سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے لبرل نقیب

Liberal Harbingers of Capitalist life – سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے لبرل نقیب
John Locke – جان لاک
Ammanuel Kant – ایمنوئیل کانٹ
Adam Smith and David Ricardo – آدم اسمتھ اورڈیوڈ ریکارڈو
Friedrich Hayek and Nozick – فریڈمین ہائیک اور نازک

جان لاک:
جان لاک (John Locke) 1632-1704)) لبرل سر مایہ داری کے موثر تریں فلسفیوں میں شمار کیا جا تا ہے۔ اس کے اشارات سرمایہ دارانہ علمیات (Epistemology) پر بھی اتنے گہرے ہیں جتنے سرمایہ دارانہ سیاسیات پر لاک کی علمیات اور اسکے سیاسی فلسفہ میں گہرا تعلق ہے(اس خیال کو لاک کے فرانسیسی پیرئوں نے اصرار کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس ہی بنیاد پر وہ اور لاک کے امریکی پیرئو سیاسیات کو ایک سائنس (Political Science) گر دانتے ہیں۔

لاک کی تجرباتی علمیات
ْ لاک وحی کو علم کے ایک سر چشمہ کے طور پر قبول کر تا ہے ، لیکن وہ لکھتا ہے ‘وحی (Revelation) کو عقل (Reason) کے پیمانہ پر ہی جانچا جا سکتا ہے’ مختلف النوع ذاتی الہام کو پرکھنے کا واحد پیمانہ وہ شواہد (Proofs) ہیںجو ا ن کے ثبوت کے طور پر پیش کئے جا تے ہیں( لاک کے دور میںکئی عیسائی فرقہ زاتی الہام کی بنیاد پر علمیاتی تعبیرات کی تصدیق کر تے تھے)اس نوعیت کی توجیہات کو لاک Dogma کہتا ہے ۔ Dogma وہ اعتقادات ہیںجن کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
لاک عقلیت کی ایک مخصوص تشریح پیش کرتا ہے۔لاک لکھتا ہے’ عقلی مطالعہ کے دو حصہ ہیں، پہلے یہ متعین کرنا کہ ہم کامل وثوق سے کیا جان سکتے ہیں، دوسرے ان مفرضات اور خیالات (Proposition) کی تحقیق جن کو قبول کر کے مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں، گو کہ ان مفروضات اور خیالات کے حق ہونے کا محض امکان Probability)) موجود ہے اور کامل تحقیق سے ان کا حق ہونا ثابت نہیں کیا جا سکتا، اور کسی چیز کے حق ہونے کا امکان (Probability) اس با ت سے متعین ہے کہ وہ ہمارے تجربات اور مشاہدات سے کتنی مطابقت رکھتا ہے(بقول لاک تھائی لینڈنے یورپی مہمانوں کی باتوں پر یقین کرنا اس وقت ترک کیا جب ان مہمانوں نے برف (snow) کا تذکرہ کیا)۔ اس مفروضہ کی بنیاد پر لاک عقیدہ برداشت (Doctorine of Toleration) کی وکالت کرتا ہے۔
ٹولیریشن(Toleration) (ٹولیریشن کو برداشت نہیں کہاجانا چاہیے یہ ایک سر مایہ دارانہ تصور ہے جس کی لغوی معنویت کا تر جمہ کرنا ناممکن ہے) سے مراد یہ ہے کہ چونکہ بیشتر عملی طور پر کار آمد(Practically useful) معقولیت کو تسلیم کر لینا چاہے اور اپنے امکانی طور پر بمعہ معقول نظریات اور آرا کے حق ہونے پر اصرار کرناعقلیت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ وہ تمام آرا اور نظریات حق ہو سکتے ہیںجن سے مثبت عملی نتائج بر آمد ہونے کا امکان ہو اور ایسی تمام آرا کے اظہار اور ان کے امکانی حق کی گنجائش کو تسلیم کیا جا نا چایئے اور کسی شخص یا گروہ کو ایسی رائے تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا نا چاہیے جو امکانی طور پر مثبت نتائج پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
یہ نظریہ ٹولیریشن (Toleration) ، جن مثبت نتائج کے امکانی بروئے کار آنے کے پیمانہ پر مختلف آرا کو برداشت کرتا ہے وہ بڑھوتری سر مایہ ہی ہے۔چونکہ حزب اللہ اور دیگر ‘شدّت پسند’ مجاہدین اسلام کی آرا کا بڑھوتری سرمایہ کا امکانی زریعہ بننا تقریباًناممکن ہے۔ لہٰذا یہ آرا بر داشت نہیں کی جا سکتیں اور امریکہ کے سرخ انڈین Indians Red اور افغانستان کے طالبان نظریہ ٹولیریشن سے باہر اور قتل عام کے مستحق ہیں۔
لاک نے جس فلسفیانہ مکتبہ فکر کی بنیاد ڈالی اس کو امپیریسزمEmpericism)) کہتے ہیں۔Empericist فکر کے مطابق علم کا اصل ماخذ انسانی مشاہدات اور تجربات ہیںگو کہ منطق (Logic) ، ریاضی (Mathematics) اور وحی (Revelation) بھی علم کے سر چشمہ ہو سکتے ہیںلیکن ان کی فراہم کر دہ معلومات کو تجر بہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر ہی تصدیق کی جا سکتی ہے اور اگر یہ ممکن نہیںتو وہ عملاًعلم کے دائرہ سے خارج ہیں (یہ بھی کہا گیا ہے کہ لا ک کی فکر منطق، ریاضی اور وحی تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر مثبت نتائج (یعنی بڑھوتری سرمایہ) حاصل کر نے کے محض ذرائع ہیں)، مشاہدے اور تجر کی بنیاد پر ہی انسانی ذہن میں خیالات (Ideas) متشکل ہو تے ہیںاور کوئی تصورات فطری یہ جبلی (Inate Ideas) نہیں۔
علم کے حصول کے صرف دو ذرائع ہیں ۔١) حسیات (Sensation) اور تفکر (Perception) ۔ حواس خمسہ کے ذریعے ہی مشاہدہ ممکن ہے اور مشاہدات کے معنی تفکر سے ہی اخذ کئے جاتے ہیںعلم کسی اور طرح حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
لاک کی مابعد الطبیاتی فکر ان تمام حقائق کی علمیت کا انکار کر تی ہے جن تک حواس خمسہ کی رسائی نہیں۔ لہٰذا اس کی فکر میں عمومیت Genralisablity) ) کی حقیقت محض لغوی(Linguistic) ہے۔ غیر امپیریسٹ (Non Empericist) مابعد الطبیعاتی علمیت عمومیتوں (Generalization) جو تشریح اور تعبیر پیش کرتی ہے وہ صرف الفاظ Words) ) پر مشتمل ہے اور وجو د صرف انفرادی اشیاء (Particularties) کا ہو تا ہے وحی کی بنیاد پر حاصل شدہ معلومات کی حیثیت ان الفاظ کی حقیقت کے سوا کچھ اور نہیںجو ؟؟ مقدت محض میں وارد ہوئے ہیں۔
لاک کے نظام فکر میں علم کی بنیاد مشاہدہ ہے اور مشاہدہ حسیات سے حاصل ہوتا ہے جس کی تعبیرات تفکر کی بنیاد پر مرتب ہو تی ہیں۔محسوسات کے اپنے علل Cause)) ۔ لاک یہ اس کے بعد آنے والا کوئی بھی امپیریسٹ Empericist) ( اس سوال کا جواب نہیں دے سکاکہ ‘ہم کیوں کسی عمل کو مشاہدہ کی بنیاد پر مثبت نتائج پیدا کر نے والا گردانتے ہیں اور کیسے’ مثبت نتائج کا پیمانہ کیا ہے اور کیوں۔
ان سوالات کو اٹھائے بغیرلا ک کا دعویٰ ہے کہ محسوسات سے حاصل شدہ معلومات سے جو تصوّرات ہم اخذ کر تے ہیںان کی بنیاد ہماری انفرادی ذاتی اغراض ہیں، لاک کے بقول” (ہم) کیا چاہتے ہیں ۔ خوشی (Happiness) اور صرف خوشی یعنی لذّات (Pleasure)کی انتہا (اور) لذّات کے انتہائی حصول کا ذریعہ آزادی کی جدو جہد ہے”لاک کہتا ہے کہ عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ طویل المدت اور احتماعی (Long term and aggregate) لذّات کی انتہا (Maximisation)کو فوری اور انفرادی لذّات کی جستجو کی جدوجہد کو طویل المدّت اور اجتماعی لذات کے انتہائی حصول کی جدوجہد کے ماتحت کر دیا ہے۔ جو صفت فرد کو یہ کرنے پر اکساتی ہے اس کو لاک پروڈیئنس (Prudence) کہتا ہے(گو کہ پروڈیئنس (Prudence) کا تصور انجیل میں بھی ہے لیکن عیسائی تصور پروڈیئنس اور سرمایہ دارانہ تصور پروڈیئنس (Prudence) بلکل جدا چیزیں ہیں۔)پروڈیئنس (Prudence) ایک کامیاب سر مایہ دار کی اہم صفت ہے کیونکہ ایک کا میاب سرمایہ دار عقل کے اس فیصلہ پر عمل کرتا ہے کہ طویل المدت اور اجتماعی لذات کی انتہا کے لئے قلیل المدت اور انفرادی لذت کے حصول کی جدوجہدکو لازماً محدود کیا جانا چاہیے۔
پروڈیئنس (Prudence) کی تبلیغ لبرل سر مایہ داری کی بنیادی اخلاقی تعلیم ہے۔اس نظام زندگی سے ہر نیکی (virtue) پروڈیئنس (Prudence) سے ماخوذ ہے(لاک خود نہایت پروڈیئنٹ (Prudent) تھا اس نے اپنی کتاب مطلق العنان بادشاہتوں Charles II) اور I ( James کے دور میں نہیں چھپوائی ۔ ١٦٨٣ء میں اپنے مربی Lord Shaftesbury کے ساتھ Hollandبھاگ گیا اور١٦٨٨ء کے انقلاب کی کامیابی کے بعد انگلستاں واپس آکر نئی حکومت کا کاسہ لیس بن گیا) ۔ Weber نے بعد میں لکھا ہے کہ سرمایہ داری کے ابتدائی دور میں چونکہ سرمایہ کاری اپنی ذاتی بچتوں پر منحصر ہوتی تھی لہٰذا پروڈیئنٹ (Prudent) لوگ( جو طویل مدت فائدہ کے لئے پس انداز کرتے تھے)ہی کامیاب سرمایہ دار بنتے تھے۔ اس کے برعکس لبرل مبلغین عوام کو Imprudent ہونے کا طعنہ کثرت سے دیتے تھے اور غربت کی بنیادی وجہ Imprudence کو شمار کرتے تھے۔
لا ک کی رائے میںانفرادی اور اجتماعی لذّات کو انتہا تک لے جانے کی جدوجہدایک دوسرے کی معاون ہیں۔ یہ لبرل سرمایہ داری کا ایک کلیدی عقیدہ ہے۔لیکن Prudent اشخاص اس عقیدہ پر جبر اور اکراہ کے ساتھ عمل پیرا ہو تے ہیںاور سر مایہ دارانہ معاشروںمیں عظیم اکثریت ہمیشہ غیر پروڈینٹ( Imprudent ) افراد پر مشتمل رہی ہے(لاک کی رائے میں Prudent ہونے کے لئے خدا اور آخرت پر یقین رکھنا بھی ضروری ہے اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں یہ نا ممکن ہوتاچلاجاتا ہے)۔ لا ک کے خیال میں لوگوںکے پروڈنٹ ہونے کے لئے یہ بھی ضروری کہ ان کے پاس سرمایہ دارانہ ملکیت property) (Capitalist ہو۔ وہ لکھتا ہے ” Where there is no property, there is no justice ” اور سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دارانہ ملکیت کھینچ کھینچ کر نہایت محدود لوگوں کے پا س مرتکز ہو جا تی ہے اور ذاتی ملکیت کا دائرہ کار نہایت محدود ہو جا تا ہے۔
Imprudent عوام کا وجود سرمایہ سرمایہ دارانہ ریاست اور معاشرہ میں لازم ہے اور Imprudent افراد سے اختیارات طلب کر نا سر مایہ دارانہ قانوں Law of Capital)) کا بنیادی مقصد ہے۔ اس ہی کو Rule of law (قانون کی حکمرانی) کہتے ہیں اور Rule of law ،Rule of Capital کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

لاک کے سیاسی نظریات
Rule of law ،Rule of Capital کامقصد لوگوں کو پروڈینس Prudence) ) کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہی لبرل تصور آزادی لاک کے مطابق ”فطری دور” of nature) (State میںموجود تھااور لوگ اس بات سے واقف اور اس نظریہ کے قائل تھے کہ ان کو Prudent ہونا چاہے لیکن کوئی ایسا نظام اور ضابطہ اقتدار موجود نہیں تھا جو لوگوں کو اس بات پر مجبور کرے کہ ان کا عمل Prudentہو اگر کوئی فرد اپنے قلیل المدت ذاتی مفاد کو فروغ دینے کے لئے اجتماعیت کے طویل المدت مفاد کونقصان پہنچائے تو اس کو اس بات سے باز رکھنے والی یا سزا دینے والی کوئی طاقت موجود نہیںتھی اور معاشرے میں جنگ برپا ہونے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ جنگ کے اس امکان کو ختم کر نے کے لئے ”فطری دور” (State of nature) سے معاشرتی دور (Civil society) کی طرف مراجعت نا گزیر ہے یہ مراجعت اس لئے ضروری ہے کہ ”قانون فطرت” (قانون فطرت کا تصور St.Augstine نے چوتھی صدی میںدیا تھا اور سود لینے دینے کو ” قانون فطرت” کے خلاف حرام قرار دیا تھا۔ اس کے بر عکس نے سود کی توجیہ بھی اس ہی قانون فطرت کی بنیاد پر بیان کی ہے)کی کوئی تنظیمی قوت نہیں ہو تی۔
لاک کے خیال میںLaw of Nature (قانون فطرت) Law of reason ہی ہے لیکن لاک اور قروں وسطیٰ کے عیسائی تصور قانون فطرت میں ایک بنیادی فرق ہے وہ یہ کہ عیسائی کہ عیسائی مفکرہی قانون فطرت کو اس عقلیت سے تعبیر کرتے تھے جو رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ تھی۔ ظاہر ہے کہ لاک کا تصور Law of reason اس سے مختلف ہے۔ لاک کے مطابق عقل کا تقاضہ Law of Reason / nature یہ ہے کہ فرد Prudent ہو۔
”فطری دور” (State of nature) میں فر اپنے حقوق کا تحفظ خود کرنے پر مجبور ہے۔ اس مجبوری کوختم کرنے کے لئے ایک ملک کے باشندہ ایک خاص نوعیت کامعاہدہ کرتے ہیںجس کے نتیجہ میںقومی ریاستیں اور حکومتیںوجود میں آتی ہیںیہ معاہدہ عالمی نہیں ہوتااور عالمی سیاسی نظام ”فطری دور” (State of Nature) ہی میں رہتا ہے کیونکہ عالمی سطح پر کوئی مقتدر (Soverign) حکومت نہیں قائم کی جا سکتی۔
قومی حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد لا ک کے مطابق لوگوں کی ملکیت کا تحفظ ہے۔قومی حکومت قوانین(Laws) کے ذریعہ یہ فریضہ انجام دیتی ہے۔ریاستی قوانین ‘Positive’ Laws)) قوانین فطرت پر مبنی ہیں اور بنیادی ”قانون فطرت یہ ہے کہ ہر شخص کی پراپرٹی محفوظ رہے(پراپرٹی کی جو مخصوص تعریف لاک بیان کرتا ہے وہ بعد میں پیش کی جائیگی)۔اپنی پراپرٹی سے کلی طور پر متمتع ہونا ہر شخص کا فطری حق Inalianable right) )ہے۔ریاستی قوانین افراد کو ان کی ملکیت سے متمتع کر نے کے لئے وضع کئے جا تے ہیں۔اور گو کہ فطری” قوانین (Law of nature) سے ان کا تعلق ہوتا ہے(فطری قوانین خدا نے بتائے ہیں،گو کہ وہ کہیں لکھے ہوئے نہیں ) لیکن ان کا ماخذایک معاشرتی معاہدہ (Social contract) انجیل یا عیسائی Scholistic تفکرات (Discourses) نہیں۔
لاک کے مطابق یہ معاشرتی معاہدہ ایک ملک کے تمام شہریوں کے درمیان کیا جا تا ہے اور انہی معاہدہ کرنے والوں میں چند کو حکومت چلانے کا اختیار سونپا جاتا ہے۔حکومت کرنے والے اس معاہدہ کے پابند ہوتے ہیںاور اگروہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کریںتو ان کے خلاف بغاوت (Civil War)جائزہے .چونکہ اس معاہدہ کا مقصد”پراپرٹی” سے متمتع ہونا ہوتا ہے لہٰذا جن کے پاس ”پراپرٹی ”نہیں وہ اس معاہدہ میں شریک نہیں ہو سکتے۔پراپرٹی پر گفتگو کرنے کے بعد ہم اس نکتہ کی طرف دوبارہ لوٹیں گے کہ مطلق العنان بادشاہ Absulute Monarch)) بھی اس ریاست کا شہری نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اس معاہدہ میں شریک نہیں ہو تا بلکہ اپنی ذاتی مرضی کی بنیاد پر قانون سازی کر کے ہر شے کو اپنے تابع کر لیتا ہے۔اس معاشرتی معاہدہ کے تحت عوام اپنے حقوق کے تحفظکا انفرادی حق اپنی ایک نمائندہ حکومت کو سونپ دیتے ہیں(لا ک کے خیال میں عہد نامہ قدیم ( (Old testement سے ثابت ہو تا ہے کہ یہودیوںنے اس نوعیت کے معاہدہ کی بنیاد پر اپنی حکومت بنائی تھی)۔ حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی فرد سے اس کی ملکیت چھیں لے(ٹیکس ( (Tax کی وصولیابی کو جواز کے طور پر لاک یہ دلیل پیش کر تا ہے کہ ایک نمائندہ حکومت میں ٹیکس عوامی اکثریت کی منظوری کے مطابق وصول کئے جاتے ہیںلیکن وہ اکثریت کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ کسی فرد کے اثاثے (Estates) سے محروم کر دے۔اثاثے (Estates) لاک کے مطابق پراپرٹی کے صرف ایک جزو ہے)حکومت کو یہ حق بھی نہیں کہ اپنے شہریوں (Citizens) کو کسی خاص عقیدہ کا پابند ہونے کا پابند ہونے پر مجبور کرے۔
حکومت کو لازماً سیکولر(Secular) ہونا چاہیے، معاشرتی معاہدہ Social contract)) میں مضمربنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ہر شہری (Citizen) کا مقدم مقصد حیات اپنی پراپرٹی سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونا ہے اور اس مقصد حیات کو حاصل کر نے کے لئے وہ ریاست قائم کر تا ہے لہٰذا ریاست تمام دیگر عقائد کو لغو اور لا یعنی گردانتی ہے۔ تمام دیگر عقائد کو انہی معنوں میں یکساں گردانتی ہے کہ وہ یکساں طور پر لغو اور بے معنیٰ اور نظام عدل اور اقتدار کے قیام اور کارفرمائی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔یہ نظریہ Toliration لا ک نے نہایت تفصیل کے ساتھ اپنے Letter on Toliration میں پیش کیا ہے۔
لا ک نے اپنے تصور ”پراپرٹی ” کو اپنے نظریہ قدر سے اخذ کیا ہے اس نظریہ قدر کو Labour Theory of Value کہتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق انسان اپنی محنت کو قدرت میں شامل کر کے پراپرٹی حاصل کرتا ہے۔ مثلاً جنگل میں جو سیب اُگ رہے ہیںرہے ہیں وہ کسی کی پر اپرٹی نہیں ۔ جب ادریس اسماعیل ان سیبوںکو چنتا ہے تو وہ ادریس اسماعیل کر پراپرٹی بن جاتے ہیں۔کیوں؟ اس لئے کہ ادریس اسماعیل نے قدرت میں اپنی محنت Labour) ) شامل کر کے ان کو اپنا بنایا ہے خود بہ خود یہ سیب ادریس اسماعیل کے پاس کبھی نہ آتے۔اگر ہوا کا جھکڑ چلنے کی وجہ سے اس کے سر پرتابڑ توڑ گرتے تو ادریس اسماعیل بے ہوش ہوجاتا۔ہر وہ شے جس میں کسی نے اپنی محنت شامل کی ہے اس شخص کی ملکیت ہو جاتی ہے۔لاک ابتداًء ملکیت کی تحدید کا قائل نظر آتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ ایک شخص کو اتنے آلوچے (Plums) نہیں اُگانا چاہیے جو وہ اس ۔۔۔۔۔۔۔۔کا استعمال نہ کر سکے اس سے پہلے کہ آلوچے سڑ جائیں۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ سونا چاندی کے انبار جمع کرنے کی کوئی حد نہیںکیونکہ سونے اور چاندی کے سڑنے کا کوئی امکان نہیں۔لہٰذازرکے تصوّر کی عمومیت نے ملکیت کی تحدید کو عملاً ختم کر دیا ہے۔جب تک محنت زر میںمتشکل ہوتی رہے ملکیت کے اضافہ کی کوئی حد نہیں۔ لاک کے خیال میںزر کی تخلیق اس ہی معاشرتی معاہدہ کے نتیجہ میں عمل میں آئی ہے جس کے نتیجہ میںحکومت قائم کر کے ”فطری دور” (State of Nature) سے سول سوسائیٹی(Civil society) تک مراجعت ممکن ہوئی۔
جیساکہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے سول سوسائیٹی کے قیام کا مقصد پراپرٹی کا تحفظ اور فروغ ہے۔پراپرٹی (Property) کی تعریف جو لاک کرتا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ لاک کی مراد سرمایہ دارنہ ملکیت(Capitalist Property) ہے۔لاک کے مطابق پراپرٹی کے تین اجزاء ہیں۔ (الف)انسانی جان (Life) (ب) انسانی آزادی (Freedom) (ج) انسانی املاک Estates)) جب ان تینوںاشیاء کو مر بوط کر کے سرمایہ کی بڑھوتری کی جستجو کی جاتی ہے تو پراپرٹی کو نمو میسر آتی ہے جہاں اور جس معاشرے میںیہ تینوں ایک دوسرے سے مر بوط نہیں وہاں پراپرٹی فروغ نہیں پاتی۔انفرادی ملکیت کو ہیومن رائیٹ(Human Rights) اور جسمانی محنت Human Labour)) میں شامل ہوکر ہی پراپرٹی یعنی سرمایہ دارانہ ملکیت (Capitalist Property) وجود میں آتی ہے اور فروغ پاتی ہے ۔ انسانی جان کا تحفظ اور شخصی آراء اور اعتقادات میں تنوع کا تحفظ اس بات سے مشروط ہے کہ یہ انسانی جان اور اعتقادات اور املاک، پراپرٹی کی بڑھوتری (Accumulation of Capital) کے لئے وقف ہوں۔یہی وہ معاشرتی معاہدہ (Social Contract)ہے جس کی بنیادپر بقول لاک سول سوسائٹی قائم ہوتی ہے اور عمل کرتی ہے۔
