حاصل بحث: دلوں میں نرمی [Conclusion: Transforming Our Hearts]

۔

۔

میرے والد ایک آزاد آدمی ہیں،۔آزادی سے میرا مراد یہ نہیں ہے کہ وہ ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں، جہاں ان کو آزادانہ حقوق حاصل ہیں۔ بلکہ وہ جذباتی طور پر آزاد ہیں۔ وہ جب بھی اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو وہ بغیر کسی قدغن و بیرونی دباؤ کے ایسا کر سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں ثانوی مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو میں اسکول میں میوزک بینڈ کا حصہ تھا۔ چونکہ میرے والد میرے اس مشغلے کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، سو سکول کے بعد میرا گیٹار کی کلاسز لینا مجھ میں فطری طور پر سرایت کر گیا۔ جب بھی کبھی سکول میں کنسرٹ ہوتا تو میرے والد وہاں آ کر طلبا کے اچھے فن سے خوب لطف اندوز ہوتے۔ ایک فن کار غیر معمولی فن کی حامل تھی۔ جب وہ اپنے فن کا اظہار کر رہی تھی اور وہ اس کے اظہار کے عروج پر پہنچی تو اس اعلی کارکردگی پر میرے والد نے اس کے فن کی کھڑے ہو کر خوب داد دی، وہ کافی دیر تک کھڑے رہے اور اس کے فن کی داد رسی کرتے رہے۔

ہم سب ہی انسانی قابلیت پر ایسا ہی اظہار کرتے ہیں، جب بھی کبھی ہمارا کھیل کا ہیرو اپنی قابلیت کے جوہر دکھاتا ہے اور ہم اس کی قابلیت کے کرشمے دیکھتے ہیں، ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس کی تعریف کریں اور اس پر تالیاں بجاتے ہیں۔  ہم اپنی زندگی میں یہ لمحات کبھی نہیں بھولتے۔ ذرا پردہ تصور پر ایسی ہی چیز کا اثر دیکھیئے، جو آپ کی روح پر ہو اور جب بھی ایسا ہو تو آپ اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکیں۔

تاہم، اس دنیا میں ہم بہت سے مظاہر قدرت دیکھتے ہیں اور ان کے درمیان اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے پاس امید و محبت اور انصاف کی طلب کا جذبہ ہے اور ہم انسانی زندگی کی قدر میں یقین رکھتے ہیں۔ ہم مباحث کرتے ہیں، کسی مسئلہ میں دلیل کی حاجت رکھتے ہیں، ہم اندازے لگاتے ہیں، کسی بات میں سے استدلال کرتے ہیں۔ ہم ایک بہت وسیع کائنات میں رہتے ہیں، جس میں کھربوں  کائنات، ستارے اور سیارے ہیں۔ کائنات میں ایسے جاندار رہتے ہیں جن کے پاس خاص  طرز کا شعور ہے۔ ہم غیر مادی دماغ رکھتے ہیں جو مادی دنیا کے ساتھ ملحق و مربوط ہے۔  اس کائنات کے اصول ہیں اور خاص طرح کی ترتیب ہے، جو اس طرح نہ ہوتی تو شعوری زندگی کا ہونا ناممکن تھا۔ ہم اپنے ضمیر کے گہرائی میں بہرحال، بدی کو بدی اور نیکی کو نیکی جانتے ہیں۔

ہماری کائنات میں ایسے حشرات و حیوانات ہیں جو اپنے وزن سے کئی گناہ زیادہ وزن برداشت کر سکتے ہیں، ایسے بیج ہیں جو آگ کی تپش سے اگتے ہیں۔ ہماری زمیں پر 6000 سے زائد زبانیں بولی جاتیں ہیں۔ ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں، جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو ایسے ہتھیار بنا سکتے ہیں کہ آناً فاناً دنیا تباہ ہو جائے اور ایسے تصورات پیش کرتے ہیں، جن کی مدد سے ان ہتھیاروں کو چلنے ہی نہ دیا جائے۔ ہم ایسی کائنات میں رہتے ہیں کہ اگر اس میں ایک ذرہ الگ ہو جائے تو اس سے بہت زیادہ انرجی پیدا ہو۔ ہم ایسے سیارے پر رہتے ہیں کہ اگر اس پر رہنے والوں کے دل مل جائیں تو اس انرجی کو فائدے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔

اس سب کے باوجود ہمارے ہاں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اس سب کے خالق و مالک، اللہ سبحانہ و تعالی، کی اس سب  خلقت پر تعریف نہیں کرتے۔[i] وہ اس کو اس کا حق نہیں دیتے۔ ہم فریب نفسی میں مبتلا ہیں، دھوکے میں مبتلا ہیں، احسان فراموش ہیں” اے انسانو، تمہیں تمہارے رب کریم کے معاملے میں کس چیز نے دھوکے میں مبتلا کر دیا ہے؟”[ii]

اللہ واقعی سب سے بڑاہے!

