میں کون ہوں ؟

بغیر فلسفیانہ گہرائی میں جائے، انسان کے اس بُنیادی سوال کاایک سادہ تجزیہ کرتے ہیں کہ، میں کون ہوں؟ دراصل ہر شخص خواہ وہ کسی بھی ماحول میں ہو مثلاً گھر پر بازار میں یا آفس میں وغیرہ وغیرہ اس کا ذہن یا لاشعور اپنے ماحول کے حساب سے طرزِ عمل کو متعیّن کرتا ہے۔ یعنی کوئی شخص گھر پر محض گھرانے کا سربراہ ہی ہوتا ہے اور اس پر گھرانے کی سرپرستی کی ذمہ داری ہوتی ہے اور گھر پر اس کے خیا ل کا ارتکاز عموماً گھریلو انتظام سے متعلق ہی ہوتا ہے۔ مثلاً بیوی، بچوں کی ضروریات کا خیال وغیرہ۔ اسی طرح جب ہم گھر سے باہر نکلتے ہیں اور اپنے کام کاج کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ہمارا mindset یعنی ذہنی سوچ تبدیل ہوتی جاتی ہے۔ اگر ہم گاڑی چلا رہے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ٹریفک کے قوانین کیا ہیں اور ایک ذمّہ دار شہری کی حیثیت سے ہمیں روڈ پر کس طرح کا رویّہ رکھنا ہے۔ جب ہم اپنے کام کی جگہ پر پہنچتے ہیں تو آفس میں داخل ہوتے ہی تمام ذہنی رویّے بالکل نیا روپ دھار لیتے ہیں اور ہم ایک ذمّہ دار ملازم بنتے ہیں، ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ ڈیوٹی کے دوران آفس میں کنِ قواعد پر عمل کرنا ہے یا مختلف ماحول میں کنِ قواعد اور ضوابط پر عمل کرنا ہے۔ ہمارے یہ طرزِ عمل قدرتی طور پر مربوط ہوتے جاتے ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ قوانین اور ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے سزا کے مستحق ہو کر نقصان اُٹھا سکتے ہیں۔ گویا ایک شخص گھر پر ایک ذمّہ دار سربراہِ خاندان، گھر سے باہر ایک ذمّہ دار شہری اور آفس میں ایک ذمّہ دار ملازم ہوتا ہے اور تمام مناسب ذہنی رویّے اس کے لا شعور Subconcious Mind میں جاگزیں ہوتے ہیں۔ لیکن ایک بات اور واضح ہے کہ ان تمام حالتوں میں ہر شخص جانتا ہے کہ وہ ایک ملک کا شہری ہے اور اس ملک کے قوانین کا احترام بھی اس پر نہ صرف فرض ہے بلکہ وہ تمام ضابطوں میں برتر بھی ہے، لہٰذا ہر صورتحال میں خواہ وہ گھر کے باہر ہو یا دفتر میں یا بازار میں ہو، ذہن میں یہ بات بھی راسخ ہوتی ہے کہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنی ہے۔گویا ہر شخص لا شعوری طور پر پہلے ایک ذمّہ دار شہری، پھر کچھ اور ہوتا ہے کیونکہ ملکی قوانین کی پیروی مقدّم ہوتی ہے۔ روز مرّہ کے معاملات میں ہر قدم پر یہ بات لا شعوری طور پر جانچی جاتی رہتی ہے کہ ہر حالت میں ملکی قوانین کی، جو کہ تمام دوسرے قواعد سے برتر ہیں، پاسداری ہوتی رہے۔ یہ تمام ذہنی گرہیں Mind-locks ہیں جو لاشعور میں فعّال رہتی ہیں۔ اب ایک زیادہ اہم سوال اٹھتا ہے کہ:
کیا ہم ایک ذمہّ دار شہری کے ساتھ اس کائنات کے ذمہّ دار باشندے بھی ہیں؟
کیا اس کائنات کے حوالے سے ہمارے لاشعور میں تمام ضروری ذہنی رویے محفوظ ہیں؟ عموماً انسان کائنات میں اپنے مقام اور اس کی ذمّہ داریوں کو نظرانداز کیے رہتا ہے یا اس طرف اس کا خیال ہی نہیں جاتا، حالانکہ کائنات بھی ایک وسیع تر ماحول ہے اور انسانی رویے بھی قدر تی اور منطقی طور پر لازماً کسی ضابطے کے تحت ہی ہونے چاہییں۔گویا ہمیں ان ضروری رویّوں کی نشان دہی کے لیے انسان کی ”حقیقت“ جاننے کی ایک سعی کرنی پڑے گی کہ ہم کون ہیں اور کیا ہم ایک آزاد ہستی ہیں یا واقعی ہمارا تعلق کسی بڑی بااختیار قوّت سے بھی ہے جو اس کائنات کی اصل مالک ہے اور کیا مُلکی قوانین سے اُوپر کچھ آفاقی اور اُلوہی قوانین بھی ہیں جن کی ہمیں پاسداری کرنی چاہیے!