جو افراد اپنی جان ، اپنی آرا اور اعتقادات اور اپنی ذاتی املاک کو پراپرٹی کی بڑھوتری (Accumulation of Capital) کے لئے استعمال نہیں کرتے وہ اس معاشرتی معاہدہ(Social Contract) سے باہر ہیںجیسے کہ امریکہ کے قدیم باشندہ(Red Indians) ان Red Indians کواجتماعی طورپرتین صدیوںتک قتل کرناایک پورے براعظم میںپھیلی ہوئی ان کی املاک کوغضب کرنااوران کی معاشرتی زندگی اورتہذیب کوکچل دینایہ سب لاک کے پیروئوںنے اپنافرض سمجھ کراداکیااورکہاکہ ہم اس پرمجبورہیںکیونکہ بغیراس کے امریکہ میںپراپرٹی فروغ نہیں پاسکتی بغیراس قتل عام اورمنصوبہ بندلوٹ مارکے Capital accumulation ناممکن ہے ۔
حکومت کامقصدپراپرٹی یا Capital accumulation کافروغ ہے لاک نے ریاست (لاک عموماًحکومت کالفظ استعمال کرتاہے لیکن اس کاسیاسی ادارتی خاکہ ریاستی ہے )کاجوآئیڈیل) Ideal)خاکہ پیش کیاہے وہ اس کی رائے میںپراپرٹی Capital accumulation کے فروغ کے لئے سب سے بہتر سیاسی ادارتی صف بندی ہے ۔
مجلس آئین واصلاح ورعایت وحقوق
یہ بھی ایک سرمایہ داروںکی ہے جنگ زرگری
لاک کے مطابق ریاست ان سطح پرمشتمل ہوناچاہئے ۔ا)مقننہ ب)انتظامیہ اور ج)عدلیہ ۔ان تینوںاداروںکوایک دوسرے سے آزادہوناچاہئے ۔مقننہ کوبالادست ہوناچاہئے اوراگرانتظامیہ Excecutiveمقننہ Legislativeکی بالادستی کوقبول نہ کرے تواس Excecutiveیعنی حکومت کے خلاف سول وارCivil warنہیںعوامی بغاوت برپاکرناجائزہے ۔جب تک مقننہ کی بالادستیSoverignity) ( عملاتسلیم کی جاتی رہے عوامی بغاوت Civil war جائز نہیں مقننہ لازماپراپرٹی رکھنے والے عوام کی نمائندہ ہوناچاہئے اورپراپرٹی رکھنے والے عوام کواس کاحق ہے کہ گاہے گاہے مقننہ کومنتخب کریںاوران انتخابات کی بنیاد پرہی حکومتیںقائم کی جائیں۔
یاد رکھئے کہ لاک کے مطابق پراپرٹی محض املاک نہیںبلکہ پراپرٹی میںجان اور آراء ( Conciense ) بھی شامل ہیںپراپرٹی ان جانوںآراء اوراملاک کوکہتے ہیںجوبڑھوتری سرمایہ کے لئے وقف کی جائیںمقننہ انہی جانوں،آراء اوراملاک کی نمائندہ ہوتی ہے ۔اگرملک میںتمام افراداپنی جانیں،آرااوراملاک سے بڑھوتری سرمایہ کے لئے وقف کردیںتوبالغ رائے دہی کے اصول کی بنیادپرمقننہ وجودمیںآکرکام آسکتی ہیںلاک کے دورمیںانگلستان میں ایسانہ تھا۔لہٰذالاک نے غریب طبقہ The poorاورعورتوںکورائے دہندگان Electorate کی صف سے خارج کرنے کی سفارش کی اسی طرح جب امریکی دستوربنا(لاک کے مرنے کے تقریبا٨٠ سال بعد)توعورتوں،غلاموںاور ریڈانڈین کوجو(دھڑادھڑقتل کئے جارہے تھے)رائے دہندگان ریاست کے شہری شمارنہ کیاگیایہ اس لئے کہ انگلستان کی عورتیںاورغربااورامریکاکے ریڈانڈین غلام اورعورتیںاپنے ہیومن بینگ (Human being)ہونے کاشعورنہیںرکھتے تھے۔اورانہوںنے اپنی جانوں،آراء اوراملاک کوبڑھوتری سرمایہ کاذریعہ بنانے کاکوئی ارادہ ظاہرنہیںکیاتھا۔
آج ساری دنیا میںبالغ رائے دہی کے اصول کوتسلیم کیاجاتاہے لیکن مستحکم سرمایہ دارانہ حکومتیںصرف ان علاقوںمیںبنائی جاسکتی ہیںجہاںعمومی طورپرجانوں،آراء اوراملاک کوبڑھوتری سرمایہ کے لئے وقف کردیاگیاہے یہ بات یورپ ،امریکہ (شمالی وجنوبی)روس اوربھارت وغیرہ کے بارے میںتعین سے کہی جاسکتی ہے لیکن ایران،لبنان،الجیریااورمصرکے انتخابی تجربات یہ بتاتے ہیںکہ بالغ رائے دہی کے اصول کے بنیادپرسرمایہ دارانہ ریاست کی تسخیر کی جدوجہد کو آگے بڑھانابھی ممکن ہے لہٰذاجہاںبھی استعماری سرمایہ دارانہ قوتوںکے لئے ممکن ہوتاوہ ایسے انتخابات کی بنیادپرقائم ہونے والی حکومتوںکوختم کردیتے ہیںجن ذریعہ وہ لوگ برسراقتدارلائے ہوںجنہوںنے اپنی جانیں،آراء اوراملاک بڑھوتری سرمایہ کے سپردنہ کی ہو،نہ کرنے کاارادہ رکھتے ہوں۔لیکن استعمار کے لئے ایسی سرمایہ دارانہ مخالف حکومتیںبرطرف کرناہرجگہ ممکن نہیںانہوںنے مصرمیںاورالجزائرمیںیہ کامیابی سے کردیاہے لیکن ایران،لبنان اورغزہ میںیہ نہ کرسکے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پرقائم انتخابی عمل کوسرمایہ دارانہ نظام کی تسخیر کے لئے مخصوص حالات میںاستعمال کیاجاسکتاہے ۔

ایمنوئیل کانٹ
کانٹImmanuel Kant(١٨٠٤ ۔ ١٧١٤)اپنی سیاسی فکرمیںلاک اورروسو سے متاثرتھاوہ تجربیت (Empiricism)کامخالف تھا اوراس نے لبرل سرمایہ دارانہ سیاست کی معروضی (Abstract)اخلاقی فلسفیانہ بینادیںفراہم کیںجن کوبعدمیںDeontologicalآدرش کہاگیاہے ۔کانٹ کانظریہ ریاست (Reichkstat)اس کے تصورقانون اورتصوردائمی امن (Eternal peace)پرمبنی ہے ۔
کانٹ کے تصورریاست کوReichkstatکہتے ہیں،ریخ اسٹیٹ وہ نظام اقتدارہے جس کی بنیاد قانون (Law)پرمبنی ہو۔ریخ اسٹیٹ (Reichkstat)قانون کے ذریعے امن (Peace)قائم کرتی ہے اوربرقراررکھتی ہے ۔قیام اوراستحکام امن قومی اوربین الاقوامی سطح پرریخ اسٹیٹ(Reichkstat)کااصل وظیفہ ہے ۔اس امن کی بنیادپرقانون (Law)اوریہ قانون عقلیت (Reason)کی بنیادپروضع کیاجاتاہے انسانی فطرت اورتاریخ انسانی بقول کانٹ کاتقاضاہے کہ ریخ اسٹیٹ (Reichkstat)قائم کی جائے تاکہ عقلی (Rational)بنیادوںپرآزادی (Freedom)کی جستجو یونیورسلائز ایبل (Universalizable)(اس تصورکی تشریح ہم بعدمیںپیش کریںگے)ہوسکے اورامن قائم رہ سکے ۔
کانٹ کے نظریہ کے مطابق فطرت انسانی آزادی اور اٹانومی(Autonomy)کی متقاضی ہے ،جب کہ قوانین فطرت انسان پرجبراًمسلط کرتے ہیںلہٰذافطرت انسانی اورکائناتی نظام (Physical nature)میںتضادہے ، ظاہری اشیاء کوکانٹ فنومینا(Phenomenon)کہتاہے اوراس کے خیال میںان ظاہری اشیاء اور کیفیات کوہم سائنس(Science)کے ذریعے جان سکتے ہیں،اس کے برعکس اشیاء کی حقیقت کووہ نومینون (Neomenon) کہتاہے اوران کوتیقن کے ساتھ لیکن مورالٹی (Morality)ان نومینونNeomenon))کاکچھ نہ کچھ شعورحاصل کرنے کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔عقل (Reason)کے ذریعے نومینون (Neomenon)کی لا علمی کے با وجود انسان آزادی حاصل کرتاہے اور آزادی تسخیرکائنات کے ذریعے ہی حاصل کی جاتی ہے ۔
اس آزادی کوکانٹ اٹانومی (Autonomy)کہتاہے ایک اٹانومسٹ (Autonomist)انسان ان معنوںمیںآزاداورخودمختاراورخودتخلیقی ہے کہ وہ اپناتصورخیراورشرضابطہ اخلاق اورتصورحیات وکائنات خودمتعین کرتاہے وہ کسی خارجی قوت مثلاخدا،فطرت یاتاریخ پرانحصارنہیںکرتابلکہ وہ ایک خودمختارقانون ساز(Legislator)ہے۔وہ اشیاء کائنات (Phenomenon)کوان کی حقیقت ودیعت کرتاہے وہ صرف ان قوانین کی اطاعت کاقائل ہے جواس نے خوداپنی مرضی سے تخلیق کئے ہیںاوریہ قوانین مقدس اس لئے ہیںکہ ان قوانین کونوع انسانی کے ہرفردپر اس طرح لاگوکیاجاسکتاہے کہ اس کی اٹانومی (Autonomy)فروغ پائے ۔کانٹ کے مطابق کسی قانون کے جائز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ
٠ وہ قانون کسی اٹانومسٹ(Autonomous)فردنے بغیرکسی بیرونی (خدا،فطرت ،تاریخ)پرانحصارکے اپنی اورعقل کی بنیادپرخودتخلیق کئے ہیں۔
٠یہ قانون ان معنوں میں یونیورسلائزایبل(Universalizable)ہوکے اس کااطلاق بنی نوع انسان کے ہرفردپراس طرح ممکن ہوکہ اس اطلاق کے نتیجے میںہرفرد کی اٹانومی(Autonomy)فروغ پائے ۔یہ قانون انسانوںکے درمیان تفریق نہیںکرتاوہ ان معنوںمیںغیرجانبدار(Impartial)ہے کہ اس کے اطلاق کے نتیجے میںہرانسان کی اٹانومی(خودمختاریت اورخودتخلیقیت)فروغ پاتی ہے ۔(ہم آگے چل کرثابت کریںگے کہ یہ خودتخلیقی یونیورسلائزایبلUnivresalisable) (قانون ،قانون سرمایہ داری(Law of capital)ہے ،اورکانٹ Rule of lawسے Rule of capitalہی مراد لیتاہے ) اس یونیورسلائزایبل(Universalizable)قانون کوکانٹ مارل لاء (Moral law)کہتاہے اوریہ مارل لاء آزادی کی یونیورسلائزایبلٹی(Univresalizablity)کی تشریح ہے یہی وجہ ہے کہ کانٹ کی اخلاقی (Moral)فکرکوراز(Raz)نے Morality of freedomکہاہے ،انسان (جس کوبعدمیںچل کرہیومن بینگ(Human being)کہاجائے گا۔(کانٹ یہ اصطلاح استعمال نہیںکرتا)اصولاًپابندتوصرف اس قانون آزادی (Moral law)کاہے جواس نے خودتخلیق کیالیکن قوانین فطرت نے اس کوعملامجبورکررکھاہے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل لازماً فطری قوانین ( Natural laws)کے ماتحت کرے لہٰذادائرہ کارآزادی (Reailm of freedom)اوردائرہ کارضرورت (Reailm of neccesity)میںتضاداورتصادم موجودہے اورانسانی جدوجہددائرہ کارضرورت سے دائرہ کارآزدی کی مراجعت کی جستجوہے ،ضرورت کوآزادی کابتدریج تابع کرکے انسان نیک عمل(Virtue)(یعنی وہ عمل جوآزادی کوفروغ دے )کوحصول لذات (Happiness)کاذریعہ بنا سکتے ہیں(کانٹ اورہیوم کے تصور(Happiness)میںفرق ہیںRealm of happinessحصول لذات کی جدوجہدکے علاوہ اورکچھ نہیں)۔فطرت (Nature,realm of neccesity)کوفروغ آزادی کاذریعہ بناناممکن بھی ہے اورناگریزبھی ۔
کانٹ کے مطابق سیاسی عمل جدوجہدحصول لذات کو جدوجہدارادی میںسموناہے ۔یہ اس وقت ممکن ہے جب سیاسی نظام رائٹ آف مین(Right of man)کے تفوق کااظہارہو۔رائٹ آف مین ،ہیومن رائٹ ہی ہیںاوراٹانومی(Autonomy)کوسیاسی شکل دیناان کااصل وظیفہ ہے ۔
ہیومن رائٹ کی تقدیم کی بنیادپرایک ایساسیاسی نظام تشکیل کیاجاسکتاہے جہاںحصول لذات کی جدوجہدکواس بنیادپرجوازفراہم کیاجاسکے کہ یہجدوجہدیونیورسلائزایبل (Universalizable) ہویہی سرمایہ دارانہ نظام زندگی ہے جہاںعمومی لذات (GNP,gross national product)کواس طرح بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مجموعی لذات کے اضافے کے نتیجے میںمعاشرے کاہرفرداپنی خواہشات کی تکمیل کازیادہ مکلف ہوجائے (یہ بات تفصیل سے رالز(Rawls)کے اپنے Diffrernce princpleکے ذریعے واضح کی ۔اس کاتجزیہ بعدمیںپیش کیاجائے گا۔)
کانٹ اس بات پراصرارکرتاہے کہ حصول لذات کی جدوجہدہی فروغ آزادی کاذریعہ بن سکتی ہے ،گویاامن عامہ (Perpetual peace)آزادی کے فروغ کی جدوجہد کامنطقی تقاضا ہے لیکن لاک کے اثرکے تحت کانٹ تسلیم کرتاہے کہ امن کافروغ تحفظ جان اورپراپرٹی(Property)کی جستجوکے نتیجے میں ہی ممکن ہوتاہے اس طرح سول سوسائٹی (Civil socity)کاقیام جہاںہیومن رائٹس کی تقدیم تسلیم کی جاتی ہے بقول کانٹ تاریخی طورپراس لئے قائم ہوتی ہے کہ سول سوسائٹی میںحصول لذات سہل ثابت ہوئے ،لہٰذاکانٹ کے مطابق سول سوسائٹی ایسے پربھی قائم کرسکتے ہیںجوذہین(Intelligent)ہوں ۔سول سوسائٹی کااصل مقصدلذات کافروغ اورپراپرٹی کاتحفظ ہوتاہے ۔
رائٹس آف مین یعنی ہیومن رائٹس
کانٹ کے مطابق بنیادی ہیومن رائٹ حق خودتخلیقیت (Right of self determenation) ہے۔ہرفرد کویہ تسلیم کرناچاہئے کہ وہ کسی ایسے قانون کوجائز نہیںگردانے گاجس کواس نے بلااکراہ خودتخلیق نہ کیاہو۔جب فرداس عقیدے کوقبول کرلیتاہے تووہ بالغ (Mature)اورروشن خیال (Enlightened)ہوجاتاہے ۔
بالغ (Mature)اورروشن خیال (Enlightened) فرداس بات پرایمان لاتاہے کہ تمام افرادکی اخلاقی قدر(Moral worth)یکساںہے اسی لئے ہیومن رائٹس سب کی مشترکہ پراپرٹی ہے یہ کہ تمام افرادخودتخلیقیت کے یکساںحقدارہیںعقلیت لازمی مفروضہ (presupposition)ہے ۔تعقل(Reason)یاتفہیم(Understanding)سے ثابت نہیںبلکہ اس عقیدے کوقبول کئے بغیرعقلیت اورتفہیم ممکن نہیں۔ (بقول کانٹ جس طرحOriginal Cauese کولازم ہونامفروض (Presupoce)کے بغیرمادی(Effect)کونہیںسمجھاجاسکتااورسائنسی علم ناممکن ہوجاتاہے۔)مادی دنیاکی تفہیم اسی وقت ممکن ہے جب ایک روشن خیال (Enlightened)فرداپنے ذہن میںمضمراے پرادری(A prior)مفروضات کی بنیاد پران اطلاعات کوتصوراتی (Concepts) شکل میںڈھالے جوتجربہ(Experience)فردکے ذہن کوفراہم کرتی ہیںخودانحصاریت (Self determination)ایک درست نظریہ ہے اس لئے نہیںکہ یہ عقل سے ثابت ہے بلکہ یہ تسخیرکائنات کوممکن بناکرنوعی آزادی کوفروغ دیتاہے ۔خداکومسبب الاسباب سمجھناایک غلط نظریہ ہے اس لئے نہیںکہ یہ عقل کے خلاف ہے بلکہ اس لئے کہ یہ نوع کی آزادی اوراس کی خودتخلیقیت کی راہ میںرکاوٹ ہے ۔تسخیرکائنات یعنی (سرمایہ داری )کی جدوجہد فروغ شعورخودتخلیقیت ہی کی جدوجہد ہے چونکہ اسلامی تاریخ میںلبرل سرمایہ داری کے ظہورسے قبل خودتخلیقیت کی سیاسی جدوجہدکبھی نہ کی گئی لہٰذاہیومن رائٹس کے بقاء اوراستحکام کے لئے تاریخ سے کوئی سبق نہیںلیاجاسکتالبرل سرمایہ داری سے پہلے کی تاریخ ظلمت کی تاریخ (Dark ages)ہے آزادی کے خواہاںافراد اس سے کچھ نہیںسیکھ سکتے ،ہیومن رائٹس کامآخذتاریخ انسانی یامسودہ مقدس(کانٹ کی مراد بائبل سے ہے )نہیںبلکہ انلائٹنڈہیومن بینگ(Enlightend human being)کاوجدان ،میلانات اورجبلی مفروضات (Rational presupposition)ہیںجواس تسخیرکائنات (سرمایہ داری )کے لئے عقل اورتجربہ سے کام لیناسکھاتی ہیں۔روشن خیال (Enlightened) ہیومن بینگ کے عمل اورفکرکی واحدتحدیدنوعی آزادی فراہم کرتی ہے ۔خدا،رسول،امام،مرشد،استاد،ماں،باپ کسی کوحق نہیںپہنچتاکہ وہ بالغ روشن خیال (Enlightened) ہیومن بینگ کے فکریاعمل کاتعین کریںکیونکہ تسخیرکائنات یعنی فروغ لذات کے ذریعے ہی آزادی میسرآتی ہے لہٰذاروشن خیال (Enlightened) ہیومن بینگ کے فکروعمل کاتعین صرف شیطان (یعنی نفس امارہ )کوتفویض کیاگیاہے ۔
عقل نفس (Will)کی مطیع ہے کیونکہ بقول کانٹ نفس خیرہے ۔نفس(Will)خیر (Good)خواہ اس کامقصدخیرکاحصول ہویانہ ہو۔نفس قانون کی مکمل تابعداری اس وقت قبول کرتاہے جب قانون (Law of capital)نفس کے ارادوں کاغمازاوراس کاتعمیرشدہ ہو۔قانون(Law of capital) روشن خیال (Enlightened) ہیومن بینگ کے will کا عکس ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت قانون نفس (یعنی شیطان)ہی کی اطاعت ہے۔
کانٹ ہر ہیومن بینگ کی مساوی ڈگنیٹی (Dignity) کا قائل ہے کیونکہ اس کی رائے میں”ہیومینیٹی (یعنی شطینت بقول فاسٹر)خودڈگنیٹی(شرف)ہے یہ صرف انسان اس وقت کھوتاہے جب وہ اپنے آپ کو (یاکسی اورانسان کو)غیرکے ارادے کے تابع کرتاہے ۔اپنے نفس کا بندہ مشرف ہے،عبداللہ ہیومن بینگ نہیں۔کسی انسان کویہ حق حاصل نہیںکہ وہ حصول رضائے الٰہی کے لئے اپنی زندگی وقف کردے یہ ہیومن رائٹس کے متضادہے۔ایسا انسان Autonomousنہیں Hetronomousہوتا ہے، اور یہ ہیومینیٹی کی تذلیل ہے۔
ہرفرداپنے نفس کابندہ بننے ،ہیومن بینگ بننے کی صلاحیت رکھتاہے ۔یہی وہ چیزہے جواس کوجانوروںممیزکرتی ہے ۔ہیومن رائٹس کی تعظیم اورعمومی فراہمی کے نتیجے میںتمام انسان اٹونومس بن جائیںگے اوریہ اپنی عقلیت کواپنی نفسانیت کے تابع کردیںگے ۔لہٰذاسرمایہ دارانہ سیاسی نظام میںتمام انسانوںکوخواہ وہ ہیومن بینگ ہوںیانہ ہوں،مساوانہ قدرکاحامل تصورکیاجاتاہے اورہیومن رائٹس سب کوفراہم کئے جاتے ہیں۔
نفس خیرمطلق(Good)صرف اس لئے ہے کہ وہ صرف اپنی تابعداری کااس انداز میںقائل ہے کہ اس کے احکامات قانون کے ذریعے یونیورسلائزایبل (Universalizable)ہو ں۔فرض عین (Duty)ایسے قانون کی تکریم (Respect)ہے جونفس کے یونیورسلائزایبل احکامات کاغمازہوں(اس نقطے کی وضاحت کے لئے کانٹ ایک مثال دیتاہے ،وہ پوچھتاہے کہ مجھ کوایک ایساقرض واپس کرنے کاوعدہ کرناچاہئے جومیںجانتاہوںمیںواپس نہیںکرسکوںگا؟مجھے یہ نہیںکرناچاہئے کیونکہ اگرسب لوگ ایسے قرض واپس کرنے کاوعدہ کریںجووہ جانتے ہیںکہ وہ کبھی واپس نہیںکرسکتے توقرضوںکاپورانظام بیٹھ جائے گااورپراپرٹی ختم ہوجائے گی۔چونکہ یہ فعل یونیورسلائزایبل نہیں لہٰذانفس کی اتباع اس سے اجتناب کرنے میںہے ۔اس کے کرنے میںنہیں۔)نفس کا”حکم مطلق(Categorical imperative)یہ ہے کہ ان فیصلوںکے مطابق عمل کیاجائے جویونیورسلائزایبل ہوں۔یہ Categorical imperativeوہ واحدفرض عین ہے جس کوکانٹ قبول کرتاہے اوراسی بنیادپرسرمایہ دارانہ نظام زندگی کی تصدیق کی جاتی ہے چونکہ نفس کی خواہشات کے حصول کے جدوجہد کوسرمایہ کے ذریعے ہی یونیورسلائز کیاجاسکتاہے ۔سرمایہ کی بڑھوتری سے تمام انسان مستفید مستقلاًہوسکتے ہیںکیونکہ جب سرمایہ ،سرمایہ دارانہ زر(Capitalist money)(اس تصورکی تشریح صفحہ میںپیش کی گئی ہے ) سرمایہ کی شکل اختیارکرلیتاہے تواس کی بڑھوتری کی کوئی حدنہیںرہتی لیکن اس حکم مطلق (Categorical imperative) کی بنیادپرسرمایہ کی بڑھوتری کے وہ طریقے استعمال نہیںکئے جاسکتے جویونیورسلائز ایبل نہ ہوں۔
Categorical imperative کاتقاضہ ہے کہ ہرفردکے نفس کے احکام کی تکریم کی جائے اوراس کایہ حق تسلیم کیاجائے کہ وہ اپنے نفس کے یونیورسلائزایبل احکام کی اتباع کرے ۔ہرفرد ”End in himself”ہے ان معنوںمیںکہ اس کی یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کاحصول سب کامقصد(End)ہے کسی مقصدکے حصول کاذریعہ (Means)نہیں۔چونکہ بڑھوتری سرمایہ وہ واحدعملی (Practical)ذریعہ ہے جوہرفردکی خواہشات کی یونیورسلائزایبل تکمیل کوممکن بناتاہے لہٰذاعملیe Practical Categorical imperativeبڑھوتری سرمایہ کے عمل میںمہمیزدینے کی علاوہ کچھ اورنہیںیہی ہیومن رائٹس (Right of man)کی بنیاد ہے (کانٹ صراحت سے نہیںکہتاکہ بڑھوتری سرمایہ یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کے حصول کاواحدذریعہ ہے لیکن تاریخ نے ثابت کردیاہے کہ بڑھوتری سرمایہ کی جستجوکے علاوہ کسی اورذریعہ سے خواہشات نفسانی کی لامتناہی اورمستقل تکمیل ممکن نہیں۔)اوراس ہی فرض عین کی ادائیگی Categorical imperativeکی ادائیگی تحفظ اورفروغ آزادی (Liberty)اورپراپرٹی کی ضمانت فراہم کرتاہے ۔
