سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت

سرمایہ دارانہ نظام میں علم کسے کہتے ہیں ؟

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل
کسی تہذیب کا تصور علم اسکے اہداف و مقاصد کے اظہار کا سب سے بلند ترین درجہ ہوتا ہے۔ در حقیقت تصور علم ہی وہ اساس ہے جہاں کسی تہذیب کے مقاصد علمی و فکری سطح پر متشکل ہوتے ہیں۔ ہر تصور علم ایک تہذیب کے حیات انسانی کی حقیقت کی بابت ما بعد الطبعیاتی ایمانیات کا مرہون منت ہوتا ہے۔ یعنی یہ سوال کہ علم کیا ہے کا جواب مقصد علم کے بغیر دینا نا ممکن ہے اور یہ مقصد لازماً ایک ما بعد الطبعیاتی ایمان پر قا ئم ہوتا ہے ۔ یہی وہ بنیادی بات ہے جس پر غور نہ کر نے کے سبب کئی اہل علم و فکر نے مغربی علوم کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے نیز انکی اسلام کاری کرنے کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ یہ غلط فہمی کہ مغربی علوم ایک اٹل حقیقت ہیں نیز انکی بنیاد ایسے آفاقی تصورات پر قائم ہے جو انسانیت بحیثیت مجموعی کا مظہر ہیںبھی اسی سوال پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح ماہیت علم اور ایمانیات کا تعلق نظر انداز کرنے کے نتیجے میں یہ فکری کجی بھی عام ہوئی کہ مسلمانوں کو مغربی علوم کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس مضمون میں ہماری کوشش ہو گی کہ ہم علم بحیثیت مجموعی اور سرمایہ دارانہ (یا سائنسی ) نظریہ علم کی حقیقت وا ضح کریں۔

تر تیب مضمون: تین اہم سوالات

حقیقت علم کی تفہیم کے ضمن میں تین سوالات کے جوابات اصل اہمیت کے حامل ہیں:

١) علم کیا ہے ، یعنی اسکی نو عیت و ماہیت (Nature)کیا ہے ؟

٢) علم کہاں سے آئے گا، یعنی منبع علم (source of knowledge) کیا ہے؟ منبع علم کی تشخیص کے ساتھ ہی اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اس منبع علم سے حاصل ہونے والے علم کی صحت و عدم صحت (validity) کا معیار کیا ہے ؟

٣) اس مخصوص منبع علم سے حاصل شدہ معلومات کن شکلوں میں متشکل (embodiement) ہوئیں ، یعنی اس نظریہ علم کا اظہار کن علوم کی شکلوں میں ہوا

سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت کے ضمن میں ان تینوں سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے ایک طویل مضمون در کار ہوگا لہذا خوف طوالت کو ملحوظ خا طر رکھتے ہوئے اس مضمون میں ہم صرف پہلے سوال کا جواب تفصیلی جواب دینے کی کو شش کریں گے۔ اس سوال کا جواب سمجھنے کیلئے تین امور پر روشنی ڈالنا ضروری ہے :

(الف) علم کی نوعیت و ماہیت کا حقیقت کی بابت ایمانیات سے تعلق پر

(ب) سرمایہ دارانہ تصور علم کا اسکے تصور حقیقت سے تعلق اور اسکی خصوصیات پر اس مضمون میں ہم درج بالا ترتیب سے اپنے مدعا کو بیان کریں گے ۔

( ١) ایمانیات اور تصور علم کا باہمی تعلق :

علم سے مراد عام طور پر معلومات کا ایک با مقصد مجموعہ سمجھی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ ‘عالم ‘ (knower) اور ‘معلوم ‘ (known) کے درمیان ایک تعلق کا نام ہے اور ان دونوں کے درمیان اس تعلق کی مقصدیت ہی ‘مجموعہ معلومات ‘ کے مافیہ (content) کی ماہیت (nature) اور درجہ بندی (hirarchy) کا تعین کرتی ہے۔یعنی کس مجموعہ معلومات پر لفظ علم کا اطلاق کیا جا ئے گا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ علم حا صل کرنے والے شخص کا مقصد کیا ہے۔ چنانچہ ہر مقصدیت سے نکلنے والا تصور علم اور معلومات کی درجہ بندی یکساں نہیں ہوتی۔ اسی طرح معلومات کے ہر مجموعے پر لفظ علم کا اطلاق نہیں کیا جاتا بلکہ صرف ایک بامقصد معلومات کے مجموعے پر ہی یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً کسی پا گل شخص کو بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں لیکن اسکی ان معلومات کوکسی بھی تصور علم میں ‘علم ‘ نہیں مانا جاتا ۔ یہ حقیقت کہ علم کی درجہ بندی کا براہ راست تعلق عالم کے مقصد سے ہوتا ہے اس مثال سے سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر سائنس ، انجینئرنگ اور سو شل سائنسز کے مختلف مضامین کی ایک فہرست ان علوم کے طلباء کے سامنے درجہ بندی کیلئے پیش کی جائے تو انکی ترتیب میں واضح فرق ہوگا۔ ان طا لب علمو ں کی مرتب کردہ فہرستوں میں علوم کی درجہ بندی کا یہ فرق اس مقصد اور تعلق (relevance) کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس کی خا طر یہ طلباء علم حا صل کرنا چا ہتے ہیں۔ چنا نچہ اگر آپ کسی انجینئرنگ کے طا لب علم سے تاریخ کی اہمیت پر بات کریں تو شاید اسکے نزدیک تاریخ ایک غیر اہم علم کہلائے، لیکن اگر کسی فلسفی کی نظر سے دیکھا جائے تو تاریخ سے زیادہ اہم علم کوئی اور نہ ہوگا ۔ اس مثال میں نو ٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ معلومات کی علمی حیثیت اور اسکی درجہ بندی طے کرنے میں علم حا صل کرنے والے شخص کا مقصد فیصلہ کن اہمیت کا حا مل ہوتا ہے۔ اس بات کو مزید وا ضح کرنے کیلئے ایک اور مثال پر غور کریں۔ آپ اور ہم بچپن سے یہ بات سنتے چلے آئے ہیں کہ ‘اصل علم تو قرآن و حدیث ہی ہیں’۔ آج کے جدیدیت پسند مفکرین کو یہ بات مبالغہ انگیز ی دکھا ئی دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا واقعی یہ مبا لغہ انگیزی ہے یا حقیقت وا قعہ ہے؟ اور اگر حقیقت ہے تو کن معنوں میں یہ بات درست ہے؟ اس سوال کے جواب کیلئے اسلام کے نزدیک انسانی زندگی کے مقصد پر غور کریں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ بات نہایت وا ضح طریقے سے بیان کی ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد دنیا وی زندگی کوپر لطف بنانے کیلئے کائنات کو مسخر کر نے کی سعی کرنا نہیں بلکہ اپنے رب کی عبادت کرنا اور اسکی خوشنودی حا صل کرنا ہے ، نیز یہ کہ انسان کو یہ زندگی اسکے کسی حق کے طور پر نہیں دی گئی کہ جسے وہ جیسے چا ہے ترتیب دے ، بلکہ یہ زندگی اسے آزمائش کیلئے دی گئی ہے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ زندگی کا مقصد آزمائش اور حصول رضا ئے الہی ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آزمائش جس شے میں ہو رہی ہے اسکا علم کہاں سے حا صل ہو گا دوسرے لفظوں میں رضا ئے الہی حا صل کرنے کے طریقے کا علم کہا ں سے ہو گا؟ کیا ہر شخص آزاد ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کا جو بھی مقصد چا ہے بنا لے یا اسکے رب نے اسکی ہدایت کا کوئی انتظام کیا ہے؟ ہر شخص جا نتا ہے کہ اللہ تعا لی نے ہدایت انسانی کے لئے انبیاء و رسل کا سلسلہ جاری فرمایا اور اس ہدایت کے حصول کا آخری اور واحد معتبر ذریعہ قرآن و حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں موجود ہے۔ چنا نچہ یہی وہ وا حد ذریعہ علم ہے جس سے رضا ئے الہی کے حصول کا طریقہ جا نا جا سکتا ہے اور اس ذریعہ علم کو چھوڑ کر اس دنیا میں اور کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے انسا ن یہ جان سکے کہ میرا رب مجھے کس شے میں آزما نا چا ہتا ہے نیز وہ میرے کن اعمال سے خوش ہو گا اور کون سے اعمال اسکی نا را ضگی کا با عث ہو نگے۔ پس ثا بت ہوا کہ انسانی زندگی کے مقصد ‘ عبادت رب’ کے معیار پر پورا اترنے والا علم وہی ہے جسے مولوی صاحب ‘قرآن و حدیث ‘ کہتے ہیںلہذا یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ‘اصل علم تو قرآن و حدیث ہی ہیں’، نیز دیگر عقلی علوم کی درجہ بندی ان علوم کے اس مقصد حیات کے حصول میں معا ونت و عدم معا ونت کے اصول پر طے کی جا ئے گی۔ جو علم اس مقصد حیات کے حصول میں جتنا زیادہ ممد و مددگار ہوگا اسلامی نظریہ علم میں اتنا ہی اہم کہلائے گا، اور جس علم کا تعلق اس مقصد کے ساتھ جتنا کمزور ہو گا وہ علوم کی درجہ بندی میں اتنا ہی نیچے دکھائی دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں قرآن و حدیث کے بعد صرف ونحو، فقہ و اصول، کلام و منطق وغیرہ کو خصوصی اہمیت حا صل رہی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات وا ضح ہو جا نی چا ہئے کہ ہر تصور علم (یعنی مجموعہ معلومات کی نوعیت) اور اسکی درجہ بندی چند مابعد الطبعیاتی ایمانیا ت کی مرہون منت ہوتی ہے نیز مقصد حیات کی با بت عقائد بدل جا نے سے تصور علم بھی بدل جا تا ہے۔ چنا نچہ کسی تہذ یب سے نکلنے والے تصور علم اور معلومات کی درجہ بندی کو اس تہذ یب کی ایمانیات سے ما وراء ہو کر سمجھنا نا ممکن ہے اور جو شخص بھی ایسی کوشش کرے گا لازماً غلط نتا ئج تک ہی پہنچے گا۔ ایمانیات اور تصور علم کے تعلق کی اس اصولی بحث کے بعد اب ہم سرمایہ دارانہ تصور علم کی تفصیلات کی طرف آتے ہیں۔

