کیا مظاہر پرستی کو درست سمجھنے کے  معقول دلائل موجود ہیں؟

1.1. معجزات کا ناممکن ہونا[The Impossibility of Miracles
معجزات کے تصور پر متعدد مذہبی سوالات ہیں ،جن پر مظاہر پرست اور خدا پرست گرمجوشی سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ معجزہ کیا ہے؟کیا خدا کے لیے معجزے کرنا ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو کیا یہ صفات ِ الہی کے کمال پر سمجھوتہ ہو گا؟ کیا ہم اس کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اس کی شناخت کر سکتے ہیں؟ معجزات کیوں اہم ہیں؟ یہ وہ تنقیدی سوالات ہیں جن پر میں ذیل میں بحث کرونگا۔
1.1.1. معجزہ کیا ہے؟
والٹیئر معجزہ کی تعریف ایسے کرتا ہے، “ریاضی ، خدائی، ناقابل تغیر ، آفاقی قوانین کی خلاف ورزی “۔ اسی طرح ، ڈیوڈ ہیوم ایک معجزہ کو “فطرت کے قوانین کی خلاف ورزی” کہتے ہیں۔ (citations taken from McGrew, 2019) عبداللہ القرنی نے معجزات کی وضاحت ایسے کی ہے:
“نشانیاں، جو قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور انسانوں ، روحوں اور جنات کی طاقت سے بالاتر ہیں۔یہ خدا اپنے نبیوں کو خصوصی طور پر انکی نبوت کی نشانی کے طور پر دیتا ہے تاکہ لوگ ان میں جھوٹے نبیوں میں فرق کرسکیں اور یہ جان سکیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہی بھیجے گئے ہیں ۔ (2008, p. 138)۔”
ابن تیمیہ ؒکہتے ہیں کہ معجزہ کی نوعیت کا تعلق یا تو علم (جیسے مستقبل کی پیش گوئی کرنا) یا طاقت اور صلاحیت (جیسے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ، چاند کے دو ٹکڑے کرنا) سے ہے (1989, p. 150)۔ وہ جنات، جادوگروں اور قسمت کا حال بتانے والوں کے محیر العقول کاموں اورمعجزات میں فرق کا خیال کرتے ہیں ، کیونکہ معجزے اعلی و ارفع مقاصد کے لئے صرف نبیوں کے ہاتھوں انجام دیئے جاتے ہیں (1989, p. 141) ، جبکہ ایسے محیر العقول واقعات جو جھوٹے نبی ، جادوگروں وغیرہ کے ہاتھوں سر انجام پاتے ہیں، وہ اپنے نتائج میں شیطانی مقاصد کے لئے ہوتے ہیں (Ibid., pp. 160-162)۔ ابن تیمیہؒ واضح کرتے ہیں کہ نیک بزرگ و ولی بھی کرامت دکھا سکتے ہیں ، لیکن اس میں اور انبیاء کے معجزات میں فرق ہوتا ہے ۔ (1989, pp. 142-143)۔ ابن تیمیہ ؒ کے نزدیک انبیاء کے معجزات کی نوعیت اوران کی انفرادیت کا اثبات کرنا بہت ضروری ہے تاکہ ہم ان کی نبوت کی اسناد کا پتہ لگا سکیں۔ ان کا ماننا تھا کہ خدا کی حکمت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ایک ایسا طریقہ کار موجود ہو جس میں ہم نبوی معجزات اور دیگر مافوق الفطرت کاموں میں فرق کر سکیں۔ (Ibid., pp. 143-144, 151, 944)۔ میں آگے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تجویز کردہ کچھ طریقوں پر روشنی ڈالوں گا۔

کیا مظاہر پرستی کو درست سمجھنے کے  معقول دلائل موجود ہیں؟ [Are There Good Reasons for Thinking Deism Is True?
