جہاد-جوابی بیانیے
امت مسلمہ میں جس گروہ نے سب سے پہلے سنت نبویؐ اور تعامل صحابہؓ کو نظر انداز کر کے قرآن
۲۰۱۱ء میں عالم عرب کے کئی ممالک میں آمریت سے نجات کی لہر اُٹھی۔ تیونس، مصر، لیبیا، شام اور یمن
’’تکفیری بیانیہ‘‘ کی نقاب کشائی کےلیے اس گمراہ فکر کی اصل خالق مصر کی جماعۃ التکفیر والہجرۃ پر ایک مضمون
. تکفیری کون لوگ ہیں ؟ ساٹھ کی دہائی کے دوران، مصر کی جیلوں میں ایک جماعت کی تشکیل ہوئی
’تکفیر‘ کا ’جوابی بیانیہ‘ جو ہمیں بی بی سی نے بہت بروقت پڑھانا شروع کر دیا تھا، اور اس کے
اہل سنت کے نزدیک ضروری ہے کہ ایک شخص ”دل کی تصدیق“ کے ذریعے بھی شرک سے دامن کش ہو،
محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے جوابی بیانیے میں، سفرِ امریکا میں اور دیگر مواقع پر بکرات ومرات اس
یہ بات مختلف مرتبہ لکھی گئی ہے کہ مسلم فکری روایت میں اگر مختلف علمی امور موجود ہیں تو ان
علم کی دنیا دیانت داری، غیر جانبداری اور حقیقت کی مکمل تصویر کشی کی دنیا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی
داعش کے موضوع پر جناب خورشید ندیم کا کالم پڑھا تو بھارت کے معروف صاحبِ دانش جناب اسرار عالم یاد
متبادل بیانیے والے حضرات بڑی چالاکی سے تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں گویا یہ کوئی نئی بات کر رہے
سیاستِ شرعیہ کے باب میں ایک ہے مسلمانوں کی علمی مین اسٹریم (سوادِ اعظم) کا بیانیہ۔ یہاں کا دیوبندی و
دنیا کو گزشتہ چند دہائیوں سے جس نوع کی دہشت گردی کا سامنا ہےاُس کے سدِّ باب کے لیے چار
مولانا تقی عثمانی صاحب نہ صرف دیوبندی مکتبِ فکر کی بلکہ عالمِ اسلام کی بڑی شخصیات میں سے ہیں۔ اللہ
چند دن پہلے مفتی منیب الرحمن صاحب اور جاوید احمد غامدی صاحب کے مابین ایک مباحثہ ہوا ۔ اس پر
پچھلے کچھ عرصے سے کچھ احباب کی طرف سے یہ اعتراض دہرایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی بعض تنظیموں کی
جس طرح اردو کے مایۂ ناز شاعر مولانا الطاف حسین حالی پر “ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے”
مولانا عمار خان ناصر ایک بڑے دینی علمی خانوادے سے تعلق رکھتےہیں، ان کے محترم دادا مولانا سرفراز خان صفدر(مرحوم)
اسلام كے احكامِ جہاد ہمیشہ سے متجددین كے لیے سوہانِ روح بنے رہے ہیں، یہ لوگ اس كی تردید و
سیاست کے باب میں یہاں کاانقلابی منہج دین کا یہ کلاسیکل ڈسکورس رکھتا ہے کہ تاریخی طور پر مسلمانوں کے
حق یہ ہے کہ ہردو بیانیہ(تکفیری اورجوابی بیانیہ)کے رد میں ہم (اسلامی سیکٹر) سے بہت تاخیر اور تقصیر ہوئی ہے۔