٢) سا ئنسی علم کی نوعیت اور اسکے تصور حقیقت سے اسکا تعلق

آ ج کی دنیا بالخصوص مغربی دنیا میں جب بھی لفظ علم بولا جا تا ہے تو اس سے مراد عام طور پر ‘ سائنس و ٹیکنالوجی’ ہی سمجھا جا تا ہے۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب موجودہ سائنس و ٹیکنا لو جی نامی کوئی بھی شے علم کے مسمٰی کے طور موجود نہ تھی۔ کچھ لو گوں کا خیا ل ہے کہ سا ئنس و ٹیکنالوجی کا موجودہ علم تمام انسانی تہذیبوں میں تحلیل ہوتا ہوا اپنا تاریخی سفرطے کرکے اس منطقی منزل تک پہنچا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے نزدیک علم ایک مسلسل تاریخی عمل (Historical progression) کا نام ہے جو کسی قسم کی ایمانیات کا مرہون منت نہیں۔ ہمارے متجددین حضرات اس فکر کو اس وجہ سے اپنا تے ہیں تا کہ موجودہ سائنس کو اسلامی تاریخ کا تسلسل ثا بت کر دکھا ئیں۔ ہو سکتا ہے اس تجزیہ میں ان کے لئے خوشی کا بہت سا سامان ہو ، لیکن حقیقت علم کا یہ تجز یہ کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتا۔ سرمایہ دارانہ علم (یعنی سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ) کسی مسلسل تا ریخی عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ انسانی زندگی و کا ئنات کے بارے میں تصور حقیقت کی ایک ایسی تبدیلی سے پیدا ہوا جو تحریک تنویر (enlightenment) کے نتیجے میں عام ہوئی۔

١.٢: سر مایہ دارانہ تصور حقیقت کی ایمانیات

اس تصور حقیقت نے جن بنیادی ایما نیات اور اقدار کو اپنانے کی طرف دعوت دی وہ المختصر یہ تھے۔

(الف) آزادی جس کا معنی یہ ہے کہ ہر شخص اپنی خواہشات کی ترتیب متعین کرنے کا اخلاقی طور پر مستحق ہے، یعنی یہ اسکا حق ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہ سکے اور اپنی چاہت حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہونے کی جدوجہد کرے۔ مختصراً آزادی کا معنی خیرو شر طے کرنے کا حق انسان کو حا صل ہونا ہے ، یعنی انسان کے ‘حق ‘ کا ‘خیر و شر’ پر فوقیت رکھنا ہے [prioritization of right over good] (آسان لفظوں میں یہ تصور کہ خیر اور شر کا منبع اور اسکا تعین نفس انسانی سے ہوتا ہے )۔ مغربی انسان خود کو قائم بالذات (self-determined) اور آزاد (autonomous) تصور کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے ‘عبدیت’ کا رد ، یعنی انسان کی حقیقت عبد ہونا نہیں بلکہ قائم بالذات یعنی خود اپنا خدا ہونا ہے ، کیونکہ انسان کو خیرو شر طے کرنے کا حق دینے کا مطلب اس بات کا انکار ہے کہ وہ عبد ہے اور اسکا مقصد حیات خواہشات کی تکمیل نہیں بلکہ خواہش کی نفی کرکے اپنے نفس کو خدا کی رضا کے آگے جھکا دینا ہے

ب) مساوات جسکا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خوا ہشات کی ترتیب اور ان سے طے پانے والے تصور ات خیر مساوی اہمیت کے حا مل ہیں اور ان میں اصولاً کسی قسم کی درجہ بندی کرنا نا ممکن ہے، یعنی تمام تصورات خیر و شر اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مساوات کا معنی ہے ‘نظام ہدایت’ کا رد ، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ اللہ تعالی نے انسان کو خیر و شر بتانے کیلئے ہدایت کا کوئی سلسلہ انبیاء کرام کے ذریعے قائم کیا ہے ، نیز انبیاء کرام کی تعلیمات خیر و شر طے کرنے کا کوئی حتمی معیار ہیں ۔ یہ اسلئے کہ نظام ہدایت کا معنی ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خواہشات کی ترتیب ہرگز مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ وہ شخص جسکی خواہشات کی ترتیب تعلیمات انبیاء کا مظہر ہیں تمام دوسری ترتیبوں پر فوقیت رکھتی ہے، دوسرے لفظوں میں نظام ہدایت مساوات کا نہیں بلکہ حفظ مراتب کا متقاضی ہے جس میں افراد کی درجہ بندی کا معیار (differentiating factor)تقوی ہوتا ہے نیز اسلامی معاشرے و ریاست کا مقصد جمہوری معاشرے کی طرح ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ انکی خواہشات کو نظام ہدایت کے تابع کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریہ ریاست میں citizen(ایسی عوام جو اصولاً حاکم اور فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے) اور عوامی نمائندگی(Representation of citizens) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں کیونکہ یہاں عوام citizen نہیں بلکہ رعایا ہوتی ہے اور خلیفہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ جسکا مقصد عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنا ہو بلکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوتا ہے جسکا مقصد رعایا کی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کیلئے نظام ہدایت کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آزادی و مساوات کا معنی یہ ہے کہ خیر و شراور اپنی منزل کا تعین انسان خود طے کرے گا اور ہر شخص کا تصور خیرو زندگی گزارنے کا طریقہ مساوی معاشرتی حیثیت رکھتا ہے اور ریاست کا مقصد ایسی معاشرتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنی خواہشات کو ترتیب دینے اورانہیں حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے

(ج) ترقی: جسکا حاصل یہ ہے کہ زندگی میں انسان کا مقصد اپنے ارادے اور خواہشات کی زیا دہ سے زیادہ تکمیل (maximum satisfaction) ہے اور ارادہ انسانی کی یہی منتہا تکمیل ترقی کا جوہر ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ترقی کا مطلب ہے ‘آخرت’ کا اور دنیا کے ‘دارلامتحان ‘ ہونے کارد اور دنیاوی زندگی کو بذات خود مقصد (End in itself) سمجھنا ہے۔ ترقی درحقیقت وہ طریقہ ہے جسکے ذریعے آزادی اور مساوات کا اظہار ممکن ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی معاشرہ آزادی اور مساوات کے اصول پر زندگی گزارنا چاہتا ہے تو وہ واحد طریقہ جسکے نتیجے میں ہر فرد اپنی خواہشات کی ترتیب طے کرنے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف بن سکتا ہے ترقی یعنی سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی جدوجہد ہے ۔

تصور حیات کی اس تبدیلی کے بدولت ایک ایسے ‘جدید انسان ‘ کی تخلیق ہوئی جسے ہیومن (Human being)کہتے ہیں ۔ تحریک تنویر سے قبل اس انسان کا کوئی معاشرتی وجود نہ تھاکیونکہ ہر مذہب میں انسان سے مراد عبد (Mankind) ہی سمجھا جاتا تھا جو اپنی پہچان اور وجود خود اپنی ذات سے نہیں بلکہ خدا کے وجود سے حاصل کرتا تھا ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ مختلف مذاہب کے ما بین اظہار عبدیت کے معتبر طریقے میں اختلاف موجود تھا۔ فوکالٹ (بیسویں صدی کے مشہور ترین مغربی فلسفیوں میں سے ایک) کا یہ کہنا صد فیصد درست ہے کہ ہیومن تو پیدا ہی سترہویں صدی میں ہوا ہے اس سے پہلے کسی تہذیب اور نظام زندگی میں ہیومن کا تصور موجود ہی نہیں تھا۔ ہیومن (وہ انسان جو خود کو قائم بالذات سمجھتا اور آزادی کا خواہاں ہے ) مغربی نظام زندگی کی روح رواں ہے اور تمام مغربی علوم جس انسان کے رویے سے سے بحث کرتے ہیں وہ یہی ہیومن ہے نہ کہ عبد۔ یہ ایک ایسا انسان تھا جسکی دلچسپی کا محور مذہبی رسوم عبودیت بجا لانے کے بجائے دنیاوی معا ملات سے بے پناہ رغبت تھی، اور جس میں ایک ایسا نیا ولولہ اور جوش تھا جو اسے غیر مشروط آزادی کی طرف مائل کرتا تھا ۔ اس تبدیلی کی تصویر کشی ڈاکٹر ظفر حسن نے اپنی کتاب ‘سر سید اور حالی کا نظریہ فطرت ‘ میں خوبصورت الفاظ میں کی ہے:

”یہ ایک ایسا انسان تھا جو اپنے سے پہلے والے انسان سے ہر قسم کا تعلق منقطع کر دینا چا ہتا تھا…اٹھا رویں صدی کے اوائل میں کہا جا نے لگا کہ بزرگوں نے نئی نسل کو ایک ایسا معا شرتی نظام دیا ہے جو نرا دکھاوا اور دھو کا ہے اور جو ہر برائی کا ذمہ دار ہے … اٹھا رویں صدی کی نسلیں اس نظریے کو کہ انسان کو کوئی الہامی پیغا مات وصول ہوتے ہیں بالکل رد کرکے وحی کا انکار کر دینا چا ہتی تھیں ۔ القصہ مختصر وہ انسانی زندگی کو کسی حال میں بھی مذہبی طرز فکر سے نہ دیکھنا چا ہتی تھیں۔ ان کا گمان یہ تھا کہ وہ ایک نئی چیز کوجنم دیں گی، عقل کی روشنی سے وہ ظلماتی دور کو نیا نور بخشیں گی اور قدرت کے منصوبے کو دریافت کر لیں گی اور اسطرح انسان کا ایک پیدائشی حق یعنی انسانی خوشی اور خوشحالی انسان کے لئے بحال کر دیں گی ”

٢.٢: جدید علم کا مطلب وہ صلاحیت جس سے انسان ہر خواہش کی تکمیل پر قادر ہو:

حیات انسانی کی مقصد یت کے بارے میں یہ گمراہ کن تصورات سترہویں اور اٹھا رویں صدی کی پیداوار ہیںجنکے نتیجے میں علم کا ایک نیا تصور ابھرا۔ اگر اس دنیا میں انسان کا مقصد ارادے اور خو اہشات کی تکمیل ہے تو پھر اس کائنات میں لامحدود خواہشات انسانی کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ یہا ں کی تمام اشیاء و موجودات اسکے ارادے کے تابع ہوجائیں، کیونکہ جب تک وہ انسانی ارادے کے تابع نہیں ہو جا تیں، تکمیل خواہشات کا خواب کبھی شر مندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ مثلاً انسان کی ایک خوا ہش یہ بھی ہو سکتی تھی کہ وہ ہوا میں اڑے، لیکن اس کی تکمیل کیلئے ضروری تھا کہ وہ زمین کی اپنی طرف گرانے کی قوت پر قابو پائے۔ اشیاء و موجودات کو اپنے ارادے کے تابع کرنے کیلئے ضروری تھا کہ انسان ایسی معلومات حاصل کرنے کے در پے ہو جو اسے تسخیر کائنات کی راہ سجھا ئے۔ لہذا اس تصور حقیقت (کہ زندگی کا مقصد ارادہ انسانی کی تکمیل ہے ) سے جو تصور علم نکلا اسکے مطا بق علم سے مراد ایسی بات جاننا ہے جس کے ذریعے انسان اس چیز پر قادر ہو جا ئے کہ اسکے ارادے کی تکمیل کیسے ہوسکتی ہے اور وہ علم جو انسان کو یہ بتا تا ہے کہ کائنات پر اسکے ارادے کا تسلط کیسے ممکن ہے اسے ‘سائنس ‘ کہتے ہیں ۔ لہذا ترقی کا اصل معنی ہے علم کو سائنس کے ہم معنی قرار دینا، یعنی ترقی سے مراد ان معلومات میں اضافہ ہے جو انسانی ارادے کی تکمیل کو ممکن بناتی ہوں ۔ گویا مغربی تہذیب میں ‘ارادے و خواہشات کی تکمیل ‘ ہی معلومات کے مجموعے اور عالم (knower)کے درمیان تعلق کی بنیاد ٹھہر ا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں علم وہ چیز جاننا نہیں ہے کہ جس سے انسان اپنے رب کی رضا جان لے، یعنی علم یہ نہیں کہ مجھے وضو یا غسل وغیرہ کرنے کا طریقہ اور مسائل معلوم ہو جائیں بلکہ علم تو یہ ہے کہ میں یہ جان لوں کہ پنکھا کیسے چلتا ہے، بجلی کیسے دوڑتی ہے، جہاز کیسے اڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا اب علم رضا ئے الہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں، بلکہ تسخیر کا ئنا ت یا با الفاظ دیگر انسانی ارادے کے کائناتی قوتوں پر تسلط قائم کرنے کا طریقہ جان لینے کے ہم معنی بن گیا ۔ دوسرے لفظوں میں یہاں علم اللہ تعالی کی رضا نہیں بلکہ نفس انسانی کی رضا اور اسکی تکمیل کا سامان فراہم کرنے والی معلومات کا نام پڑ گیا۔ تصور علم کی یہ تبدیلی انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی تبدیلی تھی جس نے انسان کی کامیابی کو کسی خدا کی اطا عت (obedience) کے ساتھ نہیں بلکہ لا متناہی خواہشات انسانی کی تکمیل و ارادہ انسانی کے تسلط (dominance) کے ساتھ مشروط کر دیا۔ سائنسی علم کا یہ مقصد اور اسکے پھیلاؤ کیلئے درکار ضروری اسباب کا نقشہ سائنس کے موجدین اور فلاسفہ نے بڑے وا شگاف الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً گلیلیو کا مشہور مقولہ ہے: Bible shows us the way to heavens, but it does not show the way heavens go یعنی ‘ بائبل ہمیں جنت میں جا نے کا راستہ تو بتاتی ہے، مگر یہ نہیں بتاتی کہ یہ کائنات کیسے چلتی ہے’ ۔ مشہور تاریخ دان H.G. Wellsرا جر بیکن جسے جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے کے خیا لات کو کچھ اس طرح خراج تحسین پیش کرتا ہے:

” بیکن کی کتابیں جہالت کے خلاف بغاوت تھیں۔ اس نے اپنے دور کے لوگوں کو بتایا کہ وہ جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں، اوریہ ایک ایسی بات تھی جسے اس دور میں کہنے کے لئے بہت ہمت درکار تھی۔ قرون وسطی کے لوگ اپنے دور کی ذہانت اورایمانیات کے سچ ہونے کے بارے میں جذباتی حد تک قائل تھے اور انکے خلاف ہر گز کوئی تنقید بر داشت نہ کرتے۔ راجر بیکن کی کتابیںان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ ‘ غیر عقلی ایمانیات اور مسلمہ مقتدرہ (Authority) کی پیروی کرنا چھوڑ دو’۔ دنیا پر غور کرو، (حصول علم کے لئے ) تجربہ تجربہ اور تجربہ (پر زور ) ہی اسکا مقصد تھا۔ اسنے جہالت کے چار اسباب بیان کئے: مسلمہ مقتدرہ کا احترام، اسلاف کے طور طریقوں پر عمل ، ریت و رواج کی پیروی ، اور ہمارے فخریہ مگر نہ سمجھ آنے والے دکھا وے۔ اگر ہم ان چیزوں سے جان چھڑالیں تو پھر سائنسی ایجادات اور مکیینیکل قوت سے بھر پور ایک نئی دنیا انسانیت کو دکھائی دے گی۔ ۔۔(میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ) بحری سفروں کے لئے بغیر ملا حوں کی ایسی مشینیں بنانا ممکن ہے جسے صرف ایک آدمی اس کشتی کی رفتار سے کئی گنا تیز چلا سکتا ہو گا جسے کئی ملا ح مل کر چلاتے ہیں۔ اسی طرح بغیر ڈھور ڈنگر سے چلنے والی ایسی سواریاں بنانا بھی ممکن ہے جو پرانے دور کی تیز ترین سواریوں سے تیز چلتی ہو نگی۔ اور ہوا میں اڑنے والی ایسی مشینیں بنانا بھی ممکن ہے جس میں انسان بیٹھ سکتا ہو اور وہ مشین بالکل پرندوں کی طرح پر ہلاکر چلتی ہو”

