سرمایہ دارانہ عقائد

عقیدہ اور نظریہ میں فرق:
دورِ حاضر کی اسلامی فکر کی یہ ایک عمومی کمزوری ہے کہ وہ عقائد اور نظریات میں فرق نہیں کرپاتی اور نظریات میں اختلاف کی بنیادپر عقائد میں اختلاف کا قلم لگاتی ہے۔ عقائد سے مراد ایمانیات ہیں۔ اسلامی ایمانیات میں ایمان با للہ ،ایمان بالرسالت،قبر ،حشر،قیامت،جنت دوزخ وغیرہ شامل ہیں۔ ان عقائد(Beliefs) پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازم ہے، ہر وہ گروہ جومتذکرہ بالا عقائد پر ایمان نہیں رکھتا کافر ہے اور اس کو کافر کہنا درست ہے۔نظریات سے مراد وہ تصورات (Theories) ہیں جو عقائد کے اظہار کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً دیو بندی اور بریلوی، اہلحدیث مکتب فکر میں اختلاف ۔ یہ ایک نظریاتی اختلاف ہے، اعتقادی اختلاف نہیں اور اس نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر کسی گروہ کو یا اس کے افراد کو دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پچھلے مضامین میں ہم نے سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے مختلف نظریات، قوم پرستی، سوشلزم لبرل ازم، سوشل ڈیمو کریسی اور انارکزم، کی تفصیل بیان کی ہے۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظریات اس لیے ہیں (اور جدا جدا نظام ہائے زندگی نہیں) کیوں کہ ان کے ماننے والوں کے عقائد ایک ہیں۔ وہ سب سرمایہ دارانہ عقائد پر ایمان لاتے ہیں۔ اب ہم سرمایہ دارانہ عقائد کی تفصیل پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
سرمایہ دارانہ عقائد:
سرمایہ دار انہ نظام زندگی کے تین بنیادی عقائد ہیں جن پر ہم جدا جدا گفتگو کریں گے،وہ یہ عقائد ہیں:
١۔آزادی (Freedom)
٢۔مساوات (Equality)
٣۔ترقی (Progress)
جو شخص ان پر ایمان لے آتا ہے وہ ایک سرمایہ دار ہے اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی اختیار کرتا ہے۔ ہر وہ مزدور جو آزادی، مساوات اور ترقی پر ایمان لے آئے اپنی تمام تر مفلوک الحالی کے باوجود ایک سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی اختیار کرتا ہے اور ہم اس کو سرمایہ دار کہنے میں حق بجانب ہیں۔ اس کے برعکس حضرت سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ عنہ اپنی تمام تر دولت مندی کے باوجود سرمایہ دار نہ تھے کیوں کہ وہ آزادی، مساوات اور ترقی پر ایمان نہیں لائے تھے۔ جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں تو ہم آزادی، مساوات اور ترقی کے وہ مطالب قبول کرتے ہیں جو تاریخ میں رائج ہیں۔
آزادی کیا ہے؟
یہاں اچھی سمجھ لینا چاہیے کہ ہم آزادی پر بحیثیت ایک نظری اصطلاح کے گفتگو کررہے ہیں۔ نظری اصطلاحات کے معنی لغوی نہیں ہوتے۔ آزادی کے لغوی معنی یہ ہیں کہ آپ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس معاملہ میں مجبور نہیں ہیں مثلاً جانور حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اس معنی میں آزاد ہیں لیکن وہ کلام (بمعنی گفتگو نہیں کرسکتے ان معنوں میں وہ مجبور ہیں)لغوی اعتبار سے آزادی ایک صفت اور صلاحیت ہے جیسے سانس لینے کی صلاحیت ہے کھانا کھانے کی صلاحیت ہے۔ اگر انسان کو یہ صلاحیت نہ دی جاتی تو خیر و شر میں تمیز کرنے کے قابل نہ بن سکتا اور وہ خلیفہ فی الارض کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ لیکن نہ سانس لینے کی صلاحیت کا فروغ نہ طبعی آزادی کا فروغ ایک مسلمان کا مقصدِ حیات ہوسکتا ہے۔ مقصدِ زندگی تو اس طبعی آزادی کو اللہ کے احکام کے تابع کردینا ہے اور اس اطاعتِ الٰہی کو عبادت کہتے ہیں۔ عبادت بھی ایک نظریاتی تصور ہے اور اس کے معنی لغت سے نہیں، بلکہ اسلامی کلامی اور فقہی تشریحات سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