مظاہر پرستی کے لایعنی اور غلط ہونے کی تین وجوہات فراہم کرنے کے بعد ، میں اب مظاہر پرستی کی حمایت میں پیش کیے جانے والے مندرجہ ذیل دو دلائل کو زیر بحث لاؤنگا۔
1) معجزات کا ناممکن ہونا اور
2) خدا کے مخفی رہنے کی دلیل۔

1.1.2. کیا معجزات اہمیت رکھتے ہیں؟
پاین کا دعوی ہے کہ “مظاہر پرستوں کو اپنے ایمان کی تصدیق کے لئے ایسی چالوں اور نماِئشی چیزوں کی ضرورت نہیں ہے جنہیں معجزات کہتے ہے ، کیوں کہ خود تخلیق اور اس کے اپنے وجود سے بڑا معجزہ اور کیا ہوسکتا ہے” (1892, p. 398)؟ وہ چونکہ وحی الہی کا مکمل انکار کرتا ہے اس لیے ایسا موقف رکھ سکتا ہے ۔ تاہم ، اگر ہم معجزات کے امکان کھلا رکھتے ہیں ، تو پھر ان کی افادیت اس امر سے واضح ہوتی ہے کہ یہ ہماری اسکا فیصلہ کرنے میں مدد کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے بھیجا گیا اصل مذہب اور نبی کونسا ہے؟ چنانچہ اس سلسلے میں بلاشبہ معجزات اہمیت رکھتے ہیں۔

1.1.3. کیا معجزات قابل شناخت ہیں؟
یہاں دو علمی (epistemological )سوالات ہیں جن کے جوابات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے ، کیا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کوئی معجزہ ہوا ہے یا نہیں ‘ عینی شاہدین پر انحصار کرنا ممکن ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ، پھر کیا یہ ممکن ہے کہ جھوٹے نبیوں ، شیطانوں اور دیگر لوگوں کے محیر العقول کاموں اور ایک حقیقی نبی کے پیش کیے گئے معجزے کے مابین تمیز ممکن ہو؟
پہلے سوال کے بارے میں ، میک گریو (McGrew)کہتے ہیں کہ معجزات کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے کے لئے عام طور پر چار دلائل دیے جاتے ہیں ہیں: 1) قیاس ، 2) تنقیدی معیار، 3) وضاحتی ، اور 4) امکان (2019, para. 22 )۔ جب عام طور پر لاگو کیا جاتا ہے تو چاروں طریقوں میں خامیاں ہوتی ہیں، پھر بھی ہر ایک کی تاثیر کا اندازہ معاملے کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ، اگر کوئی یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ چونکہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کے مبینہ دوبارہ زندہ ہونے کے واقعہ کو ثابت کرنے کے لیے ایسے دلائل کامیابی کے ساتھ بروئے کار لانے میں ناکام رہے ہیں ، تو یہ معقول قیاس ہے کہ غیر عیسائی مذہب والے بھی اپنے عقیدے کی سچائی ثابت کرنے میں بھی لازماً ناکام رہیں گے۔ معجزات کی نشاندہی سے متعلق علمی اعتراضات ایک انتہائی پیچیدہ موضوع ہے، جس کی ایک دو پیراگراف میں حقیقت واضح نہیں کی جاسکتی ۔ تاہم ، میں مسلم فقیہ اور ماہر قانون دان عماد ابن عمرو القرطبی (متوفی 1258) کے درج ذیل اہم تبصرہ پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں:
“آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ معجزہ صرف ان لوگوں کے لئے مشاہداتی افادیت رکھتا ہے جو جانتے ہیں کہ خدا موجود ہے اور وہ بحیثیت ایک ایسی ہستی جو طاقت ، علم اور خود مختار ارادہ رکھتا ہے ‘ اپنے خصوصی بندوں کو رسول بنا کر بھیجتا ہے (2012, p. 264)۔”
