انسان خدا کوکیوں نہیں سمجھ پاتا؟

انسان نے سب سے زیادہ خدا کی پہیلی کو بوجھنے کی کوشش کی کہ خدا کیا ہے؟ لیکن آج تک بوجھ نہ سکا۔اس کے دو مطلب ہی نکل سکتے ہیں،ایک یہ کہ یہ بحث ہی لاحاصل ہے کیونکہ خدا ہوگا ہی نہیں،دوسرا یہ کہ اگر خدا ہے تو اتنے پردوں میں ہے کہ اس کو جاننا مشکل ہے۔
پہلی بات کی تردید میں وجود کے بارے میں کیوں در کیوں کے اتنے سوال ہیں کہ ہر اسکالر بےبس ہو جاتا ہے ۔اگر دوسری بات درست ہے تو پھر،انسانوں کی عظیم اکثریت کیوں خدا پر یقین رکھتی ہے؟اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کے ذہن میں خدا کا تصوّر ہے ہی کیوں؟کیا اس کی کوئی سائنسی تشریح ہے؟
خدا کے بارے میں میں نے بھی بہت سوچا اور یہ خیال جاگزیں ہوا کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ ایک عظیم خالق جو ہر طرح کی تخلیق اور ہر طرح کی سائنس پر قادر ہو، وہ انسان کو اپنے بارے میں بھٹکتا چھوڑ دے۔ انسان کسی نہ کسی طور اس کو طبعی بنیادوں پر بھی پہچان سکتا ہوگاکیا اس گتھی کو سلجھایا جا سکتا ہے؟ لیکن خدا کو جاننے میں تو انسان اب تک بےبس ہی رہا ہے، اس لیے کیوں نہ اس سوال کو نظرانداز کرکے ہم ایک دوسرے نسبتاً آسان سوال کا جواب نہ تلاش کریں، وہ یہ کہ:
کیا ہم علمی یا سائنسی طور پر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم خدا کو کیوں نہیں جان سکتے۔؟
یہ متبادل سوال ہے۔ اگر اس سوال کا ہی مناسب عقلی، علمی اور منطقی جواب مل جاتا ہے تو ہمارے تجسس کو کچھ تسکین مل جائےگی۔ گویا اب ہمارا سوال کہ خدا کیا ہے یا اس کو کس نے بنایا کے بجائے یہ ہوا کہ: ہم خدا کو کیوں نہیں سمجھ سکتے ؟اس سوال کا مناسب علمی اور منطقی جواب ہمیں خدا، کائنات، زندگی اور انسان کا صحیح فہم understanding دے سکتا ہے۔ اور خدا کے بارے میں تشکیک کا عنصر بھی ختم ہو سکتا ہے۔
آئیے اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ میرے اس تجسّس کا ماحصل درج ذیل ہے۔
ابھی ہم نے دیکھا کہ کچھ سوالات جب کیوں پر آکر اٹکے تو ہمارا علم بھی وہیں تھم گیا۔ یہ ابھرتے سوالات ایک معقول جواز رکھنے کے باوجود سائنسی طور پر لاینحل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم یہ سوال ہی کیوں کرتے ہیں کہ کائنات کیوں بنی، انسان کیوں بنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سوالات انسان کے شعور اور ذہن میں کس قانون کے تحت آئے جن کے جواب ندارد ہیں۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان کے جوابات ہوں لیکن ہمیں ان کا علم نہ ہو! گویا ہمیں اپنی کاوش کی ابتدا بالکل بنیاد سے کرنی ہوگی یعنی پہلے زندگی اور پھر خیال کی اساس کی چھان بین کرنی ہوگی۔
مادّے میں زندگی کیوں آجاتی ہے، اس کا جواب سائنس کے پاس نہیں، لیکن مذہب اس کا سبب روح کو بتاتا ہے۔ اس کو مختصراً یوں سمجھ لیں کہ روح جسم کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ بیرونی ماحول سے منسلک لوازمات سے روح کی عطا کردہ زندگی کو برقرار رکھے جیسے انسان آکسیجن اور غذا حاصل کرتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اس بحث میں ’’ہم‘‘ کہاں ہیں؟ہم کیا ہیں؟ جسم یا روح یا پھر دونوں کا ایک آمیزہ! اس پر پہلے ایک مضمون (خود آگہی: میں کون ہوں) میں بات ہوچکی ہے۔