آزادی بحیثیت ایک نظریہ کے اٹھارویں صدی عیسویں کے یورپ میں ایجاد ہوئی اور اس تصور کی ایجاد کا سہرا دو اشخاص کے سر ہے۔ فرانسیسی سائنس دان ڈیکارٹ (Descartes) اور جرمن فلسفی کانٹ (Kant)ان کے خیال کے تحت انسان کا وجود اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سوچ سکتا ہے۔ ڈیکارٹ کا مشہور جملہ ہے I think therefore I am (میں سوچ سکتا ہوں لہٰذا میں موجود ہوں) کانٹ نے کہا کہ انسان کے ذہن کی ساخت اس نوعیت کی ہے کہ حواس خمسہ سے حاصل کی ہوئی اطلاعات کو صحیح تصورات (Concepts) کی شکل میں مرتب کرسکتی ہے۔ اور چوں کہ تمام انسانوں کے ذہن کی ساخت یکساں ہے لہٰذا ہر فرد ایک ہی نوع کے تصورات حواسِ خمسہ سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کرتا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ انسان ذہن کی صلاحیتوں کو استعمال کرکے خود حقائق کا ادراک کرسکتا ہے اور حقائق کے ادراک کے لیے وہ خدا کا محتاج نہیں۔ انسان ان معنوں میں قائم بالذات ہے کہ حقیقت تک رسائی کے لیے اس کا اپنا ذہن اس کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ رہے مذہبی تصورات تو ان کی کوئی علمی حیثیت نہیں۔ علم صرف ان حقائق تک محدود ہے جن تک حواسِ خمسہ کو رسائی حاصل ہے۔ باقی تمام حقائق علم کے دائرہ کار سے خارج ہیں اور ان کا خیر و شر اور انسانی معاملات کی تفہیم اور تشکیل سے کوئی تعلق نہیں۔
ان معنوں میں انسان فطرتاً آزاد ہے اور جو لوگ اپنے اس فطری حق کو استعمال نہیں کرتے وہ کانٹ کے مطابق نابالغ (Imature) ہیں۔ ہر انسان کو آزاد ہونا چاہیے، اس کو ھدایت کے حصول اور حق اور خیر کے تعین کے بارے میں صرف اپنے آپ پر انحصار کرنا چاہیے۔ نظام زندگی کو اس طرح مرتب کرنا چاہیے کہ ہر فرد اپنی فطری آزادی کا ادراک کرسکے اور اپنی عقل کے فیصلوں کی اطاعت کرسکے۔
کانٹ نے اپنے ہمسفر فلسفی ڈیوڈ ہیوم (David Hume) کی یہ رائے قبول کی کہ عقل زیادہ سے زیادہ انسانی خواہشات کی تسکین کا جواز پیش کرتی ہے۔ تنویری عقلیت (Enlightenment Rationality) خود غرضانہ عقلیت (Self interested Rationality ) ان معنوں میں ہے کہ یہ عقلیت تمام خواہشات نفسانی کی لامحدود تسکین کا جواز فراہم کرتی ہے۔ انسان کا حق ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہے۔ کوئی عمل بذاتِ خود حلال یا حرام، اچھا یا برا نہیں۔ ہر وہ عمل جائز ہے جو انسان پسند کرتا ہے۔ بشرطِ کہ اس عمل کے وقوع پذیر ہونے کے نتیجہ میں اپنے پسندیدہ عمل کو انجام دینے سے محروم نہ ہوجائے اس ضابطہ کوPrinciple of Universalizability کہتے ہیں۔