بیکن نے یہ تمام تفصیلات اپنی کتاب The New Atlantis میں بیان کی ہیں جس میں اسنے ایک ایسے فرضی جزیرے کی تصویر کشی کی ہے جہاں سائنسی تحقیقات کرنے والا ایک بہت بڑا ادارہ قائم کردیا گیا ہے۔ جہاں کا حاکم آنے جا نے والے لوگوں کو اس جگہ کی سیر کرا تا ہے اور ان سے کہتا ہے ” ہمارے اس ادارے کا مقصد علل و معلول (cause and effect) و حرکت کائنات کے قوا نین اور انسانی ارادے کی حدود کی توسیع کرنے کے طریقے کا علم حا صل کرنا ہے تاکہ ہر چیز کرنا ممکن ہو سکے ”۔ ( A Short History of the World, by H.G. Wells, p. 200-01، بحوالہ مریم جمیلہ صا حبہ کی معرکة الا راء کتا ب Modern Technology and the Dehumanization of Man)۔ اس تصور علم میں فطرت ان معنوں میں انسا ن کی حریف ٹھہری کہ یہ انسانی ارادے کی تکمیل پر حد بندی کرتی ہے اور اسے تسخیر کرکے انسا نی ارادے و خوا ہشات کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا ضروری ٹھہرا۔ آج بھی مو جودہ سائنسی علمیت کا یہ جنون ہے کہ انسانی عقل کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اسکے اپنے سواء ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے ۔ سائنس دانوں کا خیا ل ہے کہ جینیٹکس (Genetics) کی فیلڈ میں تحقیقات کرکے انسانی خون میں ایسی تبدیلیاں لانا ممکن ہے جس کے بعد اسکے اندر پائے جا نے والے غضب اور حسد جیسے جذبات کو ختم کرکے دنیا کو جنگوں سے نجات دلائی جا سکے گی، اسی طرح سائنس دانوں کو امید ہے کہ موت پر قابو پانا ممکن ہے ، اور نجا نے کیا کچھ اور ۔سائنس کے اس اصل جنون کا اظہار دور جدید کی انگریزی زبان میں بننے والی سائنس فکشن فلموں میں سب سے واضح انداز سے نظر آتا ہے جن کے جملوں ، الفاظ اور مرکزی خیالات میں نت نئے انداز کے ساتھ انسان کی خود اپنا خدا بننے کی خوا ہش جلوہ گر ہوتی ہے۔

٣.٢: سرمایہ دارانہ علم کی خصوصیات ( طریقہ حصول علم کے اعتبار سے)

سائنس یا سر مایہ دارانہ طریقہ حصول علم میں حتمی بات اور قانون معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا ۔ سائنسی علمیت حقیقت کے ارتقائی تصور پر ایمان رکھتی ہے جسے سمجھا نے کیلئے ہم ارتقائی تصور علم کی چند خصو صیات بیان کرتے ہیں:

(الف) غیر حتمیت (uncertainity): ارتقائی علمیت کا اول اصول یہ ہے کہ حتمی سچ جاننا نا ممکن ہے ، البتہ سائنسی طریقہ علم استعمال کرکے ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ انسانیت ایک حتمی سچ کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی کلیات کی مدد سے کسی حتمی سچ کا علم حاصل کرپانا ہی سرے سے ناممکن ہے۔

(ب) تردیدیت : اس تصور علم میں وہی دعوی اور قضیہ علم کہلانے کا مستحق ہے جسے تجربے میں لا کر رد کرنا ممکن ہو ۔ سائنس میں علم کو غیر علم سے ممیز کرنے کا معیار تردیدیت (falsification) ہے یعنی اگر کسی بات کو تجربے کے ذریعے غلط ثا بت کرنا نا ممکن ہو تو وہ علم کی تعریف پر پوری نہیں اترے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں زندگی بعد الموت وغیرہ جیسے حقائق علم نہیں سمجھے جا تے کیونکہ یہ سائنس کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔ اس بات کو دوسرے انداز سے یوں سمجھئے کہ ارتقائی علم وہی ہو سکتا ہے جسے غلط ثا بت کرنا ممکن ہو کیونکہ جو بات غلط ثا بت نہیں کی جا سکتی اسمیں ارتقاء کہا ں سے آئے گا ؟

البتہ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سرمایہ داری اور سائنس کی اپنی ایمانیات کبھی سائنس کے اس معیار پر نہیں جا نچی جا تیں بلکہ انہیں ما ننا تو ایما نیا ت کا حصہ ہے اور جو انہیں نہیں ما نتا وہ ہیو من کہلانے کا مستحق نہیں۔ مثلاً سا ئنس کا یہ مفروضہ کہ علم کا منبع انسان کی ذات ہے (یعنی علم انسان کی ذات سے نکلتا ہے) کسی بھی تجربے ثا بت نہیں کیا جا سکتا (یعنی یہ تردیدیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا) لیکن پھر بھی سائنس اسے مفروضے کے طور ما ن کر آگے بڑھتی ہے ۔ گو کہ سائنسی علمیت میں حوادثات عالم کی تشریح اور حقیقت کیلئے کسی ایسی مقصدیت کو تلاش کرنا جسکی نسبت ارادہ انسانی سے باہر مثلاً خدا کی طرف ہو سائنس کے نزدیک ایک لایعنی بات ہے لیکن سائنس یہ نہیں بتا سکتی کہ خود انسانی ذات کی حقیقت کیا ہے بلکہ اسے آزاد اور خود مختا ر فرض کرتی ہے۔ ایسے ہی سائنس کا یہ مفروضہ بھی محض ایمان ہے کہ یہ کائنات کسی خارجی کنٹرول کے بغیر چلنے والا ایک ایسا مکمل قائم بالذات نظام ہے جسکے اندر تبدیلیاں اس کے اندرونی نظام کے تحت آتی ہیں نیز اسکی معنویت سمجھنے کیلئے کسی خدا کی ضرورت نہیں بلکہ اس مشین کو علت و معلول کے چند اصولوں کے ما تحت سمجھنا ممکن ہے ( البتہ سائنس کی دنیا میں ہونے والی تازہ ترین Quantum Mechanics کی تحقیقات نے سائنس کے اس ایمان کی جڑیں ہلا کر کے رکھ دی ہیں )۔ گویا اگر انسان علت و معلول کے قانون کے ماتحت رونما ہونے والے سلسلے کو دریافت کرلے تو نہ صرف یہ کہ وہ اشیاء کی حقیقت سمجھ سکتا ہے بلکہ اسے قابو میں لاکر ان پر اپنا تسلط قائم کرسکتا ہے۔ سائنس کے نزدیک انسان کا اپنی آزادی کی تکمیل کیلئے کائناتی تسلط قائم کرنا ہی اصل حقیقت اور مقصد انسانی ہے۔

(ج) شک نہ کہ ایمان : سرمایہ دارانہ تصور علم کے مطا بق کسی بات کو حتمی اور آخری سمجھ کر اس پر صمیم قلب سے ایمان لے آنا اور دوسروں کو اسکی دعوت و تبلیغ کرنا غیر علمی طریقہ کہلاتا ہے ۔ ہمیشہ اور ہر بات میں شک کرنا اور کسی چیز کو رد کرنے کی کوشش کرنا ہی اصل علمیت کہلا تی ہے ۔ جو شخص مذہبی حقائق پر ایمان لائے اسپر انتہا پسند ، بنیاد پرست اور دہشت گرد کے لیبل چسپاں کر دئیے جا تے ہیں

(د) ترقی (بہتری): ہر نئے دور کا سچ پچھلے دور کے سچ سے بہتر گردانا جا تا ہے کیونکہ اس میں پچھلے دور کے تصور حقیقت کے اچھے پہلو کو شامل کرلیا جاتا ہے اور کمزور پہلووں کو چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ لہذا ہر آنے والا دور پچھلے دور سے بہتر ٹھرتا ہے ۔ مغربی دنیا میں سپنسر، ہیگل اور مارکس وغیرہ نے انسانی علم کے رفتہ رفتہ ایک خا ص منزل کی طرف بڑھنے کے تصور کی بناء پر تا ریخ کی اپنی اپنی تعبیرات پیش کی ہیں جن سب کا حا صل یہ ہے کہ بنی نو ع انسان بحیثیت مجموعی لا شعوری طور پر ایک ایسے عظیم الشان مقصد کی طرف رواں دواں ہے جہا ں پہنچنا اسکا مقدر ہے، لہذا ہر آنے والا دور پہلے سے بہتر ہے ۔ ان تمام تعبیرات کی حیثیت چند قصوں اور کہا نیوں سے زیادہ اور کچھ نہیں جو ان لوگوں نے اپنے اپنے بندکمروں میں بیٹھ کر گھڑ ی تھیں۔

جدیدیت پسند مسلمانوں کو مولوی کی یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ ” ہم مسلمانوں کا سب سے اچھا دور تو دور نبوی ، دور صحا بہ اور سلف صا لحین کا دور تھا جو گزر چکا، لہذا اب آنے والا ہر دور پہلے سے بہتر نہیں بلکہ برا ہو گا جیسا کہ احا دیث مبا رکہ میں بیان کیا گیا ہے”۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مولوی ہمیں پیچھے کی طرف لے جا نا چا ہتا ہے، اور اسمیں شک بھی کیا ہے کہ مولوی تو یہی چا ہتا ہے کہ دنیا کسی طرح پھر ویسی ہی ہو جائے جیسی آقا ئے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحا ب کے دور میں تھی۔ اسی جرم میں مولوی پر دقیانوسی اور تنگ نظر ہونے کی پھپتی کسی جاتی ہے کہ یہ ہمیشہ یہ طے کرنے کیلئے کہ ”ہمیں آگے کیا کرنا چا ہئے ” مستقبل کے بجائے ما ضی کی طرف دیکھنے کو کہتا ہے ، یہ آج کے عمل کو ما ضی کے پیما نوں پر کسنے کی کو شش کر تا ہے، یہ ہدایت حا صل کرنے کیلئے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف پلٹنا سکھا تا ہے ، یہ تو ترقی کا دشمن ہے اور یہ دنیا کو پھر پتھروں کے دور میں وا پس لے جا نا چاہتا ہے۔