اب ہم اپنے اصل مضمون کی طرف آتے ہیں۔
ہمارا یہ تاثر یا ادراک کہ ہم سوچ رہے ہیں ہمارے شعور کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ شعور ہی ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہم سوچ رہے ہیں۔گویا ہمارے افکار اور خیالات کا ادراک ہمارے شعور کی وجہ سے ہے۔ یہاں ہمارے لیے یہ جاننا منطقی ہے کہ: ہمارا شعوری ادراک کس طبعی واسطے سے ہم سے رابطے میں رہتا ہے؟
اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ یہ ہمارا دماغ ہی ہے جو بظاہر تمام خیالات اور شعور کا منبع ہے۔ کسی بھی چیز کی کارکردگی کا انحصار اس کی ساخت کی ماہیت پر ہوتا ہے جیسے لکڑی کی بنی سائیکل اور لوہے کی بنی سائیکل کی کارکردگی کا فرق۔ اب انسانی شعور کی وسعت دماغ کی ساخت کی ماہیت پر منحصر ہوگی گویا دماغ کا ساختی جَوہر شعور کی کارکردگی کی حدود ِکار کی تشریح کرے گا۔ انسانی دماغ کی ساخت خلیاتی ہے یعنی یہ خلیوں سے مل کر بنا ہے۔ ہر خلیہ کی ایک سرشت intrinsic ہوتی ہے جو جامد یا متعیّن ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی مرکب یا آمیزے کی جبلّت اس کے بنیادی خلیات کی جبلّتوں کے برخلاف کسی نئی جبلّت پر جامد ہوگی۔ اس کو یوں سمجھیں کہ آکسیجن آگ بھڑکاتی ہے لیکن ہائیڈروجن سے مل کر جب پانی بنتی ہے تو ان دونوں کی سرشت بدل جاتی ہے۔ اسی طرح پانی میں پیدا ہونے والے خلیات سے جنم لینے والی زندگی کا شعور ایک خاص دائرے میں عمل پذیر ہوگا، برعکس اس شعور کے جو کسی طرح حرارتی یا تنویری light بنیاد رکھتا ہو۔ یہ اہم نکتہ ہے جو کسی حیات کے تخیّلات اور اعمال کے پیرائے ڈیفائن کرتا ہوگا۔ اب ہم انسانی شعور اور خیال کی طرف آتے ہیں، انسانی خیال کی بنیاد اس مادّے کے تئیں ہے کہ جس سے دماغ بنا، دماغ جیلی کی طرح ایک گودے کا عضو ہے جو ستّر فیصد پانی ہے، اس کی ساخت خَلیاتی ہے۔ اس کے اندر ایک سو بلین نیورون یا اعصاب ہیں جو کھربوں کنکشن کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہاں تک واضح یہی ہوا کہ انسان اپنے دماغ کے بموجب ایک مادّی شعور کا حامل ہے ۔
ہمارا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ درخت اور پھول بھی خلیاتی بنیاد رکھتے ہیں مگر کوئی انہونا شعور رکھتے ہیں جس کا ہمیں علم نہیں کیونکہ ہم ان کے دماغ کو نہیں ڈھونڈ پائے۔ چھوئی موئی کا درخت جو ہمارے لمس کا شعور رکھتا ہے اور چھونے پر فوری ردّ عمل میں سکڑ جاتا ہے، ان کے شعور کی زندہ مثال ہے۔ سورج مکھی کا پھول اپنا رخ سورج کی طرف رکھتا ہے، تو یہ بھی شعوری حرکت ہے۔ ہمیں ان کے اندر کسی مرکزی اعصابی عضو یا نظام کا پتہ نہیں لیکن ان کے شعوری طرز ِ عمل کے پیچھے کسی ٹیکنیک کا ہونا تو منطقی ہے۔ اسی طرح کوئی حیات خلیے اور توانائی کے مرکّب سے بھی تو ظہور پذیر ہو سکتی ہے تو اس کے اعصاب اور شعور مخفی بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر ایٹم میں کوئی محدود شعور ہے بھی تو ہمیں اس کا پتہ نہیں۔ یہاں ہمارا علم فی الوقت رکا ہوا ہے۔ اتنا جان کر ہم بھی یہاں رک جاتے ہیں کیونکہ ہمارے سامنے اب ہماری سوچ، خیال اور شعور کی طبعی بنیاد آشکارا ہوگئی ہے کہ انسانی شعور دماغ کا پروڈکٹ ہے اور دماغ خلیات کا مجموعہ ہے، اور اسی سے منسلک ہوئی ہمارے شعور کی حدود کار۔ انسانی شعور میں دانش ہے جو حیوانات اور نباتات میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لحاظ سے انسانی شعور بقیہ معلوم شعوروں سے برتر ہوا۔ دوسرے لفظوں میں اگر حیات روح سے متعلق ہے توشعور کی کارکردگی بھی روح کی ماہیت پر منحصر ہوئی۔ گویا روح بھی مختلف پیرائے کی حامل ہوئی۔
اب آتے ہیں جدید علوم کی طرف کیونکہ اس کی مدد سے ہم اپنے مرکزی سوال کا جواب ڈھونڈیں گے۔
کیا انسان کسی طرح کی ذہانت اور شعور کو بنا پایا ہے؟
جواب یہی ہے کہ اپنے جیسا تو نہیں مگر ہاں انسان نے نہ صرف مصنوعی ذہانت تخلیق کر لی ہے بلکہ اپنے جیسا مشینی انسان بھی بنا لیا ہے۔ انسانی روبوٹ مصنوعی ذہانت رکھتے ہیں اور انسان کے مقرر کردہ پیرائے میں عمل کرتے ہیں۔ انسانی ہیئت کے روبوٹ جنہیں homoid-robot کہا جاتا ہے، فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے قریب پہنچ چکے ہیں.
کچھ حوالہ جات :
1.کچھ مستقبل کے ماہرین یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اگلے سولہ سال میں روبوٹ انسانی ذہانت کا معیار پاچکے ہوں گے اور اسمارٹ انسان کو پیچھے چھوڑ دیں گے، کچھ کا خیال ہے 2100 تک (ایسا ہوجائے گا)، کچھ بھی ہو یہ نزدیک ہے۔ (خلاصہ)
Some futurists think the singularity — the point at which artificial intelligence can match, and then overtake, human smarts — might happen in just 16 years, while others say by 2100. Either way, it’s near.
2. آئی بی ایم نے ڈاک کے ٹکٹ کے برابر ایک سپر چپ بنائی ہے جو انسانی دماغ کی طرح سوچ سکتی ہے۔ اس میں 5.4 بلین ٹرانسسٹر کنکشن ہیں جو انسانی دماغ کے ایک ملین نیورون اور 256 ملین نیورل کنکشن کے برابر کارکردگی کے حامل ہیں۔ یہ نہ صرف انسانی دماغ کی کارکردگی کی نقل کرتا ہے بلکہ ان کو آپس میں ٹائلز کی طرح جوڑا بھی جا سکتا ہے۔ (خلاصہ)
This Computer Chip Can Think Like a Human Brain
IBM’s latest brainlike computer chip may not be “smarter than a fifth-grader,” but it can simulate millions of the brain’s neurons and perform complex tasks using very little energy. Researchers for the computer hardware giant have developed a postage-stamp-size chip, equipped with 5.4 billion transistors, that is capable of simulating 1 million neurons and 256 million neural connections, or synapses. In addition to mimicking the brain’s processing by themselves, individual chips can be connected together like tiles, similar to how circuits are linked in the human brain))
3۔مشینیں جو جو محسوس کرسکتی ہیں، استدلال اور فیصلہ کرسکتی ہیں، بڑے پیمانے کے مسائل کے حل میں تیزی لائیں گی۔
Machines that can sense, reason, and act will accelerate solutions to large-scale problems…..