اس قاعدہ کے مطابق چوری کرنے کے عمل کا جواز پیش نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ کوئی یہ نہیں چاہ سکتا کہ ہر شخص کو چوری کرنے کی اجازت ہو۔ اس صورت میں خود اس کی املاک بھی چوری ہوجائیں گی اور یہ نا قابل قبول ہے، لیکن زنا با الرضا کا جواز ہے ۔کسی فرد کے زنا با الرضا کرنے سے کسی دوسرے کا زنا با الرضا کا ارادہ تکمیل تک پہنچنے سے نہیں رہ جاتا لہٰذا زنا باالرضا ایک (Universalizable) مستحسن فعل ہے۔ سرمایہ کی بڑھوتری، آزادی کا فرو غ ایک چیز کے دو نام ہیں۔ آزادی کا فرو غ سرمایہ داری کی تجسیم ہے کیوں کہ سرمایہ ایک ایسا سیال ہے جس سے آپ اپنی ہر خواہش پوری کرسکتے ہیں۔ ایسے میں آپ مسجد بھی بناسکتے ہیں اور شراب خانہ بھی۔ حلال گوشت کا کاروبار بھی کرسکتے ہیں اور خنزیر کی افزائش بھی اور سرمایہ Universalizable ہے، ہر شخص سرمایہ دار یعنی حاسد اور حریص بن سکتا ہے اور ایک شخص کا حرص اور حسد عمومی حرص اور حسد کے فروغ میں مزاحم نہیں معاون ہے۔ لہٰذا سرمایہ کی بڑھوتری اور آزادی کی بڑھوتری لازم و ملزوم ہیں اور سرمایہ دارانہ مارکیٹیں یعنی زر کا بازار (Money market) اور سٹے کا بازار (Capital Market)کسی شے اور عمل کی قدر صرف اس بنیاد پرملتی ہے کہ اس فعل کے انجام دینے سے یا اس شے کے بنانے سے سرمایہ کی رفتار ِبڑھوتری میں کتنا اضافہ ہورہا ہے۔ آزادی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی بنیادی قدر اس وجہ سے ہے کہ سرمایہ آزادی کی تجسیم، اس کی Concrete form کے اور فروغ آزادی، بڑھوتری سرمایہ کے علاوہ کچھ نہیں۔
آزادی کی اسلام کاری:
لبرل فکر سے متاثر مسلمان کہتے ہیں کہ آزادی کا مفہوم ”لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدا کا غلام بنانا ہے یہ بالکل غلط بات ہے اس کی دو وجوہات ہیں:
پہلی وجہ ہے کہ آزادی کی جو تعبیری توجیہ تاریخ میں مرتب ہوئی اس کا مطلب ہے ”انسانوں کو خدا کی غلامی سے رہاکر کے ان کو خود اپنے نفسانی خواہشات کا غلام بنادینا ہے اور تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ آزادی پر ایمان لانے والے لبرل، قوم پرست، سوشلسٹ، کبھی خدا کے بندے نہیں بنتے۔ وہ ہمیشہ اپنے نفس کے بندے بنتے ہیں اور خدا سے بغاوت کرتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ انسانوں کی غلامی سے آزادی کا مطلب اس نظام ہدایت کا انہدام ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اسلام ایک مساویانہ (egalitarian) معاشرہ قائم نہیں کرنا چاہتا بلکہ ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جہاں اہل تقویٰ کی فوقیت اور بالادستی کو روحانی، سیاسی اور علمی سطح پر تسلیم بھی کیا جائے اور بروئے کار بھی لایا جائے۔ اپنی چودہ سو سالہ تاریخ میں اسلامی معاشرہ ایک درجہ بند (Stratified) معاشرہ رہا ہے اس حد تک کہ شرع مطہرہ واضح صراحت کے ساتھ غلامی کی اجازت دیتی ہے اور غلامی کے ادارہ کے فروغ کے ہی ذریعہ ایک صدی کے اندر اندر پورے مشرق وسطی کو مشرف بہ اسلام کیا گیا۔ آج بھی اگر اللہ تعالیٰ ہمیں فلسطین کشمیر اور افغانستان میں فتح دے تو ہم حربی کفار اور ان کے مسلم معاونین کو غلام بنائیں گے کیوں کہ یہ غیر اسلامی مزاحمت کو ختم کرنے اور اسلامی خاندانی معاشرت میں غیر اقوام کو ضم کرنے کا موثر ترین طریقہ ہے۔
درجہ بند معاشرتی تنظیم کا دوسرا جواز اسلامی نظام ریاست ہے، یہاں سلطان ظل اللہ ہوتا ہے اور ملک کے باقی تمام اس کے رعایا ہوتے ہیں۔ عوام کی حکومت میں شمولیت کا کوئی جواز نہ امام ماوردی نے کبھی پیش کیا، نہ امام ابن خلدون نے، نہ شاہ ولی اللہ رحمہم اللہ نے۔ سلطان عوام کا نہ نمایندہ ہوتا ہے نہ عوامی نمایندگی کی ادارتی صف بندی کا کوئی تصور اسلامی سیاسی فکر میں موجود ہے۔ عوام روحانی اور اخلاقی راہنمائی مرشدین اور مزکّیوں سے حاصل کرتے ہیں اوراپنے سلطان اور اس کے عُمّال کے مطیع ہوتے ہیں۔ سلطان صرف اللہ کا مطیع ہوتا ہے۔ عوام کی رائے کی بنیاد پر کوئی فقہی یہ ریاستی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔
اسلام آزادی کو بحیثیت ایک قدر (Value) کے کلیتاً اور صریحاً رد کرتا ہے اور ہر جمعہ میں امام مسجد اعلان کرتا ہے ”وینہیٰ عن الفحشائِ والمنکروالبغی… آزادی بغی کی جدید سیاسی شکل ہے اور اسلامی انقلاب اسی بغاوت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کو برپا کیا جاتا ہے۔

– مساوات اور حقوق

اس سلسلہ کے پچھلے مضمون میں عرض کیا تھا کہ سرمایہ داری کا بنیادی عقیدہ” لاالٰہ الاانسان” ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان واحد اِلہٰ ہے وہ اپنی ذات کا اور اس کائنات کا خالق ہے، خیر و شر کا تعین ارادۂ انسانی کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں۔ آزادی خیرِ مطلق ہے اور آزادی سے مراد یہ ہے کہ انسان کا اختیار کائنات پر لامحدود ہوتا چلا جائے، اصولاً انسان آزاد ہے وہ اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ قائم باالذت اور خالقِ کائنات بن جائے لیکن عملاً وہ آزاد نہیں اس کی آزادی کو مادی (Material) قوتیں بھی محدود کرتی ہیں اور معاشرتی (Social) قوتیں بھی۔ مثلاً وہ آج نظامِ شمسی سے باہر نہیں جاسکتا، مرنے سے نہیں بچ سکتا، طوفانوں کو نہیں روک سکتا، بغیر ماں باپ کے نہیں پیدا ہوسکتا، امریکا میں دو بیویاں نہیں رکھ سکتا ایران میں خدا اور رسولۖ کو گا لیاں نہیں دے سکتا ، کیوبا میں زمین نہیں خرید سکتا وغیرہ وغیرہ۔
سرمایہ داری ان مادی اور سماجی پابندیوں کے خلاف جدوجہد کا نظام ہے جو ادارۂ انسانی کی متصور اصولی آفاقیت پر لگائی گئیں ہیں۔ عملاً (Practically) انسان آزاد ان معنوں میں ہے کہ وہ اپنی متصور مطلق العنان ربوبیت کے قیام کی مستقل جہدوجہد کرنے پر مجبور ہے۔ اسی عملی مجبوری کو اصولی آزادی کہتے ہیں۔ چوں کہ سرمایہ دارانہ عقائد کے مطابق انسان (Human Being) صرف اس ہی وجود کو کہتے ہیں جو اپنی اصولی مطلق العنان ربوبیت پر ایمان لائے۔ لہٰذا ہر انسان اصولاً آزاد اور عملاً مجبور ہے۔ یہی مساوات ہے اور مساوات سے مراد یہ ہے کہ
٭… ہر انسان یکساں طور پر اپنی مطلق العنان ربوبیت کا دعویٰ کرنے میں یکساں حق بجانب ہے۔
٭… ہر انسان اس اصولی مطلق العنان ربوبیت کی عملی توسیع کی جدوجہد میں مستقل شمولیت پر مجبور ہے۔
انسان کی اصولی مطلق العنان ربوبیت کی عملی تشریح کا ذریعہ سرمایہ کاری ہے۔ سرمایہ کارانہ عملیات (Processes) میں حصہ لینے پر ہر وہ فرد مجبور ہے جو انسان کی مفروضہ مطلق العنان ربوبیت پر ایمان لے آیاہے۔ سرمایہ، آزادی (اصولی اور عملی) کی تجسیم (Concrete form) ہے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو قبول کرنے والا سرمایہ دار ہوتا ہے۔ خواہ وہ مزدور ہو، منیجر ہو، عوامی نمایندہ ہو، ریاستی بیوروکریٹ ہو، انٹیلکچوئیل (Intellectual) ہو۔ وہ سرمایہ دار انہیں معنوں میں ہوتا ہے کہ وہ انسان کی مفروضہ مطلق العنان ربوبیت پر ایمان لے آیا ہے۔ اور اس مطلق العنان ربوبیت کے عملِ توسیع میں شرکت کرنے پر مجبور ہے۔
سرمایہ دارانہ ریاست اصولی آزادی کو فروغ دینے کے لیے جو ذرائع فراہم کرتی ہے ان کو حقوق کہتے ہیں۔ یہ حقوق تمام سٹیزن (s Citizen) کو یکساں فراہم کیے جاتے ہیں اوروہ ان حقوق کے مالک ہوتے ہیں ہر Citizen دوسرے Citizen کا مساوی ہے۔ یہ حقوق دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ہیومن رائٹس (Human Rights) اور سوشل رائٹس (Social Rights)۔