کیا انسان کسی برتر ہستی کو جوابدہ بھی ہے؟
کیاا س کائناتی نظام ِ زندگی کو کوئی خفیہ نظام چلا رہا ہے؟
ہمیں انسان اور کائنات کے تعلّق کو بغیر کسی شک و شبہے کے سمجھنا ہوگا اور ہر بنُیادی سوال کا مکمّل منطقی اور عقلی جواب بغیر کسی ”ہمیں نہیں معلوم we don’t know“ کے حاصل کرناہوگا۔ جب تک ہم یہ معلومات نہ حاصل کرلیں اور اپنے رویے اس کے مطابق نہ اپنا لیں، ہم ایک اچھے سربراہ خاندان ، اچھے شہری اور اچھے ملازم تو بن سکتے ہیں لیکن اس کائنات کے اچھے باشندے نہیں بن سکتے۔ آئیے، ہم کچھ حقائق کا غور سے مطالعہ کرتے ہیں جو عموماً ہماری توجّہ سے محروم رہتے ہیں!
پوشیدہ یا مخفی Invisible کیا ہوتا ہے؟ عموماً لوگ کسی بھی نظر نہ آنے والی یا محسوس نہ ہونے والی چیز کا وجود بمشکل ہی قبول کرتے ہیں، کسی بھی ان دیکھی اور پوشیدہ چیز کے وجود کو جھٹلانا بہ نسبت اسے ثابت کرنے کے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ لیکن ایک نہایت دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر انسان خود بھی ایک تصوّر یا Abstract ہوتا ہے لیکن اس کو اس کا شعور نہیں ہوتا۔ اس کو اس طرح سمجھیں کہ ایک بڑی کمپنی جیسی کہ مائیکروسوفٹ، اس کو ہم چھو نہیں سکتے نہ دیکھ سکتے ہیں کیونکہ اگر ہم چھوتے اور دیکھتے ہیں تو اس کمپنی کی کسی عمارت، ملازم یا اس کے اَثاثے وغیرہ کو۔ دراصل یہ تمام چیزیں مل کر ہی ایک کمپنی کی مادّی شکل اختیار کرتی ہیں جو کہ درحقیقت خود ایک تصوّر یا Imagination ہے لیکن طبعی طور پر اس کا اِظہار اُس کے اثاثہ جات کے ذریعے ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم بڑے فخر اور یقین سے اپنی ذات یعنی”میں“ کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن درحقیقت ہر انسان صرف اپنے ”جسم“ کو ہی دکھا سکتا ہے، اپنی شخصیت کو نہیں۔ مثلاً اگر کوئی کسی سے کہے کہ اپنے آپ کو دکھاؤ تو پہلے تو وہ شخص حیرت زدہ ہوگا کہ یہ کیا سوال ہے، پھر جب وہ اپنی طرف اشارہ کرے گا تو جسم کے کسی حصے کی طرف اشارہ کرے گا۔ اگر اس سے کہا جائے کہ یہ تو تمہارا سینہ، چہرہ یا ہاتھ ہے، تم کہاں ہو؟ تو یقینا وہ اپنے آپ کو دکھانے سے قاصر ہی رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان بھی درحقیقت اپنی ”شخصیت“ کے حوالے سے پوشیدہ یا غیبی Unseen ہے۔
