جدید دور کی ایک نمایاں خصوصیت جرائم میں بے تحاشا اضافہ بھی ھے۔ جرائم کے اس فروغ اور مارکیٹ نظم میں راست تناسب ھے۔ کیوں؟ تین وجوہات کی بنا پر:
1) مارکیٹ نظم لامحدود خواھشات کی تکمیل کیلئے ہر شخص کو ذاتی اغراض کا اسیر بنا کر حصول سرمایہ کی جدوجہد کو پروان چڑھاتا ھے
2) یہ نظم معاشرے کو انفرادیت پسندی پر منتج کرکے خاندان کی فطری معاشرت کو تہس نہس کردیتا ھے، یوں فردکی تربیت و اصلاح کو محبت و صلہ رحمی کے تانے بانے سے منقطع کرکے فرد کو پروفیشنلز (ڈے کئیر سینٹرز، ٹی وی، ویڈیو گیمز، خود غرضانہ تعلیم دینے والے جدید تعلیمی اداروں وغیرہ) کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ھے
3) خداندانی نظم کے مقابلے میں یہاں ہر فرد ‘اکیلا’ ھوتا ھے، لہذا روایتی تعلقات کی حدبندیوں اور چیکس اینڈ بیلنسز کے نہ ھونے کے نتیجے میں واردات کرجانا (اس طرح کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلے) نہایت آسان ھوجاتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ قبائلی یا برادری نظم معاشرت میں جرائم کی شرح نہایت کم ھوتی ھے کہ یہاں فرد کیلئے ایسے ”نامعلوم افراد” کے کردہ جرائم کے مواقع ہی نایاب ھوتے ہیں (جو لوگ گاؤں کی زندگی سے واقف ہیں وہ اسے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ کس طرح ہر ایک شخص کو جانتے ھوتے ہیں نتیجتا کسی کیلئے جرم کرنا آسان نہیں ھوتا کہ وہ ہزاروں ”جاننے والی آنکھوں” کے سامنے ھوتا ھے)
جرائم کی حد سے بڑھی ھوئی اس شرح کو کنٹرول کرنے کیلئے زبردست ریاستی نگرانی و جبر (surveillance) کی ضرورت پڑتی ھے، مگر اس کے باوجود بے تحاشا جرائم ھوتے ہیں کیونکہ ریاست بہرحال ہر اکیلے خود غرض فرد کو اپنے سے طاقتور خودغرض اکیلے سے بچانے کیلئے موجود نہیں ھوسکتی اور ریاست کے علاوہ یہاں کوئی پناہ گاہ نہیں ھوتی (جیسے کہ قبائلی یا برادری نظم میں موجود ھوتی ھے)۔ لہذا ریاست ان خود غرض افراد کو تحفظ فراھم کرنے کیلئے سرویلئنس کا دائرہ بڑھاتے بڑھاتے انکے بیڈ روم یہاں تک کہ انکی جیبوں تک پہنچ جاتی ھے (تاکہ ہر کسی پر نظر رکھ سکے کہ کون کیا کررھا ھے)۔
علم معاشیات کا یہ دعوی ھے کہ ذاتی اغراض پر مبنی معاشرتی (مارکیٹ) نظم ایک خودکار ھم آھنگی (equilibrium) سے ہمکنار ھونے والا نظام ھے (یعنی ذاتی اغراض کی جدوجہد معاشرتی ھم آہنگی کے حصول کا سب سے بہترین ذریعہ ھے، لہذا حصول ھم آہنگی کیلئے ریاستی مداخلت کی ضرورت نہیں)۔ مگر یہ ایک سفید جھوٹ ھے (جو نیوکلاسیکل اکنامکس کی تقریبا تمام کتب میں لکھا ھوا ھے)۔ درحقیقت مارکیٹ نظم ایک ایسا معاشرتی نظام ھے جو ہمہ وقت بحرانوں (dis-equilibrium and crises) کا شکار رھتا ھے اور جسے سہارا دئیے رکھنے کیلئے ریاست کی زبردست جابرانہ قوت و ہمہ وقت مداخلت کی ضرورت ھوتی ھے۔ ایسا اس لئے کہ حصول آزادی (لامحدود خواھشات کی تکمیل) ایک غیر عقلی، غیر فطری و نا ممکن الحصول مقصد ھے۔ اس معاشرت میں جرائم و کرپشن کی کثرت اسی غیر عقلیت کا ایک اظہار ھے۔