چنانچہ جب تک کہ مظاہر پرست اس بات پر اصرار کرتے رہیں گے کہ خدا دنیا میں دخل انداز نہیں ہوسکتا ، وہ معجزات کے لیے ان کے سامنے پیش کیے گئے کسی بھی ثبوت کو ہمیشہ مسترد کر دیں گے ، چاہے وہ ثبوت کتنا ہی مضبوط ہو۔دوسری طرف ، اگر میں نے جو دلائل اب تک پیش کیے ہیں، وہ مظاہر پرستوں کو اس حد تک قائل کر سکتے ہیں کہ وہ نہ صرف دنیا کے معاملات میں خدا کی شمولیت کے امکان کے راستے کوکھلا رکھیں بلکہ اسکا یقین بھی رکھیں ، اسکے بعد مظاہر پرستوں کو معجزات کی تائید میں پیش کردہ شواہد کو الگ الگ لے کر (case to case) غور کرنے پر بھی آمادہ ہو جانا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں ،وہ مظاہر پرست جو خدا کی حکمت اور احسان کی صحیح طور پر تصدیق کرتا ہو، اس کو یہ یقین کرنا چاہئے کہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ شواہد نبوت کے لیے کسی نبی کے ہاتھ مافوق الفطرت عمل کروائے اور وہ اس بات کو بھی یقینی بناسکتا ہے کہ اس کے نبیوں کے معجزات قابل شناخت اور منفردہوں۔ اگر مظاہر پرست یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلے ہی دنیا کے بڑے مذاہب کے ثبوتوں کا جائزہ لے لیا ہے اور وہ پھر بھی قائل نہیں ہوئے ، یہ بھی اس دعوے کا جواز نہیں ہے کہ معجزات کبھی بھی قابل شناخت نہیں ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ مظاہر پرست یہ کیسے جان جاسکتا ہے کہ خدا بعد میں ایسے نبی نہیں بھیج سکتا جن کے ہاتھ معجزات رونما ہوسکیں۔
دوسرے سوال کے بارے میں کہ کیا پیغمبرانہ معجزات اور دیگر مافوق الفطرت کاموں میں فرق کیا جاسکتا ہے؟ ، ابن تیمیہ نے ایک درجن سے زیادہ تجاویز پیش کیں کہ یہ کیسے کیا جاسکتا ہے (1989, pp. 558-560, 664-669)۔ ان کے کچھ تجویز کردہ کچھ طریقہ کار یہ ہیں:
i.اخلاقی کردار کی تشخیص
دوسروں کے ساتھ معاملات کرتے وقت پیغمبروں کی صداقت ، دیانتداری ، سخاوت اور عظیم کردار مشہور ہے ، جبکہ جھوٹے نبی اور جادوگر اپنے جھوٹ ، خیانت ، لالچ ، برے رجحانات ، خارج از فہم و قیاس اور ظلمت اور سکون کی کمی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
ii. تعلیمات کے اخلاقی مواد کی تشخیص
انبیاء دوسروں کو بہترین کردار و عمل کا حکم دیتے ہیں۔ وہ لوگوں کو دعوت و تبلیغ کرتے ہیں کہ وہ اس میں تعاون کریں جو نیکی ہے اور گناہوں ، دشمنی اور برائی میں تعاون سے پرہیز کریں۔ انبیاء اُس بات کا حکم دیتے ہیں جس کا نتیجہ لوگوں کے مفاد میں ہوتا ہے ، جبکہ ساحر، کرتب باز ، جھوٹے نبی اور جادوگر اس کے برعکس کرتے ہیں۔
iii. اخلاص کا تعیّن
ہر نبی اُس خدائی پیغام کی سالمیت کی تصدیق کرتا ہے جو اس کے پیش رو نبی نے پیش کیا تھا۔ انبیاء اپنے لئے خصوصی توجہ نہیں ڈھونڈ رہے ہوتے۔ جہاں تک جھوٹے نبیوں اور جادوگروں کا تعلق ہے ، وہ عام طور پر ایک دوسرے کو بدنام کرتے ہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کا اظہار کرتے ہیں اور آپس میں تفرقہ پیدا کرتے ہیں۔
