور زمین میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین وآسمان درہم برہم ہوجاتے۔”[i]

تفسیر الجلالین اس آیت کی شرح میں کہتی ہے: “آسمان اور زمین اپنی معمول کا نظم و نسق کھو دیتے کیونکہ ایسی صورت میں لازماً اندرونی خلفشار اور نا اتفاقی ہوتی، جیسے کہ عام طور پر ہوتا ہے ،جب متعدد حکمران ہوتے ہیں؛ وہ معاملات میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں اور ہمیشہ ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتے۔ “[ii]

تاہم، کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ آپ کی کار ایک سے زیادہ افراد نے بنائی – ایک نے پہیے جوڑے، کسی دوسرے نے انجن کو درست طور پر جوڑ دیا، اور دوسرے نے کمپیوٹر کا نظام انسٹال کیا – تو ہو سکتا ہے کہ کائنات اسی طرح بنائی گئی ہو۔ یہ مثال یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک پیچیدہ نظام کی تخلیق میں ایک سے زیادہ خالق شامل ہو سکتے ہیں۔

اس اعتراض کا جواب دینے کے لئے، جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ، جیسا کہ گزشتہ ابواب میں بیان ہو چکا، کائنات کی تخلیق کامیابی سے عمل میں آنے کے لئے ایک پروردگار کا تصور ضروری ہے نہ کہ صرف کسی ایک خالق کا۔ متعدد خالقوں کا کوئی مجرد تصور تو ممکن ہے، جیسا کہ کار والی مثال سے ظاہر ہے، لیکن کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک سے زیادہ پروردگار ہوں۔ یہ اس لیے کہ خدا، اپنی تعریف ہی کے اعتبار سے وہ ہستی ہے جو ایسے ارادے کا مالک ہے جو اپنا کلی تسلط چاہتا ہے اور جس کو کوئی بیرونی چیز روک نہیں سکتی۔ اگر دو یا زیادہ خدا ہوتے تو ارادوں کے مابین مقابلہ ہوتا جس سے لازمی نتیجہ یہ نکلتا کہ ہر جانب تباہی و بربادی ہوتی۔ جس کائنات کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں، وہ منطقی قوانین اور تریب سے چلتی ہے؛ چنانچہ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کسی ایک با اختیار ارادے کا نتیجہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوپر کا اعتراض دراصل وحدانیت خداوندی کی تائید کرتا ہے۔ کار کو درست طور پر کام کرنے کے لئے ان مختلف لوگوں کو، جو اس کے بنانے میں شامل ہوں، ترتیب دینے والے کے کلی ارادے کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہو گا۔ ترتیب کے نقشے نے بنانے والے افراد کے ارادوں کو محدود کر دیا۔ چونکہ خدا، اپنی تعریف ہی کے اعتبار سے ایسی ہستی ہے جس کے ارادے کو باہر کی کوئی چیز محدود نہ کر سکے، اس لئے لازم آتا ہے کہ ایک سے زیادہ ارادے نہیں ہو سکتے۔

تاہم کوئی کہہ سکتا ہے کہ کئی سارے خدا یک ہی ارادے پر عمل کرنے پر راضی ہو سکتے ہیں یا ان میں سے ہر ایک کا اپنا دائرہ کار ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کے ارادے محدود اور غیر فعال ہیں، جس کا مطلب یہ نکلے گا کہ وہ تعریف ہی کے اعتبار سے خدا نہیں رہیں گے۔

بارہویں صدی عیسوی کے مسلم مفکر اور فلسفی ابن رشد جنھیں مغرب میں ایویروس(Averroes) بھی کہا جاتا ہے، اس بات کو یوں بیان کرتے ہیں:

“آیت کا مفہوم ، فطرت کی طرف سے (انسان کی) جبلت میں پیوستہ ہے۔ یہ تو سامنے کی بات ہے کہ اگر دو بادشاہ ہیں، ان میں سے ہر ایک کے اعمال دوسرے کے اعمال کی پوری مطابقت میں ہوں،  پھر بھی(ان کے لئے) ایک ہی شہر کا انتظام چلانا ممکن نہیں ہو گا، کیونکہ دو ایک جیسے افراد سے ایک ہی طرح کے کام ہی سرزد ہوتے رہیں۔ چنانچہ یہ لازم آتا ہے کہ اگر وہ دونوں ایک ساتھ اپنے اپنے کام کرنے لگ جائیں، تو شہر غارت ہو جائے، سوائے اس کے کہ ان میں سے ایک کام کرے جبکہ دوسرا عمل گزاری سے باز رہے؛ اور یہ خدائی صفات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جب ایک ہی طرح کے دو کام ایک ہی مادہ پر مرتکز ہو جائے، تو وہ مادہ لازماً خراب ہو جاتا ہے۔ “[iii]

وحی سے دلیل

اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل دینے کا ایک آسان تر راستہ وحی کا حوالہ دینا ہے۔ یہ دلیل یوں ہے کہ اگر خدا نے   انسانیت کے سامنےاپنی ذات کا  اعلان کیا ہے، اور اس وحی کا من جانب اللہ ہونا ثابت کیا جا سکے، تو پھر جو کچھ وہ اپنے بارے میں کہتا ہے وہ درست ہے۔ تاہم کوئی متشکک اس دلیل کے پیچھے کارفرما کچھ مفروضوں پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ ان سوالات میں” اللہ کا اپنے بارے میں انسانیت کو آگاہ فرمانا” اور یہ کہ “وحی ایک کتاب کی شکل میں ہے” شامل ہیں۔

پہلا مفروضہ کہتا ہے کہ اگر خدا نے انسانیت کو اپنے بارے میں آگاہ کیا ہے، تو پھر اس کے بارے میں جاننے کے دو ہی ممکنہ راستے ہیں: اندرونی اور بیرونی طور پر۔ ‘اندرونی’ سے میری مراد یہ ہے کہ آپ خدا کو صرف اپنے آپ میں غور و فکر کے ذریعے تلاش کر سکتے ہیں اور ‘بیرونی طور پر’ سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنی ذات سے باہر کی دنیا سے رابطہ قائم کرتے ہوئے خدا کو جان سکتے ہیں، یعنی یہ حقیقی دنیا میں پیوستہ ہے۔ اندرونی طور پر خدا کی تلاش مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر غیر معقول ہے:

  • انسان مختلف ہیں؛ ان میں نفسیات دانوں کے بقول ‘انفرادی اختلافات’ ہیں۔ ان میں DNA، تجربات، معاشرتی ماحول، ذہنی اور جذباتی صلاحیتیں، جنسی اختلافات اور بہت کچھ شامل ہیں۔ یہ اختلافات، خود فکری یا وجدان کے ذریعے، داخلی غور و فکر کی ہماری صلاحیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ سوچ کے نتائج مختلف ہوں گے۔ اگر خدا کی تلاش میں محض انھی اعمال کا استعمال کیا جائے، تو ناگزیر طور پر اس کے بارے میں ہمارے تصورات میں فرق واقع ہو گا۔ یہ تاریخی اعتبار سے درست بات ہے۔ 6000 قبل مسیح سے آج تک خدا کے تقریباً 3700 مختلف ناموں اور تصورات کا ریکارڈ ملتا ہے۔
  • چونکہ خدا کے وجود کے نتیجے تک پہنچنے کا طریقہ “فہمِ عامہ(‘common   sense)” ہے (جس کو فلسفی ‘منطقی طرز فکر’ اور مسلم الٰہیاتی مفکرین ‘جبلی سوچ’ کہتے ہیں)، لہٰذا اس کے وجود پر ایمان لانے کے بجائے اس تلاش میں لگ جانا کہ “خدا کون ہے؟”، ایک منطقی غلطی ہو گی۔ ہماری سوچ اور فکر کی حدود ہیں۔ مادی دنیا پر مجرد غؤر و فکر سے ہم اس نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں کہ ایک خالق کا وجود ہے اور وہ طاقت ور اور سب کچھ جاننے والا ہے وغیرہ۔ ان نتائج سے ماوراء جانے کی کوشش کرنا  خیالی، قیاسی اور فرضی ہو گا۔ قرآن حکیم سوال کرتا ہے، ” بھلا تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں؟”[iv] داخلی فکر کے ذریعے خدا کو جاننے کی کوشش کرنا ایسا ہی ہو گا جیسے کوئی چوہا کہکشاں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ انسان ابدی، منفرد اور طاقت کلی کا مالک نہیں ہے، چنانچہ انسان خدا کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں جان سکتا۔ خدا کو بیرونی وحی کے ذریعے بتانا ہو گا۔
  • درج ذیل مثال پر غور کریں۔ خدا کے وجود کے بارے میں آپ کا علم دروازے کو کھٹکھٹانے کی طرح ہے؛ آپ آسانی سے فرض کر سکتے ہیں کہ اندر کوئی ہو گا۔ لیکن آپ یہ نہیں جان سکتے کہ اندر کون ہو گا اور کیسی طبیعت کا مالک ہو گا۔ لہٰذا آپ صرف اسی طرح جان سکتے ہیں کہ اندر موجود آدمی آپ کو اپنے بارے میں خود بتائے۔ چنانچہ آپ اس نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں کہ اگر خدا نے کچھ کہا یا کوئی اعلان کیا ہے تو یہ انسان کے نفس سے باہر کی چیز ہو گی۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہو گا ہو محض اندازہ ہو گا۔