خودمختاراورخودتخلیقی نفوس ایک ”سلطلنت مقاصد”(Kingdom of ends)تعمیرکرتے ہیںجس میںتمام افراد فرض عین (Categorical imperative)کے مطیع ہوتے ہیںاورایسے قوانین وضع کرتے ہیںجواس فرض عین (Categorical imperative) کی ادائیگی کے لئے معقول (Rational)ضروری (Necessary)اورجامع (Sufficient)ہوں۔”سلطنت مقاصد(Kingdom of ends)ایک ایسی ری پبلک(Republic) ہے جہاںہرسٹیزن(Citizen)راعی بھی ہے اوررعایا بھی ،وہ خواہشات نفسانی کی یونیورسلائزایبل کی تکمیل کے لئے قانون سازی کرتاہے اوران قوانین کی اتباع کواپنافرض عین( Categorical imperative) گرادنتاہے ۔اس ری پبلک میںجوقانون نافذہوتے ہیںوہ لازماًLaw of capitalان معنوں میںہوتے ہیںکہ بڑھوتری سرمایہ کی مستقل جدوجہد وہ واحد عملی طریقہ ہے جس کے ذریعے یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کی تکمیل اورفروغ ممکن ہے تاریخ سے ثابت ہے کہ تکمیل اورفروغ خواہشات نفسانی کاکوئی اورعملی ذریعہ موجود نہیں(اس ضمن میںبعدکے صفحات میںزیادہ تفصیل سے گفتگوکریںگے)اس ری پبلک میںہرسٹیزن کاواحد باہمی (Reciprocal)فرض عین بڑھوتری سرمایہ کی یونیورسلائز ایبل مستقل جدوجہدہے ۔
اس ری پبلک کاکلیدی تصورنیکی (Virtue)عدل (Justice)ہے ،ری پبلک میںعدل کے قیام کے لئے ہراٹونومسٹ خودمختار،اورخودتشکیلی فردکے لئے ضروری ہے کہ وہ ہردوسرے فرد کی خودمختاریت اورخودتشکیلیت کوتسلیم کرے اوریونیورسلائز ایبل قوانین کی اتباع کی بنیاد پراپنے ذاتی خواہشات نفسانی کی جدوجہدکومنظم اورمحدودکرے (واضح ہوکہ ہرنظام زندگی کااپناتصورعدل ہوتاہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامشہورقول ہے کہ ”کافرحکومت چل سکتی ہے ظالم حکومت نہیںچل سکتی ۔اس سے حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد یہ ہے کہ جوحکومت خود اپنے تصورعدل پہ قائم نہ ہو وہ نہیںچل سکتی ،یہ نقطہ مجھے جناب زاہدصدیق مغل نے سمجھایاہے )۔یہاںکانٹ سرمایہ دارانہ تصورعدل پیش کررہاہے سرمایہ دارانہ ریاست میںسرمایہ دارانہ عدل قائم کرنے کی کو شش کی جاتی رہتی ہے ۔ظاہرہے کہ اسلامی تصورعدل تحکیم احکام شریعت قائم نہیںکیاجاسکتاسرمایہ دارانہ عدل کی ایک اورتشریح Theory of marginal productivityہے جوانیسویںصدی میںپیش کی گئی)ری پبلک میںنفس کی کسی خواہش کی کواصل(Intrinsic)قدرتسلیم نہیںکیا جاتا کوئی عمل یاخواہش قدرنہیںرکھتا۔وہ Valueless ہے اوران معموںمیںتمام اعمال اورخواہشات مساوی یعنی صفرقدرکے حامل ہیںلیکن وہ قدرمطلق کے حصول کاذریعہ بن سکتے ہیںخیرمطلق ری پبلک کے مجموعی سٹیزن کی خواہشات نفسانی کی یونیورسلائز ایبلکرکے انتہائی تسکین کے حصول کی جدوجہد ہے اسی جدوجہدکے نتیجے میںہرسٹیزن دوسرے سٹیزن کی اٹانومی کوباہمی تعاون (Receprocity)کی بنیادپرفروغ دیتاہے ۔عملاً(Practically)یہ صرف بڑھوتری سرمایہ کومہمیزدے کر ممکن ہے لہٰذاکانٹ کی سلطنت مقاصد(Kingdom of ends)کے قیام کامقصدبڑھوتری سرمایہ کے عمل کووسعت دیناہے اورتمام انفرادی اعمال کی قدربڑھوتری سرمایہ کے عمل میںاپناحصہ ڈال کرہی حاصل کرتے ہیںاوراس فرض عین کی ادائیگی میںمعاون ہیںیہ فرض عین ہرسٹیزن کے لئے لازم کرتاہے کہ
٠وہ اپنی ذاتی زندگی کوبڑھوتری سرمایہ کے لئے وقف کردے ۔
٠ہردوسرے سٹیزن کاحق تسلیم کرے کہ وہ بڑھوتری سرمایہ کی جدوجہد میںشامل ہو۔
٠کسی دوسرے کایہ حق تسلیم نہ کرے کہ وہ یونیورسلائزایبل بڑھوتری سرمایہ کی جدوجہدمیںرخنہ ڈال کرانسانی جان یاکسی اورمعاشرتی وسیلہ کوکسی اورمقصد کے لئے استعمال کرے ۔
٠تحفظ پراپرٹی (سرمایہ دارانہ ملکیت )کی فرضیت کوقبول کرے ۔
یہ ریپبلک میںمقدم اوراعلیٰ ترین (Supreme)انفرادی فرائض (Legal duties)ہیںاورانہی سے ہیومن رائٹس برآمدہوتے ہیںاوران حقوق کومکمل تحفظ فراہم کئے بغیربڑھوتری سرمایہ کی جدوجہد کومنظم نہیںکیاجاسکتا ۔کانٹ کے مطابق حقوق صرف قانونی (Legal)ہوتے ہیںاخلاقی (Moral)نہیںہوتے ہیں۔وہ اخلاقیات جن کی عیسائیت تصدیق(وہ یونانی اخلاقیات جن کی تصدیق Scholastic مباحث میںارسطوکے زیراثرملتی ہے )قانون کاجوازیااس کی بنیاد فراہم نہیںکرتے ,کیونکہ یہ قانون Law of capitalہے Law of God نہیںہے ،ریپبلک کے نمائندہ منتظم کافرض ہے کہ وہ یونیورسلائز ایبل خواہشات نفسانی کے حصول کے لئے قانون سازی کرے اگریہ قوانین عیسائی تصوراخلاق سے متصادم ہیںتویہ ان کی حکم عدولی جواز نہیںریپبلک کاسٹیزن ہرحال میںان قوانین پرعمل کرنے کاذمہ دارہے لیکن وہ اس نمائندہ اقتدارکی تبدیلی کے لئے قانون کے دائرے میںرہتے ہوئے جدوجہدکرسکتاہے ۔
پروگریس(Progress)
ٍ کانٹ کے مطابق یونیورسلائز ایبل خواہشات کے تابع عقلیت (Rationality)کے فروغ کے نتیجے میںایک سرمایہ دارانہ قانونی ریاست (Lawful state)کاقیام اوراستحکام ہوتا ہے ،اس لیگل اسٹیٹ کاوجودایک خودمختارانفرادیت کے نمو کے لئے ضروری ہے ایک اٹونومسٹ سٹیزن کوپروگریس کے امکان پرایمان لاناچاہئے گوکہ کانٹ کے مطابق تاریخی عمل پروگریس کی ناگزیریت کوثابت نہیںکرتاایک اٹونومسٹ فردکوپروگریس کے مقاصد(یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کی تسکین یا سرمایہ کے لامتناہی بڑھوتری)کے حصول کے لئے جدوجہدکرنی چاہئے بقول کانٹ فطرت انسانی اس نوعیت کی جدجہدمیںرکاوٹ نہیںڈالتی کیونکہ انفرادی لذات کے حصول کی جستجواوریونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کے حصول کی جدوجہد(جسے کانٹ Virtueکہتاہے )اس میںمتصادم نہیںنہ قوانین فطرت (Nature)ان دوجدوجہدوںکے ارتباط میںرخنہ اندازہیں۔فرض عین کی ادائیگی (یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کوفروغ دینا)اورانفرادی اغراض کی جستجوکی جدوجہدہم آہنگ ہیں۔
تاریخ انسانی سے غرض (Interest)ورفرض (Duty)کی یہ ہم آہنگی واضح ہوتی ہے۔انفرادی اغراض کی جدوجہدکے ذریعہ ہی یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کامسلسل فروغ ہواہے اورمسلسل ہوتارہ سکتاہے کیونکہ کانٹ کے مطابق انسان بحیثیت نوع کے ابدی ہے۔آدم اسمتھ(Adam smith)نے اس ہی خیال کو Doctrine of the invisible hand کے طور پرپیش کیاہے،اسمتھ کے مطابق Doctrine of the invisible handقانون فطرت (Law of nature)سے ماخوذہے ۔فطرت خوداپنی تسخیر(End of nature) میںان معنوںمیںمعاون ہے کہ وہ انفرادی اغراض(Instant)کی جستجوحصول آزادی،بڑھوتری ،سرمایہ،یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کے حصول کے فروغ کاذریعہ (Medium)بناتی ہے۔کانٹ کے مطابق اجتماعی مفادات (Public benefit)انفرادی کمزوریوں سے ہی برآمدہوتے ہیں۔قانون سرمایہ کی ریاست (Legal state)کاقیام اوراستحکام انفرادی خودغرضیوں،شہوت رانی اورانفرادی حرص وحسدکے فروغ پرلازماًمنحصرہے ۔عقلیت ،خواہشات کی پرورش اور نمو (Retainment) کے ذریعے ہی فروغ پاتی ہے ۔ عیاشی استحصال (Exploitation) اورتشدد (Violence) کے ذریعہ ہی سوشل کونٹریکٹ(Social contract)وجود میںآتاہے اورسول سوسائٹی قائم ہوتی ہے۔خواہشات (Appetites) کو ہوادے کرہی فرداس تنظیم (Discipline) کی ضرورت کوپہچان سکتاہے جس کے قیام کے بغیریونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کافروغ اورسرمایہ دارانہ قانونی ریاست (Lawful state)کاوجودمیںآناناممکن ہے ۔سرمایہ دارانہ معاشرہ(Civil society)اورسرمایہ دارانہ ریاست (Legal state)عیاشی،اغراض،حرص،حسد،شہوات اوردیگرمنکرات کی تنظیم اورا ظہارکامعقول (Rational)ذریعہ ہیں۔خودغرضی ،شہوت پرستی اورحسدفطرت انسانی کے ناقابل تسخیراساس ہیں سرمایہ دارانہ معاشرہ(Civil society)اورسرمایہ دارانہ ریاست (Law full state) انہی فطرتی قوتوںکواستعمال (Instrumentalise) کر کے اپنے فرض عین (یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کی تسکین کی مسلسل جدوجہدکی ادائیگی کوممکن بناتی ہیں۔سول سوسائٹی اورلافل میں اسٹیٹ یہ تمام اوصاف خبیثہ،شہوت رانی،حرص ،حسد،خودغرضی ایک منظم ) (Disciplined اندازمیںفروغ پاتی ہیں۔فرض عین کی ادائیگی کی جستجوایک ایسی تنظیم فراہم کرتی ہے جوانفرادی سفاکیت کواجتماعی اشتراک عمل میں ڈھال دیتی ہے اوراجتماعی خودغرضیاںاجتماعی انانیت میںسمودی جاتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ قانونی ریاست (Legal state)
سرمایہ دارانہ قانون فرض عین کی ادائیگی کے ضابطے متعین کرتاہے ۔فرض عین یہ ہے کہ یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کی تکمیل کی مسلسل جدوجہدکی جائے ۔سرمایہ دارانہ ریاست (Legal state)اسی قانون کی تنفیذکی تنظیم ہے ۔قانون صرف یہ جانچنے کاپیمانہ فراہم کرتاہے کہ سرمایہ دارانہ فرض عین (یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کے فروغ کی جدوجہد)تسلسل سے اداہورہاہے اس کاکوئی اورمقصدنہیںاس فرض عین کی ادائیگی کے لئے جو وسیلہ ضروری ہے اس کورائٹ آف مین(Right of man)یاہیومن رائٹس کہتے ہیں۔بنیادی ہیومن رائٹ یہ ہے کہ ہرفردہروہ عمل کرسکنے کامجازہے جس کی ادائیگی سے کسی دوسرے کاحق نہ چھن جائے یامحدودہو،سرمایہ دارانہ قانون اس ہیومن رائٹ کے فروغ کے علاوہ کچھ نہیں۔سرمایہ دارانہ ریاست انفرادی آزادی کی ایسی تحدیدات کوممنوع قراردیتی ہے جس کے نتیجے میںاجتماعی آزادی کے فروغ میںرکاوٹ ہووہ صرف اس انفرادیت اورمعاشرت کوفروغ دیتی ہے جویونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کے نموکوبطورخیرمطلق اورعدل کے قبول کرتی ہوں۔لیگل اسٹیٹ سیکولر ان معنوںمیںہے کہ وہ ان تمام مذاہب عالم کی دشمن ہے جویونیورسلائزایبل خواہشات کے مسلسل اضافے کوتعین قدرکاپیما نہ نہیںمانتے (مثلااسلام ،عیسائیت،ہندومت وغیرہ)۔ریخ اسٹیٹ (Reichstuf)لازماًایک ریپبلک ہوگی اور اس ریاست کے وجودکاواحدمقصدلوگوںکی انفرادی آزادیوں(Liberties)میںاضافہ ہوگااورکچھ نہیں۔ اس کے قیام کے نتیجے میں
٠ افرادکوخوشی(Happiness)بھی میسرآئے گی کیونکہ خودارادیت کااحساس طمانیت کولازماًفروغ دیتاہے۔
٠ افرادکی اخلاقی ترقی کاباعث ہوگی کیونکہ قانون کی بالادستی (Rule of law of capital)کوقبول کرکے وہ اپنی ذاتی خواہشات نفسانی کے حصول کے لئے اجتماعی خواہشات نفسانی کے فروغ کی ناگزیریت کے قائل ہوجائیںگے ۔
قانون(Law)حق (Right)کوپراپرٹی میںڈھالنے کاوسیلہ ہے اصولاًہرشے ریخ اسٹیٹ کے ہرشہرکے تصرف کے لئے موجودہے لیکن عملایہ ضروری ہے کہ حق ملکیت دوبنیادوںپرمحدودکیاجائے ۔
٠ایک یہ کہ ملکیت ہرفردکی انفرادی آزادیوںکاذریعہ بنے ۔
٠دوسرے یہ کہ انفرادی املاک کاایسااستعمال قانوناًممنوع ہوجس کے نتیجے میںانفرادی آزادی کافروغ اجتماعی آزادی کے فروغ میںرکاوٹ بنے۔
یہی سرمایہ دارانہ ملکیت ہے اوراس کے قیام اوراستحکام کے لئے ضروری ہے کہ حق کی ایسی تشریح کی جائے کہ ان کی آزادی محدودہوجوحق (یعنی قانون)کی خلاف ورزی کرتے ہیںاوران کی آزادی بھی محدودکرے جن کوسول سوسائٹی میںشامل کیاجاناناممکن ہے ۔(مثلاریڈانڈین ،نوآبادیاتی ممالک کے باشندے،غلام وغیرہ)
قانون کی تنفیذ(اوراس کے نتیجے میںانفرادی آزادیوںکی تحدید)کی ذمہ داری ایک ایسے نمائندہ اجتماعی نفس(Collective will)کے سپردکی جائے گی جوایک معاشرتی معاہدہ کے ذریعے وجودمیںلائی گئی ہے اس اجتماعی نفس کے احکامات کے نافذکردہ احکام کی تکمیل ہرانفرادی نفس کے احکام کی ہی تکمیل ہے چونکہ اجتماعی نفس ایک ایسے معاہدے کے ذریعے تشکیل پاتاہے جس میںتمام انفرادی نفوس برضاورغبت شامل ہوتے ہیںیہ اجتماعی نفس(جسے کانٹ Body of citizenکہتاہے )واحدالٰہ (Sovereign)ہے ۔ریخ اسٹیٹ (سرمایہ دارانہ قانونی ریاست)ہرفردکویہ آزادی دیتی ہے کہ ہرایسے قانون کی معقولیت سے انکارکردے جوباہمی رضا کی قائم ہونے والی اجتماعی نفس (Body of citizen)نے نہ بنایاہو اسی وجہ سے سرمایہ دارانہ قانونی ریاست مذہبی قوانین کولازماًردکرتی ہے اوران کے جوازکا انکاری ہے انہی معنوںمیںسرمایہ دارانہ ریاست لازماًسیکولرطرزحکومت ہوتی ہے کانٹ کے مطابق یہی واحد جائز (Legitimate)نظم ریاست وحکومت ہے ۔
کانٹ مقننہ (Legislature)،انتظامیہ(Executive)اورعدلیہ(Judiciary)کے دائرہ کاراوراختیارات میںفرق کرتاہے ۔الٰہ (Sovereign)صرف مقننہ ہے ،مقننہ کی الوہیت(Sovereignity)ہی ایک بھیڑ(Mob)کوایک مہذب اجتماعیت (People)میںتبدیل کرتی ہے اوراگریہ الٰہ انفرادی آزادیوںکے بلااکراہ اشتراک سے تشکیل نہ دیاجائے توبھیڑمہذب اجتماعیت میںنہیںڈھلتی لہٰذاحصول رضا الٰہی کے لئے قائم کیاگیانظام (جیساکہ CromwellیاCalvinنے قائم کیاتھا)،جائز نہیں،نہ مطلق العنان بادشاہت (مثلاًLouis xivکانظام )جائز ہے ۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام
لاک کی طرح کانٹ بھی اس بات کاقائل ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست ملکی سطح پرقائم ہوسکتی ہے ،بین الاقوامی سطح پرنہیںکیونکہ بین الاقوامی سطح پرسول سوسائٹی قائم نہیںکی جاسکتی اوروہاںState of natureہی قائم رہتاہے ۔کوئی مقننہ الٰہ(Sovereign)نہیںہوتااوراشتراک عمل کافروغ اورجنگ کی ممانعت انفرادی حکمرانوںکی صوابدیدپرمنحصرہوتی ہے سرمایہ دارانہ بین الاقوامی نظام میںجنگ کاخطرہ ہمیشہ موجودرہتاہے ۔عالمی الٰہ (Sovereign)کی غیرموجودگی سرمایہ دارانہ نظام کی فطری دور(State of nature)سے سول سوسائٹی کی طرف مراجعت ناممکن بنادیتی ہے ۔
کانٹ کے خیال میںبین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کوایک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی شکل اختیارکرناناممکن ہے اس کے بجائے یہ ممکن ہے کہ انفرادی سرمایہ دارانہ ریاستوںکے ایک ایسے عالمی دستور(Constitution)کی تشکیل کی طرف پیش رفت کریںجوجنگ کوناممکن بنادے ،اس دستورکی بنیادایسے بین الاقوامی معاہدوںپرہوناچاہئے جوسرمایہ دارانہ ریاستوںکے مابین وقتاًفوقتاًطے کئے جاتے ہیںکانٹ ایک بین الاقوامی ادارے(International organization)کے قیام کی ضرورت کااحساس دلاتاہے جوا س دستور( )کی شقات کی تشکیل اورتنفیذکی ذمہ داری اداکرے کانٹ امیدرکھتاہے کہ جیسے جیسے سرمایہ کی بڑھوتری(Progress) وقوع پذیرہوگی اس بین الاقوامی دستور کی حاکمیت اوراس کے دائرے کارمیںاضافہ ہوگاسرمایہ دارانہ قومی ریاستیںبتدریج اس عالمی دستورکی پابندہوتی جائیںگی جوامن عامہ کی ضمانت دے گااورسرمایہ کی بڑھوتری(Progress)کے عمل کومہمیزدے گا۔
عالمی سرمایہ دارانہ نظام میںکئی مرتبہ ایسے بین الاقوامی تنظیمیںبنی ہیںسب سے اہم اوروسیع دائرہ کارکھنے والی تنظیم اقوام متحدہ ہے ۔١٩٤٤ئسے اس نے مستقل سرمایہ دارانہ تجارت ااورانویسٹمنٹ(Investment)کے لئے قانون سازی کی ہے اس کے ذیلی ادارے(IMF,WTO,WIPO,World bank)وغیرہ کے تحت ایک عالمی سرمایہ دارانہ پبلک انتظامی ڈھانچہ (Public regularity system)وجود میںآگیاہے اقوام متحدہ نے سرمایہ دارانہ جنگ اورامن کی تنظیم میںبھی اہم کرداراداکیاہے اقوام متحدہ کی وساطت سے ہی دوعظیم سرمایہ دارانہ ریاستوںامریکہ اورسویت یونین میںباہمی تعاون ممکن ہوااورسردجنگ (Cold war)کے دورمیںکبھی ان دوسرمایہ دارانہ ریاستوںمیںتصادم نہیںہوا۔ ١٩٩٠ء کے بعدسے اقوام متحدہ امریکہ کی عالمی بہیمیت کی پشت پناہ اوراس کوقانونی جوازفراہم کرنے والے ادارے کے طورپہ مستقل کام کررہی ہے ۔اقوام متحدہ اپنی Peace forceکے ذریعے امریکی جنگیںبھی لڑتی ہے اورعراق ،سربیہ،نکاراگوا،لیبیاوغیرہ میںامریکی حملوںکوقانونی جوازبھی فراہم کرتی ہے اس طرح اقوام متحد ہ نے جنگ کوترقی یا پروگریسProgressکاوسیلہ بنانے میںاہم کرداراداکیاہے اوراقوام متحدہ کی مدد سے وہ عالمی صلیبی جنگ آج بھی جاری ہے جوگیارھویںصدی سے سرمایہ دارانہ عالمی نظام کے غلبے اورپروگریسProgressکے تسلسل کے لئے شروع کی گئی تھی (اس ضمن میںاقوام متحدہ اورامریکہ کے کمزوری یہ ہے کہ وہ سرمایہ داری کے خلاف غیرسرمایہ دارانہ جنگ کومحدودنہ کرسکے یہی چیزان کومجاہدین سے مذاکرات پرمجبوکرتی ہے )۔٢٠٠٥ئ میںامریکہ اورچین کی کوششوںسے عالمی سرمایہ دارانہ دستورکی تشکیل کی طرف ایک اہم قدم اٹھایاگیایہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںR2Pاعلامیہ (Decleration)کی منظوری ہے اس اعلامیہ کے تحت اقوام متحدہ نے استعماری قوتوںکایہ حق تسلیم کرلیاکہ وہ کسی بھی ایسے ملک میںفوجی مداخلت کرسکتی ہیںجہاںان کے خیال میںہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔کانٹ سے متاثرفلسفی یورگن ہیبرماس(Jorgen habermace)اس کی عالمی سرمایہ دارانہ دستورسازی کی تاریخ کاایک اہم سنگ میل گردانتاہے عالمی امن کے فروغ کے مطلب سرمایہ دارانہ جنگ اوربین الاقوامی قوانین کوپروگریسProgress(سرمایہ کی بڑھوتری )کاذریعہ بناناہے ،کانٹ اس بات کااقرارکرتاہے کہ سرمایہ دارانہ عالمی امن کے فروغ میںسب سے بڑی رکاوٹ مذاہب عالم ہیں،سرمایہ دارانہ جنگ وامن (وہ جنگ وامن جس کانتیجہ پروگریس ہو)مذہبی جنگ وامن کومسخرکرتاہے علاوہ ازیںسرمایہ دارانہ ریاستوںمیںباہمی جنگ ،کانٹ کے بقول بتدریج ختم ہوتی چلی جاتی ہے سرمایہ دارانہ ممالک میںبتدریج عقلیت کے ذریعے مذہبیت (Religion with the limits of reason at one)(کانٹ نے اس عنوان کے تحت ایک مشہورمقالہ لکھاہے )تمام الہامی مذاہب کوفتح کرلیتی ہے اورلوگ ٹولیرینس(Tolerance)کی ضرورت کے قائل ہوجاتے ہیں،یہ Rational religionلازماًپروگریس Progress کاذریعہ بنتاہے کیونکہ وہ انفرادی اغراض (Interests and desires)کے حصول کی جدوجہد کوجوازفراہم کرتاہے ۔جیساکہ کانٹ کے دورمیںProtestanism))کررہی تھی)غرض (Interets)کاآلہ کارسرمایہ دارانہ تجارت (Commerce)اورکمرشل روحانیت (Commercial spirit)کی معاشرتی بالادستی غیرسرمایہ دارنہ جنگ (جہاد)کوناممکن بنادیتی ہے ۔کانٹ لکھتاہے کہ ریاست کاسب سے موثرہتھیارزر(Money)ہے ،اورجب سرمایہ دارانہ ریاست کے شہری عبدالدیناربن جاتے ہیںتوغیرسرمایہ دارانہ جنگ اورغیرسرمایہ دارانہ امن (نفاذشریعت)ناممکن ہوجاتاہے ،سرمایہ دارانہ شخصیت دولت کے لامتناہی اضافے کی مستقل متلاشی رہتی ہے اور سرمایہ کی بڑھوتری کی جدوجہدکرتی ہے لہٰذاحرص حسد کی عوامی مقبولیت ہی سرمایہ دارانہ جنگ وسرمایہ دارانہ امن کے استحکام کی ضامن ہیں،عوام جتنے روشن خیال (Enlightened)ہوںگے غیرسرمایہ دارانہ جنگ اورامن اتناہی ناممکن ہوجائے گا ۔ روشن خیال (Enlightened)اجتماعی سرمایہ کی لامتناہی بڑھوتری کواپنے واحدفرض عین کے طورپرقبول کرلیںگے ۔