اگر ہم اللہ کی تعریف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو لازمی طور پر ہمارے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ ہمیں کوئی روحانی بیماری لاحق ہے، جس کا کوئی روحانی علاج درکار ہے۔ یہ بیماری انا کی بیماری ہے اور اس کی دوا اسلام ہے۔

اس بیماری کی دوا اور اللہ کی رحمت و محبت حاصل کرنے کے لئے ہمیں اس جملے کو سمجھنا، اس پر یقین رکھنا، اور اس کے آگے جھکنا ہو گا:

“اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے نبی اور بندے ہیں”

مجھے امید ہے کہ اس کتاب کی بدولت آپ اپنا روحانی علاج کر کہ ایک نئی زندگی کی طرف راغب ہوں گے۔

اللہ ہمیں ہدایت دے اور ہم پر اپنی خصوصی محبت و رحمت کی بارش کر دے!

Afterword-Don’t Hate, Debate: Dialogue -with -Islam

پسِ نوشت

بحث برائے بحث نہیں، بلکہ بحث برائے تصحیح

اسلام کی ساتھ بات چیت

انٹرنیٹ معلومات کا ایک بہترین ذریعہ ہوسکتا ہے ، لیکن کسی خاص عنوان سے متعلق تمام مستند اور درست معلومات تک رسائی حاصل کرنا بھی اتنا ہی مشکل ہوسکتا ہے۔ اپنی مثبت خوبیوں کے علاوہ ، یہ جھوٹ ، غلط معلومات اور غلط بیانیوں کا ایک بہت بڑا گڑھ بھی ہے۔ انٹرنیٹ  بہت کینہ پرور بھی ہوسکتا ہے۔ میں ذاتی طور پر انٹرنیٹ کے تاریک پہلو کا تجربہ کئی بار کر چکا ہوں۔ میری تمام غلطیاں ، غلط فہمیاں اور بھول چوک ہر ایک لئے ہنسنے کے لئے موجود ہیں ، لیکن جو چیز مجھے مطمئن کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کو سیکھنے کا ذریعہ بھی فراہم کرتا ہے۔ میں متضاد نظریات کا سامنا کرنے کا شدید حامی ہوں ، کیوں کہ اس تناظر میں سچائی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ یہ کتاب در حقیقت میری ناکامیوں اور غلطیوں سے سیکھنے کا نتیجہ ہے۔ اب ، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب کامل ہے؟ ظاہر ہے کہ  نہیں۔ تاہم ،یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ کی طرف لے جاتی ہے۔ آپ خود کو جس بھی طرح کے قاری کی حیثیت دیتے ہیں (ملحد ، شکی ، علمی ، مسلمان ، سیکولر ، ہیومنسٹ ، وغیرہ)، آپ کے بلا شبہ مزید سوالات ہوں گے یا مزید وضاحت چاہیں گے۔ اسی لئے میں نے ایک آن لائن پورٹل تیار کیا ہے جو ہماری گفتگو کو مزید جاری رکھے گا۔ آپ کے ذہن میں کوئ سوالات ، تبصرے ، خدشات یا تعمیری آراء کا ہوں تو www.hamzatzortzis.com/thedivinereality پر ان کا اظہار کریں۔

اس طرح کی اشاعت بالکل انوکھی ہے کیونکہ کتاب کا مقصد ایک خود کلامی نہیں ہے بلکہ ایک مکالمہ ہے۔ اس بحث میں اخلاقی اصول موجود ہیں ، جس میں کوئی فضولیات (جب تک کہ آپ صحیح نقطہ بتانے کے لئے کسی اور کا حوالہ نہیں دیے رہے) ، ذاتی حملے یا دوسرے کو ذلیل کرنے کی کوشش نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ، سب کچھ چلتا ہے۔

ہر کتاب اپنے موضوع پر مکمل بحث نہیں کر پاتی اور کچھ موضوعات رہ جاتے ہیں، جن کی وجہ ضخامت اور فوقیت ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام کے پاس جواب نہیں ہے۔