چنانچہ مارکیٹ نظم میں جرائم کی محض معروف شکلوں (چوری، ڈاکہ، قتل، ریپ، بدکاری وغیرہ) میں ہی اضافہ نہیں ھوتا بلکہ کرپشن (رشوت، جھوٹ، ملاوٹ، دھوکہ بازی، چور بازاری، دو نمبری، لوٹ مار،اختیارات کے بے دریغ استعمال وغیرہ) میں بھی بے پناہ اضافہ ھوتا ھے۔ ذاتی اغراض کی تکمیل کی خاطر کنٹریکٹ پر مبنی اس معاشرت میں ہر فرد اپنی ذاتی اغراض کا اسیر ھوتا ھے، ھر دوسرا یہاں اصولا اسکا مدمقابل ھے جس کے ساتھ اسکے تعلق کی نوعیت اسے اپنی اغراض کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا ھے۔ مزید یہ کہ یہ نظام اسے لامحدود خواھشات کی تکمیل کا متلاشی بنا کر حصول سرمایہ کی چاھت کو دیگر تمام چاھتوں سے مقدم کرنے پر راضی کرتا ھے۔ نتیجتا ایسی معاشرت میں فرد اپنے فائدے کیلئے دوسرے کو کاٹ کھانے و لوٹ لینے کیلئے چوکنا رھتا ھے۔ بظاہر خوشنما دکھائی دینے والے اس مارکیٹ نظم سے اگر چند لمحوں کیلئے ریاست کی نگرانی ھٹالی جائے تو اسکی بدنما شکل روز روشن کی طرح عیاں ھوجاتی ھے۔ مثلا اس نظم میں اگر ڈاکٹرز، وکیلوں، سکول و یونیورسٹیز، کارخانے داروں، ملٹی نیشنلز، بینکوں وغیرھم سے ریاستی ریگولیشن ختم کردی جائے تو سب اسکا اصلی چہرہ دیکھ لیں گے (اسکے مظاہرے تو آئے دن ھم دیکھتے رھتے ہیں)۔ درحقیقت اس معاشرتی نظم کی اصل شکل دیکھنا ھو تو دنیا کے ایسے ممالک میں دیکئھے جہاں سرمایہ دارانہ ریاست کی سرویلینس کمزور ھے (مثلا پاکستان یا اس جیسے دیگر مریل ٹائپ لبرل سرمایہ دار ممالک)۔ ان ممالک میں پائے جانی والی حد سے بڑھی ھوئی یہ کرپشن و جرائم مارکیٹ نظم کا بھیانک مگر اصلی چہرہ ھے (آج بھی ایسے ممالک کے دیہی علاقوں میں کرپشن و جرائم کی شرح اسکے ترقی یافتہ شہروں کے مقابلے میں نہایت کم ھوتی ھے باوجود اس کے کہ دیہی علاقوں میں ریاست تقریبا نہ ھونے کے برابر ھوتی ھے)۔ ان میں کمی لانے کی واحد سبیل ریاستی ریگولیشن و مداخلت میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جانا ھے (نتیجتا ریاست ایک بھوت بن کر فرد کی زندگی پر حاوی ھوجاتی ھے تاکہ ھر ”اکیلے فرد” کو دیگر تمام اکیلوں سے بچایا جا سکے)۔
اب طرفہ تماشا دیکئھے؛ ایک طرف یہ نظام (اور اسکی علمیت) فرد کو یہ آگہی دیتا اور اسے یقین دلاتا ھے کہ اپنی ذاتی اغراض (آزادی) کی تکمیل کیلئے تمہیں ریاست کی ضرورت نہیں کہ مارکیٹ ایک خودکار نظام ھے، مگر عملا یہاں ہر فرد صرف اور صرف ریاست کے رحم و کرم پر ھوتا ھے اور اسی کی طرف دیکھ رھا ھوتا ھے (کہ ریاست یہ کرے، ریاست وہ کیوں نہیں کررھی وغیرہ)۔ مگر اس قدر واضح تضاد کے باوجود جدید ذھن اس نظام کو اپنا نجات دھندہ سمجھ رھا ھے۔ یہ بھی دھیان کہ یہ وہی جدید ذھن ھے جو مذھبی طبقوں کی طرف سے دی جانے والی ہر متبادل دعوت کو خوردبین لگا کر اسمیں رخنے نکال لاتا ھے۔ اسے کہتے ہیں ڈسکورس کا جبر، اور عام آدمی اسکا شکار ھوئے بنا نہیں رہ سکتا۔