iv. معجزہ دکھانے والے کے اعمال کا تعین
انبیاء اپنی نبوت کا درجہ اس کے بارے میں سیکھ کر ، تلاش کرکے یا اسے محفوظ کرکے حاصل نہیں کرتے ۔ کسی بھی سچے نبی نے کبھی نبوت کا درجہ اپنی خواہش اور محنت کر کے نہیں حاصل کیا نا کبھی اسکا دعوی کیا کہ یہ اسکا کارنامہ ہے۔ ایسی کوئی رسومات نہیں ہیں جو نبوت کا مقام حاصل کرنے کے لئے ادا کی جاسکتی ہوں۔ اس کے بجائے ، یہ خدا کی طرف سے ایک تقرر اور انتخاب ہے۔ جہاں تک جادوگروں کی بات ہے ، وہ جادو سیکھتے ہیں اور اس کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور اس حیثیت کے حصول کے خواہاں ہوتے ہیں جو ان کی خواہش ہوتی ہے ۔ انکی جادوگری میں مہارت بھی مختلف ہوتی ہے، جس کی بنا اس پر ہوتی ہے کہ انہوں نے اس میں امتیاز حاصل کرنے کے لئے کتنا سیکھا اور تربیت حاصل کی ہے۔
اس طرح “معجزہ پیش کرنے والے” کے کردار ، اخلاق ، اخلاص اور تعلیمات کا تنقیدی جائزہ سچے اور جھوٹے نبیوں میں فرق کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

1.1.4. کیا معجزات کا ظہور ممکن ہیں؟ (Are Miracles Possible?)
مظاہر پرستوں کا دعوی ہے کہ معجزات ناممکن ہیں۔ مظاہر پرستوں کا ایک گروہ اس بنیاد پر ان سے انکار کرتا ہے کہ خدا ان کو کبھی بھی انجام نہیں دیتا ، جبکہ دوسرا یہ مانتا ہے کہ خدا معجزات کر ہی نہیں سکتا ۔(Lucci & Wigelsworth, 2015, p)]۔ وہ مظاہر پرست جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ خدا کبھی معجزے نہیں کرے گا، بَطَورِ دَليل یہ کہتے ہیں کہ خدا کی معجزاتی مداخلت کا مطلب ہوا کہ خدا کی حکمت اور علم میں نقص ہے۔ کیونکہ اسے مبینہ طور پر فطری قوانین کو ‘ایڈجسٹ’ کرنا تھا جو ایک بار جب خدا نے ان کو نافذ کر دیا تو کامل ہونےچاہیں تھے۔ ان کا خیال ہے کہ فطرت خدا کی غیر متغیر حکمت اور احسان کی عکاسی کرتی ہے ، اور اس کے نتیجے میں ہمیں خدا کے “قدرتی عالمی نظام” کو “معطل” کرکے “گھَڑی گھَڑی رائے بَدَلنے والے” خدا کے امکان کو نظر انداز کر نا ہو گا۔(Lucci & Wigelsworth, 2015, pp. 176 & 182)
اس سے پہلے میں نے اسپینوزا کا حوالہ دیا، جس نے دلیل دی کہ خدا معجزات دکھا کر دنیا میں مداخلت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ مبینہ طور پر اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ میک گریو اسپینوزا کی دلیل کو اس طرح پیش کرتا ہے::

  1. خدا کی مرضی قوانین فطرت کے ساتھ ملتی جلتی ہے۔
  2. معجزہ قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
  3. لازمی طور پر، خدا کی مرضی ناقابل تسخیر ہے۔ لہذا،
  4. معجزات رونما نہیں ہو سکتے (2019, para. 62)
    لہذا ، چاہے کوئی مظاہر پرست معجزات کے امکان کا اس وجہ سے انکار کرے کہ اسکے مطابق معجزات کے ظہور سے خدا کے کمال کی بیخ کنی ہوتی ہے یا فطری منطقی ناممکنات کی وجہ سے، یہ واضح ہے کہ مظاہر پرستوں کے مطابق معجزات ناممکن ہیں۔