(ہ) ایک سے زیادہ حق کا امکان: اس نظریہ علم میں چونکہ کسی بھی چیز کی با بت مسلمہ اور حتمی علم موجود نہیں ہوتا ، لہذا ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ حق نیز دو مختلف افراد کیلئے دو مختلف حق ہو سکتے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں بیک وقت ایک ہی شے کے بارے میں دو مختلف نظریات (theories) کا ہونا معمول کی بات ہے۔

(و) تحقیق برائے تحقیق کا نہج : چنانچہ تحقیق برائے تحقیق کا نام ہی علمی کاوش پڑ گیا، چاہے وہ تحقیق بندروں اور کتوں وغیرہ کے حالات زندگی جمع کرنے کا کام ہی کیوں نہ ہو۔ ہر لغو سے لغو بات جس میں انسانی خواہش کوئی معنی دیکھتی ہو لائق تحقیق ٹھرتی ہے کیونکہ کسی شے کے معنی اللہ تعالی اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی روشنی میں نہیں بلکہ انسانی خوا ہشات اور ارادے کی تکمیل کے پیمانے پر تول کر متعین کئے جاتے ہیں۔

(ذ) ارتقائی تعبیرات کی تلا ش : دور حا ضر میں موجود ہر معاشرتی و انسانی ادارے و عمل کی وحی سے علی الرغم ایک ارتقائی تعبیر پیش کرنے کی روش عام ہو جا تی ہے اور اس فرضی قیاس آرائی کو ہی علمی کا رنامہ سمجھا جا نے لگتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت عمدہ مثال یاد آئی۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک بزرگ ساتھی (اللہ تعا لی انہیں جنت نصیب فرمائے) نے ایک محفل میں شادی کے مو ضوع پر ہونے والی ہوئی گفتگو میں تمام شرکاء مجلس سے سوال کیا ‘کیا آپ لوگ جا نتے ہیں کہ شادی کا ادارہ کیسے قائم ہوا؟’ سب نے پو چھا کہ جناب آپ بتا ئیے ۔ تو انہوں نے کہا کہ اولاً تمام انسان بھی جانوروں کی طرح جنسی تعلقات استوار کرتے تھے، یعنی جس مرد و عورت کا جس سے دل چا ہا خوا ہش پوری کرلی۔ ایک عرصے تک معا ملہ یو نہی چلتا رہا، لیکن پھر آہستہ آہستہ انسا نوں میں جذبہ رقا بت نے جو ش مارا، اور لوگوں کو یہ بات بری محسوس ہونے لگی کہ کل تک جو عورت میرے ساتھ تھی آج کسی اور مرد کے ساتھ کیوں ہے؟ اس جذبے کے زیر اثر انسانی معا شروں میں طا قت کے قانون کا راج شروع ہونے لگا یعنی جس نے آگے بڑھ کر پہلے کسی عور ت پر قبضہ جما لیا پس وہ ہمیشہ کیلئے اسکی ہو گئی۔ پھر بچوں کی پیدائش کے بعد بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کے مسائل سامنے آنے لگے جنہیں حل کرنے کیلئے لوگوں نے کئی طرح کے قوانین بنانے شروع کر دئیے۔ مثلاً یہ کہ بچوں کی ذمہ داری اسی پر ہو گی جس نے عورت پر قبضہ جما یاتھا وغیرہ وغیرہ۔ یوں انسانیت لمحہ بہ لمحہ آگے بڑہتی رہی یہا ں تک کہ لوگوں نے مرد و عورت کے جنسی تعلق کی بنیاد شادی کے ادارے کے ساتھ منسلک کردی۔ جب وہ بزرگ تمام کہانی سنا چکے تو میں نے پو چھا کہ یہ کہا نی آپ نے کہاں سے سنی ، تو فرمانے لگے کہ فلاں سوشل سائنس کے جرنل میں فلاں محقق نے یہ مقا لہ لکھا ہے۔ میں نے کہا یہ بتا ئیں کہ اس پوری کہا نی میں انسانی معا شروں کی کردار سازی میں ایک لاکھ چو بیس ہزار سے زائد انبیاء کرام کا کردار کیا رہا؟ کیا انبیاء نے لوگوں کو نہیں بتایا کہ انہیں کیسے زندہ رہنا چا ہئے نیز کیا انکی تعلیمات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو تاتھا ؟ اس کہانی سے تو یہ تصور ابھرتا ہے کہ گویا اول تو انبیا ء نا م کی کوئی ہستی انسانی تا ریخ میں گزری ہی نہیں، اور اگر تھی بھی تو شاید وہ دنیا کی سیر وغیرہ کرنے کیلئے آتے تھے نیز انسانوں اور معا شروں نے اپنی زندگیاں وحی الہی کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنے حیوانی جذبا ت کے تحت گزاری تھیں۔ یہ کہانی تو ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص حضور پر نور ۖ کا نام لئے بغیر یہ کہے کہ مسلمانوں کے معاشروں میں پایا جا نے والا شادی کا تصور در حقیقت اسلام سے قبل عربوں کے معا شرے میں پائے جانے والی جنسی بے راہ روی کی ارتقائی شکل ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز کہانی ہے، کیونکہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ معا شرتی تبدیلی انسانی جذبات کے محرکات میں ارتقاء کے طور پر نہیں بلکہ ایک نبی کی تعلیمات پر عمل کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ اگر شادی کے ادارے کا یہ سفر کوئی ارتقائی سفر تھا تو پھر مغرب میں یہ ادارہ ٹوٹ کیسے گیا؟ ارتقاء کا تقاضا تو یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ مضبوط سے مضبوط تر ہو تا چلا جاتا ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ انبیاء کرام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کرزندگی گزارتا ہے تو وہاں زندگی کا اظہار صرف حیوانی سطح پر ہی ہو تا ہے جسکا نظارہ ہم مغربی دنیا کی غلیظ اور پلید معا شرت میں کر سکتے ہیں ۔

یہ محض ایک مثا ل تھی، ورنہ اس طرز کی اور بھی کئی فرضی کہا نیاں ہمارے ہاں مشہور ہیں، مثلاً یہ کہ سب سے پہلے انسانیت پر غاروں اور پتھروں کا دور گزرا کہ جب سب لوگ غاروں میں رہتے تھے، پتے اور جا نوروں کی کھالوں سے اپنے بدن ڈھا نپتے تھے، جنگلوں میں جنگلیوں کی طرز کی زندگی اختیار کئے ہو ئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام کہانیوں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہ سب کی سب انسانی معا شروں کی تشکیل میں وحی اور انبیاء کرام کے کردار کو نظر انداز کرنے کیلئے گھڑی گئی ہیں جسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں وحی کو علم نہیں سمجھا جاتا ۔