میں دلچسپی رکھنے والوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ کھلا ذہن رکھ کر مخلص نیت سے مکالمہ کریں ۔ آپ دیکھیں ، ہماری زندگی میں دو شعبے ہیں: ایک ہمارا بہروپ ، اور دوسرا ہماری حقیقت۔ ہمارے خیال میں ہمارا بہروپ اور حقیقت ایک جیسی ہیں۔ یہ اتنا آسان سچ نہیں ہے۔ ہمارا بہروپ  ماضی کے منفی تجربات ، محدود ذہانت ، خیالات اور تناظر پر مشتمل ہے۔ حقیقت تو  کسی تناؤ تناظر کے بغیرہے۔ تاہم ، ہم ہمیشہ حقیقت کو ترچھا کرتے ہیں کیوں کہ ہم اس پر اپنے بہروپ کو طاری کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں دوسرے انسانوں سے جڑنا مشکل محسوس ہوتا ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگیاں ایک بہت بڑے دائرہ کے اندر ہی ہوتی ہیں ، جو ایک ہی قسم کی غلطیوں کو مختلف طریقوں سے دہراتی جاتی ہے۔ یہ سب ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ ہمارے ماضی میں متعدد منفی تجربات ہوتے ہیں جو موجودہ افراد کے ساتھ اچھے رابطے قائم کرنے کی ہماری صلاحیت کو ختم کردیتے ہیں اور اس طرح ماضی کی غلطیوں کے ساتھ مستقبل کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہم وہی غلطیاں دہراتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ماضی مستقبل کے برابر نہیں ہے۔ لہذا آپ کے مذہب ، اسلام اور خدا اور وحی کے متعلق جو بھی تجربہ رہا ہے ، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ نے اس کتاب میں جو کچھ پڑھا ہے، اس پر غور کرتے وقت، ماضی کی رائیوں کو اس پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔

میں اس کتاب کو بحث، مباحثے اور دوسروں سے معاملات کے متعلق قرآن اور حدیث  سے نصیحتوں پر ختم کرنا چاہوں گا۔  اللہ رب العزت نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کو اسلام کا میغام دیتے وقت نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا۔” اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے۔”[iii]

مفسر قرآن، القرطبی کہتے ہیں کہ اس آیت میں یہ سمجھنے کی بات ہے کہ جب اللہ تعالی نے حضرت موسی کو فرعون جیسے ظالم سے نرمی اور تحمل سے بات کرنے کا حکم دیا ، تو ہمیں کیسے دوسروں سے بات کرنی چاہئے۔” اگر موسی علیہ السلام کو فرعون سے نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا گیا تو یہ تو اس سے بدرجہ اولی ہے کہ ہم لوگوں سے بات کرنے میں اور “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” میں اس حکم کو بجا لائیں۔”[iv]

اللہ ذوالجلال والاکرام، رسول اکرم ﷺ کو بہترین انداز میں بات کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ” (اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔”[v]

ماہر قواعد، الزمخشری اس آیت کی تفصیل میں کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کے ساتھ ایسے قول کریں جو کرخت نہ ہو۔”بہترین انداز میں بات کرنے کا مطلب ہے کہ مکالمہ کا بہترین طریقی استعمال کیا جائے جو کہ رحمدلی کا طریقہ ہے اور سختی اور کرختگی کے بغیر  نرمی کا ہے۔”[vi]

بحث کے دوران اچھے الفاظ کا استعمال اسلام کی اعلی ترین روایات میں سے ہے۔قرآن اچھے الفاظ  کے لئے ایک خوبصورت مظال دیتا ہے جیسے کہ وہ ایک درخت ہے جس پر  دائمی پھل ہیں اور مضبوط جڑیں ہیں:

” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے (وہ ایسی ہے) جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط (یعنی زمین کو پکڑے ہوئے) ہو اور شاخیں آسمان میں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا (اور میوے دیتا) ہو۔ اور خدا لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے (نہ جڑ مستحکم نہ شاخیں بلند) زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے گا اس کو ذرا بھی قرار (وثبات) نہیں۔ خدا مومنوں (کے دلوں) کو (صحیح اور) پکی بات سے دنیا کی زندگی میں بھی مضبوط رکھتا ہے اور آخرت میں بھی (رکھے گا) اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔”[vii]

یہ میری اپنی ذاتی خواہش ہے کہ ان لافانی تعلیمات  کو اپنا کر، ہم شر کو خیر میں تبدیل کر سکتے ہیں،  اور سمجھ لینا چاہئے کہ نفرت سے کچھ حاصل نہیں ہونا اور اس کے ذریعے آپس کی دوستیاں آسان کریں، چاہے ہم ایک دوسرے سے اتفاق نہ رکھتے ہوں۔

” اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے۔”[viii]


         [i] The structure and content of this chapter have been adapted from Reminders From Hamza Yusuf. (2016). Best of Hamza Yusuf. Available at: https://youtu.be/KUzjHU-g7E0 [Accessed 24th October 2016].

[ii] سورة الإنفطار، آیت 6۔

[iii] سورة طه، آیت 44۔

[iv] Al-Qurtubi, M. (2006). Al-Jaami’ al-Ahkaam al-Qur’an, p. 65.                                               

[v] سورة النحل، آیت 125۔

           [vi] Al-Zamakhshari, J. (2009). Tafsir al-Kashshaaf ’an Haqa’iq at-Tanzil. Edited by Khalil Shayhaa. Beirut: Darul Marefah, p. 588.

[vii] سورة إبراهيم، آیت 27-24۔

[viii] سورة فصلت، آیت 34۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password