اسلامی نقطہ نظر سے، یہ بیرونی رابطہ قرآن حکیم ہے (دیکھئے باب نمبر 13)، کیونکہ یہ وہ واحد کلام ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ منزل من اللہ ہے اور یہی وہ متن ہے جو الٰہی متن ہونے کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ ان معیارات میں شامل ہیں:

  • یہ خدا کے وجود کے عقلی اور وجدانی نتائج سے مطابقت رکھتی ہو۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی کتاب یہ کہتی ہے کہ خدا چالیس ٹانگوں والی ایک ہاتھی ہے، تو آپ آسانی سے یہ فرض کر سکتے ہیں کہ یہ کتاب خداوند عالم کی طرف سے نہیں ہے، کیونکہ خدا کو کائنات سے ماوراء اور خود مختار ہونا چاہیئے۔ ایک ہاتھی، بلا لحاظ اپنی ہیئت و صورت کے، مجبور چیز ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ ان کی محدود مادی خصوصیات ہیں، جیسے کہ جسامت، شکل اور رنگ۔ ایسی تمام چیزیں جن کی محدود جسمانی خصوصیات ہوں وہ سب مجبور ہیں۔ کیونکہ یہ ایسے بیرونی امور ہیں جو ان کی محدودیت کو تشکیل دیتی ہیں۔ خدا کوئی ‘مادی’ ہستی نہیں ہے اور بے نیاز ہے۔ چنانچہ کوئی بھی چیز جس کی محدود جسمانی خصوصیات ہوں، وہ خدا نہیں ہو سکتی (دیکھئے باب نمبر 6)۔
  • اس کے لئے لازم ہے کہ یہ داخلی اور خارجی طور پر یکسانیت کی حامل ہو۔ بالفاظ دیگر، اگر یہ کتاب صفحہ نمبر 20 پر کہتی ہو کہ خدا ایک ہے اور پھر صفحہ نمبر 340 پر کہتی ہو کہ خدا تین ہے، تو یہ داخلی ناقابل موافقت بات ہو گی جس کو کسی طرح سے تطبیق نہ دی جا سکے گی۔ مزید برآں، اگر وہ کتاب کہے کہ کائنات کی عمر صرف 6000 سال ہے تو یہ خارجی طور پر ناقابل موافقت بات ہو گی کیونکہ حقیقت اپنے آپ کو ہم پر آشکار کرتی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کائنات اس سے زیادہ عمر کی ہے (تاہم حقیقت کے بارے میں ہمارے فہم میں تغیر اور تبدیلی واقع ہو سکتی ہے؛ دیکھئے باب نمبر 12)۔
  • لازم ہے کہ اس میں  ماورائے ادراک کی نشانیاں ہوں۔ اس وحی میں لازماً ایسا مواد ہو جو یہ ظاہر کرتا ہو کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور یہ کہ اس کی وضاحت، فطرت پرستی کے ذریعے سے مناسب طور پر نہ کی جا سکتی ہو۔ سادہ الفاظ میں، اس میں ایسے ثبوت ضرور ہونے چاہئیں کہ یہ کہا جا سکے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔

قرآن میں ایسی واضح نشانیاں ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ کلام الٰہی ہے۔ کتاب کی وضاحت، ٹھیٹھ فطرت پرستانہ نقطہ نظر سے نہیں کی جا سکتی؛ چنانچہ مافوق الفطرت وضاحتیں ہی بہترین وضاحت فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ نشانیوں میں شامل ہیں:

  • قرآن کی لغوی و ادبی انفرادیت (دیکھئے باب نمبر 13)۔
  • قرآن میں موجود کچھ تاریخی واقعات، ان کے نزول کے وقت،  انسان کے علم میں نہیں آ سکتے تھے۔
  • اس کی منفرد ترتیب اور خاکہ بندی۔ [v]

الغرض، چونکہ صرف خارجی وحی ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اللہ نے اپنے بارے میں کیا کہا ہے اور اس وحی کو بصورت قرآن، ثابت کیا جا سکتا ہے – چنانچہ قرآن، جو اللہ کے بارے میں کہتا ہے، وہ یقیناً درست ہے۔ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے متعلق بالکل واضح ہے:

“اور اہلِ کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو۔ ہاں جو اُن میں سے بےانصافی کریں (اُن کے ساتھ اسی طرح مجادلہ کرو) اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اُتری اور جو (کتابیں) تم پر اُتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار(مسلمان )ہیں.”[vi]

یہ کچھ دلائل ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ ایک ہے؛ اور جب ایک دفعہ یہ موضوع اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتا ہے، تو انسانی شعور پر کچھ گہرے اثرات نقش کرتا ہے۔ اگر ہمیں ایک خالق نے پیدا کیا ہے اور وہی ہمیں رزق دیتا ہے، تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم ہر چیز کو اس کی وحدانیت کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ اپنے منتشر اور بکھرے ہوئے مجرد نقطہ نظر سے نہ دیکھیں۔ ہم سب ایک انسانی خاندان کے افراد ہیں، اور اگر ہم سب اسی ذہن سے سوچنے لگیں تو اس سے ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہم ایک اللہ پر ایمان رکھتے اور اسی سے محبت کرتے ہیں، تو پھر ہمیں اس کی مخلوق کے ساتھ محبت اور رحمت سے پیش آنا چاہیئے۔ بالکل اسی طرح جس طرح نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’ رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے ، تم لوگ زمین والوں پر رحم کر و تم پر آسمان والا رحم کر ے گا۔”[vii]


[1] سورۃ الحج آیت 5

[2] William of Occam

[3] ‘Pluralitas non est ponenda sine necessitate’


[i]  سورة الأنبياء، آیت 22

           [ii] Al-Mahalli, J. and As-Suyuti, J. (2007). Tafsir Al-Jalalayn. Translated by Aisha Bewley. London: Dar Al Taqwa, p. 690; Mahali, J. and As-Suyuti J. (2001) Tafsir al-Jalalayn. 3rd Edition. Cairo: Dar al-Hadith, p. 422. You can access a copy online at: https://ia800205.us.archive.org/1/items/FP158160/158160.pdf [Accessed 1st October 2016].

       [iii] Avveroes. (2001). Faith and Reason in Islam. Translated with footnotes, index and bibliography by Ibrahim Y. Najjar. Oxford: One World, p. 40.

[iv] سورة الأعراف، آیت 28

    [v] For more on the Divine nature of the Qur’an, please read: Khan, N. A. and Randhawa, S. (2016). Divine Speech: Exploring the Qur’an as Literature. Texas: Bayyinah Institute and  Zakariya, A. (2015). The Eternal Challenge: A Journey Through The Miraculous Qur’an. London: One Reason.

[vi] سورة العنكبوت، آیت46

     [vii] جامع ترمذی: كتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں، حدیث 1924

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password