٤.٢: سرمایہ دارانہ علم کی منطقی منزل

ایک نئی شخصیت کا جواز : سر ما یہ دارانہ جا ہلی تصور علم نے اخلاق رزیلہ سے متصف ایک نئی قسم کی شخصیت کے اظہار کا جواز فراہم کیا جس کے نتیجے میں ایک نئی انفرادیت معا شروں میں مقبول ہوئی۔ سر مایہ دارانہ تصور علم سے پہلے صرف ایسی شخصیت ہی معا شروں میں عزت کی نگا ہ سے دیکھی جاتی تھی جن کی زندگی انبیاء کرام کی تعلیمات اور اسوائے حسنہ کا منہ بولتا ثبوت ہوتی۔ لیکن اس تصور علم نے ایک ایسی شخصیت کے علمی جواز کی بنیادیں فراہم کیں جو انبیاء کرام کی تعلیمات سے کوسوں دور اور اخلاق رزیلہ سے متصف ہونے کے با وجود بھی معا شرے میں ایک با عزت علمی مقام پر فائز ہوسکتی تھی۔ اس ضمن آئن سٹائن کی مثال نہا یت وا ضح ہے جسے سائنس کی دنیا میں ایک امام کی سی حیثیت حاصل ہے لیکن اسکی زندگی زنا و بدکاری کی غلاظت سے لت پت تھی (آئن سٹائن کے نجی معاملات زندگی ان خطوط سے واضح ہوتے ہیں جو اسکی پوتی نے چھاپے ہیں)۔ ایسے ہی با وجود اسکے کہ کانٹ اغلام باز تھااسے مغربی فلسفے میں بلند ترین مقام حا صل ہے ۔ اگر آپ مغربی علم کے کسی دلدادہ شخص کو یہ مثال دیں تو وہ کہے گا کہ اسکے اخلاق کو مت دیکھو بلکہ اہم چیز اسکا سائنسی کارنا مہ ہے۔ گویا مذہبی اخلاقیات اب علم کے معنوں میں شا مل ہی نہیں رہیں۔ سرمایہ دارانہ تصور علم میں ایسی معلومات کو علم سمجھا جا تا ہے جو سرمایہ دارانہ اخلاقیات یعنی حرص و حسد کی غماز ی کرتی ہوں (١سکی تفصیل آگے آرہی ہے)۔ آج علم کا تصور اس حد تک گر چکا ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر ، وکیل، ایم بی اے وغیرہ خاتون ننگے سر اور نیم برہنہ حالت میں ٹی وی پر بیٹھ کر انٹرویو دے رہی ہو تو اسکے علمی کارناموں کا تعارف اس شان سے کرایا جاتا ہے گویا وہ کتنی بڑی عالمہ ہے۔ اسکے مقابلے میں گاؤں میں رہنے والی خاتون جسکی حیا اسے نا محرم کے سامنے جانے سے روکتی ہو اسے جاہل ، ان پڑھ اور گنوار کہا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ تصور علم نے مادہ پرستا نہ سوچ اور دنیا داری کے رجحا نات کو تقویت بخشی اور رہی سہی عیسائی اخلاقیات کا جنازہ مارٹن لوتھراور کیلوین جیسے مفکرین کے خیالات سے برآمد ہونے والی پروٹسٹنٹ ازم نے نکال دیا۔ اس فرقے نے عیسائی عوام میں یہ خیالات عام کئے کہ بائبل کی تشریح ہر شخض خود کر سکتا ہے، انسان اور خدا کے درمیان تعلق فرد کا نجی معاملہ ہے جس کی صحت و عدم صحت پرکسی دوسرے فرد (مثلاً پوپ) کو حکم لگانے یا فتوی دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ، چونکہ خدا اور بندے کا تعلق نجی اور اندرونی احساسات پر مبنی ہے لہذا ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ عبادت کرنے کا جو بھی طریقہ اختیار کرنا چاہے کرلے، دنیا کی کامیابی آخرت کی کا میابی کا پیش خیمہ ہے ، اصل عبادت چرچ جانا یا ذکر و ازکار کرنا نہیں بلکہ دنیا کے کام زیادہ انہماک سے کرنا ہے نیز فطرت کا مطا لعہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جتنا بائبل کا۔ در حقیقت جدیدیت کی کامیابی کی ا صل وجہ مادہ پرست فلسفیوں کے افکار سے زیادہ وہ مذہبی عناصر تھے جنہوں نے اصلاح مذہب کے نام پر مذ ہبی تعلیمات کو مسخ کرکے جدیدیت کی مذہبی توجیہات بیان کیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس اورمیکس ویبر جدیدیت کی کامیابی کواصلاح مذہب کی تحریک (Reformation) کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر اصلاح مذہب کی تحریک کا میاب نہ ہوتی تو جدیدیت یورپ میں شکست کھا جاتی کیونکہ مذہبی آزادی کی روش ہی وہ راستہ ہے جو آگے چل کر نفس پرستی اور دنیا کی محبت جیسے جذبات دلوں میں راسخ کرنے کا باعث بنتی ہے۔

مذہبی ایمانیات کا انکار : ادراک حقیقت کے اس ارتقائی تصور کا دوسرا منطقی نتیجہ بالاخر پس جدیدیت (post-modernism) کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے حق کے وجود ہی کا انکار کر ڈالا۔ جدیدیت نے ادراک حقیقت کے لئے سائنسی طریقے پر اعتماد کرنے کی دعوت تو دی لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ حقیقت کا حتمی ادراک ممکن ہی نہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی حتمی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تو اسے تلاش کیوں کیا جا ئے؟ نیز جب حقیقت معلوم ہی نہیں تو یہ کیسے طے ہو گا کہ جس سائنسی طریقے پر ہم عمل پیرا ہیں و ہ ہمیں حقیقت کے قریب کر رہا ہے یا دور ؟ یعنی جب منزل کا ملنا ہی نا ممکن ٹھرا تو اس بات کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ ‘کس طرح’ دوڑا جائے ؟ یہی وہ سوالات ہیں کہ جن کا جدیدی مفکرین کے پاس کوئی جواب تھا ، نہ ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔ اس فکر نے کسی حتمی حقیقت (absolute truth) کے وجود ہی کا انکار ڈالا، یعنی حقیقت ایک اضافی (relative) شے بن گئی جو ہر فرد، معا شرے اور زمانے کے لئے مختلف ہو سکتی ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک زندگی بعد الموت وغیرہ کے سوالات کالعدم اور لا یعنی ٹھرے یعنی جب مرنے کے بعد زندگی ہے ہی نہیں تو اسکے بارے میں سوچنا بے کار کی بات ہے۔ انکے نزدیک اصل مسئلہ تو اس وجود انسانی کا ہے جو اس دنیا میں اسے حا صل ہے ، اس وجود سے پہلے انسا ن نہ تو کہیں تھا اور نہ ہی اس کے بعد وہ کہیں اور جا نے والا ہے۔ اس فکر کے نتیجے میں پس جدیدیت کے نزدیک دنیا وی زندگی کی حقیقت اور معنویت محض کھیل تما شہ اور مزے کرنا ہے، وٹنگسٹائن کی فکر کا نچوڑ یہ ہے Life is a game, and maturity is to play it seriously یعنی زندگی ایک کھیل ہے اور عقلمندی یہ ہے کہ اسے سنجیدگی سے کھیلا جائے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب یہ فکر یورپ میں عام ہوئی تو نو جوانوں میں خود کشیاں کرنے ، سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں جا بسنے اور ہیروئن اور بھنگ استعمال کرکے مست رہنے کے رجحا نات پروان چڑھے ۔ وٹنگسٹائن جیسے بڑے فلسفی نے با لآخر تنگ آکر خود کشی کی۔ یہ نت نئے فیشن کی بھر مار اور راک موسیقی کا پھیلاؤ اسی زمانے کی پیداوار ہے ، الغرض ہر ایسا کام کیا جانے لگا جسے لوگ عجیب سمجھتے تھے اور ہر ایسے کام میں معنی تلاش کئے گئے جنہیں لوگ عام طور پر بے معنی گردانتے تھے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر زندگی بے معنی ہے تو پھر کسی خا ص طریقے سے ہی زندگی گزارنے میں معنی کیوں تلاش کئے جا ئیں، ہر طریقہ مساوی طور پر بے معنی ہے لہذا سب کا اظہار کرنا چا ہئے۔ آخر کسی خاص طریقے کے ساتھ ہی گا نا کیوں گا یا جا ئے، ہر اس طریقے سے گا نا گاؤ جسے لوگ عام طور پر غیر عقلی (senseless) سمجھتے ہیں۔ یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ آئے دن سر اور دا ڑھی کے بالوں کے نئے نئے انداز نظر آ تے ہیں، کبھی پینٹ کے پائنچے پھاڑ لئے جا تے ہیں کبھی اسے الٹا کر کے پہنا جا تا ہے، کبھی مرد کانوں میں با لیاں لٹکا ئے گھومتے دکھا ئی دیتے ہیں، اور عورتوں کے فیشن کی بھر مار وغیرہ وغیرہ، اور جب ان سے پو چھا جا ئے کہ بھائی یہ کیا کر رہے ہو تو جواب ملتا ہے ‘فیشن’۔ فیشن کا مطلب ہی بے معنی کاموں میں معنی تلاش کرنا ہے، آزای کا خواہاں شخص معنویت ‘فرق’ (difference) میں تلاش کرتا ہے یعنی آزاد انفرادیت کا اظہار فرق کے طریقے سے ہوتا ہے ، جبکہ عبدیت کا اظہار فرق میں نہیں بلکہ یکسانیت (similarity) میں ہوتا ہے یعنی میری ذات جس قدر آقائے دو جہاںۖ کی ذات والا میں فنا ہوگی اتنی ہی زیادہ معنی خیز ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مولوی اور صوفی وہی حلیہ اپناتا ہے جو چودہ سو برس قبل کانقشہ پیش کرسکے۔ زندگی بعد الموت اور اسکی اصل حقیقت کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان مفکرین کے ہاتھ زندگی بعد الموت کے خلاف کوئی ایسی قاطع دلیل آ گئی ہے جسے رد کرنا نا ممکن ہو، بلکہ یہ حقائق حصول علم کے ان ممکنہ ذرائع کی گرفت سے ہی باہر ہیں جن پر وہ ایمان رکھتے ہیں (یعنی حواس خمسہ اور عقل انسانی ) ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ادراک حقیقت کا ذریعہ اگر کوئی ہے تو وہ وحی یعنی انبیاء کرام کی تعلیمات ہیں جنکی حیثیت خبر صا دق کی ہے اور جنہیں کسی اور ذریعہ علم سے پرکھا (judge) نہیں جا سکتا ہے کیونکہ یہی اصل میزان ہیں۔

