آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ذہنوں پر سائنسی علمیت کا غلبہ اور روزمرہ زندگی میں مکمل طور پر ٹیکنالوجی پر انحصار ہے ایک عام آدمی کا ٹیکنالوجی کے بغیر زندگی کو تصور کرنا ممکن نہیں۔ ایسے ماحول میں مسلمانوں کا ٹیکنالوجی سے مرعوب ہوجانا ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے تاریخی تصورات سے ناآشنائی کے باعث ان پر کوئی حتمی اسلامی رائے کا نہ رکھ پانا ایک فطری امر ہے۔ درج ذیل مضمون میں ہماری یہ کوشش ہوگی کہ
اول: سائنس اور ٹیکنالوجی کے تاریخی فرق کو واضح کریں
دوم: ٹیکنالوجی اور اقدار کے تعلق کو واضح کریں
سوم: موجودہ دور کی ٹیکنالوجی یعنی ٹینکو سائنس کی تفصیل اوربنیادی قدر بیان کریں۔
امید ہے کہ ان تصورات کے واضح ہوجانے کے بعد اہل ایمان کے لیے موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کے چیلنجز / خطرات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کا تاریخی فرق:
جیسے کہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا کہ جدید سائنس کی ابتداء جدیدیت کے سائنسدانوں سے ہوتی ہے۔ جدید سائنس کو وحی کی متبادل علمیت تصور کیا جاتا ہے اور انسانی کلیات پر مبنی اس ذریعہ معلومات کا دارومدار سائنٹفک میتھڈ پر ہے۔ اس مخصوص سائنٹفک میتھڈ پر مبنی سائنس کی تاریخ کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں۔ البتہ اس کی کچھ حصوں کی جڑیں قدیم یونانی فلسفے میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب لفظ ٹیکنالوجی کا ماخذ ٹیکنیک یعنی تدبیر ہے۔ اور انسانی تاریخ میں متعدد روزمرہ مسائل کے لیے مختلف معاشروں سے کئی تدابیر ثابت ہیں۔ مثلاً ہر تہذیب نے اپنے طور پر گھر’ برتن’ ہتھیار اور اوزار بنانے کے فن سیکھے اور سیکھائے اور تدابیر اختیار کیں یہی بات تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور جوتوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ مختصراً یہ بیماری اور مختلف طرح کے مسائل ہوں یا بیماری’ ہر زمانے اور تہذیب کے لوگوں نے ان سے نمٹنے کے لیے کوئی نہ کوئی تدبیر ضرور اختیار کی۔ جو تدابیر سہل اور فائدہ مند تھیں وہ مقبول عام ہوئیں جبکہ اکثر آہستہ آہستہ ناپید ہوگئیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے معاملات’ مسائل کے حل اور مشاغل کے فروغ کے لیے اختیار کی گئی تدابیر اس زمانے کی ٹیکنالوجی قرار پائی۔ مثال کے طور پر قدیم مصری تہذیب میں اہرام مصر بنانے اور مردہ جسم کو حنوط کرنے کی ٹیکنالوجی تو تھی لیکن جدید سائنس نہ تھی۔ اہرام بنانا اور لاشوں کو حنوط کرنا قدیم مصر کی روایات کا حصہ تھا لہٰذا ان مشاغل کو بہتر طور پر انجام دینے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی گئیں۔ اسی طرح موئن جو دڑو اور ہڑپہ شہری ثقافتیں تھیں’ لہٰذا ان تہذیبوں کی civil tecnology خاص ترقی یافتہ تھیں مثلاً ان جگہوں پر نکاسی آب کا بہترین نظام تھا لیکن یہاں بھی جدید سائنس جیسی کسی علمیت کا پتہ نہیں ملتا۔
قدیم یونان میں لفظ ٹیکنی سے مراد ایک فن پارہ (یعنی آرٹ کا نمونہ) تھی۔ چونکہ حسن پرستی قدیم یونان کی بنیاد ی قدر تھی لہٰذا یونان کی تہذیب اور teconolgy artifart میں خوبصورتی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ مثال کے طور پر قدیم یونان میں ستون اصل میں اس لیے ترچھے بنائے جاتے تھے کہ وہ دیکھنے والے کو سیدھے معلوم ہوں۔ اس معاشرے میں ٹیکنالوجی کا تعلق آرٹ سے تھا نہ کہ کسی سائنس نما علمیت سے۔
قدیم تہذیبوں کے بعد قرون وسطیٰ کے یورپ میں رومیوں نے بھی بھرپور تدبیریں کیں۔ یہ قوم اپنی عسکری فتوحات اور جنگی چالوں کی وجہ سے مشہور تھی۔ انہوں نے یونان کو فتح کرنے کے بعد یورپ کے ایک بڑے حصے پر تقریباً ہزار سال تک حکومت کی۔ رومیوں کی قابل ذکر ٹیکنالوجی یعنی تدابیر میں فوجوں کی نقل و حرکت کے لیے پکی سڑکوں کی تعمیر’ حکومت کے کونوں کونوں تک ترسیل اطلاع کا انتظام’ بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے پکے گھروں کی تعمیر’ شہروں میں پانی کا انتظام اور گرم حمام وغیرہ ہیں۔ رومیوں کی اکثر تدابیر آسان اور عوامی تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوسکیں۔
اوپر کی مثالوں سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ اول تو یہ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم نہیں جیسے کہ ہمیں آج کل کی دنیا میں نظر آتا ہے۔ بلکہ تاریخ میں جدید سائنس کے بغیر بھی ٹیکنالوجی کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے۔ دوسری خاص بات یہ کہ ٹیکنالوجی یا تدبیر قدر سے آزاد نہیں ہوتی بلکہ اس معاشرے کی بنیاداور ایمانیات اس ٹیکنالوجی یا تدبیر میں پنہاں ہوتی ہیں۔