    تاہم ، کیا معجزات کو “فطرت کی خلاف ورزی” ہی سمجھنا چاہیے؟ اگر ایسا ہے تو کیا خدا اپنے بنائے ہوئے قدرتی عالمی نظام کی “خلاف ورزی” کرسکتا ہے؟ اگر ہاں ، تو کیا یہ اس کی کمال صفات پر سمجھوتہ ہو گا؟ یہ تین اہم سوالات ہیں جن کا میں ذیل میں جواب دوں گا۔

کیا معجزات کو فطرت (نیچر) کی خلاف ورزی کا نام دینا چاہئے؟
وہ اہم سوال جس پر یہاں توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’ فطرت ‘‘ سے ہماری کیا مراد ہے؟ کیا فطرت کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں عام طور پر کیسے کام کرتی ہیں یا اس کا تعلق ان افعال سے ہے جو مکمل طور پر قدرتی قوانین کے مطابق ہوں اور جن میں ما فوق الفطرت دخل اندازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ رچرڈ پرٹل(Richard Purtill) اس سوال کو ایک دلچسپ تشبیہ کے ساتھ حل کرتے ہیں، جس کو شلسنگر (Schlesinger ) نے ایسے بیان کیا ہے:
“پرٹل کہتے ہیں کہ امریکہ میں انسانی رویوں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے قوانین کا ایک بہت بڑا مجموعہ موجود ہے ، لیکن کبھی کبھار غیر معمولی طریقے کار بھی متعارف کروائے جاتے ہیں، جیسے صدارتی معافی۔ معجزے کا موازنہ صدارتی معافی سے کیا جاسکتا ہے ، اس لئے کہ اس معافی کا سرچشمہ عام قانونی طریق کار سے باہر ہے۔ یہ غیر متوقع چیز ہے اور عدالت میں کسی وکیل کی تدبیر ان کو بدلنے کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوسکتی ، کیونکہ اسے دستیاب ذرائع سے زیر بحث لایا ہی نہیں جاسکتا جو اسکو کورٹ کی کاروائی میں میسر ہوتے ہیں ۔ اسی طرح معجزات کی تخلیق بھی سائنسدان کی سرگرمیوں سے باہر کی چیز ہے ۔جس طرح ‘صدارتی معافی’ قانونی نظام کی خلاف ورزی نہیں کرتی : اسکو غیر قانونی نہیں کہا جاسکتا ، بلکہ یہی کہا جاتا ہے کہ یہ قانونی نظام سے باہر کی چیز ہے ہے۔ اسی طرح کوئی معجزہ بھی فطرت کی خلاف ورزی نہیں کرتا بلکہ نظام فطرت سے باہر(سپر نیچرل) ہوتا ہے۔ (2010, p. 398)۔”
پرٹل کی دی گئی مثال بہت دلچسپ ہے، کیونکہ اس کا مقصد یہ اظہار کرنا ہے کہ معجزات فطری قوانین سے باہر کیسے کام کرسکتے ہیں، جبکہ وہ براہ راست ان کی خلاف ورزی بھی نہیں کرتے جب ان کا ظہور ہو رہا ہوتا ہے۔ جس طرح قانونی نظام استثنائی صدارتی معافی کی گنجائش نکالتا ہے، اسی طرح قدرت بھی معجزات کے لئے “جگہ بناتی” ہے۔ چنانچہ معجزات وہ غیر معمولی واقعات ہیں جو فطرت کے خلاف نہیں بلکہ ، فطرت میں واقع ہوتے ہیں۔
غور کرنے کے لئے ایک اور نظریہ سینٹ اگسٹین (Saint Augustine۔متوفی 430) نے پیش کیا تھا جو یہ سمجھتے ہیں کہ معجزات قدرت کے اندر ہی “چھپی ہوئی صلاحیتیں” ہیں، جو ہمارے لئے عام طور پر قابل مشاہدہ نہیں ہوتیں۔ فطرت میں ان کے مشاہدے کی نایابی اور نادر پن ہی ان کے وقوع کو “معجزاتی” بناتی ہے(Corner, 2019, para. 5)۔ لہذا ، آگسٹین کے نظریہ کے مطابق ، معجزات کسی بھی طور پر فطرت کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، کیونکہ وہ خود ہی فطرت کے تانے بانے کا حصہ ہیں۔