ذرا کمپیوٹر پر ایک نظر ڈالیں، اس کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک ہارڈ وئیر Hardware اور دوسرا سوفٹ وئیر Software۔ کمپیوٹر سسٹم ایک مردے کی طرح ہوتا ہے جب تک کہ اس میں سوفٹ وئیرنہ ڈالا جائے۔ سوفٹ وئیر لوڈ ہوتے ہی کمپیوٹر سسٹم زندہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح کمپیوٹر کے بھی دو رُخ ہوتے ہیں، ایک طبعی یا ظاہری اور دوسرا غیر طبعی یا پوشیدہ۔ سوفٹ وئیر کو ہم چھو نہیں سکتے لیکن وہ صرف تحریراً موجود ہوتا ہے جبکہ اس کی خصوصیات پوشیدہ ہیں۔ ایک کار کی مثال سے بھی سمجھتے ہیں، فرض کریں کہ اس کا برانڈ نام ”ج“ ہے ۔ اگر ہم برانڈ ”ج“ کے تمام پارٹس کھول کر علیحدہ کردیں تو ”ج“ غائب ہو جائے گی لیکن سارے پرزے موجود ہوں گے یعنی ”ج“ ایک غیبی تصوّر ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح ہر انسان خود ایک غیبی تصوّر کی طرح ہے۔ جدید اسکالر ایک ان دیکھے خدا کے بارے میں منفی نظریات رکھتے ہیں لیکن سوچنے کی بات کہ جب ہم خود دو طرح کے وجود رکھتے ہیں توکیا وجہ ہے کہ کچھ ”اور“ طرح کی وجود موجود نہ ہوں جس کا ہمیں فی الحال علم اور شعور نہیں۔!!!!
روح: Soul
میں ایک شخص ہوں اور ایک نام رکھتا ہوں جب میں کہتا ہوں کہ ”میں“ تو درحقیقت ایک غیبی وجود کی حیثیت سے بات کرتا ہوں جو کہ ایک جسم کے ذریعے اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے۔ یعنی میرا وجود جو ایک Abstract ہے، وہ غیبی وجود ”روح“ بھی کہلاتا ہے جسے سائنس تسلیم نہیں کرتی۔گویا روح ایک سوفٹ وئیر ہے اور جسم ایک ہارڈ وئیر ، دونوں مل کر ایک جیتا جا گتا ”انسان“ بناتے ہیں۔ سائنس جسم کے اندر موجود ایک ہستی یا self کو نہیں مانتی مگر زندگی کے اسرار سے پردہ بھی نہیں اُٹھاتی، جبکہ ”روح مسلسل توانائی کو جنم دیتی ہوئی ا کائی ہے“ جس کی وجہ سے پورے جسم کے ہر عضو کو توانائی ملتی ہے. جب تک روح موجود ہے، جسم کو توانائی ملتی رہتی ہے اور جیسے ہی یہ جدا ہوتی ہے جسم بے جان ہو جاتا ہے، بالکل بغیر سوفٹ وئیرکے کمپیوٹر کی طرح۔ ہمارا ارادہ روح سے جنم لیتا ہے اور اس کی تکمیل جسمانی عمل کے ذریعے ہوتی ہے، اس طرح اطراف میں مرتّب ہو نے والے اِن اعمال کے اثرات، عمل اور ردِّعمل کا تسلسل ہیں جو کہ انسانی معاشرے میں اچھے اور بُرے اثرات چھوڑتا رہتا ہے اور انسان اپنے اعمال اور ان کے نتیجے کے ذمہّ دار بنتے ہیں۔
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان ایک طرح کا حیاتی روبوٹ Biological-Robot ہی ہے جس کا ہارڈ وئیر اور سوفٹ وئیر کسی اچھوتی طرز کا اور اعلیٰ واَرفع ہے، اس کی ذہانت بھی سب مخلوق میں برتر ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا عمل جوکہ ایک معّین وقت میں ظاہر ہوتا ہے، دراصل وہ نتیجہ ہوتا ہے ماحول کو جذب کرنے کی ہمارے حواسِ خمسہ کی صلاحیّت اور ہمارے دماغ کے طبعی ردِّعمل کا جو جسم کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ تو پھر منطقی طور پر ہمارے تمام خیالات اور اعمال ہمارے وجود کے اندر یا باہر یا شاید دونوں جگہ کسی نامعلوم نظام کے تحت ذخیرہ بھی ہوسکتے ہیں۔ روح کی کوئی سائنسی توجیہ ہی زندگی کے راز سے پردہ اُٹھائے گی۔ اور وہ وقت قریب ہی ہے جب جینیاتی سائنس Genetic -Science انسانی جِین میں چھُپے ایسے خفیہ کوڈ دریافت کر لے جو غیر معمولی صلاحیّت یا روحانی قوّت Spiritual-Power کا منبع Orignator ہوں۔ وہ لمحہ زندگی اور کائنات کے بہت سے راز طشت ازبام کرنے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ اپنی پہچان کے سلسلے میں روح کے بعد اپنی شخصیت کے دوسرے پہلو یعنی جسم پر ایک دوسری طرح نظر ڈالتے ہیں کہ درحقیقت یہ ہے کیا؟
انسانی جسم: Human Body
جسم کا بنیادی عنصر ایٹم Atom ہے اور انسان ایٹم ہی سے بنا ہے۔ ایٹم ہی جسم کے مختلف اعضاء بناتے ہیں۔ ہر عضو اپنے ساخت اور کام کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ ان تمام اعضاء کا ایک دوسرے سے بڑا گہرا تعلق ہے یہی تعلّق زندگی کو رواں رکھتا ہے۔ سب سے اہم عضو ہمارا دماغ ہے جو ایک ایسا عجوبہ ہے جسے انسان ابھی تک نہیں سمجھ پایا، انسان زندگی اور کائناتی حقائق کا جو مشاہدہ کرتا ہے، وہ دماغ کے واسطے سے کرتا ہے۔ اسی واسطے سے کائنات ہمارے لیے ایک حقیقت ہے۔ یہی ہمیں بتاتا ہے کہ ”میں کون ہوں“ مجھے کیا کرنا ہے، یہ سوچتا ہے، دریافت کرتا ہے، گتھّیوں کو سلجھاتا ہے، سب سے بڑھ کر اس میں جذبات جنم لیتے ہیں جن کا اِنسان کو علم نہیں کہ یہ کیسے اور کیوں پیدا ہوتے ہیں اور کیسے ہمارے جسم اور چہرے کے ذریعے ظاہر ہوتے ہیں، لیکن ان غیر طبعی جذبات کا ہمارے طبعی جسم پر اظہار اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان دونوں میں رابطے کا کوئی نظا م تو موجود ہے! مگر وہ کیا ہے؟
یہ ہمارا دماغ ہی ہے جس میں ساری زندگی کی معلومات جمع ہوتی رہتی ہیں۔ ایک چھوٹے سے عضو میں یہ صلاحیّت ہے کہ برسوں کے واقعات محفوظ ر کھتا ہے، اسی میں سوال اُبھرتے ہے کہ: میں کون ہوں؟ کیا یہ جسم میں نے بنایا؟ میں کیسے بن گیا؟ وغیرہ
نکتۂ فکر: جسم پر ہمارا اختیار کہیں مکمّل ہے، کہیں محدود اور کہیں بالکل نہیں، ہمارے تمام عضو دماغ کے ذریعے ہمارے ارادے کے طابع ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کس نے فیصلہ کیا کہ میرا اختیار میرے دل اور دورانِ خون اور دوسرے اندرونی نظام پر بالکل نہیں ہوگا لیکن پھیپھڑوں پر جزوی ہوگا؟ آخر وہ کیا ہے جو ہمارے عضو کو ہمارے طابع کرتا ہے , اور یہ کیسا نظام ہے کہ میری انگلیوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی چیز کو پکڑنا ہے یا چھوڑنا ہے یا یہ کہ کس موقع پر کتنی قوّت استعمال کرنی ہے؟