سرمایہ دارانہ امن کے فروغ کی دوبنیادی ضرورتیںہیں،ایک یہ کہ لوگ روشن خیال (Enlightened)ہوں،دوسرے یہ کہ سرمایہ دارانہ متصادم قوتیںمتوازن قوتوںکی حامل ہوں(کانٹ اس کو Equilibrium of force کہتاہے)۔
اخلاقیات وریاستی تنظیم
یہ بات واضح ہوجاناچاہئے کہ سرمایہ دارانہ متقی کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کی نگاہ میں اپنی خواہشات نفسانی کے حصول کی جدوجہداجتماعی خواہشات نفسانی کی جدوجہدسے ہم آہنگ ہواسی چیزکوکانٹ Practical reasonیاMoralityکہتاہے سرمایہ دارانہ تقویٰ کیسے پیداہوتاہے اس سلسلے میںکانٹ اپنی مختلف کتابوںمیںمتضادرائے دیتاہے ۔(Religion with the limits of reason والے مقالے میںجو تصورپیش کرتاہے وہ یہ ہے کہ پہلے سیکولر تعلیم کے ذریعے لوگوںکو روشن خیال (Enlightened)کیاجائے گا پھرسرمایہ دارانہ عدل کاقیام ممکن ہوگا۔On perpetual peaceوالے رسالے میںوہ سرمایہ دارانہ ریپبلک کے قیام اوراستحکام کے لئے اس قسم کی تعلیم کوضروری نہیںسمجھتا۔سرمایہ دارانہ ریپبلک کاقیام اوراستحکام ان حالات میںبھی ممکن ہے کہ اس کوجودمیںلانے والے سرمایہ دارانہ تقوے کے حامل نہ ہوںبلکہ انفرادی اغراض کے حصول کواجتماعی خواہشات نفسانی کے حصول پرمقدم رکھتے ہوںسرمایہ دارانہ ریپبلک ”شیطانوںکی بستی ”(بقول کانٹ″Nation of devils”)بھی قائم کرسکتی ہے سرمایہ دارانہ ریاستی دستورباشندوںکو روشن خیال (Enlightened)کرنے کاذریعہ بن سکتاہے ۔
میری رائے میںسرمایہ دارانہ تاریخ سے جوبات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میںسرمایہ دارانہ متقیوں(وہ جومجموعی خواہشات نفسانی کے فروغ کواپنے ذاتی اغراض کے فروغ پرمقدم رکھتے ہیں)کی تعداد نہ ہونے کے برابرہوتی ہے (کانٹ کوایک سرمایہ دارانہ متقی نہیںکہاجاسکتاوہ اغلام باز(Homosexual) تھا اوراپنی اغلام بازی کومخفی رکھنے کے لئے لاتعدادایسے اقدام کرتاتھا جواس کے تصورCategorial imperativeکے خلاف تھے )۔اس کے بجائے مارکس ،روسواورلینن کوسرمایہ دارانہ متقی کہاجاسکتاہے )۔سرمایہ دارانہ عقلیت کوقبول کرنے والے اہل دانش (Intellectuals)کاایک محدد گروہ ہوتا ہے ہے (جوعموماسرمایہ دارانہ متقیوں پرمشتمل نہیںہوتا) وہ ایسے دستوراورقوانین وضع کرتے ہیںجن کی تنفیذسرمایہ دارانہ اشرافیہ(کارپوریشنوںکے منیجرز،سٹے باز،سودخور،سیاستدان ،بیورکریٹس،اعلیٰ فوجی نوکرشاہی )کے معاشرتی غلبے کوممکن بناتی ہے ۔یہ اشرافیہ عظیم عوامی اکثریت کو ان دستاویز اورقوانین کی ماتحتی پرمجبورکرتی ہے اورپروگریس کے نتیجے میںسرمایہ دارانہ قانون کی تکریم ”فطرت ثانیہ”بنتی رہتی ہے اورنفسانی خواہشات کے حصول کی جدوجہدعقلیت کے واحدتقاضے کے طورپرمجموعی سطح پرقبول کی جانے لگتی ہے سرمایہ دارانہ قانون اوردستوروہ تنظیم (Discipline)نافذکرتی ہیںجوانفرادی خواہشات کے حصول کی جدوجہدکوااس بنیادپرمحدودکرتی ہے کہ یہ انفرادی جدوجہداجتماعی اغراض نفسانی کے حصول کی جدوجہدپرمنفی اثرنہ ڈالے سرمایہ دارانہ معاشرے میںاجتماعی فیصلہ عموماسرمایہ دارانہ عقلیت کے تقاضوںکوپوارکرنے کے لئے کئے جاتے ہیں(ہم بعد میںدیکھیںگے کہ Public choise theoryاس بات کاانکارکرتی ہے )گوکہ لوگ اپنے انفرادی اغراض کے حصول کے لئے سرمایہ دارانہ قانون اورسرمایہ دارانہ عقلیت کے تقاضوں کی خلاف ورزی اس حدتک کرتے ہیںجہاں تک ان کوایساکرنے کے مواقع میسرہوں(یادرہے کہ دنیامیں سب سے زیادہ سرمایہ دارانہ جرائم امریکہ میںہی سرانجام پاتے ہیں)۔
آدم اسمتھ اورڈیوڈریکارڈو
آدم اسمتھ (Adam smith)ان اہم غداروںاورملک فروشوںمیںسے تھاجنہوںنے اپنے ملک اسکاٹ لینڈ(Scotland)پرانگریزوں کے تسلط کومستحکم کرنے میںاہم کرداراداکیاانگلستان نے اسکاٹ لینڈ(Scotland)پرقبضہ ١٧٠٧ء میںایک طویل جنگ (جوچودہویںسے اٹھارویںصدی تک وقتاًفوقتاًبھڑکتی رہی )اوروحشیانہ مظالم ڈھانے کے بعدحاصل کیا۔ اسکاٹ لینڈ(Scotland)کوغضب کرنے کے لئے انگریزوںنے جوحکمت عملی اپنائی اس کااہم جزوجنوبی اورمشرقی اسکاٹ لینڈ(Scotland)میںایک غدارقوم فروش اشرافیہ کافروغ تھاجوپہاڑیوں(Highland)کے سرفروش حریت پسندوںکی مخالفت ومخبری کریںاس اشرافیہ کے دواہم ارکان ڈیوڈہیوم(David Hume)اورآدم اسمتھ تھے ۔
علم معاشیات کادوسرااہم ترین ابتدائی موجد (اس صف میںفرنکوآئے کینومے (Francois Quesaey 1694-1774)اورباک ترگو(Jacques Turgd 1727-1781)کے نام بھی شامل کئے جاتے ہیںلیکن ان دومفکرین کے نظریات وہ مقبولیت اوراثرنہ حاصل کرسکے جواسمتھ اورریکارڈوکے نظریات حاصل کی )ایک یہودی سودخورسٹے بازتھاجس کانام ڈیوڈریکارڈوتھا۔لندن اسٹاک ایکسچینج کے ابتدائی دورمیںاس کاایک کلیدی رکن تھا اورسٹے بازی ریکارڈوکاخاندانی پیشہ تھاچودہ سال کی عمرمیںریکارڈو(Ricardo)کل وقتی سٹے بازبن گیااوراکیس سال تک پہنچتے پہنچے وہ لندن کے سٹے بازوں میںعزت کی نگاہ سے دیکھاجانے لگابینک آف انگلینڈ(Bank of england)کے زری سودوں کے کاروبارسے بھی ریکارڈونے بہت فائدہ اٹھایاسوداورسٹے کے کاروبارسے ریکارڈونے اپنی ذاتی دولت کوتقریباًتیس سالوںمیں٨٧٥گنابڑھایا(ریکارڈوکاسب سے مشہورسوانح نگارسرافا(Saraffa)آج کی قیمتوںمیںاگرریکارڈوکی دولت کاتخمینہ لگایاجائے تووہ کئی ہزارملین پونڈ کے برابرہوگی )١٨١٩ء میںبرٹش پارلیمنٹ کاممبرمنتخب ہوااورحکومت اور حز ب اختلاف دونوں اس کی آراء کواہمیت دیتی تھیں۔
اکنامکس کی اعتقاداتی بنیادیں
آدم اسمتھ ،جا ن لاک کاپیروان معنوںمیںہے کہ جس اعتقادی تناظرکویہ دونوں مفکرین فطری سمجھتے ہیں وہ بڑی حدتک مماثل ہیںان اعتقادات کااظہارمعاشی عمل کے ذریعے اورمعاشی دائرہ (بالخصوص مارکیٹ )میںہوتاہے یہ وہ نقطہ ہے جس کا اسمتھ نے لاک کی فکرمیں اضافہ کیا ۔
اسمتھ کاتصورفطرت اورHuman، اس کی کتاب Theory of Moral Sentimentsمیںبیان کیا گیا ہے ۔اسمتھ کے خیال میںنیکی(Virtue)وہ خیر ہے جس کی دوسرے ہیومن بینگ تعریف (approbation)کریں۔نیکی کااظہارعمل کے ذریعے ہوتاہے اورہرعمل کی بنیادجذبات (emotion)یاخواہشات(passions) ہوتے ہیں(اسمتھ لفظ emotionاورلفظ passionکوہم معنی سمجھتاہے )۔
اسمتھ کہتاہے کہ کسی جذبے یاخواہش کی قدردوبنیادوں پرطے کی جاسکتی ہے ایک یہ کہ اس کامحرک (cause or motive)کیاہے اوردوسرے یہ کہ مقصدحصول (purpose or effect)محرک کی بنیادپرایک عمل کی درستگی یاموزونیت Propreityکاتعین کیاجاتاہے اوراس افادیت یاخوبی(merit)کاتعین عمل کے نتائج پرہوتاہے ۔لہٰذااخلاقی اقدار (Moral values)(میری رائے میںمغربی فکرمیںMorality اور Ethics میںتفریق ہمیشہ مبہم رہا ہے ۔میںMoralityسے مراد حال کی درستگی سے لیتاہوںیعنی فرد اپنی ذاتی زندگی میںخود اپنے ساتھ کیسا برتائو کرتاہے اپنے قلبی میلانات کی ترتیب کس طرح کرتاہے ایک ولی کانفس اس کی روح کے تابع ہوتاہے ۔جدید یعنی تنویری یورپ میںروح کااورتطہیرنفس کاکوئی تصورنہیںنفس امارہ کی ہرخواہش تکمیل کی متقاضی ہے بشرطیکہ وہ یونیورسزلائیبل (Universlaible)ہوUniverslaiblityاورافادیت کی بنیادپرEthicsکاتصورموجودہے اورEthicalمعیارات کی بنیادپرانفرادی اقدارکاتعین کیاجاتاہے ۔Ethicsافراد کاباہمی تعلقات کاجوازتلاش کرتی ہے اوریہ اس انفرادی میلان کو وصف حمیدہ تصورکرتی ہے جس کے اظہارکے نتیجہ میںدوسرے ہیومن بینگ کی خودارادیت(autonomy)محدودنہ ہو۔کسی انفرادی رجحان کی کوئی قدراصلی نہیںاس کی قدرصرف اس بات سے متعین ہوتی ہے کہ وہ ہیومن اٹانومی(autonomy)کوفروغ دینے میںکتنامددگارہے مثلاًزناکرنے کی خواہش رکھنانہ اچھاہے نہ برا۔زنااس وقت قابل قبول ہے جب یہ بارضاکیاجائے اگرزناکاری کوبحیثیت ایک صنعت کے فروغ دیاجائے تاکہ عمومی معاشرتی سرمایہ (آزادی)بڑھے توزناایک مستحسن عمل بن جاتاہے اورسرمایہ کامارکیٹ اس کے فروغ دینے والی کارپوریشنوں کی قدرمتعین کرتاہے ۔)خالصتاًخواہشات نفسانی کی موزونیت(Prosperity)اوران کی افادیت (Utility)کی بنیادپرمتعین کی جاتی ہے ۔ہیومن بینگ کے وجودکی بنیاداس کانفس امارہ (Self)اورنفس لوامہ کاخادم اس کاحاکم نہیں۔کسی خواہش کی موزونیت (Prosperity)اس بات پرمنحصرہے کہ وہ کس حدتک ہمددری (sympathy)کااظہارہے ۔(sympathy)اسمتھ کاایک کلیدی تصورہے اس سے وہ خواہشات کی نوعی ہم آہنگی(fellow feeling)مرادلیتاہے ۔ایک ہیومن بینگ کی خواہشات دوسرے ہیومن بینگ کی خواہشات کی غمازپہلے ہیومن بینگ کی تصوراتی صلاحیت (immagination)کی بنیاد پرہوجاتی ہیںایک غیرجانبدارناظر(impartial spectator)کسی ہیومن بینگ کی خواہش اس وقت موزوں(Prosperous )گردانتاہے جب وہ اس ہیومن بینگ کی خواہش خوداپنی خواہش سے مکمل طورپرہم آہنگ تصورکرتاہے اس طرح غیرجانبدارانہ ناظراس ہیومن بینگ سے Sympathiseکرتاہے جس کے عمل کووہ جانچ رہاہے یہ بات واضح ہوجاناچاہئے کہ sympathyکایہ تصورکانٹ کے تصورUniversalablityسے قریب ہے ۔
کسی فعل یاجذبے کی قدراس کے نتائج کی بنیادپربھی کی جانی چاہئے (یاد رہے کہ جو نتائج ایک فرد حاصل کرناچاہتاہے وہ ان نتائج سے مختلف ہوسکتے ہیںجو فعل کے ارتکاب کی نتیجے میںواقعتاحاصل ہوئے)اسمتھ کے خیال میںاگرغیرجانبدارناظر(impatial spectator)جذبات سے Sympathasiesکرے جوفاعل کے عمل کے نتیجے میںمفعول نے محسوس کئے ہیںتوغیرجانبدارناظرفاعل کے عمل کوقابل قدرvaluableقراردے گا بشرطیکہ یہ نتائج مفعول میںمثبت (positive)جذبات پیدارکررہے ہوںلہٰذاکسی فاعل کے کسی عمل کانیک Virtuousقراردیئے جانے کی دوشرائط ہیں:
٠ ایک غیرجانبدارناظرفاعل کی خواہشات کی محرکات سے sympathasiseکرتاہو۔
٠ وہ ہی غیرجانبدارناظرمفعول (وہ شخص جس نے اس عمل سے تاثرلیاہو)کے ان جذبات سے sympathieseکرتاہوجواس عمل سے متاثرہونے کے نتیجے میںاس میںپیداہوئے ہوںاس سے واضح ہوتاہے کہ خیرکاتعین غیرجانبدارناظرکی اپنی خواہشات کی بنیادپرہوتاہے ۔
لہٰذاتعین قدرمیںدوجذبات (passions)فیصل کرداراداکرتے ہیںایک sympathyاوردوسرے imaginationیہ دونوںجذبات فطری (natural)ہیںعقلی(rational)نہیں۔اسمتھ ان جذبات کوsub rational capacitiesکہتاہے بقول اسمتھ دونوںsub rationalجذبات ہیومن بینگ کودوسرے کے وجودسے ہم آہنگی فطری طورپرفراہم کرتے ہیںاورانہی کی بنیاد پرہیومن بینگ نوعی ادراک (specei conciousnessکی صلاحیت حاصل کرتاہے اسی نوعی ادراک کااظہاراس بات میںہے کہ ایک ہیومن بینگ اس بات کی فطری خواہش رکھتاہے کہ دوسرے ہیومن بینگ اس کو(اوراس کے اعمال کو)پسندیدگی کی نظرسے دیکھیںاوراسمتھ کے مطابق دوسروںکی تحسین حاص کرنے کی یہی خواہش انسانی معاشرے میںنیکی(Virtue)کے فروغ کی اصل محرک ہے ۔
ہیومن فطرت (human nature)قانون فطرت (law of nature)کی غمازہے اورنیک عمل (یعنی وہ عمل جس کی دوسرے ہیومن بینگ تعریف کریں)کرنے کی خواہش فطری(natural)ہے یہ تصورخیر (virtue)غیرجانبدارناظر(Impartial spectator)کوہیومنیٹی (humanity)کاایسا نمائندہ تصورکرتی ہے جوانفرادی جذبات اوراعمال کونوعی بقاء اورفروغ کی بنیادپرپرکھے اورتعقل (Rationality)کونوعی اورانفرادی میلانات کوsympathyاورimaginationکی بنیادپرہم آہنگ کرنے میںمدددے ۔اسمتھ کے بزرگ دوست (Mento) David Humeنے کہاتھاکہ عقل خواہشات کی غلام ہے(Reason is the slave of the passion)اوراسمتھ اس رائے سے بڑی حدتک متفق نظرآتاہے ۔
اسمتھ کی فکرمیںسرمایہ دارانہ حکومت معاشرے میںغیرجانبدار (impartial spectator)کاکرداراداکرتی ہے لیکن حکومت کوئی فطری شے نہیںبقول اسمتھ حکومت کاوجودایک ایسے عمل کانتیجہ ہے جس میںانسانوںنے اپنے مفادات کے فروغ اورتحفظ کے حصول کے لئے معقول (rational)ادارتی صف بندی کوقبول کیابقول اسمتھ ہیومن فطرت کاتقاضہ تویہ ہے کہ لوگوںکاعمل benevolentہویعنی نوعی خودغرضیوںکوانفرادی خودغرضیوں پرترجیح دی جائے لیکن حکومت اس مقصدکے لئے وجود میںنہیںآتی ۔حکومت کے قیام کا مقصدعدل (justice)کافروغ ہے (یاد رہے کہ ہرنظام زندگی کااپناتصورعدل ہوتاہے )اورسرمایہ دارنہ ریاست کانظام عدل ایک ہیومن بینگ سے دوسرے ہیومن بینگ کو نقصان پہنچانے کی راہ میںرکاوٹیں کھڑی کرنے کانام ہے(اس کی برعکس Benevolenceدوسرے کی آزادی اورخوداختیاری کوفروغ دینے کامتقاضی ہے)اسمتھ اپناتصورآزادی ان الفاظ میںبیان کرتاہے ”ہروہ کام کرناجودوسراہیومن بینگ مجھ کوکرنے پرمجبورکرنے کاحق رکھتاہے”۔عدل کاتقاضہ ہے کہ قانون کی پابندی کی جائے ۔کون سے قانون کی ؟قانون فطرت (Law of nature)اوراسمتھ کاتصورقانون فطرت وہی ہیجولاک کا ہے ۔
عدل کاقیام جیورس پروڈینس(jurisprudence)(اس کے برعکس Benevolenceدوسرے کی آزادی اورخوداختیاری کوفروغ دینے کامتقاضی ہے )اخلاقیات (Ethics)کامقصد نہیںاسمتھ کے مطابق قیام عدل جس جذبے کی تسکین کاباعث بنتاہے وہ جذبہ انتقام (Resentment)ہے قانون فطرت اس ہی جذبہ انتقام کاغمازہے اورریاست کاقیام اس ہی جذبہ انتقام اورباہمی نفرت (Animosity)کومنظم کرنے کے لئے ضروری ہے اس جذبہ انتقام اورمنفردمنافرت کا اظہار فطری سطح پربین الاقوامی تعلقات کے ضمن میںہوتاہے (لا ک اوراسمتھ دونوں ریاستی تعلقات کوstate of natureاورقانون فطرت (Law of nature)کے اظہارکادائرہ کارتصورکرتے ہیں۔) جہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اپنی قوم سے محبت دوسری اقوام سے نفرت اورمسابقت (competition)کی غمازہے بین الاقوامی تعلق جذبہ سمپتھی (Sympathy)پرنہیںجذبہ مسابقت (Competition)پراستوارہیں۔اسمتھ کہتاہے کہ انسان فطرت کے اعتبارسے خودغرض بھی ہے اورسمپیتھیٹک (sympathitic)بھی اورمعاشرہ اورریاست جذبہ خودغرضی اورجذبہ سمپتھی (sympathy)کے امتزاج کااظہارہے۔
سرمایہ دارانہ ریاست اورسرمایہ دارانہ معاشرت:
سرمایہ دارانہ معاشرہ اس اصول پہ قائم ہے کہ ہرہیومن بینگ کو اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کے لئے ایک ایساآزادماحول فراہم کیاجائے جہاںنفسانی خواہشات کی تسکین کے وسائل مستقلاًبڑھتے رہیں۔ذاتی اغراض کواس طرح فروغ دیاجائے کہ ان اغراض کاحصول مجموعی معاشرتی (total social)آزادی(سرمایہ )کے فروغ کا ذریعہ بن سکیں۔سرمایہ دارانہ حکومت کافرض ہے کہ انفرادی مسابقت کواس طرح منظم کیاجائے کہ اس کے نتیجے میںمجموعی معاشرتی آزادی(سرمایہ )مستقل فروغ پاتارہے ۔
اسمتھ کے مطابق معاشرہ جذبہ سمپتھی(Sympathy)پرقائم ہے ہرشخص چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اس سے سمپتھی کریںلیکن وہ یہ بھی چاہتاہے کہاس سمپتھی کی بنیاداس کی کامیابی سے محرومی نہ ہولہٰذامعاشرتی سطح پرانفرادی سمپتھی کے حصول کی جستجوانفرادی کامیابی کے حصول کی جدجہد(competion)کی شکل اختیارکرلیتی ہے ۔
معاشرے میںتحسین(approbetion)عموماًان اعمال کے حصے میںنہیںآتی جوبینویلنس (benevolence)مبنی ہوتے ہیںکیونکہ ان کے نتیجے میںعموماًمجموعی سرمایہ میںبڑھوتری وقوع پذیرنہیںہوتی اس کی برعکس وہ اعمال جوخودغرضیوں کے بنیادپرکئے جاتے ہیں عموماًبڑھوتری سرمایہ کاباعث بنتے ہیںاورانہیںمعاشرتی پذیرائی حاصل ہوتی ہے ۔
خودغرضی کے جذبات خودقابل تحسین نہیںلیکن ان کے نتائج قابل تحسین ہیںکیونکہ اس طریقے سے مجموعی سرمایہ (آزادی)میںبڑھوتری کومہمیزدیاجاسکتاہے اوربقول اسمتھ قدرت کاہم پریہ احسان ہے کہ اس نے جذبہ ایثاراورہمدردی (benevolance)کوسرمایہ کی بڑھوتری کی راہ میںرکاوٹ نہ بننے دیااس سے اسمتھ یہ نتائج اخذ کرتاہے کہ معاشرتی قدرحصول دولت(یعنی سرمایہ )کی جدوجہداوراس جدجہدکی کامیابی کے حصول میںہے نیکی کے حصول کی جدوجہداورنیکی فروغ پانے میںنہیںسرمایہ دارانہ معاشرہ اس ہی اصول پرکارفرمارہتے ہیںاورمعاشرتی جدوجہدکامقصدسرمایہ دارانہ نظام میںدولت (یعنی سرمایہ )کی بڑھوتری کوہی قدرکے پیمانے کے طورپر قبول کیاجاتاہے اورنیکی(Virtue)کی جستجو ایک بے وقعت(valueless)اورمہمل عمل بن جاتاہے (اس بات کی وضاحت رالس(Rawls)کی فکرکی تجزئے (Chapter no )میںزیادہ تفصیل سے پیش کی جائے گی)۔سرمایہ دارنہ معاشرہ حرص (acquesitiveness)اورحسد(competion)کوفروغ دینے کوہی اپنامقصدوجودگردانتاہے ۔بقول اسمتھ نیکی(Virtue)کوذاتی اغراض پرقربان کئے بغیربنی نوع ہیومنیٹی (Humanity)کی بقاء اورترقی ناممکن ہے ۔
بقول اسمتھ سرمایہ دارانہ معاشرے کی بنیادمارکیٹ ہوتی ہے (مارکیٹ بازارنہیںہوتے تاریخ انسانی میںبازارہمیشہ معاشرے کے ماتحت ہوتے ہیںاورقیمت کاتعین ایک معاشرتی عمل ہوتاہے ۔مارکیٹ سرمایہ دارانہ معاشرہ کومسخر(Colonise)کرنے کاذریعہ ہوتے ہیںاورتیرہویں صدی میںاٹلی کے بحرمتوسط (Medetireanian sea)کے ساحلوں پرپہلی مرتبہ قائم کئے گئے اورمارکیٹ میںایک ایسادست غیب (invisible hand)کارفرماہوتاہے جوانفرادی خودغرضیوںکے حصول کی لاتعدادجدوجہدوںکواس طرح مرتب کرتاہے کہ اس ترتیب کے نتیجہ میں مجموعی سرمایہ کی بڑھوتری کاعمل خودبخودفروغ پاتاہے مارکیٹ میںہرسودے بازاپنے منافع کومنتہیٰ(Maximum)حدتک پہنچانے کے لئے کام کرتاہے ۔وہ جس حد تک سودے کاری کرتاہے وہ خالصتاًخودغرض (Self interest)ہے اوراس کانیکی (Virtue)سمپتھی(Sympathy)اوربینوویلنس(Benevolence)سے کوئی سروکار نہیںہوتا۔