Human Rights لبرل سرمایہ دارانہ ریاستیں فراہم کرتی ہیں اور یہ تین ہیں۔
آزادی حیات (Right of life) :
اس سے مراد یہ ہے کہ ہر سٹیزن (Citizen) کا یہ حق اور فرض ہے (وہ اس بات میں آزاد اور مجبور ہے) کہ اپنی زندگی آزادی / سرمایہ کی بڑھوتری میں کھپا دے، جو شخص اپنی زندگی کو سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل میں نہیں کھپاتا وہ انسان (یعنی Human) نہیں۔ کیوں کہ وہ انسانیت کے مفروضہ عقیدے مطلق العنان ربوبیت پر ایمان نہیں لایا۔ اس اصول کے تحت ٨٠ ملین ریڈ انڈینز (Red Indians) کو امریکیوں نے سترہویں سے انیسویں صدی تک قتل کیا اور مشہور لبرل فلسفی جان لاک(John locke ) نے اس قتلِ عام کا یہ جواز پیش کیا کہ ریڈ انڈین اور بھینسوں کا قتل عام یکساں طور پر جائز ہے کیوں کہ نہ بھینسے Human ہیں نہ ریڈ انڈین دونوں نے امریکا کی زرخیز زمینوں پر قبضہ کرکے بڑھوتریٔ سرمایہ کے عمل کو ناممکن بنادیا ہے۔
دورِ حاضر کے مشہور امریکی سیاسی فلسفی Walzer نے افغان مجاہدین کے قتل کا یہی جواز پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ مجاہدین اسلام Human نہیں، وحشی درندے ہیں اور ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔
دوسرا Human Right آزادیٔ اظہارِ رائے (Right of conciseness)ہے:
ہر سٹیزن کا یہ حق / فرض ہے (وہ اس بات میں آزاد اور مجبور ہے) کہ سرمایہ کی بڑھوتری کو فروغ دینے کے لیے جو تجویز دینا چاہے دے۔ اگر وہ آزادی کو خیرِ مطلق تسلیم نہیں کرتا اور رائے کا اظہارِ کسی اور مقصد کے لیے کر تا ہے تواس کو یہ حق میسر نہیںکیوں کہ وہ Human نہیں اور اس اصول کی بنیاد پر Locke نے اپنے کتابچہ (A letter concerning toleration) میں کہا تھا کہ مسلمانوں کو آزادانہ اظہار رائے کا حق نہیں دینا چاہیے کیوں کہ وہ عیسائیوں کے برخلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ نہیں مانتے لہٰذا الوہیتِ انسانی کے منکر ہیں۔ اسی اصول کی بنیاد پر مجاہدینِ اسلام کی وکالت آج امریکا میں جرم گردانی جاتی ہے۔

تیسرا حق: حق ملکیت (Right of Property)ہے:
ہر سٹیزن کا یہ حق / فرض ہے (وہ اس بات میں آزاد / مجبور ہے) کہ وہ اپنی املاک سرمایہ کے سپرد کردے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس پر رزق کے دروازے بند کردئیے جائیں گے اور حصولِ دولت نا ممکن بنادی جائے گی۔دولت بنکوں میںرکھ کر اور سٹہ کے بازار(Capital Market) کے ذریعے سرمایہ میںاضافہ مستقل کیا جاتا ہے، ذاتی ملکیت بتدریج ختم ہو جاتی ہے اور کارپوریٹ ملکیت(Corporate Property) ہر شخص کو سرمایہ کا غلام بنا دیتی ہے۔
لبرل سرمایہ دارانہ ریاست اصولاً یہ Human Rights سب Citizensکو مساویانہ طور پر فراہم کرنے کی پابند ہے۔ اور اس کا دستور اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ ہر Citizen مساویانہ طور پر ان حقوق اور فرائض کا مکلف ہے۔ اس ہی چیز کو Rule of Law کہتے ہیں جو کہ حقیقت میں Rule of Law of Capital ہے۔ لیکن ایک سرمایہ دارانہ معاشرت میں تقسیمِ وسائل لازماً غیر مساویانہ ہوتے ہیں۔ کچھ دولت مند ہوتے ہیں کچھ مفلس، کچھ عہدہ دار ہوتے ہیں کچھ ماتحت۔ کچھ باصلاحیت ہوتے ہیں کچھ ناخواندہ وغیرہ اور سرمایہ کی گردش کا عمل لازماً ارتکاز سرمایہ (Accumulation of Capital) کا عمل ہے یعنی سرمایہ بہت سی جگہوں اور ملکیتوں سے کھنچ کھنچ کر مستقلاً چند مقامات اور چند کارپوریشنوںCorporations کے زیرِ تسلط جمع ہوتا رہتاہے۔ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام فروغ پاتا ہے، عملی نامساویت Inequality بڑھتی جاتی ہے۔ اور Human Rights اصولاً موجود اور عملاً ناقابلِ حصول بنتے چلے جاتے ہیں۔ ایک بے روزگار شخص سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے اپنی جان کھپانے کا کتنا ہی متمنی کیوں نہ ہو وہ یہ نہیں کرسکتا اور جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام فروغ پاتا ہے ویسے ویسے بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک عام آدمی اپنی رائے کا اظہار کیسے کرے؟ جب کہ عالمی میڈیا پر صرف تیس کمپنیوں کا تسلط مستحکم سے مستحکم ترہوتا جارہا ہے اور عوامی رائے سازی ہی کمپنیاں کرتی ہیں۔ ذاتی ملکیت کا وجود کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ جب کہ تمام کی تمام دولت سود کے بازار (Mony Market) اورسٹہ کے بازار (Capital Market) کے زیرِ تصرف آگئی ہے۔ ان حالات میں Human Rights عملاً معاشرتی طور پر ایک افسانوی حیثیت اختیار کرگئے ہیں:
”ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے”
اس معاشرتی نامساویت (Social Inequality) کو کم کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ اشتراکی اور سوشل ڈیموکریٹ ریاستیں سوشل رائٹس (Social Rights) پیش کرتی ہیں سب سے اہم سوشل رائٹ (Social Right) حقِ اجتماعی سودے بازی (Right of Collective bargaining) ہے۔ اشتراکی سرمایہ دارانہ مفکرین اور سوشل ڈیموکریٹ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے نمایاں نا مساویت (Inequality) مزدور اور منیجمنٹ (Management) کے درمیان تقسیمِ اختیار اور قوت کے ضمن میں پائی جاتی ہے۔ ایک عام مزدور اپنے کمپنی منیجمنٹ (Company Management) کے سامنے بالکل بے بس ہوتا ہے کیوں کہ منیجمنٹ جب چاہے اس کو بے روزگار کرسکتی ہے۔ لہٰذا مزدور یونینوں (Union) کو منیجمنٹ کے عمل میں شرکت اور اجرتوں کے تعین میں اختیارات کے مواقع فراہم کر دینا چاہئیں۔ اشتراکی سرمایہ داروں نے ریاستی کاپوریٹ ملکیت (State Corporate property) کے معیشت پر تسلط کی وکالت کی ہے اور سوشل ڈیموکریٹ سرمایہ دارانہ مفکرین نے سرمایہ دارانہ ریاست سے مطا لبہ کیاہے کہ وہ ایسے فلاحی (Welfare) حقوق فراہم کرے جس کے حصول سے ہر سیٹیزن مسلسل بڑھتی ہوئی معقول آمدنی صحت، تعلیم اور رہائش حاصل کرسکے۔
Human اور Social حقوق کی فراہمی کا مقصد سیٹزن کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ بڑھوتری سرمایہ کے عمل میں اپنا کردار ادا کرسکے اور اس عمل میں شرکت کے ذریعہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کرسکے یہیسرمایہ دارانہ عدل ہے۔