پس جدیدیت کے ان افکار ات کو ان معنوں میں علمی سطح پر برتری حاصل ہوئی ہے کہ جدیدیت کے حامی مفکرین مثلاً ہیبر ماس وغیرہ کے پاس ان کے جواب میں مغربی تہذیب کے آفاقی نیز عقلی طور پر برترہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں رہی۔ البتہ ابھی اس فکر کا اظہار سیاسی سطح پر نہیں ہوا ، لیکن یا د رہے کہ فکر پہلے کتا بوں میں لکھی جاتی ہے اور پھر وہ معاشرے اور ریاست میں نفوذ کرتی ہے ۔ آخر لوگ ایک دن میں ہی تو enlightenedنہیں ہوئے تھے بلکہ کئی صدیوں کی خونی تاریخ کے بعد ہی جدیدیت معا شروں پر غالب آئی۔ بدقسمتی سے ہمارے مسلم مفکرین (جو کئی صدیاں پیچھے کی سوچتے ہیں) جدیدیت کیلئے اسلامی علمیت سے دلائل فراہم کرنے کی فکر میں کوشاں ہیں : کبھی اجتہاد کے نام پر نصوص شریعت میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ، کبھی اسلام کی نئی تعبیر کی بات کرتے ہیں ، کبھی اجماعی مسائل امت سے انحراف کی دعوت دیتے ہیں ، کبھی مغربی افکار و تصورات کی حقیقت سمجھے بغیر ہی انہیں اسلام میں تلاش اور انکا اسلامی جواز فراہم کرتے ہیں ، اور سب سے بڑھ کر عوام کو مذہب سے برگشتہ کرنے کیلئے مولوی کو طعن و تشنیع کا نشا نہ بناتے ہیں تاکہ عوام کا رابطہ علما سے کٹ جائے اور جدیدیت کی راہ ہموار ہو سکے۔ خوب سمجھ لینا چا ہئے کہ مساجد و مدارس اور علمائے کرام کے وقار کا تحفظ درحقیقت جدیدیت کے خلاف جنگ میں اسلام کی زندگی اور بقا کا مسئلہ ہے، اگر ہم اس محاذ پر ہار گئے تو پھر جدیدیت کے سیلاب کے آگے بندھ باندھنے والا کوئی منفرد گروہ باقی نہیں رہے گا ۔

٥.٢: سرمایہ دارانہ علم کی تشکیل

سرمایہ دارانہ علم در حقیقت (anthopocentric approach) یعنی ‘حوادثات عالم اور انسانی زندگی اور معا شروں میں رو نما ہونے والی تبدیلیوں کی تشریح و تعبیر میں انسانی نقطہ نگاہ سے غور کرنے ‘ کے رویے کا نام ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وحی سے حا صل ہونے والے علم کی روشنی میں اس کائنات اور انسانی معاشروں کو سمجھنے کی کو شش کرنا سرمایہ دارانہ تصور علم میں معتبر علم نہیں کہلاتا۔ سائنسی علوم کے ماہرین جب بھی انسانی رویوں کے اخلاقی و غیر اخلاقی اظہار اور معا شروں و ریاست کی صحیح اور غلط تشکیل و ترتیب کے اصول وضع کرتے ہیں تو اسکے لئے وہ ہر گز وحی کی طرف رجوع نہیں کرتے، بلکہ وہ آزادی، مساوات اور ترقی کے مجموعی خا کے کو سامنے رکھ کر ان سوالات پر غور کرتے ہیں۔

تنویری علم سائنس کی دو شاخوں کی صورت میں متشکل ہو کر آج ہما رے سامنے موجود ہے: (١) طبعی سائنسز اور (٢) معاشرتی سائنسز (natural and social sciences)۔ پہلے کا دائرہ کار انسانی ارادے کے کا ئناتی قوتوں پر تسلط کے امکانات کو بڑ ھا نا جبکہ دوسرے کا مطلوب ایک ایسے معیاری معا شرے اور ریاست کی ترتیب و تنظیم کا لائحہ عمل وضع کرنا ہے جہا ں افراد کو زیادہ سے زیادہ آزادی اور سرمائے کی بڑہوتری کے مواقع میسر آسکیں۔ اس بات کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے جیسے اسلامی علمیت علم الفقہ، کلام اور تصوف وغیرہ کی صورت میں متشکل ہوکر سا منے آئی ہے۔ یعنی جیسے علم اصول فقہ اور فقہ کا مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ نصوص سے وہ اصول اخذ کرنا ہے جنکی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ ان گنت انسانی اعمال و افعال سے رضا ئے الہی کے حصول کا درست طریقہ کیا ہے (یعنی ان اعمال کا شرعی حکم بیان کیا جا سکے ) نیز یہ معلوم کیا جا سکے کہ افراد کے تعلقات کو کن ضروری بندشوں کا پا بند بنا کر معاشرے کو احکامات الہی کے تابع کیا جاسکتا ہے ۔ بالکل اسی طرح سوشل سائنسز کا مقصد ایک طرف سرمایہ دارانہ شخصیت ، معا شرے و ریاست کی علمی توجیہہ پیش کرنا ہے اور دوسری طرف یہ افراد کے تعلقات میں آزادی کی ان لازمی حد ود کا تعین کرنے کے اصول وضع کرتی ہیں جنکے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معا شرتی و ریاستی صف بندی وجود میں آسکے ۔ تنویری مفکرین کا یقین تھا کہ جس طرح فطرت میں ایسے قوانین ہیں جو اشیاء پر عائد ہوتے ہیں بالکل اسی طرح انسانی معا شروں میں بھی ایسے قوانین فطرت ہیں جن کے تحت معا شرے قائم رہتے ہیں لہذا معا شروں اور انسانی تعلقات کی تفہیم کے لئے بھی سائنسی تجربے اور مشاہدے کا طریقہ استعمال کرنا ضروری ہے ۔ سو شل سائنسز کا مقصد ایک ایسے نئے دستور، ایک ایسے نئے قانون، ایک ایسے نئے معا شرتی نظام کا قیا م ہے جسے الہامی اور آسمانی قانون سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہو۔ ایک ایسا نیا سیاسی ڈھانچہ جس میں کوئی رعایا (subjects) نہ ہو بلکہ سب شہری (citizens) ہوں۔

٦.٢: سرمایہ دارانہ علمی اخلاقیات: ‘خریدو فروخت’ (Buying and Selling) کی ذہنیت کا عموم

لیوتارڈ ایک نامی گرامی پس جدیدی فلسفی ہے جس نے سائنسی علمیت کی حقیقت ‘خرید وفروخت’ کے معنی خیز الفاظ میں بیان کی ہے ۔ اس بات کی تفہیم کیلئے خواہشات اور سرمائے کے تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔ تسخیر کائنات اور لامحدود خواہشات کی تکمیل کو مقصد علم ٹھرانا درحقیقت سرمائے کی بڑھوتری (accumulation of capital) کو اپنا مقصود بنانا ہے، کیونکہ ہر خواہش کی تکمیل سرمائے ہی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اگر کوئی فرد یا معاشرہ آزادی کا خواہاں ہے تو اسکا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ درحقیقت سرمائے میں اضافے کا خواہاں ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل بغیر سرمائے کے ناممکن العمل ہے۔ مثلاً ایک شخض یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس عالی شان بنگلہ ہوجس میں دنیا بھر کی پر تعیش اشیاء الٹ دی گئی ہوں، نئے ماڈل کی گاڑی ہو، کئی عدد پلاٹ اور کئی کمپنیوں کے شئیرز اسکی ملکیت ہوں جن سے حاصل ہونے والے نفع سے وہ مزید کاروبار کر سکتا ہووغیرہ وغیرہ ، تو ظاہر بات ہے کہ یہ تمام خواہشات بغیر سرمائے کے عملی شکل اختیار نہیں کر سکتیں۔چنانچہ معاشیات کا مضمون اس بات کو باور کراتا ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادیت (یاآزادی) کا اظہار عمل صرف (Consumption)کے ذریعے کرتا ہے یعنی وہ جتنی زیادہ تعداد میں اشیاء کو اپنے استعمال میں لا کر صرف (Consume)کرتا ہے اتنی ہی زیاد ہ خواہشات کی تسکین کر سکتا ہے۔ اورایک صارف (Consumer) زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین تبھی کر سکتا ہے جب اسکے پاس زیادہ سے زیاد ہ اشیاء خریدنے کیلئے آمدنی (Income) ہو۔اسی طرح معاشیات کا مضمون یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کی خواہشات لامحدود (Infinite)ہونی چاہئیں ،مگر چونکہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع لامحدود نہیں ہیں، لہذا زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ فرد اپنے ذرائع کو اپنے وجود کی ممکنہ حد تک بڑھانے کی کوشش میں لگارہے(ذرائع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کی اسی خواہش کو ماہرین معاشیات عقلیت (Rationality) کا معیار کہتے ہیں ، یعنی عقلمند شخص (Rational agent)وہی ہے جو سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش رکھتا ہو )۔ آزادی کا مطلب ہی سرمائے کی بڑہوتری ہے اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں، جو شخص آزادی کا خواہاں ہے وہ لازماً اپنے ارادے سے اقدار کی وہی ترتیب متعین کرے گا جس کے نتیجے میں اس کی آزادی میںاضافہ ہو کیونکہ سرمایہ ہی وہ شے ہے جو ممکن بناتا ہے کہ انسان جو کچھ بھی چاہے حاصل کر سکے۔ سرمائے کی بڑھوتری ہی وہ کسوٹی ہے جس پر ہیومنز کی ہر خواہش اور خواہشات کی تمام ترتیبوں کو جانچا جاتا ہے اور انکی تقابلی قدر (Exchange value)اسی قدر محض کے مطابق متعین ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت (rationality) ہرفعل کو خود ارادیت اور خود غرضیت کے پیمانے پر تول کر اس کی تقابلی قدر متعین کرتی ہے۔ جب للہیت، محبت، طہارت، تقوی، آخرت کا خوف، عفت، حیا، غیرت، ایثار، شوق شہادت کو اس پیمانے پر تولا جاتا ہے تو یہ بالکل بے وقعت اور بے قدر دکھائی دیتی ہیں۔ ایک سول سوسائٹی یا سرمایہ دارانہ معاشرے میں ا ن اوصاف حمیدہ کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اس معاشرے کے نظام تعلیم کا مقصد تسخیر کائنات اور تمام فطری قوتوں کو ہیومن کے ارادے کے مطیع بنانے کو بطور مقصد کے قبول کرنے کی ایمانیا ت کو مستحکم بنانا ہوتا ہے (مزید تفصیل کیلئے دیکھئے : ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری ، ساحل اگست ٢٠٠٦: ص ٣٨) ۔