سرمایہ دارانہ ریاست کابنیادی فرض مارکیٹ کا فروغ اورتحفظ ہے ریاست کوقیمتوں کے تعین کے عمل میںبالکل دخل اندازنہیںہوناچاہئے جب تک یہ عمل اجارہ داروں کی دست بردسے محفوظ رہے ۔ دولت کی غیرمساویانہ تقسیم عدل کے منافی ہے اورمارکیٹتقسیم وسائل کوکوئی خاص اہمیت نہیںدیتے (ریکارڈونے اس مسئلے پرخاص توجہ دی ہے اورسرمایہ کی بڑھوتری کے لئے تقسیم دولت کوزیادہ اہمیت دیتاہے )۔
معاشرہ یعنی مارکیٹ اورریاست میںہومن بینگ ایک سیاسی عامل (Political agent)کے طورپرشریک ہوتاہے،یہ ایک اخلاقی Moralکی حیثیت ہے۔مورالیٹی کاتعلق اس کے Noncontractualغیرمعاہداتی تعلقات (مثلاًباپ،بیٹے،عام عیسائی (Member of the laity)کے پجاری (Preist)تک محدودرہتے ہیں اورتعلقات کے اس دائرے میںسمپتھی(Sympathy) اوربینوویلنس(Benevolence) کے اظہارکاموقع ہے ریاست اورمارکیٹ کے دائرے میںہیومن بینگ سمپیتھٹک (Sympathic)ہوسکتاہے نہ بینوویلنس(Benevolent )مارکیٹ میںہیومن بینگ کودھوکہ دینااوراپنے مخالف کی کمزوریوںسے فائدہ اٹھاناجائز ہے بقول اسمتھ مارکیٹ اورریاست پرخودغرضیوںکاراج لازم ہے یہی عقل کاتقاضاہے کیونکہ فطرت (Nature)نے اس بات کاانتظام کیاہے کہ خودغرضیوں کی جستجو میںخودبخود(automatically)خودبخودمجموعی آزادی(سرمایہ )انتہائی حد(Maximise)چھولیتی ہے ۔
اسمتھ اورریکارڈوسرمایہ داری (اس کووہ آزاد معیشت کہتے ہیں)کے عریاںوکیل تھے انہوںنے مجموعی قومی آمدنی (Gross national product)کاتصوردیااورGNPکی آخری حدوں (Maximisation)کومعاشرتی ہدف اولیٰ (Supreme objective) کہاکیونکہ GNPہی وہ اقداری شماریہ (Quantitative indicator) ہے جومجموعی لذات نفسانی کی پیمائش کرسکتاہے ریاست اورمعاشرتی وجود کامقصداولیٰ GNP Maximitionہے ،اخلاق یانیکیوںکافروغ اس ہدف کے حصول سے کوئی تعلق نہیں۔اسمتھ اس بات پرمسلسل اصرارکرتاہے اوراسی بنیادپراپنی فکرکوعیسائی اورسیکولرمورل فلسفیوں(مثلاًلاک جوProdenceپرزوردیتاہے اورکانٹ جوفرائض Categorical imprativeکاتصورپیش کرتاہے )سے ممیز کرتاہے ۔GNPکی Maximisationکے لئے ضروری ہے کہ مارکیٹ میںہرفردکواس کی مکمل آزادی ہوکہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی بھرپورجستجوکرے اورمسابقت (Competion)اس بات کاضامن ہے کہ خودغرضیوںکی انفرادی جدوجہدمیںمجموعی لذات نفسانی کی Maximisationپرمنتج ہوئے بغیرکسی فردیاکسی ادارہ کی سمعی کے مجموعی سرمایہ (Aggregate capital)کے فروغ کوحاصل کیاجائے ”دست غیب ”(Invisible hand)وہ خودکارمیکنزم ہے جوانفرادی خودغرضیوں کی جدوجہدکوGNP Maximisationکے حصول کے لئے منظم کرتاہے ۔پالیسی سازوں(یعنی حکومت کی اصل دلچسپی افراد کے اخلاقی یامذہبی تربیت سے نہیںبلکہ محنت کاروںکی پیداواری کارکردگی(Productivity)میںاضافے سے ہوناچاہئے ۔مزدوروں کی فلاح کی ذمہ داری حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ مارکیٹ میںمتعین ہونے والی اجرتیںناکافی ہیںاوربغیرحکومتی امدادکے مزدوروںکی پیداواری کارکردگی میںاضافہ نہیںہوسکتا۔
حکومت کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ تجاراورصنعت کاروںکواجارہ داریاں(Monopolies)قائم کرنے سے روکے اوران کوقیمتوںکے تعین میں دخل اندازی نہ کرنے دے اس طبقہ کے پاس دوقوت ہے کہ اپنے انفرادی مفادات مجموعی لذات کے فروغ کی راہ میںمزاحم بنادے۔ اسمتھ لیبرتھیوری آف ویلیو(Labour theory of value)(یاد رہے کہ یہ نظریہ لاک نے پیش کیاتھا)کاقائل ہے لیکن اس نظریے کے ارتقاء اورتدوین کااصل کام ریکارڈونے کیا۔اسمتھ کی رائے میںگوقدر(Value)صرف محنت (Labour)کانتیجہ ہے لیکن اس قدرکی تقسیم میںسرمایہ کے مالکان اورزمینداروںکا بھی حصہ ہوتاہے ا سمتھ تسلیم کرتا ہے کہ کے یہ بات اخلاقی معیارات (moral standerads)کے خلاف ہے لیکن اس تقسیم کوقبول کرنے کاجوازوہ یہ بیان کرتاہے کہ اس سے مجموعی لذات کے فروغ میںاضافہ ہوتاہے (دلیل یہ ہے کہ مزدوراپنی آمدنی سے سرمایہ کاری نہیںکرتے جب کہ دوسرے طبقات اپنی آمدنی کابڑاحصہ سرمایہ کاری کے لئے استعمال کرتے ہیں۔)تقسیم دولت پرگفتگوکرتے ہوئے اسمتھ مطلوبہ نتائج (فروغ سرمایہ کے حصول )کواخلاقی مورال تقاضوںسے مقدم تصوررکرتاہے ۔
اسمتھ سرمایہ دارانہ نظام کونظام آزادی اخلاق (System of moral liberty)کانام دیتاہے آزادی اس نظام کی کلیدی قدرہے اوربقول اسمتھ قدرت کامنشاء اوراصول بھی یہ ہے کہ ہیومن بینگ مکمل آزادی سے مستفید ہوتارہے فطرتاًہرہیومن بینگ اپنی آزادی (سرمایہ )کوفروغ دینے کی مستقل کوشش کرتاہے اورریاست کواس جدوجہدمیںہرہیومن بینگ کی اس وقت تک مددکرتے رہناچاہئے جب تک جدوجہدمجموعی لذات (GNP)کے فروغ میںرکاوٹ نہ بنے عقل(Reason)کاکام یہ ہے کہ
٠ وہ تسخیرکائنات (Progress)کی راہیںاس طرح استوارکرے کہ نوع انسانی کی آزادی(سرمائے )میںمستقل لامتناہی اضافہ ہوتارہے ۔
٠ انفرادی اغراض کے حصول کی جدوجہدکواس طرح منظم کرے کہ وہ مجموعی لذات (GNP)کے فروغ کاذریعہ بنے ۔ جب عقل (Reason)اپنے ان دونوں فراہم کردہ اصولوںکی مخلص تابعداری اختیارکرلیتی ہے تو وہ ریزں بن جاتی ہے، عقلیت کایہ تصورلاک (Locke)اورہیوم(Hume)کے تصورات عقلیت سے واضح مماثلت رکھتاہے ۔ان مفکرین کے مطابق تمام صاحب عقل (Rational)ہیومن بینگ ایسے حکمرانوںکی حاکمیت قبول کرلیتے ہیںجو ۔۔۔۔
١) رعایاکے منتخب نمائندے (Representative)ہوں۔
٢) اس نمائندگی (Representation)کی بنیادپرقانون سازی (Legislation)کافریضہ انجام دیں۔ ٣)ہرسٹیزن(Citizen)کی پراپرٹی (جان ،آراء اورمال جوسب بڑھوتری سرمایہ کی جدوجہدکے لئے وقف کردیئے گئے ہوں)کومقدس جانیں۔
سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے قیام کامقصدایک ایسی معاشرتی اورریاستی تنظیم سازی (Institutionalization)ہے جس کے نتیجے میںآزادی (سرمایہ)کے فروغ کی لامتناہی جدوجہدجاری اورساری رہے اس جدوجہدکوجاری رکھنے کا کوئی عقلی یااخلاقی جوازبیان نہیںکیاگیا(اس نوعیت کاجوازنہ اسمتھ نے پیش کیانہ ہیوم (Hume)نے نہ کانٹ(Kant) نے روسو(Rousseau)نے نہ کسی اورسرمایہ دارانہ فلسفی نے)۔بڑھوتری سرمایہ (آزادی )مقصداعلیٰ اوراپناجوازخود (End in it self)ہے ۔یہ لا الہٰ الاانسان کے کلمہ خبیثہ کی عملی تشریح ہے بقول کانٹ ہرہیومن بینگ کو اس بات پرایمان لانالازم ہے کہ”فردکاوجودخوداپناجوازہے””Every man is an end in himself”وہ کسی اورمقصدکے حصول کاذریعہ نہیں۔
عقل (Reason)اورقانون دونوں تسخیرکائنات اورخواہشات نفسانی کے فروغ کے حصول کاراستہ بتانے والے ذرائع ہیںفردعقل اورقانون کی ماتحتی قبول کرکے اپنی خواہشات نفسانی کے حصول اورفروغ کی جدوجہد تمام دیگرہیومن بینگ کی ایسی ہی جدوجہدسے ہم آہنگ اس طرح کرتاہے کہ مجموعی آزادی کی شکل (GDP)میںمستقل بڑھتی رہے ۔ انفرادی خودغرضیوں کے لامتناہی جدوجہدکے ذریعے ہی پروگریس (GNPمیں مسلسل اضافہ )ممکن ہوتی ہے بقول اسمتھ عیسائی قرون وسطیٰ کی تہذیت اورمعاشرت کوجس چیزنے تسخیرکیاوہ سرمایہ دارانہ تجارت تھی ایسی تجارت جس کا مقصدضروریات کوپوراکرنانہیںبلکہ سرمائے کی بڑھوتری کی رفتار(Accumulation)میںمستقل اضافہ ہواسمتھ کے مطابق عیسائیت کونشاط ثانیہ (Renaissance) کے اورتحریک تنویر نے شکست نہیں دی،عیسائیت کوشکست سرمایہ دارانہ تجارت کے عالمی فروغ نے دی اسی تجارت کی توسیع کے نتیجے میںحرص وحسدایک وباء کی طرح پورے (عیسائی )معاشرے میںپھیلااورہرشخص خداکانہیںبلکہ اپنے نفس کابندہ بن گیااسمتھ لکھتاہے ”عیسائیت پرفتح پانے والے دوگروہ تھے ایک امراء اورنوابین اوردوسرے سہوکاراورتجاریہ دونوں طبقے ہی اس بات کے ذمہ دارتھے کہ پورے عیسائی معاشرے میںخودغرضیوں(Self interest)کی جدوجہدکو عمومی مقصدیت بنا دیں ”یہ طبقے اتنے کامیاب تھے کہ چرچ تک خودغرضی کی اثیرعقلیت کاجوازپیش کرنے لگا(بارہویں صدی تک چرچ سودکے کاروبار کو حرام قراردیتاتھااس کے بعدکیتھولک چرچ نے اسی طرح سودکے متبادل تلاش کرنے شروع کردئیے جیسے آج کے اسلامی بینکارکررہے ہیںپروٹیسٹنٹ(Protestant)عیسائیت کے بیشتردھڑوںبالخصوص (Calvinism)نے سودکی حرمت سے قطعی انکارکردیا۔)اسمتھ اس بات کابھی اقرارکرتاہے کہ امریکہ کے قتل عام اورلوٹ ماراوراستعماری تجارت کے فروغ نے یورپی عیسائی معاشرے کو بربادکرنے میںایک اہم کرداراداکیا(اسمتھ کے مطابق امریکہ کی فتح تاریخ انسانی کا سب سے اہم واقعہ ہے)۔
اسمتھ کو اس بات کابھی احساس ہے کہ حرص وحسد معاشرتی سطح پرخودبخودپروان نہیںچڑھتیںان اوصاف رذیلہ کے فروغ کے لئے استعماری لوٹ مارکے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام)وہ نظام تعلیم جس کامقصدافراد کوسرمایہ کی بڑھوتری کاذریعہ بناناہے،سرمایہ دارانہ تعلیم سے ہیومن بینگ Human capitalبن جاتاہے )کے لئے بھی جدوجہدکرنی چاہئے ریاست کومفت پرائمری تعلیم فراہم کرناچاہئے۔ریاست کواس بات کابھی اہتمام کرناچاہئے کہ مذہبی انتشارفروغ پائے اسمتھ کہتاہے برطانیہ میںعیسائیت کوتین ہزارایسے چھوٹے چھوٹے فرقوںمیںتقسیم کردیناچاہئے جوملکی وحدت کوپارہ پارہ کردیںاورہرفرقے کی پوری توجہ ملکی معاملات سے ہٹ کراپنے نظریاتی تشخص کی دفاع اورفروغ پرمخصوص ہوریاست کوان تمام فرقوںکے درمیان ایک غیرجانبدارناظر(Impartial spectator)کاکرداراداکرناچاہئے اورفرقہ وارانہ بحثوںکوفروغ دیتے ہوئے کسی کوبھی حاکمیت قانون سرمایہ (Rule of law of capital)سے حکم عدولی کی اجازت نہیںدینی چاہئے یہ اسمتھ کاتصورسیکولرزم (Secularism)ہے ۔
ریاست کوسائنس اورآرٹس (بالخصوص تھیٹرTheatreاورناچ (Danceکے ہرطریقے کی حوصلہ افزائی کرناچاہئے کیونکہ سائنس اورآرٹس دونوں شہوت رانی کے جذبات کوفروغ دیتی ہیںاورخودغرضیوںکی جدوجہدکومہمیزفراہم کرتی ہیں۔
اسمتھ اس بات سے امید رکھتاہے کہ وہ ریاست جوآزاد معیشت کوفروغ دے سرمایہ دارانہ تعلیم (بشمول آرٹس ،سائنس اورسرمایہ دارانہ ثقافت )کوعام کرے اورفرقہ واریت کوبرداشت کرے (یعنی سیکولرہو)سرمایہ دارانہ عالمگیری عمومیت کی آلہ کاربن سکتی اوراس کے اقتدارکے استحکام کے نتیجے میںہرانسان ہیومن بینگ بن سکتاہے اورغیرجانبدارناظر(Impartial spactator)کے فرمودات کاعقل کو تقاضے کے طورپرقبول کرکے قانون سرمایہ کی حاکمیت (Rule of the law of capital)کی اطاعت پرراضی کیاجاسکتاہے لیکن اسمتھ کے پیروریکارڈوکویہ احساس تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی تقسیم دولت (Distribution of welth)اس راہ میںحائل ہوسکتی ہیںاورسرمایہ دارانہ معاشرت طبقاتی کشمکش کاشکارہوسکتاہے۔ریکارڈونے اپنی پوری توجہ اس ہی مسئلہ پرمرکوزکی ۔
سرمایہ دارانہ نظام میںتقسیم دولت:
ریکارڈوسرمایہ دارانہ معاشرہ کو مختلف طبقات (Class)میںتقسیم ہوامتصورکرتاہے ہرطبقہ ایک مخصوص معاشی فریضہ (Function)انجام دیتاہے اوراس کے طبقاتی مفادات (Class interests)جداگانہ ہوتے ہیں، طبقاتی تعلقات طبقاتی مفادات کی پیہم جدوجہدمیںاستوارہوتے ہیں ریکارڈوانہی تعلقات کوسرمایہ دارانہ معاشرت سے تعبیرکرتاہے اورسرمایہ دارانہ معیشت (یعنی مارکیٹ) وہ محوراورمرکزہے جوسرمایہ دارانہ معاشرتی تغیرکے عمل کومنظم کرتی ہے معاشرے کی بنیاد(Foundation)معیشت ہے اخلاقیات ،سیاسیات اورمذاہب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں(اس نظریے کی جامع تشریح ریکارڈوکے پیرومارکس(Marx)نے پیش کی اس نے معیشت کومعاشرے کاBaseاورمذہب اورسیاسی نظام کو اس کا Super structureقراردیا)۔
طبقات کے باہمی تعلقات کا سوال ریکارڈونے جس دورمیںاٹھایااس دورمیںانگلستان نپولین(Napoleon)سے لڑی جانے والی جنگوںکے اثرات برداشت کررہاتھا ان جنگوں کے نتیجے میںاجناس (Grain) کی قیمتوںمیںبہت اضافہ ہوااورزمین کی اجرتیںبھی تیزی سے بڑھنے لگیں اس کے برعکس صنعت کاروںکے منافع(Profit)اوراجرتیں نسبتاًکم ہوئیںاورملکی معیشت کساد بازاری (Reccesion)کاشکارہوگئی ۔عوامبھوکوںمرنے لگے اوراس بات کاخطرہ پیداہواکہ وہ دولت مندطبقوںکے خلاف بغاوت نہ کردیںحکمرانوںکواحساس ہواکہ ریاستی معاشی حکمت عملی کو اس متوقع بغاوت کوٹالنے کے لئے موثرطورپراستعمال کیاجاناچاہئے ۔
ریکارڈوانگلستان کے اہم ترین سٹے بازوں میںشامل تھا اوراس کے نظریاتی کام کابنیادی محرک سرمایہ دارانہ نظام کاتحفظ تھا ریکارڈوکے خیال میںاسمتھ (اوراس کے قبل کے Political economists)جس سوال کاجواب نہ دے سکے وہ یہ تھا کہ ”وہ کون سے فطری قوانین ہیںجوGNPکواجرت،منافع اورکرایے میںمنقسم کرتے ہیں)ریکارڈونے اس سوال کاجواب دینے کی کوشش کی اورایسی ریاستی حکمت عملی تجویزکی جوان فطری اصولوں پرمبنی ہواوران سے مستفید ہوکر سرمایہ دارانہ نظام زندگی کوفروغ دے سکے۔
ریکارڈونے لاک اوراسمتھ کی وضع کردہ labour theory of value کی توسیع کی ریکارڈو کے مطابق کسی شے کی قدراس کی پیداوار کی دورانیہ محنت (Labour time)سے متعین ہوتی ہے (مثلاًایک میز بنانے میںایک مزدوردس گھنٹے صرف کرتاہے اورایک کرسی بنانے میںوہ پانچ گھنٹے صرف کرتاہے تودوکرسیوںکی قدر(Value)ایک میز کے برابرہوناچاہئے )شئے کی قدرکاکوئی تعلق اس اجرت ،منافع اورکرائے سے نہیں جواس کے نتیجے میںاداکی جائے گی بلکہ اجرت ،کرایہ اورمنافع شئے کی قدرکے مختلف حصے ہیں۔
قدرکے حصوں کا تعین جن ”اصولوں”کی بنیادپرہوتا ہے ان کے بارے میںریکارڈونے دونظریات پیش کئے ایک نظریہ اجرت اورایک نظریہ کرایہ ۔منافع کووہ صرف قدرکاوہ حصہ گردانتاہے جواجرت یاکرایہ کی مد میںنہ صرف کیاجائے یعنی
منافع=قدر-(اجرت+کرایہ)………………(١)
لہٰذامنافع کاتعین علیحدہ ”قانون فطرت ”کی بنیادپرنہیںہوتا ۔نظریہ کرایہ ،یہ ہے کہ بنجرزمین کاکوئی کرایہ نہیںاورجیسے جیسے قطعات اراضی کی زرخیزی بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے ان کاکرایہ بڑھتاجاتاہے اورسب سے زیادہ کرایہ سب سے زیادہ زرخیرقطعہ اراضی کوملتاہے جتنازیادہ فرق بنجراورزرخیزترین اراضی کی زرخیزی (Productivity)میںہوگاکرایہ اتنازیادہ ہوگا۔
ریکارڈوکے مطابق اجرت کاتعین محنت کشوں(Labour)کی رسد(Supply)اورطلب (Demand)پرمنحصرہے جب مارکیٹ میںلیبرکی تعداد(Supply)بڑھے گی ان کی مانگ کے مقابلے میںتواجرتیںگریںگی اصولاًاجرت اس سطح کے اردگردمتعین ہوگی جومزدوروںکو زندہ رہنے کے لئے ناگریزہے۔اس نظرئے کوsubsistence theory of wagesکہتے ہیںاورsubsistenceکی یہ سطح جس کے نتیجے میںاگراجرتیںگریںتومزدورطبقہ منتشرہوجائے گا مزدوروںکی عادات اورروایات (habits and customs)پرمنحصرہیں۔
ریکارڈوکہتاہے کہ اگرقانون سازی کے ذریعے اجرتوںکوsubsistenceکی سطح سے اونچاکیاگیاتو
١) لیبراس آمدنی کو اپنی آبادی بڑھانے پرخرچ کریںگے ۔
٢) چونکہ امیروںکا اجرتوںپرخرچ کیاجانے والے خرچے کا فنڈ Wage fund محدودہے لہٰذاوہ کم مزدوروںکو ملازمت دیںگے ۔ریکارڈوکاپیغام یہ ہے کہ اجرتوںکوsubsistenceپرہی رہناچاہئے اورریاست کوکوئی ایسے اقدام نہ کرنے چاہئیںکہ اجرتیںاس فطری subsistenceسطح سے بلندہوںکیونکہ ایسے اقدامات مزدورطبقے کے حقیقی مفادات کے منافی ہیںان اقدامات کے نتیجے میںیاتومزدوروںکی آبادی بڑھے گی(ان کی سطح زندگی نہیں)یاوہ بے روزگارہوجائیںگے۔
مکرکی چالوںسے بازی لے گیاسرمایہ دار
انتہائی سادگی سے کھاگیامزدورمات
(میری رائے میںمزدورنے اتناہی سادگی سے مات نہیںکھائی بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کامزدورخودسرمایہ داربن گیاہے حرص ہوس کابندہ بن کراپنامفاداسی میںسمجھنے لگا ہے کہ مجموعی رفتاربڑھوتری سرمایہ (GNP)میںاضافہ اس کے مفاد میں ہے، اس بات کی تفصیل سوشل ڈیموکریسی کی بحث میںبیان کی جائے گی )جیساکہ پہلے عرض کیاگیاہے منافع وہ قدر ہے جو اجرت اورکرایہ کومنہاحاصل ہوتا ہے یادرہے ۔
٠ شئے کی قدراس کی دورانیہ محنت (Labour time)سے متعین ہوتی ہے ۔
٠ یہ دورانیہ محنت سب سے زیادہ بنجرزمین (Marginal land)پرہوتاہے ۔زرخیزاراضی (Non marginal land)پرشے بنانے میںکم دورانیہ محنت صرف ہوتاہے ۔ ٠ لہٰذاشئے کی قدر اس دورانیہ محنت سے متعین ہوتی ہے جوبنجرزمین پرصرف کی جاتی ہے ۔
٠ اورکرایہ (Rent)بنجرزمین پرخرچ کی جانے والے اوقات محنت اورزرخیرزمینوںپرمحنت کافرق ہے ۔
کرایہ=بنجرزمین کی اوقات محنت-زرخیززمینوں کی اوقات محنت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(٢)
محنت کشوں(Labour)کو جو اجرت دی جاتی ہے وہ قدرکاایک حصہ ہوتی ہے وہ حصہ جومحنت کشوںکو زندہ رکھنے subsistence levelکے لئے کافی ہے لہٰذامنافع کاتعین ایسے ہوتاہے ۔
منافع=قدر-لیبرکوSubsistence levelپرزندہ رکھنے کاخرچہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(٣)
اس subsistence سطح پرمتعین کی گئی اجرت کوریکارڈو”محنت کی فطری قیمتNatural price of labourکہتاہے ۔ریکارڈوکے مطابق مجموعی قومی آمدنی GNPکی مقدارمتعین (Fixed)ہے اوراس کاتعین محنت کاروں کی پیداواری استطاعت (Productivity) سے ہوتا ہے۔ یہ متعین مجموعی پیداوارتین طبقوں محنت کشوں، زمین داروں،صنعت کاروںاورساہوکاروںمیںاجرت کرایہ اورمنافع کی شکل میںتقسیم کی جاتی ہے اورگوکہ اجرت اورکرایہ کاتعین قوانین فطرت WagefundاورLand diffrential productivities کی بنیاد پرہوتا ہے،لیکن ان کاتعین جس طرح عمل میںآتاہے وہ عمل مربوط ہے ۔
ریکارڈوکے خیال میںسرمایہ دارانہ نظام فطرتاًروبہ زوال اورانہدام (Stagnation)کی طرف مائل ہے جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے کسان بنجر سے بنجرزمین کاشت کرنے پرمجبورہیںاورWage fundمیں(انفرادی اجرتوں میںنہیں)اضافہ ناگزیرہوتاجارہاہے لہٰذامجموعی آمدنی میںمنافع کاحصہ کم اوراجرتوں اورکرایے کاحصہ بڑھتاچلاجارہاہے ریاست کوان رجحانان کوختم کرنے کے لئے پالیسی سازی کرنی چاہئے ریکارڈونے چار پالیسی تجاویز پیش کیںاوران سب کو(کچھ ترمیم کے ساتھ )پہلے انگلستان اوربعد میںبیشترسرمایہ دارانہ ممالک میںاپنالیاگیا۔