سرمایہ دارانہ عدل ظلم ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج بیشتر اسلامی جماعتیں سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدوجہد کا اسلامی جواز پیش کرتی ہیں،Human اور Social حقوق کی وکیل بن گئیں ہیں اور مساوات اور آزادی اور ترقی کو مقاصدِ شریعت کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ سرمایہ دارانہ عدل کا قیام (جو کہ اصولاً اور عملاً ناممکن ہے) کی جدوجہد سرمایہ دارانہ شخصیت معاشرت اور ریاست کی جدوجہد کے قیام کا حصہ ہے اور آزادی، مساوات اور ترقی کو صریحتاً بحیثیت احداف کے رد کیے بغیر موجودہ حالات میں نہ تحفظ دین ممکن ہے نہ غلبہ دین۔ سرمایہ دارانہ عقائد، آزادی، مساوات اور ترقی کی اسلام کاری ایک ایسی Revisionist تحر یک ہے جس کا مقصد اسلامی جماعتوں کو عالمی سرمایہ کا حلیف اور ایجنٹ بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
ترقی [Progress]

ترقی(Taraqi) سے مراد Progress ہے اور Progress کا عقیدہ سرمایہ دارانہ فکر کی امتیازی خصوصیت ہے۔ سرمایہ دارانہ علمیت (Epistemology) کے غلبہ سے پہلے کسی نظامِ فکر نے نہ آزادی کو بحیثیت ایک عقیدہ کے قبول کیا نہ Progress کو۔ ترقی/ Progress، آزادی/ Freedom کا لازمی لاحقہ ہے۔ ترقی(Taraqi) / Progress سے مراد صرف یہ ہے کہ سرمایہ کی بڑھوتری میں لامتناہی اور مسلسل اضافہ مستقل ہوتا رہے۔
ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ عقیدہ” آزادی” رکھنے والا شخص اس بات پر ایمان لاتا ہے کہ Human being وہ ہے جو صرف اپنی خواہشاتِ نفسانی کے حصول کی مستقل جدوجہد کرنے کو عقل کے واحد تقاضے کے طور پر قبول کرے۔ وہ صرف اپنے نفس کا بندہ ہو، اس کو Autonomy یا خود کفالت کہتے ہیں۔ ایک Autonomous Human Being اپنی خواہشاتِ نفسانی کے حصول کی جدوجہداس طرح کرتا ہے تا کہ تمام دوسرے Autonomous Human Beings بھی اپنی خواہشاتِ نفسانی کی جدوجہد بِلا غیر ضروری روک ٹوک جاری رکھ سکیں۔
اس عقیدہ کی سب سے واضح توجیہ نظریہ افادیت (Utilitarianism) نے پیش کی ہے۔Utilitarianism فلسفہ ,سرمایہ دارانہ علم Economics کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس نظریہ کا پہلا بڑا مفکر Hume تھا جو Adam Smith کا قریبی دوست تھا۔ انیسویں صدی میں سب سے نمایاں Utilitarianism بینتھم (Bentham) اور جان اسٹوِٹ مل (John Stwat Mill) تھے اور دورِ حاضر میں Utilitarianism کے نمایاں ترین مفکرین Hare اور Harsuny ہیں۔
نظریۂ Utilitarianism کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مقصد لذت (Pleasure) کومستقلاً انتہائی فروغ دینا (یعنی Maximize کرنا) ہونا چاہیے۔ لذتِ نفس خواہشات کی تسکین سے حاصل ہوتی ہے اور نفس کی تسکین کا واحد ذریعہ” صرف” یعنی Consumption ہے لہٰذا معاشی اور معاشرتی پالیسی کا واحد معقول حدف مجموعی معاشرتی صرف کو لامتناہی اور مستقل بڑھانا(Maximization )ہے۔ صرف (Consumption)میں اضافہ کو ناپنے کے لیے علم Economics نے جو پیمانہ وضع کیا ہے اس کو Gross National Production) (GNP اور Gross National Expenditure کہتے ہیں۔ عملاً ترقی / Progress سے مراد GNP یعنی مجموعی معاشرتی صرف میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہیں۔
Economics کی وہ شاخ جسے Welfare Economicsکہتے ہیں اصرار کرتی ہے کہ ترقی کو ناپنے کے لیے GNP کی معاشرتی تقسیم (Social Distribution) کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے۔ ترقی کو ناپنے کے لیے محض مجموعی معاشرتی لذت (GNP) میں لامتناہی( Maximum ) اضافہ کافی نہیں۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ GNP کی تقسیم ایسی ہو کہ تمام افراد اور گروہ لذات کے اضافہ سے مستفیذ ہوتے رہیں یہی سرمایہ دارانہ عدل ہے اور اس کی سب سے واضح تشریح جان رالز (John Rawls) نے اپنے مشہور Principle ” “Differenceمیں کی ہے۔ اور ایک فی زمانہ مشہور عالم تشریح Amartya Sen کی کتاب Development as Freedom میں ملتی ہے۔