معجزات اور فطرت کے مابین تعلقات کے ان متبادل تصورات پر غور و فکر کرتے ہوئے ، یہ مظاہر پرستوں پر لازم ہے کہ وہ معجزات کو فطرت کی خلاف ورزی ثابت کریں۔ مزید پڑھنے کے لئے، دیکھیں Craig۔(2008, pp. 261-263)، جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ آج بھی قدرتی قانون کے تین غالب نظریات : 1) باضابطگی کا نظریہ۔regularity theory؛ 2) روایتی ضرورت کا نظریہ ۔ nomic necessity theory؛ اور)) سببی ترتیب کا نظریہ ۔ causal dispositions theory، کی بنیاد پر ہمیں معجزات کو قدرت کی خلاف ورزی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

خدا قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی کر سکتا ہے؟
اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ معجزات فطرت کی خلاف ورزی ہیں، اگر خدا قادر مطلق ہے، تو یقیناً وہ اپنے قائم کردہ فطری قوانین میں کمی پیشی کرنے یا معطل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ قدرتی قوانین ناقابل تغیر ہیں،۔ خدا کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے تبدیل شدہ قوانین کو عملی شکل دے سکے۔ نہ ہی قدرتی عالمی نظام کی خلاف ورزی کرنا اس کی دانشمندی اور علم کی کامل صفات سے سمجھوتہ ٹھہرے گی ، کیونکہ خدا پہلے سے ہی جانتا اور چاہتا تھا کہ وہ انسانی تاریخ کے مخصوص اوقات میں کچھ ضرورتوں کے تحت اپنے نبیوں کو معجزے پیش کرنے کے قابل بنائے گا۔
اسپینوزا جو فطری قوانین کے غیر مُتغیر ہونے پر اصرار کرتا ہے’ کے جواب میں گریگ کہتے ہیں کہ فطری قوانین لازماً خدا کے علم اور اس کی مرضی سے جڑے ہوئے ہیں:
” اسپینوزا کے برعکس ، قدیم الہیات نے یہ دعوی نہیں کیا تھا کہ خدا کا علم ضرورت سے متصف ہے۔ مثال کے طور پر ، خدا اس حقیقت کو جانتا ہے کہ “کائنات کا وجود ہے۔” لیکن خدا کائنات کو تخلیق کرنے کا پابند نہیں تھا۔ چونکہ تخلیق ایک خود مختارانہ فعل ہے ، لہذا وہ کسی بھی چیز کو تخلیق کرنے سے احتراز کرسکتا تھا۔ اگر خدا نے دنیا کو پیدا نہ کیا ہوتا تو پھر وہ اس کی بجائے اس حقیقت کو جانتا کہ “کوئی کائنات موجود نہیں ہے۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ خدا جانتا ہے وہ لازماً سچ ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ خدا کے علم کا مواد(Content) بھی وہی ہو۔ اگر اس نے کوئی الگ دنیا بنائی ہوتی یا کوئی بھی دنیا نہ بنائی ہوتی ، تو اس کے علم کا مواد مختلف ہوتا۔ لہذا ، جس طرح خدا اپنے فعل سے مختلف چاہنے میں آزاد ہے ، اسی طرح وہ اپنے فعل سے مختلف علم رکھنے کے بھی قابل ہے (2008, p. 264)۔”
خلاصہ یہ کہ ، یہ خیال کرنے کی کوئی مستند وجوہات نہیں ہیں کہ خدا قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا ، یا ایسا کرنے سے اس کی کمال صفات میں سے کسی ایک پر حرف آتا ہے۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password