١۔ بین الاقوامی تجارت کافروغ اورمحصولات (Import texes)میںبدرجہ تخفیف ۔اس کے نتیجے میںریکارڈوکہتاہے کہ اناج کی قیمتوںمیںکمی ہوگی subsistenceاجرت میںکمی ہوگی اورزمین کاکرایہ بھی کم ہوگا۔
٢۔ ایسے اقدامات کاخاتمہ جن کے نتیجے میںاجرتوںمیںاضافہ ہومثلاًریکارڈوکے دورمیںانگلستان میںایسے قوانین موجودتھے (انہیںPoor lawsکہتے تھے اورریکارڈونے ان کی تنسیخ کی بھرپورکوشش کی )جن کی بنیاد پر غریبوںاوربے روزگاروں کو آمدنی اوررہائش فراہم کی جاتی تھی۔
٣۔ ایسے ٹیکسوں(Taxes)کانفاذجوزمینداروںکی آمدنی پرہواورجومجموعی قومی آمدنی میںکرایہ کاتناسب کم اورمنافع کاتناسب زیادہ کردیں۔
٤۔ سرمایہ دارانہ زرکی تشکیل
سرمایہ دارانہ زرکی تشکیل:
اپنی سٹے بازی کے عروج کے دورمیںریکارڈونے بینک آف انگلینڈ کے منتظمین سے قریبی تعلقات استوار کئے اپنے دورمیںریکارڈو بینک آف انگلینڈ کے تمسکات Bondsکاسب سے بڑابیوپاری تھا۔نیپولیونک (Napolonic)جنگوںمیںاگلستان کاسرکاری قرضہ بے تحاشہ بڑھ گیا اورریکارڈو نے جنگی تمسکات(War bonds)کے لین دین سے بھرپورفائدہ اٹھایا۔
سرمایہ دارانہ زرکی تشکیل کے بارے میںریکارڈونے جوتجویزدی اس کووہ اپناسب سے بڑافکری کارنامہ قراردیتاتھا۔انیسویںصدی میںبیشترسرمایہ دارانہ ممالک میںملکی کرنسی(currency)سونے یاچاندی کے متبادل ہوتی تھی اورعموماًسکے کی قیمت اس سونے یاچاندی کے وزن کے مطابق کی جاتی تھی جوایک سکے میںشامل کیاجاتاتھا۔تھا۔نیپولیونک (Napolonic)جنگوںکے نتیجے میںسونے اورچاندی کی قیمت یورپی بازاروں میںتیزی سے بڑھنے لگی اوربرطانوی کرنسی میں شرح تبدل گرنے لگااس زمانے میںبینک آف انگلینڈ نے ایسی کاغذی کرنسی (paper currency)کااجراء کیاتھا جوسرمایہ دارانہ زرکی ابتدائی شکل تھی کیونکہ ان بینک آف انگلینڈ کے نوٹوں کوملک کے اندرسونایاچاندی میںکسی مقررہ شرح میںتبدیل (convert)کرنے کی ذمہ داری بینک آف انگلینڈ نے قبول نہیںکی تھی بین الاقوامی تجارت اورسرمایہ کاری کے لئے یہ نوٹ استعمال نہیںکئے جاتے تھے کیونکہ انگلستان کی معیشت کادارومداربین الاقوامی تجارت پربہت زیادہ تھالہٰذاجب سونے کی قیمت بڑھتی تھی توبین الاقوامی مارکیٹ میں انگلستان کی اس کرنسی کی قدرمیںکمی واقع ہوتی تھی جوان بازاروںمیں استعمال ہوتی تھی (بینک آف انگلینڈ کے جاری کردہ نوٹ نہیں) اس سے ظاہرہوتاتھاکہ ضرورت سے زیادہ بینک آف انگلینڈ کے کاغذی نوٹ جاری کردیئے گئے ہیںاورتورم (Inflation)کاخطرہ پیداہوگیاہے ریکارڈو نے ثابت کرنے کی کو شش کی کہ کاغذی نوٹوں کی اجارہ کی حد متعین کی جاسکتی ہے ۔
ریکارڈونے ثابت کیاسرمایہ دارانہ زر( وہ زرجس کے اجراء کابنیاد مقصدبڑھوتری سرمایہ کااصول ہو)کی کوئی ذاتی قدر(Intrinsic value)نہیںہوتی اوراس کے اجراء اوررسد کواس طرح ترتیب (manage)کیاجاسکتی ہے کہ افراط زر(Inflation)یامعاشی کساد بازاری (Depression)رونمانہ ہو۔ریکارڈونے اس بات کی وکالت کی کہ بینک آف انگلینڈکوسرمایہ دارانہ زر(غیرمتبدل کاغذی نوٹ Non convertable currency)چھاپنے کی اجازت دی جائے اورکسی دوسرے بینک یاحکومت کوخودیہ اختیارنہ دیاجائے ۔اس طرح بینک آف انگلینڈ کی کے ضمن میںاجارہ داری (Monopoly)قائم ہوجائے گی اوروہ بغیرکسی خرچے (cost)برداشت کئے کاغذی زرکااجراء کرسکے گا اس کاغذی کرنسی کے اجراء کے حدکاتعین اس بات پرمنحصرہوگاکہ بین الاقوامی مارکیٹ میںبرطانوی کی کرنسی کی شرح مستحکم رہے (یہ شرح یانرخ سونے میںطے کیاجاتاتھا لہٰذاپیپرکرنسی کی قدرکابلاواسطہ تعلق سونے کی قیمت سے برقرارہوگا۔آج کل سرمایہ دارانہ زرپورے طورپربینکوں کے قبضے میںآگیاہے ڈالر،پائونڈ ،بورد وغیرہ کی کوئی متبادل قیمت نہیںسب Inconvertableہیں۔بینکاری نظام اپنے منافع کوMaximiseکرنے کے لئے جتنی مقدارمیںچاہتاہے سرمایہ دارانہمرکزی بنککے تعاون سے جاری اورمنہاکرتاہے )ریکارڈوکی تجاویز کوبینک آف انگلینڈ اوربرطانوی پارلیمنٹ نے ١٨١٧ئ میںمنظورکرلیا۔
اسمتھ اورریکارڈونے اقتصادیات کوایک سائنس(science)بنانے میںایک کلیدی کرداراداکیااس سائنس کواکنامکس(Economics)کہتے ہیں۔اکنامکس کاعلمیاتی منہج (methodology)کانٹ کی تصوریت (Idealism)اورہیوم کی تجربیت (Enpiricism)کاامتزاج اوراسمتھ ہے اورریکارڈوکی تصانیف نے اس منہج کوسرمایہ دارانہ انفرادی اوراجتماعی حکمت عملی (policy)کی اثاثی بنیاد(foundation)بناکردکھایا۔انیسویںصدی کے بعد سے دیگرسوشل سائنسس ,Sociology,Psychology,Political science, Anthropologyوغیرہ)اسی علمیاتی منہج کواپنائے ہوئے ہیںیہ سرمایہ دارانہ انفرادیت ،معاشرت اورریاستی غلبے اورتحفظ کے لئے راہ ہموارکرتی ہے ۔

فریڈمین ہائیک اور نازک
١٨٨٠ء سے لیکر ١٩٣٠ء کی دہائی کے وسط تک نیو کلاسکی فکر غالب رہی اور برطانیہ اور امریکہ میں پا لیسی سازی عموماً اس ہی مکتب فکر کی تعلیمات کے مطابق ہوتی رہی(یہ بات جرمنی ،جاپان اورروس کے بارے میںنہیںکہی جاسکتی ان تینوںممالک میںقوم پرست سرمایہ دارانہ پالیسیاںاختیارکی گئیںاورامریکہ میںبھی کسی حد تک قوم پرستانہ فکرکی بنیادپرپالیسی سازی کی جاتی رہی ۔١٩١٧ء میںروس میں سرمایہ دارانہ اشتراکی انقلاب برپاہوگیا۔)۔١٩٢٩ء کی عظیم کساد بازاری (Great Depression)نے نیو کلاسیکی فکر کو بڑا دھچکا لگایا۔ بیشترسٹے کے بازارشدیدبحران کاشکارہوگئے اوریورپ اورامریکہ میںکروڑوںلوگ بے روزگارہوگئے ۔روزویلٹ (Franklin Rozevelt)کے امریکہ کے صدربننے کے بعدقومی پالیسی سازی کینز کی فکرپرمرتب ہونے لگی ١٩٣٧ء سے ١٩٧٩ء کادورKeynesianفکرکے غلبے کادورہے ۔Keynesian فکرسوشل ڈیموکریٹ (Social Democrat )پالیسی سازی کی بنیادفراہم کرتی ہے۔
١٩٧٠ء کی دہائی میںنیوکلاسیکل فکر کااحیاء عمل میںآیااورپہلے تھیچر(Thatcher)نے برطانیہ میں اورپھرریگن(Reagan)نے امریکہ میں نیوکلاسیکل نظریات کی بنیادپرپالیسی سازی مرتب کرناشروع کی ۔اس کے بعدجرمنی اورفرانس اوراٹلی کی سوشل ڈیموکریٹ(social democratic)حکومت تک نے نیوکلاسیکل فکرکوہی اپنی پالیسی سازی کی بنیادبنالیااوراقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ آئی ایم ایف ڈبلیوٹی او(جس کوپہلے GATTکہتے تھے )،ورلڈبینک ،اسلامی ڈیویلپمنٹ بینک وغیرہ، نیوکلاسیکی پالیسیوںکوپوری دنیاپرمسلط کرنے لگے اس دورمیںکئی مالیاتی بحران آئے اورسب سے شدیدبحران ٢٠٠٧ء میںامریکہ میںآیاجس نے بہت سے بینکوںاورکئی یورپی ممالک کودیوالیہ کرکے رکھ دیا(مثلاًیونان،آئرلینڈ،پرتگال،ہنگری اور اسپین وغیرہ )اورحکومتوںکوکھربوںڈالربینکوںکوبچانے (Bail out)کے لئے خرچ کرناپڑے لیکن ان بحرانوںکے باوجودنیوکلاسیکل فکرکاکوئی متبادل نظریاتیparadigmeقائم نہ ہوسکااورآج بھی دنیابھرمیںپالیسی سازی نیوکلاسیکل بنیادپرہوتی ہے (یہ استثناء چین اورچھوٹے لاطینی افریقی ممالک)۔نیوکلاسیکی احیائی فکرمیںجن تین اہم مفکرین نام آتے ہیںوہ ہائیک(Hayek)،فریڈمین(Fried man)اورنازک(Nozick) ہیں ۔تھیچر (Thatcher) اورریگن(Reagan)دونوں Hayek کے مریدہونے کااقرارکرتے تھے )،فریڈمین اکنامسٹ،اورنازک پولیٹیکل سائینٹسٹ (Political scientist)ہے۔
ریاستی سرمایہ کاری کی تنقید:
کینزینز(Keynesians)کی رائے میںبے روزگاری کوختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت ان شعبوںمیں سرکاری سرمایہ کاری(public investment) کرے جہاںشرح منافع نجی سرمایہ کاری کوکھینچ کرلانے کے لئے ناکافی ہے ۔Hayekکی رائے میںسرکاری سرمایہ کاری آزاد معیشت کوتباہ کردیتی ہے اورایک سوشل ڈیموکریٹ اورایک سوشلسٹ معیشت میں انفرادی آزادی برقرار نہیںرہ سکتی ۔ہائیک ،Mengerاور Boh Baverck کا پیرو تھا اوراس نے ١٩٣٠ء کی دہائی سے کینزن افکارکی تنقید شروع کردی تھی (لیکن ہائیک کے خیالات کی سیاسی پذیرائی ١٩٨٠ء کی دہائی میںنصیب ہوئی )ہائیک کہتاہے کہ ایک آزادمعیشت میںاستحکام اورترقی خودبخود(automaticaly)رونماہوتی ہے اورحکومت کی معیشت پراثراندازی اورمارکیٹ کوregulateکرنے کی تمام کوششیںلازماًناکام ہوتی ہیںمعیشت کے استحکام اورترقی کی راہ میںایک بڑی رکاوٹ مزدورسوداکارانجمنوں(Trade unions)کاکردارہے سوشل ڈیموکریٹ حکومتیںان Trade unionکی اعانت سے ہی قائم ہوتی ہیںاورلیبرمارکیٹ میںیہ ٹریڈیونینوںکوقانونی حمایت اوردیگرمراعات فراہم کرتی ہیں۔یونینیںہڑتالوںکی دھمکی دے کر اپنی سوداکاری کے نتیجے میںاجرت کواس کے متوازن سطح سے بہت بلندکردیتی ہیںآجریہ اجرتی بوجھ برداشت نہیںکرسکتے اوربے روزگاری میںاضافے کی بنیادی وجہ یہی ہے لہٰذاہائیک کی رائے میں یونینوںکے حقوق کوتوسیع کرنے کے لئے سوشل ڈیموکریٹ حکومت جوقانون سازی کرتی ہے وہ سرمایہ دارانہ معیشت کے استحکام اورترقی کی راہ میںبڑی رکاوٹ ہے حکومتوں کویونین کی سوداکاری کی قوت کومنہدم کردیناچاہئےThatcherاورReaganنے ہائیک کی تجویزپرپوری تندہی سے عمل کیا۔لیکن ہائیک نیوکلاسیکی اکنامسٹ کے تصورتوازن (Equilibrium)کوردکرتاہے ۔مارکیٹ کبھی قرار(Static)کی حالت میںنہیںرہتاتوازنEquilibrumہمیشہ بگڑتارہتاہے اورمسابقت (Competition)ایسے نتائج پیداکرتی رہتی ہے جوتوقعات سے مختلف ہوتے ہیں ۔مارکیٹ توازن نہیںبلکہ نظم Order پیداکرتاہے اوریہ نظام ان معنوںمیںبہترین (Optimal)ہوتاہے کہ یہ آزادی (Liberties) زیادہ سے زیادہ Maximise کرتاہے ،ہائیک کے مطابق مارکیٹ جوناہمواری پیداکرتی ہے وہ سرمایہ دارانہ عدل قائم نہیںکرتی یعنی عوامل پیداوار(Fector of production)کوان کی marginal productivityکے مطابق معاوضے نہیںدیئے جاتے ۔ہائیک کہتاہے کہ مارکیٹ میںتقسیم وسائل عادلانہ نہیںہوسکتی کیونکہ کوئی فردیاادارہ تقسیم نہیںکرتابلکہ یہ تقسیم خودبخود(spontaneously)لین دین کے عمل کے نتیجے میںمستقل تبدیلی کے عمل سے گزرتی رہتی ہے ۔ہائیک سرمایہ دارانہ عدل کے نیوکلاسیکل تصورکرردنہیںکرتانہ اس کے علاوہ کوئی دوسراتصورعدل پیش کرتاہے اس کاخیال ہے کہ سرمایہ دارانہ عدل کا نیوکلاسیکی تصوردرست ہے لیکن ناقابل حصول ہے یہ رویہ کے سرمایہ دارانہ تصور،عقائداورنظریات کودرست بھی اورناقابل حصول بھی بیک وقت تسلیم کیاجائے گاPost modernismکہلاتاہے اورہم آئندہ ابواب میںکئی Post modernestسرمایہ دارانہ نقیبوںکی فکرکاتجزیہ پیش کریںگے کچھ لوگوںنے ہائیک کی فکرکی Post modernistتشریح پیش کی ہے ۔
ہائیک کی فکرکی ایک بنیادی کمزوری یہ ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظم کی کارفرمائی (operation) میں سرمایہ دارانہ زرجوکرداراداکرتاہے اس کے بارے میں میںمبہم اورمتضاد(Contradictory)آراء اپنی تحریروں میںپیش کرتاہے سرمایہ دارانہ نظام میںسرمایہ دارنہ زرہی تقابل قدرExchange value))کے ناپنے کاپیمانہ ہے اورسرمایہ دارانہ زراپنی مارکیٹوں(Money market and capital market)کے ذریعے ہی سرمایہ دارانہ نظام زندگی پرحکومت کرتاہے ۔سرمایہ دارانہ زرکے کرداراورحیثیت کوسمجھے بغیرسرمایہ دارانہ نظم (Order)کی تفہیم کی جاچکی ہے اس کی تفصیل فریڈمینFreidmanکی فکرکے تجزئے میںاس ہی باب میںبیان کی گئی ہے ۔
ہائیک کے مطابق لچک داراجرتی نظام(Flexible wage system)کاوجودہی بے روزگاری کوختم کرنے کے لئے ضروری ہے لیکن وہ اوراس کے پیرواس بات کوتسلیم کرتے ہیںکہ سرمایہ دارانہ نظام میںایک فطری سطح بے روزگاری(National rate of unemployment)ہوتی ہے ۔اجرتوںکی متوازن سطح Equlibrium wage levelوہ ہے جواجرت کولیبرکی اختتامی پیداواری صلاحیت(Marginal productivity)کے برابرکردے جیسے جیسے سرمایہ دارانہ معیشت ترقی کرتی ہے مشینری(Physical capital)لیبرکوپیداواری عمل سے بے دخل کرتی چلی جاتی ہے مثلاًکمپیوٹرکے عام استعمال سے ہزاروںلاکھوںکلرک اورسیکرٹری وغیرہ بے روزگارہوتے ہیںاورایسے افراد جن کی کمپیوٹراستعمال کرنے کی صلاحیت مارکیٹ ضروریات کے برابرہوامریکہ اوریورپ کے ممالک تک میںنہایت محدودہے لہذاہرسال بے روزگاری کی شرح میںاضافے کی توقع سرمایہ دارانہ پیداواری اورکاروباری عمل کی خودکاری (automation)اور technicalisasion کی وجہ سے بڑھتی جاتی ہے اوراس معاشی عمل کی technicalisasionکے نتیجے میںبڑھنے والی بے روزگاری کوnatural rate of employmentکہاجاتاہے ۔
ہائیک اس بات کابھی اقرارکرتاہے کہ جیسے جیسے ٹیکنیکل پروگریس) (Technal progress وقوع پذیرہوگی ویسے ویسے آمدنی اجرت کی تقسیمی نامساویت asset and income distributional inequalitiesمیںاضافہ ہوگا۔منیجرز،حصص کنندگان اورساہوکاروںکی آمدنی اوردولت میںہوشربااضافہ ہوگااورعوام مقابلتاًمحروم ہوتے چلے جائیںگے جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام ترقی کرتاہے تقابلی افلاس (realitive poverty)میںاضافہ ہوتاچلاجاتاہے گوکہ حقیقی افلاس (absolute poverty)کم ہوتی چلی جاتی ہے مثلاً١٩٧٠ء کے بعدسے اب تک ایک عام امریکی کامعیارزندگی مستقل بڑھ رہاہے ۔اس بات کے باوجود کہ امریکہ میںاوسط آمدنی (median income)اپنی قوت خرید(Perchasing power)کے لحاظ سے ١٩٧٠ء سے لے کر٢٠١٣ ء تک منجمدرہی ہے اورStandard of livingمیںاضافہ آمدنی کے ذریعے نہیںبلکہ بینکوںسے قرضہ لے کرممکن ہوسکاآمدنی (قوت خرید کے لحاظ سے )منجمدہے لیکن اخراجات کے مستقل اضافے کے نتیجہ میںامریکہ میں ٢٠٠٧ء میں بینکاری کاجوبحران رونما ہوااس پرابھی تک پوری طورپرقابونہ پایاجاسکا۔ایک عام امریکی کے اخراجات میںمستقل اضافہ اس وجہ سے ہورہاہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس کی حرص وحسدکومستقل بڑھاتاہے سرمایہ دارانہ نظام کی یہ خصوصیت ہے کہ خواہشات ہمیشہ وسائل سے زیادہ تیز رفتاری سے بڑھتی ہیںہرہیومن بینگ اپنی آزادی (تعیشات )میںاضافے کاہمیشہ خواہش مندرہتاہے اس کی آمدنی اوردولت کتنی بھی بڑھ جائے وہ کبھی بھی مطمئن نہیںہوتا٢٠٠٩ ء سے امریکہ میں”Occupy wall street” کی جوتحریک جاری ہے وہ اس بات کی غمازہے کہ نامساویانہ تقسیم دولت اورآمدنی نے اس ایک فیصد(One percent)آبادی کے خلاف جس کے پاس قومی دولت کابڑاحصہ ہے عوام نفرت وحسدکوابھاراعوام بھوکوںنہیںمررہے عوام کی سطح زندگی Standard of livingمیںمستقل اضافہ ہورہاہے لیکن ایک فیصداشرافیہ کے طرزبودوباش عوام کی نظروںمیںبھی ہے (میڈیااورصنعت اشتہارات Advertisingکی وجہ سے )اوران کی دسترس سے باہربھی ہوتاچلاجارہاہے دولت اورآمدنی کی مساویانہ تقسیم میںمستقل اضافہ عوام میںبے چینی ،دہشت گردی اورعدم تحفظ کااحساس پیداکررہی ہے ہائیک کواس با ت کااحساس ہے کہ بڑھتی ہوئی تقسیمی ناہمواریاں(distributional inequlities)سرمایہ دارانہ پروگریسProgressکے لئے ناگزیربھی ہیںاورپرخطربھی ۔لیکن اس خطرے کوٹالنے کے لئے سرمایہ دارانہ ریاست کے سوشل امدادی پروگرام کوئی منضبط کردارادانہیںکرسکے سرمایہ دارانہ ریاست کوتقسیم دولت اورآمدنی کے عمل میںمداخلت نہیںکرنی چاہئے اس رائے کی سب سے واضح (rigorous)تشریح ہائیک کے امریکی شاگردبالخصوص LucasاورSargentنے١٩٨٠ ء کی دہائی میںپیش کی اس مکتب فکرکوNew classical school(جدیدکلاسیکل مکتب فکر)کہاجاتاہے ۔
ان جدیدکلاسیکل اکنامسٹ (New classical economist)نے ١٩٧٠ء میںرونماہونے والے تورم (Inflation) کاذمہ دارسرمایہ دارانہ حکومتوںکی ان میکرواکنامک(Macro economic)پالیسیوںکوٹھہرایاجس کے ذریعے ان حکومتوںنے تعین قیمت کے عمل میںدخل اندازی کرنے کی کوشش کی تھی جدیدکلاسیکل اکنامسٹ کے مطابق کینز(Keynes)کے پیروکاریہ بات فراموش کرگئے کہ سرمایہ دارانہ میکرواکنامکس (Macroeconomics)کوسرمایہ دارانہ انفرادیت کی بنیادوںپرقائم کیاجاناچاہئے ۔ہرسرمایہ دارانہ صارف ساہوکاراوربیوپاری سرمایہ دارانہ عقلیت کاحامل ہوتاہے اس کی توقعات سرمایہ دارانہ معقولیت کااظہارکرتی ہیںاس چیزکوrational expectationکہتے ہیںہرسرمایہ دارانہ فرد(خواہ وہ صارف ہو،ساہوکارہویابیوپاری ہو)اپنے انفرادی یوٹیلیٹی کوMaximiseکرنے کی جستجوکرناچاہئے لہٰذاسرمایہ دارانہ مارکیٹ اصولاًہمیشہ بہترین(optimal)نتائج برآمدکرتے ہیںاسمتھ کادست غیب(Invisible hand)مارکیٹوںکے ذریعے وسائل کی بہترین تقسیم (optimum distribution)عمل میںلاتے ہیں۔اگرمارکیٹوں میںریاستی مداخلت ختم کردی جائے تووہ خودبخود(sponteneously)کسادبازاری کوختم کردیںگے۔بقول جدیدکلاسیکی اکنامسٹس کسادبازاری (recession)خودبخوددفع آجروں(entrepreners)کے عمل کے نتیجے میںہوتی ہے حکومت کااصل کام یہ ہے کہ وہ مارکیٹوں کو زیادہ سے زیادہ خودکاری کے مواقع فراہم کرے متعین قیمتوں کے عمل سے مطلق سروکارنہ رکھے اورپیداواری استطاعت کوفروغ دینے کے لئے آجروںپرٹیکس کابوجھ کم سے کم کردے اس مکتبہ فکر کوsupply side economics بھی کہاجاتاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ (Keynes)اوراس کے پیروکاروں کے برعکس supply sidersسرمایہ دارانہ حکومتوںسے مطالبہ کرتے ہیںکہ وہ طلب(Demand) کومتاثرکرنے کی کوشش نہ کریںبلکہ رسدSupplyکوبڑھانے کے لئے آجروںاورساہوکاروںکومراعات (Incentives)فراہم کریں۔PrescottاورLafferنے دعویٰ کیاکہ ٹیکسوںمیںکمی کرکے مجموعی حکومتی آمدنی میںاضافہ ممکن ہوسکتاہے کیونکہ ٹیکس کے بوجھ کی کمی تیزی سے پیداوارکی بڑھوتری میںاضافے کاباعث بنے گی ان جدید کلاسیکی اکنامس نے حکومتی اخراجات کی کمی پربھی زوردیااورسرمایہ دارانہ حکومتوںکی زرکی تشکیلیت کے عمل کومحدودکرنے پربھی زوردیا(جدید کلاسیکی اکنامسٹس کی زرعی پولیسی(Monetory policy)کی تفصیل اگلے سیکشن میںبیان کی گئی ہے )جدیدکلاسیکی نجکاری privatisationاورمارکیٹ کی تحکیم کی کمی (deregulation)کے پرزورحامی ہیںہائیک کے وہ آسٹرین (Austrian)پیروجوSchumpterکی فکرسے بھی متاثرہیںمارکیٹ کہ خودبخودتوازن اورعمومی تطبیق General equiliberium(General equiliberiumکاتصوروالرا (Walras)نے پیش کیاوالرس کاکہناتھاکہ اشیاء کی مارکیٹ (Goods market)لیبرمارکیٹ اوراثاثے کی مارکیٹ (Asset or financial market)میںایساربط موجودہے کہ جب ایک مارکیٹ میںتوازن قائم کرنے والی قوتیں متحرک ہوتی ہیںتو وہ دوسری مارکیٹوںمیںہم آہنگ قوتوںکو متحرک کرکے وہاںبھی توازن (equiliberium)پیداکردیتی ہیںاگرکپڑے کی قیمت کااضافہ ہوگاتوکپڑابنانے والے مزدوروںکی اجرت اورکپڑے کے کارخانہ داروںکے منافع اوران کوقرضہ دینے والیے ساہوکاروںکے سود میںبھی اضافہ ہوگاتمام سرمایہ دارانہ مارکیٹ مربوط ہیںاوران میںآہنگ تغیرات اس طرح پیداہوتے ہیںکہ ہرشے اورہرعامل پیداوار(factor of production)کی رسدوطلب برابرہوجاتی ہیںیہ General equiliberiumہے اوراس بنیادپرجوقیمتیں اشیاء اورذرائع پیداوارکے مارکیٹوںمیںقائم ہوتی ہیںوہ عادلانہ (Equitable)اوربہترین (Efficent)قیمتیںہوتی ہیں)پیدانہیںکرتاان مارکیٹوںمیںمستقل ناہمواریاںپیداہوتی رہتی ہیں اوراس کے نتیجے میںمسابقت کومحدودکرنے والی اجارہ داریاں(Monopoly)وجودمیںآتی رہتی ہیںاوران ہی اجارہ داریوںکومستحکم کرنے اوران سے بھرپورفائدہ اٹھانے کے لئے آجرنئی نئی ایجادات مارکیٹ میںلاتے ہیںلہٰذامارکیٹ میںعدم توازن کی وجہ سے جوبحران (Crises)پیداہوتے ہیںوہ خودبخودختم ہوجاتے ہیںاورایجادات کے ابھرنے اورایجادات کے ذریعے مسخرہونے کے تسلسل کے نتیجے میںسرمایہ دارانہ نظام مستقل ترقی کرتارہتاہے اسمتھ ،ریکارڈو،مارکس ،کینزسب نے اس رائے کااظہارکیاتھاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شرح منافع (Rate of profit)میںکمی آتی چلی جائے گی۔ Schumpterاس بات سے انکارکرتاہے اورسرمایہ دارانہ نظم معیشت کے انہدام کے کسی امکان کاقائل نہیں Schumpter،ہائیک کی فکرسے متاثرلیکن اس کوہائیک کاپیرو نہیں کہا جا سکتا ۔ Schumpterطوائفوںکے سرپرست کے طورپرمشہورتھااور١٩٣٠ء کی دہائی میںطوائفوںکی سیاسی اعانت کی وجہ سے مختصرعرصہ کے لئے آسڑیا میںوزیرثقافت اورمالیات رہا۔آسڑیاپرہٹلرکے قبضے کے بعدوہ امریکہ فرارہوگیااورامریکہ میںہی مرا)Schumpterکے مطابق سرمایہ دارانہ نظام مستقل تخریبی تعمیر(creative distruction)کے عمل سے گزرتارہتاہے اوراس تخریبی تعمیر(جوبحرانوںکی شکل اختیارکرتی ہیں)سے مستقل پروگریس ہوتی رہتی ہے حکومت کواس تخریبی تعمیر(creative distruction)کے عمل کی اپنی پالیسیوںکے ذریعے اعانت کرنی چاہئے اس عمل سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