واضح ہو کہ ترقی (Progress) سے مراد حصولِ لذات کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ لذات کے حصول کا ذریعہ سرمایہ (Capital) ہے۔ لہٰذا ترقی (Progress) کا حصول سرمایہ کی بڑھوتری Accumulation of Capital کے ذریعہ ہی ہوتا ہے، جب کوئی معاشرہ Progress کی جستجو کرتا ہے تو وہ لازماً ایک سرمایہ دارانہ انفرادیت اور ایک سرمایہ دارانہ نظمِ ریاست کو فروغ دیتا ہے۔
یہ بات ہم دورِ حاضر کی تاریخ کے مطالعہ سے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں، جب سرمایہ دارانہ استعمار یورپ، امریکا، ایشیا اور افریقہ پر غالب آیا تو ان ممالک میں سرمایہ دارانہ انفرادیت کا وجود تھا نہ سرمایہ دارانہ معاشرت کا اور نہ سرمایہ دارانہ نظامِ اقتدار کا۔ سرمایہ دارانہ اشرافیہ نے سرمایہ دارانہ علمیت (Science) کے ذریعہ ان غیر سرمایہ دارانہ شخصیتوں، معاشرتوں اور ریاستوں کو مسخر کیا اور اس سیاسی اور عسکری غلبہ کے نتیجہ میں اپنے گماشتوں (سرسید احمد، ضیاگوقلب، محمد عبدہ وغیرہ) کے ذریعہ سرمایہ دارانہ عقائد اور نظریات کی وسیع پیمانے پر تبلیغ کی اور رفتہ رفتہ یہ عقائد اور نظریات مفتوح علاقوں میں عمومی سطح پر معقول سمجھے جانے لگے۔
سرمایہ دارانہ علوم کو معقول تصور کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ سرمایہ دارانہ اشرافیہ کا عسکری غلبہ تھا اور چوں کہ یہ غلبہ Science کی مرہون منت تھا لہٰذا یہ تصور کیا جانے لگا کہ ہماری ”سائنسی پسماندگی” ہماری شکست کا باعث ہے۔اس بات کو فراموش کردیا گیا کہScience کن اہداف کے حصول میں کامیاب ہوتی ہے۔ وہ کامیاب ہوتی ہے لذات کے لامتناہی فروغ (Maximization) کے ہدف کے حصول میں، وہ کامیاب ہوتی ہے انسان کو Human being بنانے میں اور جیسا کہ ١٨ ویں صدی کے ایک جرمن پادری Helmit Forstner نے کہا تھا Human Being شیطانی انفرادیت کا دوسرا نام ہے۔ Science انسان کو شیطان بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ اب شیطان بننا مقاصدِ شریعت میں شامل کردینا چاہیے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی کامیاب زانی کے کارناموں سے متاثر ہو کر زنا کو مشرف بہ اسلام کریں۔
سرمایہ داری ہم پر اس لیئے غالب نہیں آئی کہ ہم تسخیرِ کائنات کے عمل میں اس کے کارندوں سے پیچھے رہ گئے وہ اس لیئے غالب آئی کہ ہم لوگوں کو سرمایہ دارانہ عقائد اور نظریات اختیار کرنے سے نہ روک سکے۔ ہم نے ایک ہزار سال تک یورپ، افریقا اور ایشیا کے وسیع علاقوں پر حکومت کی لیکن نہ ہم یورپ کو مسلمان بناسکے نہ ہندوستان کو نہ چین کو اگر ہم اس میں کامیاب ہوجاتے تو سائنسی علمیت (جو بقول مولانا مودودی جاہلیتِ خالصہ ہے) کبھی بھی غالب نہ آتی اور تسخیرِ کائنات اور نفسانی خواہشات کے لامتناہی فروغ کو تہذیبی مقبولیتِ عام کبھی بھی نصیب نہ ہوتی۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلامی جدوجہد کا مقصد انسان کو مسلمان بنانا ہے لیکن سرمایہ داری کے گماشتے انسان کو شیطان (Human Being) بنانے کے لیے برسرِکار ہیں۔ سرمایہ داری کے یہ گماشتے عموماً مسلم قوم پرست ہیں۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password