موجودہ دور کی ٹیکنالوجی: ٹیکنو سائنس(Tecnoscience)
ایک عام صارف کے لیے موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں فرق کرنا ممکن نہیں۔ جدید پیداواری اشیاء (مصنوعات ہوں یا خدمات) سائنس اور ٹیکنالوجی کا مرکب نظر آتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میںپنپنے والے اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے مخصوص مرکب کو اکثر مغربی مفکرین (مثلاً برونو لاٹور) ٹیکنو سائنس کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ٹیکنوسائنس محض ایک تدبیر نہیں بلکہ سرمائے کی بڑھوتری کے لیے’ جدید سائنسی طرز فکر پر مبنی اور سرمایہ دارانہ اداروں کی تحقیقی مد میں مالی معاونت سے بنائی جانے والی تدبیر کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی ٹیکنالوجی انسان کی ضروریات سے زیادہ انسان کی خواہشات کی تکمیل میں مصروف نظر آتی ہے۔ مثلاً ایک سادہ اور مضبوط موٹر کار شہری زندگی میں سواری کی ضرورت تو ہوسکتی ہے لیکن روز بروز بدلتے ہوئے دلکش ماڈل اور ڈیزائن کے کیا معنی؟ اسی طرح ٹیلی فون بڑھتے ہوئے فاصلوں اور رابطوں کو کم کرنے کی ضرورت تو ہے لیکن ان کے بڑھتے چڑھتے ماڈل اور خصوصیات محض منافع بڑھانے کی ترکیبیں ہیں۔
موجودہ دور کی ٹیکنالوجی (یعنی ٹیکنو سائنس) کا دارومدار سرمایہ دارانہ نظم اور جدید سائنس پر ہے اور یہ سرمائے کی بڑہوتری کے لیے ایک موثر آلہ کار ہے۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں بنائی جانے والی بیشتر ٹیکنالوجی ملکوں کی جنگی اور دفاعی ضرورتوں کا نتیجہ تھیں۔ امریکا’ روس اور یورپی ممالک نے جنگ عظم اول اور دوئم کے دور میں بے تحاشہ ایجادیں بھی کیں اور انہیں موثر طور پر استعمال بھی کیا۔ بعد میں سرد جنگوں کے دوران مختلف ترقی یافتہ ملکوں کے دفاعی اداروں اور سرمایہ کار کارپوریشن نے اس عمل کو جاری رکھا۔ ان میں چند قابل ذکر نام امریکی خلائی تحقیق کا ادارہ NASA اور امریکا ہی کا محکمہ دفاع ہے۔ موجدہ دور میں ٹیکنو سائنس تحقیق کثیر سرمائے کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ سرمایہ یا تو کوئی حکومتی ادارہ اپنی دفاعی یا جنگی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فراہم کرے گا یا پھر کوئی ایسی بین الاقوامی سرمایہ کار کمپنی جسے اپنے منافع کی بڑھوتری کے لیے کسی ٹیکنیکی جدت کی ضرورت ہو۔ اس کثیر سرمائے سے جدید ٹیکنیکی آلات سے لیس سائنسی تجربہ گاہیں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے ہیں۔ اور پھر یہاں دنیا کے بہترین دماغ جمع کیے جاتے ہیں جو ایسی تحقیق کرسکیں جس کے نتیجے میں سرمائے کو مزید فروغ حاصل ہو یا سرمائے کو فروغ دینے والی ریاست کا دفاع ہوسکے۔ مختصر یہ کہ سرمایہ دارانہ نظم میں سرمائے کی بڑھوتری کے مخصوص مقصد کی خاطر جدید سائنس کے تسخیر کائنات والے اصول کے تحت تدبیر کا نام ٹیکنو سائنس ہے۔
نظریہ اور عمل
جدید دور کے معاشرے میں نظریہ اور عمل کی بحث بہت اہم ہے۔ روایتی طور پر اس بحث میں دو انتہائی متضاد نکتہ نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف مفکرین کا خیال ہے کہ نظریہ’ عقائد یا خیالات کی بنیاد پر معاشرے میں عمل اور عملی طریقے رائج ہوتے ہیں جبکہ تاریخی مادیت کے حامیوں کے مطابق معاشرے کے عمل اور رائج عملی طریقوں سے لوگوں کے نظریات اور عقائد نشوونما پاتے ہیں۔ ایسی صورت میں علم کا منبع مادی دنیا قرار پاتی ہے۔ اس کے برخلاف ایک اسلامی معاشرے میں مسلمان دین کا علم حاصل کرتے ہیں اور علماء کی مدد سے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رائج کرتے ہیں لیکن موجودہ مسلمان معاشروں میں ایسی صورت بالکل بھی نہیں نظر آتی۔ آج کا مسلمان زیادہ تر دنیا کمانے کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے اور دین کی معلومات ناظرہ قرآن مجید اور نماز کی دعائوں تک محدود ہے۔ اس قدر کمزور علمی بنیادوں کے ساتھ جب ایک عام مسلمان کا ٹیکنو سائنس سے سامنا ہوہتا ہے تو وہ اس کی بنیادی قدر بڑھوتری برائے بڑھوتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد عبادت کم اور تصرف فی الارض زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس کی شناخت عبد کے بجائے ایک اچھے صارف کی ہوجاتی ہے لہٰذا موجودہ دور میں سرمایہ داری اور ٹیکنو سائنس کے طاغوت سے دفاع کے لیے دین کا علم اور معرفتِ الٰہی لازمی ہیں۔
سید ذیشان ارشد