علم کی دنیا دیانت داری، غیر جانبداری اور حقیقت کی مکمل تصویر کشی کی دنیا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی
داعش کے موضوع پر جناب خورشید ندیم کا کالم پڑھا تو بھارت کے معروف صاحبِ دانش جناب اسرار عالم یاد
متبادل بیانیے والے حضرات بڑی چالاکی سے تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں گویا یہ کوئی نئی بات کر رہے
سیاستِ شرعیہ کے باب میں ایک ہے مسلمانوں کی علمی مین اسٹریم (سوادِ اعظم) کا بیانیہ۔ یہاں کا دیوبندی و
دنیا کو گزشتہ چند دہائیوں سے جس نوع کی دہشت گردی کا سامنا ہےاُس کے سدِّ باب کے لیے چار
مولانا تقی عثمانی صاحب نہ صرف دیوبندی مکتبِ فکر کی بلکہ عالمِ اسلام کی بڑی شخصیات میں سے ہیں۔ اللہ
چند دن پہلے مفتی منیب الرحمن صاحب اور جاوید احمد غامدی صاحب کے مابین ایک مباحثہ ہوا ۔ اس پر
پچھلے کچھ عرصے سے کچھ احباب کی طرف سے یہ اعتراض دہرایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی بعض تنظیموں کی
جس طرح اردو کے مایۂ ناز شاعر مولانا الطاف حسین حالی پر “ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے”
مولانا عمار خان ناصر ایک بڑے دینی علمی خانوادے سے تعلق رکھتےہیں، ان کے محترم دادا مولانا سرفراز خان صفدر(مرحوم)
اسلام كے احكامِ جہاد ہمیشہ سے متجددین كے لیے سوہانِ روح بنے رہے ہیں، یہ لوگ اس كی تردید و
سیاست کے باب میں یہاں کاانقلابی منہج دین کا یہ کلاسیکل ڈسکورس رکھتا ہے کہ تاریخی طور پر مسلمانوں کے
حق یہ ہے کہ ہردو بیانیہ(تکفیری اورجوابی بیانیہ)کے رد میں ہم (اسلامی سیکٹر) سے بہت تاخیر اور تقصیر ہوئی ہے۔