انسانی شعور، خواہش اور عمل میں کیسا اور کیا رشتہ ہے؟ اورسارے انسان ایک ہی طرح کیوں نمو پذیر ہوتے ہیں؟
انسانی شعور اور جذبات کا نظام آفاقی کیوں ہے؟
ہمارا جسم کس کے تابع ہے؟ دماغ کے یا روح کے؟ دماغ یا روح کا ناظم کون ہے؟
یہ بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ انسان کے تمام اِرادوں اور احکامات کے عمل پذیر ہونے لیے ایک ”حاکم“ ہونا ضروری ہے ورنہ مربوط نظام بن ہی نہیں سکتا۔ تو سوال اُبھرتے ہیں، میں کہاں سے آیا ہوں؟
میری اصل اور ابتداء کیا ہے ؟
کیا یہ جسم میرا محکوم ہے؟ میراحاکم کون ہے؟
ان تمام سوالات کے درست اور حتمی جوابات اسی وقت حاصل ہوں گے جب ہم تیقّن کے ساتھ جان لیں کہ اس کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی اور اس کا اصل حاکم کون ہے ؟ فطرت، انسان یا خدا؟ اس کے لیے بھی دو راستے ہیں، ایک طبعی علوم یعنی سائنس اور دوسرا غیر طبعی یعنی وحی۔
سائنس کائنات کی ابتداء کے بارے میں ہمیشہ گو مگو میں رہی ہے اور جدید ترین تحقیقات بھی کوئی حتمی اور ثابت شدہ نقطۂ نظر دینے میں ناکام ہیں۔ جدید سائنس دان اور مفکّرین علم کے خمار اور تکبّر میں مبتلا ہیں اور اس بات پر کمربستہ ہیں کہ اس کائنات اور فطرت کو ایسا شاہکار ثابت کر دیں جو بغیر ارادے اور بیرونی قوّت کے خود بن گیا۔ خود کو روشن خیال اور وسیع القلب گرداننے والے درحقیقت بند ذہن لیے ہوئے افراد ہیں جنہوں نے حاصل علوم کی خیرہ کن چمک سے عام انسانوں کو مغالطے میں رکھا ہوا ہے۔ جیسا کہ تذکرہ ہوچکا ہے کہ انسان ایٹم سے بنا ہے تو پھر ہمارے جسم کے علاوہ ہمارے خیالات اور جذبات، ہمارے حواس اور شعور کا منبع بھی ایٹم ہوا۔ ابھی تک سائنس یہ نہیں بتا پائی ہے کہ ایٹم میں زندگی کیسے آتی ہے؟ اور زندگی میں شعور، جذبات اور حواس کیسے عیاں ہوتے ہیں؟ ایٹم میں ایسا کیا ہے کہ زندگی، شعور اور جذبات ابھر آتے ہیں؟ ان بنیادی سوالات کے جوابات میں سائنس کا بے بس ہونا تو یہی ظاہر کرتا ہے کہ انسانی سائنس سے برتر کوئی اور سائنس ہے جس کو سمجھنا ہی انسانی سائنس ہے۔ کیا ہم اس برتر سائنس کا منبع سمجھ سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہی ہمیں بتائے گا کہ ہم کون ہیں۔
تحریر مجیب الحق حقی

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password