بحیثیت مجموعی ہائیک اوراس کی امریکی اور آسٹرین پیروکارسرمایہ دارانہ حکومت کوسرمایہ دارانہ مارکیٹ کے تابع کرناچاہتے ہیںایک لبرل سرمایہ دارانہ حکومت کے پاس بنیادی طورپردوپالیسی اقدامات کے مواقع ہوتے ہیںزری پالیسی(monetary policy)کے ذریعے وہ سرمایہ دارانہ زراورشرح سودکومتاثرکرسکتی ہے اورمالی پالیسی (Fiscal policy) کے ذریعے مجموعی صرف (Consumption)اورسرمایہ کاری (Investment)پراثرانداز کیا جاسکتا ہے ان دونوںپالیسیوںکامقصدسرمایہ دارانہ اجتماعی عدل کاقیام اوراستحکام ہے ۔ہائیک کے مطابق اجتماعی عدل (Social justice)ایک لغوتصورہے عدل صرف افرادکے ساتھ ان کے انفرادی حیثیت میںتنفیذقانون ( Rule of Law )کے ذریعے کیاجاسکتاہے ۔ریاست یہ فرض ہیومن رائٹس کی حفاظت اورفروغ کے ذریعے کرتی ہے اورمارکیٹ میںمسابقتی عمل (Competition)بھی انفرادی عدل کوفروغ دیتاہے گوکہ اجارہ داریوںکافروغ اوردیگرپیداواری اورتقسیمی ناہمواریاںمارکیٹ میںحادثات کے ذریعے ناانصافیاں بھی پیدا کرتی ہیںہائیک کی رائے میںسرمایہ دارانہ حکومت کوان ناانصافیوںکورفع کرنے کے لئے مالی(Fiscal)اورزری Monatoryپالیسی کواستعمال نہیںکرناچاہئے۔فریڈمین(Freid man)اس رائے سے اتفاق نہیںرکھتافریڈمین کے خیالات کاتجزیہ پیش کرنے سے قبل یہ سمجھاناضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ زرکیاہے ۔
سرمایہ دارانہ زر:
جیساکہ پہلے عرض کیا گیا کہ سرمایہ دارانہ زر وہ زر ہے جو اپنی مقدار میں اضافے کے لئے معاشرے میں مستقل گردش کرتا رہتا ہے۔سرمایہ دارانہ زر سرمایہ کی تجسیم (Concrete form)ہے سرمایہ کی اصلیت، یعنی اس کی روح حرث اور حسد ہے، زر اور سرمایہ دارانہ زر کے فرق کو سمجھنے کے لئے ایک مثالیہ پیش خدمت ہے
ادریس بازار میں کپڑافرخت کرنے کے لئے لاتا ہے، اس کپڑ ے کو وہ زر میں تبدیل کرتا ہے اور اس زر کو اپنے بچوں کے لئے کھاتاخریدنے کے لئے استعمال کرتا ہے یعنی
C -> M – C1
اس اشاریہ میں C سے مراد کپڑا ہے ، M سے مراد زر ہے اور C سے مراد کھانا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے
٠ ادریس کے خرید و فرخت ، صنعت کاری اور صرف (Exchange, production and Consumption) کا مقصد اپنی ضروریات کو پورا کرنا ہے
٠ زر (M) وہ زریعہ ہے جس سے کپڑے (C) کو کھانے ((C1 میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
٠ C اور C1 مختلف اشیاء ہیں۔ ان میں فرق مقداری (Quantitative)نہیں خاصیاتی (Qualitative)ہے۔ اسلامی اقتصادی نظام میں زر یہی کردار ادا کرتا ہے ، زر وہ زریعہ ہو تا ہے جو ضروریات پورے کرنے کا وسیلہ بنایا جاتاہے۔تمام غیر سر مایہ دارانہ نظاموں میں زر کا یہ فطری فعل ہے۔
اب اس اشاریہ کو دیکھئے
M M1……M11…..M111…………M

اس اشاریہ کے مطابق میکسویل(Maxwell)زر(M)لے کرمشینری(Mc)خریدتاہے اورمزدوروں(L)کوملازم رکھتاہے تاکہ کپڑا(C)بنائے اس کپڑے سے حاصل شدہ رقم (M1)مزیدزر(M11,M11,………..Mکمانے کے لئے لگاتارہتاہے اس سے واضح ہوتاہے کہ
٠ Maxwellکی خریدوفروخت ،صنعت کاری اورصرف کامقصداپنے قبضہ میںزرکی مقدارکومستقل بڑھاتے رہناہے ۔
٠ Maxwellکے پیداواری اورتقسیمی عمل میںشرکت کامقصداپنی ضروریات کوپوراکرنانہیںبحیثیت ایک کامیاب سرمایہ دارکے Robert Maxwellہرمنٹ تقریباً3.6لاکھ ڈالرکماتاہے اپنی ضروریات کوپوراکرنے کے لئے اس رقم اعشاریہ1فیصدبھی خرچ نہیںکیاجاسکتا۔
٠ Maxwellکی کمائی کا99.99فیصدحصہ مزیدسرمایہ کاری میں(یہ سرمایہ دارانہ حکومت کو ٹیکس دینے( میںلازماًصرف ہوتارہتاہے ۔
سرمایہ دارانہ زر(M-M1-M11……..M?)ہے سرمایہ دارانہ زرکی بڑھوتری کی کوئی انتہاء نہیںیہی بات ? (Infinity)کاہندسہ ظاہرکرتاہے سرمایہ دارانہ زرحرص وحسدکی تجسیم ہے اورحرص اورحسدکی کوئی انتہاء نہیں(نفوس میںشہوت اورغضب میںلامتناہی اضافہ ہوتارہناممکن ہے )لہٰذاسرمایہ دارانہ زرہندسوںکی شکل اختیارکرتاہے کیونکہ ہندسوںکی بھی کوئی انتہاء نہیں۔جیساکہ ہم پچھلے باب میںعرض کرچکے ہیںیہودی سٹہ بازڈیوڈریکارڈوکواس بات کااحساس تھاکہ سرمایہ دارانہ زرکاتعلق ہرمرئی شے مثلاًسونا،چاندی سے منقطع کیاجاسکتاہے اورسرمایہ دارانہ مارکیٹ اورسرمایہ دارانہ حکومت اپنے منشاء اورمقاصد کے مطابق سرمایہ دارانہ زرکی مقدارکوخودمتعین کرسکتی ہے اوراس مجبوری سے نجات پاسکتی ہے کہ کسی دھات کی (لازماًمحدود)رسدزرکی مقدارکی بڑھوتری کو مقید (constrain) کرے۔ سرمایہ دارانہ زر نے کئی شکلیںاختیارکی ہیںاوراس کی تاریخ بیان کرنے سے اس وقت فائدہ نہ ہوگاریکارڈوکے وقت تک سرمایہ دارانہ زرکی معروف شکل بینک نوٹ (Bank note)تھی اورجیساکہ باب ٤میںبیان کیاگیاہے ریکارڈونے اس کے اجراء کے ایسے اصول بیان کئے تھے کہ اس کی قدرکاانحصارسونے چاندی پہ کم ہوتاچلاجائے اب سرمایہ دارانہ زرکی اہم ترین شکل کمپیوٹرمیموری (Computer memory)میںاندراجات ہیںاورہرسرمایہ دارانہ حکومت کاجاری کردہ زران معنوںمیںسرمایہ دارانہ زرمیںتبدیل ہوگیاہے کہ
٠ اس کی قدرکاکوئی تعلق کسی مرئی شے (سونا،چاندی وغیرہ)سے نہیںوہ inconvertable(غیرمتبدل )ہے۔
٠ اس کااجراء اورتقسیم بینکاری نظام کی ذمہ داری ہے۔
٠ اس کی اجراء اورتقسیم کاواحدمقصدسرمایہ کی مقداری بڑھوتری کی رفتارکوتیزکرناہے ۔
اب ہم یہ دیکھیںگے کہ سرمایہ دارانہ زرکاپیداواری عمل کیسے منظم ہوتاہے اس عمل کے دوشریک ہیں :
1) مرکزی بینک (مثلاًاسٹیٹ بینک آف پاکستان یاامریکہ کافیڈرل ریزروسسٹم)
2) نجی بینک (مثلاًحبیب بینک یابینک آف امریکہ )
سرمایہ دارانہ زر(سرمایہ دارنہ معاشرے میںغیرسرمایہ دارانہ زرعموماًکرنسی (Currency)کی شکل میںہوتاہے یہ وہ زرہے جواپنی بڑھوتری کی تلاش میںگردش میںنہیںکرتابلکہ کسی اورمقصدکے لئے استعمال ہوتاہے )کی پیداوارکی عمل ذیل میںدیئے گئے مثالیہ سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
1) سرمایہ دارانہ نظام میںہربینک عام لوگوںسے ڈپوزٹ(Deposit)کی صورت میںمستقل رقوم حاصل کرتارہتاہے
2) ان رقوم کودوحصوںمیںتقسیم کرتاہے ۔:
٠٠ ایک حصہ ریزرورکھاجاتاہے اسٹیٹ بینک وہ شرح متعین کرتاہے جس میںریزرورکھے جاتے ہیں(مثلاًاگراسٹیٹ بینک نے دس فیصدریزروشرح (Reserve ratio)متعین کی توہرسوروپے ڈپوزٹ میںدس روپے ریزرورکھے جائیںگے۔
٠٠ دوسراحصہ بینک وہ ہے جس کوقرضہ دے کرسودکماتاہے ریزروپرسودنہیںکمایاجاسکتایہ ریزرواسٹیٹ بینک کی تحویل میںہوتے ہیں۔
3) اسٹیٹ بینک سرمایہ دارانہ زرکے پیداواری عمل کی ابتداء اپنی تمسکات (Securities)کسی بینک سے خرید کرکرتاہے ۔
4) فرض کیجئے کہ اسٹیٹ بینک نے نیشنل بینک سے اپنی ایک لاکھ روپے کی تمسکات خریدی اس کی نتیجے میںریزرومیںایک لاکھ کااضافہ ہوگیا۔
5) اگرریزروشرح(Reserve ratio)دس فیصدہے توان ایک لاکھ میںسے صرف دس فیصدیعنی دس ہزارروپے ریزرومنجمدکردیئے جائیںگے باقی نوے ہزارروپے نیشنل بینک سودکمانے کے لئے قرضے پردے گا۔
6) فرض کیجئے نیشنل بینک یہ قرضہ رام داس کودیتاہے جوان نوے ہزارروپوںکو یونائیٹڈبینک کوجمع کرا دیتا ہے۔
7) یونائیٹڈان نوے ہزارمیںسے نوہزارروپے (ریزروریشوجودس فیصد ہے اس کے برابر)ریزرومیںرکھ کراکیاسی ہزارروپے ہنومان داس کوقرضہ دے دیتاہے ۔
8) ہنومان داس ان اکیاسی ہزارروپوںکوحبیب بینک میںڈپوزٹ کی حیثیت سے رکھتاہے اورحبیب بینک ان میںسے دس فیصدریزرورکھ کربہترہزارنوسوروپے چھمنی بائی کوقرض دے دیتاہے جووہ الائیڈبینک میںرکھتی ہے لہٰذاصورت حال کچھ یوںبنتی ہے :
نیشنل بینک کے ڈیپوزٹ میںاضافہ Rs.100,000
نیشنل بینک کے ڈیپوزٹ میںاضافہ Rs.90,000
یونائیٹڈ بینک کے ڈیپوزٹ میںاضافہ Rs.81000
الائیڈ بینک کے ڈیپوزٹ میںاضافہ Rs.72,800
اورسرمایہ دارانہ زرمیںاضافہ اس فامولے کے مطابق ہوتاہے
?CM=1/d(?TD)جہاں?CMسے مرادسرمایہ دارانہ زراضافہ CDسے مراد ریزروریشواورTRسے مرادمجموعی ریزورہیںہمارے مثالیہ میںd=0.1(دس فیصد)اورمجموعی ریزروRs.100,000(TR)ہیںلہٰذامجموعی سرمایہ دارانہ زرمیںاضافہ
Rs.100,000 Rs.100,0000=1/0.1xہوگا
٠ اسٹیٹ بینک کے Rs.100,000کے تمسکات خریدنے کے نتیجے میںمجموعی سرمایہ دارانہ زرمیںاضافہ Rs.100,0000کاہوا۔ان Rs.100,0000روپوںمیںRs.900,000کمرشل بینکوںنے قرضہ دے کراورایک لاکھ کے تمسکات بیچ کرپیداکئے یعنی سرمایہ دارانہ زرمیںنوے فیصد اضافہ کمرشل بینکوںنے کیامرکزی بینک کے جاری کردہ Reserve moneyپرMo اورمجموعی زرکوBroad money,،M2یاM3کہتے ہیںانگلستان اورامریکہ میںReserve moneyاورBroad moneyکاعموما2یا3فیصدہوتاہے اوریعنی 98,97فیصدزرڈیپوزٹ لینے والے نجی بینک پیداکرتے ہیں۔(پاکستان میں2013ء میںغیرسرمایہ دارانہ زر(یعنی کرنسی)کاBroad monyمیںتناسب ٢٠فیصدہے Reserve monyکاتناسب Broad monyمیںتقریباً٦٧فیصدہے جیسے جیسے پروگریس رونماہوتی ہے ریزورمنی اورکرنسی M3کاتناسب گرتاجاتاہے۔)
اس سے واضح ہے کہ اسٹیٹ بینک نہیںبلکہ کمرشل بینک سرمایہ دارانہ زرکے اصلی تخلیق کارہیںاسٹیٹ بینک کواس کااختیارنہیںکہ وہ کمرشل بینکوںکی منشاء کی الگ رقم زرکی مقدارمتعین کرے کمرشل بینک قرضہ دے کرسرمایہ دارانہ زرپیداکرتے ہیںوہ قرضہ اپنے منافع کوMaximiseکرنے کے لئے دیتے ہیں(بینکوںکامنافع زیادہ تردوشرح سودمیںفرق پرمنحصرہوتاہے rd-rI،rIوہ سودہے جواپنے قرض داروںسے لیتے ہیںاورrdوہ سودہے جوبینک اپنے ڈیپوزیٹرزکودیتے ہیں)
کمرشل بینک زرکی پیداواراس کی مانگ کے مطابق بڑھانے پرکسی حدتک مجبوربھی ہوتے ہیںکیونکہ جوقرضہ انہوںنے پہلے دیئے ہوئے ہوتے ہیںوہ جب وقت پرنہیںملتے توان کوRolloorکرکے نئے قرضوںکی شکل میںڈھالناپڑتاہے اسی طرح قرض کی طے شدہ حدسے زیادہ (اس کوOverdraft faciltorکہتے ہیں)کی اجازت بیشترمعاہدوںکاحصہ ہوتی ہے جیسے جیسے کمرشل بینک کے قرضے بڑھتے ہیںان کی ریزروزرکی مانگ بھی بڑھتی ہے کمرشل بینکوںکی سیالیت (Liquidity)کے تحفظ کے لئے ان کے ریزرومیںاضافہ لازمی ہے لہٰذااگراسٹیٹ بینک مطلوبہ مقدارمیںریزورنہ بڑھائے توبینک ملک بینکاری کے بحران میںمبتلاہوسکتاہے جیساکہ امریکہ اورکئی یورپی ممالک میں2007ء کے بعد ہوااوران ممالک کے سینٹرل بینکوںکوکئی سوکھرب ڈالرکی مالیت کاReserve moneyجاری کرکے کمرشل بینکوںکودیوالیہ ہونے سے بچاناپڑا۔ان حالات میںامریکی مرکزی بینک )جسے Federal reserve systemکہتے ہیں)کے کئی صدورنے بارباراعتراف کیاہے کہ مرکزی بینک زرکی مقدار(Money supply)متعین کرنے کی استعدادکھوچکاہے اورجیسے جیسے ایک سرمایہ دارانہ نظام پروگریس(Progress)کمرشل بینکوںکی گرفت اس کے زری نظام (Moneitory system)پرمضبوط ہوتی چلی جاتی ہے جیسے جیسے سرمایہ دارانہ فائینینشل نظام وسعت پذیرہوتاہے نئے نئے فائینینشل ادارے سرمایہ دارانہ زرکی نئی نئی قسمیںمتعارف کرتے ہیں۔ان ایجادات کوNear moneyکہاجاتاہے اوریہ مختلف قسم کی Derivativeکی شکل اختیارکرتے ہیںجونیم تمسکات (Recurities)اورنیم زرہوتے ہیںان کی رسدپرسینٹرل بینک کاکنٹرول نہ ہونے کے برابرہوتاہے اوران Derivativeپرسینٹرل بینکوںکاعدم کنٹرول 2007ء کے بعدآنے والے عالمی فائینینشل بحران کااہم سبب بنا۔ایک ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ نظام میںسینٹرل بینک کی یہ شرح سودآزادانہ طورپرمتعین کرسکتاہے اورنہ زرکی مقداراس کوشرح سود کاوہ StructureاوررسدReserveزرکی وہ سطح متعین کرنی پڑتی ہے جوکمرشل بینکوںاوردیگرفائینینشل کارپوریشنوںکوبحران سے محفوظ رکھنے کے لئے ناگزیرہوتی ہیں1973ء کے بعدبین الاقوامی ترسیل زرپرتقریباتمام پابندیاںبتدریج ختم کی جاتی رہی ہیںآج کوئی ملکی زرکسی مرئی شے (سونا،چاندی)میںمتبدل ہیںاورہرقومی زرکی تقابلی قدر(Exchange value)سرمایہ دارانہ بازاروںمیںمتعین ہوتی ہے اورکسی سیٹرل بینک کی نہ اس کی اجازت ہے کہ ملکی زرکی بین الاقوامی ترسیل پرپابندی عائد کرے نہ وہ اس کامجازہے کہ اپنے ملکی زرکی بین الاقوامی تقابلی قدر(Exchange rate)متعین کرے ہرقومی زرکی قدراورتعدادسودخوروں،سٹے بازوںاورساہوکاروںکی ترجیحات اورضروریات نفع خوری کی ضروریات کے مطابق باہمی رسہ کشی اورمارکیٹ مسابقت (Market compition)کی بنیادپرمتعین کی جاتی ہیں۔ Green جواس وقت امریکی سینٹرل بینک کاچیئرمین تھا نے 1993ء میںکہہ دیاتھاکہ اب زرکی مقداراوراس کی تقابلی قدر(خواہ شرح سود کی شکل میںہویاExchange rateکی شکل میں)کوقومی معاشی پالیسی کے اہداف کے حصول کے لئے استعمال کرناناممکن ہوگیا۔
مانٹرزم
اب ہم ملٹن فریڈمین(Milton freidman)کے خیالات کے تجزئے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔فریڈمین بنیادی طورپر کینز (Keynes)کاناقدہے( لیکن کچھ جدیدکلاسیکی اکنامسٹ فریڈمین کوکینزین ہونے کاالزام دیتے ہیںفریڈمین کے کینزپردوبنیادی اعتراضات تھے ۔
١۔کینزین پالیسیوںکے نفاذکے نتیجے میںقیمتوںمیںمستقل اضافے کارجحان پیداہوتاہے ۔
٢۔اوراس کے باوجود بے روزگاری بھی فروغ پاتی ہے ۔
فریڈمین نے قیمتوںاوربے روزگاری کے ساتھ ساتھ بڑھنے کے رجحان کوStagflationکانام دیاکینزکادعویٰ تھاکہ اگرریاستی سرمایہ کاری کے ذریعے بے روزگاری کوختم کیاگیاتواس کے نتیجے میںقیمتوںکی سطح میںبہت معمولی اضافہ ہوگا۔1970ء کی دہائی میںیورپ اورامریکہ میںقیمتیںتیزی سے بڑھیںلیکن اس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میںبھی تیزی سے اضافہ ہوا۔فریڈمین نے اس دوہرے عدم توازن کاسبب کینزین مالیاتی اورزری پالیسیوںکی تفویض کوگردانا۔فریڈ مین نے دعویٰ کیاکہ مجموعی طلب آمدنی Aggregate nomenial incomeکااعتبارزرکی مقداراوراس تناسب پرہوتاہے جس کے مطابق لوگ آمدنی کوزرکی شکل میںرکھناچاہتے ہیںچونکہ یہ تناسب بقول فریڈمین مستحکم ہے اوروقت کے ساتھ ساتھ تبدیل نہیںہوتالہٰذاعملامجموعی طلب صرف مقدارزرکی تبدیلی پرمنحصرہوتی ہے کینزین پالیسیوںنے معیشت میںمقدارزرکوتیزی سے بڑھاسودکوکم کرکے اورقومی اخراجات میںاضافہ کرکے لیکن اس کے نتیجے میںصرف مجموعی طلب میںاضافہ ہوامجموعی رسد میںنہیںلہٰذامقدارزراضافہ کرکے حکومت صرف قیمتیںبڑھاسکتی ہے اورجب قیمتیںبڑھیںگی تواجرتیںبھی بڑھیںگی اورچونکہ مجموعی پیداوارنہیںبڑھی لہٰذااجرتوںکے بڑھنے کے نتیجے میںشرح منافع کم ہوااورمنافع کی کمی کے نتیجے میںروزگارکی فراہمی میںکمی ہوئی ۔یہی Stagnationکی وہ کیفیت ہے جس میںقیمتیںاوربے روزگاری ساتھ ساتھ بڑھتی ہے اوربقول فریڈ مین اورمیٹزلرMetzlerکے کینزین مالی اورزری Fiscal and monetry) ( پالیسیاںStagflationaryحالات کی ذمہ دارہیںجب زرکی مقدارمیںاضافہ ہوتاہے توشرح سودگرتی ہے (کیونکہ قرضہ سرمایہ دارانہ زرہی میںدئیے جاتے اورسودسرمایہ دارانہ زرمیںقرضہ لینے کی صورت ہے اورجب قرضوں کی مقداربڑھتی ہے توقانون طلب اوررسد(Law of demand and supply)کے مطابق اس کی قیمت
(شرح سود) میںکمی ہوتی ہے )لیکن فریڈمین اوردیگرMonetoristsکے خیال میںاس سے لوگوںکی آمدنی کوسرمایہ دارانہ زرکی شکل میںرکھنے کے تناسب میںفرق نہیںپڑتااورمجموعی طلب کاواحد(یاسب سے اہم )متعین کنندہ (Determinant)مجموعی مقدارزر(Quantity of money)یہی ہے ۔
فریڈمین کی اصل دلچسپی Inflationکوکم کرنے کی تھی وہ کہتاہے کہ چونکہ
PQ change P = change O/ change
یعنی قیمتوںمیںتغیر (P )برابرہے تغیرپیداواریاتقسیم تغیرمقدارزرلہٰذااگرتغیرزرتغیرپیداوارکے برابررکھاجائے توقیمتوںمیںاضافہ ناممکن ہے قیمتوںمیںاضافہ(Inflation)کوختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مقدارزرمیںاضافے کوحقیقی پیداواری اضافے (change in real GDP)کے برابررکھاجائے If change O =change M than change P = O