اس بحث سے واضح ہوا کہ سرمایہ دارانہ علم کا مقصد سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری ہوتا ہے۔ سرمائے کی بڑھوتری کا یہ عمل اسی وقت ظہور پزیر ہوتا ہے جب علم بذات خود نفع خوری (profit-maximization) کے نظم (Discipline) کا پابند اور اسکے تابع ہوجائے ، یعنی علم تعمیر کیا جائے ‘بیچنے’ کیلئے اور اسے ‘خریدا ‘ جائے صرف (consumption)کرنے کیلئے [knowledge is produced for sale, and purchased for consumption]۔ دوسرے لفظوں میں تکمیل خواہشات کی ذہنیت علم کو خریدوفروخت میں تبدیل کردیتی ہے اور خرید و فروخت کی یہ ذہنیت ہی سرمایہ دارانہ علمیت کی اصل شکل (essence) ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات سے لیکر سوشل و بزنس سائنسز کی تحقیقات تک خرید وفروخت کے اسی عمل کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مثلاً جب ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹر یا بزنس سائنس کا طالب علم چار سال کی محنت شاقہ کے بعد اپنے تعلیمی کیرئیر کے آخری سال میں اپنا تحقیقی کام (Research project) کرنے لگتا ہے تو اسکے اساتذہ اسکے پلے یہ ہدایت نامہ باندھتے ہیں: ‘بیٹا ایسا کام کرو جسکی کوئی مارکیٹ میں مانگ (Market value) ہو ، فضول کاموں میں وقت برباد مت کرو’۔ درحقیقت یہی نصیحت تمام تر علم اور ٹیکنالوجی کا نقطہ آغاز و انتہا ہوتا ہے۔ تعلیم، تحقیق اور کنسلٹنسی (consultancy) کے تمام تر ادارے اسی اصول پر اور ایسا ہی علم تعمیر کرتے ہیں جسے زیادہ متوقع منافع و آمدنی کے ساتھ کمپنیوں کو بیچنا ممکن ہو، اور کمپنیاں ایسے ہی علم کو خریدتی ہیں جسے وہ اپنے پیداواری عمل میں استعمال کرکے مزید اشیاء بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ خرید و فروخت کا یہ علم جب معاشروں میں پروان چڑھتا ہے تو معاشرے ‘مارکیٹ ‘ میں تبدیل ہوجاتے ہیںجہاں تعلقات کی بنیاد محبت، صلہ رحمی، تعاون اور مذہب نہیں بلکہ ‘اغراض ‘ اور اشیاء اور خدمات کی لین دین (Exchange of goods and services) بن جاتی ہیں۔ ظاہر سی با ت ہے کہ کسی شے کے لین دین میں ایک شخص ڈیمانڈر (Demander) اور دو سرا سپلائیر (Supplier) ہواکرتا ہے،اورسرمایہ دارانہ معاشرے میں طلب اور رسد (Demand and Supply) کا اصول ہی درحقیقت ہر رشتے اور تعلق کی اصل روح ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ تعلق کی یہ نوعیت صرف موچی، درزی، کسان ،مزدور ،سرمایہ دار وغیرہ کے درمیان ہی بننے والے تعلقات میں ہوتی ہے،بلکہ ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر تعلق (چاہے میاں بیوی کا ہو یا ماں باپ کا)کی روح آہستہ آہستہ بس طلب اور رسد (Demand and Supply) پر منتج ہو جاتی ہے کیونکہ اس معاشر ے کے تمام افراد ماں باپ، بھائی بہن، استاد شاگرد یا پیر مرید نہیںبلکہ پروفیشنل (professionals) ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک مذہبی معاشرے میں استاد کا تعلق اپنے شاگرد سے باپ اور مربی کا ہوتا ہے،اس کے مقابلے میں مارکیٹ (یا سول)سوسائٹی میں یہ تعلق ڈیمانڈر اور سپلائیر (Demander and Supplier) کا ہوتا ہے یعنی استاد محض زر کی ایک مخصوص مقدار کے عوض ایک خاص قسم کی خدمت مہیا کرنے والا جبکہ طالب علم اس خدمت کا ڈیمانڈر ہوتا ہے اور بس۔ ہر وہ تعلق جسکی بنیاد ڈیمانڈ اور سپلائی کی روح پر استوار نہ ہو سرمایہ دارانہ معاشرے میں لایعنی، مہمل، بے قدرو قیمت اور غیر عقلی (irrational)ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیار عقلیت کے مطابق عقل مندی (Rationality)اسی کا نام ہے کہ آپ تعلقات ذاتی اغراض کی بنیاد پر قائم کریں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی معاشرے میں سائنسی (بشمول طبعی و عمرانی) علوم عام ہوں اور افراد میں ذاتی اغراض اور حرص و حسد نیز دیگر اخلاق رزیلہ پروان نہ چڑھیں۔ یہ تعلق بالکل ایسا ہی ہے جیسے مذہبی علوم کا مقصد افراد میں زھد، تقوی ، عزیمت ، عشق رسول ۖ وفنا جیسی صفات عام کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ علوم کی بالا دستی کا مطلب در حقیقت افراد کی ذہنیت اور معاشروں کو خرید وفروخت کے نظم میں شامل اور تابع کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ایسے علوم (مثلاًمذہبی علم) جو خریدوفروخت کی کسوٹی پر پورا نہ اترتے ہوں یعنی جنہیں خریدنے اور بیچنے کے نتیجے میں سرمائے کی بڑہوتری کے مواقع کم ہوںانکے پنپنے کے مواقع بھی اتنے ہی کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے معاشرے (مثلاًمذہبی معاشرے) جہاں علم کے معنی خرید وفروخت نہ ہوں وہاں سرمایہ دارانہ علوم ہر گز ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں ‘اعتدال پسند’ اور enlightened ہونے کا سبق دیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر سائنسی علوم کا فروغ اور ترقی ہرگزممکن نہیں۔

نتائج: نوٹ کرنے کی اہم باتیں

اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ علم سے مراد وہ مجموعہ معلومات ہے :

٭ جو ارادہ انسانی و خواہشات کی تکمیل (self-determination) کو ممکن بناتا ہو، اسے سائنس کہتے ہیں

٭ جو وحی کے علم ہونے کے انکارپر مبنی ہے لہذا یہ جہالت خالصہ ہے

٭ جسکا مقصدانسان کے تمتع اور تصرف فی الارض میں لا محدود اضافہ ہے

٭ جو اس مادہ پرستانہ تصور حیات کو بطور مقصد حیات قبول کرنے کی ذہنیت عام کرتا ہے

٭ اس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں افراد میں بہت سے اخلاق رزیلہ پھیلتے ہیں:

ـ خود غرضی (اپنے مقصد کیلئے دوسروں سے تعلقات قائم کرنا)

ـ حرص (زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش)

ـ حسد (دوسروں سے زیادہ دولت کی خواہش)

ـ طول امل (دنیا کی بے پناہ محبت ، طویل العمری کی خواہش اور موت سے کراہیت)

ـ غضب (ہر شے کو قابو اور زیر کرنے کی خواہش )

ـ لذت پرستی (خواہشات نفسانی کی کثرت )

ـ عبادات کو حقیر جاننا، ضیاع اوقات، گنا ہ کے کاموں کو تفریح سمجھنا، کلام لغو (جو فحش گوئی، کھیل تماشوں، فلموں ، ٹھٹھے بازی اور جنس مخالف کے موضوعات سے پر ہوتا ہے) وغیرہ کے اوصاف کا پیدا ہوجا نا ایک فطری عمل ہے۔

٭ جس میں کوئی حتمی حق نہیں ہوتا (سوائے اس کے کہ انسان قائم بالذات ہے)

یہ فکر اور تصوربدا ہتاً لغو اور عقلاً با طل ہے اسی لئے فکری سطح پر سرمایہ دارانہ علمیت ایک دم توڑتی ہوئی فکر ہے ، لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم اسکی ماہیت و مقاصد کی سمجھ بوجھ حاصل کرکے اسکا محا کمہ کرنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ اس کی حما یت میں امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماع کا انکار کرکے اس جاہلی علمیت کے لئے دلائل فراہم کر دیں ۔ ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر مسلما نوں نے جدیدی علمیت کے افکار و نظریات کے خدوخال پر اپنے معاشروں اور ریاست کو تشکیل دیا تو وہ لازماً ایک قوم پرست مسلم سرمایہ دارانہ ریاست ہی بنا پا ئیں گے جس کے نتیجے میں اس ملک کے مسلمانوں کو تو شا ید کوئی مادی فوائد مل جائیں لیکن اسلام کو ہر گز بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password