ان معلومات کے تذکرے سے جو بات اخذ کرنی تھی وہ یہ کہ غیر معمولی شعور کا مالک انسان اس دور میں علمیت کے ارفع مقام پر پہنچ کر خود بھی ایک طرح کی مصنوعی زندگی کا خالق بنتا جارہا ہے۔

لیکن جو سوال سامنے آ رہا ہے، اس کا جواب وہ ہمارے مخمصوں کو ختم کر سکتا ہے۔وہ یہ ہے کہ:
کیا جدید اور ذہین ترین سپرروبوٹ جو مصنوعی ذہانت کا حامل ہوگا اور محدود شعور سے فیصلہ کرنے کے قابل بھی ہوگا، کیا اپنے خالق کو جان پائے گا کہ انسان کیا ہے؟
اس کا سادہ سا جواب یہی ہوگا کہ وہ انسان کے بارے میں اتنا ہی جان پائے گا کہ جتنی معلومات انسان اس کے پروگرام میں مہیّا کرے گا۔ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ:
کیا انسان روبوٹ کو ایسا ’’شعور‘‘ سوفٹ ویئر پروگرام کے ذریعے ٹرانسفر کرسکتا ہے کہ وہ انسان کو ہو بہو جان سکے؟
یہاں پر کامن سینس سے ہی غور کیا جاسکتا ہے۔ اس کا جواب جاننے کے لیے ہم سپر روبوٹ کی برین چپ کی طبعی ’’جبلّت‘‘ کی طرف آتے ہیں جس کی ساخت میں دھات اہم عنصر ہے جبکہ اس کا خالق انسان سیل یا خَلیات سے بنا ہے جس کی وجہ سے دونوں کی وجودی جبلّت میں تضاد diverse-intrinsic ہے۔ اب اس تضاد کے باعث انسان اپنے متعلق لاکھ ڈیٹا سوفٹ ویئر یا پروگرام میں ڈال دے، وہ ڈیٹا حسابی تشریح تو ہوگا لیکن کسی طرح بھی خلیاتی جبلّت کا کوئی عکس یا پیرایہ نہیں ہوسکتا، سُپر روبوٹ یا سپر کمپیوٹر اپنے ’’دھاتی شعور‘‘ کی محدودیت میں ہی اس کا تجزیہ کرے گا۔ سپر ذہین روبوٹ کبھی نہیں جان سکتا کہ انسان کا دیکھنا اور سننا کیا ہے؟ یا اس کے پیرائے کیا ہیں؟ کیونکہ اس جانکاری کا انحصار روبوٹ کے ’’شعور‘‘ کی ’’فطری ساخت‘‘ پر ہونا تھا کہ روبوٹ کی مصنوعی فکری سرشت انسان کی سرشت سے کتنی ہم آہنگ ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ:
انسان اسی وقت روبوٹ کو اپنی ذات کا حقیقی شعور یا ادراک دے سکے گا جب روبوٹ کی ساخت میں کسی طرح خلیاتی منطقی وصف cell-bound-lojic بھی منتقل کر دے۔ کیونکہ کمپیوٹر پروگرامنگ صحیح۔غلط true-false منطق پر ہوتی ہے۔ ہمارا علم اور استدلال اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ صرف مذکورہ طریقے سے ہی انسان اپنی ذات کے کسی حصّے کا عکس یا شعور روبوٹ کے سوفٹ ویئر پروگرام میں منتقل کر کے اپنی ذات کا ادراک کسی نہ کسی پیرائے میں منتقل کر پائے گا۔ یعنی روبوٹ کی ایسی برین چِپ جو دھات اور حیاتیاتی ریشوں کا مرکّب ہو، وہی شاید اس کو انسانی وجود کی کوئی طبعی ڈائمنشن سمجھا سکے، اس کے بغیر انسان سپر روبوٹ کے لیے ایک عدد یا الجبرا کی ایکویشن یا پروگرام کی ایک لائن ہی رہےگا۔
کیا انسان کسی دھات اور زندہ خلیے کی اکائی کو مجتمع کر سکتا ہے؟کیا انسان ان دونوں کو ملا کر ایک نئی جبلّت تخلیق کر سکے گا؟جواب یہی ہوگا کہ شاید ہاں! کیونکہ اس ضمن میں تحقیقات اور تجربات جاری ہیں۔

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ انسان میں خدا کا تجسّس کیوں ہے؟
پہلی بات تو یہ طے ہوئی کہ خالق کی مرضی کے بغیر مخلوق اس کو نہیں سمجھ سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو سمجھوانے کے لیے خالق میں یہ قوّت اور صلاحیّت ہونی لازمی ہے کہ تخلیق میں اپنی ذات کا شعور یا کوئی عکس منتقل کر سکے۔ یہی ذات کا عکس اپنی کسی جہت میں خالق اور مخلوق میں رابطے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ایک روبوٹ کو کبھی خود تجسّس نہیں ہوگا کہ اس کو کس نے بنایا لیکن انسان اس سوال میں پریشان اور غلطاں ہے۔ اپنی ذات سے متعلق تجسّس اور سوال انسانی جبلّت میں ڈال دینا ہی کامل خالق کا کام ہے۔ یہی حق تعالیٰ کی عظیم خلاّقی ہے کہ خدا کا خیال خواہ مثبت پیرائے میں ہو یا منفی، ہر انسان کے ذہن اور لا شعور میں کلبلاتا ضرور رہتا ہے۔
اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ ہم خدا کے بارے میں کیوں سوچتے ہیں؟
دیکھیں جناب! انسانی علوم روح کی سائنس نہیں سمجھ پائے تو اس کا انکار کیا لیکن شعور کو جھٹلانا تو مشکل تھا، اس کو مائنڈ mind کہہ کر قبول کیا لیکن اس کی تعریف اور وضاحت کرنی پھر بھی مشکل ہی رہی۔ فلسفی آج بھی مائنڈ باڈی مسئلے mind-body-problem میں اُلجھا ہی ہوا ہے۔ عناصر elements میں روح soul کی آمیزش انہیں حیاتیاتی اکائی living-unit یعنی سیل بناتی ہے، اس طرح انسان کی ساخت دو رُخوں پر ہے۔ ایک خالص طبعی یعنی جسم لیکن دوسرا رخ اس سے ماورا ہے جیسے ہماری روح، خیالات، شعور اور لاشعور وغیرہ۔ اساس کی یہی جوہری ساخت انسانی دماغ کی تخیّل کی جبلّت یا سرشت کو دو رخُا کر دیتی ہے۔ اس طرح خیالات کی بیک وقت دو پیرامیٹرز میں عمل پزیری ہوتی ہے، ایک خالص طبعی جبکہ دوسرا ما بعد الطبعی۔ اب سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ انسانی دماغ میں طبعی physical اور غیر طبعی metaphysical ہر دو جبلّت کے حوالے سے آرگومنٹ ابھرتے ہیں جس کی وجہ ہم جان چکے ہیں، کیوں کہ دماغ کا طبعی رُخ اپنی خلیاتی جبلّت کے پر تو اپنے خالق کی ہستی کے پیرائے نہیں جان سکتا، لہذٰا ہمارے طبعی اعصاب اور حواس اس کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں لیکن دوسری طرف دماغ کا روحی رُخ اپنی کسی انجانی و پر اسرار جبلّت کے تئیں ہمیں خالق کے حوالے سے مطّلع کرتا رہتا ہے اور خانہ ٔ لاشعور میں دستک دیتا رہتا ہے۔گویا ہم خدا کے بارے میں سوچتے ہیں کیونکہ روح کے حوالے سے یہ کوئی فطری سوچ ہوتی ہے۔
اسی سلسلے میں اہم ترین سوال یہ ابھرتا ہے کہ: اگر روح ہے بھی تو اس کی جبلّت میں خدا کہاں سے آگیا؟
یہ ایک مناسب اور مضبوط valid سوال ہے۔ اس کا جواب عقل میں نہیں وجدان میں ہے، لیکن یہ وجدان طبعی بنیاد بھی رکھتا ہے یعنی ایک کتاب! یہاں قرآن کی اس آیت کا تذکرہ بر محل ہوگا جس میں تمام ارواح سے اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کا اعتراف کرایا تھا۔
’’کیا میں تمہارا رب نہیں؟ ‘‘’’ضرور، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘‘
خالق نے کسی انجانے طریقے سے اپنی ذات کا شعور منتقل کیا تو ارواح نے خالق کو پہچانا اور اللہ کا بطورخالق اقرار کیا۔ یہی اقرار انسانی روح کی جبلّت بن کر خیالات کے منبع میں پیوست ہوا اور ایک لازوال غنائی وِجدان کی طرح ہر ذی نفس کے لاشعور میں سرسراتا اور مترنّم رہتا ہے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اللہ نے فرمایاکہ اس نے آدم میں اپنی روح پھونکی۔ اب یہاں عموماً لوگ گمان کرتے ہیں کہ انسان ہی کی طرح اللہ کی بھی کوئی روح ہے، لیکن ہم یہاں ایک دوسرے زیادہ منطقی نکتے سے غور کرتے ہیں کہ اللہ انسانی شعور سے بالا لامحدود پیرایوں کی ایک ہستی life-with-infinite-dimensions ہے جس کا کوئی پیرایہ یاگوشہ روح بھی ہے۔ اس طرح ہمارے خالق نے اپنی ذات کا شعور اس پیرائے کے ذریعے انسان میں منتقل کیا۔ اسی بنیاد پر ہم یہاں غور کر رہے ہیں۔
ہمیں اس سوال کا مناسب اور منطقی جواب بھی مل گیا کہ ہم خدا کے بارے میں کیوں سوچتے ہیں!