اورسرمایہ دارانہ حکومت کے لئے مقدارزرمیںاضافہ اورسرمایہ دارانہ حکومت کے لئے مقدارزرمیںاضافہ تو حقیقی پیداوار(Real GDP)٢٥۔کے برابررکھناممکن ہے کیونکہ وہ ریزورزرکی واحدبنانے والی ایجنسی ہے اوروہ یہ بھی معلوم کرسکتی ہے کہ ایک خاص مقدار(مثلاًدس فیصد)ریزروزرمیںاضافے کے لئے نتیجے میںکس قدراضافہ مجموعی مقدارزر(M2,M3)میںہوگا۔
فریڈمین اوراس کے پیروسمجھتے ہیںکہ سرمایہ دارانہ حکومت کوبراہ راست بے روزگاری کی سطح کوکم کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیںکرناچاہئے ۔روزگارپیداکرنے کے لئے حکومت جواخراجات برداشت کرے اس سے محض بجٹ کاخسارہ بڑھتاہے اوربجٹ خسارے میںاضافہ مقدارزرمیںاضافے کااہم ترین جزوہے بجٹ خسارہ بڑھاکرحکومت صرف Inflationکوفروغ دیتی ہے اوراس کے نتیجے میںصرف قیمتیںبڑھتی ہیںمجموعی پیداوارمجموعی روزگارمستقل بنیادوںپرنہیںبڑھ سکتا۔
تھیچر(Thatcher)اورریگن(Reagen)کی حکومتوںمیں1980ء کی دہائی میںفریڈمین کے نظریات پرعمل کرنے کی کوشش کی اورBank of EnglandاورFedral Reserve Systemکے ذریعے اس چیز کی کوشش کی کہ ملکی ریزروزر(reaserve mony)میںاضافہ اس تناسب سے ہوکہ حقیقی پیداواری اضافہ (growth in real GDP)اورمجموعی رسدزر M3) یا(M2میںاضافہ برابررہے لیکن دونوںحکومتیںیہ کرنے میںبالکل ناکام نہیںاورچندسالوںکے اندراندراس حکمت عملی(جسے Mony supply targettingکہتے ہیں)کوخیربادکہناپڑااس کی وجہ جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں یہ ہے کہ انگلستان اورامریکہ میںریزروزر(M0)مجموعی رسدزرکاصرف دوتین فیصدہوتاہے مجموعی رسدزرکی 98فیصدمقدارتوکمرشل بینک اوردوسرے فائینینشل ادارے پیداکرتے ہیںسرمایہ دارمعیشت میںمرکزی بینک حکومت کاآلہ کارہوتاہے یہی نہیںبلکہ یہ توملکی اورعالمی سودخوروں،سٹے بازوںاورساہوکاروںکے تابع ہوتاہے اورریزروزر(M0)کواس خاص حدتک پیداکرناہرسرمایہ دارانہ مرکزی بینک کی مارکیٹ مجبوری (Markite obligation)ہے چونکہ مرکزی بینک خودایک سودخورساہوکارہوتاہے جس کااولین مقصدوجودسرمایہ دارانہ زری مارکیٹوںمیںاستحکام قائم رکھناہے ۔
جدیدکلاسیکی اکنامسٹ (New classical economist)٢٧۔نے فریڈمین کوکینزکاگورباچوف (Gorbachev)کہاہے یعنی ہوکینزکی تعلیمات کی ایک ایسی نئی تعبیر٢٨۔(revise version)پیش کرتاہے جس کے نتیجے میںحکومت کامارکیٹ پرتسلط قائم رہے جدیدکلاسیکی اکنامسٹ مارکیٹ پرحکومت کے تسلط کومطلقاًختم کرناچاہتے ہیںجدیدکلاسکی اکنامسٹ کے مطابق ہیومن بینگ اپنی توقعات عقلی بنیادوںپرمتعین کرتے ہیںاس چیزکوReational expectationکہتے ہیں۔٢٩۔حکومت کی پالیساںلوگوںکودھوکہ نہیںدے سکتیں۔اگرحکومت مقدارزربڑھادیتی ہے تولوگ فوراپہچان جاتے ہیںکہ اس سے حقیقی معنوںمیںنہ اجرت بڑھے گی نہ منافع محض قیمتیںبڑھیںگی لہٰذاپیداوارمیںاضافہ ہوتاہے نہ روزگارمیںحقیقی سرمایہ کاری(real investment)میں۔محض قیمتیںبڑھ جاتی ہیںاورزری پالیسی لازماًبالکل ناکام ہوجاتی ہے ۔
فٹ نوٹ نمبر٢٥۔حقیقی پیداوار(real GDP)سے مرادGDPکی وہ قدرہے جوکسی بنیادی سال (Base year)کی قیمتوںکی بنیادپرموجودGDPشمارکی جائے مثلاًحکومت پاکستان اپنے سالانہ GNPکے تخمینے 2000-2001ء کی قیمتوںکی بنیادپرCalculateکرتی ہے ۔
فٹ نوٹ نمبر٢٦
فٹ نوٹ نمبر٢٧جن میںسب سے مشہورامریکی اکنامسٹ ZucosاورSargeantہیں
فٹ نوٹ نمبر٢٨ اس عمل کوRevisionismکہتے ہیں
فٹ نوٹ نمبر٢٩ کینزکے خیال میںتوقعات (expectation)تجرباتی (adaptive)ہوتی ہیںRationalنہیںہوتی ۔
جدید کلاسیکی اکنامکس کی ایک شاخ Real Business Cycle Theoryکہلاتی ہے اس نوعیت کے اکنامسٹ اس بات پرزوردیتے ہیںکہ مرکزی بینک مقدارزرمتعین کرنے میںکوئی موثرکردارادانہیںکرسکتاسرمایہ دارانہ زرکی توازنی مقدار(Equlibrium quantity)اس کی مانگ متعین کرتی ہے ۔کمرشل بینک اتنازرتخلیق کرتے ہیںجتناان کے منافع کوMaximiseکرنے کے لئے کسی خاص سطح پرمانگ کے لئے ضروری ہوتاہے ۔
ہردوسری سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی طرح زرکی مارکیٹ میںبہترین (efficient)اورمنصفانہ (equtable)قیمت (یعنی سود)رسداورطلب میںتوازن خودبخود(spontaneously)قائم ہوجاتاہے اورمرکزی بین کواس مارکیٹ میںدخل اندازی نہیںکرنی چاہئے اورایک ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشت میںمرکزی بینک اس مارکیٹ میںموثردخل اندازی کے قابل بھی نہیںرہتاکیونکہ ریزروزر(M0)اورکرنسی مجموعی زر(M2)کے نتیجے میںفیصدزیادہ نہیںہوتی ؟؟؟؟؟
ظاہرہے کہ اکنامکس کے دیگرنظریاتی مکاتب کی طرح یہ اکنامسٹ بھی سرمایہ دارانہ idealisticتصویرپیش کررہے ہیں۔٣٠۔اوران کابنیادی پیغام یہ ہے کہ عام حالات میںسرمایہ دارانہ مارکیٹ اپنے آپ کوخودregulateکرلیتی ہے اورحکومتی دخل اندازی کی ضرورت کم سے کم رہ جاتی ہے۔٣١اس مکتبہ فکرکی سیاسی اورفلسفیانہ وضاحت Robert nozickنے پیش کی ۔
سرمایہ دارانہ انفرادی حقوق
رابرٹ نازک کی شہرت کی دووجوہات ہیںوہ ٣٢۔John Rawlsکی فکرکاسب سے اہم ناقدہے اوراپنے دورکاہارڈورڈیونیورسٹی کاسب سے باکمال شرابی ماناجاتاہے ۔٣٣۔
نازک ،لاک (Locke)اورہائیک (Hayek)کاپیروہے وہ اپنے آپ کوLibertarianکہتاہے یعنی ایسالبرل جوانارکسٹوںکے خلاف ریاست کے وجود کی ضرورت کاتوقائل ہے لیکن ریاست کے وجود کوایک ناگزیرشر(neccesary evil)گردانتاہے اورریاست کی معاشرتی مداخلت کوکم ترین(minimise)کرناچاہتاہے ۔جس قسم کے ریاست کے وجودکی ناگزیریت کانازک قائل ہے اس کوminimalistریاست کہتاہے ۔ہائیک اورلاک کی طرح نازک بھی ایک Idealistہے وہ یہ بتاناچاہتاہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست کوکیساہوناچاہئے وہ یہ نہیںبتاتاکہ سرمایہ دارانہ لبرل ریاست واقعتا کیسی ہوتی ہے ۔
لاک کی طرح نازک بھی اسٹیٹ کے وجودکی توجیہ (justification)اپنی بحث کے آغاز کے طورپرلیتاہے ریاست ایک ایسے معاشرے سے خوبخودابھری جہاںنجی سیکورٹی ایجنسیاںفیس لے کرلوگوںکو تحفظ فراہم کرتی تھیںنازک لاک بے برخلاف کسی معاہدے Social contractکاقائل نہیںیہ خودبخودابھرنے والی ریاست ایک minimalist stateہوتی ہے جس کادائرہ کاراپنے سٹیزن کی جان مال اوررائے کے تحفظ فراہم کرنے تک محدودہوتاہے اس minimalistریاست کودولت کی مارکیٹ میںمتعین شدہ تقسیم میںتبدیلی کرنے کاحق نہیںہوتا۔سرمایہ دارانہ عدل کاقیام مارکیٹ کی ذمہ داری ہے اورسرمایہ دارانہ ریاست مارکیٹ کوتحفظ فراہم کرتی ہے براہ راست عدل کے قیام کے لئے اقدام نہیںکرتی ۔

فٹ نوٹ نمبر٣٠ ان اکنامسٹ کی توقعات کے برعکس سرمایہ دارانہ زری بحران عام ہیںاورجیساکہ 2007ء میںآنے والے بحران نے ثابت کردیاان بحرانوںکے دورانیے میںمرکزی بینک کاکردارنہایت اہم ہوجاتاہے کیونکہ وہ ریزروزر(M0)جاری کرکے کمرشل بینکوںکو دیوالیہ ہونے سے بچاتاہے ۔
فٹ نوٹ نمبر٣١ لیکن حالات بہت کم ہی Normalرہتے ہیںreal busniss cycleنظریات رکھنے والے اکنامسٹ اس بات سے انکارنہیںکرتے کہ ان کے مطابق بحرانوںکاتعلق ایسے بیرونی دھچکوںسے ہوتاہے جس کاreational expectationکی بنیادپراحاطہ نہیںکیاجاسکتایہ دھچکے منفی بھی ہوسکتے ہیںمثلاًافغانستان کی جنگ میںامریکی شکست اورمثبت بھی مثلاInfomation technology کاوسیع استعمال ۔ان دھچکوںکوسہارنے) (absorbمیںسرمایہ دارانہ مارکیٹ وقت لیتی ہے ۔
فٹ نوٹ نمبر٣٢ بیسویںصدی کاسب سے اہم سرمایہ دارانہ سیاسی فلسفی
فٹ نوٹ نمبر٣٣ اپنے پروفیسربننے کی تقریب Nizichنے اٹھارہ بوتلیں شراب (Champaign)کی پی کراساتذہ اورطلباء کے سامنے بہترین رقص (Stripteare)پیش کیایہ واقع Hardvard کی تاریخ میںسنہرنے حروف سے رقم کیاجاتاہے ۔
نازک سرمایہ دارانہ عدل کاایک مخصوص تصورپیش کرتاہے لاک کی طرح نازک بھی عدل کابنیادی تقاضاسرمایہ دارانہ پراپرٹی کے تحفظ کوگردانتاہے ٣٦یہ رالس کے تصور سرمایہ دارانہ ملکیت اوریوٹیلیٹیرین تصورسرمایہ دارانہ ملکیت سے ان معنوںمیںمختلف ہے کہ نازک کے مطابق ریاست کویہ حق نہیںکہ وہ سرمایہ دارانہ ملکیت میںایک مختلف تقسیم آمدنی اوروسائل قائم کرنے کے لئے تصرف کرے (رالس اوریوٹیلیٹیرین مفکراس نوعیت کے تصرف کاجوازپیش کرکے اس کی تحدیدکے اصول بیان کرتے ہیں)نازک مطابق لوگوںکابنیادی حق ،حق ملکیت ہی ہے ایک فردجووسائل کرمارکیٹ میںداخل ہوتاہے ان وسائل پرکسی اورکاکوئی حق نہیںاورسرمایہ دارانہ ریاست کسی جوازکوپیش کرکے وسائل سے اس فردکومحروم نہیںکرسکتی ۔فردکے پاس یہ وسائل کہاںسے آئے اورکیاتقسیم ذرائع کہ جس وافر(State of resource distribution)پرمارکیٹ وجود میںآئی وہ عادلانہ ہے ؟یہ سوال نازک نہیںاٹھاتا(اوراس ہی وجہ سے اس کے ناقدین کہتے ہیںکہ نازک کاتصورسرمایہ دارانہ ملکیت اخلاص یعنی Moralنہیںمحض قانونی Legalہے )
سرمایہ دارانہ انفرادیت پراپرٹی متعین کرتی ہے ۔پراپرٹی سرمایہ دارانہ انفرادیت کی شناخت بھی ہے اوراس کی حدود(Boundries)بھی متعین کرتی ہے ۔ریاست کویہ حق کہ انفرادیت کوان متعین کرنے والی ان (Boundries)کومنہدم کرے ۔وہ توان (Boundries)کے تحفظ اورتوسیع کے لئے وجود میںآئی ہے فردکابنیادی حق اس کے تصرف میںسرمایہ دارانہ ملکیت اورتحفظ کافروغ ہے ۔
نازک کی Theory of entitlemonty(نظریہ حقوق)کے مطابق ہرفرداس پراپرٹی پرتصرف کاحق رکھتاہے جوا س نے مارکیٹ میںداخل ہونے سے قبل فطری تقسیم ذرائع اوردولت کے بنیادپریا مارکیٹ میںکاروبارکے ذریعے حاصل کئے ہوں۔یہی نازک کاتصورعدل ہے یہ تصوررالس کے تصورعدل سے ان معنوںمیںمختلف ہے کہ رالس قبل ازمارکیٹ تقسیم وسائل کولازماًمنصفانہ تسلیم نہیںکرتا۔یوٹیلیٹیرین تصورعدل سے نازک کاتصورعدل ان معنوںمیںمختلف ہے کہ یوٹیلیٹیرین مفکرین اس تقسیم عدل کومنصفانہ گردانتے نہیںجس کے نتیجے میںمجموعی حصول لذات (GNP)،Maximiseہو۔چونکہ نازک مارکیٹ کے کاروبارکے نتیجے میںحاصل شدہ حقوق ملکیت (Entitelment)کوجائز تصورکرتاہے ۔اورچونکہ آئیڈیل مارکیٹ تقسیم وسائل Margnal productivityاورMargnal costکی برابری کے اصول کے مطابق کرتاہے (یعنی ہرذرائع پیداواراوراس کے حامل کووہ اجرت /سود/کرایہ)منافع ملتاہے جواس کے بڑھوتری سرمایہ کے پیداکرنے کے مطابق ہو۔لہٰذانازک اوریوٹیلیٹیرین تصورات سرمایہ دارانہ عدل میںمماثل ہیں۔
نازک کی اہم ترین کتاب State and utopia,Anarchky utopiaتصوراتی جنت کوکہتے ہیںاوریورپ میںان تصوراتی جنتوںکاتخیل اس وقت سے عام ہوا(اٹھارویںصدی کی ابتدائ)جب سے حقیقی جنت پرسے ایمان اٹھناشروع ہوا۔نازک جس خیالی جنت کاخاکہ پیش کرتاہے اس میںہرفردکے پاس سرمایہ دارانہ ملکیت اس مقدارمیںہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات نفسانی کے مطابق اپنی ذاتی جنت (private heaven)خودتعمیرکرسکے جن لوگوںکے خیالی جنت کے تصورات ایک دوسرے سے مماثل ہوںوہ اس بات میںآزادہوںگے کہ معاشرتیں(Comunities)تعمیرکریںاوررضاکارانہ (voluntary)اپنے وسائل سے ایک دوسرے کی مددکرتی اورتمام افراداورمعاشرتیںایک ایسی قومی ریاست (Nation state)حصہ ہوجوان کے سرمایہ دارانہ ملکیت حقوق کاتحفظ فراہم کرے گی لیکن اس کے علاوہ اورکچھ نہیںکرے گی۔
نازک کے مطابق یہ خالی جنت سرمایہ داری کے فطری ارتقاء کے نتیجے میںخودبخود(قائم ہوجائے گی)٣٧۔اس خیالی جنت میںہرہیومن بینگ کی اپنی پراپرٹی ہوگی وہ اس پراپرٹی کی بنیادپراپنی انفرادی جنت خودتعمیرکرے گا۔
نازک کے خیالی جنت اورمارکس کی خیالی جنت میںبنیادی مماثلت یہ ہے کہ ان دونوںخیالی جنتوںمیںہرفردمطلقاآزادہوگااورہرفرداپنی خواہشات نفسانی کوپوراکرنے کے قابل ہوگا۔٣٨۔
١٩٨٠ء کی دہائی میںامریکہ اوریورپ میںکینزین(Keynesion)پالیسیوںکے خلاف جوردعمل وقوع پذیرہوااس کونیوکنٹروویٹیزم(New controvitism)کہتے ہیںاوران کے پیروکاروںکونیوکان(New Con)کہاجاتاہے ان نیوکان حلقوںنے نازک کی تعلیمات کی بہت قدردانی کی اورنازک کوایک اہم مرشدکادرجہ دیاان نیوکان کامقصدسرمایہ دارانہ ریاست کامارکیٹ میںدخل اندازی کوختم کرناتھانازک کابنیادی پیغام یہ تھاکہ مارکیٹ جوتقسیم وسائل کرتاہے سرمایہ دارانہ ریاست
فٹ نوٹ نمبر٣٦ یادرہے کہ لاک کے مطابق سرمایہ دارانہ پراپرٹی کے تین مظاہرہیںانسانی جان،آراء اورمال ۔
فٹ نوٹ نمبر٣٧ یہ ٹوکوولے Tocquivilleکاخیال تھاجس نے اٹھارویںصدی میںدعویٰ کیاتھاکہ امریکی سرمایہ داری اس سے ملتی جلتی جنت میںتعمیرکرنے میںریڈانڈین کے قتل عام کے ذریعے عمل میںلارہی ہے ۔
فٹ نوٹ نمبر٣٨ ان دونوںخیالی جنتوںمیںفرق یہ ہے کہ نازک سرمایہ دارانہ ملکیت کے انفرادی اورمارکس سرمایہ دارانہ ملکیت کے اجتماعی تشکیل کاقائل ہے ۔

کویہ حق نہیں کہ ٹیکسیشن (Taxation)کے ذریعے اس تقسیم وسائل کواس طرح تبدیل کرے کہ مجموعی قومی وسائل (GNP)میںکم آمدنی والوںکاحصہ بڑھ جائے بقول نازک ایساکرناعدل کے تقاضوںکے خلاف ہے کیونکہ یہ بنیادی ہیومن رائٹ،رائٹ آف پراپرٹی (Right of property)کی تحدیدکرتاہے ۔یورپ اورامریکہ کی نیوکان حکومتوں٣٩۔کاپورازورٹیکسیشن کوحکومت کے غریبوںکے امدادی اخراجات کوکم کرنے پررہاہے اورنازک بتاتاہے کہ یہی سرمایہ دارانہ عدل کاتقاضہ ہے سرمایہ دارانہ ویلفئیراسٹیٹ(Walfare state)کاقیام سرمایہ دارانہ عدل کے تقاضوںکے منافی ہے اور لوگوںکے حق ملکیت کوٹیکسیشن (Taxation)کے ذریعے محدودکرناان کے انفرادی تشخص(جس کاواحداظہارذاتی پراپرٹی کے اس استعمال سے ہوتاہے جوفرداپنے مخصوص خواہشات نفسانی کوپوراکرنے کے لئے کرتاہے )کوتسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے ٤٠۔نازک منیجمنٹ سائنس(Management science)کی بانی آئن ریند(Ayn Rand)کے اس نظرئیے کی پرزورتائیدکرتاہے کہ معاشرت اورریاست کواس طرح منظم کیاجاناچاہئے کہ کچھ ہیومن بینگ ایک ریشنل(Rational)وجودکے طورپراپنی بقاء کی پیہم جدوجہدجاری رکھ سکے ۔Rationalityوہ عقلیت ہے جوخواہشات نفسانی کے تابع ہے ٤١۔لہٰذاRationalityکوفروغ دینے کے لئے ایک ایسے معاشرتی اورریاستی نظام(یعنی سرمایہ دارانہ نظام)کاوجودضروری ہے جہاںافرادکارائٹ آف پراپرٹی(یعنی ہیومن رائٹس)کومحدودنہ کیاجائے اورافراد Rationality،اپنی پراپرٹی(یعنی جان،مال اورآراء )استعمال کرتے ہوئے اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کی جدوجہدمستقل جاری رکھ سکیں۔
لاک(Lack)کے برخلاف اوررینڈ(Rand)کے مماثل نازک پراپرٹی کی اہم ترین شکل املاک کوتصورکرتاہے٤٢۔لہٰذااس کے لئے یہ سوال بہت اہمیت کاحامل ہے کہ املاک کے حصول کاعادلانہ طریقہ کیاہے نازک کے مطابق حصول املاک دوطریقوں سے جائز ہے ۔
1۔ہیومن بینگ نے وسائل فطرت (Nature)میںاپنی محنت شامل کرکے کوئی ملکیت حاصل کی ہوبشرطیکہ اس حصول کے ذریعے دوسرے اس وسائل فطرت سے محروم نہ کردئیے جائیں٤٣ ۔
2۔ملک ایک ایسے معاہدے سے حاصل کی گئی وہ ملکیت منتقل کرنے والااپنی مرضی سے کرے اوراس پر مجبورنہ کیاجائے اس کی عملی شکل مارکیٹ کاکاروبار،وراثت اورتحفوں کی فراہمی شامل ہے اس کے علاوہ املاک میںتصرف ناجائزاورظالمانہ(Unjust)ہے اورسرمایہ دارانہ ریاست کواملاک میںتحکمانہ تصرف کاکوئی حق نہیں۔
ان تصورات کونیوکونز(Neo Cons)نے قبول کرکے بڑے پیمانے پہ پالیسی سازی کی بالخصوص ان امریکی ریاستوںمیںری پبلکن پارٹی کے دھڑے Tea partyکواقتدارحاصل ہوا٤٤۔لیکنNozickieonفکرکودوچیلینجوںکاسامناکرناپڑاسب سے اہم چیلنج یہ کہ 2007ء سے جاری بحران نے ثابت کردیاکہ سرمایہ دارانہ ریاست ،سرمایہ دارانہ مارکیٹ ہی کہ آلہ کارہے اورسرمایہ دارانہ ریاست ہی عوام کے ٹیکسوںکواستعمال کرکے بینکوںاوردوسرے فائینینشل اداراوںکودیوالیہ ہونے سے بچاسکتی ہے اس کے نتیجے میںNeo keynesianesاورPost keynesianesکااحیاء رونماہوااوراوباماNeo keynesianesمنہج اپنی پالیسیاںوضع کرتاہے ان منہاج کاتجزیہ ہم سوشل ڈیموکریسی کے باب میںکریںگے۔
دوسراچیلینج یہ کہ اگرنازک کے تصورسرمایہ دارانہ عدل کوتسلیم کرلیاجائے توامریکہ اوراسرائیل ٤٥۔پرقبضہ سرمایہ دارانہ عدل کے برخلاف ہے اورامریکی اورفلسطینی
فٹ نوٹ نمبر٣٩ Thatalion,Reagen,Merkel,Blair,Bushوغیرہ کی حکومتیں۔
فٹ نوٹ نمبر٤٠ نازک یہ تسلیم کرتاہے کہ اصولاًیاعملاًیہ ممکن ہے کہ جن لوگوںکے پراپرٹی حقوق محدودکئے جارہے ہیںان کواس کامعاوضہ (Comensation)دیاجائے لیکن یہ اس کے خیال میںعملاًممکن نہیں۔
فٹ نوٹ نمبر٤١ دیکھئے وہ ابواب جہاںکانٹ اوراسمتھ کی فکرکاتجزیہ کیاگیاہے ۔
فٹ نوٹ نمبر٤٢ لاک پراپرٹی کااہم ترین جزوآراء یاضمیر(Concecise)کوتصورکرتاہے لاک کے مطابق ہیومن بینگ وہ ہے جس کاضمیرخواہشات نفسانی کی تابع عقلیت کی اطاعت کوحق کے طورپرقبول کرتاہے لاک کے دورمیںاکثریت عیسائیوںکی تھی ۔ریشنل (Rational)ملحدایک قلیل اقلیت تھے لوگوںکو ریشنل ملحد بنانالاک کااصل مشن تھانازک کے دورمیںامریکیوںکی عظیم اکثریت ریشنل ملحدین پرمشتمل تھی ۔
فٹ نوٹ نمبر٤٣ یہ لاک کی Labour theory of valueاورLockeon proviseہے۔
فٹ نوٹ نمبر٤٤ ان ریاستوںمیںTea partyکے کچھ حلقے اپنی ریاست کوامریکی وفاق سے علیحدہ کرنے کی جدوجہدبھی کررہے ہیںلیکن ان کوعوام کی کوئی تائیدحاصل نہیں۔
فٹ نوٹ نمبر٤٥ اورکشمیرلیکن کشمیرپرہندوستان کے قبضے کاکوئی ذکرامریکی بحثوںمیںنہیںملتا۔
املاک کوان کے ممالک کے قدیمی باشندوںکولوٹادیناچاہئے اس چیلنج کاجواب نازک کے یہودی شاگردڈیوڈلائنز David Lyons٤٦۔نے دیااس نے ثابت کیاکہ امریکی اورفلسطینی املاک پرقبضہ سرمایہ دارانہ عدل کاتقاضہ ہی ہے اوران املاک کی واپسی ظلم عظیم ہوگی۔Lyonsکے استدلال کوہم اس باب کے ضمیمے میں پیش کرتے ہیں۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password