ایمان ، عقیدہ، مادیّت:
اب ایک اہم فیکٹر آتا ہے وہ ہے یقین کا۔ یہاں ایمان اور عقیدے کا اہم کردار ہے۔ ہمارا یقین بھی اپنی ایک بنیاد رکھتا ہے اور اس کا تعلق بھی ہمارے شعور کے دو رخوں سے ہے۔ جو انسان صرف فزکس یعنی مادّیت میں ایمان و یقین رکھتا ہے، اس کے شعور کا طبعی رُخ بہ نسبت روحی رُخ کے زیادہ فعّال ہوتا ہے، اس لیے وہ کسی خیال کو طبعی شواہد کے تئیں رد اور قبول کرنے کی سرشت رکھتا ہے۔ اس کے مقابل ایک متوازن عقیدہ مادّی اور روحی دونوں رخوں سے ہم آہنگ ہوگا۔

٭انسان خدا کوکیوں نہیں سمجھ پاتا؟
اور کیوں جان بھی لیتا ہے؟
اب تک کی بحث سے ہمیں یہ جواب ملا کہ ہم خدا کو اس لیے نہیں سمجھ سکتے کہ ہمارا خلیاتی شعور cell-bound-consciouness بظاہر لامحدود پرواز رکھنے کے باوجود عدم کے پیرامیٹر سے ’’نیم ہم آہنگ‘‘ partly-compatible ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ فی الوقت انسان کی طبعی ساخت کے بجائے اس کی ما بعد الطبعی ساخت یا روح اپنی آفرینش کی بنیاد یعنی عدم سے ہم آہنگ ہے، اس لیے جو انسان اس رخ کو قبول کرتا ہے اس کا شعور اُس طرف کھنچتا ہے اور وہ خدا کو مان اور جان لیتا ہے اور جو صرف طبعی پیمانوں اور شواہد میں کائنات اور انسان کا جواز تلاش کرتا ہے، وہ خدا کو نہیں جان پاتا اور مخمصوں اور فلسفوں میں اُلجھ کر منکر بنا رہتا ہے۔
اب دیکھیے کہ ایک منکرِ خدا سائنسداں یا اسکالر کسی بھی انسان کو محض ایک طبعی جسم سمجھتا ہے مگر اس میں حیات کی توجیہ نہیں دے پاتا۔ جبکہ جو خدا کو مانتا ہے وہ روح کو بھی مانتا ہے اور حیات کی بنیاد بھی روح کو مانتا ہے، اس کا یہ بھی عقیدہ ہوگا کہ اس کی روح کا خالق سے کوئی خصوصی تعلّق ہے۔ اس طرح اول الذکّر روحی سگنلز کو نظرانداز اور مسترد کر کے خدا کا منکر تو بن جاتا ہے لیکن کائنات کے بےشمار سوالات کے جواب کے بارے میں مستقل مخمصوں میں گرفتار رہتا ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف مذہب پر ایمان رکھنے والا انھی روحی اشارات کو قبول کرتا اور اس راہ پر بڑھ کر ایک متوازن فطری دو رخُی سوچ کا حامل ہوجاتا ہے جس میں اس کو ہر سوال کا منطقی جواب ملتا ہے۔
گویا مذہب انسان کو اس کے دونوں رخوں سے متعارف کرا کے ایک مطمئن شعور عطا کرتا ہے جبکہ دہریت صرف مادّی نظریات کی پروردہ ہو کر انسان کو بھٹکائے رکھتی ہے اور انسان مابعدالطبعیات سے متعلق سوالات کے جواب کے بارے میں مخمصوں میں ہی اُلجھا رہتا ہے، آج کل کے جدید لادینی فلسفے اور سائنسی نظریات یہ اقرار کرتے ہیں کہ حیات، انسان کی ابتدا، اس کا شعور اور خیالات thoughts راز mysteries ہیں۔
٭فلسفے، نظریات اور ازم:
مختصراً روح کو کُلّی مسترد کرنے والے اپنے وجود کی روحی سمت کا دروازہ بہت سختی سے بند کر کے ایک شعوری قفل mind-lock لگا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں مادّیت پرست ہوکر ملحد بن جاتے ہیں، جبکہ کچھ اصحاب ہیں جو اس غنائی وِجدان کی سرسراہٹ سے کبھی کبھی بےخود بھی ہوجاتے ہیں، اس لیے خدا کا انکار بھی نہیں کرپاتے۔ ایسے لوگ فطری طور پر ہر چیز کا جواز اور منطق ڈھونڈتے ہوئے طبعیات اور مادیّت کے خوگر تو ہو جاتے ہیں لیکن اندر روح کی طرف سے آنے والے فطری اشاروں کو بھی نظرانداز نہیں کر پاتے۔ ایسے انسانی گروہ اس مخمصے کی صورتحال میں ایک درمیانہ راستہ نکال کر اپنے آپ کو اس طرح مطمئن کر لیتے ہیں کہ مذہب کو دقیانوسی بھی قرار دیتے ہیں اور خدا کے منکر بھی نہیں ہوتے! کائنات اور انسان کی ابتدا کے حوالے سے تذبذب کا شکار یہ دوست اپنے مخمصوں کو جدیدیت کی نقاب پہناکر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ مختلف تعریفوں اور نام کے’’ازم‘‘ اور فلسفوں کے بموجب خدا کو ذاتی مسئلہ قرار دے کر اسلام کی آفاقیت کی مخالفت کرتے ہوئے یہ اصحاب مذہب کے گلّے سے بھٹکی ہوئی بھیڑیں ہیں جو اپنے مخمصوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے مذہب کے بجائے مذہبی عقائد، علماء اور رسوم کو اپنی تنقید کی زد میں رکھتے ہیں۔ ان پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ:
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں!
۔
حاصل مطالعہ یہی ہے کہ خدا ایک زندہ ہستی ہے جو صاحب ارادہ اور لامحدود صفات کی حامل ہے۔ یہ بھی ہم ابھی سمجھ چکے ہیں کہ ہمارے شعور کے محدود پیمانوں کے مطابق عدم میں موجود زندگی اگر نور یا نور علیٰ نور ہے یا اس بھی برتر اور جدا ہے تو اس کے پیمانے انسان اپنی جبلّی ساخت اور خلیاتی عقل سے نہیں جان سکتا۔
لیکن ۔۔۔سمجھنے والی بات یہ بھی ہے:کہ انسان خدا کو اتنا ضرور سمجھ سکتا ہے کہ جتنا انسان خود چاہے،لیکن سمجھ کا یہ پیمانہ انسان کی طلب اور خالق کی عطا پر منحصر ہے،دلیل اس کی اللہ کا فرمان ہے کہ:جو اُس کی طرف چل کر جاتا ہے تو اللہ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے!تو اللہ کی ذات اور قرآن میں غور کیجیے۔یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر خالق ہی چاہے تو انسان طبعی پیمانوں میں بھی اپنے رب کو پہچان لے گا۔ (واللہ اعلم)
کیونکہ اس کی قدرت لامحدودہے۔نبی اکرم ﷺ کا فرمان بھی یاد کریں کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا!
یہ سطور اپنے آپ کو جاننے اور پہچاننے کی ہی سعی ہیں۔کیا آپ جان پائے کہ ہم اللہ کو کیوں نہیں سمجھ پاتے؟انسانوں میں مختلف گروہ کیوں ہیں؟کیا آپ کے تجسّس کو کچھ قرار آیا؟وماَ توَفیقِی الّاباللہ۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password